ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


حکومت و فرماں روائی اور غلبہ و استیلا کی دو قسمیں ہیں

• ایک ذہنی اور اخلاقی غلبہ

• دوسرا سیاسی اور مادی غلبہ

پہلی قسم کا غلبہ یہ ہے کہ ایک قوم اپنی فکری قوتوں میں اتنی ترقی کر جائے کہ دوسری قومیں اسی کے افکار پر ایمان لے آئیں‘ اسی کے تخیلات‘ اسی کے معتقدات‘ اسی کے نظریات دماغوں پر چھا جائیں‘ ذہنیتیں اسی کے سانچے میں ڈھلیں‘ تہذیب اسی کی تہذیب ہو‘ علم اسی کا علم ہو‘ اسی کی تحقیق کو تحقیق سمجھا جائے اور ہر وہ چیز باطل ٹھہرائی جائے جس کو وہ باطل ٹھہرائے۔ دوسری قسم کاغلبہ یہ ہے کہ ایک قوم اپنی مادی طاقتوں کے اعتبار سے اتنی قوی بازو ہو جائے کہ دوسری قومیں اس کے مقابلے میں اپنی سیاسی و معاشی آزادی کو برقرار نہ رکھ سکیں اور کلی طور پر، یا کسی نہ کسی حد تک وہ غیر قوموں کے وسائل ثروت پر قابض اور ان کے نظم مملکت پر حاوی ہو جائے۔

اس کے مقابلے میں مغلوبیت اور محکومیت کی بھی دو قسمیں ہیں:

• ایک ذہنی مغلوبیت

• دوسری سیاسی مغلوبیت

ان دونوں قسموں کی صفات کو اُن صفات کا عکس سمجھ لیجیے جو اوپر غلبے کی دو قسموں کے متعلق بیان کی گئی ہیں۔

یہ دونوں قسمیں ایک اعتبار سے الگ الگ ہیں۔ لازم نہیں ہے کہ جہاں ذہنی غلبہ ہو، وہاں سیاسی غلبہ بھی ہو، اور نہ یہ لازم ہے کہ جہاں سیاسی غلبہ ہو، وہاں ذہنی غلبہ بھی ہو، لیکن فطری قانون یہی ہے کہ جو قوم عقل و فکر سے کام لیتی اور تحقیق و اکتشاف کی راہ میں پیش قدمی کرتی ہے‘ اس کو ذہنی ترقی کے ساتھ ساتھ مادی ترقی بھی نصیب ہوتی ہے اور جو قوم تفکر و تدبر کے میدان میں مسابقت کرنا چھوڑ دیتی ہے وہ ذہنی انحطاط کے ساتھ مادی تنزل میں بھی مبتلا ہو جاتی ہے۔ پھر چونکہ غلبہ نتیجہ ہے قوت کا اور مغلوبیت نتیجہ ہے کمزوری کا‘ اس لیے ذہنی و مادی حیثیت سے درماندہ اور ضعیف قومیں اپنی درماندگی اور ضعف میں جس قدر ترقی کرتی جاتی ہیں اُسی قدر وہ غلامی اور محکومیت کے لیے مستعد ہوتی چلی جاتی ہیں اور طاقت وَر ذہنی اور مادی دونوں حیثیتوں سے طاقت وَر قومیں ان کے دماغ اور ان کے جسم دونوں پر حکمراں ہو جاتی ہیں۔

مسلمان آج کل اسی دوہری غلامی میں مبتلا ہیں۔ کہیں دونوں قسم کی غلامیاں پوری طرح مسلط ہیں اور کہیں سیاسی غلامی کم اور ذہنی غلامی زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت کوئی اسلامی آبادی ایسی نہیں ہے جو صحیح معنوں میں سیاسی اور ذہنی اعتبار سے پوری طرح آزاد ہو۔ جہاں ان کو سیاسی استقلال اور خود اختیاری حاصل بھی ہے‘ وہاں وہ ذہنی غلامی سے آزاد نہیں ہیں۔ ان کے مدرسے‘ ان کے دفتر‘ ان کے بازار‘ ان کی انجمنیں‘ ان کے گھر‘ حتیٰ کہ ان کے جسم تک اپنی زبانِ حال سے شہادت دے رہے ہیں کہ ان پر مغرب کی تہذیب‘ مغرب کے افکار‘ مغرب کے علوم و فنون حکمران ہیں۔ وہ مغرب کے دماغ سے سوچتے ہیں، مغرب کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، مغرب کی بنائی ہوئی راہوں پر چلتے ہیں، خواہ ان کو اس کا شعور ہو یا نہ ہو‘ بہر صورت یہ مفروضہ اُن کے دماغوں پر مسلط ہے کہ حق وہ ہے جس کو مغرب حق سمجھتا ہے اور باطل وہ ہے جس کو مغرب نے باطل قرار دیا ہے۔ حق‘ صداقت‘ تہذیب‘ اخلاق‘ انسانیت‘ شائستگی‘ ہر ایک کا معیار ان کے نزدیک وہی ہے جو مغرب نے مقرر کر رکھا ہے۔ اپنے دین و ایمان‘ اپنے افکار و تخیلات‘ اپنی تہذیب و شائستگی اپنے اخلاق و آداب‘ سب کو وہ اسی معیار پر جانچتے ہیں۔ جو چیز اس معیار پر پوری اترتی ہے اسے درست سمجھتے ہیں‘ مطمئن ہوتے ہیں‘ فخر کرتے ہیں کہ ہماری فلاں چیز مغرب کے معیار پر پوری اترآئی اور جو چیز اُس معیار پر پوری نہیں اترتی اُسے شعوری یا غیر شعوری طور پر غلط مان لیتے ہیں۔ کوئی علانیہ اس کو ٹھکرا دیتا ہے‘ کوئی دل میں گھٹتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کر اُسے مغربی معیار کے مطابق کر دے۔

جب ہماری آزاد قوموں کا حال یہ ہے تو جو مسلمان قومیں مغربی اقوام کی محکوم ہیں اُن کی ذہنی غلامی کا حال کیا پوچھنا۔

اِس غلامی کا سبب کیا ہے؟ اس کی تشریح کے لیے ایک کتاب کی وسعت درکار ہے، مگر مختصًرا اس کو چند لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔

ذہنی غلبے و استیلا کی بِنا دراصل فکری اجتہاد اور علمی تحقیق پر قائم ہوتی ہے۔ جو قوم اس راہ میں پیش قدمی کرتی ہے وہی دنیا کی رہنما اور قوموں کی امام بن جاتی ہے اور اسی کے افکار دنیا پر چھا جاتے ہیں اور جو قوم اس راہ میں پیچھے رہ جاتی ہے اسے مُقَلِّد و مُتَّبِع بننا پڑتا ہے۔ اُس کے افکار و معتقدات میں یہ قوت باقی نہیں رہتی کہ وہ دماغوں پر اپنا تسلط قائم رکھ سکیں۔ مجتہد و محقق قوم کے طاقت وَرافکار و معتقدات کا سیلاب اُن کو بہا لے جاتا ہے اور اُن میں اتنا بل بوتا نہیں رہتا کہ اپنی جگہ پر ٹھہرے رہ جائیں۔ مسلمان جب تک تحقیق و اجتہاد کے میدان میں آگے بڑھتے رہے تمام دنیا کی قومیں ان کی پَیرو اور مُقَلّد ہیں۔ اسلامی فکر ساری نوعِ انسانی کے افکار پر غالب رہی۔ حسن اور قبح‘ نیکی اور بدی‘ غلط اور صحیح کا جو معیار اسلام نے مقرر کیا وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر تمام دنیا کے نزدیک معیار قرار پایا اور قصدًایا اضطرا رًا دنیا اپنے افکار و اعمال کو اسی معیار کے مطابق ڈھالتی رہی، مگر جب مسلمانوں میں اربابِ فکر اور اصحابِ تحقیق پیدا ہونے بند ہوگئے‘ جب انھوں نے سوچنا اور دریافت کرنا چھوڑ دیا‘ جب وہ اکتسابِ علم اور اجتہادِ فکر کی راہ میں تھک کر بیٹھ گئے تو گویا انھوں نے خود دنیا کی رہنمائی سے استعفیٰ دے دیا۔ دوسری طرف مغربی قومیں اس میں آگے بڑھیں۔ انھوں نے غور و فکر کی قوتوں سے کام لینا شروع کیا‘ کائنات کے راز ٹٹولے اور فطرت کی چھپی ہوئی طاقتوں کے خزانے تلاش کیے‘ اس کا لازمی نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ مغربی قومیں دنیا کی رہنما بن گئیں اور مسلمانوں کو اسی طرح ان کے اقتدار کے آگے سرتسلیمِ خم کرنا پڑا جس طرح کبھی دنیا نے خود مسلمانوں کے اقتدار کے آگے خم کیا تھا۔

چار پانچ سو سال تک مسلمان اپنے بزرگوں کے بچھائے ہوئے بستر پر آرام سے سوتے رہے اور مغربی قومیں اپنے کام میں مشغول رہیں۔ اس کے بعد دفعتہ مغربی اقتدار کا سیلاب اٹھا اور ایک صدی کے اندر اندر تمام روئے زمین پر چھا گیا۔ نیند کے ماتے آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے تو دیکھا کہ مسیحی یورپ قلم اور تلوار دونوں سے مسلح ہے اور دونوں طاقتوں سے دنیا پر حکومت کر رہا ہے۔ ایک چھوٹی سی جماعت نے مدافعت کی کوشش کی مگر نہ قلم کا زور تھا نہ تلوار کا۔ شکست کھاتی چلی گئی۔ رہا قوم کا سواد اعظم تو اس نے اسی سنت پر عمل کیا جو ہمیشہ سے کمزوروں کی سنت رہی ہے۔ تلوار کے زور‘ استدلال کی قوت‘ علمی شواہد کی تائید اور نظر فریب حسن و جمال کے ساتھ جو خیالات‘ نظریات اور اصول مغرب سے آئے‘ آرام طلب دماغوں اور مرعوب ذہنیتوں نے ان کو ایمان کا درجہ دے دیا۔ پرانے مذہبی معتقدات‘ اخلاقی اصول اور تمدنی آئین جو محض روایتی بنیادوں پر قائم رہ گئے تھے‘ اس نئے اور طاقت وَر سیلاب کی رو میں بہتے چلے گئے اور ایک غیر محسوس طریقے سے دلوں میں یہ مفروضہ جاگزیں ہوگیا کہ جو کچھ مغرب سے آتا ہے وہی حق ہے اور وہی صحت و درستی کا معیار ہے۔

مغربی تہذیب کے ساتھ جن قوموں کا تصادم ہوا اُن میں سے بعض تو وہ تھیں جن کی کوئی مستقل تہذیب نہ تھی۔ بعض وہ تھیں جن کے پاس اپنی ایک تہذیب تو تھی مگر ایسی مضبوط نہ تھی کہ کسی دوسری تہذیب کے مقابلے میں وہ اپنے خصائص کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی۔ بعض وہ تھیں جن کی تہذیب اپنے اصول میں اس آنے والی تہذیب سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہ تھی۔ ایسی تمام قومیں تو بہت آسانی سے مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ گئیں‘ اور کسی شدید تصادم کی نوبت نہ آنے پائی، لیکن مسلمانوں کا معاملہ ان سب سے مختلف ہے۔ یہ ایک مستقل اور مکمل تہذیب کے مالک ہیں۔ ان کی تہذیب اپنا ایک مکمل ضابطہ رکھتی ہے جو فکری اور عملی دونوں حیثیتوں سے زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ مغربی تہذیب کے اساسی اصول کلیتہً اس تہذیب کے مخالف واقع ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدم قدم پر یہ دونوں تہذیبیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں اور ان کے تصادم سے مسلمانوں کی اعتقادی اور عملی زندگی کے ہر شعبے پر نہایت تباہ کن اثر پڑ رہا ہے۔

مغربی تہذیب نے جس فلسفے اور سائنس کی آغوش میں پرورش پائی ہے وہ پانچ چھے سو سال سے دہریت‘ الحاد‘ لا مذہبی اور مادہ پرستی کی طرف جارہے ہیں۔ وہ جس تاریخ پیدا ہوئی اسی تاریخ سے مذہب کے ساتھ اس کی لڑائی شروع ہوگئی‘ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مذہب کے خلاف عقل و حکمت کی لڑائی ہی نے اس تہذیب کو پیدا کیا۔ اگرچہ کائنات کے آثار کا مشاہدہ‘ اُن کے اسرار کی تحقیق‘ ان کے کلی قوانین کی دریافت‘ ان کے مظاہر پر غور و فکر‘ اور ان کو ترتیب دے کر قیاس و برہان کے ذریعے سے نتائج کا استنباط‘ کوئی چیز بھی مذہب کی ضد نہیں ہے‘ مگر سوئے اتفاق سے نشاۃِ جدید (Rennaissance)کے عہدمیں جب یورپ کی نئی علمی تحریک رونما ہوئی‘ تو اس تحریک کو ان عیسائی پادریوں سے سابقہ پیش آیا جنھوں نے اپنے مذہبی معتقدات کو قدیم یونانی فلسفہ و حکمت کی بنیادوں پر قائم کر رکھا تھا اور جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر جدید علمی تحقیقات اور فکری اجتہاد سے ان بنیادوں میں ذرا سا بھی تزلزل واقع ہوا تو اصل مذہب کی عمارت پیوندِ خاک ہو جائے گی۔ اس غلط تخیل کے زیر اثر انھوں نے نئی علمی تحریک کی مخالفت کی اور اس کے روکنے کے لیے قوت سے کام لیا۔ مذہبی عدالتیں (Inquisitions)قائم کی گئیں جن میں اس تحریک کے علم برداروں کو سخت وحشیانہ اور ہولناک سزائیں دی گئیں، لیکن یہ تحریک ایک حقیقی بیداری کا نتیجہ تھی، اس لیے تشدد سے دبنے کے بجائے اور بڑھتی چلی گئی حتیٰ کہ حریتِ فکر کے سیلاب نے مذہبی اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔

ابتدا میں لڑائی حریت فکر کے علم برداروں اور کلیسا کے درمیان تھی مگر چونکہ کلیسا مذہب کے نام پر آزاد خیالوں سے جنگ کر رہا تھا‘ اس لیے بہت جلدی اس لڑائی نے مسیحی مذہب اور آزاد خیالی کے درمیان جنگ کی صورت اختیار کرلی۔ اس کے بعد نفس مذہب (خواہ وہ کوئی مذہب ہو) اس تحریک کا مد مقابل قرار دیا گیا۔ سائنٹفک طریقے پر سوچنے کے معنی یہ قرار پائے کہ یہ طریق فکر مذہبی طریق فکر کی عین ضد ہے۔ جو شخص سائنٹفک طریق سے کائنات کے مسائل پر غور کرے اس پر لازم ہے کہ مذہبی نظریے سے ہٹ کر اپنی راہ نکالے۔ کائنات کے مذہبی نظریے کا بنیادی تخیل یہ ہے کہ عالم طبیعت (Physical World) کے تمام آثار اور جملہ مظاہر کی علت کسی ایسی طاقت کو قرار دیا جائے جو اس عالم سے بالاتر ہو۔ یہ نظریہ چونکہ جدید علمی تحریک کے دشمنوں کا نظریہ تھا اس لیے جدید تحریک کے علم برداروں نے لازم سمجھا کہ خدا یا کسی کو فوق الطبیعت (Super natural)ہستی فرض کیے بغیر کائنات کے معمے کو حل کرنے کی کوشش کریں اور ہر اس طریقے کو خلافِ حکمت (Unscientific)قرار دیں جس میں خدا کا وجود فرض کرکے مسائل کائنات پر نظر کی گئی ہو۔ اس طرح نئے دور کے اہل حکمت و فلسفہ میں خدا اور روح یا روحانیت اورفوق الطبیعت کے خلاف ایک تعصب پیدا ہوگیا جو عقل و استدلال کا نتیجہ نہ تھا بلکہ سراسر جذبات کی برانگیختی کا نتیجہ تھا۔ وہ خدا سے اس لیے تبریٰ نہ کرتے تھے کہ دلائل اور براہین سے اس کا عدمِ وجود اور عدمِ وجوب ثابت ہوگیا تھا‘ بلکہ اس سے اس لیے بیزار تھے کہ وہ ان کے اور ان کی آزادی خیال کے دشمنوں کا معبود تھا۔ بعد کی پانچ صدیوں میں ان کی عقل و فکر اور ان کی علمی جدوجہد نے جتنا کام کیا اس کی بنیاد میں یہی غیر عقلی جذبہ کار فرما رہا۔

مغربی فلسفہ اور مغربی سائنس دانوں نے جب سفر شروع کیا تو اگرچہ ان کا رخ خدا پرستی کے بالکل مخالف سمت میں تھا، تاہم چونکہ وہ مذہبی ماحول میں گھرے ہوئے تھے اس لیے وہ ابتداءً نیچریت (Naturalism)کو خدا پرستی کے ساتھ ساتھ نباہتے رہے، مگر جوں جوں وہ اپنے سفر میں آگے بڑھتے گئے‘ نیچریت خدا پرستی پر غالب آتی چلی گئی حتیٰ کہ خدا کا تخیل‘ اور خدا کے ساتھ ہر اُس چیز کا تخیل جو عالم طبیعت سے بالاتر ہو‘ اُن سے بالکل غائب ہوگیا اور وہ اس انتہا پر پہنچ گئے کہ مادہ و حرکت کے سوا کوئی شے ان کے نزدیک حقیقی نہ رہی‘ سائنس نیچریت کا ہم معنی قرار پاگیا اور اہل حکمت و فلسفہ کا ایمان اس نظریہ پر قائم ہوگیا کہ ہر چیز جو ناپی اور تولی نہیں جاسکتی اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔مغربی فلسفہ و سائنس کی تاریخ اس بیان کی شاہد ہے

۱۔ ڈیکارٹ (Descartes،م ۱۶۵۰ء) جو مغربی فلسفے کا آدم سمجھا جاتا ہے ایک طرف تو خدا کا زبردست قائل ہے‘ اور مادہ کے ساتھ روح کا مستقل وجود بھی مانتا ہے مگر دوسری طرف وہی ہے جس نے عالم طبیعت کے آثار کی توجیہ میکانکی (Mechanical) طریق پر کرنے کی ابتدا کی اور اس طریق فکر کی بنیاد رکھی جو بعد میں سراسر مادہ پرستی (Materialism) بن گیا۔

۲۔ ہابس (Hobbes،م۱۶۷۹ء) اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر فوق الطبیعت (Super natural)کی کھلم کھلا مخالفت کرتا ہے‘ نظام عالم اور اس کی ہر شے کو میکانکی توجیہہ کے قابل قرار دیتا ہے اور کسی ایسی نفسی یا روحی یا عقلی قوت کا قائل نہیں ہے جو اس مادی دنیا میں تصرف کرنے والی ہو مگر‘ اس کے ساتھ ہی وہ خدا کو بھی مانتا ہے۔ اس حیثیت سے کہ ایسی ایک علت العلل کا ماننا ایک عقلی ضرورت ہے۔

۳۔ اسی زمانے میں سپائنوزا (Spinoza،م۱۶۷۷ء) اٹھا جو سترھویں صدی میں عقلیت (Rationalism) کا سب سے بڑا علم بردار تھا۔ اس نے مادہ اور روح اور خدا کے درمیان کوئی فرق نہ رکھا‘ خدا اور کائنات کو ملا کر ایک کل بنا دیا اور اس کل میں خدا کے اختیار مطلق کو تسلیم نہ کیا۔

۴۔ لائبنیز (Leibnitz،م۱۷۱۶ء) اور لاک (Locke،م ۱۷۰۴ء) خدا کے قائل تھے‘ مگر دونوں کا میلان نیچریت کی جانب تھا۔

یہ سترھویں صدی کا فلسفہ تھا جس میں خدا پرستی اور نیچریت دونوں ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ اسی طرح سائنس نے بھی سترھویں صدی تک کامل الحاد کا رنگ اختیار نہیں کیا۔ کوپر نیکس (Copernicus)، کپلر (Kepler)، گیلیلو(Galileo)، نیوٹن اور سائنس کے دوسرے علم برداروں میں سے کوئی بھی خدا کا منکر نہ تھا، مگر یہ کائنات کے اسرار کی جستجو میں الٰہی نظریے سے قطع نظر کرکے ان قوتوں کو تلاش کرنا چاہتے تھے جو اس نظام کو چلا رہی ہیں اور ان قوانین کو معلوم کرنے کے خواہش مند تھے جن کے تحت یہ نظام چل رہا ہے۔ یہ الٰہی نقطہ نظر سے قطع نظر کرنا ہی دراصل اس دہریت اور نیچریت کا تخم تھا جو بعد میں حریتِ فکر کے درخت سے پیدا ہوئی، لیکن سترھویں صدی کے حکما کو اس کا شعور نہ تھا۔ وہ نیچریت اور خدا پرستی میں کوئی خطِ امتیاز نہ کھینچ سکے اور یہی سمجھتے رہے کہ یہ دونوں ایک ساتھ نبھ سکتی ہیں۔

اٹھارہویں صدی میں یہ حقیقت نمایاں ہوگئی کہ جو طریق فکر خدا کی ہستی کو نظر انداز کرکے، نظامِ کائنات کی جستجو کرے گا وہ مادیت‘ بے دینی اور الحاد تک پہنچے بغیر نہ رہ سکے گا۔ اس صدی میں جان ٹولینڈ (John Toland)، ڈیوڈہار ٹلے (David Hartley)، جوزف پریسٹلے (Josoph Priestley)،والٹیر (Voltaire)، میٹری (La Mettrie)، ہول باخ (Holbach)، کیبانیس (Cabanis)،ڈینس ڈائیڈیرو (Denis Diderot)،مانٹسیکو (Montisque)، روسو (Rosseau) اور ایسے ہی دوسرے آزاد خیال فلاسفر و حکما پیدا ہوئے جنھوں نے یا تو علانیہ خدا کے وجود سے انکار کیا، یا اگر بعض نے اسے تسلیم کیا بھی تو اس کی حیثیت ایک دستوری فرماں روا (Constitutional Moharch)سے زیادہ نہ سمجھی جو نظامِ کائنات کو ایک مرتبہ حرکت میں لے آنے کے بعد گوشہ نشین ہوگیا ہے اور اب اس نظام کے چلانے میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہ لوگ عالم طبیعت‘ اور دنیائے مادہ حرکت کے باہر کسی چیز کے وجود کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے اور اِن کے نزدیک حقیقت صرف انھی چیزوں کی تھی جو ہمارے مشاہدے و تجربے میں آتی ہیں۔ ہیوم (Hume)نے اپنی تجربیت (Empiricism) اور فلسفہ تشکیک (Scepticism)سے اس طریق فکر کی زبردست تائید کی اور معقولات کی صحت کے لیے بھی تجربے ہی کو معیار قرار دینے پر زور دیا۔ برکلے (Berkeley) نے مادیت کی اس بڑھتی ہوئی رَو کا جان توڑ مقابلہ کیا مگر وہ اس کو نہ روک سکا۔ ہیگل (Hegal)نے مادیت کے مقابلے میں تصوریت (Idealism) کو فروغ دینا چاہا مگر ٹھوس مادے کے مقابلے میں لطیف تصور کی پرستش نہ ہوئی۔ کانٹ (Kant) نے بیچ کی یہ راہ نکالی کہ خدا کی ہستی‘ روح کابقا‘ اور ارادے کی آزادی ان چیزوں میں سے نہیں ہیں جو ہمارے علم میں آسکیں۔ یہ چیزیں مانی نہیں جاسکتیں۔ تاہم ان پر ایمان لایا جاسکتا ہے اور حکمت عملی (Practical Wisdom)اس کی مقتضی ہے کہ ان پر ایمان لایا جائے۔ یہ خدا پرستی اور نیچریت کے درمیان مصالحت کی آخری کوشش تھی، لیکن ناکام ہوئی کیونکہ جب عقل و فکر کی گمرہی نے خدا کو محض وہم کی پیداوار یا حد سے حد ایک معطل اور بے اختیار ہستی قرار دے لیا تو محض اخلاق کی حفاظت کے لیے اس کو ماننا‘ اس سے ڈرنا‘ اور اس کی خوشنودی چاہنا سراسر ایک غیر عاقلانہ فعل تھا۔

انیسویں صدی میں مادیت اپنے کمال کو پہنچ گئی‘ فوگت (Vogt)، بوخنر (Buchner)، سولبے (Czolbe)، کومت (Comte)، مولشات (Moleschotte) اور دوسرے حکما و فلاسفہ نے مادہ اور اس کے خواص کے سوا ہر شے کے وجود کو باطل قرار دیا۔ مل (Mill) نے فلسفے میں تجریت اور اخلاق میں افادیت (Utiliterianism) کو فروغ دیا۔ اسپنسر (Spencer) نے فلسفیانہ ارتقائیت اور نظام کائنات کے خود بخود پیدا ہونے اور زندگی کے آپ سے آپ رونما ہو جانے کا نظریہ پوری قوت کے ساتھ پیش کیا۔ حیاتیات (Biology)، عضویات (Physiology)،ارضیات (Geology) اور حیوانیات (Zoology) کے اکتشافات، عملی سائنس کی ترقی اور مادی وسائل کی کثرت نے یہ خیال پوری پختگی کے ساتھ دلوں میں راسخ کر دیا کہ کائنات آپ سے آپ وجود میں آئی ہے‘ کسی نے اس کو پیدا نہیں کیا۔ آپ سے آپ لگے بندھے قوانین کے تحت چل رہی ہے‘ کوئی اس کو چلانے والا نہیں ہے۔ آپ سے آپ ترقی کے منازل طے کرتی رہی ہے‘ کسی فوق الطبیعت ہستی کا ہاتھ اس خود بخود حرکت کرنے والی مشین میں کام نہیں کر رہا ہے۔ بے جان مادے میں جان کسی کے امر سے نہیں پڑتی‘ بلکہ خود مادہ جب اپنے نظم میں ترقی کرتا ہے تو اس میں جان پڑ جاتی ہے۔ نمو‘ حرکتِ ارادی‘ احساس‘ شعور‘ فکر‘ سب اسی ترقی یافتہ مادے کے خواص ہیں۔ حیوان اور انسان سب کے سب مشینیں ہیں جو طبیعی قوانین کے تحت چل رہی ہیں۔ ان مشینوں کے پرزے جس طور سے ترتیب پاتے ہیں اسی طور کے افعال ان سے صادر ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی اختیار اور کوئی آزاد ارادہ (Free will) نہیں ہے‘ ان کے نظام کا درہم برہم ہو جانا‘ ان کی انرجی کا خرچ ہو جانا ہی ان کی موت ہے جو فنائے محض کی ہم معنی ہے۔ جب مشین ٹوٹ پھوٹ گئی تو اس کے خواص بھی باطل ہوگئے اب ان کے لیے حشر اور بارِدگر پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

ڈارون کے نظریۂ ارتقا نے اس نیچریت اور مادیت کو استحکام بخشنے اور ایک مدلل اور منظم علمی نظریے کی حیثیت دینے میں سب سے بڑھ کر حصہ لیا۔ اس کی کتاب اصل الانواع (Origin of Species) جو ۱۸۵۹ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی‘ سائنس کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کرنے والی کتاب سمجھی جاتی ہے۔ اس نے ایک ایسے طریقِ استدلال سے جو انیسویں صدی کے سائنٹیفک دماغوں کے نزدیک استدلال کا محکم ترین طریقہ تھا‘ اس نظریے پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ کائنات کا کاروبار خدا کے بغیر چل سکتا ہے۔ آثار و مظاہرِ فطرت کے لیے خود فطرت کے قوانین کے سوا کسی اور علت کی حاجت نہیں۔زندگی کے ادنیٰ مراتب سے لے کر اعلیٰ مراتب تک موجودات کا ارتقا ایک ایسی فطرت کے تدریجی عمل کا نتیجہ ہے جو عقل و حکمت کے جوہر سے عاری ہے۔ انسان اور دوسری انواع حیوانی کو پیدا کرنے والا کوئی صانع حکیم نہیں ہے بلکہ وہی ایک جان دار مشین جو کبھی کیڑے کی شکل میں رینگا کرتی تھی‘ تنازع للبقا‘ بقائے اصلح اور انتخابِ طبیعی کے نتیجے کے طور پر ذی شعور اور ناطق انسان کی شکل میں نمودار ہوگئی۔

یہی وہ فلسفہ اور سائنس ہے جس نے مغربی تہذیب کو پیدا کیا ہے۔ اس میں نہ کسی علیم و قدیر خدا کے خوف کی گنجائش ہے‘ نہ نبوت اور وحی و الہام کی ہدایت کا کوئی وزن‘ نہ موت کے بعد کسی دوسری زندگی کا تصور‘ نہ حیاتِ دنیا کے اعمال پر محاسبے کا کوئی کھٹکا‘ نہ انسان کی ذاتی ذمہ داری کا کوئی سوال‘ نہ زندگی کے حیوانی مقاصد سے بالاتر کسی مقصد اور کسی نصب العین کا کوئی امکان۔ یہ خالص مادی تہذیب ہے۔ اس کا پورا نظام خدا ترسی‘ راست روی‘ صداقت پسندی‘ حق جوئی‘ اخلاق‘ دیانت‘ امانت‘ نیکی‘ حیا‘ پرہیزگاری اور پاکیزگی کے اُن تصورات سے خالی ہے جن پر اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اس کا نظریہ اسلام کے نظریے کی بالکل ضد ہے۔ اس کا راستہ اُس راستے کی عین مخالف سمت میں ہے جو اسلام نے اختیار کیا ہے۔ اسلام جن چیزوں پر انسانی اخلاق اور تمدن کی بِنا رکھتا ہے ان کو یہ تہذیب بیخ و بن سے اکھاڑ دینا چاہتی ہے اور یہ تہذیب جن بنیادوں پر انفرادی سیرت اور اجتماعی نظام کی عمارت قائم کرتی ہے اُن پر اسلام کی عمارت ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ٹھہر سکتی۔ گویا اسلام اور مغربی تہذیب دو ایسی کشتیاں ہیں جو بالکل مخالف سمتوں میں سفرکر رہی ہیں۔ جو شخص ان میں سے کسی ایک کشتی پر سوار ہوگا اسے لامحالہ دوسری کشتی کو چھوڑنا پڑے گا اور جو بیک وقت ان دونوں پر سوار ہوگا اس کے دو ٹکڑے ہو جائیں گے۔

اس کو بدقسمتی کے سوا اور کیا کہیے کہ جس صدی میں یہ نئی تہذیب اپنی مادہ پرستی، الحاد اور دہریت کی انتہا کو پہنچی‘ ٹھیک وہی صدی تھی جس میں مراکش سے لے کر مشرق اقصیٰ تک تمام اسلامی ممالک مغربی قوموں کے سیاسی اقتدار اور حاکمانہ استیلا سے مغلوب ہوئے۔ مسلمانوں پر مغربی تلوار اور قلم دونوں کا حملہ ایک ساتھ ہوا۔ جو دماغ مغربی طاقتوں کے سیاسی غلبے سے مرعوب اور دہشت زدہ ہو چکے تھے اُن کے لیے مشکل ہوگیا کہ مغرب کے فلسفے و سائنس اور ان کی پروَردہ تہذیب کے رعب داب سے محفوظ رہتے۔ خصوصیت کے ساتھ ان مسلمان قوموں کی حالت اور بھی زیادہ نازک تھی جو براہِ راست کسی مغربی سلطنت کے زیر حکم آگئیں تھیں۔ ان کو اپنے دنیوی مفاد کی حفاظت کے لیے مجبوراً مغربی علوم حاصل کرنے پڑتے اور چونکہ یہ تحصیلِ علم خالص تحصیلِ علم کی خاطر نہ تھی اور مزید براں ایک مرعوب ذہنیت کے ساتھ مغربی استادوں کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا گیا تھا اس لیے مسلمانوں کی نئی نسلوں نے شدت کے ساتھ مغربی افکار اور سائنٹیفک نظریات کا اثر قبول کیا۔ ان کی ذہنیتیں مغربی سانچے میں ڈھلتی چلی گئیں۔ ان کے دلوں میں مغربی تہذیب کا نفوذ بڑھتا چلا گیا۔ ان میں وہ ناقدانہ نظر پیدا ہی نہیں ہوئی جس سے وہ صحیح اور غلط کو پرکھتے اور صرف صحیح کو اختیار کرتے۔ ان میں یہ صلاحیت ہی پیدا نہ ہوسکی کہ آزادی اور استقلال کے ساتھ غور و فکر کرتے اور اپنے ذاتی اجتہاد سے کوئی رائے قائم کرتے۔ اسی کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی تہذیب جن بنیادوں پر قائم ہے وہ متزلزل ہوگئی ہیں۔ ذہنیتوں کا وہ سانچہ ہی بگڑ گیا ہے جس سے اسلامی طریق پر سوچا اور سمجھا جاسکتا تھا۔ مغربی طریق پر سوچنے اور مغربی تہذیب کے اصولوں پر اعتقاد رکھنے والے دماغ کی ساخت ہی ایسی ہے کہ اس میں اسلام کے اصول ٹھیک نہیں بیٹھ سکتے اور جب اصول ہی اس میں نہیں سما سکتے تو فروع میں طرح طرح کے شبہات اور نت نئے شکوک پیدا ہونا ہرگز قابلِ تعجب نہیں۔

اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا سواد اعظم اب بھی اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمان رہنا چاہتا ہے، لیکن دماغ مغربی افکار اور مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر اسلام سے منحرف ہو رہے ہیں اور یہ انحراف بڑھتا چلا جارہا ہے۔ سیاسی غلبہ واستیلا سے قطع نظر‘ مغرب کا علمی اور فکری داب و تسلط دنیا کی ذہنی فضا پر چھایا ہوا ہے اور اس نے نگاہوں کے زاویے اس طرح بدل دیے ہیں کہ دیکھنے والوں کے لیے مسلمان کی نظر سے دیکھنا اور سوچنے والوں کے لیے اسلامی طریق پر پوچنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ اشکال اُس وقت تک دور نہ ہوگا جب تک مسلمانوں میں آزاد اہل فکر پیدا نہ ہوں گے۔ اسلام میں ایک نشاۃ جدید (Renaissance) کی ضرورت ہے۔ پرانے اسلامی مفکرین و محققین کا سرمایہ اب کام نہیں دے سکتا۔ دنیا اب آگے بڑھ چکی ہے۔ اس کو اب الٹے پاؤں ان منازل کی طرف واپس لے جانا ممکن نہیں ہے جن سے وہ چھے سو برس پہلے گزر چکی ہے۔ علم و عمل کے میدان میں رہنمائی وہی کر سکتا ہے جو دنیا کو آگے کی جانب چلائے، نہ کہ پیچھے کی جانب۔ لہٰذا اب اگر اسلام دوبارہ دنیا کا رہنما بن سکتا ہے تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکر اور محقق پیدا ہوں جو فکر و نظر اور تحقیق و اکتشاف کی قوت سے اُن بنیادوں کو ڈھا دیں جن پر مغربی تہذیب کی عمارت قائم ہوئی ہے۔ قرآن کے بتائے ہوئے طریق فکر و نظر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی جستجو سے ایک نئے نظام فلسفہ کی بِنا رکھیں جو خالص اسلامی فکر کا نتیجہ ہو۔ ایک نئی حکمت طبیعی (Natural Science) کی عمارت اٹھائیں جو قرآن کی ڈالی ہوئی داغ بیل پر اٹھے۔ ملحدانہ نظریے کو توڑ کر الٰہی نظریے پر فکر و تحقیق کی اساس قائم کریں اور اس جدید فکر و تحقیق کی عمارت کو اِس قوت کے ساتھ اٹھائیں کہ وہ تمام دنیا پر چھا جائے اور دنیا میں مغرب کی مادی تہذیب کے بجائے اسلام کی حقانی تہذیب جلوہ گر ہو۔

یہ جو کچھ کہا گیا ہے اس کے مقصد و مدّعا کو تمثیل کے پیرائے میں یوں سمجھیے کہ دنیا گویا ایک ریل گاڑی ہے جس کو فکر و تحقیق کا انجن چلا رہا ہے اور مفکرین و محققین اس انجن کے ڈرائیور ہیں۔ یہ گاڑی ہمیشہ اُسی رخ پر سفر کرتی ہے جس رخ پر ڈرائیور اس کو چلاتے ہیں۔ جو لوگ اس میں بیٹھے ہوئے ہیں وہ مجبور ہیں کہ اسی طرف جائیں جس طرف گاڑی جارہی ہے خواہ وہ اس طرف جانا چاہیں یا نہ چاہیں۔ اگر گاڑی میں کوئی ایسا مسافر بیٹھا ہے جو اس رخ پر نہیں جانا چاہتا تو وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا کہ چلتی گاڑی ہی میں بیٹھے بیٹھے اپنی نشست کا رخ آگے کے بجائے پیچھے یا دائیں یا بائیں پھیر دے، مگر نشست کا رخ بدل دینے سے وہ اپنے سفر کا رخ نہیں بدل سکتا۔ سفر کا رخ بدلنے کی صورت اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ انجن پر قبضہ کیا جائے اور اس کی رفتار کو اس جانب پھیر دیا جائے جو مطلوب ہے۔ اس وقت جو لوگ انجن پر قابض ہیں وہ سب خدا سے پھرے ہوئے ہیں اور فکر اسلامی سے بے بہرہ ہیں، اس لیے گاڑی اپنے مسافروں کو لیے ہوئے الحاد اور مادہ پرستی کی طرف دوڑی چلی جارہی ہے اور سب مسافر طوعًا و کرھًا اسلام کی منزل مقصود سے دور، اور دور تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اب اس رفتار کو بدلنے کے لیے ضرورت ہے کہ خدا پرستوں میں سے کچھ باہمت مرد اٹھیں اور جدوجہد کرکے انجن کو اُن ملحدین کے ہاتھوں سے چھین لیں۔ جب تک یہ نہ ہو گا، گاڑی کا رخ نہ بدلے گا اور ہمارے جھنجھلانے، بگڑنے اور شور مچانے کے باوجود، وہ اسی راہ پر سفر کرتی رہے گی جس پر ناخدا شناس ڈرائیور اس کو چلا رہے ہیں۔

(ترجمان القرآن، جمادی الاخری ۱۳۵۳ھ۔ اگست ۱۹۳۴ء)