فن ادب اور ادبی تخلیق - ابوالبشر احمد طیب

فن ادب

فن ادب اور ادبی تخلیق
یہ حقیقت ہے کہ انسانیت اور انسانی معاشرت  فلسفہ اور سائنس پر نہیں بلکہ جذبات پر قائم  ہے ، فرض کریں ایک بڈھے شخص کا بیٹا مرگیا ہے اور لاش سامنے پڑی ہے ، یہ شخص اگر سائنسدان سے رائے لے تو جواب ملے گا کہ ایسے اسباب جمع ہوگئے جن کی وجہ سےدوران خون یا دل کی حرکت بندہوگئی ، اسى کا نام موت ہے ، یہ ایک مادی  حادثہ ہے لہذا رونا دھونا بےکار ہے ، رونے سے وہ دو بارہ زندہ نہیں ہوگا۔ لیکن کیا سائنسدا ن خود اس اصول پر عمل پیرا ہوسکتا ہے ، بچوں کا پیار ، ماں کی مامتا ، محبت کا جوش ، غم کا ہنگامہ ، موت کا رنج ، ولادت کی خوشی ، کیا ان چیزوں کو سائنس سے کوئی تعلق ہے ، لیکن یہ چیزیں اگر مٹ جائیں تو زندگی میں سناٹا چھاجائے گا ، اور دنیا قالب بے جان ، شراب بے کیف ، گل بےرنگ ، گوہر بے آب ہوکر رہ جائیگی ، دنیا کی چہل پہل ، رنگینی ، دلآویزی ، دلفریبی ، سائنس  اور فلسفہ کی وجہ سے نہیں بلکہ انسانی جذبات کی وجہ سے ہے جو عقل کی حکومت سے تقریبا آزاد ہیں ۔

 فن ادب یا تخلیق ادب کو جذبات ہی سے تعلق ہے  اس لیے تاثیر اس کا عنصر ہے ، ادب ہر قسم کے جذبات کو برانگیختہ کرتا ہے ، اس لیے رنج ، خوشی ، جوش ، استعجاب ، حیرت  میں جواثر ہے وہی ادب میں ہے ، باد سحر کی جھونکے ، آب رواں کی رفتا ر ، پھولوں کی شگفتگی ، غنچوں کا تبسم ، سبزہ کی لہلہاہٹ ، خوشبؤں کی لپٹ ، بادل کی پھوہار ، بجلی کی چمک ، یہ منظر آنکھ کے سامنے ہو تو دل پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، شاعر یا انشا پرداز ان مناظر کو بعینہ پیش کردیتا ہے تو  دل پر ان کا اثر ہوتا ہے ۔  ادب صرف محسوسات کی تصویر نہیں کھینچتا ، بلکہ جذبات اور احساسات کو بھی پیش نظر کردیتا ہے ، اکثر عام انسان اپنے جذبات سے خود واقف نہیں ہوتے اگر ہوتے ہیں تو صرف دھندلاسا نقش نظر آتا ہے ، شاعر یا انشا پر داز ان پس ِپردہ چیزوں کو پیش نظر کردیتا ہے ، دھندلی چیزیں چمک اٹھتی ہیں ، مٹا ہوا نقش اجاگر ہوجاتا ہے ،یہاں تک کہ روحانی تصویر جو کسی آئینہ کے ذریعہ ہم نہیں دیکھ سکتے ، ادب ہمیں دکھا دیتا ہے ۔ 

دنیا کا کاروبار جس طرح چل رہا ہے اس  کا اصل فلسفہ خود غرضی اور اصول معاوضہ ہے ،  اس فلسفہ سے عمل کی قوت بڑھ جاتی ہے ، کاروبار کو ترقی ملتی ہے ، دولت کی بہتا ت ہوجاتی ہے ، لیکن تمام انسانی جذبات مرجاتے ہیں ، لطیف اور نازک احساسات فنا ہوجاتے ہیں،عشق و محبت برباد ہوجاتے ہیں ، اور تمام دنیا ایک بے حس مشین  بن جاتی ہے ، جو  خود غرضی کی قوت سے چل رہی ہے ، سائنس اور مشاہدات کی ممارست ہمیں سخت دل اور کٹر بنادیتی ہے ، فلسفہ سے تمام معتقدات او ر مسلمات عامہ  کی دل میں حقارت پیدا ہوجاتی ہے۔ کسی بات پر اعتبار نہیں آتا ، کسی چیز کا ا ثر نہیں رہتا ، مادہ کے سوا تما م چیزوں کی حکومت دل سے اٹھ جاتی ہے ، اس حالت میں فن کار، ہمارے دل کو رقیق اور نرم کرتا ہے ، جس سے تسلیم ، اثر پذیری ، اور اعتقاد پیدا ہوتا ہے ، مادیت کے بجائے روحانیت قائم ہوتی ہے ، وہ ہمیں عالم تخیل میں لے جاتا ہے  جہاں تھوڑی دیر کے لیے مشاہدات کی بےرحم حکومت سے ہمیں نجات مل جاتی ہے ۔  ہمارے شریفانہ جذبات کو تروتازہ کرتا ہے ، وہ محسوسات کے دائرہ سے نکال کر ہمیں ایک اور وسیع اور دلفریب عالم میں لے جاتا ہے ، وہ ہمیں بے لاگ اور بے غرض دوستی کی تعلیم دیتاہے ، ہمیں سچی خوشی اور سچی مسرت دلاتا ہے ، جب کہ کاروبار کے ہجوم ، مقابلہ کی کشمکش ، معاملات کی الجھن ، ترددات کی دار و گیر سے دل باکل ہمت ہار دیتا ہے، جب کہ دولت اور امارت کی سحر کاریاں ہمارے دل کو رشک اور حسرت سے بھر دیتی ہے ، سلاطین اور امراء کی نظر فریب زندگی ہمارے دل پر رشک کے چرکے لگاتی ہے اس وقت  فن کار کا فن  مجسم اطمینان بن کر ہمارے سامنے آتا ہے  وہ کہتا ہے :

دُنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یا رب!
کیا لُطف انجمن کا جب دل ہی بُجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکُوت جس پر تقریر بھی فدا ہو

شرابِ کُہن پھر پِلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا!

ادب ایک قوت ہے ، اس سے بڑے بڑے کام لیے  جا سکتے ہیں ، بشرطیکہ اس کا استعمال صحیح طور سے کیا جائے ۔  عرب میں شاعری کی ابتداء رجز سے ہوئی ، میدان جنگ میں فخریہ موزوں فقرے ان کی زبان سے نکلتے تھے یہ دو چار شعر سے زیادہ نہیں ہوتے تھے ۔ لیکن طبل جنگ کا کام دیتے تھے ، اس کے بعد دیگر اصناف شروع ہوئیں ۔ جیسے مرثیہ ، مدح ، ہجو  وغیرہ ۔ عرب میں شاعری کا یہ درست استعمال تھا وہ قوم کو جدھر چاہتے تھے جھونک دیتے تھے ، اور جدھر سے چاہتے تھے روک لیتے تھے ۔

اسی طرح شریفانہ وصف پیداکرنے کے لیے ادب سے زیاہ بہتر کوئی آلہ نہیں ہوسکتا ۔ علم اخلاق ایک مستقل فن ہے ہر زبان میں اس پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں ، لیکں اخلاقی تعلیم کےلیے ایک شعر ایک ضخیم کتاب سے زیادہ کا م دے سکتا ہے ۔ ادب ایک مؤثر چیز ہے اس لیے جو خیال اس کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے ، دل میں اتر جاتا ہے ۔ اور جذبات کو برانگیختہ کر تا ہے  ۔ اگر ادب کے ذریعہ شریفانہ جذبات مثلا ، شجاعت ، ہمت ، غیرت ، حمیت ، آزادی  کو ابھارا جائے تو اور کوئی طریقہ اس کی برابری نہیں کرسکتا ۔ عرب ایک سخت مفلس اور جاہل قوم تھی ، رات دن آپس میں لڑتے اور کٹتے مرتے تھے ، اس کے باوجود ان میں سچائی ، ایفائے عہد ، مہمان نوازی ، جود و سخا ، ہمت و غیرت جیسے اوصاف پائے جاتے تھے ۔

حضرت عائشہ (رض) جب حضرت عثمان (رض) کے خون کے دعوے سے جناب امیر المؤمنین علی ( رض) سے معرکہ آرا ہوئیں ، اور ان کی فوج میں شکست کے آثار پیدا ہوئے تو قبیلہ ضبہ کے ایک شخص نے بڑھ کر ان کے اونٹ کی مہار پکڑلی ، اور یہ اشعار پڑھے :


نحن بنو ضبة اصحاب الجمل                 ہم قبیلہ ضبہ کے لوگ ہیں ہم کو موت شہد سے زیادہ

الموت أحلى عندنا من العسل                شیریں معلوم ہوتی ہے ، ہم عثمان (رض) کے مرنے

ننعى ابن عفان باطراف الأسل               کی خبر پرچھی کی زبان سے سناتے ہیں ، ہمارے شیخ

ردوا علينا شيخنا ثم بجل                      عثمان (رض) کو واپس دے دو پھر کچھ جھگڑا نہیں

یہ شخص خود لڑکر مارا گیا ، لیکن یہ حالت ہوئی کہ پے درپے بڑے بڑے سردار آگے بڑھتے تھے ،حضرت عائشہ (رض) کے اونٹ کی مہار تھام کر لڑتے تھے ، اور مارے جاتے تھے تقریبا ڈیڑھ سو آدمیوں نے اس طرح جانیں دیدیں ۔

ادبی تخلیق


ادبی تخلیق ایک وجدانی  اور ذوقی چیز ہے ۔ خدا نے انسان کو  مختلف  اعضا اور مختلف قوتیں دی ہیں ، اور ان میں سے ہر ایک کے فرائض الگ الگ ہیں ، ان میں سے دو قوتیں، ادراک  اور احساس  تمام انسانی تگ ودو  کا سرچشمہ ہیں۔ ادراک کا کام ، اشیاء کے بارے میں جاننا اور استدلال و استنباط سے کام لینا ہے ، ہر قسم کی ایجادات ، تحقیقات ، انکشافات اور تمام علوم و فنون اسی کی بدولت  ہیں ۔

احساس کا کام کسی چیز کے بارے میں صرف علم حاصل  کرنا ، یا کسی مسئلہ کا حل  تلاش کرنا   نہیں ہے ، اس کا کام یہ ہے کہ جب کوئی  واقعہ پیش آتا ہے تو ایک حساس  انسان اس سے متاثر ہوجاتا ہے ، غم کی حالت میں  اس کوصدمہ ہوتا ہے ، خوشی میں سرور ہوتا ہے ، حیرت انگیز بات پر تعجب ہوتا ہے ، یہی وہ انسانی قوت ہے جس کو احساس کہاجاتا ہے ۔ جب یہ الفاظ کا جامہ پہن لیتا ہے تو اس کو ادبی تخلیق سے تعبیر کیا جاتاہے ۔  جو جذبات الفاظ کے ذریعے ادا ہوں وہ ادبی تخلیق ہیں ۔ چونکہ الفاظ سامعین کے جذبات پر اثر انداز ہوتےہیں  اس لیئے سننے اور پڑھنے والوں پر بھی وہی اثر طاری ہوتا ہے جو صاحب جذبہ کسی  ادیب یا شاعر کے دل پر طاری ہوتا ہے ۔ اس لئے ادبی تخلیق وہ کلام  یا تحریر ہے جو انسان کے جذبات کو برانگیختہ کرے اور ان کو تحریک میں لائے ۔

جوچیزیں دل پر اثر کرتی ہیں بہت سی ہیں ، موسیقی ، مصوری ، مجسمہ سازی ،  صنعت گری وغیرہ ،  لیکن ادب کی اثر انگیزی  سب سے زیادہ وسیع ہے ، موسیقی صرف قوت سماعت کو محظوظ کر تی ہے ، اگر قوت سماعت نہ ہو تو کچھ کام نہیں آسکتی ، اسی طرح تصویر  اور مجسمہ سے متاثر ہونےکے لیے بینائی ضروری ہے ۔  لیکن ایک ادبی فن پارہ تمام حواس پر اثر کرتا ہے ۔ اورتمام حواس  اس سے لطف اٹھاسکتے ہیں ۔ جب تک کوئی محبوب یا کوئی منظر یا کوئی  واقعہ  آنکھوں کے سامنے نہ ہو ، آنکھ اس سے حظ نہیں اٹھاسکتی ۔ لیکن ایک ادیب یا شاعر جب ، محبوب کی کسی ادا کو ، یا  کسی منظر کو   الفاظ  کا جامہ پہناتا ہے  تو  دیکھے بغیر  ہی سامع یا  قاری ان سے حظ اٹھاتا ہے ۔ ایک ادیب اور سائنسدان  میں اس اعتبار سے فرق ہے کہ سائنسدان استدلال اور استنباط سے کام لیتا ہے جبکہ ادیب انسانی جذبات کو بیدار کرتا ہے ، سائنسدان  ہماری عقل کے سامنے کوئی مسئلہ پیش کرتا ہے ۔ لیکن ادیب ہمارے احساسات کو تحریک دیتا ہے ۔

  ادب کی مختلف اصناف ہیں جیسے خطبہ ، داستان ، افسانہ ، ڈراما، شاعری وغیرہ ، خطبہ کا تعلق صرف کلام سے ہے اس کا تعلق تحریر سے نہیں ، اس کے علاوہ  باقیوں کا تعلق تحریر سے ہے ۔ ادبی  تحریر  یا ادبی تخلیق کی دو مشہور صنف ہیں نثری ادب اور نظم، دونوں  کی  اپنی اپنی خصوصیات اور امتیازات ہیں ۔ ایک افسانہ نگار اردگرد کے ماحول ، حالات و واقعات کا گہرائی سے مطالعہ اور  مشاہدہ کرتا ہے ، ایک ایک جزئیات کا باریک بینی سے جائزہ لیتا ہے ۔ اسی طرح  ڈراما نگار کرتا ہے ۔ لیکن  شاعر ان سے مختلف ہوتا ہے وہ بیرونی حالات وواقعات سے زیادہ اندرونی جذبات و احساسات کی نیرنگیوں کا ماہر اور تجربہ کار ہوتا ہے ۔ شکسپیر کو سب سے بڑ ا شاعر مانا جاتا ہے  اس کی  وجہ یہی ہے کہ اس نے ہر طبقہ کے لوگوں کے اخلاق و عادات کی تصویر کھینچی ہے ۔  اگرچہ کبھی کبھی شاعر کسی خارجی واقعہ کو شاعری میں بیان کرتاہے  لیکن وہ افسانہ نگار یا ڈراما نگار کی طرح ایک ایک جز کی تصویر کشی نہیں کرتا ، بلکہ وہ  اس  واقعہ یا منظر کی تصویر کشی کرتا ہے جو ہمارے جذبات پر  اثر ڈالتا ہے ۔  وہ اشیاء کی سادہ خدوخال کی تصویر نہیں کھینچتا بلکہ ان میں تخیل کی مدد سے رنگ بھر تا ہے تاکہ وہ مؤثر بن جائے۔  

ایک عمدہ ادبی تخلیق میں بہت سی خصوصیات پائی جاتی ہیں ، اس میں واقعہ نگاری ، تصویر کشی ،  منظر نگاری ، خیال بندی ، لفظوں کی بندش ، موسیقیت ، موزونیت ،قافیہ بندی ،   جدت تعبیر یہ سب ایک ادبی تخلیق کی مختلف خصوصیات ہیں ۔  ہر صنف ادب کی کچھ خاص خاص خصوصیات ہیں جو دوسروں میں نہیں   ہیں ۔  شاعر کسی واقعہ یا منظر کا  اس خاص پہلو  کو بیان کرتا ہے  یا اپنے خیالات اور جذبات کے اس پہلو کا  اظہار کرتا ہے جو ہمارے جذبات و احساسات کو متاثر کرے باقی تفصیلات کو  وہ نظر انداز کردیتا ہے ۔ البتہ ایک افسانہ نگار واقعہ کا  ایک ایک جزء  بیان کرتا ہے ۔ وہ واقعات اور مناظرکے تمام پہلؤں  کی تصویر کشی کرتا ہے  ۔ ایک  شعر کی مدد سے شاعر  ہمارے جذبا ت کو ایک مصور سے زیادہ متاثر کرتا ہے ۔ سبزہ پر شبنم دیکھ کر  جو اثر نہیں پیدا ہوسکتا وہ ایک شعر سے پیدا ہوسکتا ہے ۔ مثلا ایک شاعر کہتا ہے :

کھاکھا کے اوس اور بھی سبزا ہرا ہوا                         تھا موتیوں سے دامن صحرا بھراہوا

اسی طرح  ایک فن کار اور خطیب میں بھی  فرق ہوتا  ہے ، فن کار  اپنے جذبات کو الفاظ کا جامہ پہناتا ہے جبکہ خطیب اپنے الفاظ میں  سامعین کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور ان کے احساسات اور جذبات کو متحرک کرتا ہے  ۔

ادبی  اسلوب


مختلف مضامین کے اعتبارسے  ادیب اور شاعر کا لب و لہجہ مختلف ہوتا ہے ۔ درد ، غم ، خوشی ،  جوش ، غیظ و غضب  ہرایک کے اظہار کا انداز مختلف ہوتا ہے ۔ ادب کا اصل مقصود طبیعت کا انبساط  اور تحرک ہے ، یہ اس وقت ممکن ہے جب کسی  مضمون کے بارے میں بیان کیا جائے تو وہ مجسم ہوکرقاری یا سامع  کے سامنے آجائے ۔ یا جس چیز کے بارے میں  بیان مقصود ہو اس کی تمام جزئیات کا احاطہ کیا جائے ۔ مثلا اگر احباب کی مفارقت کا واقعہ لکھنا ہے تو ان تمام جزئی حالات اور کیفیات کو بھی  بیان کرنا چاہیئے جو اس وقت پیش آتی ہیں ۔ یعنی اس حالت میں ایک دوسرے کی طرف کس نگاہ سے دیکھتا ہے ؟ کس طرح گلے مل کر روتا ہے ؟ کس قسم کی درد انگیز باتیں کرتا ہے ؟ کن باتوں سے دل کو تسلی دیتا ہے ؟ رخصت کے وقت بے ساختہ کیا کیا حرکات صادر ہوتے ہیں ؟ آغاز میں جو کیفیت تھی کس طرح  بتدریج بڑھتی جاتی ہے ؟ حاضرین پر اس سے کیا اثر پڑتا ہے ؟ ان باتوں میں سے ایک بات بھی رہ گئی تو مضمون اور اظہار  کی مطابقت میں کمی رہ جائے گی ۔

اسی طرح  جب کسی قوم ، یا کسی ملک ، یا کسی مرد یا عورت یا بچہ کی حالت بیان کی جائے تو ان کی تمام خصوصیات کا  لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔ مثلا اگر کسی بچہ کی کسی بات کی نقل کرنی ہو تو بچوں کی زبان کا طرز ادا ، خیالات ، لہجہ  کا لحاظ رکھنا چاہئیے ، مثلا  میر انیس  کے مرثیہ میں ایک موقع پر  جب اہل بیت نہایت گرمی میں کربلا کو روانہ ہوئے اور سکینہ حضرت امام حسین (رض) کی صاحبزادی ، اپنے چچا عباس (رض)  کو گرمی کی شکایت کرتی ہیں ۔ شاعر نے اس بند میں بچوں کی طرز گفتار اور خیالات کی تمام خصوصیات  ملحوظ رکھا ہے ۔

چلاتی ہے سکینہ اچھے مرے چچا                             محمل میں گھٹ گئی مجھ کو گودی میں لوذرا

بابا سے کہدو اب کہیں خیمہ کریں بپا                       ٹھنڈی ہوا میں لیکے؎ چلو تم پہ میں فدا

شاعر یا ادیب کا احساس نہایت لطیف ہوتا ہے، تیز اور مشتعل  ہوتا ہے ، عام لوگوں کے جذبات بھی خاص حالات میں مشتعل ہوجاتے ہیں مثلا اگر کسی عورت کا جوان بیٹا مر گیا ہے تو کس طرح موت کو کوستی ہے ۔ اس کو لگتا ہے آسمان ،زمین سب اس کے دشمن ہیں ،  شاعر یا ادیب کے احساسات و جذبات اس سے بھی زیادہ سریع الانفعال ، سریع الحس اور زود اشتعال ہوتے ہیں ۔واقعات عالم پر جب وہ عبرت کی نگاہ ڈالتا ہے ، تو ایک ایک ذرہ ناصح بن کر اس کو اخلاق و عظمت کا درس دیتا ہے ۔ مثلا ایک شاعر عالم شوق میں پھول ہاتھ  میں اٹھالیتا ہے تو اس کو صاف معشوق کی خوشبو آتی ہے اس  سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے  : ع  
    
 اے گل بتو خرسندم تو بوئے کسے داری 

یہ باتیں عام لوگوں کی زبان سے اداہو تو  اس کو مجنون کہا جائے گا ۔ لیکن شاعر اس انداز سے کہتا ہے کہ پڑھنے اور  سننے والوں پر اثر ہوتا ہے ۔ گویا شاعر اور ادیب کے استدلال کا طریقہ عام لوگوں سے مختلف ہوتا ہے ، جوباتیں مسلمات میں سے ہیں ان کو ادیب یا شاعر ایک نئے طریقے سے ثابت کرتا ہے ، سننے یا پڑھنے والے ان باتوں کی صحت یا غلطی کی طرف توجہ نہیں کرتے بلکہ ان کی دلفریبوں سے مسحور ہوجاتے ہیں ۔ اسی طرح علت و معلول اور اسباب  و نتائج کا جو عام سلسلہ ہے ایک تخلیق کار کی نظر میں  الگ ہوتا ہے ، اس کے نزدیک  ہرچیز کی غرض وغایت وہ نہیں  جو عام لوگ سمجھتے ہیں ۔ تخلیق کار اپنی قوت تخیل سے ایک ایک چیز کو سوسو دفعہ دیکھتا ہے ،  ہر دفعہ اس کو اس میں ایک نیا کرشمہ نظر آتا ہے ، پھولوں کی خوشبو کو  ہر انسان نے سونگا ہے لیکن شاعر کو اس میں معشوق کی خوشبو آتی  ہے وہ اس کی خوشبو سے لطف اٹھا تا ہے۔

ادبی تخلیق کی جان ہی اسلوب یا طرز ادا ہے ، شاعری یا انشاپردازی میں جادوگری  اسی طرز ادا اور  جدت تعبیر پر موقوف ہے ، یہ ایک ذوق چیز ہے ، جس کا  درست ادراک ذوق سے ہوسکتا ہے ، اس کا پیرایہ ہر جگہ الگ ہے اور اس قدر غیر محصو ر ہے کہ نہ اس سب کا شمار ہوسکتا ہے ، نہ ان میں کوئی خاص قدر مشترک ہے ،   اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک مرتبہ حجاج بن یوسف  نے ایک بدو سے پوچھا کہ تم سے کوئی راز کی بات کہی جائے تو اس کو چھپا سکتے ہو یا نہیں  ، اس نے کہا کہ " میرا سینہ راز کا مدفن ہے " گویا اس نے کہ کہا  راز  میرے سینہ میں مرکر رہ جاتا ہے سینہ سے کیسے نکل سکتا ہے ،اس بات کو اگر یوں بیان کرتا کہ " میں راز کو کسی حالت ظاہر نہیں کرتا "  تو ایک عام سی بات ہوتی ، لیکن طرز ادا ، اور جدت تعبیر سے ایک لطف اور تاثر پیدا ہوگیا ۔ 

ادب اور تخیل (فکشن)


ایک ادیب ہو یا شاعر قوت تخیل سے کام لیتا ہے ، تخیل کی مدد سے وہ ایک نئی ٰخیالی دنیا آباد کرتا ہے ایک ادبی تخلیق کار کے سامنے تمام بے حس اشیاء جاندار بنجاتی ہیں۔ اس کے کانوں میں ہر طرف سے خوش آئندصدائیں آتی ہیں ، زمین ، آسمان ،ستارے بلکہ ذرہ ذرہ اس سے باتیں کرتا ہے ۔ قوت تخیل کی مدد سے تخلیق کار ایک نیا دعوی کرتا ہے او ر فرضی دلائل پیش کرتا ہے ممکن ہے کہ ایک فلسفی ، منطقی اور عالم  اس کی دلیل تسلیم نہ کرے ۔ لیکن وہ ان سے مطلق تامل نہیں کرتا ۔ تخلیق  کار یا  شاعر قوت تخیل کی مدد سے تمام اشیاء کو نہایت دقیق نظر سے دیکھتا ہے اس کی ایک ایک خاصیت اور وصف پر نظر ڈالتا ہے ۔ ان کے باہمی تعلقات پر نظر ڈالتا ہے ، ان کے مشترکہ اوصاف کو ڈھونڈھتا ہے، ان سب کو ایک سلسلہ میں مربوط کرتا ہے ، کبھی اس کے برخلاف جو یکساں اور متحد خیال کی جاتی ہیں ، ان کو زیادہ نکتہ سنجی سے دیکھتا ہے اور ان میں فرق اور امتیاز پیدا کرتا ہے ۔  مثلا ایک فارسی شاعر شب وصل اور صبح وصل سے یوں خطاب کرتا ہے :

اے شب ! اگرت ہزار کاراست مرو                      اے رات تجھ کو ہزاروں کا م سہی لیکن نہ جا

وے صبح گرت ہزار شادی است مخند                   اے صبح ! تجھ کو ہزاروں خوشیاں سہی لیکن مت ہنس

قوت تخیل کے لیے معلومات اور مشاہدات کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کوئی خیال مشاہدات اور واقعات کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا ، جن چیزوں کو ناممکن کہاجاتا ہے ان کا خیال بھی درحقیقت ممکن ہی کے مشاہدہ سے پیدا ہوا ہے ۔ شاعری میں اکثر ناممکنات یا غیر موجود چیزوں سے کام لیاجاتاہے ۔ عربی زبان کا معروف شاعر ابونواس شراب کی تعریف میں  کہتا ہے :

حصباء در على أرض من الذهب               سونے کی زمین پر موتی کے خزف ریزے ہیں ۔

یقینا یہ سب چیزیں فرضی ہیں لیکن ان کا  خیال واقعی  موجود چیزوں سے پیدا ہوا ہے۔ مثلا آگ اور دریا الگ الگ دو مختلف متضاد چیزیں ہیں انہیں دونوں کو ملاکر ایک الگ خیال" دریا ئے آتش" ایک خیالی فرضی مفہوم پیدا کرلیا گیا ہے ۔ اس لیئے تخیل کی وسعت کے لیے ایک تخلیق کار کے لیے  واقعات کا مشاہدہ ہر حال میں  لازمی ہے ۔

ابن الرومی کو ایک دفعہ کسی نے طعنہ دیا کہ تم ابن المعتز کی سی تشبیہ کیوں نہیں لا سکتے ہوں ؟ اس نے کہا ابن المعتز کی کوئی تشبیہ سناؤ اس نے یہ شعر پڑھا :

فانظر الیہ کزورق من فضۃ      قد اثقلتہ حمول من عنبر

شعر کا مطلب یہ ہے کہ پہلی رات کا چاند ایسا ہے جس طرح ایک چاندی کی کشتی پر اس قدر عنبر لاددیاگیا ہے کہ وہ دب گئی ہے ، کشتی پر جب بار زیادہ ہوتاہے تو اس کا زیادہ حصہ پانی میں ڈوب جا تا ہے ۔ اس لیے ماہ نو کو کشتی کے کنارے سے تشبیہ دی ہے ۔ چونکہ آسمان کارنگ نیلگوں ہوتا ہے اس لیے  اس کی مناسبت سے کشتی پر عنبر لدا ہوا ہے ۔ ابن الرومی یہ شعر  سن کر چینخ اٹھا : لایکلف اللہ نفسا الا و سعھا ( خدا کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ) ۔ ابن المعتز بادشاہ اور بادشاہ زادہ ہے ، گھر میں جو دیکھتا ہے وہی کہدیتا ہےمیں یہ خیالات کہاں سے لاؤں ۔  چونکہ ابن الرومی چاندی سونے کے ظروف نہیں دیکھے تھے ۔ اس لیے وہ چاندی کی کشتی کا خیال پیدا نہ کرسکا۔

 تخیل جس قدر قوی ، متنوع اور کثیر العمل ہوگی ، اسی قدر اس کے مشاہدات کی زیادہ ضرورت ہوگی ۔ جس قدر بلند پرواز طائر ہوگا اسی قدر اس کےلیے فضا کی وسعت زیادہ درکار ہوگی ۔ فردوسی نے شاہنامہ لکھا تو سیکڑوں ، ہزاروں مختلف واقعات لکھنے پڑے ، اس لیے قوت تخیل کو پورا موقع ملا ، اس لیے شاہنامہ میں  شاعری کے تمام انواع موجود ہیں ۔ جذبات کے اظہار کا ایک بڑا میدان ہے مثلا محبت ، عداوت ، غضب ، حیرت ، استعجاب ، رنج والم ، پھر ایک ایک کی مختلف اقسام مثلا  بھائی کی محبت ، باپ کی محبت ، ماں کی محبت ، بیٹے کی محبت وغیر ہ ، فردوسی کو یہ تمام مواقع ہاتھ آئے اس نے ہر موقع پر قوت تخیل سے کام لیا  ۔ چنانچہ اس نے جس جذبہ کا جہاں اظہار کیا تخیل سے وہ مؤثر اور جانگداز کردیا ہے ۔

بعض دفعہ تخیل کے استعمال میں بے اعتدالی بھی پائی جاتی ہے ، تخیل کو  سب سے زیادہ بے اعتدالی کا موقع مبالغہ میں ملتا ہے ۔  یہ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ مبالغہ کےلیے اصلیت اور واقعیت کی ضرورت نہیں ، اس بناء پر تخلیق کاربے راہ روی کا شکار ہوجاتا ہے ۔  اسی طرح تخیل کی بے اعتدالی کا بڑا میدان استعارات اور تشبیہات بھی ہیں ،یہ جب تک قریب الماخذ ، اصلیت و واقعیت سے ملتی جلتی ہوتی ہیں اس میں حسن پیدا ہوتا ہے ، لیکن جب بے اعتدالی ہوتی ہے تو وہ دور ازکار فرضی استعارا ت و تشبیہات معلو م ہوتے ہیں ۔  جیسے مرزا بیدل کا ایک شعر ہے :

تبسم کہ بہ خون بہار تیغ  کشید کہ خندہ           برلب گل نیم بسمل افتادہ است

اصل خیال اس قدر تھا کہ معشوق کا تبسم پھول کےنیم شگفتہ ہونے کی حالت سے زیادہ خوشنما ہے ۔ بیدل نے مضمون کو یوں ادا کیا ہے کہ تبسم ایک قاتل ہے، اس نے بہار کی خونریزی کے لیے تلوار کھینچی ہے ، اس کا وار خندۂ گل پر  پڑا ، خندۂ گل نیم بسمل ہوکر رہ گیا ۔  یہ ساری بے اعتدالی استعارات کی وجہ سے ہے جیسے بہار کاخون ، تبسم کی تلوار ، خندۂ گل کا بسمل ہونا ، دور ازکار استعارات ہیں ۔

واقعیت اورمبالغہ


فن ادب کا یہ سب سے معرکۃ الآراء مسئلہ ہے ، ایک گروہ کے نزدیک واقعیت اور مبالغہ دو متناقض چیزیں ہیں ، لیکن دوسری طرف ناقدین کا کہنا ہے کہ کذب اور مبالغۃ شاعری کا زیور ہے ، عربی زبان کا شاعر نابغہ ذبیانی سے کسی نے پوچھا کہ اشعر الناس کون ہے؟  اس نے کہا من استجید کذبہ ، یعنی جس کا جھوٹ پسندیدہ ہو (کتاب العمدہ مطبوعہ مصر ص 50 جلد دوم ) تمام بڑے شعراء جن کی  شاعری مسلمہ عام ہے ، ان کے کلام میں عموما مبالغہ اور غلو موجود ہے ، اس کے علاوہ اکثر وہی اشعار کارنامۂ فن  خیال کیے جاتے ہیں جن میں کذب اور مبالغہ ہے ۔ دوسری طرف حسان بن ثابت (رض) کہتے ہیں ۔

وان اشعر بیت انت قائلہ          بیت یقال اذانشدتہ صدقا

اچھا شعر وہ ہے کہ جب پڑھاجائے تو لوگ بول اٹھیں کہ سچ کہا ۔

در حقیقت فن ادب تہذیب و تمدن کے ساتھ ساتھ چلتا ہے ، جس قسم کا تمدن ہوگا اسی قسم کا فن وجود میں آئےگا ۔ اسلام کے ابتدائی دور کی شاعری میں سچائی اور راستی وافر ہے ، لیکن اس کے بعد جب عیش اور نازو نعمت کی نوبت آتی ہے تو ہر بات میں تکلف ، ساخت ، اور آورد پیدا ہوجاتی ہے ، یہی زمانہ ہے جب فن ادب میں مبالغہ شروع ہوجاتا ہے ، چنانچہ عباسی دور میں جب عیش پرستی  کی ہوا چلی تو مبالغہ کا زور ہوا ۔ گویا تمدن کی خرابی  ہی  شاعر اور سامعین دونوں کے مذاق کو خراب کردیتی ہے ۔  البتہ یہ حقیقت ہے کہ مبالغہ میں اگر کوئی حسن پیدا ہوتا ہے تو وہ تخیل کی پرواز سے ہوتا ہے ، نہ اس لیے کہ وہ جھوٹ اور مبالغہ ہے ۔ مثلا ایک شاعر کہتا ہے :

روبرو سے اگر آئینہ کے اس گلگوں کو                            پھینک دے لیکے کبھی شرق سے تو غرب تلک

اتنے عرصہ میں پھر آئے تو اسے باور کر                         عکس بھی آئینہ سے ہونے نہ پائے منفک

بعض مبالغوں میں تخیل کی بجائے اور شاعرانہ حسن ہوتا ہے ۔ مثلا حسن ادا ، جدت تعبیر وغیرہ، غرض مبالغہ کے جس قدر اشعار مقبول ہیں ان میں  اکثر مبالغہ کے سوا اور خوبیاں ہیں،   ان  اشعار میں  انہیں کا اثر ہے ۔ ادبی تخلیق کی دو قسمیں ہیں ، تخیلی ( جس کو جدید اصطلاح میں فکشن کہاجاتا ہے ) اور غیر تخیلی ، تخیل میں واقعہ سے غرض نہیں ہوتی ، بلکہ یہ دیکھاجاتا ہےکہ  قوت تخیل کس قدرپر زور اور وسیع ہے ، اس بناء پر اس قسم کے فن میں  مبالغہ سے کام لیا جائے تو بد نما نہیں ، اس لیے وہاں اگر  حسن پیدا ہوتا ہے یا قاری ، سامع کی طبیعت پر اثر ہوتا ہے وہ مبالغہ کی وجہ سے نہیں بلکہ تخیل کی پرواز کی وجہ سے ہے ۔

تاریخ گواہ ہے کہ عرب کی شاعری میں پورے قبیلہ میں ایک شعر آگ لگادیتا تھا ، جب تک  ان کی شاعری میں واقعیت تھی کہ جو کچھ کہتے تھے سچ ہوتا تھا ، جب عباسیہ دور شروع ہوا ، شاعری ایک بانگ بے اثر رہ گئی ، شعراء دیوان کے دیوان لکھ ڈالتے تھے اور کوئی خبر نہیں ہوتا تھا ۔ یہ ضروری نہیں کہ شعر میں جوکچھ کہا جائے وہ سرتا پا واقعیت ہو بلکہ اصل مقصد وہ اصلیت سے خالی نہ ہو مثلا ایک  واقعہ ناممکن تو ہے لیکن شاعر کو پورا یقین ہے کہ یہ واقعہ شعر میں بیان ہوگا تو اثر پیدا کرے گا ۔
میر انیس کہتے ہیں ؛

حملہ غضب ہے بازوے شاہ حجاز کا                        لنگر نہ ٹوٹ جائے زمین کےجہاز کا

اس شعر میں  بظاہر مبالغہ ہے  اور ناممکن واقعہ بیان ہوا  ہے ، کسی انسان کے حملہ سے زمین اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتی ، لیکن جب یہ تصور کیا جائے کہ کلام کس کی  زبان سے نکلا ہے تو کلام میں واقعیت کا اثرآجاتا ہے ۔ شعر میں مبالغہ اس لیے بھی پیدا ہوتا ہے کہ شاعر کا احساس عام لوگوں کی نسبت زیادہ قوی اور مشتعل ہوتا ہے ، اس لیے ہر واقعہ دوسروں کی نسبت  اس کو زیادہ  متاثر کرتا ہے ۔

استعارہ اور تشبیہ


اکثر موقعوں پر تشبیہ اور استعارہ سے مضامین میں  جو وسعت اور زوو پیدا ہوتا ہے وہ  اور کسی طریقہ  سے نہیں ہوسکتا ، مثلا اگر کسی کا عزیز مرجاتا ہے تو کہتا ہے ،سینہ  پھٹ گیا ،  دل میں چھید ہوگئے ، آسمان ٹوٹ پڑا ، تجھ کو کس کی نظر کھاگئی ، یہ سب استعارے ہیں ، اس سے ظاہر ہوا کہ استعارہ فطری طرز ادا ہے ۔ اگر ہم یہ کہنا چاہیں کہ فلاں شخص نہایت شجاع و بہادر ہے تو اگر انہیں لفظوں میں اس مضمون کو ادا کریں تو معمولی طریقہ ادا ہے ، اسی بات کو اگر یوں کہیں کہ " وہ شخص شیر کے مثل ہے " تو یہ تشبیہ ہوگی ، اس کلام میں کچھ زیادہ زور پیدا ہوجاے گا ، اگر یوں کہیں کہ " وہ شخص شیر ہے "  تو زور اور پڑھ جائے گا ، لیکن اگر اس شخص کا مطلق ذکر نہ کیا جائے، اور یوں کہاجائے کہ " میں نے ایک شیر دیکھا " اور اس سے مراد وہی شخص ہو تو یہ استعارہ ہے ، اس مطلب کو ادا کرنے کا ایک اور طریقہ ہے کہ شیر کا نام نہ بھی لیا جائے بلکہ شیر کے جو خصائص ہیں اس شخص کے لیے استعمال کیے جائیں ، مثلا یوں کہا جائے کہ " وہ میدان جنگ میں ڈکارتا ہوا نکلا تو ہل چل پڑگئی " ڈکار نا خاص شیر کی آواز کو کہتے ہیں ، یہ بھی استعارہ ہے اور پہلےکی نسبت زیادہ لطیف ہے ۔  بعض دفعہ شاعر کوئی غیر معمولی دعوی کرتا ہے تو اس کے ممکن الوقوع ثابت کرنے کےلیے تشبیہ کی ضرورت پڑتی ہے۔  عربی شاعری میں اس کی عمدہ مثال متنبی کا یہ شعر ہے ۔ 

فان فی الخمر   معنی لیس فی العنب               جو بات شراب میں ہے وہ انگور میں نہیں

اس کا دعوی یہ ہےکہ جو بات بادشاہ کی ہے وہ عام انسانوں سے مرتبہ میں بڑھ کر ہے اس دعوی کو تشبیہ کے ذریعہ سے ثابت کردیا  کہ شراب انگور سے بنتی ہے ، لیکن جو بات شراب میں ہے انگور میں نہیں ۔  تشبیہ ایک ایسا عام اسلوب کلام ہے ہر شخص اس سے کام لیتا ہے ،  ہر تشبیہ شروع میں نادر اور پر لطف ہوتی ہے ، لیکن کلام میں  بار بار استعمال سے اس کی تازگی اور ندرت ختم ہوجاتی ہے، یا کم ہوجاتی ہے ، اس لیے ہر معیاری تخلیق کار نادر اور جدید تشبیہات اور استعارات استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے ، بڑے بڑے تخلیق کار کا معیار کمال یہی ہے کہ ان کے کلام میں  اچھوتی تشبیہات اور نئے نئے استعارات پائے جاتے ہیں ۔

 تشبیہ مرکب عموما زیادہ پر لطف ہوتی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ کئی چیزوں کے ملنے سے جو مجموعی حالت یا صورت پیداہوتی ہے ،وہ تشبیہ کے ذریعہ ادا کی جاتی ہے ۔ مثلا عربی کا ایک مشہور شعر:

 كان مثار النقع فوق رؤسنا      و أسيافنا ليل تهاوي كواكبه

یعنی میدان جنگ میں جو گرد اڑتی ہے اور اس میں تلوار یں چمکتی ہیں ، تو یہ معلوم ہوتا ہے ، کہ رات کو تارے ٹوٹ رہے ہیں ۔ یہاں الگ الگ تشبیہ مقصود نہیں ، بلکہ ایک مجموعی حالت کو بیان کیا گیا ، جس کے اجزاء یہ ہیں ، گرد ، جو فضا میں چھاگئی ، اس میں تلواروں کا چلنا ،  اور چمکنا ، اور تلواروں کے چلنے میں بے ترتیبی ، اور اختلاف جہت ، اور ان سب حالات سے جو مجموعی سماں پیدا ہوا شاعر نےاس کی تشبیہ ستاروں سے دی ہے ، جو رات کی تاریکی میں سیدھے ترچھے آڑے ہر طرف ٹوٹتے ہیں ۔

حسن الفاظ


ادبی تخلیق کار کے دو گروہ ہیں ایک لفظ کو ترجیح دیتا ہے ، اور عرب کے کلام کا اصل انداز یہی ہے ،بعض لوگ مضمون کو ترجیح دیتے ہیں اور الفاظ کی پروا نہیں کرتے ، یہ عرب شعراء میں ابن الرومی اور متنبی کا مسلک ہے ۔ لیکن زیادہ تر اہل فن کا یہی مذہب ہے کہ لفظ کو مضمون پر ترجیح ہے ، وہ کہتے ہیں کہ مضمون تو سب پیدا کرسکتے ہیں  ، لیکن تخلیق فن کا معیار کمال یہی ہے کہ مضمون ادا کن الفاظ میں کیا گیا ہے؟  اور بندش کیسی ہے ؟   حقیقت یہ ہے کہ ادبی تخلیق خواہ شاعری ہو یا انشاپردازی سب کا زیادہ تر  مدار  الفاظ ہی پر ہے ، جیسے گلستان میں جومضامین اور خیالات ہیں نئے نہیں ہیں ، لیکن الفاظ کی فصاحت اور بندش نے ان میں سحر پیدا کر دیا ہے ، انہیں مضامین اور خیالات کو معمولی الفاظ میں ادا کیا جائے تو سار ا اثر جاتا رہے گا ،  اس کا مطلب یہ نہیں کہ تخلیق فن کا تعلق صر ف الفاظ سے ہے ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ مضمون کتنا ہی بلند او ر نازک ہو لیکن اگر الفاظ مناسب نہیں ہیں ،تو  فن پارے میں کچھ زیادہ تاثیر پیدا نہیں ہوگی ۔ جن بڑے بڑے فن کاروں کے کلام میں خامیاں ہیں اس کی وجہ زیادہ تر یہی ہے کہ ان کےہاں الفاظ کی متانت ، وقار ، اور بندش کی درستی میں نقص پا یاجاتا ہے ۔  فردوسی کے بعد بہت سے شاہنامے لکھے گئے  ہیں ، مضامین اور خیالات میں اگرچہ  کم نہیں لیکن  فردوسی کے شاہنامہ کے سامنے ان کی کوئی وقعت اس لیے نہیں کہ ان میں  الفاظ کی جدت ، ان  کی بندش ، اور طرز ادا فردوسی جیسی نہیں ہے ۔

الفاظ متعدد قسم کے ہوتے ہیں ، بعض نازک ، لطیف ، شستہ ، صاف ، رواں ، شیریں ، او ر بعض پر شوکت ، متین ، بلند، پہلی قسم کے الفاظ، عشق و محبت کے مضامین کےادا کرنے کے لیے موزوں ہیں ، عشق و محبت انسان کے لطیف اور نازک جذبات ہیں ، اس لیے ان کے ادا کرنے کےلیے لفظ بھی اسی قسم کے ہونے چاہئیے ، سعدی جو غزل کے بانی خیال کیے جاتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے غزل میں رقیق ، نازک ، شیریں ، اور پردرد الفاظ استعمال کیے ۔ بلند اور پر شوکت الفاظ ، رزمیہ مضامین اور قصائد و غیرہ کے لیے موزوں ہیں ،  الفاظ سے زیادہ اہم،  الفاظ کا باہمی تعلق اور تناسب ہے ، جو الفاظ ایک ساتھ کسی کلام میں آئیں ان میں باہم ایسا توافق ، تناسب ، موزونی اور ہم آوازی ہو کہ سب مل کر گویا ایک لفظ یا ایک ہی جسم کے اعضا بن جائیں ، اسی کو عربی  اصطلاح میں انسجام  کہا جاتا ہے ، جس کو اردو میں سلاست ، صفائی ، اور روانی کہتے ہیں ، اسی سے شعر میں موسیقیت پیدا ہوجاتی ہے ، اسی سے شاعری اور موسیقی کی سرحد مل جاتی ہے۔
  
ہر زبان میں مترادف الفاظ ہوتےہیں ، جو ایک ہی معنی پر دلالت کرتے ہیں ،  لیکن جب غور سےدیکھا جائے تو ان میں باہم فرق ہوتا ہے، مثلا خدا ، فارسی میں پروگار ، یزد ، آفرید گار، دادار بھی کہتے ہیں ، بظاہر ان سب کے ایک ہی  معنی ہیں ،  لیکن ہر لفظ میں ایک خاص بات اور خاص اثر ہے ،جو اسی کے ساتھ مخصوص ہے ، اسی طرح  قلم کو فارسی میں  خامہ ، کلک  بھی کہتے ہیں لیکن قلم کے لفظ میں جو فخامت اور رعب ہے اور لفظوں میں نہیں ، بڑے بڑے خیالات اور جذبات لفظ کے تابع ہوتے ہیں ، ایک لفظ ایک بہت بڑے خیال یا بہت بڑے جذبہ کو مجسم کر کے دکھا سکتا ہے ،  بہت سے لفظ ایسے ہوتے ہیں جن کے معنی گو مفرد ہوتے ہیں ، لیکن اس میں مختلف حیثیتیں ہوتی ہیں،  اس لحاظ سے وہ لفظ گویا متعدد خیالات کا مجموعہ ہوتا ہے ، اس قسم کا ایک لفظ ایک وسیع خیا ل اد کرسکتا ہے  ، اس کے بجائے اگر ان کے مترادف الفاظ استعمال کیے جائیں تو مضمون کا اثر اور وسعت کم ہوجاتی ہے ، مثلا کعبہ کو حرم بھی کہتے ہیں  ، لیکن کعبہ سے ایک خاص عمارت مفہوم ہوتی ہے ، اس کی جگہ حرم کے لفظ میں متعدد مفہوم شامل ہیں خاص عمارت ، اور یہ خیال کہ وہ ایک محترم جگہ ہے ، یہ خیال کہ وہاں قتل و قصاص ناجائز ہے، یہ سارے خیالات اس بنا پر ہیں کہ حرم کے لغوی معنی یہی تھے ، اسی مناسبت سے اس عمارت کا یہ نام  پڑا ،  اس لیے حرم کا لفظ جو اثر پیدا کر سکتا ہے کعبہ نہیں  پیدا کرسکتا ۔

غرض فن کار جس طرح مضامین کی جستجو میں رہتا ہے ، اس کو ہر وقت الفاظ کی جانچ پڑتال اور ناپ  تول میں بھی مصروف رہنا چاہئیے ، اس کو نہایت دقت نظر سے دیکھنا چاہئیے ، کہ کون سے الفاظ  ثقیل، متروک ، نامانوس اور شاذ ہیں  اور کون سے الفاظ خفیف ، سہل ، سلیس اور  فصیح  ہیں ،  بعض الفاظ گو فی نفسہ ثقیل یا نامانوس ہوتے ہیں لیکن سیاق و سباق کے الفاظ کا تناسب ان کے ثقل کو ہلکا یا  کم کردیتا ہے  اس لیے اس قسم کے الفاظ کے لیے ایسی جگہ ڈھوندھنا چاہئیے کہ اس کی ثقالت جاتی رہے یا کم ہوجائے ۔   میر ضمیر کا ایک شعر :

ذریت رسول کی خاطر جلائی نار  

نار کا لفظ  اس موقع پر نہایت نامانوس اور بیگانہ ہے ، لیکن یہی لفظ جب فارسی ترکیبوں کے ساتھ  اردو میں مستعمل ہوتا ہے  مثلا نار دوزخ ،  نار جہنم ، تو وہ غرابت نہیں رہتی ۔  جیسے قرآن مجید میں ہے : " ما كذب الفؤاد ما رأي " فواد اورقلب دو ہم معنی الفاظ ہیں ، اور دونوں فصیح ہیں ، لیکن اگر اس آیت میں  فواد کے بجائے قلب کا لفظ آئے تو خود یہی لفظ غیر فصیح ہوجائے گا ۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ قلب کا لفظ فصیح ہے ، لیکن سیاق و سباق کے جو الفاظ ہیں ان کی آواز کا تناسب قلب کے لفظ کے ساتھ نہیں ہے ۔  میر انیس کا مصرع ہے۔  ع    

  " فرمایا آدمی ہے کہ صحرا کا جانور " 

صحرا اور جنگل ہم معنی ہیں ، اور دونوں فصیح ہیں ، لیکن اگر اس مصرعہ میں صحرا کے بجائے جنگل کا لفظ استعمال کیا جائے تو یہی لفظ غیر فصیح ہوجائے گا ۔ کیونکہ جنگل اور جانور  میں صوتی ثقالت ہے ۔  میر انیس کا ایک شعر :

طائر ہوا میں مست ، ہرن سبزہ زار میں        جنگل کے شیر گونج رہے تھے کچھار میں

یہاں جنگل کے بجائے صحرا  ہوتا تو شعر پھس پھسا ہوجاتا ۔  

شبنم اور اوس ہم معنی ہیں ، اور برابر فصیح ہیں لیکن میر صاحب کے اس شعر میں :

کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہر ا ہو ا             تھا موتیوں سے دامن صحرا بھر ا ہوا

اگر" اوس"  کے بجائے  شبنم کا لفظ لا جائے تو فصاحت خاک میں مل جائے گی ۔ یہی اوس اس مصرعہ میں :

شبنم نے بھرویے تھے کٹورے گلاب کے

شبنم کے بجائے اوس لایاجائے  تو فصاحت باکل ہوا ہوجائے گی ۔

فصاحت کے مدارج میں اختلاف ہے ، بعض  الفاظ  فصیح ہیں ،  بعض فصیح تر ، بعض اس سے بھی فصیح تر ،  میر انیس اور میرزا دبیر کے مرثیوں میں فرق یہ ہے کہ میر انیس کے کلام میں الفاظ فصیح ترہیں ۔  چند مصرعوں میں دونوں شعراء کا موازنہ  کریں ۔

میرزا دبیر : ع   کس نے نہ دی انگوٹھی رکوع و سجود میں

میر انیس : ع    سائل کو کس نے دی ہے انگوٹھی نماز میں

میرزا دبیر : ع   رویا میں بھی حسین کو رویا ہی کرتے ہیں

میرانیس : ع     حسرت ہے کہ خواب میں بھی رویا کیجئے

دونون کے مذکورہ  مصرعوں میں شستگی  ، برجستگی ، صفائی  اور سلاست کاہر کوئی اندازہ کرسکتا ہے ۔ 

سہل البیانی


جو مضمون تخلیق کی جائے لازمی ہے کہ وہ بےتکلف سمجھ میں آجائیں ، اس کے لیے چند باتوں کا لحاظ ضروری ہے ۔

1-جملوں کے اجزا کی ترتیب وہ ہو جو اصل حالت میں ہوتی ہے ، اجزا ئےکلام خاص کر شعر میں اپنی اپنی مقررہ جگہ سے زیادہ نہ ہٹنے پائیں ۔  مثلا فاعل ، مفعول ، مبتدا، خبر ، متعلقات فعل ، جس ترتیب کے ساتھ بول چال میں آتے ہیں ، فن پارہ میں  یہی ترتیب قائم رہنا چاہیئے ،  ہر زبان میں الفاظ کے تقدم و تاخر کی ایک خاص ترتیب ہوتی ہے جب جملہ میں الفاظ  اسی ترتیب سے  آتے ہیں تو مضمون بے تکلف سمجھ میں آجاتا ہے ۔  جب اپنی جگہ سے ہٹ جاتے ہیں تو مطلب میں پیچیدگی پیدا ہوجاتی ہے ، جس قدر یہ تبدیلی زیادہ ہوتی ہے  اسی قدر کلام  پیچیدہ ہوجاتا ہے ۔  اگرچہ شعر میں اصلی ترتیب قائم نہیں رہ سکتی تاہم شاعر کے کلام میں  جس قدر یہ وصف زیادہ ہوگا اسی قدر شعر میں زیادہ روانی اور سلاست ہوگی ،  سعدی کے کلام کو تمام فارسی شعراء سے ممتا ز کرنے والا یہی وصف ہے ۔

2- مضمون کا کوئی جزیا کوئی پہلو  رہ نہ جائے جس کی وجہ سے  یہ معلوم ہو کہ بیچ میں کوئی خلا رہ گیا ہے ، جس طرح زنجیر سے کوئی کڑی الگ کردی جائے۔

3- استعارے اور تشبیہات دور از کار اور دور از فہم نہ ہوں ۔

4- تلمیحات ایسی نہیں ہونی چاہئیں جو کسی کو معلوم نہ ہوں  ۔

5- سہل البیانی ، سادگئ ادا  اور سلاست  میں  روز مرہ اور بول چال کا زیادہ دخل ہے ،  روز مرہ چونکہ عام زبانوں پر چڑھاہوتا ہے اس لیے ایک لفظ ادا ہونے کے ساتھ فورا  پورا جملہ ذہن میں آجاتا ہے ، اس کے سہارے سے مشکل سے مشکل مضمون کے سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے ۔  بڑے بڑے نامور شعراء اور ادباء اعلی سے اعلی خیال روزمرہ اور بول چال میں اس طرح اد ا کرتے ہیں گویا معمولی بات ہے ، مثلا حضرات  صوفیہ کے ہاں منازل سلوک کے  بعض اہم مراحل ہیں ، جیسے توکل ، رضا ، ترک خودی ، وغیر ہ ، داغ نے اس مسئلہ کو کس سادگی سے بیان کیا ہے۔

رہرو راہ محبت کا خدا حافظ ہے              اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں ۔

 ------------------------------

(٭)   یہ مضمون  علامہ شبلی ؒ کی" شعر العجم اور میر انیس و میرزا دبیر کا  موازنہ " کی روشنی میں مرتب کیا گیا ۔