یتیموں کا والی غلاموں کا مولی۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی

یتیموں کا والی غلاموں کا مولا -
عبد الماجد دریدبادی
تاریخ کے راوی کا بیان ہے کہ جون ۶۳۲ء کی چھ اور ربیع الاول۱۱ھ کی غالبًا ۱۳ تاریخ تھی ۔جب دنیا میں آئی ہوئی روح اعظم مدینہ سے اپنے وطن اصلی کو واپس جارہی تھی ۔وقت بالکل آخر تھا ،سینہ میں غرغرہ شروع ہوچکا تھا کہ لبِ مبارک ہلے او ر آس پاس جو قریبی عزیز اور تیمادار تھے،انہوں نے کان لگادیے کہ اس وقت کوئی بہت اہم وصیت ارشاد ہورہی ہوگی ۔خیال صحیح تھا۔وصیت ارشاد ہوئی ۔لیکن نہ محبوب بیوی حضرت عائشہ ؓ کے لئے تھی ،نہ چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کے لئے ۔اور نہ جاں نثار صحابیوں ،رفیقوں میں سے کسی کے حق میں بلکہ اس مختصر ارشاد کے بول کُل یہ تھے

الصلوۃ وما ملکت ایمانکم نماز اور غلام

یہ کیا ہے ۔نماز تک تو خیر کہ وہ بزرگ ترین عبادت تھی اور سید الانبیاء کو اس کی ہدایت کرنا ہی تھی ۔لیکن یہ غلام کیا معنی ؟ حیات مبارک کے بالکل آخری لمحوں میں فکر اور پروانہ گھر والوں کی تھی ،نہ اس مملکت کی جوابھی نئی نئی قائم ہوئی تھی ۔بلکہ ساری توجہ کے مرکز مظلوم و مجبور غلام قرار پائے۔

اللہ اللہ !یہ خوش قسمت غلام !سوچئے اور ایک بار پھر سوچئے کہ غلام دنیا کی تاریخ کے اس دور میں کیا مرتبہ و مقام رکھتے تھے ؟غلام کو غلامی کے عذاب سے نجات نہ دلا سکے تھے ! شاعرنے اگر ایسے ممدوح کی شان میں کہہ دیا


یتیموں کا والی ،غلاموں کا مولی


تو یقینا شاعری نہیں کی محض تاریخی واقعہ بیانی کی ہے ۔

اور یہ محسن انسانیت وہی ہستی ہے جو زندگی میں فرمایا کرتی تھی کہ

یہ غلام تمہارے بھائی ہیں ۔جو خود کھاتے ہو وہ ان کو کھلاؤ۔۔۔۔۔۔جو خود پہنتے ہو ،وہ ان کو پہناؤ‘‘۔ غلاموں کے ساتھ مساوات کا یہ تخیل ہے جو تاریخ کے اس دور میں کسی کے دماغ میں گزرہی نہیںرکھ سکتا تھا ۔

زید ؓبن حارثہ کا قصہ تو کیوںنہ سننے میں آیا ہوگا۔کسی نصرانی خاندان کے تھے اور ابھی بچپن ہی کا زمانہ تھا کہ کسی جنگ میں قیدی ہوکر آئے ۔حکیم بن حزام جو حضرت خدیجہ ؓکے عزیز تھے ،ملک شام سے انہیں بطور غلام خرید کر لائے اور حضور کی خدمت میں منتقل کردیا ۔۔۔۔۔۔اِدھر آپؐ نے اعلان نبوت کیا اور ادھر وہ ایمان لے آئے ۔آپؐ نے معًا آزاد کر کے غلامی سے اپنی فرزندی میں لے لیا۔ادھر ان کے والد حیران و پریشان پتہ لگاتے لگاتے مکہّ پہنچے اور فرزند دلبندکو پا کر قدرۃً انہیں گھر واپس لے جانا چاہا ۔حضور ؐ نے فرمایا کہ انہیں اختیار ہے۔زید اب اپنی مرضی کے مالک و مختار تھے ۔لیکن دنیا اس واقعہ کو حیرت کے کانوں سے سنے کہ اس آزاد شدہ غلام نے وطن جانے سے انکارکر دیا۔باپ کے ساتھ جانے سے انکار کر دیااور امانِ رسولؐ نہ چھوڑنا تھا نہ چھوڑا۔شفقت ،حسن سلوک اور بندہ نوازی کا یہ اگر ایک اعجازی کارنامہ نہ تھا تو اور کیا تھا؟

ایک انصاری صحابی ابو مسعود نامی تھے ۔ملک کے عام دستور کے مطابق ایک روز اپنے غلام کو مار رہے تھے کہ پیچھے سے آواز آئی

ابو مسعود !تمہیں جتنا اختیاراس غلام پر ہے۔اس سے بڑھ کر اللہ کا تم پر اختیار ہے ۔

صحابی نے مڑکر دیکھا تو کہنے والے حضورانورؐ تھے۔۔۔۔۔اور اس مختصر و بلیغ وعظ کا اثر یہ ہوا کہ معًا انہوں نے غلام کو آزاد کر دیا۔

ایک اور صحابی کی روایت ہے کہ میں نے خدمت نبوی میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ حضرتؐ!میں غلاموں کا قصور کتنی بار معاف کروں؟

کچھ تائل کے بعد ارشاد ہوا کہ

‘‘ہر روز ستّر بار‘‘

کوئی ٹھکانہ ہے رحمتہ للعالمین کی اس وسعتِ کرم و رافت کا ۔

غلاموں کو اصلی احساس کمتری خود لفظ ’’غلام‘‘سے پیدا ہوتا تھا،اور اس ایک لفظ کے اندر ذلت و حقارت کی ایک پوری دنیا آباد معلوم ہوتی تھی۔خلق کے اس معلم اعظم نے اس ذہنی کیفیت کا پورا اور صحیح اندازہ کرکے ارشاد فرمایا کہ

کوئی ان لوگوں کو میری لونڈی نہ کہے بلکہ میرا بچہ یا میری بچی کہہ کر پکارے۔

اور یتیموں کو تو کچھ پوچھئے ہی نہیں۔تاریخ سے جواب دیکھئے کہ دنیا میں عموما اورعرب میں خصوصا اس دور سعادت سے پہلے کیا حالت یتیموں کی تھی اور کیا حالت اس عہد کے بعد ہوگئی۔اس رحمت دوعالم نے ان طریقوں سے یتیموں اور بیچاروں کی دلدہی و دلداری کی اور ایسی شفقتوں سے انھیں نوازا کہ یتیمی بجائے قابل ننگ ہونے کے کچھ قابل رشک ہی نظر آنے لگی!۔۔۔۔۔وہ جو خود درّیتیم تھا ،یعنی ایسا موتی جو سیپ کے اندر اکیلا ہو ۔اور نفاست کے لحاظ سے منفرد و بے بہا اور اپنے بچپن میں یتیمی کی دہری بلکہ تہری منزل سے گزر چکا ۔باپ کی شکل تو دیکھی نہیں اور ماں کا سایہ ۶ برس کے سِن میںاٹھ گیا تھا اور بارہویں سال دادا کی بھی شفقتوں سے محروم ہوگیا تھا،اس نے کمال کے انتہائی مرتبہ پر پہونچ کر دنیا کو یہ پیام پہونچایا کہ جس شخص نے یتیم کو کھانے پینے میں شریک کیا اور اسکا خرچہ اٹھایا تو حشر کے دن سے آگ اور اسکے درمیان پردہ حائل ہوگیا۔اور یہ خوشخبری سنائی کہ جس نے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اسکے لیے ہر بال کے عوض ایک نیکی ہوگی ۔اور اس قانون کا بھی اطلاق کیا کہ مسلمانوں کی بستی میں سب سے اچھا وہ گھر ہے جس میں کوئی یتیم بچہ اچھی طرح پر ورش پارہا ہو اور یہاں تک فرمادیا کہ یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں مجھ سے اسی طرح ملا ہوا ہوگا جس طرح ہاتھ کی دو انگلیاں آس پاس ہوں ۔صلی اللہ علیہ وسلم