مصر کے معروف مصنف اور اخوان المسلمون کے شہید رہنما سید قطب نے
قید کے آخری ایام میں ایک خوبصورت ایمان افروز نظم تحریر کی تھی، جس کا اردو ترجمہ پیش خد مت ہے۔
أخي أنتَ حُرٌّ وراء السُّدود۔۔۔۔۔۔۔۔ أخي أنت حُرٌّ بتلك القُیُود
إذا كنتَ باللہ مستعصما -------- فماذا يضيرك كيد العبيد
اے میرے ہمدم، ہم نوا ! تو ان سلاخوں کے پیچھے ، طوق وسلاسل میں بھی آزاد ہے۔
اگر ا اللہ پر تیرا ایمان مضبوط ہے تو اِن نادانوں کی چالیں
تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔
أخي سنبيد جيوشُ الظلام۔۔۔۔۔۔۔ ويشرق في الكون فجرٌ جديد
فأَطلقْ لروحِك إشراقَها ۔۔۔۔۔۔۔۔ ترى الفجر يرمقُنا من بعيد
اے دوست! جلد تاریکیوں کے
آثار مٹ جائیں گے اور دنیا میں ایک نئی صبح طلوع ہو کر رہے گی۔
ذرا تواپنی روح پر ، صبح بہار کی چمکتی کرنیں پڑنے دے ۔ وہ دیکھ!
نئی صبح ہمیں دورسے
اشارہ کر رہی ہے۔
أخي قد سرتْ من يديك الدماء۔۔۔۔۔۔ أبت أن تُشلّ بقيد الإماء
ستَرْفَعُ قُربانُها. لِلسَّماء۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مخضّبۃً بوِسَام الخلود
میرے دوست ! معلوم ہے کہ تیرے دونوں ہاتھ ہتھکڑیوں کی وجہ سے خون آلود ہے ۔ اس کے باجود ہار ماننے سے انکار کر دیا۔
جلد ان
ہاتھوں
کے لہو کی قربانی ، حیات ابدی کا تمغۂ لیکر آسمان پر بلند
ہونے والی ہے۔
أخي هل تُراكَ سئمتَ الكفاح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و ألقيتَ عن كاهليك السِّلاح
فمَنْ للضحايا يواسي الجراح ۔۔۔۔۔۔۔ و يرفع راياتها من جديد
اے دوست! لگتا ہے کہ تو معرکہ حق میں خوف
زدہ ہے ،
اور کندھوں سے ہتھیار اتار پھینکا ہے۔
بتا ! پھران جانثاروں کے
زخموں پر مرہم رکھنے والا ، اور دوبارہ شہدا
ء کا عَلم بلند کرنے والا کون ہوگا ؟
أخي إنني اليوم صَلْبُ المِراسِ ------- أدُكُّ صخورَ الجبال الرواسِ
غدا سأشيح بفأس الخلاص --------- رؤوس الأفاعي إلى أن تبيد
اے دوست ! اب تو میں بلند پہاڑوں کی سخت چٹانوں کو کلہاڑی سے ریزہ
ریزہ کرنے کی مشق کررہاہوں ۔
کل جلد
ہی زہریلے سانپوں کے سر وں پر آخری وار کرنے والا
ہوں تاکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست نابود ہوجائے ۔
سأثأرُ لكن لربٍّ و دين--------- و أمضي على سنتي في يقين
فإما إلى النصر فوق الأنام -------- وإما إلى الله فى الخالدين
میں جلد ہی صرف میرے رب اور دین حق کی خاطرانتقام
لینے والا ہوں ۔ اور میں پورے یقین کے
ساتھ اپنی راہ پر گامزن ہوں ۔
یہاں تک کہ دنیا والوں میں
غازی بن کر رہوں یا اللہ کے پاس حیات ابدی پانے والوں میں شامل ہوجاؤں ۔
۔
اخي إنني ماسئمتُ الكفاح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولا أنا ألقيت عنّي السلاح
فإن أنا مِتُّ فإني شهيد ----- و أنت ستمضي بنصر مجديد
اے دوست! یقین جانو! نہ تو میں
معرکہ شہادت سے گھبرایا اور نہ
ہی میں نے اپنا ہتھیار پھینکا۔
اگر مجھے جام شہادت نصیب ہوا تو میں
شہید کہلاؤں گا اور تُو بھی نئی فتح کے ساتھ
منزل کی طرف رواں دواں رہے گا ۔
و إني على ثقة من طريقي----- إلى الله رب السنا و الشروق
فإن عافني الشوك أو عَاقنِي --------- فإني أمين لعهد الوثيق
بے شک مجھے یقین ہے کہ میں رب کائنات کی راہ
پر گامزن ہوں ۔
اگر اس راہ کے کانٹوں سے بچکر نکل گیا یا
ان میں پھنس گیا ، ہر صورت میں اپنا کیاہوا وعدہ
پورا کروں گا ۔
أخي فامْضِ لا تلتفتْ للوراء ---- طريقك قد خضبته الدماء
و لا تلتفتْ ههنا أو هناك ------- و لا تتطلع لغير السماء
اے دوست! تو آگے کی طرف بڑھتا چلا جا
! پیچھے مڑ کر اِدھر اُدھر مت دیکھ ،
تیری راہ، شہیدوں کے خون سے رنگین ہے ۔
تو اپنی نگاہ ادھر ادھر
مت دوڑا ، صرف آسمان کی طرف بلند رکھ ۔
فلسنا بطير مهيض الجناح ---- و لن نُستذلَّ – و لن نُستباحَ
و إني لأسمع صوت الدماء ------ قويا ينادي الكفاحَ الكفاح
ہم کسی ٹوٹے پر والے، پرندے جیسے نہیں ہیں ، اور ہرگز
نہ ہم جھکیں گے اور نہ ہی ہار مانیں گے ۔
اور یقین جانو! کہ میں تو شہیدوں کی آواز سن
رہاہوں اور ایک طاقتور شہید: "شہادت،
شہادت" کی صدا دے رہا ہے ۔
أخي إن ذرفتَ عليّ الدموع ----- و بللّتَ قبري بها في خشوع
فأوقد لهم من رفاتي الشموع ----- و سيروا بها نحو مجد تليد
میرے دوست ! اگر تو مجھ پر آنسو بہائےگا تو اس عاجزی
میں میری قبر کو آنسؤں سے تر کر دے گا ۔
بس تو میری ہڈیوں سے
شمعیں روشن کر نا ، پھر ان کی
روشنی میں ابدی کامیابی کی طرف بڑھتے جانا ۔
أخي إن نمُتْ نلقَ أحبابنا ----- فروضات رَبي أعدت لنا
وأطيارها رفرفت حولنا ------ فطوبى لنا في ديار الخلود
اگر ہم موت کی آغوش میں چلے
گئے تو ہم رب کے باغات میں اپنے احباب سے جاملیں گے جو ہمارے لیے تیار ہیں ۔
جہاں مرغان خوشنوا ، ہمارے ارد گرد محوِ پرواز ہوں گے ، ہم اس ابدی دیار کے اندر خوش و خرم رہیں گے ۔