دشمنوں کا شعار۔۔۔ : مولانا عبد الماجد دریابادی

دشمنوں کا شعار - مولانا عبد الماجد دریابادی 
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (57) وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْقِلُونَ (58)المائدة

اے ایمان والو،کافروںاور اہل کتاب میں سے جو لوگ تمھارے دین کو ہنسی اور کھیل قراردیئے ہوئے ہیں انھیں اپنا دوست نہ بناؤاور اللہ سے ڈرتے رہواگر ایمان رکھتے ہو اورجس وقت تمھیں نماز کے لیے آواز دی جاتی ہے تو اس کو یہ لوگ ہنسی اورکھیل ٹھہراتے ہیں۔یہ اس لیے کہ یہ لوگ بے عقل ہیں۔

آیۂ کریمہ کامفہوم صاف اور واضح ہے،دو حصے ہیں پہلے حصہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ جو غیر مسلم اسلام کا مضحکہ بنائے ہوئے ہیں،انھیں اپنا رفیق وہمراز دوست و دمسازبنانا مسلموں کے لیے جائز نہیں (اور جو مسلم اپنے دل میں اللہ کا ڈر رکھتا ہے اس سے ایسا ہونا ممکن نہیں ) دوسرے حصے میں تمام شعائر دین میں سے صرف اذان کو چن کرفرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ اس پر تمسخر کرتے ہیں اذان کی اہمیت اسی سے ظاہر ہے اذان کی تحقیر عین دین اسلام کی تحقیر ہے اب اپنے گرد وپیش دیکھ کر ارشاد ہوکہ آج قومیں سب سے زیادہ دین اسلام کی تحقیر وتضحیک پر تلی ہوئی ہیں؟ کن قوموں کے اخبارات نے تصانیف نے اسلام و نبی اسلام ﷺ کے ساتھ تمسخر واستہزاء اپنا شعار بنا رکھا ہے کن قوموں کا تمدن و معاشرت آج نمازیں پڑھتے رہنے اور روزہ رکھتے رہنے ،سود کے حرام سمجھنے ، شراب سے بچتے رہنے ، تعداد ازدواج کے جائز سمجھنے کو ہدف مضحکہ بنائے ہوئے ہے؟ ایسی قوموں کی دی ہوئی عزت کو، خطاب کو ، ملازمت کو قبول کرنے کی اجازت آپ کا مذہب آپ کو کس حد تک دیتا ہے ؟  اس کا جواب کسی باہر کے مفتی سے نہیں خود اپنے اندر کے مفتی سے ، اپنے قلب ’ضمیر‘سے دریافت فرمائیے

اذان کی تحقیر کو اسلام کے دشمنوں کا شعار بتایا گیا تھا آج ان کا نہیں خود آپ کا ، بیگانوں کا نہیں اپنوں کا طرز عمل اس باب میں کیا ہے ؟ آپ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ آپ اذان کی توقیر پر مامور تھے، لیکن آپ کا عمل گواہی دے رہا ہے کہ آپ کے دلوں میں اور سینوں میں توقیر کی جگہ تحقیرنے لے لی ہے جمعہ کی اذان آپ کے کانوں میں آتی ہے لیکن آپ اپنی کرسی چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ؟ مغرب کی اذان آپ سال ہا سال سے سن رہے ہیں پر کب آپ نے ’’حی علی الصلوٰۃ‘‘کی تعمیل میں اپنا ٹینس کھیلنا بند کیاہے؟ یاچمن میں ’’صاحب‘‘کی گارڈن پارٹی کو چھوڑ کر مسجد کی طرف لپکے ہیں؟ عشا کی اذان سنتے سنتے آپ کی اتنی عمر آچکی ، پر کتنی مرتبہ آپ نے اللہ کی کبریائی اور بڑائی کی یہ پکار سن کر ڈنر کی میز کو ضیافت کے پر تکلف دسترخوان کو اور ٹھیٹراور سینماکی نظر فریب لذتوں کو اس کی خاطر ترک کیا ہے ؟دوستوں کا رقعۂ دعوت ، دیہات میں نائی کے ہاتھ کا پیغام ، سرکاری عدالتوں کا سمن غرض ہر شے آپ کی نظر میں اہم اور باوقعت ہے ، بجز ایک اس پکار کے ، جو ہر روز پانچ مرتبہ آپ کو خواب غفلت سے بیدارکرنے کے لیے پاس پڑوس کی مسجد سے بلند ہوتی رہتی ہے !’’خداوندانِ مجازی‘‘کی ہر خواہش ، انکا ہر ارشاد واجب التعمیل اور خداوند حقیقی کے دربارکی ہر پکار ، نذر غفلت ؟’’عشق لیلیٰ‘‘میں سب کچھ حاضر، اور ’’عشق مولی ‘‘میں وہی’’سب کچھ بھی نہیں؟