اینٹی یونیورس: ہماری کائنات کے ساتھ وجود میں آنے والی کائنات جہاں وقت الٹا چلتا ہے


تصور کریں کہ آپ کے پاس ایک چھوٹا سا آئینہ ہے جس میں آپ صرف اپنی آنکھوں کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ ایک اس سے بڑا آئینہ جس میں آپ اپنا پورا چہرہ دیکھ سکتے ہوں اور اس کے بعد آپ کو ایک ایسا آئینہ بھی مل جائے جس میں آپ اپنا پورا جسم دیکھ سکتے ہوں

بِگ بینگ کے بارے میں ہمارے ذہن میں جو بات سب سے عام ہے وہ یہ کہ کائنات اس واقعے سے شروع ہوئی اور اس کے بعد سے مسلسل پھیل رہی ہے۔

تصور کریں اگر ہماری اس کائنات جیسی ایک دوسری کائنات بھی ہو جو ہماری کائنات کے ساتھ ہی وجود میں آئی ہو مگر اس سے مخالف سمت میں پھیل رہی ہو۔

یہ بے باک نظریہ حال ہی میں ماہرینِ کائنات کے ایک گروپ نے کینیڈا کے پیری میٹر انسٹیٹیوٹ فار تھیوریٹیکل فزکس میں شائع کیا ہے۔

ان ماہرین کے مطابق یہ دوسری کائنات، جسے وہ اینٹی یونیورس ( Anti Universe) کہتے ہیں، کیونکہ ہماری کائنات سے مخالف سمت میں پھیل رہی ہے اس لیے وہاں وقت بھی مخالف سمت میں سفر کر رہا ہے۔

یہ مفروضہ یا نظریہ، جو بظاہر بہت پیچیدہ نظر آتا ہے، اسے تخلیق کرنے والوں کی جانب سے ڈارک میٹر سمیت کائنات کے کئی رازوں کو سادہ اور عام فہم زبان میں سمجھانے کی ایک کوشش ہے۔

آئینے کے دوسری طرف

اینٹی یونیورس کے خیال کو سمجھنے کے لیے دو اہم تصورات کو سمجھنا ضروری ہے۔

پہلے نمبر پر ہے پارٹیکل فزکس جو ہمیں ان بنیادی ذرات کے بارے میں بتاتی ہے جن سے کائنات بنی ہے۔ پارٹیکل فزکس ان قوتوں کے بارے میں بھی بتاتی ہے جن کی وجہ سے یہ بنیادی ذرات آپس میں تعلق قائم کرتے ہیں۔

پارٹیکل فزکس کے سٹینڈرڈ ماڈل کے مطابق جب بھی مادے کا کوئی ذرہ حرکت میں آتا ہے ویسا ہی ایک ذرہ ضدِ مادہ (اینٹی میٹر) کا بھی حرکت میں آتا ہے لیکن اس ذرے کا چارج مختلف ہوتا ہے
اس کا مطلب ہے کہ بِگ بینگ کے وقت مادہ اور ضدِ مادہ کی ایک جیسی مقدار پیدا ہوئی ہو گی۔
توازن

دوسرا تصور توازن کا ہے۔ علمِ کائنات میں توازن کے اصول کا مطلب ہے کہ ہر مادی عمل ایک جیسا رہتا ہے چاہے اگر وقت الٹا چلنا ہی کیوں نہ شروع ہو جائے، خلا پلٹ جائے یا ذرات کی جگہ ضدِ ذرات (اینٹی پارٹیکل) لے لیں۔

ان دونوں اصولوں کی بنیاد پر مشابہت کا یہ نظریہ بنایا جا سکتا ہے کہ کائنات ایک وجود رکھتی ہے تو ایک اینٹی یونیورس بھی ہے جو اس کائنات کے تناسب سے اپنا ایک الگ وجود رکھتی ہے۔

کینیڈا کے پیری میٹر انسٹیٹیوٹ فار تھیوریٹیکل فزکس کی ایک تازہ تحقیق کے مصنفین نے ایک ایسے توازن کا جائزہ لیا ہے جسے سی پی ٹی کہتے ہیں یعنی چارج، برابری اور وقت۔

یہ توازن ظاہر کرتا ہے کہ اگر آپ کسی ذرے کی بنیادی خصوصیات کے درمیان تعلق کو پلٹ دیں تو بھی یہ تعلق اسی طرح کام کرے گا۔
تحقیق کاروں کے مطابق ذرات میں توازن کی یہی خصوصیت پوری کائنات پر لاگو ہوتی ہے جس سے ایک متناسب اور متوازن کائنات کے وجود کا امکان پیدا ہوتا ہے۔

اپنی ریسرچ میں تحقیق کار لکھتے ہیں کہ مجموعی طور پر کائنات متوازن ہے۔

اس نظریے کے تحت بگ بینگ وہ نقطۂ آغاز ہے جہاں سے کائنات اور اس جیسی ایک دوسری کائنات وجود میں آئی۔

یہ انیٹی یونیورس کیوں ہے؟

اس تحقیق میں شامل ایک تحقیق کار لیتھم بوائل خبردار کرتے ہیں کہ وہ اینٹی یونیورس مفروضے کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے اور ان کے نظریات کو تجربات کے ذریعے ثابت کرنا لازمی ہے۔ تاہم ان کا خیال ہے کہ ان کے حساب کتاب سے انھیں کچھ سرے ملے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لیتھم بوائل کہتے ہیں ’اب تک ہم یہ سمجھے ہیں کہ وقت کے آیینے میں اینٹی یونیورس ہماری کائنات کا ایک اصلی عکس ہے۔‘

اس خیال کے مطابق اینٹی یونیورس اپنا ایک آزاد وجود نہیں رکھتی بلکہ یہ صرف ہماری کائنات کا عکس ہے۔

اس مخالف کائنات میں ہمارا اپنا بھی ایک مخالف وجود موجود ہے۔ ’اگر آپ ناشتے میں انڈے کھانا چاہتے ہیں تو اینٹی یونیورس میں آپ کا مخالف وجود کسی دوسری چیز کو منتخب نہیں کر سکتا۔‘

’اگر آپ ناشتے میں انڈے کھائیں گے تو آپ کا مخالف وجود بھی مخالف انڈے ہی کھائے گا۔ ‘

اور اینٹی یونیورس میں وقت کیسا ہو گا؟

بوائل اور ان کے ساتھی تحقیق کاروں کے مطابق بِگ بینگ ایک آئینے کی طرح ہے جو نہ صرف مخالف کائنات کا عکس ہے بلکہ وقت کو بھی الٹ دیتا ہے۔

کائنات کے دونوں جانب وقت بِگ بینگ سے دور ہوتا جاتا ہے، ایک طرف یہ دائیں جانب تو دوسری طرف یہ بائیں جانب بہتا ہے۔

بوائل کہتے ہیں ’دونوں کائناتیں سمجھتی ہیں کہ وہ بہترین ہیں اور ان کا وقت آگے بڑھ رہا ہے۔‘
’ہمارے نقطۂ نظر سے مخالف کائنات میں وقت پیچھے کی جانب جا رہا ہے جبکہ ان کے لیے ہمارا وقت الٹی سمت میں سفر کر رہا ہے۔ بوائل کے اس نظریے سے ایک شاندار امکان جنم لیتا ہے اور وہ یہ شاید ہم اینٹی یونیورس یا مخالف کائنات ہیں اور اس حقیقت سے لاعلم ہیں۔

اور اس تحقیق سے یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ کیا اس مخالف کائنات کی جانب سفر کیا جا سکتا ہے۔ بوائل کہتے ہیں ’ہم آئینے میں نظر آنے والے عکس کی جانب نہیں جا سکتے۔ اس کے لیے ہمیں ماضی میں جانے کے قابل ہونا پڑے گا۔‘

اس کا مطلب ہے کہ آپ کو زمان و مکان میں سفر کر کے بِگ بینگ سے پہلے پہنچنا ہوان سب سائنس فکشن خیالات سے الگ بوائل اور ان کے ساتھیوں نے فزکس اور علمِ فلکیات سے متعلق کئی سوالات کے جوابات دینے کی کوشش بھی کی ہے۔

علمِ فلکیات کے تین بنیادی تصورات کے بارے میں چونکا دینے والی تفصیلات ان کی تحقیق کا حصہ ہیں۔ ان میں ڈارک میٹر، بِگ بینگ کے بعد کی صورتحال اور کششِ ثقل کی لہروں شامل ہیں۔

ڈارک میٹر ایک پراسرار چیز ہے اور کائنات کا 25 فیصد اس پر مشتمل ہے لیکن اب تک کوئی اسے دیکھ نہیں سکا ہے اور کسی کو معلوم نہیں کہ یہ کس اجزا سے بنا ہے۔


تاہم ڈارک میٹر کو اس کی کشش کے اثر سے پہچانا جا سکتا ہے جو وہ کائنات پر ڈالتا ہے۔

سائنسدان برسوں سے ڈارک میٹر کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی قابلِ قدر جواب سامنے نہیں آ سکا ہے۔

بغص سائنسدانوں کے خیال میں ہم نہیں جانتے کہ ڈارک میٹر کن اجزا سے بنا ہے اور یہ ہماری اب تک کی سمجھ سے باہر ہے۔ تاہم بوائل کی تحقیق اس معمے کا ایک سادہ جواب دیتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ڈارک میٹر کے بارے میں سمجھانے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہم نئے اجزا کا تصور کریں۔ اس کے بجائے یہ سوچیں کے ڈارک میٹر رائٹ ہینڈڈ نیوٹرینوس سے بنا ہوا ہے۔ رائٹ ہینڈڈ نیوٹرینوس کے وجود کے بارے میں ثابت نہیں ہو سکا ہے لیکن بوائل کے مطابق یہ سٹینڈرڈ ماڈل کا حصہ ہیں۔ اس طرح بوائل اس سوال کا جواب فزکس کے ان قوانین کے اندر رہتے ہوئے دینے کی کوشش کرتے ہیں جو ہمیں پہلے سے معلوم ہیں۔

اب تک صرف لیف ہینڈڈ نیوٹرینوس کے بارے میں معلوم تھا۔ لیکن ایک متوازن کائنات میں رائٹ ہینڈڈ نیوٹرینوس کا مطلب ہے اینٹی نیوٹرینوس جن کے وجود کے بارے میں ہم توقع کر سکے ہیں کہ وہ مخالف کائنات میں ہوں گے۔

یہ نیوٹرینوس نظر نہیں آتے اور انھیں صرف ان کی کشش کی وجہ سے پہنچانا جا سکتا ہے۔