عدم سے وجود کا معمہ

عدم سے وجود کا پُراصرار معمہ: 

 بِگ بینگ یا 'اِنفجارِ کبیر' سے پہلے کیا موجود تھا؟


الیسٹر وِلسن
'دی کنورسیشن' کی رپورٹ


یہ کائنات عدم سے وجود میں کیسے آئی یا جسے ہم عدم سمجھتے ہیں اُس سطح پر کیا کسی کا وجود تھا؟ یہ ایک پُراسرار معمہ ہے۔ لیکن قدرت کے یہ راز چند ماہرینِ طبیعیات کو کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے کے دور کو جاننے کی کوششوں کو روک نہیں سکی ہے۔


میرا خیال ہے کہ عدمِ وجود سے عدمِ وجود ہی نکلتا ہے۔ کسی شہ کے وجود میں آنے کے لیے کسی مادّے کے وجود کا یا اجزا کا ہونا ضروری ہے، اور ان کا حصول بھی ممکن ہونا چاہیے، اس کے علاوہ بھی کچھ ہونا چاہیے۔ وہ مادّہ کہاں سے آیا جس کی وجہ سے 'انفجارِ کبیر' (بِگ بین کا دھماکہ) ہوا، اور سب سے پہلے تو یہ کہ ایسا کیا ہوا کہ وہ مادّہ وجود میں آیا؟ یہ سوال آسٹریلیا کے پیٹر نے کیا۔


بی بی سی کی کائنات کے بارے میں حالیہ سیریز ’یونیورس‘ میں معروف طبیعیات دان برائن کاکس نے خبردار کیا کہ 'آخری ستارہ آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور ختم ہو جائے گا۔ اس کے ختم ہو جانے کے ساتھ کائنات ایک بار پھر خالی ہو جائے گی، بغیر روشنی کے، بغیر زندگی کے، یا بغیر معنی کے۔'


اس آخری ستارے کے دھندلا ہونے کے ساتھ صرف ایک لامحدود طویل، تاریک دور کا آغاز ہوگا۔ تمام مادّے کو آخرکار کائنات کا دیو ہیکل 'سیاہ سوراخ' (بلیک ہولز) نگل لے گا، جس کے نتیجے میں روشنی کی مدھم ترین جھلک بخارات میں تبدیل ہو جائے گی۔ کائنات ہمیشہ باہر کی طرف پھیلے گی یہاں تک کہ وہ مدھم روشنی بھی اتنی زیادہ پھیل جائے گی کہ اس کا وجود تقریباً معدوم ہو جائے گا۔ ایک لحاظ سے کائنات میں تمام سرگرمیاں بند ہو جائیں گی۔


کیا واقعی ایسا ہوگا؟ عجیب بات یہ ہے کہ علومِ کائنات کے کچھ ماہرین (کاسمولوجسٹس) اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک پچھلی، ٹھنڈی اندھیری خالی کائنات جو ہمارے مستقبل بعید میں موجود ہے، ہمارے اپنے ہی انفجارِ کبیر' (بگ بینگ) کا ذریعہ یا سبب ہو سکتی تھی۔

پہلا مادّہ

لیکن اس سے پہلے کہ ہم اس مقام تک پہنچیں آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ 'مادّہ' - ٹھوس جسمانی مادہ - سب سے پہلے کیسے وجود میں آیا۔ اگر ہم ایٹموں یا مالیکیولز سے بنے مستحکم مادّے کی ابتدا کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں تو یقیناً بگ بینگ کے آس پاس اس میں سے کوئی چیز موجود نہیں تھی اور نہ ہی اس کے بعد کے کروڑوں سالوں تک اس کا کوئی وجود تھا۔


درحقیقت ہمیں اس بات کی کافی سمجھ ہے کہ ایک بار جب حالات کافی ٹھنڈے ہو جاتے ہیں تو پیچیدہ مادے کے مستحکم ہونے کے لیے پہلے ایٹم کس طرح سادہ ذرات سے بنتے ہیں، یہ ایٹم بعد میں ستاروں کے اندر بھاری عناصر میں مل جاتے ہیں۔ لیکن یہ وضاحت اس سوال کا جواب نہیں دیتی ہے کہ عدم سے کسی شہ کا وجود کیسے ظہور میں آیا۔


تو آئیے ہم اس سے بھی مزید پیچھے کے وقت میں سوچتے ہیں۔ کسی بھی قسم کے پہلے طویل عرصے تک رہنے والے مادے کے ذرّات پروٹون اور نیوٹران تھے، جو مل کر ایٹم نیوکلئس بناتے ہیں۔ یہ بگ بینگ کے بعد ایک سیکنڈ کے دس ہزارویں حصے کے قریب وجود میں آئے۔ اس نقطہ سے پہلے لفظ کے کسی بھی واقف معنی میں واقعی کوئی مادّہ وجود نہیں رکھتا تھا، لیکن طبیعیات (فزکس) ہمیں ٹائم لائن کو پیچھے کی طرف کھوج لگانے کی اجازت دیتی ہے - جسمانی عمل (فیزیکل پروسس) تک جو کسی بھی مستحکم مادّے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔


یہ کھوج ہمیں نام نہاد 'عظیم متحدہ عہد' کے تصور کی طرف لے جاتا ہے۔ اب تک ہم قیاس آرائی پر مبنی طبیعیات کے دائرے میں آ چکے ہیں کیونکہ ہم اپنے تجربات میں اتنی گہرائی یا گیرائی پیدا نہیں کر سکتے کہ اس وقت جو عمل چل رہے تھے ان کی تحقیقات کر سکیں۔ لیکن ایک قابل فہم مفروضہ یہ ہے کہ طبعی دنیا مختصر مدت کے ابتدائی ذرّات کے مائع کی صورت کے مادّے (سُوپ) سے بنی تھی، جس میں کوارک، پروٹون اور نیوٹران کے 'بلڈنگ بلاکس' بھی شامل ہیں۔ مادّہ اور 'ضدِّ مادّہ' (اینٹی میٹر) دونوں تقریباً برابر مقدار میں موجود تھے۔ ہر قسم کے مادّے کے ذرّے، جیسے ہر کوارک، میں ایک اینٹی میٹر 'آئینے کی تصویر' کی مانند اس کا ساتھی ہوتا ہے، جو قریب قریب ایک جیسا ہوتا ہے، صرف ایک پہلو میں مختلف ہوتا ہے۔ تاہم جب مادّہ اور ضدِّ مادّہ آپس میں ملتے ہیں تو توانائی کی ایک چمک میں فنا ہو جاتے ہیں، یعنی یہ ذرات مسلسل تخلیق اور تباہ ہوتے رہتے ہیں۔


لیکن سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ذرّات کیسے وجود میں آئے؟ کوانٹم فیلڈ تھیوری ہمیں بتاتی ہے کہ ایک خلا بھی جو کہ خالی سپیس ٹائم سے مطابقت رکھتا ہے، توانائی کے اتار چڑھاؤ کی صورت میں وہ بھی ایک ٹھوس جسمانی سرگرمی سے بھرا ہوا ہے۔ یہ اتار چڑھاؤ ذرّات کے باہر نکلنے کو جنم دے سکتا ہے، اور یہ صرف تھوڑی دیر بعد غائب ہو جاتا ہے۔ یہ حقیقی طبیعیات کے بجائے ایک ریاضیاتی مفروضہ لگتا ہے، لیکن ایسے ذرّات کو لاتعداد تجربات میں دیکھا گیا ہے۔


عدم کے دور کے زماں و مکاں کے خلائی وقت (سپیس ٹائم ویکیوم سٹیٹ) کے دوران ذرّات مسلسل تخلیق اور تباہ ہونے کے ساتھ جھلس بھی رہے ہوتے ہیں، بظاہر یہ سب 'عدم سے وجود' کا لمحہ بنتا ہے۔ لیکن شاید یہ سب ہمیں واقعی بتاتا ہے کہ کوانٹم ویکیوم (اس کے نام کے باوجود) ایک وجود رکھنے والی چیز ہے، نہ کہ کسی عدم کا نام ہے۔ فلسفی ڈیوڈ البرٹ نے بگ بین نظریے پر ایک یادگار تنقید کی ہے جو اس طرح سے عدم سے کسی شہ کے وجود میں آنے کے بارے میں ایک وضاحت پیش کرنے کا امکان پیدا کرتی ہے۔


فرض کریں کہ ہم پوچھتے ہیں کہ 'خلائی وقت' (سپیس ٹائم) خود کہاں سے پیدا ہوا؟ اس کے بعد ہم گھڑی کو مزید پیچھے موڑتے ہوئے، حقیقی معنوں میں قدیم 'پلانک عہد' (بِگ بین کے فوراً بعد کے چند بہت ہی مختصر سے لمحے ہیں) میں جا سکتے ہیں - کائنات کی تاریخ میں اتنا ابتدائی دور کہ طبیعیات کے ہمارے بہترین نظریات اُس کا مطالعہ کرتے ہوئے بکھر گئے۔ یہ دور بگ بینگ کے بعد ایک سیکنڈ کے کھربویں کے کھربویں حصے کا صرف کروڑواں حصہ بنتا ہے۔ اس مقام پر جگہ اور وقت خود کوانٹم اتار چڑھاؤ کے تابع ہو گئے۔ طبیعیات دان عام طور پر کوانٹم میکانکس کے ساتھ الگ الگ کام کرتے ہیں، جو عمومی اضافیت (جنرل ریلیٹیویٹی) کے ساتھ، جو بڑے، کائناتی پیمانوں پر لاگو ہوتا ہے، ذرات کے 'مائیکرو ورلڈ' کا مطالعہ کرتے ہیں۔ لیکن 'پلانک عہد' کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لیے ہمیں دونوں کو ملا کر کوانٹم گریویٹی کے ایک مکمل نظریہ کی ضرورت ہے۔


ہمارے پاس ابھی تک کوانٹم گریویٹی کا کوئی مکمل نظریہ نہیں ہے، لیکن کوششیں ہو رہی ہیں - جیسے سٹرنگ تھیوری اور لوپ کوانٹم گریویٹی۔ ان کوششوں میں عام جگہ اور وقت کو کسی گہرے سمندر کی سطح پر لہروں کی طرح ابھرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ خلا اور وقت کے طور پر ہم جو کچھ تجربہ کرتے ہیں وہ کوانٹم پروسیسز کی پیداوار ہیں جو ایک گہری، خوردبین سطح پر کام کرتے ہیں - ایسے عمل جو مائیکروسکوپک دنیا میں جڑی ہوئی مخلوقات کے طور پر ہمارے لیے زیادہ معنی نہیں رکھتے ہیں۔


ہم زیادہ سے زیادہ یہ بات اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تک علم طبیعیات کو ایسا کوئی مصدقہ ثبوت نہیں ملا ہے کہ کوئی مادّہ عدم سے وجود میں آتا ہے


'پلانک عہد' میں جگہ اور وقت کے بارے میں ہماری عام سمجھ بوجھ جواب دے دیتی ہے اس لیے اب ہم وجہ اور اثر کی اپنی عام سمجھ بوجھ پر بھروسہ نہیں کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود کوانٹم گریویٹی کے تمام ممکنہ نظریات کسی ایسی طبعی چیز کو بیان کرتے ہیں جو 'پلانک عہد' میں ہو رہی تھی --- عام جگہ اور وقت کا کچھ کوانٹم پیش خیمہ۔ لیکن یہ کہاں سے آیا؟


یہاں تک کہ اگر ایک وجہ کا اطلاق کسی عام انداز میں نہیں ہوتا ہے، تب بھی یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ 'پلانک-ایپوک' کائنات کے ایک جزو کی کیس دوسرے انداز یا کسی دوسرے لحاظ سے وضاحت کی جائے۔ بدقسمتی سے اب تک ہماری بہترین طبیعیات بھی اس قسم کے سوالات کے جوابات فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔ جب تک ہم 'ہر چیز کے نظریہ' کی طرف مزید پیش رفت نہیں کرتے ہیں ہم کوئی حتمی جواب نہیں دے پائیں گے۔ اس مرحلے پر ہم زیادہ سے زیادہ یہ بات اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تک علم طبیعیات کو ایسا کوئی مصدقہ ثبوت نہیں ملا ہے کہ کوئی مادّہ عدم سے وجود میں آتا ہے ۔

عدم سے وجود میں آنے کا چکر


اس سوال کا صحیح معنوں میں جواب دینے کے لیے کہ کوئی چیز عدم سے کیسے پیدا ہو سکتی ہے، ہمیں 'پلانک عہد' کے آغاز میں پوری کائنات کی کوانٹم حالت کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ایسا کرنے کی تمام کوششیں صرف اندازوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ ایک مافوق الفطرت قوتوں، جیسے کسی ایک 'خالق' کا خیال پیش کرتی ہیں۔ لیکن دیگر امکانات کی وضاحتیں طبیعیات کے دائرے میں رہتی ہیں - جیسے کہ ایک 'ملٹی ورس' (کثیرالکائنات)، جس میں متوازی کائناتوں کی لامحدود تعداد، یا کائنات کے سائیکلیکل (تکرار کے ساتھ بار بار ہونے والے) ماڈلز، جن کے مطابق یہ کائناتیں پیدا ہوتی اور ایک مرتبہ پھر دوبارہ جنم لیتی ہیں۔


سنہ2020 کے نوبل انعام یافتہ ماہر طبیعیات راجر پینروز نے ایک سائیکلیکل (تکرار کے ساتھ بار بار پیدا ہونے والی) کائنات کے لیے ایک دلچسپ لیکن متنازعہ ماڈل تجویز کیا جسے 'کنفارمل سائکلک کاسمولوجی' کا نام دیا گیا ہے۔ پینروز کائنات کی ایک بہت ہی گرم، کثیف اور ٹھوس، چھوٹی کیفیت کے درمیان ایک دلچسپ ریاضیاتی تعلق سے متاثر ہوا تھا - جیسا کہ یہ بگ بینگ کے وقت تھا - اور کائنات کی ایک انتہائی سرد، خالی، پھیلی ہوئی کیفیت - جیسا کہ یہ مستقبل بعید میں ہوگا۔ اس بدلتی کیفیت کی وضاحت کرنے کے لیے پینروز کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ جب وہ کیفیتیں اپنی حدود تک لے جائیں تو ریاضیاتی طور پر یہ ایک جیسی ہو جاتی ہیں۔ اگرچہ یہ متضاد سی بات لگاتی ہے، تاہم مادّے کی مکمل عدم موجودگی ان تمام مادّوں کو جنم دینے میں کامیاب ہو سکتی ہے جو ہم اپنی کائنات میں اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں۔


اس خیال کے مطابق، بگ بینگ تقریباً عدم سے نہیں پیدا ہوتا ہے۔ یہی وہ چیز باقی رہ جاتی ہے جب کائنات کا تمام مادّے کو بلیک ہولز ہڑپ کر جاتا ہے، جو بدلے میں ابل کر فوٹون بن جاتا ہے - ایک عدم میں گم ہو جاتا ہے۔ اس طرح پوری کائنات --- دوسرے ٹھوس جسمانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے --- کسی ایسی چیز سے پیدا ہوتی ہے جو اتنی قریب ہے کہ اس کو سمجھنا ممکن نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ اب بھی کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ اب بھی ایک ٹھوس جسمانی کائنات ہے، اگرچہ خالی ہے۔


بالکل ایک ہی حالت ایک نقطہ نظر سے سرد، خالی کائنات اور دوسرے نقطہ نظر سے گرم کثیف اور ٹھوس کائنات کیسے ہو سکتی ہے؟ اس کا جواب ایک پیچیدہ ریاضیاتی طریقہ کار میں مضمر ہے جسے 'کونفارمل ریسکیلنگ' (متشاکل بازیافت) کہا جاتا ہے، ایک ہندسی تبدیلی جو عملاً کسی شے کے سائز کو بدل دیتی ہے لیکن اس کی شکل میں کوئی تبدیلی نہیں لاتی ہے۔


پینروز نے یہ دکھایا کہ ٹھنڈی کثیف اور ٹھوس حالت اور گرم کثیف اور ٹھوس حالت کا تعلق اس طرح کے ری اسکیلنگ کے ذریعہ کیسے ہوسکتا ہے تاکہ وہ اپنے سپیس ٹائم کی شکلوں کے حوالے سے میل کھاتے ہوں - نہ کے ان کے سائز سے۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ دو اشیا اس طرح ایک جیسی کیسے ہو سکتی ہیں جب ان کے سائز مختلف ہوتے ہیں - لیکن پینروز کا کہنا ہے کہ سائز کا تصور اس طرح کے انتہائی ٹھوس جسمانی ماحول میں معنی کوئی نہیں رکھتا۔


کنفارمل سائیکلِک کاسمولوجی (conformal cyclic cosmology) میں وضاحت کی سمت بوڑھے اور سرد سے جوان اور گرم کی طرف جاتی ہے: ٹھنڈی خالی حالت کی وجہ سے گرم کثیف اور ٹھوس حالت وجود میں آتی ہے۔ لیکن یہ 'کیونکہ' کا نکتہ اس ماحول میں سمجھا نہیں جا سکتا ہے - ایک وجہ ہے جس کے بعد اس کا اثر ہوتا ہے۔ یہ صرف سائز ہی نہیں ہے جو ان انتہائی حالتوں میں متعلقہ نہیں رہتا ہے، بلکہ وقت بھی غیر متعلقہ ہو جاتا ہے۔ ٹھنڈی کثیف اور ٹھوس حالت اور گرم کثیف اور ٹھوس حالت مختلف ٹائم لائنز پر واقع ہوتی ہے۔ ٹھنڈی خالی حالت اپنی عارضی جیومیٹری میں ایک مبصر کے نقطہ نظر سے ہمیشہ کے لیے جاری رہے گی لیکن یہ جس گرم کثیف اور ٹھوس حالت کو جنم دیتی ہے وہ اپنی پوری طرح سے ایک نئی ٹائم لائن کو مؤثر طریقے سے آباد کرتی ہے۔


اس سے گرم کثیف اور ٹھوس حالت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے جیسا کہ سرد خالی حالت سے یہ کسی غیر وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ شاید ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ گرم کثیف اور ٹھوس حالت سرد خالی حالت سے ابھرتی ہے، یا اس کیفیت میں موجود ہوتی ہے، یا اس کا احساس ہوتا ہے۔ یہ مخصوص طور پر مابعد الطبیعیاتی نظریات ہیں جن کو سائنس کے فلسفیوں نے بڑے پیمانے پر دریافت کیا ہے، خاص طور پر کوانٹم گریویٹی کے تناظر میں، جہاں عام وجہ اور اثر سمجھ سے بالا ہوجاتے ہیں۔ ہمارے علم کی حدود میں طبیعیات اور فلسفہ کو الگ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

تجرباتی ثبوت؟

کنفارمل سائیکلِک کاسمولوجی (Conformal cyclic cosmology) کچھ تفصیلی لیکن قیاس آرائی کے باوجود اس سوال کے جوابات پیش کرتی ہے کہ ہمارا بگ بینگ کہاں سے آیا۔ لیکن یہاں تک کہ اگر پینروز کے نقطہ نظر کو کاسمولوجی کی مستقبل کی پیشرفت سے ثابت کیا جاتا ہے، تو ہم سوچ سکتے ہیں کہ ہم نے اب بھی ایک گہرے فلسفیانہ سوال کا جواب نہیں دیا ہوگا --- یہ سوال کہ ٹھوس جسمانی حقیقت خود کہاں سے وجود میں آئی ہے۔ اس چکر یا 'سائیکل' کا سارا نظام کیسے وجود میں آیا؟


پھر ہم آخر کار اس خالص سوال کے ساتھ اپنی بات ختم کرتے ہیں کہ کیوں کسی شہ کا وجود ہے، ہم یہ کیوں نہیں پوچھتے ہیں کہ عدم کیوں ہے - یہ مابعدالطبیعیات کے سب سے بڑے سوالات میں سے ایک ہے۔


لیکن یہاں ہماری توجہ ان وضاحتوں پر ہے جو طبیعیات کے دائرے میں آتی ہیں۔ اس اہم سوال کی تین وسیع امکانی وضاحتیں ہیں کہ یہ موجود سے معدوم کے تکرار کے ساتھ کا سفر یا 'سائیکلز' کیسے شروع ہوئے۔ اس کی کوئی ٹھوس وضاحت بالکل نہیں ہو سکتی تھی۔ یا لامتناہی طور پر دہرائے جانے والے چکر ہوسکتے ہیں، ہر ایک کائنات اپنے طور پر، ہر کائنات کی ابتدائی کوانٹم حالت کے ساتھ کائنات کی کسی نہ کسی خصوصیت سے پہلے وضاحت کی گئی ہے۔ یا ایک ہی چکر، اور ایک ہی دہرائی جانے والی کائنات ہو سکتی ہے، اس چکر کے آغاز کے ساتھ اس کے اپنے اختتام کی کسی خصوصیت سے وضاحت کی گئی ہے۔ مؤخر الذکر دو نقطہ نظر کسی بھی بے وجہ واقعات کی ضرورت سے بچتے ہیں - اور یہ ان میں ایک مخصوص دلچسپی پیدا کرتا ہے۔ طبیعیات کے علوم میں کچھ بھی غیر واضح نہیں چھوڑا جائے گا۔


پینروز جزوی طور پر کوانٹم تھیوری کی اپنی ترجیحی تشریح سے منسلک وجوہات کی بنا پر لامتناہی نئے چکروں کی ترتیب کا تصور کرتا ہے۔ کوانٹم میکانکس میں، ایک ٹھوس جسمانی نظام ایک ہی وقت میں بہت سی مختلف حالتوں کے انطباق یا 'سپرپوزیشن' میں موجود ہوتا ہے، اور جب ہم اس کی پیمائش کرتے ہیں تو کسی ترتیب کے بغیر صرف 'ایک کو چنتا ہے'۔ پینروز کے لیے ہر دور میں بے ترتیب کوانٹم واقعات شامل ہوتے ہیں جو ایک مختلف طریقے سے نکلتے ہیں - یعنی ہر سائیکل اس سے پہلے اور بعد کے واقعات سے مختلف ہوگا۔ یہ دراصل تجرباتی طبیعیات دانوں کے لیے اچھی خبر ہے کیونکہ یہ ہمیں پرانی کائنات کی جھلک دیکھنے کا موقعہ فراہم کر سکتی ہے جس نے پلانک سیٹلائٹ کے ذریعے نظر آنے والی بگ بینگ سے بچ جانے والی تابکاری میں دھندلے نشانات یا بے ضابطگیوں کے ذریعے ہمیں جنم دیا تھا۔


پینروز اور اس کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ انہوں نے یہ نشانات پہلے ہی دیکھے ہوں گے جو پلانک ڈیٹا میں پیٹرن کو پچھلی کائنات میں بڑے پیمانے پر بلیک ہولز سے نکلنے والی تابکاری سے منسوب کرتے ہیں۔ تاہم ان کے دعویٰ کردہ مشاہدات کو دوسرے طبیعیات دانوں نے چیلنج کیا ہے اور ابھی ان کی بات پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔


لامتناہی نئے 'سائیکلز' یا چکر، پینروز کے اپنے وژن کی کلید ہیں۔ لیکن کنفارمل سائیکلِک کاسمولوجی (conformal cyclic cosmology) کو 'ملٹی سائیکل' سے ایک 'سائیکل' فارم میں تبدیل کرنے کا ایک قدرتی طریقہ ہے۔ اس کے بعد فزیکل ریالیٹی بگ بینگ کے ذریعے مستقبل میں زیادہ سے زیادہ خالی حالت تک ایک 'سائیکلنگ' پر مشتمل ہوتی ہے - اور پھر اسی بگ بینگ کے ارد گرد دوبارہ اسی کائنات کو جنم دیتی ہے۔


یہ مؤخر الذکر امکان 'کوانٹم میکانکس' کی ایک اور تشریح سے مطابقت رکھتا ہے جسے کئی دنیاؤں کی تشریح کہا جاتا ہے۔ کئی دنیاؤں کی تشریح ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی ہم کسی ایسے نظام کی پیمائش کرتے ہیں جو سپرپوزیشن میں ہے تو یہ پیمائش بے ترتیبی سے کسی حالت کا انتخاب نہیں کرتی ہے۔ اس کے بجائے پیمائش کا نتیجہ جو ہم دیکھتے ہیں وہ صرف ایک امکان ہے - جو ہماری اپنی کائنات میں ظاہر ہوتا ہے۔ دیگر پیمائش کے نتائج تمام دوسری کائناتوں میں 'ملٹی ورس' (کثیرالکائنات) میں ظاہر ہوتے ہیں، جن کا ہماری کائنات سے تعلق منقطع ہوجاتا ہے۔


لہٰذا اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کسی چیز کے ہونے کا امکان کتنا ہی چھوٹا ہے، اگر اس کا غیر صفر امکان ہے تو یہ کسی کوانٹم متوازی دنیا میں واقع ہوتا ہے۔ دوسری دنیاؤں میں آپ جیسے لوگ ہیں خوش قسمت ہیں، یا ایک عجیب و غریب طوفان کے بادلوں میں بہہ گئے ہیں، یا بے ساختہ آگ لگ گئی ہے، یا یہ تینوں کام بیک وقت ہوئے ہیں۔ ہمارا بگ بینگ شاید ہماری ملٹی ورس (کثیرالکائنات) کی ایک مرتبہ پھر سے پیدائش کا واقعہ ہو جس میں بیک وقت لاتعداد کائناتیں موجود ہوں۔


کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسی متوازی کائناتیں کاسمولوجیکل ڈیٹا میں بھی قابل مشاہدہ ہوسکتی ہیں، جیسا کہ ہماری کائنات کے ساتھ ٹکرانے کی وجہ سے نقوش پیدا ہوتے ہیں۔


بہت ساری دنیاؤں کا کوانٹم نظریہ کنفارمل سائکلک کاسمولوجی کو ایک نیا موڑ دیتا ہے، حالانکہ یہ ایسا نہیں ہے جس سے پینروز متفق ہو۔ ہمارا بگ بینگ ایک واحد کوانٹم ملٹی ورس کا دوبارہ جنم ہو سکتا ہے، جس میں لامحدود بہت سی مختلف کائناتیں ایک ساتھ وجود رکھتی ہوں۔ ہر ممکن چیز ہوتی ہے - پھر یہ معدوم اور موجود کے درمیان سفر تکرار کے ساتھ بار بار ہوتا ہے۔

ایک قدیم داستان

سائنس کے ایک فلسفی کے لیے پینروز کا نقطہ نظر دلکش ہے۔ یہ بگ بینگ کی وضاحت کے لیے نئے امکانات کھولتا ہے، ہماری وضاحتوں کو ایک عام وجہ اور اثر سے آگے لے جاتا ہے۔ لہٰذا یہ مختلف طریقوں کو دریافت کرنے کے لیے ایک بہترین آزمائشی معاملہ ہے جن سے علمِ طبیعیات ہماری دنیا کی وضاحت کر سکتی ہے۔ یہ فلسفیوں کی زیادہ توجہ کا مستحق ہے۔


افسانوی داستانوں کے عاشق کے لیے پینروز کا وِژن خوبصورت اور جاذب ہے۔ پینروز کی ترجیحی ملٹی سائیکل شکل میں یہ اپنے آباؤ اجداد کی راکھ سے پیدا ہونے والی لامتناہی نئی دنیاؤں کے وجود کا وعدہ کرتا ہے۔ اپنے ایک سائیکل کی شکل میں یہ 'اوروبوروز'، یا عالمی سانپ کے قدیم خیال کی دوبارہ سے ایک شاندار جدید دعوت ہے (اوروبروز ایک قدیم علامت ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ سانپ یا ڈریگن اپنی ہی دم کھا رہے ہیں)۔ ناروے کے افسانوں میں یورمونگاندر ناگ ایک چالاک چال باز لوکی اور دیوہیکل دیوی انگربودا کا بچہ ہے۔یورمونگادر اپنی ہی دم کھاتا ہے، اور اس کا بنایا ہوا دائرہ دنیا کے توازن کو برقرار رکھتا ہے۔ لیکن 'اوروبوروز' ککے اس افسانوی کردار کا ذکر قدیم مصر سمیت دنیا کی کئی قدیم داستانوں میں ملتا ہے۔


معدوم اور موجود کے درمیان ایک چکر لگاتی ہوئی کائنات کا 'اوروبوروز' کا تصور ہمارے لیے واقعی بہت شاندار ہے۔ اس کے پیٹ میں ہماری اپنی کائنات ہے، نیز کوانٹم فزکس کی طرف سے اجازت دی گئی ہر ایک عجیب اور حیرت انگیز متبادل ممکنہ کائنات بھی اس تصور میں ہے - اور اس مقام پر جہاں اس کا سر اس کی دم سے ملتا ہے، یہ مکمل طور پر خالی ہے پھر بھی ایک سو ہزار کروڑ ارب کھرب ڈگری سیلسیئس درجہ حرارت کی توانائی کے ساتھ سفر کر رہی ہے۔


یہاں تک کہ مختلف روپ دھار لینے والا لوکی بھی اس حیران کن سفر سے متاثر ہوگا۔


الیسٹر ولسن برمنگھم یونیورسٹی میں فلسفے کے پروفیسر ہیں۔