عقلیت کا فریب (۱) - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

 (1)عقلیت کا فریب
اسلامی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے نیم پختہ یا بالکل خام نوجوانوں کے مذہبی خیالات پر مغربی تعلیم اور تہذیب کا جو اثر ہوتا ہے اس کا اندازہ اُن تحریروں اور تقریروں سے ہوسکتا ہے جو اس قسم کے لوگوں کی زبان و قلم سے آئے دن نکلتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں صوبہ متحدہ کے ایک مسلمان گریجویٹ صاحب کا ایک مضمون ہماری نظر سے گزرا جس میں انھوں نے اپنی سیاحتِ چین و جاپان کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے

’’ہمارے ساتھ جو چینی مسافر ہیں وہ انتہا کے بلا نوش اور شراب خور ہیں۔ سور کا گوشت تو ان کی جان ہے۔ اب میں نے عیسائیت کی ترقی کا راز سمجھا۔ چینی اپنے قدیم مذہب کی پیروی کونئی تعلیم کے ساتھ عار پاتا ہے۔ اس کو اسلام قبول کرنے میں تامل نہ ہوتا، اگر وہ اس کو سمجھتا ہوتا، مگر اسلام اس کو اس کی تمام مرغوب غذاؤں سے محروم کر دیتا ہے۔ چار و ناچار عیسائی ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ عجب نہیں کہ آئندہ چین کا سرکاری مذہب عیسائیت ہوجائے۔ میں سور کے گوشت کے معاملے میں اہل یورپ اور اہل چین کے نو مسلموں کے ساتھ ذرا ڈھیل دینا پسند کرتا ہوں۔ قرآن سے بھی مجھے اس کے قطعی حرام ہونے میں شک ہے۔ زیادہ بریں نیست کہ اہل عرب کے لیے کسی خاص وجہ سے حرام کر دیا گیا ہو، مگر ایسے ممالک میں جہاں اس کے بغیر (فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلَاعَادٍ) ہو جائے تو کیا ہرج ہے؟

بہرحال قرآن کا یہی ایک حکم ہے جس کی ممانعت عمومی کی علت میری سمجھ میں اب تک نہیں آئی، ورنہ اصولاً معدہ اور محرکاتِ اخلاق میں اس قدر بُعد ہے کہ مذہب ہمارے کھانے کا مینو (Menu) بھی تیار کرے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ ہم کو آہن گری اور زرگری و خیاطی وغیرہ کاکام بھی کیوں نہ سکھائے۔ میرا خیال ہے کہ دنیا میں اسلام کے ترقی نہ کرنے کا راز اسی میں پنہاں ہے کہ وہ آدمی کے تمام حقوق انسانی سلب کرکے اس کو ایک لاشۂ بے جان اور ایسا بے حس بچہ بنا دیتا ہے کہ وہ اپنی دنیاوی ترقی کی راہیں سب بھول جاتا ہے ورنہ مذہب درحقیقت اسی قدر ہونا چاہیے جیسا کہ عیسائیوں نے سمجھ رکھا ہے۔

اس کے بعد وہ شنگھائی کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“خدا کی اس بے شمار خلقت کو خوش و خرم و خوش حال دیکھ کر دل گواہی نہیں دیتا کہ یہ تمام کے تمام چند سال کے بعد دوزخ کے ایندھن بنائے جائیں گے۔ گویا ان کی پیدائش کا یہی ایک مقصد خدا کے پاس رہ گیا ہے۔ پھروہ سب کے سب الاماشاء اللہ چند نفوس کے علاوہ اگر بت پرست اور کافر ہیں تو انھوں نے دوزخ میں رکھے جانے کے لیے کیا یہی قصور کیا ہے کہ انھوں نے خدا کی زمین کو معمور کر دیا ہے؟ نہ وہ حاجیوں کوقتل و غارت کرتے ہیں‘ نہ ان میں قوم لوط کا عمل ہے، نہ وہ کسی کے مال کو ہضم کرلیتے ہیں اور نہ اس کو جائز کرنے کے لیے تاویلیں کرتے ہیں۔ خاموشی سے اس زندگی کو بحسن و خوبی طے کر رہے ہیں۔ پھر بھی وہ مستحق دوزخ ہیں۔ آخر کیوں؟۔۔۔۔۔۔ یقیناًمشرکانہ عقیدہ ایک سودائے خام ہے، لیکن یہ تو بتاؤ کہ اگر ایک شخص ایک ایسی ہستی کا فطرۃً قائل ہو جاتا ہے جو اس کو مارتی اور جلاتی ہے تو محض اس لیے کہ اس کی ماہیت اس کی سمجھ سے اتنی ہی باہر ہے جتنی ہماری سمجھ سے‘ یا وہ عربی کو خدا کی زبان نہیں سمجھتا‘ تم اس کے دشمن ہو، اور وہ تمھارا دشمن ہو جاتا ہے، مگر نہیں! تمھارے نزدیک یہ سب کچھ ضروری نہیں ہے۔ ضروری تو یہ ہے کہ پائجامہ ایک خاص وضع کا ہو، کرتے کی کاٹ ایسی ہو، فلاں قسم کا کھانا کھائے، منہ پر چار انگل کی داڑھی ہو، کبھی اپنے ملکی مدرسوں میں قدم نہ رکھے اس واسطے کہ وہاں مذہب کی زبان اور مذہب کا فن تم کو نہیں سکھایا جاتا۔”

جاپان کی بندرگاہ کو بے کے متعلق فرماتے ہیں:

“دو گھنٹے تک میں کوبے میں پھرتا رہا۔ ایک بھیک مانگنے والا مجھ کو نہ ملا، اور نہ کوئی پھٹے پرانے کپڑوں میں بدحال ملا۔ یہ ہے اُس قوم کی ترقی کا حال جو نہ مذہب کو جانتی ہے اور نہ خدا کو۔”

پھر وہ بقول خود مُوعظۂ حسنہ‘ شروع کرتے ہیں:

“یادرکھو، کہ احسان اصل دین ہے اور احسان کسی زبان اور فن کا محتاج نہیں۔ اس کا فطری مقصود یہ ہے کہ ہم آئندہ زندگی میں یا خود اس زندگی میں اپنے اعمال کے جواب وہ ہیں اور ہوں گے۔ یہی دراصل مذہب اسلام ہے۔ اس سے زیادہ جس چیز کا تم نے مذہب نام دے رکھا ہے وہ محض تمھارے نفس کا دھوکا ہے، یا تمھارے دماغ کا خلل ہے۔ جس روز ان دونوں باتوں پر مذہب کو محدود کر دو گے اور اپنی ساری بیڑیاں شریعت کی توڑ ڈالو گے تم بھی قوموں کے ساتھ بام ترقی پر پہنچو گے بلکہ یوں کہو کہ تم قوموں میں ضمیر پیدا کر دو گے۔ جن کے ہاتھ سے اگر دنیا نہیں گئی ہے تو آسمانی بادشاہت بھی نہ جائے گی۔ تم خود کوئی قوم نہیں ہو بلکہ قوموں کے مصلح ہو، مگر خدارا، اس کے کہنے کا موقع تو نہ دو کہ فلاں قوم برسر اوج ہے مگر جو ان میں مسلمان ہیں ان کی حالت زبوں ہے‘ اور یقیناًاس زبونی کا ذمہ دار ان کا عجیب و غریب مذہب ہے۔”

یہ تحریر ہماری نئی تعلیم یافتہ نسل کی عام دماغی حالت کا ایک واضح نمونہ ہے۔ مسلمان کے گھر پیدا ہوئے‘ مسلم سوسائٹی کے رکن کی حیثیت سے پلے بڑھے‘ مسلمانوں کے ساتھ معاشرت و تمدن کی بندشوں میں بندھے‘ اس لیے اسلام کی محبت‘ مسلمانوں کے ساتھ ہم دردی اور مسلمان رہنے کی خواہش گویا ان کی گھٹی میں پڑی اور ان کے دلوں میں اس طرح بیٹھ گئی کہ اس میں ان کے ارادے اور اپنی عقلی و فکری قوتوں کا دخل نہ تھا، مگر قبل اس کے کہ اس اضطراری وغیر شعوری اسلام کو تعلیم و تربیت کے ذریعے سے اختیاری اور شعوری اسلام بنایا جاتا‘ اور ان میں یہ صلاحیت پیدا کی جاتی کہ وہ اسلامی تعلیمات کو پوری طرح سمجھ کر مسلمان ہوتے اور عملی زندگی میں اس کے احکام و قوانین کو برت کر بھی دیکھ لیتے‘ انھیں انگریزی مدرسوں اور کالجوں میں بھیج دیا گیا جہاں ان کے قوائے ذہنی و فکری کی پرورش بالکل غیر اسلامی تعلیم و تربیت میں ہوئی اور ان کے دماغوں پر مغربی افکار اور مغربی تہذیب کے اصول اس طرح چھا گئے کہ ہر چیز کو وہ مغرب کی نظر سے دیکھنے اور ہر مسئلے پر مغرب ہی کے ذہن سے غور کرنے لگے‘ اور مغربیت کے اس استیلا سے آزاد ہو کر سوچنا اور دیکھنا ان کے لیے ناممکن ہوگیا۔ مغرب سے انھوں نے عقلیت (Rationalism)کا سبق سیکھا‘ مگر خود عقل ان کی اپنی یہ تھی، بالکل یورپ سے حاصل کی ہوئی تھی‘ اس لیے ان کی عقلیت دراصل فرنگی عقلیت ہوگئی نہ کہ آزاد عقلیت۔ انھوں نے مغرب سے تنقید (Criticism) کا درس بھی لیا‘ مگر یہ آزاد تنقید کا درس نہ تھا بلکہ اس چیز کا درس تھا کہ مغرب کے اصولوں کو برحق مان کر ان کے معیار پر ہر اس چیز کو جانچو جو مغربی نہیں ہے‘ لیکن خود مغرب کے اصولوں کو تنقید سے بالاتر سمجھو۔ اس تعلیم و تربیت کے بُعد جب یہ لوگ کالجوں سے فارغ ہو کر نکلے اور زندگی کے میدان عمل میں انھوں نے قدم رکھا تو ان کے دل اور دماغ میں بعدالمشرقین واقع ہو چکا تھا۔ دل مسلمان تھے اور دماغ غیرمسلم۔ رہتے مسلمانوں میں تھے‘ شب و روز کے معاملات مسلمانوں کے ساتھ تھے‘ تمدن و معاشرت کی بندشوں میں مسلمانوں کے ساتھ بندھے ہوئے تھے‘ اپنے گرد و پیش مسلمانوں کی مذہبی و تمدنی زندگی کے اعمال دیکھ رہے تھے‘ ہم دردی و محبت کے رشتے مسلمانوں سے وابستہ تھے‘ مگر سوچنے اور سمجھنے اور رائے قائم کرنے کی جتنی قوتیں تھیں وہ سب مغربی سانچوں میں ڈھلی ہوئی تھیں جن سے نہ اسلام کا کوئی قاعدہ مطابقت رکھتا تھا اور نہ مسلمانوں کا کوئی عمل۔ اب انھوں نے مغربی معیار کے مطابق اسلام اور مسلمانوں کی ہر چیز پر تنقید شروع کی اور ہر اس چیز کو غلط اور قابل ترمیم سمجھ لیا جسے اس معیار کے خلاف پایا‘ خواہ وہ اسلام کے اصول و فروع میں سے ہو‘ یا محض مسلمانوں کا عمل ہو۔ ان میں سے بعض نے تحقیق حال کے لیے کچھ اسلام کا مطالعہ بھی کیا، مگر تنقید و تحقیق کا معیار وہی مغربی تھا۔ ان کی ذہنیت کے ٹیڑھے سوراخ میں اسلام کی سیدھی میخ آخر بیٹھتی تو کیوں کر؟

مذہبی مسائل پر جب یہ حضرات اظہار خیال کرتے ہیں تو ان کی باتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے تقریر فرما رہے ہیں۔ نہ ان کے مقدمات درست ہوتے ہیں‘ نہ منطقی اسلوب پر ان کو ترتیب دیتے ہیں اور نہ صحیح نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ کلام کرتے وقت خود اپنی پوزیشن بھی متعین نہیں کرتے۔ ایک ہی سلسلۂ کلام میں مختلف حیثیتیں اختیار کر جاتے ہیں۔ ابھی ایک حیثیت سے بول رہے تھے کہ دفعتہ ایک دوسری حیثیت اختیار کرلی اور اپنی پچھلی حیثیت سے بول رہے تھے کہ دفعتہ ایک دوسری حیثیت اختیار کرلی اور اپنی پچھلی حیثیت کے خلاف بولنے لگے۔ سستی فکر (Loose-Thinking)ان کے مذہبی ارشادات کی نمایاں خصوصیت ہے۔ مذہب کے سوا دوسرے جس مسئلے پر بھی بولیں گے ہوشیار اور چوکنے ہو کربولیں گے‘ کیونکہ وہاں اگر کسی قسم کی بے ضابطگی ہوگئی تو جانتے ہیں کہ اہل علم کی نگاہ میں کوئی وقعت باقی نہ رہے گی، لیکن مذہب چونکہ ان کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا‘ اور اس کو وہ اتنا وزن ہی نہیں دیتے کہ اس پر کلام کرتے وقت اپنے دماغ پر زور دینا ضروری سمجھیں‘ اس لیے وہ یہاں بالکل بے فکری کے ساتھ ڈھیلی ڈھالی گفتگو فرماتے ہیں‘ گویا کھانا کھا کر آرام کرسی پر دراز ہیں‘ اور محض تفریح کے طور پر بول رہے ہیں جس میں ضوابطِ کلام کو ملحوظ رکھنے کی کوئی حاجت ہی نہیں۔

دوسری بات جو ان کی تحریروں میں نمایاں نظر آتی ہے وہ خیالات کی سطحیت اور معلومات کی کمی ہے۔ مذہب کے سوا کسی اور مسئلے میں وہ اتنی کم معلومات اور اس قدر کم غور و فکر کے ساتھ بولنے کی جرأت نہیں کرسکتے کیونکہ وہاں اگر تحقیق کے بغیر ایک کلمہ منہ سے نکل جائے تو آبرو جاتی رہے، لیکن مذہب کے معاملے میں وہ تحقیق اور مطالعے اور غور و فکر کو ضروری نہیں سمجھتے۔ سرسری طور پر جو کچھ معلوم ہوگیا اس پر رائے قائم کرلی اور بے تکلف اس کو بیان کر دیا، اس لیے کہ کسی گرفت کا یہاں خوف ہی نہیں۔ گرفت اگر کرے گا تو مولوی کرے گا اور مولوی کے متعلق یہ بات پہلے ہی اصول موضوعہ کے طور پر داخل مُسلَّمات ہو چکی ہے کہ وہ تاریک خیال‘ دقیانوسی اور تنگ نظر ہوتا ہے۔

فاضل مضمون نگار کی زیر نظر تحریر‘ چشم بد دور‘ ان دونوں خصوصیات کی حامل ہے۔ سب سے پہلے تو ان کے مضمون سے یہی نہیں معلوم ہوتا کہ وہ مسلم کی حیثیت سے کلام کر رہے ہیں یا غیر مسلم کی حیثیت سے۔ اسلام کے متعلق گفتگو کرنے والے کی دو ہی حیثیتیں ہو سکتی ہیں مسلم ہوگا، یا غیر مسلم۔ جو شخص مسلم کی حیثیت سے کلام کرے گا عام اس سے کہ وہ خوش عقیدہ (Orthodox) ہو یا آزاد خیال‘ یا اصلاح طلب۔ بہرحال اس کے لیے لازم ہوگا کہ دائرہ اسلام کے اندر رہ کر کلام کرے یعنی قرآن کو منتہائے کلام (Final Authority) سمجھے اور ان اصول دین و قوانین شریعت کو تسلیم کرے جو قرآن نے مقرر کیے ہیں کیونکہ اگر وہ قرآن کی سند کو نہ مانے گا اور کسی ایسی بات میں کلام کی گنجائش سمجھے گا جو قرآن سے ثابت ہو‘ تو دائرہ اسلام سے باہر نکل آئے گا‘ اور اس دائرے سے نکلنے کے بعد اس کی مسلمانہ حیثیت باقی ہی نہ رہے گی کہ وہ اس میں کلام کرسکے۔ رہی دوسری حیثیت یعنی یہ کہ بولنے والا غیر مسلم ہو تو اس حیثیت میں اسے پورا حق ہوگا کہ قرآن کے اصول اور اس کے احکام پر جیسی چاہے تنقید کرے‘ اس لیے کہ وہ اس کتاب کو منتہائے کلام نہیں مانتا، لیکن یہ حیثیت اختیار کرنے کے بعد اسے مسلم کی حیثیت سے گفتگو کرنے اور مسلمان بن کر مسلمان کو اسلام کے معنی سمجھانے اور اسلام کی ترقی کے وسائل بتانے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ ایک صاحب عقل و شعور آدمی جب سوچ سمجھ کر اسلام کے متعلق گفتگو کرے گا تو وہ سب سے پہلے یہ فیصلہ کرے گا کہ وہ ان دونوں حیثیتوں میں سے کون سی حیثیت اختیار کرتا ہے۔ پھر وہ جو حیثیت بھی اختیار کرے گا اس کے عقلی شرائط کو ملحوظ رکھے گا کیونکہ بیک وقت اپنے آپ کو مسلمان بھی کہنا اور قرآن کے مقرر کیے ہوئے اصول و قوانین پر نکتہ چینی کا حق بھی استعمال کرنا‘ قرآن کی سند میں کلام بھی کرنا اور مسلمانوں کو موعظہ حسنہ بھی سنانا کسی عاقل کا فعل نہیں ہوسکتا۔ یہ نقیضین کو جمع کرنا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص بیک وقت مسلم بھی ہو اور غیر مسلم بھی‘ دائرہ اسلام کے اندر بھی ہو اور باہر بھی۔

مضمون نگار صاحب کی علمی قابلیت اور ان کی معقولیت کی طرف سے ہم اتنے بدگمان نہیں ہیں کہ ان سے یہ امید رکھیں کہ اگر وہ اسلام کے سوا کسی مسئلے پر کلام فرماتے تو اس میں بھی اس طرح دو مختلف حیثیتوں کو بیک وقت اپنے اندر جمع کر لیتے۔ ہم ان سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ قیصر ہند کی عدالت میں بیٹھ کر قیصر ہند کے منظور کیے ہوئے قوانین پر نکتہ چینی کرنے کا حق استعمال فرمائیں گے۔ نہ ہم ان سے اس جرأت کی امید رکھتے ہیں کہ وہ کسی مسلکِ فکر (School of thought) کی پیروی کا دعویٰ کرنے کے بعد ان اصولوں پر مخالفانہ نکتہ چینی کریں گے جن پر وہ مذہب قائم ہے، لیکن طُرفہ ماجرا ہے کہ اسلام کے معاملے میں انھوں نے دو بالکل مختلف حیثیتیں اختیار کی ہیں‘ اور یہ محسوس تک نہیں کیا کہ وہ بار بار اپنی پوزیشن بدل رہے ہیں۔ ایک طرف وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں‘ مسلمانوں کا سا نام رکھتے ہیں‘ مسلمانوں کی زبوں حالی پر رنج فرماتے ہیں‘ اسلام کی ترقی کی خواہش ظاہر کرتے ہیں‘ مسلمانوں کو احسان یعنی اصل دین کا وعظ سناتے ہیں۔ دوسری طرف اس کتاب کے مقرر کیے ہوئے اصول اور قوانین پر نکتہ چینی بھی کرتے ہیں جس پر اسلام کی بنیاد قائم ہے اور جس کو آخری سند تسلیم کرنا مسلمان ہونے کی لازمی شرط ہے۔ قرآن ایک نہیں چار جگہ بالتصریح سور کے گوشت کو حرام قرار دیتا ہے۱؂ ،مگر آپ اس معاملے میں ڈھیل دینا پسند فرماتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ ڈھیل دینے کی یہ خواہش بھی ترقیِ اسلام کے لیے ہے۔ گویا ترقیِ اسلام کی فکر آپ کو قرآن سے بھی زیادہ ہے، یا کوئی اسلام قرآن سے باہر بھی ہے جس کی ترقی آپ چاہتے ہیں۔ قرآن فی الواقع انسان کے لیے کھانے کا مینو (Menu) تیار کرتا ہے‘ کھانے کی چیزوں میں حرام و حلال، خبیث و طیب کا فرق قائم کرتا ہے اور صاف کہتا ہے کہ تم اپنے اختیار سے کسی شے کو حلال اور حرام قرار دینے کا حق نہیں رکھتے، ۲؂ مگر آپ کو اپنے حق پر اصرار ہے اور خود قرآن کا یہ حق تسلیم کرنے میں تامل ہے کہ وہ کھانے پینے میں مذہب کو دخل دے۔ قرآن مذہب کو ان حدود میں نہیں رکھتا جن میں سینٹ پال (نہ کہ مسیحؑ )کے متبعین نے اس کو محدود کیا ہے۔ وہ لباس‘ اکل و شرب‘ نکاح و طلاق‘ وراثت‘ لین دین‘ سیاست‘ عدالت تعزیرات وغیرہ کے قوانین وضع کرتا ہے، مگر آپ اس قسم کی قانون سازی کو غلط سمجھتے ہیں‘ اس کو ترقیِ اسلام میں مانع قرار دیتے ہیں‘ اس پر الزام رکھتے ہیں کہ وہ انسان کو ایک لاشۂ بے جان اور بے بس بچہ بنا دیتا ہے‘ اور تجویز کرتے ہیں کہ مذہب اسی قدر ہونا چاہیے جس قدر عیسائیوں (دراصل پولوسیوں) نے سمجھا ہے۔ قرآن نے خود قوانین شریعت بنائے ہیں اور ان کو حدود اللہ سے تعبیر کرکے ان کی پابندی کا حکم دیا ہے، مگر آپ شریعت کی ان حدود کو بیڑیوں سے تعبیر کرتے ہیں‘ اور سینٹ پال کی طرح مذہب کی توسیع و ترقی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ ان بیڑیوں کو توڑ ڈالا جائے۔ قرآن کے نزدیک ایمان نجات کی پہلی اور لازمی شرط ہے اور جو لوگ خدا پر ایمان نہیں رکھتے ان کے متعلق وہ بالفاظ صریح کہتا ہے کہ وہ دوزخ کا ایندھن بنائے جائیں گے۳؂ خواہ وہ بے شمار ہوں یا شمار میں آجائیں‘ خوش حال ہوں یا بدحال‘ مگر آپ کا یہ حال ہے کہ کافروں اور بت پرستوں کی بے شمار خلقت کو خوش و خرم و خوش حال دیکھ کر آپ کا دل گواہی نہیں دیتا کہ چند سال کے بعد وہ سب دوزخ کا ایندھن بنائے جائیں گے‘ اور آپ کی سمجھ میں نہیں آتا کہ انھوں نے خدا کی زمین کو معمور کر دینے کے سوا اور کون سا قصور کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن سے اتنا کھلا ہوا اختلاف رکھتے ہوئے آپ مسلمان کیسے رہ سکتے ہیں‘ اور مسلمان ہوتے ہوئے قرآن سے اختلاف کیوں کر کرسکتے ہیں؟ اگر آپ مسلمان ہیں تو قرآن سے اختلاف نہ فرمائیے اور اگر قرآن سے اختلاف کرنا چاہتے ہیں تو دائرہ اسلام سے باہر کھڑے ہوکراختلاف کیجیے۔

جو شخص کسی مذہب کے اصول اور احکام و قوانین سے مطمئن نہ ہو‘ جس کا دل ان کی صداقت پر گواہی نہ دیتا ہو‘ جو ان کی علت و مصلحت کو سمجھنے سے عاجز ہو‘ اور جس کے نزدیک ان میں سے بعض یا اکثر باتیں قابل اعتراض ہوں‘ اس کے لیے دو راستے کھلے ہوئے ہیں

۱۔ یا تو وہ اس مذہب سے نکل جائے‘ پھر اس کو حق ہوگا کہ اس مذہب کے جس قاعدے اور جس حکم پر چاہے نکتہ چینی کرے

۲۔ یا اگر وہ اس عدم اطمینان کے باوجود اس مذہب میں رہنا چاہتا ہے تو اس کے خلاف مظاہرہ کرنے سے احتراز کرے اور مجتہد بن کر اس کے قواعد و ضوابط پر تیشہ چلانے کے بجائے، طالب علم بن کر اپنے شکوک و شبہات حل کرنے کی کوشش کرے۔

عقل و دانش کی رو سے تو اس حالت میں یہی دو طریقے ہوسکتے ہیں‘ اور مرد عاقل جب کبھی ایسی حالت میں مبتلا ہوگا تو انھی میں سے کسی ایک طریقے کو اختیار کرے گا، لیکن فاضل مضمون نگار اور ان کی طرح بہت سے فرنگی تعلیم و تربیت پائے ہوئے حضرات کا حال یہ ہے کہ پہلا طریقہ اختیار کرنے کی اخلاقی جرأت ان میں نہیں اور دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہوئے انھیں شرم آتی ہے‘ اس لیے انھوں نے بیچ کا ایک غیر معقول طریقہ اختیار کر رکھا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ ایک طرف مسلمانوں میں شامل بھی ہوتے ہیں‘ ترقیِ اسلام کے آرزو مند بھی بنتے ہیں‘ اسلام اور مسلمانوں کے درد میں تڑپتے بھی ہیں‘ اور دوسری طرف اسلام کے خلاف وہ سب کچھ کہتے اور کرتے ہیں جو ایک غیر مسلم کہہ اور کرسکتا ہے‘ حدیث و فقہ تو درکنار قرآن تک پر نکتہ چینی کرنے سے باز نہیں رہتے‘ اور ان تمام بنیادوں پر ضرب لگا جاتے ہیں جن پر اسلام قائم ہے۔ ان حضرات کو دعویٰ ہے کہ ہم اربابِ عقل (Rationalists)ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم کوئی ایسی بات نہیں مان سکتے جو عقل کے خلاف ہو۔ ملانوں پر ان کا سب سے بڑا الزام یہی ہے کہ وہ عقل سے کام نہیں لیتے، مگر خود ان کا حال یہ ہے کہ مذہب کے معاملے میں صریح متناقض باتیں کرتے ہیں‘ متضاد طرز عمل اختیار کرتے ہیں اور اپنی ایک بات کی تردید خود اپنی ہی دوسری بات سے کر جاتے ہیں۔ آخر یہ ریشنلزم کی کون سی قسم ہے جس کی ایجاد کا شرف ان روشن خیال محققین کو حاصل ہوا ہے۔

اب ذرا ان کی معلومات کی وسعت اور فکر کی گہرائی ملاحظہ فرمائیے۔

اسلام کی ترقی کے لیے آپ ضروری سمجھتے ہیں کہ مسیحیت کی طرح اسلام سے بھی شرعی حدود اٹھا دی جائیں اور اسلام صرف ایک عقیدے کی حیثیت میں رہ جائے‘ کیونکہ مسیحیت کی ترقی کا راز جو آپ نے سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں حرام و حلال کی قیود نہیں ہیں‘ اخلاقی پابندیاں نہیں ہیں‘ اس میں آدمی کے انسانی حقوق سلب کر کے اس کو ایک لاشۂ بے جان اور بے بس بچہ نہیں بنایا گیا ہے‘ بلکہ اس کی آزادی دے دی گئی ہے کہ مسیح پر ایمان رکھ کر جو چاہے کرے، مگر آپ نے یہ غور نہیں فرمایا کہ اسلام جس چیز کا نام ہے وہ قرآن میں ہے، اور قرآن نے ایمان و عمل صالح کے مجموعے کا نام اسلام رکھا ہے‘ عمل صالح کے لیے حدود قیودمقرر کیے ہیں‘ قوانین بنائے ہیں اور انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے ایک مکمل نظام عمل مقرر کیا ہے جس کے بغیر اسلام بحیثیت ایک دین اور ایک تہذیب کے قائم نہیں ہوسکتا۔ اس نظام اور اس کی حدود کو منسوخ کرنے کا اختیار کسی مسلمان کو نہیں ہے کیونکہ اس کا نسخ قرآن کا نسخ ہے‘ اور قرآن کا نسخ اسلام کا نسخ ہے‘ اور جب اسلام خود ہی منسوخ ہو جائے تو اس کی ترقی کے کیا معنی؟ آپ خود کسی مذہب کو ایجاد کرکے اس کی اشاعت فرما سکتے ہیں، مگر جو چیز قرآن کے خلاف ہے اس کو اسلام کے نام سے موسوم کرنے اور اس اس کی ترقی کو اسلام کی ترقی کہنے کا آپ کو کیا حق ہے؟

آپ اسلام صرف اُس عقیدے کا نام رکھتے ہیں کہ:

ہم آئندہ زندگی میں یا خود اس زندگی میں اپنے اعمال کے جواب دہ ہیں اور ہوں گے۔

یہ بات غالباً آپ نے اس امید پر فرمائی ہے کہ اگر اسلام اس حد میں محدود ہو جائے گا تو بالکل نرم اور آسان ہو جائے گا اور خوب پھیلتا چلا جائے گا، لیکن اگر آپ اس عقیدے کے معنی پر غور فرماتے تو آپ کو معلوم ہو جاتا کہ اس حد میں محدود ہونے کے بعد بھی اسلام آپ کی مرضی کے مطابق نہیں ہوسکتا۔ اس عقیدے کو مذہب قرار دینے کے لیے سب سے پہلے توحیات اخروی پر ایمان لانا ضروری ہے۔ پھر جواب دہی کا مفہوم تین باتوں کا متقاضی ہے۔

• ایک یہ کہ جس کے سامنے جواب دہی کرنی ہے اس کو متعین کر لیا جائے‘ اور اس کی بالادستی تسلیم کرلی جائے۔

• دوسرے یہ کہ جواب دہی کی نوعیت متعین کی جائے اور زندگی کے اعمال میں اس لحاظ سے امتیاز کیا جائے کہ کن اعمال سے اس جواب دہی میں کامیابی نصیب ہوگی اور کون سے اعمال ناکامی کے موجب ہوں گے۔

• تیسرے یہ کہ جواب دہی میں کامیابی اور ناکامی کے جدا جدا نتائج متعین کیے جائیں کیونکہ اگر ناکامی کا نتیجہ بھی وہی ہو جو کامیابی کا ہے‘ یا سرے سے دونوں کا کوئی نتیجہ ہی نہ ہو تو جواب دہی بالکل بے معنی ہے۔

یہ اس عقیدے کے عقلی لوازم ہیں جس کو آپ اصل دین قرار دے رہے ہیں۔ اگر آپ کی تجویز کے مطابق اسی عقیدے پر اسلام قائم کر دیا جائے تب بھی وہی مصیبت پیش آئے گی جس سے آپ بچنا چاہتے ہیں۔ پھر وہی خدا کو ماننا لازم آئے گا جس کے بغیر جاپان آپ کو ترقی کے بام پر چڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پھر وہی شریعت کی بیڑیاں اور اخلاق کی زنجیریں تیار ہو جائیں گی جن کو آپ توڑنا چاہتے ہیں اور جن کے وجود میں آپ کے نزدیک اسلام کے ترقی نہ کرنے کا راز پوشیدہ ہے‘ پھر وہی عذاب و ثواب کا جھگڑا نکل آئے گا اور خدا کی بے شمار خلقت کو اس عقیدے کے بغیر خوش و خرم و خوش حال دیکھ کر آپ کا دل پھر اس بات پر گواہی دینے سے انکار کر دے گا کہ چند سال بعد یہ سب عذاب میں مبتلا ہوں گے۔

براہ کرم، اب ذرا غور کرکے کسی ایسی چیز کا نام اسلام رکھیے جس میں کسی قسم کی قید و بند نہ ہو‘ جس کو ماننے اور نہ ماننے کا نتیجہ یکساں ہو‘ جس میں صرف خدا کی زمین کو معمور کر دینا دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے کافی ہو‘ اور جس پر ایمان نہ لانے والی بے شمار خلقت کو خوش و خرم و خوش حال دیکھ کر آپ کا دل گواہی دے سکے کہ وہ سب جنت کی بلبلیں بنائی جائیں گی۔

قرآن کی رو سے سور کے گوشت کا قطعی حرام ہونا آپ کے نزدیک مُسَلَّم نہیں ہے۔ آپ شک فرماتے ہیں کہ شایداہل عرب کے لیے کسی خاص وجہ سے حرام کر دیا گیا ہوگا، لیکن اگر آپ اس رائے کو ظاہر کرنے سے پہلے قرآن کھول کر پڑھ لیتے تو اس شک کی تحقیق ہو جاتی۔ اس کتاب میں صاف لکھا ہوا ہے کہ:

قُلْ لاَّ اَجِدُ فِیْ مَا اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہ‘ اِلاَّ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْدَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْلَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہ‘ رِجْسٌ اَوْفِسْقًا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖج فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَاعَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (الانعام ۶ ۱۴۵)

اے محمدؐ! ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اُس مَیں تو میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، اِلاَّیہ کہ وہ مردار ہو، یا بہایا ہو خون ہو، یا سور کا گوشت ہو کہ وہ ناپاک ہے، یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں (کوئی چیز اِن میں سے کھالے) بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ رکھتا ہو، اور بغیر اس کے کہ وہ حد ضرورت سے تجاوز کرے، تو یقینًا تمھارا رب درگزر سے کام لینے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

اس آیت میں سور کے گوشت کو ہر ’طاَعمِ‘ یعنی کھانے والے کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے‘ اور حرمت کی علت یہ قرار دی گئی ہے کہ وہ رُجس‘ (ناپاک) ہے۔ کیا یہاں طاَعِم سے مراد عرب کا طاعم ہے؟ اور کیا ایک ہی چیز عرب کے لیے رجس اور غیر عرب کے لیے طیب و طاہر ہوسکتی ہے؟ اور کیا اسی طریقے سے آپ مردار کھانے والوں کے لیے بھی ذرا ڈھیل دینا پسند فرمائیں گے؟ آپ سور کے معاملے میں ڈھیل چاہتے ہیں تو خود اپنی طرف سے دیجیے مگر قرآن کے صریح الفاظ کے خلاف آپ کو یہ کہنے کا کیا حق ہے کہ قرآن سے اس کی قطعی ممانعت مشکوک ہے؟

آج کل کے نئے مجتہدین نے اجتہاد کے جو اصول وضع کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسلام کے جس حکم کی خلاف ورزی کرنا چاہتے ہیں اس کے متعلق بلا تکلف کہہ دیتے ہیں کہ یہ خاص اہل عرب کے لیے تھا‘ خواہ قرآن میں اس تخصیص کی طرف کوئی ذرا سا اشارہ بھی نہ ہو، اور تخصیص کے لیے وہ کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہ رکھتے ہوں۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو بعید نہیں کہ ایک روز قرآن ہی کو اہل عرب کے لیے مخصوص کر دیا جائے۔

اور ’’فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ ‘‘ سے استدلال تو اتنا لطیف ہے کہ صاحب سفرنامہ کے علم و فضل کی داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ غالبًا اس آیت کا ترجمہ انھوں نے یہ کیا ہوگاکہ

جب سور کا گوشت کھانے کو بے اختیار جی چاہے تو کھا لو مگر باغ میں بیٹھ کر نہ کھانا اور نہ اس کی عادت ڈالنا۔

سور کے گوشت کے معاملے میں اہل یورپ اور اہل چین کے ڈھیل دینے کی گنجایش اس آیت سے وہی شخص نکال سکتا ہے جو نہ اضطرار کے معنی جانتا ہو‘ نہ باغی کا مفہوم سمجھتا ہو‘ اور نہ عادی کا، ورنہ جاننے والے کے لیے تو اتنی جرأت کرنا بہت مشکل ہے۔ آیت کا مفہوم یہ نہیں کہ جن لوگوں کو مردار خوری یا خون آشامی کا چسکا لگا ہو، یا جو لوگ سور کے گوشت پر جان دیتے ہوں‘ یا جن کے ہاں مَا اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہ۴؂ کے کھانے کا عام دستور ہو‘ وہ سب مجبوروں میں داخل ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو تحریم کا حکم ہی بے معنی ہو جاتا کیونکہ اگر تحریم ان لوگوں کے لیے تھی جو ان چیزوں کے خوگر تھے‘ تو استثنا سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی عادت کے مطابق انھیں کھاتے رہتے‘ اور اگر تحریم ان لوگوں کے لیے تھی جو خود ہی ان سے مجتنب تھے تو ان کے لیے اس حکم کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اضطرار (مجبوری)کے ساتھ غَیْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ کی شرط لگا کر جو استثنا کیا گیا ہے اس کا مفہوم تو یہ ہے کہ جو شخص بھوک سے مر رہا ہو اور حرام چیز کے سوا کوئی چیز اُس کو نہ ملتی ہو، وہ محض جان بچانے کے لیے حرام چیز کھا سکتا ہے‘ بشرطیکہ حد رخصت سے تجاوز نہ کرے‘ یعنی جان بچانے کے لیے جتنی مقدار ناگریز ہو اس سے زیادہ نہ کھائے اور حدود اللہ کے توڑنے کی خواہش اس کے دل میں نہ ہو۔

اسی بات کو ایک دوسری جگہ سور اور مردار وغیرہ چیزوں کی تحریم کا ذکر کرتے ہوئے اس طرح بیان کیا گیا ہے فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِاِّ ثْمٍ۔ (المائدہ۵ ۳) یعنی جو شخص بھوک کی شدت سے مجبور ہو جائے بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف کوئی میلان اس کے دل میں ہو، وہ ایسی حالت میں حرام چیز کھا سکتا ہے۔ کہاں یہ بات اور کہاں وہ کہ اہل یورپ اور اہل چین چونکہ سور کے گوشت پر جان دیتے ہیں لہٰذا فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَاعَادٍ سے فائدہ اٹھا کر ان کے لیے سور کو جائز کر دیا جائے اور وہ بھی اس لیے کہ وہ اسلام میں داخل ہو سکیں۔ اگر کسی طریقے سے ہر قوم کی رغبتوں اور خواہشوں کا لحاظ کرکے اسلام کے قوانین میں ڈھیل دینے کا سلسلہ شروع ہو جائے تو شراب‘ جوا‘ زنا‘ سود اور ایسی ہی دوسری تمام چیزوں کو ایک ایک کرکے حلال کرنا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے احکام ماننے اور اس کے قائم کیے ہوئے حدود کی پابندی کرنے اور اس کے حرام کو حرام سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں ان کو اسلام میں داخل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اسلام ان کا محتاج کب ہے کہ وہ ان کو راضی کرنے کے لیے کم و بیش پر سودا کرے؟

پہلے تو صرف سور ہی کے حرام ہونے کی علت آپ کی سمجھ میں نہیں آئی تھی، مگر پھر جو آپ نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ اصولاً معدہ اور محرکات اخلاق میں بَونِ بعید ہے‘ لہٰذا آپ نے یہ رائے قائم فرمائی کہ مذہب کو کھانے پینے کی چیزوں میں حلال و حرام کا امتیاز قائم کرنے کا سرے سے کوئی حق ہی نہیں ہے۔ اس ارشاد سے یہ راز فاش ہوگیا کہ آپ جتنا قرآن کے متعلق جانتے ہیں، حکمتِ طبیعی (Physical Science)کے متعلق بھی اس سے کچھ زیادہ نہیں جانتے۔ قرآن سے ناواقف ہونا تو خیر’ ایک روشن خیال تعلیم یافتہ آدمی‘ کے لیے شرمناک نہیں ہے، مگر سائنس سے اتنی بے خبری البتہ بہت شرمناک ہے۔ آپ کو اب تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ انسان کے نفس اور اس کی ترکیب جسمانی کے درمیان کیا تعلق ہے‘ اور اس کی ترکیب جسمانی غذا سے کیا تعلق رکھتی ہے۔ جو چیز جسم کو اس کے ضائع شدہ اجزائے ترکیبی فراہم کرتی ہے‘ جس سے بدن کے تمام ریشے اور اعصاب از سر نو بنتے ہیں‘ جو چند سال کے اندر پرانے جسم کی جگہ نیا جسم پورے کا پورا بنا دیتی ہے‘ اس کی خصوصیات کا اثر نفس اور روح پر ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا قابل تعجب ہے۔ اس حقیقت سے سائنٹیفک دنیا پہلے عموماً غافل تھی، مگر فنِ تغذیہ (Dieteties) پر حال میں جو تحقیقات ہوئی ہیں ان سے یہ راز منکشف ہوگیا ہے کہ انسان کے اخلاق اور اس کی ذہنی قوتوں پر اس کی غذا کا اثر ضرور مترتب ہوتا ہے۔ چنانچہ آج کل کے حکما اس تجسس میں لگے ہوئے ہیں کہ مختلف قسم کی غذاؤں سے ہمارے نفس اور قوائے فکری پر کیا اثرات ہوئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے گریجویٹ دوست کی سائنٹیفک معلوماتِ تازہ (Up-to-date) نہیں ہیں‘ ورنہ وہ اتنی جرأت کے ساتھ یہ دعویٰ نہ کر دیتے کہ اصولاً معدہ اور محرکاتِ اخلاق میں بُعد ہے۔

(ترجمان القرآن، شعبان ۱۳۵۳ھ۔ نومبر ۱۹۳۴ء)