قربانی : جاوید احمد غامدی


وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْ  بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ، فَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ.(الحج۲۲: ۳۴) 
’’ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کی عبادت مشروع کی ہے تاکہ اللہ نے جو مواشی جانور اُن کو بخشے ہیں ، اُن پر وہ اللہ کا نام لیں، (کسی اور کا نہیں)۔ سو تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے تو اپنے آپ کو اُسی کے حوالے کرو (اور اُسی کے آگے جھکے رہو)، اور اُنھیں خوش خبری دو، (اے پیغمبر)، جن کے دل اُس کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔‘‘
قربانی : جاوید احمد غامدی 

دنیا کے تمام قدیم مذاہب میں قربانی اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ایک بڑا ذریعہ رہی ہے ۔ اِس کی حقیقت وہی ہے جو زکوٰۃ کی ہے، لیکن یہ اصلاً مال کی نہیں، بلکہ جان کی نذر ہے جواُس جانور کے بدلے میں چھڑا لی جاتی ہے جسے ہم اِس کا قائم مقام بنا کر قربان کرتے ہیں۔ بظاہر یہ اپنے آپ کو موت کے لیے پیش کرنا ہے، لیکن غور کیجیے تو یہ موت ہی حقیقی زندگی کا دروازہ ہے۔ ارشاد فرمایا ہے: ’وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ، بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ‘۱؂ (اور جو لوگ اللہ کی اِس راہ میں مارے جائیں، اُنھیں یہ نہ کہو کہ مردہ ہیں۔ وہ مردہ نہیں، بلکہ زندہ ہیں، لیکن تم اُس زندگی کی حقیقت نہیں سمجھتے)۔ قرآن نے ایک جگہ نماز کے مقابل میں زندگی اور قربانی کے مقابل میں موت کو رکھ کر یہی حقیقت واضح کی ہے کہ نماز جس طرح اللہ کے ساتھ ہماری زندگی ہے، اِسی طرح قربانی اُس کی راہ میں ہماری موت ہے:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.(الانعام ۶: ۱۶۲) 

’’ کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، سب اللہ پروردگارعالم کے لیے ہے۔‘‘


سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جب یہ ہدایت کی گئی کہ وہ بیٹے کی جگہ جانور کی قربانی دیں اور آیندہ نسلوں میں ہمیشہ کے لیے ایک عظیم قربانی کو اُس کی یادگار بنا دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ‘ ۲ ؂ (ہم نے ایک عظیم قربانی کے عوض اسمٰعیل کو چھڑا لیا)۔ اِس کے معنی یہ تھے کہ ابراہیم کی یہ نذر قبول کر لی گئی ہے اور اب نسلاً بعد نسلٍ لوگ اپنی قربانیوں کے ذریعے سے اِس واقعے کی یاد قائم رکھیں گے۔
اِس لحاظ سے دیکھیے تو قربانی پرستش کا منتہاے کمال ہے۔ اپنا اور اپنے جانور کامنہ قبلہ کی طرف کر کے ’بِسْمِ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ‘ کہہ کر ،۳؂ ہم اپنے جانوروں کو قیام یا سجدے کی حالت میں ۴؂ اِس احساس کے ساتھ اپنے پروردگار کی نذر کر دیتے ہیں کہ یہ درحقیقت ہم اپنے آپ کو اُس کی نذر کر رہے ہیں۔

یہی نذر اسلام کی حقیقت ہے، اِس لیے کہ اسلام کے معنی ہی یہ ہیں کہ سر اطاعت جھکا دیا جائے اور آدمی اپنی عزیز سے عزیز متاع، حتیٰ کہ اپنی جان بھی اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دے۔ قربانی، اگر غور کیجیے تو اِسی حقیقت کی تصویر ہے۔ سیدنا ابراہیم اور اُن کے جلیل القدر فرزند نے جب اپنے آپ کو اِس کے لیے پیش کیا تو قرآن نے اِسے اسلام ہی سے تعبیر کیا ہے: 

’فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ‘۵؂  ( پھر جب دونوں نے سرتسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا)۔

 سورۂ حج کی جو آیت اوپر نقل ہوئی ہے، اُس میں بھی دیکھ لیجیے،  ’فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ‘ کے الفاظ میں قرآن نے کس خوبی کے ساتھ اِس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یعنی تمھارے دل اگر اپنے معبود کے سامنے جھکے ہوئے ہیں تو اپنے آپ کو اُسی کے حوالے کر دو، اِس لیے کہ تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ قربانی کی روح یہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ عبادت خاص اپنی شکر گزاری کے لیے مشروع فرمائی ہے، لہٰذا اِس میں کسی دوسرے کو اُس کا شریک نہ بناؤ۔

قربانی کی تاریخ


قربانی کی تاریخ سیدنا آدم علیہ السلام سے شروع ہوتی ہے۔ قرآن میں بیان ہوا ہے کہ اُن کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) نے اپنی اپنی نذر اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کی تو ایک کی نذر قبول کر لی گئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی:

 ’اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ‘ ۶؂ ۔ 

بائیبل میں صراحت ہے کہ ہابیل نے اِس موقع پر اپنی بھیڑ بکریوں کے کچھ پہلونٹے بچوں کی قربانی پیش کی تھی۔ پیدایش میں ہے:

’’اور آدم اپنی بیوی حوا کے پاس گیا اور وہ حاملہ ہوئی اور اُس کے قائین پیدا ہوا۔ تب اُس نے کہا: مجھے خداوند سے ایک مرد ملا۔ پھر قائین کا بھائی ہابل پیدا ہوا۔ اور ہابل بھیڑ بکریوں کا چرواہا اور قائین کسان تھا۔ چند روز کے بعد یوں ہوا کہ قائین اپنے کھیت کے پھل کا ہدیہ خداوند کے واسطے لایا اور ہابل بھی اپنی بھیڑ بکریوں کے کچھ پہلوٹھے بچوں کا اور کچھ اُن کی چربی کا ہدیہ لایا اور خداوند نے ہابل کو اور اُس کے ہدیے کو منظور کر لیا۔ پر قائین کو اور اُس کے ہدیے کو منظور نہ کیا۔‘‘ (۴: ۱۔۵) 

یہ طریقہ بعد میں بھی، ظاہر ہے کہ قائم رہا ہو گا۔ چنانچہ اِس کے آثار ہم کو تمام قدیم مذاہب میں ملتے ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے بعد، البتہ جو اہمیت و عظمت اور وسعت و ہمہ گیری اِس عبادت کو حاصل ہوئی ہے، وہ اِس سے پہلے، یقیناًحاصل نہیں تھی۔ اِس کی تفصیل یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی قوم کے ایمان سے مایوس ہو کرہجرت کی تو اِس کے ساتھ ہی دعا فرمائی کہ پروردگار ، تو مجھے صالح اولاد عطا فرما۔ یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اُنھیں ایک فرزند کی ولادت کی خوش خبری دی۔ یہ فرزند اسمٰعیل تھے۔ قرآن کا بیان ہے کہ یہ جب باپ کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچے تو ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ اُنھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت ہو رہی ہے کہ اِس بیٹے کو اپنے پروردگار کی خاطر قربان کر دیں۔ یہ ہدایت اگرچہ خواب میں ہوئی تھی اور خواب کی باتیں تاویل و تعبیر کی محتاج ہوتی ہیں، چنانچہ اِس خواب کی تعبیر بھی یہی تھی کہ وہ بیٹے کو معبد کی خدمت کے لیے اللہ تعالیٰ کی نذر کر دیں۔اِس سے ہر گز یہ مقصود نہ تھا کہ وہ فی الواقع اُسے ذبح کر یں۔ لیکن خدا کے اِس صداقت شعار بندے نے کوئی تعبیر نکالنے کے بجاے من وعن اِس کی تعمیل کا فیصلہ کر لیا اور اِس راہ میں پہلا قدم یہ اٹھایا کہ فرزند کے حوصلے کا اندازہ کرنے کے لیے اپنا خواب اُسے بتایا۔ سیدنا اسمٰعیل نے اِس خواب کو خدا کا حکم سمجھا اور فوراً جواب دیا کہ ابا جان، آپ بے دریغ اِس کی تعمیل کریں۔ ان شاء اللہ ، آپ مجھے پوری طرح ثابت قدم پائیں گے۔ بچے کے جواب سے مطمئن ہو کر ابراہیم اُس کو مروہ کی پہاڑی کے پاس لے گئے اور قربانی کے لیے پیشانی کے بل لٹا دیا۔ قریب تھا کہ چھری چل جاتی، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئی: ابراہیم تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ یہ ایک بڑی آزمایش تھی، تم اِس میں کامیا ب ہوئے، لہٰذا اب مزید کسی اقدام کی ضرورت نہیں رہی ۔ چنانچہ ابراہیم کے اِس فرزند جلیل کو اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی قربانی کے عوض چھڑا لیا اور اِس واقعے کی یادگار کے طور پر ہر سال اِسی تاریخ کو قربانی کی ایک عظیم روایت ہمیشہ کے لیے قائم کر دی گئی۔ یہی قربانی ہے جو حج وعمرہ کے موقع پر اور عید الاضحی کے دن ہم ایک نفل عبادت کے طور پرپورے اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا ہے:

قَالُوا: ابْنُوْا لَہٗ بُنْیَانًا، فَاَلْقُوْہُ فِی الْجَحِیْمِ، فَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَسْفَلِیْنَ. وَقَالَ: اِنِّیْ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ. رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ، فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ. فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ، قَالَ: یٰبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی؟ قَالَ: یٰٓاَبَتِ، افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ، اِنْ شَآءَ اللّٰہُ، مِنَ الصّٰبِرِیْنَ. فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ وَنَادَیْنٰہُ اَنْ یّٰٓاِبْرٰہِیْمُ، قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْ یاَ، اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ، اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَآٰؤُا الْمُبِیْنُ، وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ.(الصافات۳۷: ۹۷۔ ۱۰۷) 

’’ اُنھوں نے کہا: (اِس کا یہی رویہ ہے تو) اِس کے لیے ایک عمارت کھڑی کرو ، پھر اِس کو دہکتی آگ میں پھینک دو۔سو اُنھوں نے اُس کے ساتھ چال کرنی چاہی تو ہم نے اُنھی کو نیچا دکھا دیا۔ ابراہیم نے کہا: (تم لوگوں کو چھوڑکر اب) میں اپنے پروردگار کی طرف جاتا ہوں، وہ ضرور میری رہنمائی فرمائے گا۔ پروردگار، تو مجھے صالح اولاد عطا فرما۔ (ابراہیم نے یہ دعا کی) تو (اِس کے جواب میں) ہم نے اُس کو ایک بردبار لڑکے کی بشارت دی۔(وہ لڑکا جوان ہوا)، پھر جب وہ اُس کے ساتھ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچا تو ابراہیم نے (ایک دن) اُس سے کہا: میرے بیٹے، میں (کچھ دنوں سے) خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں۔ تو غور کرو، تمھاری کیا راے ہے؟ اُس نے کہا: ابا جان، آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے ، اُس کی تعمیل کیجیے۔ خدا نے چاہا تو آپ مجھے ثابت قدموں میں پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے سرتسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا اور ہم نے اُس سے پکار کر کہا کہ ابراہیم، تم نے خواب کو سچا کر دکھایا ہے تو تصور کرو کہ دریاے رحمت نے کیسا جوش مارا ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ خوبی سے عمل کرنے والوں کو ہم ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً یہ کھلی آزمایش تھی۔ (ابراہیم اِس میں کامیاب ہو گیا تو)ہم نے ایک عظیم قربانی کے عوض اسمٰعیل کو چھڑا لیا۔‘‘


قربانی کا مقصد


قربانی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے۔ ہم اپنی جان کا نذرانہ قربانی کے جانوروں کو اُس کی علامت بنا کر بارگاہ خداوندی میں پیش کرتے ہیں تو گویا اسلام و اخبات کی اُس ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں جس کا اظہار سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے فرزند کی قربانی سے کیا تھا۔ اِس موقع پر تکبیر وتہلیل کے الفاظ اِسی مقصد سے ادا کیے جاتے ہیں۔ قرآن نے یہ مقصد اِس طرح واضح فرمایا ہے:

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَُّقْوٰی مِنْکُمْ، کَذٰلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰکُمْ، وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ.(الحج ۲۲: ۳۷) 

’’اللہ کو نہ اِن کا گوشت پہنچتا ہے نہ اِن کا خون، بلکہ اُس کو صرف تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اِسی طرح اللہ نے اُن کو تمھارے لیے مسخر کر دیا ہے تاکہ اللہ نے جو ہدایت تمھیں بخشی ہے ، اُس پر تم اللہ کی بڑائی بیان کرو۔ (یہی طریقہ ہے اُن کا جو خوبی کا رویہ اختیار کریں) اور، (اے پیغمبر)، اُن لوگوں کو بشارت دو جو خوبی کا رویہ اختیار کرنے والے ہیں۔‘‘

قربانی کا قانون


قربانی کا جو قانون مسلمانوں کے اجماع اور تواتر عملی سے ہم تک پہنچا ہے، وہ یہ ہے:
قربانی انعام کی قسم کے تمام چوپایوں کی ہو سکتی ہے۔
اِس کا جانور بے عیب اور اچھی عمر کا ہونا چاہیے۔

قربانی کا وقت یوم النحر۱۰ ؍ذو الحجہ کو عید الاضحی کی نماز سے فراغت کے بعد شروع ہوتا ہے۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس کے ایام وہی ہیں جو مزدلفہ سے واپسی کے بعد منیٰ میں قیام کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ سورۂ حج کی آیات میں ’اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ‘ سے یہی مراد ہیں۷؂۔ اصطلاح میں اِنھیں ’ایام تشریق ‘کہا جاتا ہے۔ قربانی کے علاوہ اِن ایام میں یہ سنت بھی قائم کی گئی ہے کہ ہر نماز کی جماعت کے بعد تکبیریں کہی جائیں۔ نمازوں کے بعد تکبیر کا یہ حکم مطلق ہے، اِس کے کوئی خاص الفاظ شریعت میں مقرر نہیں کیے گئے۔

قربانی کا گوشت لوگ خود بھی بغیر کسی تردد کے کھا سکتے اور دوسروں کو بھی کھلا سکتے ہیں۔ ’ فَکُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ‘۸؂ کے الفاظ میں قرآن نے اِس کی صراحت کر دی ہے۔

قربانی کا قانون یہی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، البتہ اِس کے بارے میں چند باتوں کی وضاحت فرمائی ہے:
اول یہ کہ قربانی کے مہینے میں قربانی کرنے والے نذر کی قدیم روایت کے مطابق قربانی سے پہلے نہ اپنے ناخن کاٹیں گے اور نہ بال کتروائیں گے۔۹؂

دوم یہ کہ قربانی ہر حال میں عید کی نماز کے بعد کی جائے گی۔ یہ اگر پہلے کر لی گئی ہے تو محض ذبیحہ ہے، اِسے عیدالاضحی کی قربانی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔۱۰؂ سوم یہ کہ قربانی کے لیے اچھی عمر یہ ہے کہ بکری کا بچہ کم سے کم ایک سال، گائے بیل دوسال اور اونٹ یا اونٹنی کم سے کم پانچ سال کی ہونی چاہیے۔ یہ میسر نہ ہوں تو مینڈھا ذبح کر لیا جائے۔ یہ اگر چھ ماہ کا بھی ہو تو کفایت کرے گا۔۱۱؂

چہارم یہ کہ گائے بیل اور اونٹ یا اونٹنی کی قربانی میں ایک سے زیادہ لوگ شریک ہو سکتے ہیں۔ یہ شرکا اگر سات بھی ہوں تو مضایقہ نہیں ہے،۱۲؂ بلکہ روایتوں میں آیا ہے کہ اونٹ کی قربانی میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک موقع پر دس افراد شریک ہوئے توآپ نے منع نہیں فرمایا ۔ ۱۳؂ پنجم یہ کہ قربانی ایک نفل عبادت کے طور پر عید الاضحی کے علاوہ بھی کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ بچوں کی پیدایش پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی قربانی کی اور دوسروں کو بھی اِس کی ترغیب دی ہے۔۱۴؂ 

________

۱؂ البقرہ ۲: ۱۵۴۔
۲؂ الصافات ۳۷: ۱۰۷۔
۳؂ بخاری، رقم ۵۵۶۵۔ مسلم، رقم ۵۰۹۰۔
۴؂ یعنی نحر کے لیے جانور کو کھڑا کرکے اور ذبح کی صورت میں قبلہ رو لٹا کر۔
۵؂ الصافات ۳۷: ۱۰۳۔
۶؂ المائدہ ۵: ۲۷۔
۷؂ ۲۲: ۲۸۔ ’’ اور چند متعین دنوں میں اُن مواشی جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے اُنھیں بخشے ہیں۔‘‘ ۸؂ الحج ۲۲: ۳۶۔ ’’ تو اُن میں سے خود بھی کھاؤ اور اُن کو بھی کھلاؤ جو (محتاج ہیں، مگر) قناعت کیے بیٹھے ہیں اور اُن کو بھی جو مانگنے کے لیے آجائیں۔‘‘
۹؂ مسلم، رقم۵۱۲۱۔
۱۰؂ بخاری، رقم ۵۵۶۰،۵۵۶۱،۵۵۶۲۔ مسلم ، رقم ۵۰۶۴،۵۰۶۹،۵۰۷۹۔
۱۱؂ مسلم، رقم ۵۰۸۲۔ ابو داؤد، رقم ۲۷۹۹۔ نسائی، رقم ۴۳۸۳۔
۱۲؂ مسلم، رقم ۳۱۸۶۔
۱۳؂ ترمذی، رقم ۱۵۰۱۔نسائی، رقم ۴۳۹۷،۴۳۹۸۔
۱۴؂ بخاری، رقم ۵۴۷۲۔ ابوداؤد،رقم ۲۸۴۱۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اگست 2018

------------------------

یہ بھی پڑھیں !

کیا حکومت زکوۃ کاٹنے کی مجاز نہیں ! (قسط 2)

کیا حکومت زکوۃ کاٹنے کی مجاز نہیں ! (قسط 1 )

اسلام کا نظام زکوۃ اور چند جدید مسائل ۔ مبشر حسین 

اسلامی ریاست کی بنیاد ۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد

عقیدۂ توحید اور انسانی زندگی - علامہ یوسف القرضاوی

حسد سے نجات؟۔ ڈاکٹر تابش مہدی

اسلامی مملکت کی خصوصیات، علامہ سید محمد یوسف بنوری ؒ

’’فقہ‘‘ حدیث کی نظر میں اور مذہبِ ’’ظاہریّہ‘‘ پر ایک نظر۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری ؒ