مسلمان کی طاقت کا اصلی منبع - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

مسلمان کی طاقت کا اصلی مبع
دوسری صدی ہجری کی ابتدا کا واقعہ ہے کہ سجستان در حج ۱؂ کے فرماں رواں نے جس کا خاندانی لقب رتبیل تھا، بنی امیہ کے عمال کو خراج دینا بند کر دیا۔ پیہم چڑھائیاں کی گئیں، مگر وہ مطیع نہ ہوا۔ یزید بن عبدالمالک اموی کے عہد میں جب اس کے پاس طلبِ خراج کے لیے سفارت بھیجی گئی تو اس نے مسلمانوں کے سفرا سے دریافت کیا:

“وہ لوگ کہاں گئے جو پہلے آیا کرتے تھے؟ ان کے پیٹ فاقہ زدوں کی طرح پٹخے ہوئے ہوتے تھے۔ پیشانیوں پر سیاہ گٹے پڑے رہتے تھے اور کھجوروں کی چپلیں پہنا کرتے تھے۔”

کہا گیا کہ وہ لوگ تو گزر گئے۔

رتبیل نے کہا:

“اگرچہ تمھاری صورتیں ان سے زیادہ شان دار ہیں‘ مگر وہ تم سے زیادہ عہد کے پابند تھے، تم سے زیادہ طاقت وَر تھے۔”

مورخ لکھتا ہے کہ یہ کہہ کر رتبیل نے خراج ادا کرنے سے انکار کر دیا اور تقریباً نصف صدی تک اسلامی حکومت سے آزاد رہا۔

یہ اس عہد کا واقعہ ہے جب تابعین و تبع تابعین کثرت سے موجود تھے۔ ائمہ مجتہدین کا زمانہ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کو صرف ایک صدی گزری تھی۔ مسلمان ایک زندہ اور طاقت وَر قوم کی حیثیت سے دنیا پر چھا رہے تھے‘ ایران‘ روم‘ مصر‘ افریقہ‘ اسپین وغیرہ ممالک کے وارث ہو چکے تھے اور ساز و سامان‘ شان و شوکت‘ اور دولت و ثروت کے اعتبار سے اس وقت دنیا کی کوئی قوم ان کی ہم پلہ نہ تھی۔ یہ سب کچھ تھا۔ دلوں میں ایمان بھی تھا، احکام شریعت کی پابندی اب سے بہت زیادہ تھی‘ سمع و طاعت کا نظام قائم تھا،پوری قوم میں ایک زبردست ڈسپلن پایا جاتا تھا، مگر پھر بھی جو لوگ عہد صحابہ کے فاقہ کش، خستہ حال صحرا نشینوں سے زور آزمائی کر چکے تھے، انھوں نے ان سروسامان والوں اور ان بے سروسامانوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق محسوس کیا۔ یہ کس چیز کا فرق تھا؟

فلسفہ تاریخ والے اس کو محض بداوت و حضریت کے فرق پر محمول کریں گے۔ وہ کہیں گے کہ پرانے بادیہ نشین زیادہ جفا کش تھے اور بعد کے لوگوں کو دولت اور تمدن نے عیش پسند بنا دیا تھا، مگر میں کہوں گا کہ یہ فرق دراصل ایمان‘ خلوص نیت‘ اخلاق اور اطاعت خدا اور رسولؐ کا فرق تھا۔ مسلمانوں کی اصلی قوت یہی چیزیں تھیں‘ ان کی قوت نہ کثرت تعداد پر مبنی تھی‘ نہ اسباب و آلات کی افراط پر‘ نہ مال و دولت پر‘ نہ علوم و صناعات کی مہارت پر‘ نہ تمدن و حضارت کے لوازم پر۔وہ صرف ایمان و عمل صالح کے بل پر ابھرے تھے۔ اسی چیز نے ان کو دنیا میں سربلند کیا تھا۔ اسی نے قوموں کے دلوں میں ان کی دھاک اور ساکھ بٹھا دی تھی۔ جب قوت و عزت کا یہ سرمایہ ان کے پاس تھا تو یہ قلت تعداد اور بے سروسامانی کے باوجود طاقت وَر اور معزز تھے، اور جب یہ سرمایہ ان کے پاس کم ہو گیا تو کثرت تعداد اور سروسامان کی فراوانی کے باوجود کمزور اور بے وقعت ہوتے چلے گئے۔

رتبیل نے ایک دشمن کی حیثیت سے جو کچھ کہا وہ دوستوں اور ناصحوں کے ہزار وعظوں سے زیادہ سبق آموز ہے۔ اس نے دراصل یہ حقیقت بیان کی تھی کہ کی قوم کی اصلی طاقت اس کی آراستہ فوجیں‘ اس کے آلات جنگ‘ اس کے خوش رو، خوش پوش سپاہی‘ اور اس کے وسیع ذرائع و وسائل نہیں ہیں‘ بلکہ اس کے پاکیزہ اخلاق‘ اس کی مضبوط سیرت‘ اس کے صحیح معاملات‘ اور اس کے بلند تخیلات ہیں۔ یہ طاقت وہ روحانی طاقت ہے جو مادی وسائل کے بغیر دنیا میں اپنا سکہ چلا دیتی ہے۔ خاک نشینوں کو تخت نشینوں پر غالب کر دیتی ہے۔ صرف زمینوں کا وارث ہی نہیں بلکہ دلوں کا مالک بھی بنا دیتی ہے۔ اس طاقت کے ساتھ کھجور کی چپلیاں پہننے والے‘ سوکھی ہڈیوں والے‘ بے رونق چہروں والے، چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی تلواریں رکھنے والے لوگ دنیا پر وہ رعب‘ وہ سطوت و جبروت‘ وہ قدر و منزلت، وہ اعتبار و اقتدار جما دیتے ہیں جو اس طاقت کے بغیر شان دار لباس پہننے والے‘ برے ڈیل ڈول والے‘ بارونق چہروں والے‘ اونچی بارگاہوں والے‘ بڑی بڑی منجنیقیں اور ہولناک دبابے رکھنے والے نہیں جما سکتے۔ اخلاقی طاقت کی فراوانی مادی وسائل کے فقدان کی تلافی کر دیتی ہے، مگر مادی وسائل کی فراوانی اخلاقی طاقت کے فقدان کی تلافی کبھی نہیں کرسکتی۔ اس طاقت کے بغیر محض مادی وسائل کے ساتھ اگر غلبہ نصیب ہو بھی گیا تو ناقص اور عارضی ہو گا۔ کامل اور پائدار نہ ہوگا۔ دل کبھی مسخر نہ ہوں گے۔ صرف گردنیں جھک جائیں گی، اور وہ بھی اکڑنے کے پہلے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے مستعد رہیں گی۔

کسی عمارت کا استحکام اُس کے رنگ و روغن‘ نقش و نگار‘ زینت و آرائش صحن و چمن اور ظاہری خوش نمائی سے نہیں ہوتا۔ نہ مکینوں کی کثرت‘ نہ ساز و سامان کی افراط اور اسباب و آلات کی فراوانی اس کو مضبوط بناتی ہے۔ اگر اس کی بنیادیں کمزور ہوں‘ دیواریں کھوکھلی ہوں‘ ستونوں کو گھن لگ جائے‘ کڑیاں اور تختے بوسیدہ ہو جائیں تو اس کو گرنے سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی‘ خواہ وہ مکینوں سے خوب معمور ہو‘ اور اس میں کروڑوں روپے کا مال و اسباب بھرا پڑا ہو‘ اور اس کی سجاوٹ نظروں کو لبھاتی اور دلوں کو موہ لیتی ہو۔ تم صرف ظاہر کو دیکھتے ہو۔ تمھاری نظریں مد نظر پر اٹک کر رہ جاتی ہیں۔ مگر حوادث زمانہ کا معاملہ نمائشی مظاہر سے نہیں بلکہ اندرونی حقائق سے پیش آتا ہے۔ وہ عمارت کی بنیادوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ دیواروں کی پختگی کا امتحان لیتے ہیں۔ ستونوں کی استواری کو جانچتے ہیں۔ اگرچہ یہ چیزیں مضبوط اور مستحکم ہوں تو زمانے کے حوادث ایسی عمارت سے ٹکرا کر پلٹ جائیں گے اور وہ ان پر غالب آجائے گی خواہ وہ زینت و آرائش سے یکسر محروم ہو، ورنہ حوادث کی ٹکریں آخر کار اس کو پاش پاش کرکے رہیں گی اور وہ اپنے ساتھ مکینوں اور اسبابِ زینت کو بھی لے بیٹھے گی۔

ٹھیک یہی حال حیات قومی کا بھی ہے۔ ایک قوم کو جو چیز زندہ اور طاقت وَر اور سر بلند بناتی ہے وہ اس کے مکان‘ اس کے لباس‘ اس کی سواریاں‘ اس کے اسباب عیش‘ اس کے فنونِ لطیفہ‘ اس کے کارخانے‘ اس کے کالج نہیں ہیں‘ بلکہ وہ اصول ہیں جن پر اس کی تہذیب قائم ہوتی ہے‘ اور پھر ان اصولوں کا دلوں میں راسخ ہونا اور اعمال پر حکمران بن جانا ہے۔ یہ تین چیزیں یعنی اصول کی صحت‘ ان پر پختہ ایمان اور عملی زندگی پر ان کی کامل فرماں روائی‘ حیاتِ قومی میں وہی حیثیت رکھتی ہیں جو ایک عمارت میں اس کی مستحکم بنیادوں‘ اس کی پختہ دیواروں اور اس کے مضبوط ستونوں کی ہے۔ جس قوم میں یہ تینوں چیزیں بدرجہ اتم موجود ہوں وہ دنیا پر غالب ہو کر رہے گی۔ اس کا کلمہ بلند ہوگا‘ خدا کی زمین میں اس کا سکہ چلے گا‘ دلوں میں اس کی دھاک بیٹھے گی‘ گردنیں اس کے حکم کے آگے جھک جائیں گی اور اس کی عزت ہوگی‘ خواہ وہ جھونپڑیوں میں رہتی ہو‘ پھٹے پرانے کپڑے پہنتی ہو‘ فاقوں سے اس کے پیٹ پٹخے ہوئے ہوں‘ اس کے ہاں ایک بھی کالج نہ ہو‘ اس کی بستیوں میں ایک بھی دھواں اڑانے والی چمنی نظر نہ آئے‘ اور علوم و صناعات میں وہ بالکل صفر ہو۔ تم جن چیزوں کو سامانِ ترقی سمجھ رہے ہو وہ محض عمارت کے نقش و نگار ہیں‘ اس کے قوائم و ارکان نہیں ہیں۔ کھوکھلی دیواروں پر اگر سونے کے پترے بھی چڑھا دو گے تو وہ ان کو گرنے سے نہ بچا سکیں گے۔

یہی بات ہے جس کو قرآن مجید بار بار بیان کرتا ہے۔ وہ اسلام کے اصولوں کے متعلق کہتا ہے کہ وہ اس اٹل اور غیر متغیر فطرت کے مطابق ہیں جس پر خدا نے انسان کو پیداکیا ہے۔ اس لیے جو دین ان اصولوں پر قائم کیا گیا ہے وہ دین قیم ہے۔ یعنی ایسا دین جو معاش و معاد کے جملہ معاملات کو ٹھیک ٹھیک طریقوں پر قائم کر دینے والا ہے

فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاط فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَاط لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِط ذٰلِکَ الدِّیْنَ الْقَیِّمُ ق وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ (الروم۳۰۳۰)

پس (اے نبیؐ اور نبیؐ کے پیروؤ!) یک سو ہو کر اپنا رخ اِس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہوجاؤ اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

پھر وہ کہتا ہے کہ اس دین قیم پر مضبوطی کے ساتھ جم جاؤ‘ اس پر ایمان لاؤ اور اس کے مطابق عمل کرو۔ اس کا نتیجہ خود بخود ظاہر ہوگا کہ دنیا میں تم ہی سربلند ہو گے‘ تم ہی کو زمین کا وارث بنایا جائے گا‘ تم ہی خلعتِ خلافت سے سرفراز ہوگے

۱۔ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ۔ (الانبیاء۲۱۱۰۵)

[زمین کے وارث ہمارے نیک بند ہوں گے۔]

۲۔ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ (آل عمران۳ ۱۳۹)

[تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔]

۳۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ۔ (النور۲۴۵۵)

[اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ اُن کو زمین میں خلیفہ بنائے گا۔]

۴۔ وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ‘ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغٰلِبُوْنَ۔ (المائدہ۵ ۵۶)

[اور جو اللہ اور اُس کے رسولؐ اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بنالے اُسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے۔]

بخلاف اس کے جو لوگ بظاہر دین کے دائرے میں داخل ہیں‘ مگر دین نہ تو ان کے دلوں میں بیٹھا ہے اور نہ ان کی زندگی کا قانون بنا ہے‘ ان کے ظاہر تو بہت شان دار ہیں وَاِذَا رَاَیْتَھُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُھُمْ(۶۳۴) اور ان کی باتیں بہت مزیدار ہیں وَاِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِھِمْ۔(۶۴۴)،مگر حقیقت میں وہ لکڑی کے کندے ہیں جن میں جان نہیںکَاَنَّھُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ(۶۳۴) وہ خدا سے بڑھ کر انسانوں سے ڈرتے ہیں یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ اَوْاَشَدَّ خَشْیَۃً۔(۴۷۷)۔ ان کے اعمال سراب کی طرح ہیں کہ دیکھنے میں پانی نظر آئیں مگر حقیقت میں کچھ نہیں اَعْمَالُھُمْ کَسَرَابٍ بِقِیْعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَاءً حَتّٰی اِذَا جَاءَ ہ‘ لَمْ یَجِدْہُ شَیْءًا(۲۴ ۳۹)۔ ایسے لوگوں کو اجتماعی قوت کبھی نصیب نہیں ہوسکتی‘ کیونکہ ان کے دل آپس میں پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ خلوص نیت کے ساتھ کسی کام میں اشتراک عمل نہیں کرسکتے بَاْسُھُمْ بَیْنَھُمْ شَدِیْدٌ تَحْسَبُھُمْ جَمِیْعًا وَّ قُلُوْ بُھُمْ شَتّٰی۔(۵۹۴)۔ان کو وہ قوت ہرگز ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی جو صرف مومنین صالحین کا حصہ ہے۔ لَایُقَاتِلُوْ نَکُمْ جَمِیْعًا اِلاَّ فِیْ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ اَوْمِنْ وَّرَاءِ جُدُرٍ(۵۹۱۴)۔ ان کو دنیا کی امامت کا منصب کبھی نہیں ملے گا قَالَ لَایَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ(۲۱۲۴)۔ ان کے لیے بجز اس کے اور کوئی انجام نہیں کہ دنیا میں بھی ذلت و خواری اور آخرت میں بھی عذاب و عقاب لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّلَھُمْ فِی الْآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ (۲۱۱۴)

آپ تعجب کریں گے کہ قرآن نے مسلمانوں کی ترقی اور ان کے ایک حکمراں جماعت بننے اور سب پر غالب آجانے کا ذریعہ صرف ایمان و عمل صالح کو قرار دیا، اور کہیں یہ نہیں کہا کہ تم یونی ورسٹیاں بناؤ‘ کالج کھولو‘ کارخانے قائم کرو‘ جہاز بناؤ‘ کمپنیاں قائم کرو‘ بینک کھولو‘ سائنس کے آلات ایجاد کرو‘ اور لباس‘ معاشرت‘ انداز و اطوار میں ترقی یافتہ قوموں کی نقل کرو۔ نیز اس نے تنزل و انحطاط اور دنیا و آخرت کی ذلت اوررسوائی کا واحد سبب بھی نفاق کو ٹھہرایا، نہ کہ ان اسباب کے فقدان کو جنھیں آج کل دنیا اسباب ترقی سمجھتی ہے،لیکن اگر آپ قرآن کی اسپرٹ کو سمجھ لیں تو آپ کا یہ تعجب خود رفع ہو جائے گا۔

سب سے پہلی بات جس کا سمجھنا ضروری ہے یہ ہے کہ ’مسلمان‘ جس شے کا نام ہے اس کا قوام بجز اسلام کے اور کوئی چیز نہیں ہے۔ مسلم ہونے کی حیثیت سے اس کی حقیقت صرف اسلام سے متحقق ہوتی ہے۔ اگر وہ اس پیغام پر ایمان رکھے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اور ان قوانین کا اتباع کرے جن کو آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے سے نازل کیا گیا ہے‘ تو اس کا اسلام متحقق ہو جائے گا خواہ ان چیزوں میں کوئی چیز اس کے ساتھ شامل نہ ہو جو اسلام کے ماسوا ہیں۔ بخلاف اس کے اگر وہ ان تمام زیوروں سے آراستہ ہو جو زینتِ حیاتِ دنیا کے قبیل سے ہیں، مگر ایمان اس کے دل میں نہ ہو اور قوانین اسلامی کے اتباع سے اس کی زندگی خالی ہو تو وہ گریجویٹ ہوسکتا ہے‘ ڈاکٹر ہوسکتا ہے‘ کارخانہ دار ہوسکتا ہے‘ بینکر ہو سکتا ہے‘ جنرل یا امیر البحر ہوسکتا ہے‘ مگر مسلمان نہیں ہوسکتا۔ پس کوئی ترقی کسی مسلمان شخص یا قوم کی ترقی نہ ہوگی جب تک کہ سب چیزوں سے پہلے اس شخص یا قوم میں حقیقت اسلامی متحقق نہ ہو جائے۔ اس کے بغیر وہ ترقی خواہ کسی اورکی ترقی ہو مسلمان کی ترقی نہ ہوگی‘ اور ایسی ترقی ظاہر ہے کہ اسلام کا نصب العین نہیں ہوسکتی۔

پھر ایک بات تو یہ ہے کہ کوئی قوم سرے سے مسلمان نہ ہو‘ اور اس کے افکار و اخلاق اور نظامِ اجتماعی کی اساس اسلام کے سوا کسی اورچیز پر ہو۔ ایسی قوم کے لیے بلاشبہ یہ ممکن ہے کہ یہ ان اخلاقی‘ سیاسی‘ معاشی اور عمرانی اصولوں پر کھڑی ہوسکے جو اسلام سے مختلف ہیں‘ اور اس ترقی کے منتہیٰ کو پہنچ جائے جس کو وہ اپنے نقطہ نظر سے ترقی سمجھتی ہو، لیکن یہ بالکل ایک امر دیگر ہے کہ کسی قوم کے افکار‘ اخلاق‘ تمدن‘ معاشرت‘ معیشت اور سیاست کی بنیاد اسلام پر ہو‘ اور اسلام ہی میں وہ عقیدے اور عمل دونوں کے لحاظ سے ضعیف ہو۔ ایسی قوم مادی ترقی کے وسائل خواہ کتنی ہی کثرت اور فراوانی کے ساتھ مہیا کرلے‘ اس کا ایک مضبوط اور طاقت وَر قوم کی حیثیت سے اٹھنا اور دنیا میں سربلند ہونا قطعاً غیر ممکن ہے کیونکہ اس کی قومیت اور اس کے اخلاق اور تہذیب کی اساس جس چیز پر ہے‘ وہی کمزور ہے اور اساس کی کمزوری ایسی کمزوری ہے جس کی تلافی محض اوپری زینت کے سامان کبھی نہیں کرسکتے۔

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ علوم و فنون اور مادی ترقی کے وسائل کی جائز اہمیت سے انکار ہے۔ مطلب صرف یہ ہے کہ مسلمان قوم کے لیے یہ تمام چیزیں ثانوی درجے پر ہیں۔ اساس کا استحکام ان سب پر مُقدّم ہے۔ وہ جب مستحکم ہو جائے تو مادی ترقی کے وہ تمام وسائل اختیار کیے جاسکتے ہیں اور کیے جانے چاہییں جو اس بنیاد کے ساتھ مناسبت رکھتے ہوں لیکن اگر وہی مضمحل ہو‘ دل میں اسی کی جڑیں کمزور ہوں اور زندگی پر اس کی گرفت ڈھیلی ہو‘ تو انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں سے قوم کے اخلاق کا فاسد ہونا سیرتوں کا بگڑ جانا‘ معاملات کا خراب ہو جانا‘ نظام اجتماعی کا سست ہونا اور قوتوں کا پراگندہ ہو جانا ناگزیر ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوسکتا ہے کہ قوم کی طاقت کمزور ہو جائے اور بین الملی قوتوں کے ترازو میں اس کا پلڑا روز بروز ہلکا ہوتا چلا جائے یہاں تک کہ دوسری قومیں اس پر غالب آجائیں۔ ایسی حالت میں مادی اسباب کی فراوانی اور سند یافتہ فضلا کی افراط اور خارجی زیب و زینت کی چمک دمک کسی کام نہیں آسکتی۔

ان سب سے بڑھ کر ایک اور بات بھی ہے۔ قرآن حکیم نہایت وثوق کے ساتھ کہتا ہے کہ

تم ہی سربلند ہوگے اگر تم مومن ہو، اور اللہ کی پارٹی والے ہی غالب ہوں گے اور جو لوگ ایمان اور عمل صالح سے آراستہ ہوں گے ان کو زمین کی خلافت ضرور ملے گی‘‘۔(۳۱۳۹۔۵۵۶۔۲۴۵۵)

اس وثوق کی بنیاد کیا ہے؟ کس بنا پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ دوسری قومیں خواہ کیسے ہی مادی وسائل کی مالک ہوں ان پر مسلمان صرف ایمان اورعمل صالح کے اسلحے سے غالب آئیں گے؟

اس عقدے کو خود قرآن حل کرتا ہے:

۱۔ یَٰاَیُّھَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہ‘ط اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہ‘ط وَاِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّبَابُ شَیْءًا لاَّ یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ط ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُo مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖط اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔ (الحج۔۲۲۷۳۔۷۴)

[لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے۔ اس کو غور سے سنو۔ خدا کو چھوڑ کر تم جن چیزوں کو پکارتے ہو، وہ ایک مکھی تک کو پیدا کرنے پر قادر نہیں ہیں اگرچہ وہ سب اس کام کے لیے مل کر زور لگائیں اور اگر ایک مکھی اُن سے کوئی چیز چھین لے تو اس سے وہ چیز چھڑا لینے کی قدرت بھی ان میں نہیں۔ مطلوب بھی ضعیف اور اس کا طالب بھی ضعیف۔ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسی کرنی چاہیے تھی حالانکہ درحقیقت اللہ ہی قدرت اورعزت والا ہے۔]

۲۔ مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِج اِتَّخَذَتْ بَیْتًاط وَاِنَّ اَوْھَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوْتِ۔ (العنکبوت۲۹۴۱)

[جن لوگوں نے خدا کے سوا دوسروں کو کار ساز ٹھہرایا‘ ان کی مثال ایسی ہے جیسے مکڑی کہ وہ گھر بناتی ہے حالانکہ سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا گھرہے۔]

مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مادی طاقتوں پر اعتماد کرتے ہیں‘ ان کا اعتماد دراصل ایسی چیزوں پر ہے جو بذاتِ خود کسی قسم کی بھی قوت نہیں رکھتیں۔ ایسے بے زوروں پر اعتماد کرنے کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی ویسے ہی بے زور ہو جاتے ہیں جیسے ان کے سہارے بے زور ہیں۔ وہ اپنے نزدیک جو مستحکم قلعے بناتے ہیں وہ مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہیں۔ ان میں کبھی یہ طاقت ہو ہی نہیں سکتی کہ ان لوگوں کے مقابلے میں سر اٹھا سکیں جو حقیقی قدر و عزت رکھنے والے خدا پر اعتماد کرکے اٹھیں

فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوْثْقٰیق لَاانْفِصَامَ لَھَا۔ (البقرہ۲ ۲۵۶)

[جوطاغوت کو چھوڑ کر اللہ پر ایمان لے آیا اس نے مضبوط رسی تھام لی جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں ہے۔]

قرآن دعوے کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ جب کبھی اہل ایمان اور اہل کفر کا مقابلہ ہوگا تو غلبہ اہلِ ایمان کو حاصل ہوگا:

۱۔ وَلَوْ قٰتَلَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَایَجِدُوْنَ وَلِیَّا وَّ لَا نَصِیْرًا o سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً۔(الفتح۴۸ ۲۲۔۲۳)

[اور اگر وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ہے تم سے جنگ کریں گے تو ضرور پیٹھ پھیر جائیں گے اور کوئی یارومددگار نہ پائیں گے۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے اور تم کبھی اللہ کی سنت میں تغیر نہ پاؤ گے۔]

۲۔ سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَآ اَشْرَکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا۔ (آل عمران۳۱۵۱)

[ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے کیونکہ انھوں نے خدائی میں اُن چیزوں کو شریک کرلیا ہے جن کو خدا نے کوئی تمکن نہیں بخشا ہے۔]

اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص خدا کی طرف سے لڑتا ہے اس کے ساتھ خدائی طاقت ہوتی ہے اور جس کے ساتھ خدائی طاقت ہو اُس کے مقابلے میں کسی کا زور چل ہی نہیں سکتا۔

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لَا مَوْلٰی لَھُمْ۔ (محمد۴۷۱۱)

وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ج (الانفال۸۱۷)

[یہ اس لیے کہ ایمان داروں کا مددگار تو اللہ ہے اور کافروں کا مددگار کوئی نہیں۔ جب تو نے تیر پھینکا تو وہ تو نے نہیں پھینکا بلکہ خدا نے پھینکا۔]

یہ تو مومن صالح کی سطوت کا حال ہے۔ دوسری طرف یہ بھی خدا کا قانون ہے کہ جو شخص ایمان دار ہوتا ہے‘ جس کی سیرت پاکیزہ ہوتی ہے، جس کے اعمال نفسانیت کی آلودگیوں سے پاک ہوتے ہیں‘ جو ہوائے نفس اور اغراضِ نفسانی کے بجائے خدا کے مقرر کیے ہوئے قانون کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتا ہے‘ اس کی محبت دلوں میں بیٹھ جاتی ہے‘ دل آپ ہی آپ اس کی طرف کھنچنے لگتے ہیں‘ نگاہیں اس کی طرف احترام سے اٹھتی ہیں، معاملات میں اس پر اعتماد کیا جاتا ہے‘ دوست تو دوست دشمن تک اُس کو صادق سمجھتے ہیں اور اس کے عدل‘ اُس کی عفت اور اس کی وفا شعاری پر بھروسہ کرتے ہیں

۱۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۔(مریم۱۹ ۹۶)

[جو لوگ ایمان لے آئے اور جنھوں نے نیک عمل کیے‘ اللہ ان کی محبت دلوں میں ڈال دے گا۔]

۲۔ یُثَبِتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ۔ (ابراہیم۱۴۲۷)

[ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کے ساتھ جما دیتا ہے‘ دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی۔]

۳۔ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہ‘ حَیٰوۃً طَیِّبَۃًج وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ (النحل۱۶ ۹۷)

[جو کوئی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور اس کے ساتھ وہ مومن بھی ہو تو ہم ضرور اس کو بہترین زندگی بسر کرائیں گے اور ان بہترین اعمال کا اجر دیں گے جو وہ کرتے رہے۔]

مگر یہ سب کس چیز کے نتائج ہیں؟ محض زبان سے لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کہنے کے نہیں‘ مسلمانوں کے سے نام رکھ لینے اور معاشرت کے چند مخصوص اطوار اختیار کرنے اور چند گنی چنی رسمیات ادا کرلینے کے نہیں۔ قرآن حکیم ان نتائج کے ظہور کے لیے ایمان اور عمل صالح کی شرط لگاتا ہے۔ اس کا منشا یہ ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کی حقیقت تمھارے قلب و روح میں اس قدر جاگزیں ہوجائے کہ تمھارے تخیلات و افکاراور اخلاق و معاملات سب پر اسی کا غلبہ ہو‘ تمھاری ساری زندگی اسی کلمہ طیبہ کے معنوی قالب میں ڈھل جائے‘ تمھارے ذہن میں کوئی ایسا خیال راہ نہ پاسکے جو اس کلمے کے معنی سے مختلف ہو اور تم سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جو اس کلمے کے مقتضی کے خلاف ہو۔ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہْ کو زبان سے ادا کرنے کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ تمھاری زندگی میں اس کے ساتھ ایک انقلاب برپا ہو جائے۔ تمھاری رگ رگ میں تقویٰ کی روح سرایت کر جائے۔ اللہ کے سوا تمھاری گردن کسی طاقت کے آگے نہ جھکے۔ اللہ کے سوا تمھارا ہاتھ کسی کے آگے نہ پھیلے۔ اللہ کے سوا کسی کا خوف تمھارے دل میں نہ رہے۔ تمھاری محبت اور تمھارا بغض اللہ کے سوا کسی اور کے لیے نہ ہو۔ اللہ کے قانون کے سوا تمھاری زندگی پرکسی اور کا قانون نافذ نہ ہو۔ تم اپنے نفس اور اس کی ساری خواہشوں اور اس کے تمام مرغوبات و محبوبات کو اللہ کی خوشنودی پر قربان کر دینے کے لیے ہر وقت تیار رہو۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کے مقابلے میں تمھارے پاس سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ]ہم نے سنا اور اطاعت کی[ کے سوا کوئی اور قول و فعل نہ ہو۔ جب ایسا ہوگا تو تمھاری قوت صرف تمھارے اپنے نفس اور جسم کی قوت نہ ہو گی، بلکہ اُس اَحکَمُ الْحَاکَمِیْن کی قوت ہوگی جس کے آگے زمین و آسمان کی ہر چیز طوعاً و کرہاً سربسجود ہے اور تمھاری ذات اس نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ کے جلووں سے منور ہو جائے گی جو تمام عالم کا حقیقی محبوب و معشوق ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے عہد میں یہی چیز مسلمانوں کو حاصل تھی۔ پھر اس کا نتیجہ جو کچھ ہوا‘ تاریخ کے اوراق اس پر شاہد ہیں۔ اس زمانے میں جس نے لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہکہا اس کی کایا پلٹ گئی۔ مس خام سے یکایک وہ کندن بن گیا۔ اس کی ذات میں ایسی کشش پیدا ہوئی کہ دل اس کی طرف کھینچنے لگے۔ اس پر جس کی نظر پڑتی وہ محسوس کرتا کہ گویا تقویٰ اور پاکیزگی اور صداقت کو مجسم دیکھ رہا ہے۔ وہ ان پڑھ‘ مفلس‘ فاقہ کش‘ پشمینہ پوش اور بوریا نشین ہوتا‘ مگر پھر بھی اس کی ہیبت دلوں میں ایسی بیٹھتی کہ بڑے بڑے شان و شوکت والے فرماں رواؤں کو نصیب نہ تھی۔ ایک مسلمان کا وجود گویا ایک چراغ تھا کہ جدھر وہ جاتا اس کی روشنی اطراف و اکناف میں پھیل جاتی اور اس چراغ سے سیکڑوں ہزاروں چراغ روشن ہو جاتے۔ پھر جو اس روشنی کو قبول نہ کرتا اور اس سے ٹکرانے کی جرأت کرتا تو اس کو جلانے اور فنا کر دینے کی قوت بھی اس میں موجود تھی۔

ایسی ہی قوت ایمانی اور طاقت و سیرت رکھنے والے مسلمان تھے کہ جب وہ ساڑھے تین سو سے زیادہ نہ تھے تو انھوں نے تمام عرب کو مقابلے کا چیلنج دے دیا، اور جب وہ چند لاکھ کی تعداد کو پہنچے تو ساری دنیا کو مسخر کرلینے کے عزم سے اٹھ کھڑے ہوئے اور جو قوت ان کے مقابلے پر آئی پاش پاش ہوگئی۔

جیسا کہ کہا جاچکا ہے مسلمانوں کی اصلی طاقت یہی ایمان اور سیرت صالحہ کی طاقت ہے جو صرف ایک لا الہ الا اللہ کی حقیقت دل میں بیٹھ جانے سے حاصل ہوتی ہے، لیکن اگر یہ حقیقت دل میں جاگزیں نہ ہو‘ محض زبان پر یہ الفاظ جاری ہوں مگر ذہنیت اور عملی زندگی میں کوئی انقلاب برپا نہ ہو‘ لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد بھی انسان وہی کا وہی رہے جو اس سے پہلے تھا اور اس میں اور لاالہ الا اللہ کا انکار کرنے والوں میں اخلاقی و عملی حیثیت سے کوئی فرق نہ ہو‘ وہ بھی انھی کی طرح غیراللہ کے آگے گردن جھکائے اور ہاتھ پھیلائے‘ انھی کی طرح غیر اللہ سے ڈرے اور غیر خدا کی رضا چاہے اور غیر خدا کی محبت میں گرفتار ہو‘ انھی کی طرح ہوائے نفس کا بندہ ہو اور قانون الٰہی کو چھوڑ کر انسانی قوانین‘ یا اپنے نفس کی خواہشات کا اتباع کرے‘ اس کے خیالات اور ارادوں اور نیتوں میں بھی وہی گندگی ہو جو ایک غیر مومن کے خیالات‘ ارادات اور نیات میں ہوسکتی ہے اور اس کے اقوال و افعال و معاملات بھی ویسے ہی ہوں جیسے ایک غیر مومن کے ہوتے ہیں تو پھر مسلمان کو نا مسلمان پر فوقیت کس بنا پر ہو؟ اورروح ایمان اور روح تقویٰ نہ ہونے کی صورت میں ایک مسلمان ویسا ہی ایک بشر تو ہے جیسا ایک نامسلمان ہے۔ اس کے بعد مسلم اور غیر مسلم کا مقابلہ صرف جسمانی طاقت اور مادی وسائل ہی کے اعتبار سے ہوگا‘ اور اس مقابلے میں جو طاقت وَر ہوگا وہ کمزور پر غالب آجائے گا۔

ان دونوں حالتوں کا فرق تاریخ کے صفحات میں اتنا نمایاں ہے کہ ایک نظر میں دیکھا جاسکتا ہے، یا تو مٹھی بھر مسلمانوں نے بڑی بڑی حکومتوں کے تختے الٹ دیے تھے اور اٹک کے کنارے سے لے کر اٹلانٹک کے سواحل تک اسلام پھیلا دیا تھا، یا اَب کروڑوں مسلمان دنیا میں موجود ہیں اور غیر مسلم طاقتوں سے دبے ہوئے ہیں۔ جن آبادیوں میں کروڑوں مسلمان بستے ہیں اور ان کو بستے ہوئے صدیاں گزر چکی ہیں وہاں اب بھی کفر و شرک موجود ہے۔

(ترجمان القرآن، شوال ۱۳۵۳ھ۔ جنوری ۱۹۳۴ء)