ترکی میں مشرق و مغرب کی کشمکش - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

خطباتِ خالدہ ادیب خانم


ترکی کی مشہور فاضل و مجاہد خاتون خالدہ ادیب خانم اب سے کچھ مدت قبل جامعہ اسلامیہ کی دعوت پر ہندستان تشریف لائیں تھیں اور انھوں نے دہلی میں چند خطبات ارشاد فرمائے تھے جن کا اردو ترجمہ جامعہ کے فاضل پروفیسر ڈاکٹر سید عابد حسین صاحب نے ترکی میں مشرق و مغرب کی کشمکش کے نام سے کیا ہے۔ ان سطور میں ہم اس مجموعہ خطبات پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالیں گے۔

دنیائے اسلام میں اس وقت دو ملک ایسے ہیں جن کو دو مختلف حیثیتوں سے مسلمانان عالم کی پیشوائی کا مرتبہ حاصل ہے۔ ذہنی حیثیت سے مصر اور سیاسی حیثیت سے ٹرکی۔

مصر کے ساتھ اممِ اسلامیہ کے تعلقات نسبتاً زیادہ گہرے ہیں‘ کیونکہ اس کی زبان ہماری بین الملی زبان‘ عربی ہے‘ اس کالٹریچر تمام دنیا کے مسلمانوں میں پھیلتا ہے‘ اس کے ذہنی اثرات چین سے مراکش تک پہنچتے ہیں‘ اوروہی مسلمانوں کے درمیان ربط اور تفاہم اور واقفیت حالات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بخلاف اس کے ترکی قوم کی مجاہدانہ زندگی‘ اور مغربی تقدمات کے مقابلے میں اس کی شجاعانہ مدافعت‘ اور ناموسِ ملی کے لیے اس کی قربانیوں کا سکہ تو بلاشبہ تمام عالم اسلامی پر بیٹھا ہوا ہے، اور اسی وجہ سے اس کو مسلمانوں میں سرداری اور پیشوائی کا منصب حاصل ہے‘ لیکن زبان کی اجنبیت‘ اور ربط وتفاہم کے فقدان نے ٹرکی اور اکثر ممالکِ اسلامیہ کے درمیان ایک گہرا پردہ حائل کر دیا ہے جس کے سبب سے ترکی قوم کے ذہنی ارتقا اور اس کی دماغی ساخت اور اس کے تمدنی‘ سیاسی‘ مذہبی اور علمی تحولات کے متعلق ہماری واقفیت بہت محدود ہے۔ خصوصاً حال کے دس بارہ برسوں میں جو انقلاب ٹرکی میں رونما ہوئے ان کے باطنی اسباب اور ان کی اصلی روح کو جاننے اور سمجھنے کا موقع تو ہم کو بہت ہی کم ملا ہے۔ بہت سے لوگ ترکوں سے سخت ناراض ہیں‘ بعض ان کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہیں‘ بعض ان کی مغربیت کو اپنی مغربیت پرستی کے لیے برہان قاطع بنائے بیٹھے ہیں، مگر مستند معلومات کسی کے پاس بھی نہیں ہیں اور جو تھوڑی بہت معلومات ہیں بھی تو وہ ٹرکی جدید کی روح کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

اس حالت میں ہم اس کو خوش قسمتی سمجھتے ہیں کہ خود ٹرکی جدید کے معماروں میں سے ایک ایسی ہستی نے یہاںآکر ہمارے سامنے اپنی قوم کے باطن کو ظاہر کیا ہے جو انقلاب کی اسٹیج پر محض ایکٹر ہی نہ تھی بلکہ اس انقلاب کی محرک طاقتوں میں سے ایک طاقت تھی۔ اس کے ساتھ وہ خدا کے فضل سے عالمانہ نظر‘ اور فلسفیانہ فہم‘ اور مفکرانہ تعمق بھی رکھتی ہے جس کی بدولت وہ خارجی واقعات کے اندرونی محرکات کو سمجھ بھی سکتی ہے اور سمجھا بھی سکتی ہے۔ ایسے مستند و معتبر ذریعے سے ہمیں اب پہلی مرتبہ ٹرکی کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس نے ٹرکی جدید کی روح کو ہمارے سامنے بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے اور پوری صداقت و دیانت کے ساتھ ہمیں بتایا ہے کہ جو قوم آج دنیائے اسلام کی نہ صرف سیاسی رہنمائی کر رہی ہے بلکہ ذہنی رہنمائی کے لئے بھی کوشاں ہے۔ درحقیقت وہ خود اپنے باطن میں کیا ہے‘ کن عناصر سے اس کی تعمیر ہوئی ہے‘ کون سی قوتیں اس میں کام کر رہی ہیں‘ کون سے اسباب اس کو موجودہ مقام تک کھینچ کر لائے ہیں اور اب کس رخ پر وہ جارہی ہے۔ اس کا صرف یہی ایک فائدہ نہیں ہے کہ ترکی قوم کا حقیقی حال ہم پر روشن ہوگیا‘ بلکہ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ ٹرکی سے جو رہنمائی اب ہماری جدید نسلوں تک پہنچ رہی ہے اس کی روح کو ہم زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں، اور دنیائے اسلام میں جو انقلاب اس وقت رونما ہو رہا ہے اس کے اندرونی اسباب کو سمجھنے کا ایک اور موقع ہم کو مل گیا ہے۔

قبل اس کے کہ ہم خالدہ خانم کے ذریعے سے ترکی جدید کو سمجھیں ہمیں خود ان کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ ان کا دل پورا پورا مسلمان ہے، ایمان سے لبریز ہے‘ اور ایمان بھی ایسا جس پر ہم کو رشک کرنا چاہیے‘ کیونکہ وہ ایک مجاہد عورت کا ایمان ہے۔ ۱؂ الحاد اور بے دینی کا شائبہ تک ان کے خیالات میں نہیں پایا جاتا۔ اسلام سے ان کو محبت ہے‘ ویسی ہی محبت جیسی ایک سچی مسلمان عورت کو ہونی چاہیے، لیکن ان کا دل جیسا مسلمان ہے‘ ان کا دماغ ویسا نہیں ہے۔ انھوں نے تمام تر مغربی طرز کی تعلیم پائی ہے‘ مغربی علوم ہی کا مطالعہ کیا ہے‘ مغربی عینک ہی سے دنیا اور اسلام اور خود اپنی قوم کو دیکھا ہے اور ان کی تمام فکری و نظری قوتیں مغربی سانچے ہی میں ڈھلی ہوئی ہیں۔ اگرچہ ان کے دل کی چھپی ہوئی اسلامیت اور مشرقیت نے مغربیت کے اس دماغی استیلاکی بہت مزاحمت کی ہے اور اسی مزاحمت کا نتیجہ ہے کہ ترکی قوم کے دوسرے انقلابی لیڈروں کی بہ نسبت ان کے خیالات میں بہت کچھ اعتدال پایا جاتا ہے‘ لیکن یہ مزاحمت ان کو مغربیت کے غلبے سے نہیں بچا سکی ہے۔

اسلام کے متعلق ان کی معلومات کچھ محدود معلوم ہوتی ہیں۔ قرآن اور سنت نبوی اور تاریخ اسلامکے مطالعے میں انھوں نے شاید اس وقت کا دسواں حصہ بھی صَرف نہیں کیا جو مغربی فلسفے اور تاریخ اور عمرانیات کے مطالعے میں صَرف کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے متعلق ان کے خیالات کی جو جھلک ہم کو ان کے خطبات میں نظر آئی ہے‘ اس میں حسنِ عقیدت تو ضرور موجود ہے‘ مگر فہم اور تدبر اور بصیرت بہت کم ہے۔

اپنے آخری خطبے میں وہ فرماتی ہیں کہ:

“گاندھی جی کی ذات جدید اسلام کا ایک مکمل نمونہ ہے۔”

یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جو نہیں جانتا کہ اسلام کیا ہے‘ جدید اور قدیم کی نسبتوں سے کس قدر بالا و برتر ہے اور اس کا مکمل نمونہ کیسا ہوتا ہے۔ اسلامی سیرت کی خصوصیات پر جس شخص کی نظر ہو، اور جس نے اس سیرت کے اصل نمونوں کی ایک جھلک بھی دیکھی ہو‘ اس کی نگاہ میں گاندھی جی کی تو کیا حقیقت ہے‘ تاریخ عالم کے بڑے بڑے ہیرو بھی نہیں جچتے اور یہ کچھ قومی عصبیت کی بنا پر نہیں‘ ناقابل انکار تاریخی حقائق کی بنا پر ہے۔ ابوبکر صدیق ؓ ، عمر فاروق ؓ ، عثمان غنی ؓ ، علی مرتضیٰؓ، حسین ابن علیؓ،ابوحنیفہؒ ، احمد بن حنبلؒ اور عبدالقادر جیلانیؒ کی سیرتیں سامنے رکھیے اور پھر انصاف سے دیکھیے کہ انبیاء علیہم السلام کو چھوڑ کر تاریخِ عالم کی کون سی شخصیت اس قابل ہے کہ ان سیرتوں کے مقابلے میں لاکر رکھی جاسکے؟

عثمانی قوم کے سیاسی مزاج کی ترکیب میں ان کو ترکی قوم کی قدیم نسلی خصوصیات سے لے کر یونان‘ بائزنٹائن‘ روم‘ حتیٰ کہ افلاطون کی جمہوریت تک‘ سب کے اثرات نظر آتے ہیں‘ مگر نہیں نظر آتے تو قرآن اور محمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے اثرات۔ حالانکہ جس چیز نے وسط ایشیا کے بدوی ترکوں کو تہذیب و تمدن سے آراستہ کیا اور ان کے اندر جہاں کشائی کے ساتھ جہاں بانی کی استعداد پیدا کی اور ان کو نوع انسانی کی ایک تخریبی قوت کے بجائے ایک تعمیری طاقت بنا دیا، وہ یہی تعلیم تھی۔ خالدہ خانم زیادہ سے زیادہ اسلام کا جو اثر عثمانیت میں دیکھ سکی ہیں وہ محض اسلامی عدل و مساوات ہے مگر اس کا حال بھی یہ ہے کہ جب سلطان سلیم اپنی رعایا میں بزورِ شمشیر اسلام کو پھیلانا چاہتا ہے اور شیخ الاسلام جمال آفندی اس کو اس فعل سے باز رہنے کا حکم دیتا ہے اور سلیم جیسا قہار فرماں روا اس حکم کے آگے سر جھکا دیتا ہے تو اس عظیم الشان واقعے میں خالدہ خانم کو اسلامی عدل کے بجائے ’عثمانی قومیت‘ کا احساس اور عثمانی اصول سلطنت کی حمایت کا جذبہ ہی نظر آتا ہے۔ وہ نہیں سمجھتیں کہ جمال آفندی کے فتوے میں لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن کی روح تھی، اور وہ اسلامی حق پرستی کی طاقت تھی جس نے سلیم کو اس شرعی فتوے کے آگے سرجھکا دینے پر مجبور کر دیا۔

خالدہ خانم ٹرکی کے موجودہ حکمراں طبقے کی انتہا پسندی‘ استبدادیت‘ معاشرت کی جبری تنظیم‘ حد سے بڑھتی ہوئی مغربیت‘ مادہ پرستانہ رجحانات اور مذہب کے متعلق اس کی روش سے بیزار معلوم ہوتی ہیں۔ وہ مغربیت اور مشرقیت کا معتدل امتزاج چاہتی ہیں۔مادیت اور روحانیت میں مصالحت کی خواہش مند ہیں‘ اور اس حقیقت کا بھی اعتراف کرتی ہیں کہ زندگی کے ان دونوں نظریوں میں جو امتزاج اسلام نے پیدا کیا ہے وہ سب سے بہتر ہے‘ مگر خود اسلام میں پوری بصیرت نہیں رکھتیں‘ اس لیے ان کو معلوم نہیں کہ اصولِ اسلام کے تحت امتزاج کی صحیح صورت کیا ہے اور افراط و تفریط کے درمیان توسط و اعتدال کا خط مستقیم کہاں واقع ہے۔ تاہم اگر ان کی ذاتی آرا سے قطع نظر کرکے دیکھا جائے تو ان کے خطبات میں ہم کو ترکی جدید کی ذہنیت اور اس کے رجحانات اور انقلاب کے تاریخی اسباب کا ایک صاف اور صحیح بیان مل جاتا ہے اور وہی ہم کو مطلوب ہے۔

ترکی قوم ۲؂ اسلام میں اس وقت داخل ہوئی جب مسلمانوں کے ذہنی انحطاط کا آغاز ہو چکا تھا۔ روح جہاد اگرچہ زندہ تھی مگر روحِ اجتہاد مردہ ہو چکی تھی۔ اسلام میں بصیرت رکھنے والے مفکرین اور تفقہ سے بہرہ وافر رکھنے والے فقہا ناپید تھے۔ تہذیب اسلامی نیم جان اور فکر اسلامی قریب قریب بے جان ہو چکی تھی۔ شریعت میں تقلید جامد کا غلبہ تھا۔ تمدن میں عجمیت اور رومیت کے عناصر پیوست ہو چکے تھے۔ تصوف پر اشراقیت کا اور تفکر پر تفلسف کا اثر غالب آگیا تھا۔ قرآن اور سنت سے براہ راست اکتساب علم کی صلاحیت رکھنے والے مفقود تھے۔ علما زیادہ تر الفاظ کے گورکھ دھندوں میں پھنسنے والے، کلام کی پیچیدگیوں میں الجھنے والے اور متقدمین کے روندے ہوئے رستوں پر شرح و ایضاح کے چھکڑے چلانے والے تھے۔ امرا اکثر و بیش تر قیصر و کسریٰ کے ڈھنگ پر چلنے والے تھے۔ مُتَصَوِّفین اور روحانی پیشوا اسلام کے دورِ اول کی حقیقی صوفیت سے بیگانہ اور راہبوں اور جوگیوں کی پیروی کرنے والے تھے۔ علوم و فنون میں مسلمانوں کی ترقی رک گئی تھی۔ تحقیق و اکتشاف کی راہ میں ان کے تقدمات قریب قریب ختم ہوگئے تھے اور عروج کے بعد زوال کے آثار تمام ممالکِ اسلامیہ میں پیدا ہو چکے تھے۔

اس طرح اسلامی تاریخ میں ترکوں کی ابتدا ہی ایک بنیادی کمزوری کے ساتھ ہوئی۔ دولت عثمانیہ کا قیام تقریباً اسی زمانے میں ہوا ہے جب یورپ میں ذہنی ارتقا اور علمی نہضت کا آغاز ہو رہا تھا۔ اگرچہ عثمانیوں نے ابتدائی دو ڈھائی صدیوں میں یورپ کو پیہم شکستیں دے کر اسلام کی دھاک بٹھا دی تھی لیکن اس زمانے میں عام مسلمان قوموں کے ساتھ ساتھ ترک بھی رفتہ رفتہ تنزل کی طرف جارہے تھے اور ان کا مقابلہ جن مغربی قوموں سے تھا وہ تیز رفتاری کے ساتھ مادی اور ذہنی ترقی کی راہ پر گامزن تھیں۔ سترہویں صدی عیسوی میں حالات نے پلٹا کھایا۔ فرنگیوں کی عسکری تنظیم اور مادی و معنوی قوت اس حد تک بڑھ گئی کہ انھوں نے سینٹ گوتھرڈ کے معرکے میں پہلی مرتبہ تنزل پذیر ترکوں کو نمایاں شکست دی، مگر ترکوں کی آنکھیں نہ کھلیں۔ وہ برابر پستی میں گرتے رہے اور فرنگی برابر ترقی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اٹھارہویں صدی میں ترکوں کی اخلاقی‘ مذہبی‘ سیاسی، علمی اور تمدنی حالت انتہائی تنزل کو پہنچ گئی اور فرنگیوں کا غلبہ پوری طرح نمایاں ہوگیا۔

انیسویں صدی کے آغاز میں سلطان سلیم نے اس کمزوری کو محسوس کرلیا اور انتظام سلطنت کی اصلاح‘ علوم جدیدہ کی اشاعت‘ طرز جدید پر عسکری تنظیم‘ اور جدید مغربی آلات حرب کی ترویج شروع کی، لیکن جاہل صوفیوں اور تنگ نظر علما نے جو دین کے علم اور اس کی روح سے قطعاً بے بہرہ تھے‘ مذہب کے نام پر اصلاحات کی مخالفت کی۔ یورپین طرز پر فوج کی تنظیم کو بے دینی سے تعبیر کیا۔ جدید فوجی وردیوں کو تَشَبُّہ بِالنًّصَارٰیٰ قرار دیا۔ سنگین تک کے استعمال کی اس لیے مخالفت کی گئی کہ کافروں کے اسلحے استعمال کرنا ان کے نزدیک گناہ تھا۔ سلیم کے خلاف یہ کہہ کر نفرت پھیلائی گئی کہ وہ کفار کے طریقے رائج کرکے اسلام کو خراب کر رہا ہے۔ شیخ الاسلام عطاء اللہ آفندی نے فتویٰ دیا کہ ایسا بادشاہ جو قرآن کے خلاف عمل کرتا ہو‘ بادشاہی کے لائق نہیں۔ آخر کار ۱۸۰۷ء میں سلیم کو معزول کر دیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مذہبی پیشواؤں نے اپنی جہالت اور تاریک خیالی سے اسلام کے مانعِ ترقی ہونے کا غلط تخیل پیدا کیا۔

زمانے کے حالات تیزی کے ساتھ بدل رہے تھے۔ دوسرے مسلمانوں کی بہ نسبت ترکوں پر ان تغیرات کا زیادہ اثر پڑ رہا تھا۔ وہ یورپ کے مقابلے میں بالکل سینہ بسینہ کھڑے تھے اور برسرپیکار تھے۔ مغربی قوموں کے ساتھ ان کے سیاسی‘ تمدنی اور تجارتی تعلقات نہایت گہرے تھے‘ اور خود ان کی ماتحت یورپین اور عیسائی قومیں سرعت کے ساتھ مغرب کے اثرات قبول کر رہی تھیں، مگر ترکوں کے مذہبی پیشواؤں نے جو تفقہ اور اجتہاد سے بالکل عاری اور اسلام کی حقیقی تعلیمات سے قطعاً ناواقف تھے‘ ان تغیرات کی طرف سے آنکھیں بند کرلیں اور ترکی قوم کو مجبور کیا کہ سات سو برس قبل کی فضا سے ایک قدم آگے نہ بڑھیں۔ سلیم کے بعد محمود نے اصلاح کی کوششیں کیں اور علما و مشائخ نے پھر مخالفت کی۔ بڑی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے بعد ۱۸۲۶ء میں محمود اس قابل ہوسکا کہ جدید عسکری تنظیم کو رائج کرسکے، مگر علما اور درویش برابر یہی تبلیغ کرتے رہے کہ یہ اصلاحات بدعت ہیں‘ ان سے اسلام کو خراب کیا جارہا ہے‘ سلطان بے دین ہوگیا ہے اور طرز جدید کی فوج میں بھرتی ہونا مسلمانوں کے لیے خرابی ایمان کا موجب ہے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب ترکوں کے اہل دماغ لوگوں میں اپنی قومی پستی کا عام احساس پیدا ہو چکا تھا۔ ان لوگوں نے مغربی قوموں کی ترقی کے اسباب پر غور کیا‘ ان کے علوم و آداب کا مطالعہ کیا‘ ان کی تنظیمات پر گہری نگاہ ڈالی اور اپنی سلطنت کے قوانین، انتظامی امور‘ تعلیمی ادارت اور حربی نظام میں ایسی اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش کی جن سے وہ مغربی قوموں کے دوش بدوش ترقی کرسکیں۔ خالدہ خانم کے بقول یہ وہ لوگ تھے جن کی رگ و پے میں اسلامیت بیٹھی ہوئی تھی۔ ان کے دل اور دماغ دونوں مسلمان تھے۔ ان میں اپنی کمزوری کا احساس ضرور تھا مگر مغرب کے مقابلے میں کمتری کا احساس ہرگز نہیں تھا۔ وہ مغرب سے مرعوب نہ تھے۔ بلا امتیاز اس کی ہر چیز کو قبول کرنے والے نہ تھے۔ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ مغرب کی مفید چیزوں کو لے کر اپنی سلطنت اور اپنی قوم کی کمزوریوں کو دور کر دیں اور زندگی کے میدان میں یورپ کے ساتھ برابر کی مسابقت کرسکیں۔ انھوں نے سلطان عبدالمجید خاں کے زمانے میں نظامِ سلطنت کی اصلاح اور فوج کی تنظیم کی‘ اپنی قوم کے ادبیات میں زندگی کی روح پھونکی۔ نئے مدارس اور کالج قائم کیے اور چند سال کے اندر ایک ایسی نسل تیار کر دی جس میں اسلامی تہذیب کے تمام جوہروں کے ساتھ تفکر و تدبر کی اعلیٰ صلاحیتیں بھی موجود تھیں۔ سلطان عبدالعزیز کے عزل (۱۸۷۶ء) تک اس گروہ نے بے شمار خارجی و داخلی مشکلات کے باوجود تعمیر قومی کا بہترین کام انجام دیا اور اس کے ثمرات عمر پاشا جیسے جنرل‘ مدحت پاشا جیسے مدبر اور نامق کمال اور عبدالحق حمید جیسے سچے مسلمان اہل فکر و ادب کی صورت میں ظاہر ہوئے،لیکن سلطان عبدالحمید نے آکر دفعتہ حرکت کا رخ بدل دیا۔ ۱۸۷۶ء سے لے کر ۱۹۰۹ء تک ۳۳ سال کا زمانہ جس میں ایک دوسری مشرقی قوم (جاپان) ترقی کرکے کہیں سے کہیں پہنچ گئی اس خود غرض سلطان نے محض اپنے شخصی اقتدار کی خاطر ترکی قوم کی علمی‘ ذہنی‘ تمدنی اور سیاسی و تنظیمی ترقی کو روکنے اور اس کی روح کو مردہ کرنے میں صرف کر دیا۔ یہاں موقع نہیں کہ اس شخص کے اعمال پر کوئی تفصیلی تبصرہ کیا جاسکے۔ مختصر یہ ہے کہ اس نے تعمیر کے بہترین زمانے کو جس کی ایک ایک ساعت بیش قیمت تھی‘ تخریب میں کھو دیا۔ اس نے ترکی قوم کے بہترین دماغوں کو برباد کیا۔ جمال الدین افغانی جیسا بے نظیر آدمی اُسے ملا اور اس کو بھی اس شخص نے ضائع کر دیا، مگر سب سے بڑا نقصان جو اس کی بدولت نہ صرف ترکی قوم کو بلکہ دنیائے اسلام کو پہنچا وہ یہ ہے کہ اس نے خلافت کے مذہبی اقتدار اور رجعت پسند علما و مشائخ کے اثرات کو عہد تنظیمات کے ترکی مصلحین کی اٹھائی ہوئی بنیادیں اکھیڑنے اور ترکی قوم کے ادبی و ذہنی ارتقا کو روکنے اور سیاسی و تنظیمی اصلاحات کا استیصال کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس کی اس خود غرضانہ و ناعاقبت اندیشانہ حرکت سے ترکوں کی نئی نسل میں ایک انقلابی بحران پیدا ہوگیا۔ وہ مذہب کو مانعِ ترقی سمجھنے لگے۔ اسلامیت سے ان کے دماغ منحرف ہوگئے۔ تاریک خیال علما اور مشائخ سے بجا طور پر جو نفرت ان کے دلوں میں پیدا ہوئی تھی‘ انقلابیت کے جوش میں اس کارخ مذہب کی طرف پھر گیا۔ وہ سمجھے اور جاہل علما و مشائخ نے ان کو یہ سمجھنے پر مجبور کر دیا کہ اسلام ایک جامد مذہب ہے‘ زمانے کے ساتھ حرکت کرنے کی اس میں صلاحیت نہیں‘ اس کے قوانین تغیرات احوال کا ساتھ نہیں دے سکتے‘ اور بجز چند عقائد کے اس میں کوئی دوسری چیز ایسی نہیں جو اپنے اندر کوئی پائیداری رکھتی ہو۔

اس ۳۳ برس کے استبداد نے جو بدقسمتی سے مذہبی رنگ لیے ہوئے تھا‘ ترکوں کی نئی نسلوں میں مادہ پرستی‘ دہریت‘ مغرب سے کامل مرعوبیت‘ مغربی تخیلات کی اندھی تقلید‘ اپنے ماضی سے نفرت‘ ہر قدیم چیز سے بیزاری اور خلافت و وحدتِ اسلامی سے جس کو سلطان عبدالحمید نے اپنی اغراض کا آلہ کار بنایا تھا‘ کراہت تام پیدا کر دی‘ اور ان کے اندر یہ خیال راسخ کر دیا کہ دنیا میں سربلندی حاصل کرنے کے لیے تمام پچھلی بنیادوں کو ڈھا کر بالکل مغربی طرز پر ترکیت کا قصر تعمیر کرنا ضروری ہے۔

۱۹۰۸ء کے انقلاب نے سلطان عبدالحمید خان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا‘ اور سلطنت کی عنانِ اقتدار منحرف ذہنیت رکھنے والے جوشیلے اور مشتعل نوجوانوں کے ہاتھوں میں آگئی۔ خالدہ ادیب خانم کے بقول یہ لوگ عہد تنظیمات کے اصلاح پسندوں سے بالکل مختلف تھے۔ ان میں سے ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو علمی قابلیت‘ تدبر و فکر اور عالی دماغی میں دور تنظیمات کے مدبرین کی ٹکر کا ہو۔ نہ ان کے پیش نظر وہ بلند نصب العین تھا‘ نہ ان کی سیرتوں میں وہ مضبوطی تھی، نہ شائستگی اور تربیت کے لحاظ سے ان کا ان سے کوئی مقابلہ تھا‘ نہ قومی فخر و ناز کا وہ جذبہ ان میں موجود تھا‘ نہ تنقید کی وہ صلاحیت تھی کہ قدیم اور جدیدکے صحیح فرق کو سمجھ سکیں۔ یہ چند ایسے نوجوانوں کا مجمع تھا جو اسلامی علوم میں کورے تھے‘ اسلامی تربیت میں ناقص تھے‘ مغربی علوم میں بھی گہری نظر نہ رکھتے تھے‘ اپنے مذہب‘ اپنی تہذیب‘ اپنے علوم و آداب اور اپنی قدیم اجتماعی تنظیمات کے خلاف ان کے دل و دماغ میں تعصب کا گہرا جذبہ پیدا ہو چکا تھا‘ مغرب کے تقدمات سے مرعوبیت ان کے اندر بدرجہ اتم پیدا ہو گئی تھی اور یہ اپنی ہر چیز کو بدل دینے کے لیے بے چین تھے۔ جب سلطنت ان کے ہاتھوں میں آئی تو یہ بند پانی جس کو ۳۳ برس کی طویل بندش نے بہت کچھ فاسد کر دیا تھا، طوفان کی شکل میں پھوٹ نکلا۔ یہی وہ زمانہ ہے جس میں ترکوں پر نیشنلزم اور تورانی عصبیت کا جن سوار ہوا‘ وحدت اسلامی کی طرف سے سرد مہری ظاہر ہونی شروع ہوئی‘ مذہب پر نکتہ چینی کا آغاز ہوا‘ قدیم تہذیب کو بالکلیہ اختیار کرلینے پر زور دیا جانے لگا‘ ماضی سے تعلق منقطع کرنے اور مغرب سے قریب تر ہونے کے لیے لاطینی رسم الخط اختیار کرنے کی تجویز پیش ہوئی‘ جدید نظریات کے مطابق اسلام کو ڈھالنے کے لیے سرکاری علما کا ایک گروہ اٹھا جس کا سرغنہ ضیا کوک الپ جیسا شخص تھا۔ یہ وہی شخص ہے جس نے اتحاد اسلامی کے مقابلے میں اتحادِ تورانی کی زبردست تبلیغ کی‘ ترکوں کو عہد اسلامی کی تاریخ اور اس کے نام وَر بہادروں سے نفرت دلا کر قدیم وحشی تاتاریوں پر فخر کرنا سکھایا‘ (جن میں چنگیز اور ہلاکو کی شخصیتیں سب سے زیادہ نمایاں ہیں)۔ ترکی زبان کو اسلامی ادب کی خصوصیات سے پاک کرنے کی کوشش کی‘ اور تمدن‘ معاشرت‘ تہذیب و اطوار اور عملی زندگی کے تمام طریقوں میں مغرب کی پوری تقلید کرنے پر زور دیا۔ اس قسم کے خیالات رکھنے والا شخص‘ جدید انقلابی جماعت کا امام مجتہدبن کر اٹھا اور اس نے کوشش شروع کی کہ اپنے متبعین کے ساتھ مل کر اسلامی تعلیمات کی ایسی تعبیر کرے جس سے چند گنے چنے عقائد اور اخلاقی اصولوں کے سوا اسلام کی ہر چیز کو قابل تغیر ثابت کرکے مغربی سانچے میں ڈھال دیا جاسکے۔

ایک طرف ترکی قوم میں اتنے بڑے انقلاب کی ابتدا ہو رہی تھی۔ دوسری طرف ترکوں کے علما اور مشائخ تھے جو اَب بھی ساتویں صدی کی فضا سے نکلنے پر آمادہ نہ تھے۔ ان کے جمود‘ ان کی تاریک خیالی‘ ان کی رجعت پسندی‘ اور زمانے کے ساتھ حرکت کرنے سے ان کے قطعی انکار کا اب بھی وہی حال تھا جو سلطان سلیم کے زمانے میں تھا۔ وہ اب بھی کہہ رہے تھے کہ چوتھی صدی کے بعد اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے‘ حالانکہ ان کی آنکھوں کے سامنے الحاد کا دروازہ کھل رہا تھا۔ وہ ابھی تک فلسفہ و کلام کی وہی کتابیں پڑھنے پڑھانے میں مشغول تھے جن کو پھینک کر زمانہ پانچ سو برس آگے نکل چکا تھا۔ وہ اب بھی اپنے وعظوں میں قرآن کی وہی تفسیریں اور وہی ضعیف حدیثیں سنا رہے تھے جن کو سن کر سوبرس پہلے تک کے لوگ تو سردھنتے تھے مگر آج کل کے دماغ ان کو سن کر صرف ان مفسرین و محدثین ہی سے نہیں بلکہ خود قرآن و حدیث سے بھی منحرف ہو جاتے ہیں۔ وہ ابھی تک اصرار کر رہے تھے کہ ترکی قوم میں وہی فقہی قوانین نافذ کیے جائیں گے جو شامی اور کنزالدقائق میں لکھے ہوئے ہیں خواہ اس اصرار کا نتیجہ یہی کیوں نہ ہو کہ ترک ان قوانین کے اتباع سے بھی آزادہو جائیں جو قرآن اور سنت رسولؐ میں مقرر کیے گئے ہیں۔

غرض ایک طرف علما اور مشائخ اپنی اس روش پر قائم رہے جو ترکی قوم کو سو برس کے اندر تنظیمات کے مقام سے بٹا کر انقلابیت کے اس مقام تک کھینچ کر لائی تھی، اور دوسری طرف ترکی قوم کے انقلابی لیڈر دل سے مسلمان ہونے کے باوجود، دماغ اور فکر و عمل کی واقعی دنیا میں اسلام سے دور اور دور تر ہوتے چلے جارہے تھے۔ اسی زمانے میں جنگ عظیم پیش آئی جس میں عرب اور ہندستان کے بدقسمت مسلمانوں نے اعدائے اسلام کے ساتھ مل کر ترکوں کے گلے کاٹے۔ پھر جنگ عظیم کے بعد جب ترکوں نے اپنی حیاتِ قومی کو کامل تباہی سے بچانے کے لیے جدوجہد شروع کی تو اس میں سب سے زیادہ اُن کی مخالفت جنھوں نے کی وہ خلیفۂ وقت اور شیخ الاسلام تھے۔ یہ آخری ضربات انقلابی ترک کی نیم جاں اسلامیت کے لیے فیصلہ کن تھیں۔ انھی کا نتیجہ ہے جو آج ہم کو ترکی جدید کی غیر معتدل تجدد پسندی کی شکل میں نظر آرہا ہے۔ ۱۹۰۸ء میں جو انقلابی خیالات ابھی خام تھے اور جن کو جنگِ طرابلس‘ جنگِ بلقان‘ جنگِ عظیم اور حملۂ یونان کی مشغولیتوں نے پختہ ہونے سے روک رکھا تھا وہ لوزان کانفرنس کے بعد پختگی کو پہنچ گئے اور عملی شکل اختیار کرنے لگے۔ تمدن و معاشرت میں کامل مغربیت، زبان اور ادب اور سیاست میں انتہا درجے کی نسلی عصبیت‘ الغائے خلافت کے بعد مذہب و سلطنت کی تفریق اور پھر خالدہ خانم کے بقول سلطنت کو مذہب سے آزاد کرکے مذہب کو سلطنت کا پابند بنا دیا، اسلامی قانون کے بجائے سوئٹزر لینڈ کا قانون اختیار کرنا، وراثت اور نکاح و طلاق وغیرہ مسائل میں قرآن کے صریح احکام تک کو بدل ڈالنا‘ عورتوں کو اسلامی تعلیم کے بالکل خلاف اس آزادی کی روش پر ڈال دینا جس پر جنگِ عظیم کے بعد یورپ کی عورتیں چل رہی ہیں‘ یہ سب قدرتی نتائج ہیں جاہل علما کے جمود‘ اور ہوا پرست صوفیا کی گمراہی‘ اور خلافت کے منصب سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے سلاطین کی خود غرضی‘ اور انقلابی لیڈروں کی قرآن اور سنت رسولؐ کے علم سے کلی جہالت کے۔ افسوس کہ اس صدی میں ترکی قوم نے ایک بھی ایسا شخص پیدا نہیں کیا جو قرآن میں بصیرت رکھنے والا اور اسلامی تعلیم کی حقیقی روح کو سمجھنے والا ہوتا‘ اور زمانے کے متغیر حالات پر گہری نگاہ ڈال کر صحیح اجتہادی قوت سے کام لیتا‘ اور اصولِ اسلام کو ان حالات پر منطبق کرکے ایک ایسا سمویا ہوا نظام مرتب کر دیتا جس کی اساس کتاب و سنت پر ہوتی اور جس میں رفتار زمانہ کے ساتھ حرکت کرنے کی صلاحیت ہوتی۔

ترکی تاریخ کے ان تحولات سے جو لوگ واقف نہیں ہیں وہ عجیب عجیب غلطیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ پرانے مذہبی خیال کے لوگ نوجوان ترکوں پر کفر اور فسق کے فتوے لگا رہے ہیں، مگر ان کو خبر نہیں کہ نوجوان ترکوں سے زیادہ گناہ گار تو ٹرکی کے علما و مشائخ ہیں۔ انھی کے جمود نے ایک مجاہد قوم کو جو پانچ سو برس سے اسلام کے لیے تن تنہا سینہ سپر تھی اسلامیت سے فرنگیت کی طرف دھکیلا ہے اور اندیشہ ہے کہ ایسے ہی جامدین دوسری مسلمان قوموں کو بھی ایک روز اسی جانب دھکیل کر رہیں گے۔ دوسری طرف جدت پسند حضرات ہر اس وحی کو جو انقرہ سے نازل ہوتی ہے مسلمانوں کے سامنے اس طرح پیش کر رہے ہیں گویا قرآن منسوخ ہو چکا‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ختم ہوگئی‘ اب ہدایت ہے تو اتاترک کے اسوہ میں اور نور علم ہے تو آسمانِ انقرہ سے اتری ہوئی وحی میں۔ حالانکہ بے چارے اتاترک اور اس کے متبعین کا حال یہ ہے کہ:

مَاَ لَھُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ اِنْ ھُمْ اِلاَّ یَخْرُصُوْنَ۔ (الزخرف۴۳۲۰)

[یہ اس معاملے کی حقیقت کو قطعی نہیں جانتے، محض تیرتکے لڑاتے ہیں۔]

(ترجمان القرآن، ذی القعدہ ۱۳۵۴ء۔ فروری ۱۹۳۶ء)