اسلام، ادب اور اسلامی ادب - سرفراز فیضی

ادبیات اسلامی
اسلام ، ادب اور اسلامی ادب 
روزنامہ صحافت ممبئی/20فروری کے ایڈیشن میں ساجد رشید صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا۔ مضمون کا عنوان تھا”ادب کا مذہب کیا ہے ؟“مضمون اصل میں سہ ماہی نیا ورق کا اداریہ ہے جو مدیر محترم کے اس نوٹ کے ساتھ شائع کیا گیا ہے:
”ادب اور مذہبی اخلاقیات کے تناظر میں کالم نگار کا سہ ماہی نیا ورق (ممبئی)میں مطبوعہ اداریہ قارئین صحافت کو جماعت اسلامی کے ادب کو مذہبی اقدار کا پابند بنانے کی ایجنڈے کو وسیع تناظر میں دیکھنے کی دعوت دیتا ہے “
ساجد صاحب کے تجزیہ اور ادب کے متعلق ان کے نظریات سے ہم اتفاق نہیں رکھتے اس لیے مناسب سمجھا کہ فری لانسر کے ذریعہ قارئین کی عدالت میں اپنا اختلاف درج کرادیا جائے۔

بنیادی غلطی:

ادب کے متعلق ساجد صاحب کا نظریہ انتہائی محدود ، سطحی ، منفی اور تعصب آمیز ہے ۔ ادب کے متعلق ان کی یہ سطحی سوچ ہی سارے فساد کی جڑ ہے ۔ لکھتے ہیں:
”ادب تھوڑی سی دیوانگی ، تھوڑی سی فرزانگی ، تھوڑی سی تشکیک تھوڑی سی آوارگی اور بے پناہ وفور تخلیقیت کا نام ہے ۔“

پھر اس غیر معروف تعریف کی بنیاد پر یہ نتیجہ بر آمد کرتے ہیں کہ: ” اسلامی ادب کی بحث میرے لیے اس لیے لاحاصل رہی ہے کہ جس شئی کا کوئی وجود ہی نہ ہو اس پر گفتگو عبث ہے ۔ جن عقل کے اندھوں کو یہی نہ پتہ ہو کہ ادب کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے اور ادب کی اخلاقیات مذہب کی اخلاقیات سے کسی طور پر کم تر نہیں ہیں “۔
ظاہر سی بات ہے کہ جب ادب نام ہی دیوانگی ، فرزانگی، آوارگی اور تشکیک کا رکھ دیا جائے تو بھلا اسلام کا اس سے کیا واسطہ ہوسکتا ہے ۔ اسلام تو ایمان، احسان ، کمال فراست اورمکارم اخلاق کی تکمیل کا نام ہے ۔ اگر ادبی تحریروں کو چھانٹنے کے لیے اتنا سمٹا ہوا معیار طے کرلیا جائے تو واقعتا اسلامی ادب جیسی کوئی چیز بر آمد نہیں کی جاسکتی ۔ مضمون نگار کی یہ سکڑی ہوئی سوچ ہی اصل میں ساری خرابی کی بنیاد ہے۔ ساجد صاحب کے تجزیہ کی پوری عمارت اسی سطحی سوچ پر قائم ہے لہٰذا صرف ادب کی اس محدود تعریف اور متعصب نظریہ کی نفی کردینا ان کے پورے تجزیہ کو غلط ثابت کردینے کے لیے کافی ہے ۔

ادب کی تعریف :

ادب عربی زبان کا لفظ ہے اور مختلف النوع مفہوم کا حامل ہے۔ ظہور اسلام سے قبل عربی زبان میں ضیافت اور مہمانی کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ بعد میں ایک اور مفہوم بھی شامل ہوا جسے ہم مجموعی لحاظ سے شائستگی کہہ سکتے ہیں۔ عربوں کے نزدیک مہمان نوازی لازمہ شرافت سمجھی جاتی ہے، چنانچہ شائستگی ، سلیقہ اور حسن سلوک بھی ادب کے معنوں میں داخل ہوئے۔اسلام سے قبل خوش بیانی کو اعلیٰ ادب کہا جاتا تھا۔ گھلاوٹ ، گداز ، نرمی اور شائستگی یہ سب چیزیں ادب کا جزو بن گئیں …(وکی پیڈیا ، زمرہ”ادب“)
کارڈ ڈینل نیومین کہتا ہے:”انسانی افکار ، خیالات اور احساسات کا اظہار زبان اور الفاظ کے ذریعے ادب کہلاتا ہے۔“(وکی پیڈیا ، زمرہ”ادب“)
نارمن جودک کہتا ہے کہ:”ادب مراد ہے اس تمام سرمایہ خیالات و احساسات سے جو تحریر میں آچکا ہے اور جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔“(وکی پیڈیا ، زمرہ”ادب“)
سید عابد علی عابد لکھتے ہیں :
وہ تمام تحریریں اد ب کے کے دائرے میں داخل سمجھی جائیں گی جن کے مطالب کو ذوق سلیم معیاری تصور کرے گا اور جن کا اسلوب نگارش صناعانہ اور فنکارانہ ہوگا کہ حسن صنعت یا فن کی صنعت لازم ہے ۔ (اصول انتقاد ادبیات1960ء: صفحہ29 بحوالہ ادبیات مودودی)
Literature: written works especially those whose value lies in beauty of language or in emotional effect.)Illustrated oxford dictionary(
الأدبہو أحد أشکال التعبیر الإنساني عن مجملعواطفوأفکاروخواطروہواجسالإنسان بأرقی الأسالیب الکتابیة
(وکی پیڈیا ،عربی، زمرہ”ادب“)

اردوتنقید کا المیہ :

ادب کی ان تمام تعریفات سے یہ بات واضح ہے کہ حسین لہجہ اور خوبصورت پیرایہ میں مقصود کے بیان کو ادب کہا جاتا ہے ۔ساجد صاحب کی تعریف نہ صرف یہ کہ شاذ اور ادب کی عام تعریفات کے خلاف ہے بلکہ عقل رکھنے والوں کے لیے مضحکہ خیز بھی ہے ۔ کیسی عجیب بات ہے کہ قلمکار اگر کفر وتشکیک لکھے اور آوارگی اور بے ہودگی پھیلائے گا تبھی اس کا شمار ادیبوں میں کیا جائے گا ۔ اسلام و ایمان اور فراست ودانائی کی تحریروں کو محفل ادب سے باہر کردیا جائے گا۔ اس نظریہ کے دینی اور سماجی نقصانات سے اپنی جگہ ، یہ رجحان خود ادب کے لیے کتنا نقصان دہ ہے اس کا تذکرہ ”ادبیات مودودی“کے موٴلف اور مقالہ نگاران نے اپنے مضامین میں بڑی تفصیل سے کیا ہے ۔ اس کتاب سے کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں :۔

کتاب کے مولف جناب خورشید احمد صاحب کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

” ادب کے نقادوں نے اردو کے علمی نثر سے بحیثیت مجموعی بے التفاتی برتی ہے ۔ نثر کے ان اصناف کو ادب میں شامل کیا ہے جن کا تعلق افسانہ ، ناول ، ڈرامہ ،، انشائیہ اور طنزومزاح وغیرہ سے ہے ۔لیکن مقالہ اور سنجیدہ علمی مضامین کو(محدود ادبی تنقیدی مقالات چھوڑ کر)شعوری یا غیر شعوری طور پر ادب سے خارج تصور کیا گیا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی سنجیدہ علمی نثر کو ادب کے زمرے میں شامل ہی نہیں کیا گیا ۔ اور اگر کیا گیا ہے تو محض وزن بیت کے لیے ۔ اگر دنیا کے دوسرے ادبی حلقوں میں بھی اسی تنگ نظری اور یک رخے پن کا اظہار کیا جاتا تو جہان علم و ادب پورے ادبی ورثہ کے تقریبا ایک تہائی سے محروم ہو جاتا ۔ افلاطون اور ارسطو کے معدودے چند تصنیفات کو چھوڑ کر سب بزم ادب سے نکال دی جاتیں ۔ کار لائل ، رسکن ، جان اسٹورٹ مل ، کارل مارکس ، فریڈرک اینجلز کا شمار ادیبوں میں نہ ہوتا ۔ بیسوی صدی کے ادب میں برنارڈ شا کے ڈراموں کو تو شامل کیا جاتا مگر اس کے شہرہ آفاق مقدمات کو نہیں ۔ جو اس کی کل تحریرات کا تقریبا ایک تہائی ہیں اور جن کاموضوع اس دور کے معاشی ، تمدنی اور فلسفیانہ مباحث ہیں ۔ اسکار والڈ، ڈی ایچ لارسن ، جارج آرول اور ٹی ایم ایلیٹ کے بے شمار مقالات ایوان ادب میں قدم رکھنے کے لائق نہ رہتے ۔ برٹرینڈ رسل اور ونسٹن چرچل جیسے اہل قلم کو تو ادیب ہی تصور نہ کیا جاتا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس ادبی مقاطعہ(literary Ex- communication) کی زد سے بہت کم ہی لوگ بچ سکتے۔(صفحہ 19)

"اردو کی علمی نثر سے تو نقادوں نے عمومی نے اعتنائی برتی ہے مگر دینی ادب کے باب میں یہ بے توجہی اور بھی زیادہ نمایاں ہے ۔ اردو کی تاریخ فورٹ ولیم کالج سے شروع کی جاتی ہے ۔ حالانکہ پہلی نثری تصنیف شاہ اسماعیل شہید کی تقویة الایمان ہے ۔ نیز راہ نجات اور مشکوة ہندی بھی اولین دور کی تصانیف ہیں ۔ شاہ عبد القادر اورشاہ رفیع الدین نے قرآن پاک کے اردو میں ترجمے کیے ۔ یہ ترجمے صرف اردو نثر کی ایک گرانقدر خدمت ہی نہ تھے بلکہ آئندہ کیلیے زبان وادب کے راہنما (Pace Setter)بنے ۔ اردو زبان و ادب کی ترقی میں علماء اور صوفیاء کا خاصہ اہم دخل رہا ہے۔ اسی طرح انیسویں صدی کے مناظراتی ادب نے بھی نثر کی ترقی اور زبان کے استحکام میں ایک اہم حصہ ادا کیا ہے ۔ سر سید اور ان کے رفقاء کی تحریرات ،شبلی اور آزاد کی نثری نگارشات ، مولانا اشرف علی تھانوی ، سید سلیمان ندوی ، اور مولانا عبدالماجد دریابادی کے رشحات قلم اردو نثر کی ارتقاء کے سنگ میل ہیں ۔ ڈپٹی نذیر کے ناولوں کو تو خاظر خواہ اہمیت دی گئی ہے مگر ان کے ترجمہ قرآن اور دینی کتب (مثلا حقوق وفرائض) نے جو ادبی خدمت انجام دی ہے اس کا ذکر نہیں ملتا۔ حتی کہ اقبال کی نظم پر تو سینکڑوں کتابیں اور مقالات لکھے گئے ہیں مگر اس کی نثر کو کوئی قابل ذکر اہمیت نہیں دی گئی ۔" (صفحہ 22)

"دینی ادب اور خصوصیت سے مولانا مودودی کے ادب سے صرف نظر کی ایک اور وجہ تعصب اور گروہ بندی کی وہ فضا ہے جس نے اردو کے جدید ادبی انتقاد کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے ۔ بد قسمتی سے اردو میں جدید ادبی تنقید کی روایت بے لوث علمی اور ادبی ماحول میں پروان نہیں چڑھی ۔ نام نہاد ترقی پسند تحریک نے ادب کو جن خانوں میں بانٹا اور پھر ادبی انتقاد کو جس طرح گروہ بندی اور جنبہ داری سے مسموم کیا وہ اردو ادب کا ایک عظیم سانحہ ہے۔ نثری ادب کا وہ سارا سرمایہ جو دینی افکارکا حامل ہے اس تعصب کا ہدف بنا ۔" (صفحہ 23)

سید ابوالخیر کشفی اپنے مقالہ” مولانا مودودی کی ادبی حیثیت “میں لکھتے ہیں:

"مولانا مودودی کی ادبی حیثیت پر کچھ لکھنے سے پہلے ایک خطرناک ادبی رجحان کی نشاندہی ضروری سمجھتا ہوں ۔ اور وہ یہ کہ کسی تنقیدی کتاب یا جائزہ کو دیکھ لیجیے کہ نثر نگاروں کے ضمن میں اسلام پر لکھنے والے کسی زندہ ادیب کا حال آپ کو شاید ہی کہیں نظر آئے ۔ یہ خطرناک رجحان 1936ء کے لگ بھگ شروع ہوا اور اس کا سلسلہ ختم ہونے کو نہیں آتا…اس رجحان میں ہمیں ایک نہایت ہی شدید تضاد نظر آتا ہے ۔ سرسید جدید ادب کے بانی قرار دیے جاتے ہیں۔وہ سرسید جن کی تصنیفی زندگی کے اہم ترین کارنامے خطبات احمدیہ اور تفسیر قرآن ہیں ۔ صاحب سیرت النبی والفاروق جدید نثر کی زندہ قوت کا درجہ رکھتے ہیں ۔ حالی کے دینی مقالات ادب کے زمرہ میں شامل کیے جاتے ہیں ۔ نذیر احمد کے دینی لکچر اور امہات الامہ ادب کی کتابیں ہیں۔ حسن نظامی کی مذہبی تحریروں کو ادب کے دائرے سے نکالنے کی مجال کسے ہے ؟۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے مذہبی مقالات اور تفسیر ادب کی تاریخ کا باب ہے ۔ لیکن (اور یہ لیکن بہت اہم ہے) ان بزرگوں کے بعد سے اب تک جولوگ دینی موضوعات کو اپناسرمایہ دین ودنیا اورزاد راہ ادب سمجھتے ہیں ۔ ان کے ذکر سے دامن بچایاجاتا ہے ۔ اگر چہ ان کی کی تحریروں میں ادب کے بت ہزار شکوہ کی کتنی ہی ادائیں موجود ہیں ۔ اس فہرست میں مولانا مودودی ، مولانا اسلم جیراج پوری ، مولانا مناظر احسن گیلانی ، جناب غلام احمد پرویز ، مولانا امین احسن اصلاحی ، خلیفہ عبدالحکیم ، مظہرالدین صدیقی اور نعیم صدیقی کے نام زیادہ نمایاں ہیں ۔ "

"ہماری زبان کا فکری پایہ بلند ہوا ہے ۔ ہم پر اس حقیقت کا اظہار ہوا ہے کہ نطریہ کے بغیر ادب میں قوت اور عظمت پیدا نہیں ہوتی۔ خواہ وہ نظریہ اسلام ہو یا جمہوریت اور اشتراکیت ۔ یہ بات ایک ادبی سازش ہے کہ اشتراکیت یا ادب کے چند عمومی پہلو وں پر ایک مقالے لکھ کر ڈاکٹر عبدالعلیم اور سبط حسن تو ادیبوں کی صف میں جگہ پالیں ۔ اور وہ لوگ جن کی فکر ونظر کا سرمایہ ہزاروں صفحات پر پھیلا ہوا ہمیں وحدت فکر ونظر دیتا ہے۔ ان کے وجود کو ہم تسلیم نہ کریں ۔ یہ نقطہ نظر امریکہ کو مبارک ہو جسے سرخ چین جیسا وسیع ملک بھی نظر نہیں آتا۔ ادب میں اس تنگ نظری کی گنجائش نہیں ۔ ادب تو ایسا معشوق ہے جو ہزار روپ دھارتا ہے اور ہمیں ہر روپ میں اسے پہچاننا پڑتا ہے ۔ ع

عاشق ہے تو معشوق کو ہر روپ میں پہچان

اس رجحان کادوسرا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہم نثری ادب کو ناول، افسانہ ، ڈرامہ تنقید وغیرہ چند اصناف تک محدود کیے دے رہے ہیں ۔ یہاں بھی تضاد ملاحظہ ہو کہ گنج خوبی (میرامن) تاریخ ہندستان(ذکاء اللہ) الکلام ، شبلی وغیرہ کو ہم اپناادبی سرمایہ اورتہذیبی میراث گردانتے ہیں…ادب کی نئی حد بندی سے ہمارا دب محدود ہوتا جارہا ہے اورہم اس کا احساس بھی نہیں کرتے ۔ "(صفحہ173-175)

مسلمانوں کا ادب بھی مسلمان ہونا چاہیے :

پھر اس بحث سے قطع نظر کہ اسلامی ادب موجود ہے یا نہیں یہ بات تو مسلم ہے کہ ادب ادیب کے ضمیر کی آواز ، اس کے عقیدہ کا اظہار اور اس کی فکر کا ترجمان ہوتا ہے ۔ لہذا ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ادیب خود مسلمان ہواور اس کاادب اسلام کے خلاف۔ ادیب کی فکر اسلامی ہو اور اس کاادب غیر اسلامی ۔ اس کا عقیدہ اللہ اوراس کے رسول پر ایمان ہو اور اس دعوت تشکیک ہو ۔ وہ خود تو اعلی اسلامی اخلاق کا حامل ہو لیکن نظم و نثر میں وہ غیر اسلامی اخلاق کو ہوا دے ۔ ذاتی زندگی میں تو وہ اللہ اور اس کے رسول کا فرمابردار اور ان کو معیار حق سمجھنے والا ہو۔ لیکن جب وہ ادب تخلیق کرنے بیٹھے تو اس کا معیار کچھ اور ہو جائے ۔فکرو عمل اور اظہار و نظریہ کا یہ تضاد اسلامی ، اخلاقی اور ادبی کسی بھی حوالہ سے مستحسن نہیں سمجھاجاسکتا۔ ادب کا ختنہ کیسے کیا جاسکتا ہے یہ تو ساجد رشید صاحب ہی بتا سکتے ہیں ۔پر ہم اتنا ضرورجانتے اور مانتے ہیں کہ ادب کو کلمہ پڑھایا جاسکتا ہے اور پڑھایا جانا چاہیے ۔ مسلمانوں کا ادب بھی مسلمان ہی ہونا چاہیے ۔

ادب کا مقصد

یہ بحث ادب میں بڑی قدیم ہے کہ ادب کا مقصد صرف تفریح طبع اور تسکین نفس ہونا چاہیے جسے کہ اصطلاح میں ادب برائے ادب یا ادب برائے تفریح کانام دیا جاتا ہے یا اس سے آگے بڑھ کر ادب کو معاشرہ اور سماج کی تشکیل اور اس کی افادیت کی نموکے لیے استعمال کیا جانا چاہیے ۔ وہ لوگ جو انسان کے وجود ہی کو بے مقصد سمجھتے ہوں وہ بھلا ادب کو کسی مقصد کے تابع کیوں کرسکتے ہیں۔لیکن بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ماننا ہے کہ انسان کا مقصد اس دنیا میں اللہ کی رضا کی طلب اور اس کے دین کی سرفرازی ہے ۔ مسلمان اس زمین خیر کانمائندہ اور شر کا دشمن بناکر بھیجا گیا ہے ۔ لہذا اس کا ہر عمل اس عظیم مقصد کے تابع ہونا چاہیے ۔ مسلمان زندگی کے کسی مرحلے میں اس عظیم مقصد سے لا پرواہ نہیں ہوسکتا ۔ زندگی کے ہر موڑپر اسے اس کی تکمیل کیلیے موقع کی تلاش ہونی چاہیے ۔ ایک عظیم مقصد کیلیے پیدا کی گئی مخلوق کا کوئی عمل بے مقصد نہیں ہوسکتا۔

اسلام تفریح کے خلاف نہیں

اسلام تفریح کے خلاف نہیں۔لیکن یہ تفریح بھی اسلام کے خلاف جاکر نہیں ہوسکتی ۔ اسلام نے کسی معاملہ میں مسلمان کو تہی دست نہیں چھوڑا ۔ ایک مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ زندگی کے ہر مسئلہ میں اسلام سے رہنمائی حاصل کرے اور اللہ کے بنائے ہوئے حدود میں رہ کر زندگی کے ہر معاملہ کو ڈیل کرے ۔ پھر وہ تجارت و سیاست کے شعبے ہوں یا آرٹ اور فنون لطیفہ کی شاخیں ۔ مسلمان زندگی کے کسی موڑ پر اللہ کے حکم سے سرتابی کرکے نہ دنیا میں صلاح حاصل کرسکتا ہے نہ آخرت میں فلاح کا حقدار بن سکتا ہے ۔
اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو ، اللہ سے ڈرو، بلا شبہ اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ۔

اسلامی ادب بمقابلہ جاہلی ادب

خیر کے حتی الوسعت فروغ اور شرکی حتی الامکان ناکہ بندی کا نام اسلام ہے ۔ خیر خواہ کسی قسم کا ہو اسلام کا حصہ اور شر کسی نوعیت کا ہو اسلام اس کا مخالف ہے ۔ لہذا ہر وہ ادب جو اسلام کے اس مقصد کی تکمیل کرے اسلامی ادب کہلائے گا۔ اور ساتھ ساتھ یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ اسلام کے خلاف جو کچھ بھی ہے جاہلیت ہے۔ لہذا ہر وہ ادب جو اسلام کے خلاف کسی نظریہ ،کسی ضابطہ اخلاق یا کسی انفرادی یا اجتماعی عمل کی دعوت دے رہا ہو اپنی اصل کے اعتبار سے جاہلی ادب کہلائے جانے کا مستحق ہے ۔ ادب کی ان دونوں شاخوں کے درمیان وہی فرق ہے جو اسلام اور اس کے مقابلے میں تمام جاہلی ادیان میں ہے۔

توکیا جو اپنی رب کی طرف سے دلیل پر ہے اس کے برابر سمجھا جائے گا جس کے برے اعمال اس کیلیے مزین کردیے گئے ہیں اور وہ اپنی آرزووں کی پیروی میں مگن ہے ۔

اخلاقیات میں معیار کون؟

یہاں ایک بات یہ بھی واضح ہوجانی چاہیے کہ اسلامی نظریہ کے مطابق انسان نہ اس بات کا ذمہ دار ہے اور نہ مستحق کہ وہ اپنے طور پر صحیح اور غلط اخلاق کے تقسیم کرلے ۔ اورنہ ہی کسی انسان بنائے ہوئے اخلاقی نظام میں کوئی ایسی وجہ ہوسکتی ہے کہ اسے عوام کے سامنے دلیل بناکر پیش کیا جاسکے ۔ اللہ انسان اور اس اعمال کاخالق ہے ۔ انسان کی نفسیات کو بھلااس سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی نہیں جس کے پاس انسانی اعمال کے اچھے برے نتائج کاحتمی علم ہو ۔ لہذا وہ اکیلا اس بات کا مستحق ہے صالح اور غیر صالح اخلاق کے درمیان حد قائم کرے اور اکیلا اس بات کا بھی حقدار ہے کہ اس کے قائم کردہ حدود کی پاسداری کی جائے۔ اور اس کے نازل کیے ہوئے نظام کی نشر واشاعت اور دعوت تبلیغ کے لیے زندگیا ں وقف کی جائیں ۔

اور جو اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کرے گا اللہ کے یہاں وہ قبول نہیں کیا جائے گااور اس کا شمار آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا.