اقوام متحدہ کے 76 برس: کیا اقوام متحدہ ایک کامیاب ادارہ ہے اور اس کا مستقبل کیا ہے؟

اقوام متحدہ کے 76 برس
بی بی سی اردو : 24اکتوبر 2021

اقوامِ متحدہ کا قیام دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر عمل میں آیا۔ اس سے قبل اسی قسم کی عالمی تنظیم لیگ آف دی نیشنز کی ناکامی دنیا دیکھ چکی تھی۔ اقوامِ متحدہ کو تشکیل دیتے ہوئے اس کے چارٹر میں اس کا جو بنیادی مقصد بیان کیا گیا تھا وہ تھا 'آنے والی نسلی کو جنگ کی لعنت سے محفوظ رکھنا۔'

مگر اقوام متحدہ کے 24 اکتوبر سنہ 1945 کے قیام سے لے کر اب تک گذشتہ 76 برسوں میں ڈھائی سو سے زیادہ جنگیں ہو چکی ہیں۔ اس کا دوسرا بڑا مقصد اقتصادی اور سماجی ترقی بھی لانا تھا۔

تاہم ایک بات اپنی جگہ اب بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ اقوام متحدہ کے قیام سے قبل دو عالمی جنگیں دیکھ چکی تھی جن میں کروڑوں انسان ہلاک ہوئے تھے۔ اگرچہ اس دوران دنیا ایک سرد جنگ میں مسلسل مبتلا رہی ہے، اقوام کے قیام کے بعد تیسری عالمی جنگ تاحال نہیں ہوئی ہے۔

ابھی یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ آیا تیسری عالمی جنگ اقوام متحدہ کی وجہ سے نہیں ہوئی ہے یا اس کے نہ ہونے کی وجہ ایٹم بم کی تباہی کا باہمی خوف ہے، یا یہ دونوں عوامل کارفرما ہیں یا کوئی اور وجہ ہے۔

اقوام متحدہ یا 'یونائیٹڈ نیشنز' کا نام سب سے پہلے امریکی صدر فرینکلِن رُوزویلٹ نے سنہ 1941 میں استعمال کیا تھا۔ جب سنہ 1945 میں اس ادارے کے قیام کے لیے 50 ممالک نے دستخط کیے تھے (پولینڈ نے کچھ عرصے بعد دستخط کیے تھے)۔ اور آج اس کے 193 ممالک ارکان ہیں اور دو غیر ریاستی ارکان ہیں۔

اقوام متحدہ کے قیام کے وقت اس کے چھ بنیادی ادارے بھی وجود میں آئے، یعنی جنرل اسمبلی، اکنامک اینڈ سوشل کونسل، سکیورٹی کونسل، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، ٹرسٹی شپ کونسل، سیکریٹریٹ۔

اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک جنرل اسمبلی کے ارکان ہیں۔ اس میں فیصلے سادہ اکثریت یا بعض اوقات اہم معاملات میں دو تہائی اکثریت سے لیے جاتے ہیں۔ اس کا اجلاس ہر برس ستمبر میں ہوتا ہے۔

سلامتی کونسل کے 15 ارکان ہیں، ان میں پانچ مستقل ارکان ہیں (چین امریکہ، روس، برطانیہ اور فرانس) باقی ارکان کو ایک علاقائی ترتیب کے مطابق جنرل اسمبلی منتخب کرتی ہے۔ سکیورٹی کونسل میں فیصلے اکثریتی ووٹ کی بنیاد پر ہوتے ہیں، تاہم مستقل ارکان میں سے اگر کوئی ایک بھی مخالفت کر دے تو اسے ویٹو سمجھا جاتا ہے چاہے باقی تمام ارکان بھی اُس فیصلے کے حامی ہوں۔

اقوامِ متحدہ میں انگریزی، چینی، فرانسیسی، روسی، ہسپانوی اور عربی کو سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کا لوگو اولیور لنکن لنکوئیسٹ کی زیرِ قیادت ایک ٹیم نے تشکیل دیا تھا۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کو اپریل 1945 میں امریکہ کے مغربی ساحل کے شہر سان فرانسسکو میں حتمی شکل دی گئی تھی جس پر 50 ممالک کے نمائندوں نے 26 جون کو دستخط کیے اور بالآخر 24 اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ تنظیم عملاً قائم ہو گئی۔

اقوام متحدہ کا مرکزی مشن بین الاقوامی امن و سلامتی قائم رکھنا ہے، جس کے حصول کے لیے تنازعات کو پیدا ہونے سے روکنا اور ہونے کی صورت میں محدود کرنے کے اقدامات لینا، اور کسی تنازعے میں فریقین کو امن قائم کرنے اور امن کو برقرار رکھنے کے لیے حالات کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرنے کے اقدامات لینا ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق وہ اب تک ایسے 172 معاہدے طے کرا چکا ہے جن کے ذریعے چار کروڑ مہاجرین کی دیگر ممالک میں پر امن آباد کاری میں مدد دی گئی۔ ایک ارب سے زائد لوگوں کو پینے کا صاف پانی اور 80 ممالک کے کروڑوں لوگوں کو خوراک فراہم کی ہے۔ اس نے مختلف ممالک کو ان کے انتخابات میں مدد دی ہے، بچوں کو ویکسین فراہم کی ہے، لاکھوں خواتین کو زچگی کی صحت میں مدد دی ہے۔

اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی ایک اپنی رپورٹ کے مطابق، یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس نے (یو ڈی ایچ آر) نے 80 سے زیادہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں اور اعلانات، علاقائی انسانی حقوق کے کنوینشنوں، داخلی انسانی حقوق کے بلوں اور آئینی دفعات کی منظوری میں بنیادی یا رہنما کردار ادا کیا جو کہ مل کر انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے ایک جامع قانونی طور پر پابند عالمی اور علاقائی سطح پر ایک نظام تشکیل دیتے ہیں۔

اقوام متحدہ اور اس کی ایجنسیوں نے ایچ آئی وی/ایڈز، ایبولا، ہیضہ، انفلوئنزا، پیلا بخار، میننجائٹس اور کووڈ 19 جیسی بیماریوں کے خلاف عالمی کوششوں کو مربوط کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور دنیا کے بیشتر حصوں سے چیچک اور پولیو کے خاتمے میں مدد کی ہے۔ دس اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو امن کے لیے نوبل انعامات مل چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کی چند اہم ناکامیاں

اگرچہ اقوام متحدہ کی وجہ سے اس وقت دنیا بھر میں بہت سارے کام ہو رہے ہیں، لیکن یہ ادارہ دنیا میں ہونے والے کئی اہم انسانی المیوں کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔ اس وقت بھی یمن میں ایک بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے چکا ہے لیکن اقوام متحدہ کوئی کارروائی کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔

اس کی بنیادی وجہ اقوام متحدہ کی تشکیل اور اس کی ہیّت میں چند ایک بنیادی نقائص بتائے جاتے ہیں۔ مثلاً اقوام متحدہ کے پاس ماہرین کا ایک بڑا ذخیرہ ہے لیکن سلامتی کے معاملات میں حتمی فیصلہ سلامتی کونسل کرتی ہے، جہاں پانچ مستقل ارکان کے پاس ویٹو پاور ہے جو بعض اوقات عدل کے بجائے اپنے ریاستی مفادات کی حفاظت کے لیے اس طاقت کو استعمال کرتے ہیں۔

یو این کے قیام کے بعد کی جنگیں

سویڈن میں اپسالا کانفلِکٹ ڈیٹا پروگرام (UCDP) کے سیاسی تشدد کے بارے میں سنہ 2017 تک کے اعداد و شمار کے مطابق، سنہ 1946 کے بعد 285 مختلف مسلح تنازعات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ یہ فہرست 2017 میں شائع ہوئی تھی اور ہم نے اس کے بعد بھی کئی نئے تنازعات دیکھے ہیں۔

'آور ورلڈ اِن ڈیٹا' کے مطابق، سنہ 1946 کے بعد سے ہونے والی جنگوں میں تین ایس جنگیں ہیں جن میں بہت بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے: جزیرہ نما کوریا کی جنگ (1950 کی دہائی کے اوائل میں)، ویت نام کی جنگ (1960-1970 کے آس پاس کا دور)، اور ایران اور عراق کے درمیان طویل جنگ (سنہ 1980 کی دہائی)، اور افغانستان پر سویت یونین کی مداخلت اور اس کے خلاف سی آئی اے کی خفیہ جنگ (1980 کی دہائی)۔

اکیسیویں صدی میں افغانستان پر امریکی حملہ، مشرق وسطیٰ، خاص طور پر عراق پر امریکی چڑھائی اور افغانستان، عراق اور شام میں خانہ جنگیں ان ممالک میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں کی ہلاکت کا سبب بنیں۔

ریاستوں کے درمیان جنگوں کے علاوہ جنگ کی ایک اور قسم میں بھی بہت زیادہ ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں۔ یہ تھی داعش، طالبان یا القاعدہ جیسی غیر ریاستی عسکری تنظیموں سے جنگ۔ ایسی غیر ریاستی تنظیموں سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے پاس واضح حکمت عملی موجود نہیں ہے۔

لیکن جنگ کے متاثرین کی تعداد مختلف جنگوں کے درمیان بہت زیادہ مختلف ہوتی ہے: کورین جنگ (1950-1953) کے دوران بارہ لاکھ افراد ہلاک ہوئے، جبکہ دوسری بعض چھوٹی جنگوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بمشکل ایک ہزار تھی۔

اس وجہ سے جنگوں کی تعداد کے اعداد و شمار کو ان تنازعات کے سائز کے اعداد و شمار کے ساتھ تشریح کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

سنہ ستر کی دہائی میں سنہ 1975 سے لے کر سنہ 1979 کے درمیان کمبوڈیا میں خمر روگ کے دور میں ہونے والی نسل کشی میں ایک اندازے کے مطابق، بیس لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ باوجود اس کے کہ خمر روگ بدترین قسم کی نسل کشی کی ذمہ دار تھی، اقوام متحدہ نے اُس کی قانونی حیثیت کو جائز قرار دیا ہوا تھا۔

اگر ویتنام کمبوڈیا پر حملہ کر کے خمر روگ کو ختم نہ کرتا تو نہ جانے مزید کتنے معصوم لوگ نسل کُشی کا شکار ہوتے۔

نوے کی دہائی کے آغاز میں صومالی صدر محمد سید برّے کی حکومت کے خاتمے کے بعد صومالیہ ایک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ صومالیہ کی خانہ جنگی بنیادی طور قبائلی لڑائیاں تھیں، اقوام متحدہ نے امن مشن کے تحت وہاں بین الاقوامی فوج تعینات کی تھی، لیکن امن قائم کرنے میں ناکام رہی۔

اب صومالیہ مزید گہرے بحران میں دھنس چکا ہے۔ شدت پسندوں اور صومالیہ کی کمزور حکومت کی حامی فوج کے درمیان جنگ نے امن کی کوششوں کو اور بھی زیادہ غیر موثر کردیا ہے۔ اب تک ذرائع کے مطابق اس جنگ میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

مسئلہِ کشمیر

دنیا بھر میں حل نہ ہونے والے تنازعات اور متنازعہ خطوں کو حل کرنے کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ اقوام متحدہ کی اس فہرست میں فلسطین اور کشمیر اس کی ناکامیوں میں سے دو اہم حل طلب تنازعات ہیں۔

سنہ 1947 سے لے کر اب تک کشمیر، انڈیا اور پاکستان کے درمیان تین جنگوں کا سبب بن چکا ہے، اور اب اکثر خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ دونوں ملکوں کے جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے تنازع ایک تباہ کن جنگ کو بھڑکا سکتا ہے۔

دوسری جانب انڈیا کا اصرار ہے کہ کشمیر اول تو اس کا اندرونی معاملہ ہے۔ انڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسئلہِ کشمیر بنیادی طور پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ معاملہ ہے۔ لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق، انڈیا کے حالیہ اقدامات کی وجہ سے کشمیر کے تنازعے میں اب چین بھی ایک فعال کردار بن چکا ہے۔

مسئلہِ فلسطین

مشرقِ وُسطیٰ کا یہ تنازع آج بھی ایک سلگتی ہوئی آگ ہے جس میں اکثر و بیشتر چنگاریاں نکلتی رہتی ہیں۔ اقوام متحدہ نے سنہ 1948 میں اسرائیل ریاست کے قیام کے لیے قرادادیں منظور کی تھیں۔ لیکن انھیں قراردادوں میں مقامی فلسطینی عربوں کا حق بھی تسلیم کیا گیا تھا اور ان کی اپنے آبائی گھروں میں واپسی کے حق کو بھی تسلیم کیا گیا تھا جس پر تاحال عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔

اس دوران سنہ 1967 کی جنگ کے بعد جب اسرائیل نے فلسطین کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیا تو اقوام متحدہ نے اسرائیل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سنہ 1967 سے پہلے کی سرحد کو تسلیم کرتے ہوئے مقبوضہ علاقوں سے دستبردار ہو جائے۔

لیکن ایسا ابھی تک نہیں ہوا، بلکہ اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینی زمین پر یہودی بستیاں آباد کی ہیں جن کی وجہ سے اب دو ریاستی حل کا امکان بھی خطرے میں نظر آرہا ہے۔ اس وقت اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر آباد فلسطینیوں کا بلاکیڈ بھی کیا ہوا ہے جس کی اگرچہ بین الاقوامی برادری نے اگرچہ تائید نہیں کی ہوئی ہے تاہم اسرائیل کے خلاف کوئی موثر کارروائی بھی نہیں کی ہے۔

فلسطینی مسئلے کے حل نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں میں انتہا پسندی بھی بڑھی ہے۔

روانڈا میں بدترین نسل کشی

براعظم افریقہ کے ایک ملک روانڈا میں ہونے والی نسل کُشی کے لیے اقوام متحدہ کو بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ نسل کشی سنہ 1994 میں ہوئی تھی، جو ایک اسرائیلی مصنف ڈور گولڈ کے بقول کمبوڈیا کے علاوہ ہولوکاسٹ کے بعد بدترین نسل کشی تھی جس میں ہُوتُو قبائل کے افراد نے انتہائی بے دردی سے ٹُوٹسی قبائل کے دس لاکھ افراد کو صرف سو دنوں میں قتل کردیا تھا۔

اس نسل کشی کے وقت اقوام متحدہ کی اس ملک میں بڑی تعداد میں موجودگی تھی، لیکن جب سلامتی کونسل میں اس مسئلے پر بحث غیر نتیجہ خیز رہی، تو اُس وقت کے انڈر سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے اقوام متحدہ کی امن فوج کو واپس بلا لیا اور سو دن سے بھی کم عرصے میں دس لاکھ سے زیادہ افراد کا بے دردی سے قتل عام ہوا۔

اس کے بعد، سلامتی کونسل نے فرانس کے زیر قیادت فوجی مداخلت کی منظوری دی جس کے نتیجے میں ہوتو قبائل کے قاتل افراد کو محفوظ پناہ گاہیں دی گئیں۔

روانڈا کے علاوہ اگر آپ اقوام متحدہ کے امن مشن کی کچھ اور سنگین ناکامیوں پر نظر ڈالیں، مثلاً صومالیہ اور انگولا جیسی جگہوں پر، تو اس ادارے کی کمزوریاں اور زیادہ عیاں ہو جاتی ہے۔

چند مزید اہم تنازعات

حل نہ ہونے والے تنازعات میں مشترکہ وجہ یا تو بڑی طاقتوں کی آپس میں تقسیم ہے، یا جیو پولیٹیکل مفادات اتنے بڑے نہیں ہیں کہ ان میں بین الاقوامی دلچسپی زیادہ ہو۔

مثال کے طور پر سنہ 1990 کی دہائی میں روانڈا کی خانہ جنگی کے دوران اقوامِ متحدہ کا غیر فعال ہونا بڑی طاقتوں میں تقسیم کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ اس ملک کے نسلی تنازعے میں کوئی طاقت شامل ہونے کی سیاسی خواہش ہی نہیں رکھتی تھی۔

شام میں اس کے برعکس، روس اور امریکہ کے متضاد مفادات اور مخالف فریق ہیں: روس شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کرتا ہے، جبکہ امریکہ اُس کا مخالف ہے۔ اسی طرح یمن کے معاملے میں ایسا لگتا ہے کہ اسے بڑی طاقتوں نے مقامی طاقت سعودی عرب کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے جو اس خانہ جنگی کا سبب ایران کی اس ملک میں مداخلت قرار دیتا ہے۔

بوسنیا میں مسلمانوں کا قتلِ عام

جولائی سنہ 1995 میں سریبرینیکا، بوسنیا میں اقوام متحدہ کی ایک بٹالین کی اقوام متحدہ کے اعلان کردہ 'فری زون' میں موجودگی کے باوجود آٹھ ہزار مسلم شہری سربوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ یورپ کی سرزمین پر اس سطح کے قتل عام کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔

یوگوسلاویہ کا یہ بحران جہاں بوسنیا کے مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا، اس میں کل ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہوئے، لیکن اقوام متحدہ پر تنقید ہوئی کہ وہ کوئی بھی موثر اقدام لینے میں ناکام رہا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ بحران اس وقت حل ہوا جب امریکہ نے سلامتی کونسل کو نظرانداز کرتے ہوئے براہ راست فوجی مداخلت کی تھی۔

اکیسویں صدی میں دارفور کے انسانی المیہ میں ظلم و جبر سے متاثرہ لوگوں کا دفاع کرنے میں بھی اقوام متحدہ ناکام رہا۔

عراق پر حملہ

سنہ 2003 میں امریکہ کی جانب سے عراق پر حملہ، جس کی (ادارے کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان سمیت بہت سے لوگوں کی نظر میں) کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی اور سلامتی کونسل کی اجازت کے بغیر تھا، اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کے پاس بڑی طاقتوں کے جارحانہ اقدامات کو روکنے کی بہت ہی محدود صلاحیت ہے۔

اس حملے کی وجہ سے مختلف اندازوں کے مطابق کم از کم چار لاکھ افراد ہلاک ہوئے اور یہ ایک بہت بڑی انسانی تباہی کا سبب بنا اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس حملے سے دہشت گردی میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوا۔

مہاجرین کے بحران

اقوام متحدہ کے ارکان نے دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے یورپ میں بے گھر ہونے والے لوگوں کی حالت زار سے نمٹنے کے لیے سنہ 1951 میں پناہ گزینوں کے لیے ایک کنونشن پر دستخط کیے۔ برسوں بعد سنہ 1967 پروٹوکول نے وقت اور جغرافیائی پابندیوں کو ہٹا دیا تاکہ اب یہ کنونشن عالمی سطح پر لاگو ہو سکے (حالانکہ اس کے ایک یورپی کنونشن ہونے کی وجہ سے ایشیا کے بہت سے ممالک نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا)۔

ان معاہدوں کے باوجود، اور اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے کام کے باوجود، تقریباً تین سے 4 کروڑ مہاجرین ہیں، ان میں سے بہت سے، جیسے کہ فلسطینی ہیں جو کئی دہائیوں سے اب تک اپنے وطن سے بے گھر ہیں۔ یہ تعداد اپنے ممالک میں چار کروڑ سے زیادہ بے گھر ہونے والے افراد کے علاوہ ہے۔

اگرچہ ایک طویل عرصے سے پناہ گزینوں کی تعداد کم ہو رہی تھی، تاہم حالیہ برسوں میں، خاص طور پر شامی تنازعے کی وجہ سے، بے گھر ہونے والے لوگوں کی تعداد میں پھر سے اضافہ ہوا ہے۔

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی جبری بے دخلی جس کی وجہ سے لاکھوں افراد میانمار سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس وقت بنگلہ دیش میں پانچ لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان پناہ لیے ہوئے ہیں۔ کووڈ-19 کے بحران کے دوران، روہنگیا پناہ گزینوں کی کشتیوں کو خطے کی کسی بھی بندرگاہ میں داخل نہیں ہونے دیا گیا تھا۔

یہ سانحہ دوسری جنگ عظیم کے حالات کی یاد دلاتا ہے جب نازی جرمنی سے فرار ہونے والے یہودی پناہ گزینوں کے جہازوں کو متعدد ممالک نے اپنی بندرگاہوں میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔

اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ایک مختلف قسم کی تباہی کے متاثرین کے لیے کوئی بین الاقوامی نظام یا کنونشن موجود نہیں ہیں جو بڑھتے ہوئے سمندروں اور آب و ہوا کی تبدیلی کے دیگر اثرات سے بے گھر ہونے والوں کو نئی پناہ گاہیں مہیا کرسکیں۔

حالات تبدیل ہو چکے ہیں

چند تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ آج کے دور کی جیو پولیٹکس کی حقیقت سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ یہ آج بھی سنہ 1945 کے حالات میں پھنسا ہوا ہے، اس وجہ سے اس کے ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

سلامتی کونسل کے مستقل ارکان دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر بین الاقوامی سطح پر طاقت کی تقسیم کی عکاسی کرتے ہیں۔ جرمنی اور جاپان کو آج بھی سلامتی کونسل میں مستقل رکن کی حیثیت حاصل نہیں ہے اور نہ انڈیا اور انڈونیشیا جیسی ابھرتی ہوئی طاقتوں کو، طاقت کے بدلتے ہوئے توازن میں کوئی اہم کردار دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے، جو اقوام متحدہ کے نظام کا حصہ ہیں، مغرب کے زیر تسلط ہیں۔ اس کے جواب میں، چین نے ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک جیسے ممکنہ حریف ادارے بنائے ہیں، لیکن آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طاقت پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔

اقوام متحدہ کے اداروں کا مغربی تسلط ان کی ساکھ کو مجروح کرتا ہے۔ تاہم ایک زیادہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ سنہ 1945 میں بنائے گئے ادارے کا نظام موجودہ دور کے عالمی چیلنجوں سے نابلد ہے، جن میں سے موسمیاتی تبدیلی سب سے زیادہ اہم ہے، جس کا آج کی پوری دنیا کو سامنا ہے۔

اقوام متحدہ کی اہم کامیابیاں

اقوام متحدہ میں کئی خامیوں اور کمیوں کے باوجود بھی اس ادارے کی افادیت اور موثر کو اس کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ یہ ادارہ تیسری عالمی جنگ، جو کہ ماہرین کے خیال میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے کرہِ ارض کے لیے تباہ کن ہوگی، کو تاحال روکنے میں ایک اہم فریم ورک ثابت ہوا ہے۔ دوسرا یہ اس ادارے نے عالمی سطح پر کئی ترقی پذیر ممالک میں انسانی ترقی کے لیے بڑے بڑے ادارے اور نظام تشکیل دیے ہیں۔

امن قائم کرنا

اقوام متحدہ کے بنیادی مقصد کا ایک اہم جزو امن قائم کرنا ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنے دوسرے سیکریٹری جنرل، سویڈش سٹیٹسمین، ڈاگ ہیمرسکولڈ کی سربراہی میں سنہ 1956 کے سویز بحران کو حل کرنے کی کوششوں کے دوران امن مشن قائم کرنے کا تصور پیش کیا تھا۔

اقوام متحدہ کے امن مشن میں غیر جانبدار اور اقوام متحدہ کی مسلح افواج کا استعمال شامل ہے، جو رکن ممالک کی افواج پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس میں پاکستان کی فوج بھی شامل ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران دنیا کے تصادم والے خطوں پر 69 امن مشن اور مبصرین بھیج کر اقوام متحدہ امن قائم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ ان قدامات کی وجہ سے تصادم والے خطوں کے کئی ممالک اپنے تنازعات کو طے کرنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔

دنیا بھر میں اس وقت 16 امن آپریشن چل رہے ہیں جن میں 120 ممالک کے سوا لاکھ مرد اور خواتین شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق، ان مشن میں شامل لوگ ان جگہوں پر جاتے ہیں جہاں دوسرے نہیں جا سکتے ہیں یا جاتے نہیں ہیں۔ جن میں سیرا لیون، لائبیریا، برونڈی، سوڈان اور نیپال کے متنازعہ علاقے ہیں۔ اگرچہ کشمیر تنازعہ بدستور حل طلب معاملات کی فہرست میں شامل ہے، لیکن پاکستان اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر آج بھی اقوام متحدہ کے مبصرین تعینات ہیں۔

جوہری ہتھیاراوں کا عدم پھیلاؤ

پانچ دہائیوں سے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) نے دنیا کے نیوکلیئر انسپکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

آئی اے ای اے کے ماہرین اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے کام کرتے ہیں کہ محفوظ جوہری مواد صرف پرامن مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس ایجنسی کے 180 سے زیادہ ممالک کے ساتھ حفاظتی معاہدے ہیں۔

تاہم اقوام متحدہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قانون پر برابری کی سطح پر عملدرآمد کروانے سے معذور نظر آتا ہے۔ جس طرح ایران کے مبینہ جوہری پروگرام پر اقوام متحدہ سخت پالیسی رکھتا ہے، اسرائیل کے بارے 'نظرانداز کرنے والی' ایک پالیسی اپنائی گئی ہے۔

روایتی اسلحہ میں کمی کی کوششیں

اقوام متحدہ عالمی تخفیف اسلحہ اور ہتھیاروں میں کمی کو امن اور سلامتی کا اہم جزو سمجھتا ہے۔ یہ جوہری ہتھیاروں کو کم کرنے اور بالآخر ختم کرنے، کیمیائی ہتھیاروں کو تباہ کرنے، حیاتیاتی ہتھیاروں کے خلاف ممانعت کو موثر بنانے اور بارودی سرنگوں، چھوٹے ہتھیاروں اور ہلکے ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کام کرتا ہے۔ تاہم امریکہ اور روس کے درمیان تخفیفِ اسلحہ کا معاہدہ دونوں عالمی طاقتوں نے خـود طے کیا تھا۔ اب جب اس کی مدت خـتم ہو رہی ہے تو اقوام متحدہ اس کی توسیع کروانے کے لیے بے بس نظر آتا ہے۔

بہرحال اقوام متحدہ کے مختلف معاہدے تخفیف اسلحہ کی کوششوں کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ متحارب فریق ایل سلواڈور، سیرا لیون، لائبیریا اور دیگر جگہوں پر، اس نے جنگی افواج کو غیر فعال کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ہتھیاروں کو جمع کرنے اور تباہ کرنے پر بھی زور دیا ہے۔

نسل کشی کی روک تھام

اقوام متحدہ نے نسل کشی کے خلاف پہلا معاہدہ کیا۔ 1948 کے نسل کشی کنونشن کی اب تک 146 ممالک توثیق کر چکے ہیں جو جنگ اور امن کے وقت نسل کشی کی کارروائیوں کو روکنے اور سزا دینے کے عزم کا اظہار کرتی ہے۔

یوگوسلاویہ اور روانڈا کے لیے اقوام متحدہ کے ٹربیونلز کے ساتھ ساتھ کمبوڈیا میں اقوام متحدہ کی حمایت سے بننے والی عدالتوں نے نسل کشی کے مرتکب افراد کو نوٹس دیا ہے کہ اس طرح کے جرائم مزید برداشت نہیں کیے جائیں گے۔

دیہی غربت کا خاتمہ

اقوام متحدہ کی دستاویز کے مطابق، بین الاقوامی فنڈ برائے زرعی ترقی (IFAD) انتہائی غریب دیہی لوگوں کو کم سود والے قرضے اور گرانٹ فراہم کرتا ہے۔ سنہ 1978 کے بعد سے IFAD نے 15 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے، 43 کروڑ سے زیادہ خواتین اور مردوں کو خوراک کی زیادہ سے زیادہ پیداواریت بڑھانے اور بیچنے، ان کی آمدنی بڑھانے اور اپنے خاندانوں کی فراہمی میں مدد فراہم کی ہے۔ فی الحال IFAD 147 ممالک میں 240 سے زائد پروگراموں اور منصوبوں میں مدد دے رہا ہے۔

سمندری معاملات کا قانون

سنہ 1973 اور سنہ 1982 کے درمیان بات عالمی سطح پر چیت اور مذاکرات کی بنیاد پر اقوام متحدہ کے کنونشن برائے سمندری قانون (یونائیٹڈ نیشنز کنونشن آن دی لاء آف دی سی - UNCLOS) نے سمندروں میں حدود اور قومی استحقاق کے تعین کرنے کے لیے موجودہ بین الاقوامی قانون تشکیل دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ سمندری وسائل اور سمندری زندگی کے تحفظ اور سمندروں کے تحفظ کے لیے نئی دفعات بھی شامل کیں۔

زیادہ تر ممالک سمندر کے بارے میں اس کنونشن کی پاسداری کرتے ہیں۔ چین کے مشرقی اور جنوبی چین کے سمندروں کے بارے میں مختلف تنازعات ہیں۔ اگرچہ UNCLOS تنازعات کو حل کرنے کے لیے میکانزم بناتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک طاقتور ریاست ان میکانزم کو تسلیم بھی کرے۔

دوسرے سمندر کے ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے، اگرچہ UNCLOS ایک بہت بڑا اقدام ہے، لیکن وہ سمندروں کی مناسب حفاظت کرنے میں ناکام رہا ہے جو کسی بھی ریاست کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ اوشین ایکو سسٹمز کو ڈرامائی طور پر اوور فشنگ کے ذریعے تبدیل کیا گیا ہے۔ یہ ایک ماحولیاتی تباہی ہے جسے یو این سی ایل او ایس نےبہر حال سست ضرور کیا ہے، لیکن اس پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔

محکوم قوموں کی آزادی

نسلی مساوات اور لوگوں کے حق خود ارادیت کے تصور پر پہلی جنگ عظیم کے تناظر میں بحث کی گئی تھی اس لیے اس تصور کو مسترد کردیا گیا۔ تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد ان اصولوں کی اقوام متحدہ کے نظام میں توثیق کی گئی، اور ٹرسٹ شپ کونسل، جو (محکوم قومیوں کی آزادی (ڈیکولونائزیشن) کے عمل کی نگرانی کرتی تھی، اقوام متحدہ کے ابتدائی اداروں میں سے ایک اہم ادارہ تھا۔

اگرچہ بہت سی قومی آزادی کی تحریکیں ایک خونی جنگ کے بعد کامیاب ہوئیں، لیکن اقوام متحدہ نے ڈیکولونائزیشن کے عمل کی نگرانی کی وجہ سے بین الاقوامی سیاست کی نوعیت بدل گئی۔ سنہ 1945 میں دنیا کی ایک تہائی آبادی نوآبادیاتی نظام کی محکوم تھی، جبکہ آج بیس لاکھ سے کم لوگ غیر ملکی طاقتوں کے کسی نو آبادیاتی نظام کے تحت محکوم ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی

اقوام متحدہ نے موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے چلینجوں سے نمٹنے کے لیے سنہ 1988 میں 'انٹرنیشنل پینل آن کلائمیٹ چینج' (IPCC) تشکیل دیا تھا تاکہ موسمیاتی تبدیلی کی اس سائنس کو فروغ دیا جائے اور ان تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگایا جا سکے۔ اس پینل کے نتیجہ میں سنہ 1992 میں موسمیاتی تبدیلیوں کے معاملے پر ایک مستقل فورم بنایا گیا۔ لیکن اس سائنسی ادارے کی تجاویز کے باوجود اور 165 ممالک کے اس معاہدے پر دستخط کے باوجود، ابھی تک زہریلی گیسوں کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

اگر معاہدہِ پیرس میں طے کیے گئے اہداف کو حاصل کر بھی لیا جائے تب بھی دنیا کا موسم گرم ہوتا جائے گا۔ اس برس کووڈ-19 کی وجہ سے حدت میں کمی ہوگی لیکن پھر بھی خلا میں زہریلی گیسوں کا ارتکاز بڑھے گا۔

اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اقوام متحدہ کے نظام میں اگرچہ کئی ممالک کسی ایک اہم معاملے پر متفق تو ہو جاتے ہیں لیکن متفقہ اہداف حاصل کرنے کے لیے ہر ملک کو مجبور نہیں کر سکتے ہیں، خاص کر ایسے ممالک کو جو اپنے مفادات متفقہ اہداف کی خلاف ورزی کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

انسانی حقوق

سنہ 1948 کے انسانی حقوق کے اعلامیے میں اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ 'انسانی خاندان کے تمام افراد کے موروثی وقار اور مساوی اور ناقابل تنسیخ حقوق آزادی، انصاف اور امن کی بنیاد ہیں۔' دنیا میں پہلی بار بنیادی انسانی حقوق عالمی سطح پر محفوظ کیے گئے۔

سنہ 1948 کے بعد سے اب تک 10 انسانی حقوق کے معاہدے منظور کیے گئے ہیں۔

انسانی حقوق کی زبان نے فرد، ریاست اور بین الاقوامی نظام کے درمیان تعلقات کے بارے میں سوچنے کے لیے ایک نیا فریم ورک تشکیل دیا ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ کہیں گے کہ سیاسی تحریکیں 'حقوق' کے بجائے 'آزادی' پر مرکوز ہیں، تاہم انسانی حقوق کے تصور نے ہر فرد کو قومی اور بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔

ہم اپنے اپنے سیاسی نظریات کی روشنی میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کو ایک بڑی کامیابی سمجھ سکتے ہیں یا ایک بڑی ناکامی کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ آپ کچھ بھی سوچیں، لیکن ڈبلیو ٹی او تنازعات کے حل کے ایک واضح اور موثر عمل کے ساتھ بین الاقوامی تجارتی قانون کا ایک مربوط نظام تشکیل دیتا ہے۔

تاہم، ڈبلیو ٹی او نے گلوبلائزیشن کے دور کو فعال کیا جو اب سیاسی طور پر متنازعہ ہے۔

حال ہی میں امریکہ نے آزاد تجارتی نظام میں مداخلت کی ہے۔ چین کے ساتھ تجارتی جنگ کے علاوہ امریکہ نے ڈبلیو ٹی او کی اپیلیٹ باڈی میں ٹربیونل کے ارکان مقرر کرنے سے بھی انکار کیا، اس لیے اس نے تنازعات کے حل کے عمل کو لولا لنگڑا کر دیا ہے۔

امریکہ یقیناً چین کی تجارتی حکمت عملی کے ساتھ مسئلہ اٹھانے والی پہلا ملک نہیں ہے، جس میں 'ریاستی ملکیتی کاروباری اداروں' کے لیے سبسڈی کا معاملہ بھی شامل ہے۔ امریکہ کا مطالبہ ہے کہ چین انٹیلیکچؤل پراپرٹی رائیٹس بھی تسلیم کرے۔اقوام متحدہ کے دیگر فائدے

اس کے علاوہ بے شمار دیگر میدانوں میں اقوام متحدہ نہ صرف ایک عالمی تھنک ٹینک کا کردار ادا کر رہا ہے بلکہ منصوبہ بندی کی سہولیات سمیت مالی امداد بھی مہیا کر رہا ہے۔ ان میں تاریخی ورثے والی عمارات کا تحفظ، ثقافتی تبادلہ، خواندگی میں اضافہ، بچوں اور عورتوں کے حقوق کا تحفظ، اقلیتوں کا تحفظ، جمہوریت کا فروغ، حق خود ارادیت اور استصواب رائے کی کوششیں کرنا، رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیاز ختم کرانا، آزادئِ صحافت اور آزادئِ اظہارِ رائے کے حقوق کا تحفظ کرنے میں بھی اقوام متحدہ کا اہم کردار ہے۔

جنگی جرائم میں ملوث لوگوں اور رہنماؤں پر مقدمات چلانا بھی اقوام متحدہ کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ابھی چند برسوں میں سریبرینیکا، بوسنیا میں مسلمانوں کے قتلِ عام میں ملوث سرب رہنماؤں اور جرنیلوں پر مقدمات چلائے گئے اور سزائیں سنائی گئیں۔ دہشتگردی، انسانی سمگلنگ، منشیات کی سمگلنگ اور پھیلاؤ کے روک تھام کے لیے اقدامات میں بھی اقوام متحدہ کا اہم کردار رہا ہے۔

فلسطینی مہاجرین کے لیے انتظامات، مختلف قدرتی آفات کے متاثرین کی امداد، قدرتی تباہی کے نقصانات کو کم کرنے کی کوششوں، ضرورت مندوں کو خوراک مہیا کرنا، صحت کے عالمی ادارے (ڈبلیو ایچ او) کے ذریعے دنیا کے مختلف ضرورت مند خطوں میں صحت عامہ کے انتظامات، ایچ آئی وی / ایڈز جیسی متعدی بیماریوں کی روک تھام کرنا، چیچک کا خاتمہ، پولیو کا خاتمہ، مختلف وباؤں پر قابو پانے میں تعاون، بچہ اور زچہ کی زندگی اور صحت کی حفاظت کے لیے کوششیں کرنا اور صارفین کے حقوق کا دفاع کرنے میں بھی اقوام متحدہ اہم کردار ادا کر رہا ہے۔اقوام متحدہ کا مستقبل

بہرحال اقوام متحدہ بحیثیت ایک ادارہ ناکام بھی رہا ہے اور کئی شعبوں میں کامیاب بھی رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے دوسرے سیکریٹری جنرل ڈاگ ہیمرسکولڈ نے اس ادارے کو موثر بنانے کی کافی کوششیں کی تھیں۔ انہوں نے ایک موقعہ پر کہا تھا کہ اقوام متحدہ 'انسانیت کو جنت میں لے جانے کے لیے نہیں، بلکہ انسانیت کو جہنم سے بچانے کے لیے بنایا گیا ہے۔'

اس تناظر میں دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کی کوششوں کو سراہا جا سکتا ہے تاہم اس ادارے کو بہتر بنانے کی بہت ضرورت ہے وگرنہ اس کے مستقبل میں غیر متعلقہ ہوجانے کے خدشات بھی بڑھ رہے ہیں۔ خاص کر مستقل ارکان کی اجارہ داری اور امریکہ کی قیادت میں نیٹو جیسے اداروں کا اس ادارے سے بالا بالا یا متوازی سطح پر اپنے فیصلے کرنا اور ان پر علدرآمد کرنا اس ادارے کے مستقبل کے لیے سنگین نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ پر لکھنے والے کئی تجزیہ کار اس میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔

مثال کے طور پر قاہرہ یونیورسٹی کے احمد مدہت نے اپنی کتاب 'ایک تنقیدی تجزیہ: اقوام متحدہ کی کارکردگی موجودہ عالمی چیلنجز کی روشنی میں' میں کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے 'تمام مسائل کا کلیدی حل اور اقوام متحدہ کے داغدار بین الاقوامی امیج کو بہتر بنانے کی کنجی پانچ مستقل ارکان کے ہاتھ میں ہے۔ سلامتی کونسل میں اصلاحات اور دیگر اصلاحاتی قراردادوں کے مسودوں کو پر عمل درآمد کے لیے سنہری کلید بگ فائیو کے پاس ہے کیونکہ ان قراردادوں کو منظور کرنے اور ضرورت پڑنے پر چارٹر میں ترامیم کے لیے ان کی منظوری ضروری ہے۔'

ان کے مطابق، اقوام متحدہ ایک بیمار جسم بن چکا ہے، خاص طور پر آخری دہائی کے دوران مستقل اراکین کے اقدامات کی وجہ سے، جو نہ مرتا ہے اور نہ کبھی ٹھیک ہوتا ہے۔ فی الحال صرف دو ممکنہ راستے ہیں جن کے اپنے اپنے ممکنہ اثرات ہیں۔ لیکن ان میں کسی کا انتخاب انہی مستقل ارکان کو کرنا ہوگا۔ ایک راستہ یہ ہے کہ سیاسی قوت ارادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی طاقتیں اپنے تصادموں اور مفادات کو الگ کرتے ہوئے دنیا اور غیر مستحکم علاقوں اور خانہ جنگیوں میں مصیبت زدہ اقوام کا احساس کریں اور دوسرے ممالک اور اقوام متحدہ کے ساتھ قدم بقدم بحرانوں کا خاتمہ کریں اور ایک روشن مستقل کے نقیب بنیں۔

دوسرا مایوس کن راستہ ان طاقتوں کا اپنا تکبر جاری رکھنا ہے، جس کا مطلب اقوام متحدہ کے پہلے سے کمزور ہوتے ہوئے ادارے کو مسمار کرنا اور تنازعات اور مسائل کو مزید خراب کرنا ہے۔ لیکن پانچ مستقل ارکان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر انھوں نے موخرالذکر راستے کا انتخاب کیا تو وہ اس کی بھاری قیمت ادا کریں گے اور یہ طاقتیں قلیل مدتی فوائد حاصل کرنے کے لیے، جلد یا بدیر اپنے اعمال کے غیرمنصفانہ اور برے اثرات کا خود بھی شکار ہوں گی۔

احمد مدہت مزید کہتے ہیں کہ رکن ممالک کو سیکرٹری جنرل سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ تنازعات اور جنگ بندی کو ایک طرف رکھیں تاکہ وہ اس حقیقی چیلنج پر توجہ مرکوز کرسکیں جو اس وقت دنیا کو درپیش ہے۔ کورونا وائرس، دنیا کے تمام ممالک، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک پر بیک وقت حملہ کر رہا ہے اور اس کے نتیجے میں لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور کروڑوں متاثر ہو چکے ہیں۔ 'ہم امید کرتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، اقوام متحدہ اور خاص طور پر ڈبلیو ایچ او، رکن ممالک اور آبادی کے مابین تعاون سے اس وبائی مرض کا خاتمہ کرے گا اور ہمارے خاندانوں اور پیاروں کی زندگیاں بچائے گا!'