جنگ عظیم اول : سلطنت عثمانیہ کی شکست، جدید ترکی اور نیا ترکی 2023 کا خواب

سلطنت عثمانیہ کی شکست اور معاہدہ سیورے: 

معاہدہ سیورے (انگریزی:Treaty of Sevres) جنگ عظیم اول کے بعد 10 اگست 1920ء کو اتحادی قوتوں اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان طے پانے والا امن معاہدہ تھا۔ اس معاہدے پر عثمانی سلطنت نے دستخط کر دیے تھے لیکن اسے ترکی کی جمہوری تحریک نے مسترد کر دیا اور اس معاہدے پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ مصطفیٰ کمال اتاترک کی زیر قیادت اس تحریک نے معاہدے کے بعد ترکی کی جنگ آزادی کا اعلان کر دیا اور قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) میں بادشاہت کو ختم کرکے ترکی کو جمہوریہ بنادیا۔

عثمانی حکومت کی جانب سے
 معاہدے پر دستخط کرنے والے
 نمائندے، بائیں سے دائیں جانب
رضا توفیق، فرید پاشا، ہادی پاشا
اور رشید خالص
معاہدے سیورے  کو سلطنت عثمانیہ کی ایک عظیم شکست سمجھا جاتا ہے جو اپریل 1920ء میں اتحادیوں کے درمیان سان ریمو کانفرنس کے بعد طے پانے والے معاہدوں کی ایک کڑی تھا۔ اس کے بعد سلطنت عثمانیہ تحلیل کر دی گئی۔ 

معاہدہ سیورے کے اہم نکات:


معاہدے میں سلطنت عثمانیہ کی سرحدات کا تعین کیا گیا، جس میں سلطنت عثمانیہ کا رقبہ موجودہ ترکی کے رقبے سے کم تھا۔ متعدد جزائر جیسے جزیرہ امبروز وغیرہ یونان کی حوالے کر دیے گئے، ترکی عسکری طور پہ اٹلی، فرانس اور برطانیہ کے زیر قبضہ آ گیا۔ سلطنت عثمانیہ کی سابقہ ولایت، عراق اور مصر برطانیہ کے قبضے میں، شام، تیونس اور الجزائر فرانس کے قبضے میں اور لیبیا اٹلی کے قبضے میں چلے گئے۔ سعودی عرب شریف مکہ کے زیر تسلط سلطنت حجاز قرار پائی۔

آبنائے باسفورس کے لئے ایک طاقتور کمیشن قائم کیا گیا، جس میں تمام اختیارات مغربی طاقتوں کے ہاتھ میں دے دیے گئے، اس کمیشن کو ایک پولیس فورس بنانے کا اختیار دیا گیا جس کے افسر مغربی ملکوں سے لئے جانے قرار پائے۔ اسی کمیشن نے آبنائے باسفورس کا برائے نام محصول وصول کرنا تھا۔

ترکی کے تمام مالی وسائل، تین مغربی ملکوں برطانیہ، فرانس اور اٹلی کے قبضے میں ہوں گے، ترکی کا بجٹ انہیں طاقتوں کی طرف سے بنائے گئے مالیاتی کمیشن کی منظوری سے عمل میں آئے گا، تمام ٹیکسز کا نفاذ بھی اسی سامراجی مالیاتی کمیشن کی منظوری سے ہوگا۔

عثمانی سلطان 700 سے زیادہ محافظ نہیں رکھ سکتے، ملک کی مجموعی عسکری طاقت کی تعداد 50 ہزار نفوس سے زیادہ نہ ہوگی، ان اہلکاروں کو صرف بندوقیں اور بعض کو مشین گنیں دی جائیں گی، اس کے علاوہ کوئی اسلحہ نہیں رکھا جا سکتا۔ ان کی بنیادی ذمہ داریاں ملک کے اندرونی معاملات کی دیکھ بھال اور داخلی امن و امان کا قیام ہوگا۔

ترکی کی بحریہ کو صرف 6 تارپیڈو کشتیاں اور 7 سلوپ ( فریگیٹ سے بھی چھوٹی بادبانی کشتی sloop) رکھنے کی اجازت ہوگی۔ عثمانی سلطنت کو جنگی بحری یا فضائی جہاز بنانے یا خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ جو بحری یا ہوائی جہاز ترکی کے پاس قابل استعمال یا قابل مرمت یا زیر تعمیر حالت میں موجود ہیں، تمام کے تمام 6 ماہ کے اندر اندر اتحادیوں کی بندرگاہوں پر اپنے خرچے پہ پہنچانے ہوں گے۔ تمام اسلحہ بارود بھی اتحادیوں کے حوالے کرنا ہوگا، ترکی کوئی فضائیہ رکھنے کا مجاز نہیں ہوگا۔

ترک باشندے کسی دوسرے ملک کی فوج میں بھی نہ ملازمت کرسکیں گے نا ہی تربیت حاصل کر سکیں گے۔ جرمنی سے حاصل کیے گئے جہاز، ہتھیار اور اسلحہ اپنے خرچ پر اتحادیوں کی بندرگاہوں تک پہنچانا ہوگا۔

ترکی کی جنگ آزادی اور معاہدہ لوزان: 


ترکی کی جنگ آزادی : 

انقرہ میں ترکی کی قومی اسمبلی نے معاہدہ سیورے کو مسترد کرتے ہوئے مغربی اناطولیہ میں یونانی افواج کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کو روکا۔ مارچ 1921ء میں مصطفیٰ کمال کے حامیوں نے سوویت روس کی بالشویک حکومت سے دوستی کا معاہدہ کر لیا جس کے نتیجے میں کمال کی افواج نے ستمبر 1922ء تک یونان کو شکست دے کر اس کی افواج کو اناطولیہ سے نکال باہر کیا۔ اس زبردست فتح کے بعد جنگ عظیم اول کے اتحادی مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور ہو گئے ۔

مصطفیٰ کمال پاشا (بعد ازاں اتاترک) کی زیر قیادت ترک افواج کی جانب سے یونانی افواج کو اناطولیہ سے نکال باہر کرنے کے بعد نئی ترک جمہوریہ نے معاہدہ سیورے کو مسترد کر دیا۔ 20 اکتوبر 1922ء کو امن کانفرنس کا دوبارہ آغاز ہوا اور طویل بحث و مباحثے کے بعد کانفرنس ایک مرتبہ پھر 4 فروری 1923ء کو ترکی کی مخالفت کے باعث متاثر ہوئی۔ 23 اپریل کو دوبارہ آغاز ہوا اور مصطفیٰ کمال کی حکومت کے شدید احتجاج کے بعد 24 جولائی 1923م  کو 8 ماہ کے طویل مذاکرات کے نتیجے میں معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدہ کو  ترکی کی عظیم فتح سمجھا جاتا ہے ۔  چنانچہ اس معاہدے کے بعد  مصطفی کمال اتاترک نے مغربی طرز پر ایک سیکولر حکومت کی بنیاد رکھی۔ 

معاہدہ لوزان: 

معاہدہ لوزان 24 جولائی 1923ء کو سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں جنگ عظیم اول کے اتحادیوں اور ترکی کے درمیان طے پایا۔ معاہدے کے تحت یونان، بلغاریہ اور ترکی کی سرحدیں متعین کی گئیں اور قبرص، عراق اور شام پر ترکی کا دعویٰ ختم کرکے آخر الذکر دونوں ممالک کی سرحدوں کا تعین کیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت جمہوریہ ترکی کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔

اس معاہدے کی اہمیت اس قدر تھی کہ تمام فاتح ممالک جسے ’’برطانوی اتحاد‘‘ بھی کہا جاتا ہے کے قائدین جن میں نکولس ثانی، الیکسی بروسیلوف، جورجس کلیمنکیو، جوزف جوفری، فرڈیننڈ فوش، رابرٹ نیویل، ہربرٹ ہنری ایسکوئتھ، سر ڈوگلس ہیگ، سر جون جیلیکو، وکٹر ایمانوئیل ثالث، لوگی کاڈورنا، ارمانڈو ڈیاز، ووڈرو ولسن، جون پیرشنگ جیسے نامی گرامی جرنیل شامل تھے جب کہ دوسری طرف جرمنی و ترک عثمانی خلافت والی قیادت کے شکست خوردہ جرنیلوں میں فرانز جوزف اول، کونراڈ وون ہوزینڈورف، ولہیم ثانی، ایرچ وون فالکنہین، پال وون ہنڈنبرگ، رینہارڈ شیر،ایرچ لوڈنڈورف، محمد خامس، اسماعیل انور، مصطفی کمال اتاترک اور فرڈیننڈ اول جیسے جرنیل شامل تھے۔ 

ا

معاہدہ لوزان کے اہم نکات:


یہ معاہدہ معاہدہ سیورے کے مقابلے میں مختصر تھا، اس میں صرف 143 دفعات شامل ہیں جب کہ معاہدہ سیورے  میں 443 دفعات شامل تھیں۔ معاہدہ لوزان میں کوئی عسکری دفعات شامل نہیں ہیں، معاہدے کے اقتصادی سیکشن میں تمام دفعات ایک دوسرے کے شہریوں کے انفرادی مفادات، جائیدادوں اور حقوق کے متعلق ہیں، معاہدے کی کوئی دفعات ترکی کی اندرونی تجارت، معدنی وسائل اور بین الاقوامی تجارتی تعلقات کے متعلق نہیں ہیں۔

معاہدہ لوزان میں ترکی کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کر لیا گیا۔ اسی طرح ترکی نے سابقہ سلطنت عثمانیہ سے آزاد ہونے والے ممالک کی آزادی تسلیم کرلی۔

ترک آبنائے ( آبنائے باسفورس اور ڈارڈنیلز ) کو تمام ملکوں کے تجارتی اور فوجی جہازوں کے لئے آزاد قرار دے دیا گیا، مگر یہ شق 1936 میں Montreux convention کے بعد ختم ہو گئی، اس کنوینشن میں ترک آبنائے مکمل طور پر ترکی کے عسکری اختیار میں آ چکی ہیں۔

اتحادیوں کے فوجیوں کی قبروں اور یادگاروں کے لئے ترکی نے جگہ مہیا کی، اسی طرح اتحادی ملکوں میں اپنے لیے یہی حق حاصل کیا۔

اسی طرح باقی دفعات کا تعلق ایک دوسرے کی جغرافیائی سالمیت کے احترام، کمپنیوں کے تجارتی حقوق، سلطنت عثمانیہ کے واجب الادا قرضوں کی ادائیگی اور نئے آزاد ہونے والے ممالک کا اس ادائیگی میں حصے، جرمنی، روس اور آسٹریا کے ساتھ برابری پہ مبنی تعلقات پہ ہے۔ 

بعض دانشوروں نے ان دونوں معاہدوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلا معاہدہ ، معاہدہ سیورے  سلطنت عثمانیہ اور مغربی اتحادی طاقتوں کے مابین ہوا تھا ، جبکہ معاہدہ لوزان اتاترک کے جمہوریہ ترکی اور مغربی طاقتوں کے مابین ہوا۔ گویا یہ ایک باکل نیا معاہدہ تھا ۔ اس کا  سابق معاہدہ سیورے سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ ان  کے نزیدک معاہدہ لوزان کی میعاد سو سال ہر گز نہیں، جیسے خیال کیا جاتا ہے بلکہ یہ ایک غیر میعادی عمومی معاہدہ ہے۔ 

 ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس معاہدہ میں  ترکی پہ معدنیات نکالنے کی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی، اور جبکہ ترکی اپنی پٹرولیم کی ضروریات کا دس فیصد اپنے ملک سے حاصل کرتا ہے۔ اور  بابائے ترکی مصطفی کمال اتاترک نے جس معاہدہ لوزان  پہ دستخط کیے وہ ایک متوازن حیثیت سے اور فاتحانہ انداز میں کیا گیا معاہدہ تھا، جبکہ سلطنت عثمانیہ کی طرف سے دستخط کیا گیا معاہدہ سیورے درحقیقت ایک فوجی اور سیاسی شکست کی دستاویز تھی، جسے اتا ترک نے میدان کار زار میں یونان، فرانس، برطانیہ، روس اور اطالیہ کی افواج کو شکست دینے کے بعد مسترد کر دیا تھا ، اور اس کے نتیجے میں  ایک نیا متوازن معاہدہ، معاہدہ لوزان وجود میں آیا تھا ۔ بہرحال لیکن ترکی قومیت اور ترکی کی ترقی ایک زندہ  حقیقت ہے  اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ 


ترکی کا وژن 2023 :

طیب ارود گان 
 بین الاقوامی میڈیا میں یہ خبر مشہور  ہے کہ ترکی عوام اور دانشوروں کے مطابق اب 24 جولائی  2023 میں معاہدہ لوزان کی مدت  ختم ہو رہی ہے۔  اور یہ بھی ایک تاریخی  حقیقت ہے کہ ترک دنیا کی وہ واحد مسلمان قوم ہے جس پر کسی ’’غیر‘‘ نے آج تک حکمرانی نہیں کی۔ ترکوں نے سخت ترین پابندیوں کے باوجودغیر کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا اور اپنے کم وسائل میں ترقی کا سفر جاری رکھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ چند سالوں میں ترقی خود بول رہی ہے ، صدر اردوگان کے دورِ حکومت میں ترکی معاشی طور پر ابھرتا ہوا ملک ثابت ہو رہا ہے۔ جس کی سب سے بڑی نشانی ترک صدر نے IMF کا تمام قرض ختم کرکے اسے عالمی معاشی چنگل سے نکال باہر کیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ترکی اس وقت 17نمبر پر دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔اس کی 31 فیصد عوام کا انحصار زراعت پر ہے، جس میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرکے خالص ترین اشیاء تیار کی جا رہی ہیں۔ ترکی ٹرانسپورٹ، روڈ مشنری،ہوزری کا سامان، الیکٹریکل کا سامان بڑے پیمانے پر برآمد کرتا ہے۔ترکی جی 20 میں بھی شامل ہے۔

اس کی اسٹاک ایکسچینج کا انڈیکس 95700 شیئر پر مشتمل ہے۔ طیب ارودگان کے دورِ حکومت میں کنسٹرکشن کے شعبے نے بہت ترقی کی ہے اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ہر ترک کو گھر دینے کے خواب کو انھوں نے کنسٹرکشن کے شعبہ ہی سے پورا کیا ہے اور کم و بیش 30لاکھ گھر تعمیر کیے ہیں۔ترک آرمی نیٹو کی دوسری بڑی آرمی ہے۔ ترک آرمی نے جنوبی کوریا میں بھی جنگیں لڑی ہیں۔

ترکی نے نیٹو میں شمولیت کے بعد اپنی فوج میں بڑی جدت پیدا کی ہے۔وہ کسی بھی نیٹو فوج سے کم نہیں ہیں۔ ترک فوج یورپی یونین کے جنگی گروپ میں بھی شامل ہے۔ اسے 2023 کی آمد کی تیاریاں کہہ لیں یا کچھ اور مگر حقیقت یہی ہے کہ ترکی پابندیوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے 100فیصد تیار دکھائی دیتا ہے۔ جب کہ اس کے حریف ممالک ترکی کو دباؤ میں لانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

لیکن اس دوران طیب اردوگا ن نے بھی ہمت نہیں ہا ری اور اپنی عوام کو بھی ہمت سے رہنے کی تلقین کی۔اور ’’وژن 2023‘‘ کا اعلان کر دیا۔ جس کے مطابق 2023 میں ساڑھے سات کروڑ سیاحوں کی میزبانی کاپلان ہے۔ اس کے علاوہ طيب اردوگان کا خواب ہے کہ 2023 میں جب اعلان جمہوریہ کے 100 سال مکمل ہوں تو ترکی دنیا کی مضبوط ترین دس عالمی طاقتوں میں سے ایک طاقت ہو۔ یہ ہونا ناممکن نہیں کیونکہ ایک کے بعد دوسرا کامیاب ہونے والا منصوبہ اس خواب کی تعبیر پیش کر رہا ہے۔ اسلامی دنیا ترکی جیسی ترقی کرنا چاہتی ہے۔ 

-------