اسوۂ حسنہ - مولانا عبد الماجد دریابادی

گوشہ عبد الماجد دریابادی
اسوہ حسنہ - عبد الماجد دریابادی ؒ 

امانت الہٰی

بزم کائنات اپنی ساری دلفریب زینتوں اور دلکش آرائشوں کے ساتھ سج چکی، طلسم خانہ فطرت اپنی تمام ندرتوں اور نیرنگیوں کے ساتھ تیار ہو چکا، نگار خانہ موجودات کا ایک ایک نقش آب و رنگ کی جگمگاہٹ سے چمک اٹھا، اس وقت ما کان وما یکون کاسب سے زیادہ بے بہا، سب سے زیادہ عزیز الوجود گوہر ’’امانت الہی‘‘کے نام سے کثرت کے بازار میں پیش ہوا، اور وحدت کے خلوت کدہ سے آواز آئی کہ ’’ہے کوئی جو اس گوہر شرف کا حامل بن سکے؟ عالم ملکوت میں سنّاٹا چھا گیا، عالم ناسوت پر لرزہ پڑگیا، پہاڑ تھر تھرائے، سمندر کی موجیں رک گئیں، ماہتاب ماند پڑگیا‘ آفتاب کی ہمت نے جواب دے دیا، اونچے آسمان نے اپنے دوش ناتوان کو اس کا اہل نہ پاکر آنکھیں نیچی کرلیں، پھیلی ہوئی زمین اپنے عجز و درماندگی کے احساس سے سمٹ کر رہ گئی۔ اس وقت ضعیف و ناتواں کمزور وحقیر، ظلوم و جہول خاک کا پتلا آگے بڑھا، اور اپنی ہمت کے بازؤں کو پھیلا کر یہ بارِعظیم اپنے سَر لے لیا۔


صبح محشر

خاک، نژاد آدم کی بے شمار نسلیں پیدا ہوئیں، اور رخصت ہوگئیں، پھیلی اور بڑھیں، ابھریں اور مٹیں، یہاں تک کہ عالم عنصریت کی شب دراز ختم ہوتی ہے، اور صبح محشر کا طلوع ہوجاتا ہے۔کمزور و جلدباز، خطا کار و نسیاں شعار، انسان طلب ہوتا ہے، اور اس کا ہر فرد ’’امانت‘‘ کا حساب سمجھانے حاضر ہوتا ہے، افراد کی تعداد حد شمار سے خارج ہے، ریاضی کا ہر عدد، سب کی گنتی بتانے سے قاصر ہے۔ اچھّے اور برے، فاسق و فاجر، مومن و کافر، عالم و جاہل، شاہ وگدا، امیر و فقیر، حکیم و شاعر، عابد وزاہد، ولی و درویش، سب ایک ایک کر کے صف در صف حاضر ہورہے ہیں لیکن کسی ایک کا بھی نامہ اعمال فطرت کے محاسبہ پر پورا نہیں اترتا۔کسی ایک کا بھی دامن امانت، خیانت کے داغ سے پاک نظر نہیں آتا۔کسی ایک کی بھی فرد اعمال ایسی نہیں جو دعوے کے ساتھ پیش ہوسکے، ہر سمت حسرتیں، ندامتیں، پشیمانیاں اور پریشانیاں ہیں، زاریاں اور بے قراریاں، افسردگیاں اور غمگینیاں ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ وہ نفوس قدسیہ تک، جو دوسروں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے خلق ہوئے تھے اور جو عرش کا پیام لے کر فرش پر آئے تھے۔ آج اپنی اپنی حالت میں گرفتار ہیں اور زبانوں پر نفسی نفسی کا وظیفہ جاری ہے۔


گستاخ وشوخ چشم انسان، اس وقت بھی تمرد و خیرہ سری سے باز نہیں رہتا، اور سوال کر بیٹھتا ہے، کہ ایسی ناقص ہستیوں کے وجود میں لانے کا کیا ثمرہ تھا، جن میں سے کوئی ایک بھی معیار کمال پر پوری نہیں اترتی؟اس بے شمار انبوہ کو خلعت وجود سے مشرف کرنے کا کچھ بھی حاصل تھا، جس کی ایک فرد بھی اپنے مقصد آفرینش کو پورا نہ کرسکی؟حریم قدس سے آواز آتی ہے کہ دیکھ اے جاہل انسان، اور اپنی جہالت کا اقرار کر۔سن اے نادان آدم زاد اور اپنی نادانی پر شرما۔ یہ پیکر نورانی جو تیرے سامنے عرصہ محشر میں موجود، اپنی ذات کی طرف سے فارغ و مطمئن اور دوسروں کے نجات دلانے کوشش میں مصروف سرگرم نظر آرہا ہے، تیری ہی طرح ایک انسان تھا، تیری ہی طرح اس کا خمیر بھی آب وگل سے تھا، تیری ہی طرح خاک کے ذرّوں سے اپنے جسد عنصری کی ترکیب رکھتا تھا، لیکن ہمارا عبد کامل تھا۔ ہماری امانت کا پورا امین، اور اپنے عہد کو نباہنے والا، قید عناصر میں داخل سے قبل ہر وقت ہماری حمد و ثنا میں مشغول رہا، تو ہم نے احمد …بہت تعریف کرنے والا… کے نام سے پکارا، اور اس کا صلہ یہ دیا، کہ جب عالم آب و گل میں پابند بنا کر بھیجا، تو اس کا لقب محمدﷺ …بہت تعریف کیے گئے… رکھا۔دیکھ اے غافل انسان کہ آج نہ صرف ہم اپنے اس سب سے اچھے اور سب سے پیارے بندہ کو کیا درجہ نصیب کرتے ہیں، بلکہ جس کسی نے اس کی پیروی کی بھی کوشش کی، اس کے لیے بھی آج ہمارے ہاں کیا کیا سرفرازیاں اور سربلندیاں موجود ہیں ۔

دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ جائیے، حکیموں اور داناؤں کے سوانح حیات پڑھ جائیے، درویشوں اور عالموں کے کارناموں پر نظر کر جائیے، حضرات انبیاء علیہم السلام کی دعوتوں سے واقفیت حاصل کر لیجئے، دنیا کی بڑی اصلاح، بڑے سے بڑے انقلاب بڑے سے بڑے اجتہاد کا مطالعہ کر جائیے۔ ہر اصلاح، ہر دعوت، ہر تبلیغ، کسی نہ کسی ملک، کسی نہ کسی قوم، کسی نہ کسی زمانہ کے ساتھ مخصوص و محدود آپ کو ملے گی۔ حضرت مسیح علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کے گلّوں کی بھیڑوں کو بچانے کے لیے آئے تھے۔حضرت ہود علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام، حضرت صالح علیہ السلام، سب کا روئے سخن صرف اپنی اپنی قوم کی جانب تھا۔ دنیا کے اس عالمگیر کلیہ سے اگر کوئی استثناء ہوسکتا ہے، تو وہ محمدعربیﷺ …روحی فداہ… کی دعوت و پیام کا تھا۔ رسول ﷺ کی دعوت کسی ایک قوم، کسی ایک زمانہ کے لیے نہیں، ہر ملک، ہر قوم، ہر زمانہ کے لیے ہے، تمدن انسانی کی ہر سطح کے متناسب حالت بشری کے ہر درجہ کے لیے موزوں، اور معاشرت قومی کی ہر شان کے شایاں ۔

کمال اور ختم نبّوت

سید المرسلین کا ایک لقب خاتم النبیین بھی ہے۔ ختم نبوت کے معنی بالکل واضح ہیں۔ جب ایک پیام اس قدر جامع و مکمل آچکا کہ اب اس میں کسی ترمیم و اضافہ کی گنجائش ہی نہیں باقی، تو کسی جدید پیام کا آنا سرے سے بے معنی ہوجاتا ہے۔ پیام کی ہمہ گیری کے معنی ہی یہ ہیں، کہ آیندہ کے لیے سلسلہ پیامات منقطع، عرب کے امّی کے لائے ہوئے پیام نے علی الاعلان اپنا دعویٰ ساری دنیا کے سامنے پیش کر دیا، کہ میں ہر امکانی ضرورتِ زندگی کے لیے مکمل ہدایت نامہ ہوں اور آج تک بڑے سے بڑا مخالف بھی اس دعویٰ کو کسی دلیل سے جنبش نہ دے سکا۔

پیام و پیامبر

اس قدر جامع و مکمل پیام کے لیے ضروری تھا کہ اس کے لانے والے کی ذات بھی ہر حیثیت سے کامل و مکمل ہو، اللہ کا بھیجا ہوا پیام، لکھا لکھایا، مرتب کتاب کی شکل میں بھی کسی پہاڑ یا درخت پر آسمان سے اتر سکتا تھا، لیکن حکیم مطلق کی مشیت نے ’’پیام‘‘اور ’’پیامبر‘‘دونوں کو ایک دوسرے کے لیے بطور لازم و ملزم قرار دیا، اور دونوں کو ایک دوسرے کی تصدیق کا ضامن۔لیکن ترتیبًا پیامبر کا وجود پیام پر مقدم ہے۔ دنیا کا یہ آخری ہادی و رہنما پورے چالیس برس اپنے ہم جنسوں کے درمیان رہ لیا، جب جاکر اس پر پیامِ حق نازل ہونا شروع ہوا، اور اس کے بعد تیئس سال کی مدت اور، اس نے اپنے ہی جیسے انسانوں کے درمیان گزاری۔ اس کی پاک و پاکیزہ زندگی اس وقت بھی دشمنوں کے لیے ایک کھلے ہوئے چیلنچ کی طرح موجود رہی کہ کوئی اٹھے اوراس میں عیب نکالے، کوئی بڑھے اور اس پرحرف گیری کرے۔ ابوجہل اور ابولہب جیسے دشمن اٹھے اور بڑھے، لیکن اس مقدس سیرت، اس پاکیزہ زندگی اور اس پاک معاشرت میں ایک بات بھی قابل گرفت نہ پاسکے۔

محمدبن عبد اللہ ﷺ فرشتہ بنا کر نہیں بھیجے گئے کسی دوسرے عالم کی مخلوق کی حیثیت سے نہیں اتارے گئے۔حوائج بشری سے بے نیاز ہوکر نہیں مبعوث ہوئے۔انسان بناکر بشریت کے تمام اوصاف و لوازم، تمام احتیاجوں اور ضرورتوں کے پابند بنا کر ا س ظلمت کدہ گیتی کو مطلع انوار کرنے کے لیے بھیجے گئے۔ شادیاں آپ نے کیں، ایک نہیں کئی کئی، اولادیں آپ کی متعدد ہوئیں، بعض زندہ رہیں، اور بعض نے حضور ﷺکے سامنے وفات پائی۔ دوست بھی حضور ﷺکے بہت سے تھے، اور دشمن بھی تھے۔مخلصین کا بھی ایک گروہ تھا، اور منافقین کا بھی۔عسرت کا بھی زمانہ گزرا اور خوش حالی کا بھی۔ لڑائیاں بھی بہت سی ہوئیں اور امن کا زمانہ بھی گزرا۔محاربات میں کبھی فتح بھی ہوئی اور کبھی اسکے برعکس۔ خلقت کے ردّو انکار کا بھی تجربہ فرمایا، اور مقبولیت و مرجعیت کا بھی۔ غرض انسانی زندگی میں گرم و سرد، نشیب فراز کے جتنے موقع پیش آسکتے ہیں۔ سب سے ہوکر وہ پاک و طاہر زندگی گزاری، اور اس طرح بے داغ گزری، کہ آج محض اس کا مطالعہ سارے عالم کے لیے ایک مستقل درس بن سکتا ہے۔

جامعیّت

حبیب کبریا ﷺ کی حیات مبارک کی یہ جامعیت صرف اس لیے تھی کہ ہرفرد بشر اس نمونہ کو اپنے پیش نظر رکھے اور جہاں تک اس کا ظرف و بساط اجازت دے انھیں قدموں کے نقش پر چلے۔ گلستان دہر میں بارہا روح پرور بہاریں آچکی ہیں، لیکن موسم ربیع کا یہ گلدستہ ایسا ہے جو ہر ملک ہر زمانہ، ہر قوم کے مشام جاں کو معطر رکھے گا۔ آج دنیا کی سب سے بڑی شامت یہی ہے، کہ اس نے سب سے زیادہ کامل و مکمل نمونہ کی طرف سے قطع نظر کرلی۔ غیروں کا ذکر نہیں، خود ہم کلمہ گویان اسلام کی بدبختی یہی ہے کہ ہم نے آفتاب، ہدایت کی طرف سے آنکھیں بند کر کے اپنے تئیں یا تو اندھیرے میں ڈال رکھا ہے، اور یا اگر روشنی کی طلب ہے بھی تو ٹمٹماتے ہوئے چراغوں اور لالٹینوں پر قناعت ہے۔

ہم میں سے آج کتنے بدبخت مسلمان ایسے ہے، جوخوبی و کمال کا معیار یورپ کے طور و طریق کو سمجھ رہے ہیں۔ قومی تعلیم اس لئے ضروری ہے کہ یورپ میں اس کا رواج ہے، معاشرت کو اعلیٰ معیار پر اس لئے لانا چاہئے کہ یورپ کا طرز یہی ہے، سودخوری اس لیے بہتر ہے کہ یورپ اسی ذریعہ سے ترقی کر رہا ہے۔ یہ ہمارے دماغوں کا ایک عام طرز استدلال ہوگیا ہے۔ اس سے اتر کروہ طبقہ ہے جو مذہبی سمجھا جاتا ہے۔ ان بے چاروں کی شامت یہ ہے کہ بجائے سرکار رسالت ﷺسے اکتساب فیض کرنے کے، انھوں نے ساری جستجو، اور تگ و دو محض کسی عالم یا درویش تک محدود کر رکھی ہے۔ حالانکہ کوئی امتّی کتنا ہی بلند پایہ ہو، ظاہر ہے کہ رسول خداﷺ کی نعلین مبارک کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔

اگرآج ہم اس بڑے ’’امین‘‘کے نقش قدم پر چلتے ہوتے تو ہم میں خیانت و بددیانتی کا گزرنہ ہوتا، اگر آج ہم اس ’’رؤف و رحیم‘‘کے پیروہوتے، تو ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کی جانب سے بے اعتمادی وبدگمانی نہ ہوتی، اگر آج ہم نے اس غار حرا کے بیٹھنے والے کے آثار مبارک کو اپنا سرمہ چشم بنایا ہوتا تو ہمارے باطن میں کسی قسم کی گندگی باقی نہ رہ جاتی۔ اگر آج ہم فاتح بدر کی عظمت دل سے کرنیوالے ہوتے تو مخالفین کے مقابلہ میں ہمیں شکستیں نصیب نہ ہوتیں۔ اگر آج ہم رحمۃ للعالمین کے پیام پر سچے دل سے ایمان رکھتے ہوتے، تو اپنی جیسی مخلوقات کے ساتھ ہمیں بے گانگی و مخالفت نہ ہوتی، اگر آج اپنے سچ بولنے والے اور سچ کے برتنے والے ہی کے طریقہ پر ہم قائم ہوتے، تو جھوٹ کا ہماری آبادیوں میں نام و نشان ہی نہ ہوتا۔ اگر آج ہم کو اسم پاک احمدﷺ کی لاج ہوتی تو اللہ کی حمد و ثنا سے ہمیں اس قدر گریز نہ ہوتا، اگر ہم کو اس اسم گرامی محمد ﷺ سے عملا کوئی واسطہ ہوتا، تو اپنی موجودہ پستی و بدنامی سے یہ مراحل دور ہوتے۔آج جب کہ سارے ملک میں میلاد مبارک کی محفلیں آراستہ ہورہی ہوں گی، کیا یہ بہتر نہ ہوگا ان کے ساتھ ہم اپنے خلوت خانہ قلب میں بھی کچھ دیر کے لیے ذکر پیمبر و یادِ رسول ﷺکی محفل گرم کریں!