بچوں کی پرورش

(تاریخ اشاعت : 26 دسمبر 2019 بی بی سی اردو )

بچوں کی پرورش 

اپنے بچوں کی پرورش کے دوران ہم اپنے ماں باپ کے انداز سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے ہم اپنے بچوں کی پرورش اپنے ماں باپ کی طرح کرتے ہیں۔

ہوسکتا ہے ہم نے کچھ اچھی باتیں سیکھی ہوں۔ لیکن آپ یقیناً اور بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

ماہر نفسیات فلیپا پیری نے اپنی کتاب ’دا بک یو وش یور پیرنٹس ہیڈ ریڈ‘ (وہ کتاب جو آپ چاہیں گے آپ کے والدین نے پڑھی ہوتی) میں لوگوں کو اچھے ماں باپ بننے کے مشورے دیے ہیں۔

وہ اس میں بتاتی ہیں کہ آپ اچھے والدین کیسے بن سکتے ہیں تاکہ آپ کے بچے زندگی کا بہتر آغاز کر سکیں۔ اس کے ساتھ ہی آپ کو اس کے لیے زیادہ کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے۔
ماہر نفسیات کے مطابق اچھے ماں باپ بننے کے لیے آپ ان پانچ مشوروں پر عمل کریں:

1. حدود کا تعین

جی ہاں یہ کافی مشکل ہوگا کیونکہ ہم سب ہی اپنے بچوں سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ لیکن ایک موقع پر ہم اس کی حد پار کر دیتے ہیں۔

اگر آپ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ آپ اپنے بچوں کو کچھ زیادہ ہی آزاد رہنے دیتے ہیں تب بھی آپ کو کچھ حدود کا تعین کر لینا چاہیے۔


لیکن پیار کی حد کیسے بنائی جائے؟ اس کا جواب ’میں‘ کے اندر ہے، ’تم‘ میں نہیں۔ آپ کو اپنا کردار واضح کرنا ہوگا، نہ کہ اپنے بچوں کا۔

تو اس کا مطلب ہے آپ کو یہ کہنا ہو گا ’مجھے معلوم ہے کہ آپ رات کو بس پر سفر کرتے ہوئے دور جانا چاہتے ہیں لیکن میں ابھی اس کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔‘

والدین کو ایسے نہیں ٹوکنا چاہیے کہ ’نہیں آپ تو صرف 13 سال کے ہو، آپ ابھی بہت کم عمر ہو۔‘

کسی کو یہ پسند نہیں ہوتا کہ کوئی اور ان کے بارے میں ایسے بات کرے۔ اس لیے خود کی وضاحت کریں، نہ کہ اپنے بچوں کی۔

2. اپنے بچوں کے ہر موڈ کو قبول کریں

ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں ہمارے بچے ہر وقت شدید خوش رہیں۔

یہ ایسا ہے جیسے ہم ان سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ کبھی انھیں مایوس نہیں دیکھ سکتے۔ اس لیے ہم انھیں کہتے ہیں: ’اداس نہ ہوں۔‘

لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم انھیں ہر قسم کا موڈ (مزاج) رکھنے کی اجازت دیں جبکہ اس دوران ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں۔

ہمیں بچوں کے تمام جذبات کو منظور کرنا چاہیے تاکہ بچے اداس ہونے یا غصہ کرنے پر مزید مایوس نہ ہوں۔

3. یاد رکھیں کہ آپ اپنے بچے کا عکس ہیں

آپ اپنے بچے سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ ان کا انسانی عکس ہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔

بچوں کے ساتھ ہمارا برتاؤ ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔

اگر ہم انھیں ہمیشہ یہی کہتے رہیں گے کہ ’دیکھو آپ نے جوتے گندے کر لیے ہیں!‘ تو وہ ہمیشہ آپ کی غصے والی شکل ہی دیکھ پائیں گے۔

یہ ضروری ہے کہ آپ پہلے ان کے ساتھ ہنسی مذاق کریں اور اس کے بعد گندے جوتوں کا ذکر کریں۔

آپ کو ہمیشہ کوشش کرنی چاہیے کہ ان سے ملتے ہوئے خوشی کا اظہار کریں۔

4. ہر قسم کا رویہ بات کرنے کا طریقہ ہے

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے بچے کے رویے میں کوئی برائی ہے تو یہ بات یاد رکھیں: ہر قسم کا رویہ بات کرنے کا طریقہ ہوتا ہے۔

بچے اس طرح کے رویے سے آپ کو کچھ بتانا چاہتے ہیں اور ان کے پاس یہ کہنے کا یہی بہترین طریقہ ہوتا ہے۔

تو آپ کو ایسے رویے کا اصل مطلب تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کے بعد ان کی مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ جو محسوس کر رہے ہو اسے صاف الفاظ میں بلا ہچکچاہٹ کہہ سکیں۔

ہمیں ان کے تمام جذبات کو منظور کرنا چاہیے، بے شک اگر ٹھیک نہ لگتے ہوں۔

ہمیں بچوں کو اپنے جذبات کا اظہار سیکھانا چاہیے اور اس بات کی فکر نہیں کرنی چاہیے کہ ہم ان کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے۔ ہر شخص دوسرے سے الگ ہوتا ہے۔

5. آپ کا بچہ کوئی پراجیکٹ نہیں ہے


ماہر نفسیات کے مطابق ’آپ کا بچہ ایک مشق نہیں جسے آپ جلدی جلدی نمٹا دیں۔ نہ ہی یہ ایک پراجیکٹ ہے جسے آپ بہترین انداز میں مکمل کر سکیں۔‘

’آپ کا بچہ ایک انسان ہے جو اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔‘

بچے چھوٹے ہوں یا بڑے، وہ سب سے پہلے ایک انسان ہیں۔


------------------

ماں، باپ اور بچے: ایک مثالی باپ کیسا ہوتا ہے

( تاریخ اشاعت : 14 اکتوبر 2019 بی بی سی اردو )

وسطی افریقہ کے اکا نامی قبائلی مرد اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں جب ان کی عورتیں شکار کے لیے جنگلوں میں گئی ہوتی ہیں۔ قبائلی مرد ان بچوں کو پیار سے رکھتے ہیں، ان کو صاف رکھتے ہیں اور انھیں کھیل میں مشغول رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ کسی بھی دوسرے معاشرے کے مردوں کی نسبت زیادہ وقت بسر کرتے ہیں۔ ان کے اپنے بچوں سے اتنے لگاؤ کی وجہ سے انٹرنیٹ پر تبصرے کرنے والوں نے انھیں ’دنیا کے بہترین باپ‘ کا لقب دیا ہے۔

اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تاریخ کے اس سفر میں ایک اچھے باپ کے تصور میں کتنی تبدیلی آچکی ہے۔

آج کئی باپ حساس ہونے، خیال رکھنے اور اور بچے کے ہر معاملے میں دلچسپی لینے کی وجہ سے پسند کیے جاتے ہیں۔ اس موضوع پر تحقیق کی بڑھتی ہوئی ضخامت کی وجہ سے انسانی سوچ میں تبدیلی آرہی ہے کہ وہ کس طرح اپنے بچے کی زندگی کو ایک جہت دے سکتے ہیں اور کس طرح روایتی سوچ، بود و پاش کے تصورات اور جنسی ذمہ داریوں کے خیالات میں تبدیلی لا رہے ہیں۔

یہ بہت ہی منفرد پیش رفت ہے کیونکہ ستر کی دہائی تک بچے کی نشو نما میں باپ کے کردار پر تحقیق نہیں ہوتی تھی۔ باپ کے کردار کو زیادہ تر گھر کا کمانے والا لیا جاتا تھا جو ماں کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہوتا تھا، اور جو بچوں کے لیے جذبات کا ایک مضبوط سہارا بنتا تھا۔

یونیورسٹی آف کیمبرج کے ایک ماہر نفسیات پروفیسر مائیکل لیمپ جو سنہ ستر کے دہائی سے بچے کی پرورش کے بارے میں باپ کے کردار کا مطالعہ کرتے آئے ہیں، کہتے ہیں کہ ’اس پر بہت زیادہ زور تھا کہ ماں سے تعلق بہت اہم ہے، جبکہ معاشرے میں دوسرے افراد سے تعلقات کے بارے میں زیادہ بات نہیں ہوتی تھی۔‘

’ان میں سب سے زیادہ نظر آنے والا باپ اور بچے کا تعلق تھا، ایک تعلق جو بچے کے بڑے ہونے کی صورت میں اہم بنتا تھا، لیکن اس تعلق کو ہمیشہ ماں کے تعلق سے کم اہم سمجھا جاتا تھا۔

تاہم جیسا کہ یونیورسٹی آف ایمسٹرڈم کی میرین بیکرمینز-کریننبرگ جو کہ نئے باپ بننے والوں اور ان کے خانگی تعلقات کا مطالعہ کرتی ہیں، کہتی ہیں نصف کے قریب والدین میں باپ ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی نناوے فیصد تحقیق ماں کے کردار پر مرکوز ہوتی ہے۔‘

اب نئی تحقیق یہ بتا رہی ہیں کہ ایک بچے کی معاشرتی دنیا پہلے کی سوچ کی نسبت زیادہ پھیلی ہوئی ہے، زیادہ پیچیدہ ہے۔

صرف باپ ہی توجہ کا مرکز نہیں رہا ہے۔ نانا، دادا، ہم جنس والدین، اکیلی ماں یا اکیلا باپ نے بھی محققین کو بچے کی نشو نما کو سمجھنے میں مدد دی ہے، اور یہ کہ صرف ایک شخص کے دیکھ بھال کرنے تک محدود نہیں ہے۔

پروفیسر مائیکل لیمب کہتے ہیں کہ ’گزشتہ 45 برسوں میرے استدلال کا ایک اہم جزو یہ رہا ہے کہ اصل میں ایک نہیں، بلکہ متعدد عوامل اہم رہے ہیں۔ ہم ان عوامل کی اہمیت کے فرق کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ ہمیں تو یہ بھی تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک بچے کی نشو نما میں پورے ایک گاؤں کا دخل ہوتا ہے جس میں کئی طرح کے رشتے اور ان کی نوعیت ہوتی ہے۔‘

حال ہی میں ہونے والی کئی مختلف رپورٹوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ والدین کی ذمہ داریوں میں کتنا تنوّع ہو سکتا ہے۔ اسرائیل کی بار-الان یونیورسٹی کی پروفیسر رُوتا فیلڈمین نے یہ دریافت کیا ہے کہ ماؤں کی طرح باپ کے جسم کے ہارمونز میں بھی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں جب وہ اپنے بچے کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کے رشتے اور تعلق کی گرمی بڑھ رہی ہوتی ہے۔ جب صرف تنہا باپ ہی بچے کی نگہداشت کرہا ہوتا ہے تو اس کا دماغ اپنے آپ کو اُس حالت کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔

اور جذباتی وابستگی بھی اہم ہوتی ہے۔ جو بچے باپ سے دور رہنے والے بچوں کی نسبت باپ سے جذباتی طور پر لگاؤ رکھتے ہیں ان کی کم سنی سے ہی ذہنی نشو نما تیز ہوتی ہے اور ان کے رویے میں بعد کے دور میں مسائل پیدا ہونے کے کم امکانات ہوتے ہیں۔ بڑی عمر کے بچوں کو بھی باپ کی قربت سے فائدہ پہنچتا ہے۔ وہ بچے جن کے باپ یا باپ کی جگہ پر باپ جیسے افراد جذباتی طور پر مدد دیتے ہیں وہ اپنی زندگی سے اتنے ہی زیادہ مطمئن ہوتے ہیں اور اپنے اساتذہ اور دوسرے بچوں سے بھی اچھے تعلقات استوار کر سکتے ہیں۔

پروفیسر لیمب کا کہنا ہے کہ باپ کے بچے کے ساتھ مضبوط جذباتی تعلق بننے کے عوامل وہی ہیں جو کہ ایک ماں کے لیے ہوتے ہیں۔

پرانی تحقیق میں یہ کہا جاتا تھا کہ ماں اور باپ مختلف انداز میں بچے پر اثر انداز ہوتے ہیں، ماں کا رشتہ نازک نگہداشت کی وجہ سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے جبکہ باپ کا رشتہ روایتی کھیل کود کی وجہ سے بنتا ہے۔ لیکن پروفیسر لیمب کہتے ہیں اس رشتے میں فرق کا جنس سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ کہ بچے کی نگہداشت میں کون کتنا وقت دیتا ہے۔

ایک ہی صنف سے تعلق رکھنے والے والدین اور گھر پر رہنے والے باپ کے بارے میں مطالعے ظاہر کرتے ہیں کہ کوئی بھی صنف ہو اصل میں جو بات اہم ہوتی ہے وہ یہ کہ ان میں کون ہے جو دن میں بچوں کے ساتھ وقت صرف کرتا ہے، کون بچوں کے ساتھ کھیلتا ہے جیسا کہ بچے کو گود میں اٹھانا اور ان کو ہوا میں لہرانا وغیرہ۔ والدین میں سے جو بھی بچے کے ساتھ زیادہ وقت گزارے گا وہ ان پر اتنا ہی اثر انداز ہوگا اور بچے اُس سے اتنا ہی خوش رہیں گے۔

مرد اور عورت کے جوڑوں میں جو بھی دن میں بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا ہے وہ مختلف سماجی اور اقتصادی عوامل کی وجہ سے اب بھی ماں ہے۔

ان میں سے کسی ایک کو چھٹی لینا پڑتی ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں سوائے امریکہ کے، سرکاری تنخواہ کے ساتھ زچہ کہ لیے چھٹی ہوتی ہے لیکن زچہ کے شوہر کے لیے یعنی نومولود بچے کے باپ کے لیے زچہ کی نسبت، نصف دنوں کی چھٹی ہوتی ہے جو صرف دو مہینوں کے لیے ہوتی ہے۔ اس دوران مرد اور عورت کی تنخواہوں میں جو فرق برقرار ہے، اس کی وجہ سے ظاہر ہے کہ عورت کے لیے بہتر ہوتا ہے کہ وہ گھر پر رہے اور مرد کام کرتا رہے۔

یہی اس بات کا جواب ہے کہ صرف باپ کی بچے کی پیدائش کے موقع پر چھٹیوں سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ہے۔ برطانیہ میں جہاں والدین کی بچے کی پیدائش کے موقعے پر مشترکہ چھٹیوں کی سہولت موجود ہے، صرف دو فیصد جوڑے ایسے ہیں جو چھٹیاں لیتے ہیں۔

حقیت میں اکا قبیلے کی تمام تعریف و توصیف کے باوجود، عورتیں ہی بچے کی نگہداشت کا زیادہ کام کرتی ہیں۔ وہ شکار بھی کرتی ہیں، بچوں کو کھانا بھی کھلاتی ہیں، انھیں جھولے میں سُلاتی بھی ہیں، لیکن تاحال کسی نے بھی انھیں دنیا کی بہترین ماں کا لقب نہیں دیا ہے۔

لیکن تحقیقیات سے پتہ چلا ہے کہ اگر باپ کو بچے کی پیدائش سے ہی بچے کی نگہداشت میں مصروف کیا جائے تو زیادہ فائدے ہو سکتے ہیں اور وہ بچوں کے ساتھ کھیلیں، سکون سے یا خوب اُدھم کود مچائیں۔

یونیورسٹی آف کیبرج سے پروفیسر رام چندنی جو بچوں کی تعلیم اور نشو نما میں کھیلوں کی اہمیت کا مطالعہ کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’کھیل کود بچپنے کی زبان ہے: اسی کھیل کود سے بچے دنیا کو سمجھتے ہیں، اسی طرح وہ دوسرے بچوں کے ساتھ رشتے استوار کرتے ہیں۔‘ وہ اور ان کی ٹیم نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ جو باپ اپنے بچوں کے ساتھ ان کی زندگی کے پہلے چار مہینوں میں کھیلتے ہیں وہ بچوں کی زندگی کی نشو نما کی سمت طے کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں ان محققین کا کہنا ہے کہ کم سنی میں باپ کے ساتھ بچوں کا میل جول پچھلی تحقیق کی سوچ کی نسبت کہیں زیادہ اہم ہے۔

وہ بچے جن کے باپ ان کے ساتھ کھیلتے کودتے رہے ان بچوں کے رویوں میں ان بچوں کی نسبت مشکلات کم نظر آئیں جو اپنے باپ سے دور رہے۔ ایسے بچوں کی دو برس کی عمر میں ذہانت بھی بہتر نظر آئی، مثال کے طور پر مختلف اجسام کو پہچاننے میں وہ زیادہ ذہین نظر آئے۔

تحقیق کے ان نتائج کا ماں کے بچے سے اپنی نوعیت کے رشتے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

پروفیسر رام چندنی کہتے ہیں کہ یہ تحقیق آپ کو بتاتی ہیں کہ اس سے پہلے کہ آپ کا بچہ گھٹنوں چلنا شروع کردے آپ ان کے ساتھ کھیلنا شروع کردیں: ’کچھ باپ اپنے بچوں کے ساتھ کھیلتے نہیں جب وہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں، کیونکہ انھیں صحیح طرح معلوم نہیں ہوتا ہے کہ انھیں کیا کرنا چاہئیے، یا انھیں یہ یقینی نہیں ہوتا کہ جو کھیل رہے ہیں وہ صحیح ہے یا نہیں۔‘ لیکن ایک زچہ بھی اسی طری سوچ سکتی ہے کہ وہ نومولد بچے کے ساتھ کیا کرے۔

تاہم رام چندنی کہتے ہیں کہ بچے کے ساتھ کھیلنا بہت ہی اچھا کام ہے، گود میں بچے کو بٹھانا، اس کی آنکھ سے آنکھ ملانا اور صرف یہ دیکھنا کہ وہ کس بات سے خوش ہوتا ہے۔

سب سے سے زیادہ اہم بات اپنا رابطہ بنانا ہے، کیونکہ یہ ربط بہتر ہو گا اگر آپ بار بار دہرائیں گے۔ یہ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے: ’یہ جسم میں قدرتی طور پر پیدا ہوتا۔ کچھ لوگوں میں یہ صلاحیت بہتر ہوتی ہی، لیکن کچھ لوگوں میں یہ ربط بنانے میں وقت لگتا ہے۔‘

اس طرح کئی لحاظ سے پہلے کی نسبت اب باپ بچے کی نگہداشت کے عمل میں زیادہ شامل ہے۔ باپوں کی تنظیمیں ہیں، بچوں کو مساج کرنے کے طریقے ہیں، اور آن لائین بے انتہا مقبول ویڈیوز ہیں۔

شاید آپ کو ایسے باپ بھی مل جائیں جو ماؤں سے زیادہ اچھی نگہداشت کرتے ہوں۔ لیکن بچوں کی پرورش کا زیادہ کام پھر بھی ماں ہی کے حصے میں آتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ایک عورت بچے کی پرورش سمیت کئی اور بلا معاوضہ کام ایک مرد کی نسبت دس گنا زیادہ کرتی ہے۔

ایک علم البشریات کی ماہر اور والد کے جدید رول پر ایک کتاب کی مصنف این میچن کہتی ہیں کہ ’ہم اس وقت باپ کے کردار کو سمجھنے کے بارے میں تاریخ کے دوراہے پر ہیں۔

میچن خطرہ محسوس کرتی ہیں کہ خاندانوں پر مالی دباؤ کی وجہ سے والدین کا روایتی کردار شاید واپس آ جائے۔
ممکن ہے مستقبل میں کسی دفتر میں کسی مرد چیف ایگزیکیٹیو کا بچے کو اٹھانا اسی طرح عام بات ہو گی جیسے اکا قبیلے کے مردوں کا بچوں کو اٹھانا سمجھا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق ایک مثالی باپ کا کوئی ایک ماڈل نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل بات جذباتی طور پر بچوں کے قریب ہونا اور ان کی ضروریات کو سمجھنا ہے۔ ’مختلف لوگ یہ کام مختلف طریقے سے کرتے ہیں۔‘ ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کے لیے کیا مناسب ہے اور وہ کیسے اپنے بچوں کے ساتھ اچھا رشتہ قائم کر سکتا ہے۔