مسلمان کا حقیقی مفہوم - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

مسلمان کا حقیقی مفہوم
ہماری روز مرہ کی بول چال میں بعض ایسے الفاظ اور فقرے رائج ہیں جن کو بولتا تو ہر شخص ہے‘مگر سمجھتے بہت کم ہیں۔ کثرتِ استعمال نے ان کا ایک اجمالی مفہوم لوگوں کے ذہن نشین کر دیا ہے۔ بولنے والا جب ان الفاظ کو زبان سے نکالتا ہے تو وہی مفہوم مراد لیتا ہے، اور سننے والا جب انھیں سنتا تو اسی مفہوم کو سمجھتا ہے، لیکن وہ گہرے معانی جن کے لیے واضع نے ان الفاظ کو وضع کیا تھا‘ جہلا تو درکنار اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی معلوم نہیں ہوتے۔

مثال کے طور پر ’اسلام‘ اور ’مسلمان‘ کو لیجیے۔ کس قدرکثرت سے یہ الفاظ بولے جاتے ہیں اور کتنی ہمہ گیری کے ساتھ انھوں نے ہماری زبانوں پر قبضہ کرلیا ہے؟ مگر کتنے بولنے والے ہیں جو ان کو سوچ سمجھ کربولتے ہیں؟ اور کتنے سننے والے ہیں جو انھیں سن کر وہی مفہوم سمجھتے ہیں جس کے لیے یہ الفاظ وضع کیے گئے تھے؟ غیر مسلموں کو جانے دیجیے۔ خود مسلمانوں میں ۹۹فی صدی بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمی ایسے ہیں جو اپنے آپ کو’مسلمان‘ کہتے ہیں اور اپنے مذہب کو اسلام کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ مسلمان ہونے کے معنی کیا ہیں اور لفظ ’اسلام‘ کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ آئیے آج تھوڑا سا وقت ہم انھی الفاظ کی تشریح میں صَرف کریں۔

اعتقاد اور عمل کے لحاظ سے اگر آپ لوگوں کے احوال پر نگاہ ڈالیں گے تو عموماً تین قسم کے لوگ آپ کو ملیں گے:

• ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو علانیہ آزادی رائے اور آزادی عمل کے قائل ہیں۔ ہر معاملے میں خود اپنی رائے پر اعتماد کرتے ہیں۔ صرف اپنی عقل کے فیصلوں کو صحیح سمجھتے ہیں، اور وہی طریق کار اختیار کرتے ہیں جو ان کے اپنے خیال میں صحیح ہوتا ہے۔ کسی مذہب کی پیروی سے ان کو کچھ سروکار نہیں ہوتا۔

• دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو بظاہر کسی مذہب کو مانتے ہیں مگر حقیقت میں پیروی اپنے ہی خیالات کی کرتے ہیں۔ وہ اپنے عقائد اور قوانین عمل کے لیے مذہب کی طرف رجوع نہیں کرتے بلکہ خود اپنی طبیعت کے رجحان یا دلچسپی یا اغراض و حاجات کے لحاظ سے کچھ عقائد اپنے ذہن میں جما لیتے ہیں‘ عمل کے کچھ طور طریقے اختیار کرلیتے ہیں اور پھر کوشش کرتے ہیں کہ مذہب کو ان کے مطابق ڈھال لیں‘ گویا درحقیقت وہ مذہب کے پیرو نہیں ہوتے بلکہ مذہب ان کا پیرو ہوتا ہے۔

• تیسری قسم میں وہ لوگ ہیں جو خود اپنی سمجھ بوجھ سے کام نہیں لیتے۔ اپنی عقل کو معطل رکھتے ہیں اور آنکھیں بند کرکے دوسروں کی تقلید کرنے لگتے ہیں، خواہ وہ ان کے باب دادا ہوں‘ یا اُن کے ہم عصر۔

پہلا گروہ آزادی کے نام پر مرتا ہے مگر نہیں جانتا کہ اس کے صحیح حدود کیا ہیں۔ فکر و عمل کی آزادی بلاشبہ ایک حد تک صحیح ہے، مگر جب وہ اپنی حد سے تجاوز کر جاتی ہے تو گمراہی بن جاتی ہے۔ جو شخص ہر معاملے میں صرف اپنی رائے پر اعتماد کرتا ہے‘ ہر مسئلے میں صرف اپنی عقل کا حکم مانتا ہے‘ وہ دراصل اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ اس کے علم اور اس کی عقل نے دنیا بھر کے تمام امور کا احاطہ کرلیا ہے۔ کوئی حقیقت اور مصلحت اس کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ہر منزل کی راہ و رسم سے وہ باخبر ہے۔ ہر مسلک کی پیچیدگیوں کا اُسے علم ہے۔ ہر رستے کی انتہا کو بھی وہ اسی طرح جانتا ہے جس طرح اس کی ابتدا کو۔ یہ علم اور ہوش مندی کا زعم درحقیقت ایک زعمِ باطل ہے، اور اگر انسان صحیح معنوں میں خود اپنی عقل کو حَکم بنائے تو خود عقل ہی یہ کہہ دے گی کہ میرا اندھا مُقلّد مجھ کو جن صفات سے متصف سمجھتا ہے‘ حقیقتًا میں ان سے متصف نہیں ہوں۔ مجھ کو اپنا واحد رہنما سمجھنے والا‘ صرف میری رہنمائی میں زندگی کی راہ طے کرنے والا ٹھوکروں‘ لغزشوں‘ گمراہیوں اورہلاکتوں سے کبھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔

اس قسم کی حریتِ فکر و عمل‘ تمدن و تہذیب کے لیے بھی مہلک ہے۔ حریت کا اقتضا یہ ہے کہ ہر شخص وہی اعتقاد رکھے جو خود اس کے اپنے خیال میں صحیح ہو، اور اسی راہ پر چلے جو اس کی اپنی عقل کے مطابق درست ہو۔ تمدن و تہذیب کااقتضایہ ہے کہ ایک نظام تمدن میں جتنے لوگ ہیں وہ سب چند بنیادی عقائد و افکار میں متفق ہوں اور اپنی عملی زندگی میں ان مخصوص اطوار و آداب اور قوانین کی پیروی کریں جو حیات اجتماعی کی تنظیم کے لیے مقرر کر دیے گئے ہیں۔ پس حریت فکر و عمل اور تمدن و تہذیب میں کھلی ہوئی منافات ہے۔ حریت افراد میں خودسری‘ بے قیدی اور انار کی پیدا کرتی ہے۔ تمدن اُن سے اتباع‘ پیروی اور تسلیم و اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے۔ جہاں کامل حریت ہوگی وہاں تمدن نہ ہوگا، اور جہاں تمدن ہوگا وہاں افراد کو ایک بڑی حد تک حریت فکر و عمل سے دست کش ہونا پڑے گا۔

دوسرے گروہ کا حال پہلے گروہ سے زیادہ برا ہے۔ پہلا گروہ صرف گمراہ ہے۔ دوسرا گروہ اس کے ساتھ جھوٹا‘ منافق‘ دھوکہ باز اور بدطینت بھی ہے۔ اگر تاویل کے جائز حدود میں رہ کر ایک شخص اپنے مذہب اور اپنے تخیلات و رجحانات میں موافقت پیدا کرسکتا ہو تو حریت فکر و عمل کے ساتھ مذہب کا اتباع ممکن ہے۔ اگر انسان کے اپنے رجحانات مذہب کے خلاف ہوں اور اس کے باوجود وہ مذہب کو صحیح اور اپنے رجحانات کو غلط سمجھتا ہو‘ تب بھی ایک حد تک اس کا یہ دعویٰ صحیح ہوگا کہ وہ واقعی اس مذہب کو مانتا ہے جس کی پیروی کا دعویٰ کر رہا ہے‘ لیکن اگر مذہب کی واضح تعلیمات سے اس کے عقائد اور اعمال صریحاً مختلف ہوں اور وہ اپنے خیالات کو صحیح اور مذہب کی تعلیم کو غلط سمجھتا ہو اور پھر وہ اپنے آپ کو مذہب کے دائرے میں شامل رکھنے کے لیے مذہبی تعلیمات کو اپنے خیالات اورطورطریقوں کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کرے تو ایسے شخص کو ہم کَودن نہیں کہیں گے کیونکہ کودن سے اتنی ہوشیاری کاکام کہاں بن آتا ہے؟ ہمیں مجبوراً اس کو بے ایمان کہنا پڑے گا۔ ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ اس میں مذہب سے علانیہ بغاوت کرنے کے لیے کافی اخلاقی جرأت نہیں ہے اس لیے وہ منافقت کی راہ سے مذہب کا پیرو بنتا ہے‘ ورنہ کون سی چیز اس کے لیے ایک ایسے مذہب کو چھوڑ دینے میں مانع ہے جس کی تعلیمات اس کی عقل کے فیصلوں کے خلاف ہیں‘ اس کے حقیقی افکارو عقائد کی ضد واقع ہوئی ہیں، اور اسے ان طریقوں پر چلنے سے روکتی ہیں جن پر وہ سچے دل سے چلنا چاہتا ہے اورواقع میں چل بھی رہا ہے۔

تیسرا گروہ اپنے مرتبۂ عقلی کے لحاظ سے سب سے زیادہ فروتر ہے۔ پہلے دونوں گروہوں کی غلطی تو یہ ہے کہ وہ عقل سے اتنا کام لیتے ہیں جتنا وہ نہیں کرسکتی، اور اس گروہ کی غلطی یہ ہے کہ سرے سے عقل سے کام ہی نہیں لیتا، یا لیتا ہے تو اتنا کم کہ نہ لینے کے برابر۔ ایک صاحب عقل انسان کے لیے اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ کسی عقیدے کا معتقد ہو اور اس اعتقاد کے حق میں اس کے پاس اس کے سوا اور کوئی دلیل نہ ہو کہ اس کے باپ دادا بھی یہی اعتقاد رکھتے تھے، یا فلاں قوم جو بڑی ترقی یافتہ ہے‘ وہ بھی اسی عقیدے کی معتقد ہے۔ اسی طرح جو شخص اپنے دینی یا دنیاوی معاملات میں بعض طریقوں کی صرف اس لیے پیروی کرتا ہو کہ باپ دادا سے وہی طریقے چلے آرہے ہیں‘ یا بعض طریقوں کو صرف اس بنا پر اختیار کرتا ہو کہ اس کے عہد کی غالب قوموں میں وہی طریقے رائج ہیں‘ وہ دراصل اس امر کا ثبوت دیتا ہے کہ خود اس کے جمجمے میں دماغ اور دماغ میں سوچنے کی قابلیت نہیں ہے۔ اس کے پاس خود کوئی ایسی قوت نہیں ہے جس سے وہ صحیح اور غلط میں تمیز کرسکتا ہو۔ اتفاقاً وہ ہندو گھرانے میں پیدا ہوگیا اس لیے ہندو مذہب کو صحیح سمجھتا ہے۔ اگر مسلمان گھر میں پیدا ہوتا تو اسلام کو برحق مانتا۔ اگر عیسائی کی اولاد ہوتا تو عیسائیت پر جان دیتا۔ اسی طرح یہ بھی اتفاق ہے کہ اس کے عہد میں فرنگی قومیں برسر اقتدار ہیں اس لیے وہ فرنگی طور طریقوں کو معیار تہذیب سمجھتا ہے۔ اگر چینی برسر اقتدار ہوتے تو یقیناًاس کے نزدیک چینی طور طریقے معیار تہذیب ہوتے اور اگر آج دنیا پر افریقہ کے حبشیوں کا تسلط ہو جائے تو کوئی شک نہیں کہ یہ خفیف العقل انسان حبشیت کو انسانیت کا عطر سمجھنے لگے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے صحیح یا برحق ہونے کے لیے یہ کوئی دلیل ہی نہیں ہے کہ بزرگوں سے ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے‘ یا دنیا میں آج کل ایسا ہی ہو رہا ہے۔ دنیا میں تو پہلے بھی حماقتیں ہوئی ہیں اور اب بھی ہو رہی ہیں۔ ہمارا کام ان حماقتوں کی اندھا دھند پیروی کرنا نہیں ہے۔ ہمارا کام یہ نہیں کہ آنکھیں بند کرکے قدیم یا جدید زمانے کے ہر طریقے کی پیروی کرنے لگیں اور ہر راہ رَو کے دامن سے دامن باندھ کر چل کھڑے ہوں، خواہ وہ کانٹوں کی طرف جارہا ہو، یا خندق کی طرف۔ ہمیں خدا نے عقل اسی لیے دی ہے کہ دنیا کے اچھے برے میں تمیز کریں‘ کھوٹے اور کھرے کو پرکھ کر دیکھیں‘ کسی کو رہنما بنانے سے پہلے اچھی طرح دیکھ لیں کہ وہ کدھر جانے والا ہے۔

اسلام ان تینوں گروہوں کو غلط کار ٹھہراتا ہے۔

پہلے گروہ کے متعلق وہ کہتا ہے کہ نہ تو یہ لوگ کسی روشنی والے کو ہادی اور رہنما مانتے ہیں‘ نہ ان کے پاس خود ہی حق کا نور ہے کہ اس کے اجالے میں راہ طے کریں۔ ان کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو اندھیرے میں محض اندازے اور اٹکل سے چل رہا ہو۔ ممکن ہے کہیں سیدھے رستے چلے‘ اور ممکن ہے کہیں گڑھے میں جا پڑے‘ اس لیے کہ اندازہ کوئی یقینی چیز نہیں ہے۔ اس میں صحت اور غلطی دونوں کا امکان ہے بلکہ زیادہ تر امکان غلطی ہی کا ہے

۱۔ وَمَا یَتَّبِعُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ شُرَکَآءَط اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلاَّ الظَّنَّ وَ اِنْ ھُمْ اِلاَّ یَخْرُصُوْنَ۔ (یونس۱۰۶۶)

[جو لوگ خدا کے سوا دوسروں کو خدائی کا حصہ دار ٹھہراتے اور ان کو پکارتے ہیں جانتے ہو کہ وہ کسی چیز کے پیرو ہیں؟ وہ صرف گمان کے پیرو ہیں اور محض اندازے پر چلتے ہیں۔]

۲۔ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلاَّ الظَّنَّ ج وَاِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْءًاج (النجم۵۳ ۲۸)

[وہ محض گمان پر چلتے ہیں اور گمان کا حال یہ ہے کہ وہ حق کی ہدایت سے ذرہ برابر بھی بے نیاز نہیں کرتا۔]

۳۔ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلاَّ الظَّنَّ وَمَا تَھْوَی الْاَنْفُسُج وَلَقَدَ جَآءَ ھُمْ مِّنْ رَّبِّھِمُ الْھُدٰی o اَمْ لِلْاِ نْسَانِ مَا تَمَنّٰی۔ (النجم۵۳۲۳۔۲۴)

[وہ گمان اور اپنے نفس کی خواہشات کے سوا کسی اور چیز کی پیروی نہیں کرتے حالانکہ ان کے پروردگارکی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔ کیا انسان کے لیے وہی چیز حق ہے جس کی وہ تمنا کرے۔]

۴۔ اَفَرَءَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہ‘ ھَوٰہُ وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً ط فَمَنً یَّھْدِیْہِ مِنْم بَعْدِ اللّٰہِط (الجاثیہ۴۵۔۲۳)

[کیا تو نے دیکھا اس شخص کو جس نے اپنے نفس کی خواہشات کو اپنا خدا بنا لیا؟ باوجودیکہ وہ علم رکھتا ہے مگر اللہ نے اسے گمراہ کر دیا۔ اس کے کانوں اور اس کے دل پر مہر لگا دی۔ اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب اللہ کے بعد کون ہے جو اس کی رہنمائی کرے گا۔]

۵۔ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوٰہُ بِغَیْرِ ھُدًی مِّنَ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۔ (القصص۲۸۵۰)

[اور اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جس نے اللہ کی ہدایت کے بجائے اپنے نفس کی پیروی کی؟ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی ہدایت نہیں دیتا۔]

نزول قرآن کے زمانے میں دوسرے گروہ کے نمائندے بنی اسرائیل تھے۔ اپنے آپ کو موسوی اور متبع تورات کہا کرتے تھے، مگرعقاید اور معاملات میں اکثر و بیش تر موسیٰ علیہ السلام کے طریقے اور تورات کی تعلیم کے خلاف تھے۔ اس پر لطف یہ تھا کہ اپنے اس انحراف پر نادم بھی نہ تھے۔ بجائے اس کے کہ اپنے خیالات اور اعمال کو تورات کے مطابق ڈھالتے وہ تورات میں لفظی و معنوی تحریفیں کرکے اس کو اپنے افکار و اعمال کے مطابق ڈھال لیا کرتے تھے۔ تورات کی اصلی تعلیمات کو چھپا کر اپنے خیالات کو اس طرح پیش کرتے تھے کہ گویا وہی دراصل تورات کی تعلیمات ہیں۔ خدا کے جو بندے انھیں اس گمراہی پر متنبہ کرتے اور ان کی خواہشات کے خلاف کلام الٰہی کے اتباع کی دعوت دیتے تھے‘ ان کو وہ گالیاں دیتے‘ جھوٹا قرار دیتے‘ حتیٰ کہ قتل تک کردیتے تھے۔ ان کے متعلق قرآن کہتا ہے

۱۔ یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖلا وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖج وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَآءِنَۃٍ مِّنْھُمْ اِلاَّ قَلِیْلاً مِّنْھُمْ۔ (المائدہ۵۱۳)

[وہ الفاظ کو ان کے مواقع سے پھیر دیتے ہیں اور انھوں نے بہت سی ان نصیحتوں کو بھلا دیا ہے جو انھیں کی گئی تھیں۔ تمھیں برابر ان کی کسی نہ کسی چوری کی اطلاع ملتی رہتی ہے۔ اس خیانت سے ان کے بہت کم آدمی بچے ہوئے ہیں۔]

۲۔ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ (آل عمران۳ ۱۷)

[اے اہل کتاب! تم کیوں حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کرتے ہو اور کیوں جانتے بوجھتے حق پر پردہ ڈالتے ہو۔]

۳۔ کُلَّمَا جَآءَ ھُمْ رَسُوْلٌم بِمَالَا تَھْوٰٓی اَنْفُسُھُمْ لا فَرِیْقًا کَذَّبُوْا وَفَرِیْقًا یَّقْتُلُوْنَ۔(المائدہ۵ ۷۰)

[جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول ایسا پیغام لے کر آیا جو اُن کے نفس کی خواہشوں کے مطابق نہ تھا‘ تو کسی کو انھوں نے جھٹلایا اور کسی کو قتل کر دیا۔]

اور پھر ان سے صاف کہہ دیتا ہے:

۴۔ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآاُنْزِلَ اِلَیْکبمْ مِّنْ رَّبِّکُمْط (المائدہ۵۶۸)

[تم ہر گز راہ راست پر نہیں ہو‘ تاوقتیکہ تورات اور انجیل کوقائم نہ کرو اور اس کتاب کو نہ مانو جو تمھارے رب کے پاس سے تمھاری طرف اتاری گئی، (یعنی قرآن)]

تیسرے گروہ کے متعلق قرآن کہتا ہے:

۱۔ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآءَنَاط اَوَ لَوْکَانَ اٰبَآؤُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْءًا وَّلَا یَھْتَدُوْنَ۔ (البقرہ۲ ۱۷۰)

[اور جب ان سے کہا گیا کہ اس ہدایت پر چلو جو اللہ نے اتاری ہے تو انھوں نے کہا کہ نہیں ہم تو اسی طریقے پر چلیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا وہ اپنے باپ دادا ہی کی پیروی کریں گے چاہے وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں اور راہ راست پر نہ ہوں۔]

۲۔ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآءَ نَا ط اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ شَیْءًا وَّلَا یَھْتَدُوْنَ۔ (المائدہ۵ ۱۰۴)

[اور جب ان سے کہا گیا کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے اتاری ہے‘ اور آؤ رسول کی طرف تو انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے کافی ہے جس پرہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا وہ طریقہ اس صورت میں بھی اُن کے لیے کافی ہے جب کہ ان کے باپ دادا کچھ نہ جانتے ہوں اور راہ راست پر نہ ہوں۔]

۳۔ وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِط اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلاَّ الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلاَّ یَخْرُصُوْنَ۔ (الانعام۶۱۱۶)

[اور اگرتو نے بہت سے ان لوگوں کی پیروی کی جو زمین میں ہیں تو وہ تجھے اللہ کے رستے سے بھٹکا دیں گے۔ وہ تو محض گمان پرچلتے ہیں اور ان کا طریقہ بالکل اٹکل اور اندازے پر ہے۔]

جو لوگ خود اپنی عقل و فہم سے کام نہیں لیتے‘ خود کھوٹے اور کھرے کو نہیں پرکھتے‘ آنکھیں بند کرکے دوسروں کی تقلید کرتے ہیں۔ ان کو قرآن اندھا‘ گونگا‘ بہرہ بے عقل قرار دیتا ہے۔

صُمٌّم بُکُمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ۔ (البقرہ۲۱۷۱)

اور انھیں جانوروں سے تشبیہ دیتا ہے بلکہ ان سے بھی بدتر‘ کیونکہ جانور تو عقل رکھتا ہی نہیں اور وہ عقل رکھتے ہیں مگر اس سے کام نہیں لیتے:

اُولٰٓءِکَ کَالاَ نْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ۔ (الاعراف۷ ۱۷۹)

ان تینوں گروہوں کو جن کے طریقے افراط و تفریط پر مبنی ہیں‘ رد کر دینے کے بعد قرآن ایسے لوگوں کا ایک گروہ بنانا چاہتا ہے جو اعتدال اور توسط کی راہ پر ہوں‘ اُمَّۃً وَسَطًا ہوں‘ قَوَّامِْیْنَ بِالْقِسْطِ ہوں۔

یہ اعتدال اور توسط کی راہ کیا ہے؟ یہ کہ پہلے تم ان سب پردوں کو چاک کر دو جو قدیم روایات اور جدید تعلیمات نے تمھاری آنکھوں کے سامنے ڈال رکھے ہیں‘ عقل سلیم کی صاف روشنی میں آنکھیں کھولو اور دیکھو کہ کیا چیز حق ہے اور کیا چیز باطل؟ دہریت صحیح ہے یا خدا پرستی؟ توحید صحیح ہے یا شرک؟ انسان راہ راست پر چلنے کے لیے خدا کی ہدایت کا محتاج ہے یا نہیں ہے؟ انبیاء علیہم السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے تھے یا معاذ اللہ جھوٹے؟ قرآن جس طریقے کو پیش کرتا ہے وہ سیدھا ہے یا ٹیڑھا؟ اگر تمھارا دل گواہی دے کہ خدا کو ماننا انسانی فطرت کا عین مقتضی ہے اور خدا حقیقت میں وہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے‘ اگر تمھارا ضمیر تسلیم کرے کہ انسان سیدھی راہ پانے کے لیے خدا کی بخشی ہوئی روشنی کا یقیناًمحتاج ہے اور یہ روشنی وہی ہے جو نوعِ بشری کے سچے رہبر انبیاء علیہم السلام لے کر آئے ہیں۔اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کو دیکھ کر تم کو یقین آجائے کہ اس اعلیٰ سیرت کا انسان ہرگز دنیا کو دھوکہ نہیں دے سکتا اور انھوں نے جب رسول خداؐ ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو وہ ضرور اپنے دعوے میں سچے ہیں۔ اگر قرآن کا مطالعہ کرکے تمھاری عقل یہ فیصلہ کر دے کہ انسان کے لیے اعتقاد اور عمل کا سیدھا راستہ وہی ہے جو اس کتاب نے پیش کیا ہے اور یہ کتاب یقیناًکتاب الٰہی ہے‘ تو تمام دنیا کی ملامت و مخالفت سے بے خوف ہو کر ہر انسان کے ڈر اور فائدے کے لالچ سے دل کو پاک کر کے اس چیز پر ایمان لے آؤ جس کی صداقت پر تمھارا ضمیر گواہی دے رہا ہے۔

پھر جب تم نے عقل سلیم کی مدد سے حق اور باطل میں تمیز کرلی‘ اور باطل کو چھوڑ کر حق پر ایمان لے آئے‘ تو عقل کے امتحان اور اس کی تنقید کاکام ختم ہوگیا۔ ایمان لانے کے بعد فیصلہ کرنے اور حکم دینے کا اختیار عقل سے خدا اور اس کے رسولؐ اور اس کی کتاب کی طرف منتقل ہوگیا۔ اب تمھارا کام فیصلہ کرنا نہیں بلکہ ہر اس حکم کے آگے سر جھکا دینا ہے جو خدا اور اس کے رسولؐ نے تم کو دیا ہے۔ تم اپنی عقل کو اُن احکام کے سمجھنے‘ اُن کی باریکیوں اور حکمتوں تک پہنچنے‘ اور اُن کو اپنی زندگی کے جزئیات پر منطبق کرنے میں استعمال کرسکتے ہو، مگر کسی حکم خداوندی میں چون و چرا کرنے کا حق تم کو نہیں ہے‘ خواہ کسی حکم کی مصلحت تمھاری سمجھ میں آئے یا نہ آئے‘ خواہ کوئی حکم تمھاری عقل کے معیار پر پورا اترے یا نہ اترے‘ خواہ اللہ کا ارشاد اور رسولؐ کا فرمان دنیا کے رسم و رواج اور طور طریقوں کے مطابق ہو یا منافی۔ تمھارا کام بہرحال اس کے آگے سر جھکا دینا ہے، کیونکہ جب تم نے خدا کو مان لیا‘ رسولؐ کو خدا کا رسولؐ تسلیم کرلیا اور یقین کرلیا کہ خدا کا رسولؐ جو کچھ پیش کرتا ہے خدا کی طرف سے پیش کرتا ہے‘ اپنے دل سے گھڑی ہوئی کوئی بات پیش نہیں کرتا وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی o اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی] النجم ۵۳۳۔۴[ تو اس یقین و اذعان کا عقلی تقاضا یہ ہے کہ تم خود اپنی عقل کے فیصلوں پر کتاب اللّٰہ اور سنت رسولؐ کے فیصلوں کو ترجیح دو، اور جو عقائد یا امر و نہی کے احکام خدا کی طرف سے خدا کے رسولؐ نے بیان کیے ہیں ان کو اپنی عقل‘ اپنے علم‘ اپنے تجربات‘ یا دوسرے اہل دنیا کے افکار و اعمال کے معیار پر جانچنا چھوڑ دو۔ جو شخص کہتا ہے کہ میں مومن ہوں اور پھر چون و چرا بھی کرتا ہے‘ وہ اپنے قول کی آپ تردید کرتا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ ایمان اور چون و چرا میں کھلا ہوا تضاد ہے۔ اس کو معلوم نہیں کہ ڈسپلن صرف ماننے اور اطاعت کرنے سے قائم ہوتا ہے۔ چون و چرا کا دوسرا نام انار کی ہے۔

اسی اعتدال اور تَوَسُّط کے طریقے کا نام اسلام ہے اور جو گروہ اس راستے پر چلتا ہو اُس کا نام مسلم ہے۔

اسلام کے معنی انقیاد‘ اطاعت اور تسلیم کے ہیں، اور مسلم وہ ہے جو حکم دینے والے کے امر اور منع کرنے والے کی نہی کو بلا اعتراض تسلیم کرے۔ پس یہ نام خود ہی اس حقیقت کا پتہ دے رہا ہے کہ ان تینوں گروہوں اور ان کے طریقوں کو چھوڑ کر یہ چوتھا گروہ ایک نئے مسلک کے ساتھ اسی لیے قائم کیا گیا ہے کہ یہ خدا اور رسولؐ کے حکم کو مانے اور اس کے آگے سر جھکا دے۔ اس گروہ کاکام یہ نہیں ہے کہ ہر معاملے میں صرف اپنی عقل کی پیروی کرے‘ نہ یہ ہے کہ احکام الٰہی میں سے جو کچھ اس کی اغراض کے مطابق ہو اس کو مانے اور جو اغراض کے خلاف ہو اس کو رد کر دے‘ نہ یہ کہ کتاب اللّٰہ اور سنت رسولؐ کو چھوڑ کر انسانوں کی اندھی تقلید کرے، خواہ وہ انسان مردہ ہوں یا زندہ۔

اب اس بات میں قرآن مجید کی تصریحات بالکل صاف ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ جب کسی معاملے میں خدا اور رسولؐ کا حکم آجائے تو مومنوں کو ماننے یا نہ ماننے کا اختیار باقی نہیں رہتا

وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنِ وَّلاَ مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ‘ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْط وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ‘ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِیْنًا۔ (الاحزاب۳۳ ۳۶)

[کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب کسی معاملے میں اللہ اور اس کا رسولؐ فیصلہ کر دے تو ان کے لیے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہے۔ جس نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کی وہ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔]

وہ کہتا ہے کہ کتاب اللہ میں سے کچھ کو ماننا اور کچھ کو رد کر دینا‘ دنیا اور آخرت میں رسوا کن ہے:

اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍج فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلآی اَشَدِّ الْعَذَابِط وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۔ (البقرہ ۲۸۵)

کیا تم کتاب کی بعض باتوں کو مانتے ہو اور بعض کو نہیں مانتے؟ تم میں سے جو کوئی ایسا کرتا ہے اس کی سزا بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کی رسوائی ہو اور آخرت میں ایسے لوگ شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں گے۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔

وہ کہتا ہے کہ فیصلہ صرف کتاب الٰہی کے مطابق ہونا چاہیے‘ خواہ وہ لوگوں کی خواہشات کے مطابق ہو یا نہ ہو

فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآءَ ھُمْ عَمَّا جَآءَ کَ مِنَ الْحَقِّ ط (المائدہ۵ ۴۸)

[تُو ان کے درمیان اسی کتاب کے مطابق فیصلہ کر جو اللہ نے اتاری ہے اور جو حق تیرے پاس اللہ کی طرف سے آیا ہے اس کو چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کر۔]

وہ کہتا ہے کہ جو شخص کتاب اللہ کے موافق فیصلہ نہیں کرتا وہ فاسق ہے:

وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآاَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ (المائدہ۵ ۴۷)

[اور ہر فیصلہ جو کتاب الٰہی کے خلاف ہے‘ جاہلیت کا فیصلہ ہے۔]

اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَط وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۔(المائدہ۵۔۵۰)

[تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں اُن کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔]

وہ کہتا ہے:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی، اور اطاعت کرو رسولؐ کی، اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں۔ پھر اگر تمھارے درمیان میں کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اُسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو ،اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔

اے نبیؐ! تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اُس کتاب پر جو تمھاری طرف نازل کی گئی ہے اور اُن کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں، حالانکہ انھیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیطان انھیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے، اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آؤ رسولؐ کی طرف تو اُن منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری طرف آنے سے کتراتے ہیں۔۔۔۔۔۔

(انھیں بتاؤ کہ) ہم نے جو رسولؐ بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اذنِ خداوندی کی بنا پر اُس کی اطاعت کی جائے۔۔۔۔۔۔

نہیں، اے محمدؐ! تمھارے رب کی قسم! یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اُس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں،بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں۔ (النساء۴۵۹۔۶۰۔۶۱،۶۴۔۶۵)

ان تصریحات سے ’اسلام‘ اور ’مسلم ‘کی وجہ تسمیہ معلوم ہوگئی۔ اب ہم سب لوگوں کو جنھوں نے مردم شماری میں اپنے آپ کو مسلم لکھوایا ہے غور کرنا چاہیے کہ ہم پر لفظ مسلم کا اطلاق کس حد تک ہوتا ہے اور جس طریقے پر ہم چل رہے ہیں اس کو اسلام سے تعبیر کرنا کہاں تک درست ہے؟

ترجمان القرآن، رجب ۱۳۵۲ھ، 1933 نومبر)