ہمارے نظام تعلیم کا بنیادی نقص - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


مسلم یونی ورسٹی کورٹ نے اپنے گزشتہ سالانہ اجلاس (منعقدہ اپریل ۱۹۳۶ء) میں ایک ایسے اہم مسئلے کی طرف توجہ کی ہے جو ایک عرصے سے توجہ کا محتاج تھا‘ یعنی دینیات اورعلوم اسلامیہ کے ناقص طرز تعلیم کی اصلاح اور یونی ورسٹی کے طلبا میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کی ضرورت۔


جہاں تک جدید علوم و فنون اور ادبیات کی تعلیم کا تعلق ہے حکومت کی قائم کی ہوئی یونی ورسٹیوں میں اس کا بہتر سے بہتر انتظام موجود ہے۔ کم از کم اتنا ہی بہتر جتنا خود علی گڑھ میں ہے۔ محض اس غرض کے لیے مسلمانوں کواپنی ایک الگ یونی ورسٹی قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ ایک مستقل قومی یونی ورسٹی قائم کرنے کا تخیل جس بنا پر مسلمانوں میں پیدا ہوا اور جس بنا پر اس تخیل کو مقبولیت حاصل ہوئی وہ صرف یہ ہے کہ مسلمان جدید علوم سے استفادہ کرنے کے ساتھ ’مسلمان‘ بھی رہنا چاہتے ہیں۔ یہ غرض سرکاری کالجوں اوریونی ورسٹیوں سے پوری نہیں ہوتی۔ اسی کے لیے مسلمانوں کو اپنی ایک اسلامی یونی ورسٹی کی ضرورت ہے۔ اگر ان کی اپنی یونی ورسٹی بھی یہ غرض پوری نہ کرے، اگر وہاں سے بھی ویسے ہی گریجویٹ نکلیں جیسے سرکاری یونی ورسٹیوں سے نکلتے ہیں‘ اگر وہاں بھی محض دیسی صاحب لوگ یا ہندی وطن پرست یا اشتراکی ملاحدہ ہی پیدا ہوں‘ تو لاکھوں روپیہ کے صَرف سے ایک یونی ورسٹی قائم کرنے اور چلانے کی کون سی خاص ضرورت ہے۔

یہ ایسا سوال تھا جس پر ابتدا ہی میں کافی توجہ کرنے کی ضرورت تھی۔ جب یونی ورسٹی قائم کی جارہی تھی اس وقت سب سے پہلے اسی بات پر غور کرنا چاہیے تھا کہ ہم کو ایک علیحدہ یونی ورسٹی کی کیا ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کی کیا سبیل ہے، مگر کسی نقاد نے آج کل کے مسلمانوں کی تعریف میں شاید سچ ہی کہا ہے کہ یہ کام پہلے کرتے اورسوچتے بعدمیں ہیں۔ جن لوگوں کو یونی ورسٹی بنانے کی دھن تھی انھیں بس یونی ورسٹی ہی بنانے کی دھن تھی‘ اس کا کوئی نقشہ ان کے ذہن میں نہ تھا۔ یہ سوال سرے سے پیش نظرہی نہ تھا کہ ایک مسلم یونی ورسٹی کیسی ہونی چاہیے اورکن خصوصیات کی بنا پر کسی یونی ورسٹی کومسلم یونی ورسٹی کہا جا سکتا ہے۔ اس عمل بلا فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ بس ویسی ہی ایک یونی ورسٹی علی گڑھ میں بھی قائم ہوگئی جیسی ایک آگرہ میں اور دوسری لکھنؤ میں اور تیسری ڈھاکہ میں ہے۔ لفظ ’مسلم‘ کی رعایت سے کچھ دینیات کا حصہ بھی نصاب میں شریک کر دیا گیا تاکہ جب کوئی دریافت کرے کہ اس یونی ورسٹی کے نام میں لفظ ’مسلم‘ کیوں رکھا گیا ہے تو اس کے سامنے قُدُوْرِیْ اور مُنْیَۃُ الْمُصَلِّیْ اور ھِدَایَۃ بطور سند اسلامیت پیش کر دی جائیں، مگر درحقیقت یونی ورسٹی کی تاسیس و تشکیل میں کوئی ایسی خصوصیت پیدا نہیں ہوئی جس کی بنا پر وہ دوسری سرکاری یونی ورسٹیوں سے ممتاز ہو کر حقیقی معنوں میں ایک اسلامی یونی ورسٹی ہوتی۔

ممکن ہے کہ ابتدا میں تعمیر کے شوق اور جوش نے صحیح اور مناسب نقشے پر غور کرنے کی مہلت نہ دی ہو، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یونی ورسٹی قائم ہوئے پندرہ سال ہوگئے اور اس دوران میں ہمارے تعلیمی ناخداؤں نے ایک مرتبہ بھی یہ محسوس نہیں کیا کہ اس کی اصل منزل مقصود کیا تھی اور ان کا رہرو پشت بمنزل جاکدھر رہا ہے۔ ابتدا سے حالات صاف بتا رہے ہیں کہ یہ درس گاہ نہ اس ڈھنگ پر چل رہی ہے جس پر ایک اسلامی درس گاہ کو چلنا چاہیے اور نہ وہ نتائج پیدا کر رہی ہے جو دراصل مطلوب تھے۔ اس کے طلبا اور ایک سرکاری یونی ورسٹی کے طلبا میں کوئی فرق نہیں۔ اسلامی کریکٹر‘ اسلامی اسپرٹ‘ اسلامی طرز عمل مفقود ہے۔ اسلامی تفکر اور اسلامی ذہنیت ناپید ہے۔ ایسے طلبا کی تعداد شاید ایک فی صدی بھی نہیں جو اس یونی ورسٹی سے ایک مسلمان کی سی نظر اور مسلمان کا سا نصب العین لے کر نکلے ہوں اورجن میں یونی ورسٹی کی تعلیم و تربیت نے یہ قابلیت پیدا کی ہو کہ اپنے علم اور اپنے قوائے عقلیہ سے کام لے کر ملت اسلامیہ میں زندگی کی کوئی نئی روح پھونک دیتے‘ یا کم از کم اپنی قوم کی کوئی قابل ذکر علمی و عملی خدمت ہی انجام دیتے۔ نتائج کی نوعیت اگر محض سلبی ہی رہتی تب بھی بسا غنیمت ہوتا، مگر افسوس یہ ہے کہ یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل اورزیر تعلیم طلبا میں ایک بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی پائی جاتی ہے جن کا وجود اسلام اور اسلامی تہذیب اور مسلمان قوم کے لیے نفع نہیں بلکہ الٹا نقصان ہے۔ یہ لوگ روحِ اسلامی سے ناآشنا ہی نہیں بلکہ قطعاً منحرف ہو چکے ہیں۔ ان میں مذہب کی طرف سے صرف سرد مہری نہیں بلکہ نفرت سی پیدا ہوگئی ہے۔ ان کے ذہن کا سانچہ ایسا بنا دیا گیا ہے کہ وہ تشکیک کی حد سے گزر کر انکار کے مقام پر پہنچ گئے ہیں‘ اور ان بنیادی اصولوں کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں جن پر اسلام کی عمارت قائم ہے۔

حال میں خود مسلم یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل نوجوانوں میں سے ایک صاحب نے جو محض اپنی سلامت طبع کی وجہ سے ’مرتد‘ ہوتے ہوتے رہ گئے‘ اپنے ایک پرائیویٹ خط میں وہاں کے حالات کی طرف چند ضمنی اشارات کیے ہیں۔ یہ خط اشاعت کے لیے نہیں لکھا گیا ہے اور نہ لکھنے والے کا مقصد خصوصیت کے ساتھ علی گڑھ کی کیفیت بیان کرنا ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ یونی ورسٹی کی باطنی کیفیت کا نہایت صحیح مرقع ہے۔ صاحبِ خط نے اپنے ذہنی ارتقا کی رواداد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے

علی گڑھ میں مجھے اسلامی دنیا کے خارجی فتنے یعنی تفرنج کی آخری ارتقائی منزل یعنی کمیونزم سے دو چار ہونا پڑا۔ میں پہلے مغربیت کو کوئی خطرناک چیز نہ سمجھتا تھا، لیکن علی گڑھ کے تجربات نے مجھے حقیقت سے روشناس کرا دیا۔ اسلامی ہند کے اس مرکز میں ایک خاصی تعدادایسے افراد کی موجود ہے جو اسلام سے مرتد ہو کر کمیونزم کے پر جوش مبلغ بن گئے ہیں۔ اس جماعت میں اساتذہ میں سے کافی لوگ شامل ہیں، اور یہ اساتذہ تمام ذہین اور ذکی نووارد طلبا کو اپنے جال میں پھانستے ہیں۔ ان لوگوں نے کمیونزم کو اس لیے اختیار نہیں کیا کہ وہ غریبوں اور کسانوں اور مزدوروں کی حمایت اور امداد کرنا چاہتے ہیں‘ کیونکہ ان کی عملی مسرفانہ زندگیاں ان کی بناوٹی باتوں پر پانی پھیر دیتی ہیں، بلکہ انھوں نے اسے اس لیے اختیار کیا ہے کہ وہ ایک عالمگیر تحریک کے سائے میں اپنی اخلاقی کمزوریوں اور اپنے ملحدانہ رجحانات طبع اور اپنی Loose thinkingکو Justifyکرسکیں۔ کمیونزم نے پہلے مجھے بھی دھوکا دیا۔ میں نے خیال کیا کہ یہ اسلام کا ایک Un-authorised edition ہے لیکن بغور مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اسلام کے اور اس کے بنیادی نصب العین میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ مسلم یونی ورسٹی کی تعلیم و تربیت صرف ناقص ہی نہیں‘ بلکہ ان مقاصد کے بالکل برعکس نتائج پیدا کر رہی ہے جن کے لیے سرسید احمد خاں اور محسن الملک اور وقار المک وغیرھم نے ایک مسلم یونی ورسٹی کی ضرورت ظاہر کی تھی اور جن کے لیے مسلمانوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر جوش و خروش کے ساتھ اس درس گاہ کی تعمیر کا خیر مقدم کیا تھا۔

آپ اس انجینئر کے متعلق کیا رائے قائم کریں گے جس کی بنائی ہوئی موٹر آگے چلنے کے بجائے پیچھے دوڑتی ہو؟ اور وہ انجینئر آپ کی نگاہ میں کیا ماہر فن ہوگا جو اپنی بنائی ہوٹی موٹر کو مسلسل اور پیہم الٹی حرکت کرتے دیکھتا ہے اور پھر بھی محسوس نہ کرے کہ اس کے نقشے میں کوئی خرابی ہے؟ غالبًا ان صفات کا کوئی مکینیکل انجینئر تو آپ کو نہ مل سکے گا‘ لیکن آپ کی قوم کے تعلیمی انجینئر جس درجے کے ماہر فن ہیں اس کا اندازہ آپ اس امر واقعہ سے کرلیجیے کہ وہ ایک ایسی تعلیمی مشین بنانے بیٹھے تھے جس کو اسلامی نصب العین کی جانب حرکت دینا مقصود تھا‘ مگر جو مشین انھوں نے بنائی وہ بالکل جانب مخالف میں حرکت کرنے لگی‘ اور مسلسل پندرہ سال تک حرکت کرتی رہی‘ اور ایک دن بھی ان کو محسوس نہ ہوا کہ ان کے نقشۂ تعمیر میں کیا غلط ہے‘ بلکہ کوئی غلط ہے بھی یا نہیں؟

بعد از خرابی بسیار اَب یونی ورسٹی کورٹ کو یادآیا ہے کہ:

مسلم یونی ورسٹی کے مقاصدِ اولیہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے طلبا میں اسلامی روح پیدا کرے۔

اور اس غرض کے لیے اس نے سات اشخاص کی ایک کمیٹی مقرر کی ہے جس کے سپرد یہ خدمت کی گئی ہے کہ

تمام صورت حال کا جائزہ لے اور دینیات اور علوم اسلامیہ کی تعلیم کے لیے ایسے جدید اور ترقی یافتہ ذرائع اختیار کرنے کی سفارش کرے جو ضروریاتِ زمانہ سے مناسبت رکھتے ہوں اور جن سے اسلامی تعلیمات کو زیادہ اطمینان بخش طریق پر پیش کیا جاسکے۔

بڑی خوشی کی بات ہے۔ نہایت مبارک بات ہے۔ صبح کا بھولا اگر شام کو واپس آجائے تو اسے بھولا ہوا نہیں کہتے۔ اگر اب بھی ہمارے تعلیمی انجینئروں نے یہ محسوس کرلیا ہو کہ ان کی تعلیمی مشین غلط نقشے پر بنی ہے اور اپنے مقصد ایجاد کے خلاف اس کے چلنے کی اصلی وجہ محض بخت و اتفاق نہیں بلکہ نقشۂ تأسیس و تشکیل کی خرابی ہے تو ہم خوشی کے ساتھ یہ کہنے کے لیے تیار ہیں کہ مضی‘ مضی۔۱؂ آؤ اب اپنے پچھلے نقشے کی غلطیوں کو سمجھ لو اور ایک صحیح نقشے پر اس مشین کو مرتب کرو، لیکن ہمیں شبہ ہے کہ اب بھی اپنی غلطی کا کوئی صحیح احساس ان حضرات میں پیدا نہیں ہوا ہے۔ ابھی تک وہ اس امر کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ان کے نقشے میں کوئی بنیادی خرابی ہے۔ محض نتائج کی خوفناک ظاہری صورت ہی سے وہ متاثر ہوئے ہیں اور بالکل سطحی نگاہ سے حالات کو دیکھ رہے ہیں۔

خدا کرے ہمارا یہ شبہہ غلط ہو، مگر پچھلے تجربات ہم کو ایسا شبہہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

پچھلی صدی کے وسط میں جب دو صدیوں کا پیہم انحطاط ایک خوفناک سیاسی انقلاب پر منتہی ہوا تھا‘ اس وقت مسلمانوں کے ڈوبتے ہوئے بیڑے کو سنبھالنے کے لیے پردہ غیب سے چند ناخدا پیدا ہوگئے تھے۔ وہ وقت زیادہ غور و خوض کا نہ تھا۔ یہ سوچنے کی مہلت ہی کہاں تھی کہ اس شکستہ جہاز کے بجائے ایک نیا اور پائدار جہاز کس نقشے پر بنایا جائے۔ اس وقت تو صرف یہ سوال درپیش تھا کہ یہ قوم جو ڈوب رہی ہے اس کو ہلاکت سے کیونکر بچایا جائے۔ ناخداؤں میں سے ایک گروہ نے فوراً اپنے اسی پرانے جہاز کی مرمت شروع کر دی‘ انھی پرانے تختوں کو جوڑا‘ ان کے رخنوں کو بھرا اور پھٹے ہوئے بادبانوں کو رفو کرکے جیسے تیسے بن پڑا ہوا بھرنے کے قابل بنا لیا۔

دوسرے گروہ نے لپک کر ایک نیا دخانی جہاز کرائے پر لے لیا اور ڈوبنے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کو اس پر سوار کرا دیا۔ اس طریقے سے دونوں گروہ اس اچانک مصیبت کو ٹالنے میں کامیاب ہوگئے، مگر یہ دونوں تدبیریں صرف اس حیثیت سے کامیاب تھی کہ انھوں نے فوری ضرورت کے لحاظ سے چارہ سازی کر دی اور ڈوبتوں کو ہلاکت سے بچا لیا۔ ان میں حکمت اور دانش مندی جو کچھ بھی تھی صرف اسی حد تک تھی۔ اب جو لوگ اس وقت کے ٹل جانے کے بعد بھی انھی دونوں تدبیروں کو ٹھیک ٹھیک انھی دونوں شکلوں پر باقی رکھنا چاہتے ہیں ان کا طرز عمل حکمت و دانش کے خلاف ہے۔ نہ تو پرانا بادبانی جہاز اس قابل ہے کہ مسلمان صرف اسی پر بیٹھ کر ان قوموں سے مسابقت کرسکیں جن کے پاس اس سے ہزار گنی زیادہ تیز رفتار سے چلنے والے کلدار جہاز ہیں۔ نہ کرائے پر لیا ہوا دخانی جہاز اس لائق ہے کہ مسلمان اس کے ذریعے سے اپنی منزل مقصود کو پہنچ سکیں‘ کیونکہ اس کا ساز و سامان تو ضرور نیا ہے اور اس کی رفتار بھی تیز ہے‘ اور وہ کلدار بھی ہے‘ مگر وہ دوسروں کا جہاز ہے‘ اس کا ڈیزائن انھی کے مقاصد اور انھی کی ضروریات کے لیے موزوں ہے‘ اور اس کے رہنما اور ناخدا بھی وہی ہیں‘ لہٰذا اس جہاز سے بھی کبھی یہ امید نہیں کرسکتے کہ ہمیں اپنی منزل مقصود کی طرف لے جائے گا‘ بلکہ اس کی تیز رفتاری سے الٹا خطرہ یہ ہے کہ وہ ہمیں زیادہ سرعت کے ساتھ مخالف سمت پر لے جائے گا اور روز بروز ہمیں اپنی منزل مقصود سے دور کرتا چلاجائے گا۔ فوری ضرورت کے وقت تو وہ لوگ بھی حق بجانب تھے جنھوں نے پرانے جہاز کی مرمت کی‘ اور وہ بھی غلطی پر نہ تھے جنھوں نے کرائے کے جہاز پر سوار ہو کر جان بچائی، مگر اب وہ بھی غلطی پر ہیں جو پرانے جہاز پر ڈٹے بیٹھے ہیں اور وہ بھی غلطی پر ہیں جو اسی کرائے کے جہاز پر جمے ہوئے ہیں۔

اصلی رہنما اور حقیقی مصلح کی تعریف یہ ہے کہ وہ اجتہادِ فکر سے کام لیتا ہے اور وقت اور موقع کے لحاظ سے جو مناسب ترین تدبیر ہوتی ہے اسے اختیار کرتا ہے، اس کے بعد جو لوگ اس کا اتباع کرتے ہیں وہ اندھے مقلد ہوتے ہیں۔ جس طریقے کو اس نے وقت کے لحاظ سے اختیار کیا تھا اسی طریقے پر یہ اس وقت کے گذر جانے کے بعد بھی آنکھیں بند کرکے چلے جاتے ہیں اور اتنا نہیں سوچتے کہ ماضی میں جو اَنْسَب۲؂ تھا حال میں وہی غیر اَنْسَب ہے۔ پچھلی صدی کے رہنماؤں کے بعد ان کے متبعین آج بھی اسی روش پر اصرار کر رہے ہیں جس پر ان کے رہنما انھیں چھوڑ گئے تھے‘ حالانکہ وہ وقت جس کے لیے انھوں نے وہ روش اختیار کی تھی‘ گزر چکا ہے۔ اب اجتہاد فکر سے کام لے کر نیا طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

بدقسمتی سے ہم کو دونوں گروہوں میں ایک بھی مجتہد نظر نہیں آتا۔ انتہائی جرأت کرکے پرانے جہاز والوں میں سے کوئی اگر اجتہاد کرتا ہے تو بس اتنا کہ اپنے اسی پرانے جہاز میں چند بجلی کے بلب لگا لیتا ہے‘ کچھ نئے طرز کا فرنیچر مہیا کرلیتا ہے۔ اور ایک چھوٹی سی دخانی کل۳؂ خرید لاتا ہے جس کاکام اس کے سوا کچھ نہیں کہ دور سے سیٹی بجا بجا کر لوگوں کو یہ دھوکا دیتی ہے کہ یہ پرانا جہاز اب نیا ہوگیا ہے۔ اس کے مقابلے میں نئے جہاز والے اگرچہ دوسروں کے جہاز پر بیٹھے ہیں اور تیزی کے ساتھ سمت مخالف پر بہے چلے جارہے ہیں‘ مگر دو چار پرانے بادبان بھی لے کر بیسویں صدی کے اس اپ ٹو ڈیٹ جہاز میں لگائے ہوئے ہیں تاکہ اپنے نفس کو اور مسلمانوں کو یہ دھوکہ دے سکیں کہ یہ جہاز بھی اسلامی جہاز ہے اور لندن کے راستے سے حج کعبہ کو چلا جارہا ہے۔ اندھی تقلید اور اس کے ساتھ اجتہاد کی یہ جھوٹی نمائش تابکے؟

ایک طوفان گزر گیا۔اب دوسرا طوفان بہت قریب ہے۔ ہندستان میں ایک دوسرے سیاسی انقلاب کی بِنا پڑ رہی ہے۔ ممالک عالم میں ایک اور بڑے انقلاب کے سامان ہو رہے ہیں جو بہت ممکن ہے کہ ہندستان میں متوقع انقلاب کے بجائے، ایک بالکل غیر متوقع اور ہزار درجہ خطرناک انقلاب برپا کر دیں۔ یہ آنے والے انقلابات ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کی بہ نسبت اپنی نوعیت اور اپنی شدت کے لحاظ سے بالکل مختلف ہوں گے۔ اس وقت مسلمانوں کی اعتقادی و ایمانی و اخلاقی و عملی حالت جیسی کچھ ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہم نہیں سمجھتے کہ وہ ان آنے والے طوفانوں کی ایک ٹکر بھی خیریت کے ساتھ سہ سکیں گے۔ ان کا پرانا جہاز دور جدید کے کسی ہولناک طوفان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ شاید ایک ہی تھپیڑے میں اس کے تختے بکھر جائیں اور اس کے بادبانوں کا تار تار الگ ہو جائے۔ رہا ان کا کرائے کا جہاز تو وہ پرانے جہاز سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جو لوگ اس پر سوار ہیں ہمیں خوف ہے کہ طوفانی دور کا پہلا ہی تھپیڑا ان کو ملت اسلامیہ سے جدا کرکے شاید ہمیشہ کے لیے ضلالت کے قعرِ عمیق میں لے جائے گا لَاقَدَّرَ اللّٰہ۔۴؂

پس اب یہی وقت ہے کہ مسلمان پرانے جہاز سے بھی نکلیں اور کرائے کے جہاز سے بھی اتریں‘ اور خود اپنا ایک جہاز بنائیں جس کے آلات اور کل پرزے جدید ترین ہوں‘ مشین موجودہ دور کے تیز سے تیز جہاز کے برابر ہو‘ مگر نقشہ ٹھیٹھ اسلامی جہاز کا ہو، اور اس کے انجینئر اور کپتان اور دیدبان سب وہ ہوں جو منزل کعبہ کی راہ و رسم سے باخبر ہوں۔

استعارے کی زبان چھوڑ کر اب ہم کچھ صاف صاف کہیں گے۔ سرسید احمد خاں (خدا اُن کو معاف کرے) کی قیادت میں علی گڑھ سے جو تعلیمی تحریک اٹھی تھی اس کا وقتی مقصد یہ تھا کہ مسلمان اس نئے دور کی ضروریات کے لحاظ سے اپنی دنیا درست کرنے کے قابل ہو جائیں‘ تعلیم جدید سے بہرہ مند ہو کر اپنی معاشی اور سیاسی حیثیت کو تباہی سے بچالیں‘ اور ملک کے جدید نظم و نسق سے استفادہ کرنے میں دوسری قوموں سے پیچھے نہ رہ جائیں۔ اس وقت اس سے زیادہ کچھ کرنے کا شاید موقع نہ تھا۔ اگرچہ اس تحریک میں فوائد کے ساتھ نقصانات اور خطرات بھی تھے‘ مگر اُس وقت اتنی مہلت نہ تھی کہ غور و تفکر کے بعد کوئی ایسی محکم تعلیمی پالیسی متعین کی جاتی جو نقصانات سے پاک اور فوائد سے لبریز ہوتی۔ نہ اس وقت ایسے اسباب موجود تھے کہ اس نوع کی تعلیمی پالیسی کے مطابق عمل درآمد کیا جاسکتا۔ لہٰذا وقتی ضرورت کو پیش نظر رکھ کر مسلمانوں کو اسی طرز تعلیم کی طرف دھکیل دیا گیا جو ملک میں رائج ہو چکا تھا، اور خطرات سے بچنے کے لیے کچھ تھوڑا سا عنصر اسلامی تعلیم و تربیت کا بھی رکھ دیا گیا جس کو جدید تعلیم اورجدید تربیت کے ساتھ قطعاً کوئی مناسبت نہ تھی۔

یہ صرف ایک وقتی تدبیر تھی جو ایک آفت ناگہانی کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری طریق پر اختیار کرلی گئی تھی۔ اب وہ وقت گزر چکا ہے جس میں فوری تدبیر کی ضرورت تھی۔ وہ فائدہ بھی حاصل ہو چکا ہے جو اس تدبیر سے حاصل کرنا مقصود تھا‘ اور وہ خطرات بھی واقعہ کی صورت میں نمایاں ہو چکے ہیں جو اس وقت صرف موہوم تھے۔ اس تحریک نے ایک حد تک ہماری دنیا تو ضرور بنا دی‘ مگر جتنی دنیا بنائی اس سے زیادہ ہمارے دین کو بگاڑ دیا۔ اس نے ہم میں ’کالے فرنگی‘ پیدا کیے اس نے ہم میں’اینگلو محمڈن‘ اور’ اینگلو انڈین‘ پیدا کیے اور وہ بھی ایسے جن کی نفسیات میں’محمڈن‘ اور ’انڈین‘ کا تناسب بس برائے نام ہی ہے۔ اس نے ہماری قوم کے طبقہ علیا اور طبقہ متوسط کو جو دراصل قوم کے اعضائے رئیسہ ہیں‘ باطنی و ظاہری دونوں حیثیتوں سے یورپ کی مادی تہذیب کے ہاتھ فروخت کر دیا‘ صرف اتنے معاوضے پر کہ چند عہدے‘ چند خطابات‘ چند کرسیاں ایسے لوگوں کو مل جائیں جن کے نام مسلمانوں سے ملتے جلتے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دائماً ہماری یہی تعلیمی پالیسی رہنی چاہیے؟ اگر یہی ہماری دائمی پالیسی ہے تو اس کے لیے علی گڑھ کی کوئی ضرورت اب باقی نہیں رہی۔ ہندستان کے ہر بڑے مقام پر ایک علی گڑھ موجود ہے جہاں سے دھڑا دھڑ اینگلومحمڈن اور اینگلوانڈین نکل رہے ہیں۔ پھر یہ بِس بھری فصل کاٹنے کے لیے ہم کو اپنا ایک مستقل مزرعہ رکھنے کی حاجت ہی کیا ہے؟ اگر درحقیقت اس حالت کو بدلنا مقصود ہے تو ذرا ایک حکیم کی نظر سے دیکھیے کہ خرابی کے اصل اسباب کیا ہیں اور ان کو دور کرنے کی صحیح صورت کیا ہے۔

جدید تعلیم و تہذیب کے مزاج اور اس کی طبیعت پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ وہ اسلام کے مزاج اور اس کی طبیعت کے بالکل منافی ہے۔ اگر ہم اس کو بجنسہ لے کر اپنی نوخیز نسلوں میں پھیلائیں گے تو اُن کو ہمیشہ کے لیے ہاتھ سے کھو دیں گے۔ آپ اُن کو وہ فلسفہ پڑھاتے ہیں جو کائنات کے مسئلے کو خدا کے بغیر حل کرنا چاہتا ہے۔ آپ ان کو وہ سائنس پڑھاتے ہیں جو معقولات سے منحرف اور محسوسات کا غلام ہے۔ آپ ان کو تاریخ‘ سیاسیات‘ معاشیات‘ قانون اور تمام علوم عمرانیہ کی وہ تعلیم دیتے ہیں جو اپنے اصولوں سے لے کر فروع تک اور نظریات سے لے کر عملیات تک اسلام کے نظریات اور اصول عمران سے یکسر مختلف بلکہ متصادم ہے۔ آپ ان کی تربیت تمام تر ایسی تہذیب کے زیر اثر کرتے ہیں جو اپنی روح اور اپنے مقاصد اور اپنے مناہج کے اعتبار سے کلیتہً اسلامی تہذیب کی ضد واقع ہوئی ہے۔ اس کے بعد کس بنا پر آپ یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کی نظر اسلامی نظر ہوگی؟ ان کی سیرت اسلامی سیرت ہوگی؟ ان کی زندگی اسلامی زندگی ہوگی؟ قدیم طرز پر قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم اس نئی تعلیم کے ساتھ بے جوڑ ہے۔اس قسم کے عمل تعلیم سے کوئی خوش گوار پھل حاصل نہ ہوگا۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے فرنگی اسٹیمر میں پرانے بادبان محض نمائش کے لیے لگا دیے جائیں‘ مگر اُن بادبانوں سے فرنگی اسٹیمر قیامت تک اسلامی اسٹیمر نہ بنے گا۔

اگر فی الواقع علی گڑھ یونی ورسٹی کو مسلم یونی ورسٹی بنانا ہے تو سب سے پہلے مغربی علوم و فنون کی تعلیم پر نظرثانی کیجیے۔ ان علوم کو جوں کا توں لینا ہی درست نہیں ہے۔ طالب علموں کی لوحِ سادہ پر ان کا نقش اس طرح مرتسم ہوتا ہے کہ وہ ہر مغربی چیز پر ایمان لاتے چلے جاتے ہیں۔ تنقید کی صلاحیت اُن میں پیدا ہی نہیں ہوتی، اور اگر پیدا ہوتی بھی ہے تو فی ہزار ایک طالب علم میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد سالہا سال کے گہرے مطالعے سے‘ جب کہ وہ زندگی کے آخری مرحلوں میں پہنچ جاتا ہے اور کسی عملی کام کے قابل نہیں رہتا۔ اس طرز تعلیم کو بدلنا چاہیے۔ تمام مغربی علوم کو طلبا کے سامنے تنقید کے ساتھ پیش کیجیے اور یہ تنقید خالص اسلامی نظر سے ہو، تاکہ ہر ہر قدم پر وہ ان کے ناقص اجزا کو چھوڑتے جائیں اور صرف کار آمد حصوں کو لیتے جائیں۔

اس کے ساتھ علوم اسلامیہ کو بھی قدم کتابوں سے جوں کا توں نہ لیجیے بلکہ ان میں سے متأخرین کی آمیزشوں کو الگ کرکے، اسلام کے دائمی اصول اور حقیقی اعتقادات اور غیر متبدل قوانین لیجیے۔ ان کی اصلی اسپرٹ دلوں میں اتار یے اور ان کا صحیح تدبر دماغوں میں پیدا کیجیے۔ اس غرض کے لیے آپ کو بنا بنایا نصاب کہیں نہ ملے گا۔ ہر چیز از سر نو بنانی ہوگی۔ قرآن اور سنت رسولؐ کی تعلیم سب پر مقدم ہے‘ مگر تفسیر و حدیث کے پرانے ذخیروں سے نہیں۔ ان کے پڑھانے والے ایسے ہونے چاہییں جو قرآن اور سنت کے مغز کو پاچکے ہوں۔ اسلامی قانون کی تعلیم بھی ضروری ہے‘ مگر یہاں بھی پرانی کتابیں کام نہ دیں گی۔ آپ کو معاشیات کی تعلیم میں اسلامی نظم معیشت کے اصول‘ قانون کی تعلیم میں اسلامی قانون کے مبادی‘ فلسفے کی کتابوں میں حکمت اسلامیہ کے نظریات‘ تاریخ کی تعلیم میں اسلامی فلسفۂ تاریخ کے حقائق۔ اسی طرح ہر علم و فن کی تعلیم میں اسلامی عنصر کو ایک غالب اور حکمراں عنصر کی حیثیت سے داخل کرنا ہوگا۔

آپ کے تعلیمی سٹاف میں جو ملاحدہ اور متفرنجین بھر گئے ہیں ان کو رخصت کیجیے۔ خوش قسمتی سے ہندستان میں ایک جماعت ایسے لوگوں کی پیدا ہو چکی ہے جو علوم جدیدہ میں بصیرت رکھنے کے ساتھ دل و دماغ اور نظر و فکر کے اعتبار سے پورے مسلمان ہیں۔ ان بکھرے ہوئے جواہر کو جمع کیجیے تاکہ وہ جدید آلات سے اسلامی نقشے پر ایک اسٹیمر بنائیں۔

آپ کہیں گے کہ انگریز ایسی تعمیر کی اجازت نہ دے گا۔ یہ ایک حد تک صحیح ہے مگر آپ اس سے پوچھیے کہ تو پورے مسلمان اور پورے کمیونسٹ میں سے کس کو زیادہ پسند کرتا ہے؟ ان دونوں میں سے ایک کو بہرحال تجھے قبول کرنا ہوگا۔ ۱۹۱۰ء کا ’اینگلومحمڈن‘ مسلمان اب زیادہ مدت تک نہیں پایا جاسکتا۔ اب اگر تو مسلمانوں کی نئی نسلوں کو پوراکمیونسٹ دیکھنا چاہتا ہے تو اپنی قدیم اسلامی دشمنی پر جما رہ۔ نتیجہ خود تیرے سامنے آجائے گا۔ اگر یہ منظور نہیں تو نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ تمام ہندستان میں کمیونزم کی بڑھتی ہوئی وبا کا مقابلہ صحیح النسب سانڈوں اورریڈیو کے دیہاتی پروگرام سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس وبا کو صرف ایک طاقت روک سکتی ہے اور وہ اسلام کی طاقت ہے۔

(ترجمان القرآن، جمادی الاولیٰ ۱۳۵۵ھ۔ اگست ۱۹۳۶ء)