ملت کی تعمیر نو کا صحیح طریقہ - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


اصلاح اور انقلاب دونوں کا مقصد کسی بگڑی ہوئی حالت کا بدلنا ہوتا ہے، لیکن دونوں کے محرکات اورطریق کار میں اساسی فرق ہوا کرتا ہے۔ اصلاح کی ابتدا غور و فکر سے ہوتی ہے، ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچ بچار کرکے انسان حالات کا جائزہ لیتا ہے‘ خرابی کے اسباب پر غور کرتا ہے‘ خرابی کے حدود کی پیمائش کرتا ہے، اس کے ازالے کی تدبیریں دریافت کرتا ہے، اور اُس کو دور کرنے کے لیے صرف اسی حد تک تخریبی قوت استعمال کرتا ہے‘ جس حد تک اس کا استعمال ناگزیر ہو۔ بخلاف اس کے انقلاب کی ابتدا غیظ و غضب اور جوشِ انتقام کی گرمی سے ہوتی ہے۔ خرابی کے جواب میں ایک دوسری خرابی مہیا کی جاتی ہے، جس بے اعتدالی سے بگاڑ پیدا ہوا تھا اس کا مقابلہ ایک دوسری بے اعتدالی سے کیا جاتا ہے، جو برائیوں کے ساتھ اچھائیوں کو بھی غارت کر دیتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بسا اوقات ایک اصلاح پسند کو بھی وہی کرنا پڑتا ہے جو ایک انقلاب پسند کرتا ہے۔ دونوں نشتر لے کر جسم کے ماؤف حصے پر حملہ آور ہوتے ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ اصلاح پسند پہلے اندازہ کرلیتا ہے کہ خرابی کہاں ہے اور کتنی ہے۔ پھر نشتر کو اسی حد تک استعمال کرتا ہے جس حد تک خرابی کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے اور نشتر کے ساتھ ساتھ مرہم بھی تیار رکھتا ہے، لیکن انقلاب پسند اپنے جوشِ غضب میں آنکھیں بند کرکے نشتر چلاتا ہے‘اچھے برے کا امتیاز کیے بغیر کاٹتا چلا جاتا ہے‘ اور مرہم کا خیال اگر اس کے دل میں آتا بھی ہے تو اس وقت جب خوب قطع و برید کر لینے اور جسم کے ایک اچھے خاصے حصے کو غارت کر چکنے کے بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔

عموماً جہاں خرابیاں حد سے بڑھ جاتی ہیں‘ وہاں لوگ صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے کھو بیٹھتے ہیں‘ اور بگڑے ہوئے حالات سے جو تکلیف ان کو پہنچتی ہے وہ انھیں اتنی مہلت ہی نہیں دیتی کہ ٹھنڈے دل سے غور و فکر کرکے اصلاح کی کوشش کریں۔ اسی لیے ایسے حالات میں عام طور پر اصلاحی تحریکات کے بجائے انقلابی تحریکات کا زور ہوتا ہے۔ قدامت پسند اور انقلاب پسند جماعتوں میں سخت کشمکش برپا ہوتی ہے جس سے غضب و انتقام کی آگ کو زیادہ ایندھن مل جاتا ہے۔ دونوں فریق ضد اور ہٹ دھرمی کی انتہائی سرحدوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ دونوں حق و صداقت کا گلا کاٹتے ہیں۔ ایک طرف سے حق کے بجائے باطل کی مدافعت میں انتہائی قوت صَرف کی جاتی ہے۔ دوسری طرف حق اور باطل کا امتیاز کیے بغیر سب پر اندھا دھند حملے کیے جاتے ہیں۔ آخر کار جب انقلاب پسندوں کو فتح نصیب ہوتی ہے تو وہ ہر اس چیز کو تباہ کر دیتے ہیں جو قدامت پسندوں کے پاس تھی‘ خواہ وہ حق ہو یا باطل‘ صحیح ہو یا غلط۔ انقلاب ایک سیلاب کی طرح بڑھتا ہے‘ اور بلا امتیاز اچھے برے سب کو غارت کرتا چلا جاتا ہے۔ پھر کافی تخریب کر چکنے کے بعد جب عقل اپنے ٹھکانے پرواپس آتی ہے تو تعمیرکی ضرورت محسوس ہوتی ہے، مگر انقلابی ذہنیت اس میں بھی نرالے انداز ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتی ہے۔ ہر اُس چیز کو چھوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے جو قدامت پسندوں کے پاس تھی، خواہ کوئی چیز بجائے خود صحیح ہو لیکن انقلاب کی نگاہ میں کسی چیز کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی عیب نہیں کہ وہ قدیم نظام کی طرف منسوب ہو۔ اس طرح ایک کافی مدت تک نئے انقلابی اصولوں پر زندگی کی عمارت قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور جب نئے نئے تجربوں اور ناکامیوں سے انقلابی دماغ تھک جاتا ہے‘ تب کہیں جاکر وہ اس اعتدال کے نقشے پر آتا ہے جو ابتدا ہی سے اصلاح پسند کے پیش نظر تھا

آنچہ دانا کند کند ناداں

لیک بعد از خرابی بسیار۱؂

موجود زمانے میں اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال بولشویک انقلاب ہے۔ نظام تمدن کی جو انتہائی بگڑی ہوئی حالت شہنشاہی روس میں قائم تھی وہ جب اہل ملک کے لیے ناقابل برداشت ہوگئی تو اس کے جواب میں ایک انقلابی تحریک رونما ہوئی۔ یورپ کے اشتراکی اور جمہوری نظریات نے روس میں فروغ پانا شروع کیا ۔ سلطنت اور اس کے پروردہ طبقوں نے اپنے ناجائز فوائد کی حفاظت کے لیے جابرانہ قوتیں استعمال کیں‘ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انقلاب پسندوں میں صرف شاہی مطلق العنانی اور دولت کی نا روا تقسیم ہی کے خلاف نہیں‘ بلکہ اس پورے نظام تمدن کے خلاف جو صدیوں سے متوارث چلا آرہا تھا‘ غضب کے جذبات بھڑکنے لگے۔ آخر کار مارکس کے ہیولیٰ نے لینن کی صورت اختیار کی۔ زار کی سلطنت کا تختہ الٹ دیا گیا‘ اور اس کے ساتھ ان تمام سیاسی‘ معاشی‘ تمدنی‘ اخلاقی‘ مذہبی اصولوں کو بھی یک قلم مٹا دیا گیا جن پر انقلاب سے پہلے کی سوسائٹی قائم تھی۔ اس کامل تخریب کے بعد بالکل نئے اشتراکی اصولوں پر ایک نئی سوسائٹی کی تعمیرشروع کی گئی‘ اور ان نئے معماروں نے اپنی تمام دماغی قوتیں اس کوشش میں صَرف کر دیں کہ بورژوا [Bourgeoisie] طبقے کے ترکے میں سے ایک چیز بھی ان کی نئی عمارت میں شامل نہ ہونے پائے۔ حتیٰ کہ خدا کو بھی سویٹ روس سے باہر نکل جانے کا نوٹس دے دیا گیا، لیکن اب جتنا جتنا زمانہ گزرتا جاتا ہے تعمیری عقل انقلابی جنون کی جگہ لیتی جاتی ہے اوروہ انتہائی بولشویت جوانقلاب کی ابتدا میں کارفرما تھی اعتدال کے نقطے کی طرف واپس ہوتی جارہی ہے۔

ایسی ہی انتہائی پسندی انقلاب فرانس کے زمانے میں بھی رونما ہوئی تھی۔ اس وقت بھی جوشِ انقلاب میں اچھے اور برے سب کو مٹانے کی کوشش کی گئی اور نئے نئے انقلابی اصول وضع کرکے ان کو رواج دیا گیا، لیکن اس شدید انقلابی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج تک فرانس کا سیاسی‘ تمدنی اور اخلاقی مزاج پوری طرح اعتدال پر نہیں آسکا ہے۔ آج اس کی قومی زندگی کو کسی شعبے میں بھی وہ استحکام نصیب نہیں ہے جو انگلستان کو حاصل ہے۔

ایک اور مثال ترکی انقلاب کی ہے جہاں اس انقلابی ذہنیت نے کوشش کی کہ ایک قوم کو جادو کے زور سے آن کی آن میں ایک دوسری قوم بنا دیا جائے۔ اس کوشش میں پھوڑوں اور پھنسیوں پر نشتر چلانے کے ساتھ جسم کے اچھے خاصے تندرست حصوں کو بھی کاٹ پھینکا گیا، اور ان کی جگہ یورپ سے کچھ نئے اعضا منگوا کر لگائے گئے‘ حتیٰ کہ پرانے دماغ کی جگہ بھی ایک نیا دماغ نئی ٹوپی کے ساتھ حاصل کیا گیا، لیکن اب مرورِ ایام کے ساتھ ساتھ انقلاب پسند ترکوں کو آہستہ آہستہ یہ سبق مل رہا ہے کہ ہر پرانی چیز کو برا اور ہر نئی چیز کو اچھا سمجھنے کا جو قاعدہ کلیہ انھوں نے بنا لیا تھا‘ وہ درست نہیں ہے۔ چنانچہ اکثر نئے تجربوں سے کافی نقصان اٹھانے کے بعد ان کو افراط سے اعتدال کی طرف پسپا ہونا پڑا ہے۔

یہ سب کچھ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس وقت ہندستانی مسلمانوں میں بھی ایک انقلابی بحران رونما ہے اور اس بحران کے برے نتائج ظاہر ہونے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ قدامت پسند اور انقلاب پسند دونوں جماعتوں کو غور و فکر کی دعوت دیں۔

یہاں حالات کا بگاڑ وہی ہے جو ترکی اور دوسرے مسلم ممالک میں تھا اور ہے۔ صدیوں سے ہماری مذہبی رہنمائی جس گروہ کے ہاتھوں میں ہے اس نے اسلام کو ایک جامد و غیر متحرک چیز بنا دیا ہے۔ غالبًا چھٹی ساتویں صدی ہجری کے بعد سے اس گروہ کے ہاں جنتری بدلنی موقوف ہوگئی ہے۔ وہ اپنے فلسفے اور کلام کے مباحث میں تو یہی پڑھتے پڑھاتے ہیں کہ عالم متغیر ہے اور ہر متغیر حادث ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں عالم کے تغیر اور زمانے کی نیرنگی اور وقت کے سیلان و تجدد سے انھوں نے آنکھیں بند کرلی ہیں۔ دنیا بدل کر کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ دنیا کے حالات‘ خیالات، رجحانات‘ نظریات بدل کر کچھ سے کچھ ہوگئے۔ تمدن کے معاملات اور مسائل نے کتنے پلٹے کھا لیے، مگر ہمارے پیشوا اپنے آپ کو ابھی تک اسی ماحول میں سمجھ رہے ہیں جو پانچ چھے سو برس پہلے پایا جاتا تھا۔ انھوں نے زمانے کے ساتھ کوئی ترقی نہ کی۔ نئے تغیرات سے بے اثر رہے۔ زندگی کے نئے مسائل سے کوئی غرض نہ رکھی اور کوشش یہی کرتے رہے کہ اپنی قوم کو بھی زمانے کے ساتھ چلنے سے روک دیں، بلکہ مستقبل سے ماضی کی طرف کھینچ کر لے چلیں۔ یہ کوشش تھوڑی مدت تک کامیاب ہوسکتی ہے اور ہوئی، مگر دائماً ایسی کوششوں کا کامیاب ہونا مشکل ہے۔ جو قوم دنیا کے ساتھ میل جول اور معاملات رکھتی ہو وہ کب تک دنیا کے افکار اور زندگی کے نئے مسائل سے غیر متاثر رہ سکتی ہے؟ اگر اس کے رہنما اس کے آگے آگے چل کر نئی عقلی‘ علمی اور عملی راہوں میں اس کی رہبری نہ کریں گے تو یہ بالکل فطری بات ہے کہ وہ ان کی قیادت کا جوا اپنے کندھوں سے اتار پھینکنے پر آمادہ ہو جائے گی۔

اس خرابی کی جڑ دراصل ایک اور چیز ہے۔ ہمارے مذہبی رہنما فروع میں اس درجہ منہمک ہوئے کہ اصول ہاتھ سے چھوٹ گئے۔ پھر فروع نے اصول کی جگہ لے لی اور ان سے ہزار در ہزار فروع اور نکل آئے جو اصل اسلام قرار پا گئے۔ حالانکہ اسلام میں ان کی قطعاً کوئی اہمیت نہ تھی۔ ملت اسلامی کی عمارت دراصل اس ترتیب پر قائم ہوئی تھی کہ پہلے قرآن مجید‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت‘ پھر اہلِ علم و بصیرت کا اجتہاد، لیکن بدقسمتی سے اس ترتیب کو بالکل الٹ دیا گیا‘ اور نئی ترتیب یوں قرار پائی کہ پہلے ایک خاص زمانے کے اہل بصیرت کا اجتہاد‘ پھر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘ اور سب سے آخر میں قرآن۔یہی نئی ترتیب اس جمود کی ذمہ دار ہے جس نے اسلام کو ایک ساکن و غیر متحرک شے بنا دیا ہے۔

ائمہ فقہ‘ متکلمین‘ مفسرین‘ اور محدثین رحمہم اللہ اجمعین کے علم و فضل اور ان کی جلالتِ شان سے کون انکار کرسکتا ہے؟ مگر وہ انسان تھے۔ اکتسابِ علم کے وہی ذرائع رکھتے تھے جو عام انسانوں کو حاصل ہیں۔ ان کے پاس وحی نہیں آتی تھی بلکہ وہ اپنی عقل و بصیرت کے ساتھ کلام اللہ و سنت رسول اللہ میں غور و فکر کرتے تھے اور جو اصول ان کے نزدیک متحقق ہو جاتے تھے انھی سے وہ قوانین اورعقائد کے فروع مستنبط کرلیا کرتے تھے۔ ان کے یہ اجتہادات ہمارے لیے مددگار اور رہنما بن سکتے ہیں مگر بجائے خود اصل اور منبع نہیں بن سکتے۔ انسان خواہ سراسر اپنی رائے سے اجتہاد کرے، یا کسی الہامی کتاب سے اکتساب کرکے اجتہاد کرے‘ دونوں صورتوں میں اس کا اجتہاد دنیا کے لیے دائمی قانون اور اٹل قاعدہ نہیں بن سکتا کیونکہ انسانی تعقل اورعلم ہمیشہ زمانے کی قیود سے مقید ہوتا ہے۔

تمام زمانی و مکانی قیود سے آزاد اگر کوئی ہے تو وہ صرف خداوند عالم ہے جس کے پاس حقیقی علم ہے، اور جس کے علم میں زمانے کے تغیرات سے ذرہ برابر کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا اُس علم کا فیضان قرآن کی آیات اور اس کے لانے والے کے سینے میں ہوا تھا۔ وہی درحقیقت ایسا ماخذ اور سرچشمہ بن سکتا ہے جس سے ہمیشہ ہر زمانے کے لوگ اپنے مخصوص حالات اور اپنی ضروریات کے لحاظ سے علوم‘ افکار اور قوانین اخذ کرسکتے ہیں۔ جب تک علمائے اسلام اس ماخذ و منبع سے اکتساب علم کرتے رہے اور صحیح غور و فکر سے کام لے کر اپنے اجتہاد سے علمی و عملی مسائل حل کرتے رہے‘ اس وقت تک اسلام زمانے کے ساتھ حرکت کرتا رہا، مگر جب قرآن میں غور و فکر کرنا چھوڑ دیا گیا‘ جب احادیث کی تحقیق اور چھان بین بند ہوگئی‘ جب آنکھیں بند کرکے پچھلے مفسرین اور محدثین کی تقلید کی جانے لگی‘ جب پچھلے فقہا اور متکلمین کے اجتہادات کو اٹل اور دائمی قانون بنا لیا گیا‘ جب کتاب و سنت سے براہ راست اکتساب علم ترک کر دیا گیا‘ اور جب کتاب و سنت کے اصول کو چھوڑ کر بزرگوں کے نکالے ہوئے فروع ہی اصل بنا لیے گئے تو اسلام کی ترقی دفعتہ رک گئی‘ اس کا قدم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹنے لگا‘ اس کے حامل اور وارث علم و عمل کے نئے میدانوں میں دنیا کی رہنمائی کرنے کے بجائے پرانے مسائل اور علوم کی شرح و تفسیر میں منہمک ہوگئے‘ جزئیات اور فروع میں جھگڑنے لگے‘ نئے نئے مذاہب نکالنے اور دور از کار مباحث میں فرقہ بندی کرنے لگے‘ اور اس دریا دلی کے ساتھ مسلمانوں میں کفر و فسق تقسیم کیا گیا کہ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا کی جگہ یَخْرُجُوْنَ عَنْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا کا تماشا دنیا نے دیکھا۔ اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْکی جگہ رُحَمَاءُ عَلَی الْکُفَّارِ اَشِدَّاءُ بَیْنَھُمْ کے مناظر ہر طرف نمایاں ہوئے اور تَحْسَبُھُمْ جَمِیْعًا وَ قُلُوْبُھُمْ شَتّٰی کی جو کیفیت منافقین اور کفار کے حق میں بیان ہوئی تھی وہ مسلمانوں کا حال بن گئی۔

یہ اسی حرکت کی رجعت ہے جسے آج ہم ایک خوفناک انقلابی بحران کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ مسلمانوں نے جب دیکھا کہ ان کے مذہبی رہنما ان کی قیادت کا فرض انجام نہیں دیتے‘ بلکہ آگے بڑھانے کے بجائے انھیں الٹا پیچھے کھینچے لیے جاتے ہیں تو وہ ان کے قابو سے نکلنے لگے اور جیسا کہ ایک بن سری فوج کا حال ہوتا ہے انھوں نے ہر وادی میں بھٹکنا شروع کر دیا۔ ایک گروہ نے مذہب کے علم برداروں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا سارا الزام خود مذہب پر تھوپا‘ اپنی ترقی کی راہ میں اسی کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا‘ اور علانیہ کہنا شروع کیا کہ مذہب کو چھوڑو اور ترقی یافتہ قوموں کی تقلید کرو۔ ایک دوسرے گروہ نے علما اور مذہبی پیشواؤں کو گالیاں دینا اپنا شعار بنا لیا‘ گویا اب اسی سب و شتم اور زباں درازی میں مسلمانوں کی فلاح و ترقی کا راز چھپا ہوا ہے۔ ایک اور گروہ اٹھا اور اس نے مذہب کی قطع و برید شروع کر دی۔ کسی نے فقہا اور ائمہ پر زبان طعن دراز کی‘ کسی نے فقہ کے ساتھ حدیث کو بھی لپیٹ لیا‘ کسی نے قرآن کے احکام اور تعلیمات میں بھی ترمیم کی ضرورت سمجھی۔ کسی نے کہا کہ دین اور دنیا کو الگ الگ کر دو‘ دین کا تعلق صرف عقائد اور عبادات سے رہنا چاہیے، باقی رہے دنیوی معاملات تو ان میں مذہب اور اس کے قوانین کا کچھ دخل نہیں۔

اس طرح مختلف جماعتیں ان بگڑے ہوئے حالات کو بدلنے کے لیے کھڑی ہوگئی ہیں، مگر ان کا رجحان اصلاح کی جانب نہیں بلکہ انقلاب کی جانب ہے‘ انھوں نے ٹھنڈے دل سے غور نہیں کیا کہ اصل خرابی کیا ہے؟ کہاں سے پیدا ہوئی؟ کس حد تک خرابی ہے اور اس کی اصلاح کی صحیح صورت کیا ہے؟ محض تخمیناً یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ خرابی ہے اور اس کو دور کرنے کے لیے دیوانہ وار نشتر چلائے جارہے ہیں، چاہے اس سے مرض کے ساتھ مریض کا بھی کیوں نہ خاتمہ ہو جائے۔

آزاد ممالک میں تو کہا جاسکتا ہے‘ اور یہ کہنا ایک حد تک درست بھی ہے کہ کسی انقلابی حرکت کے بغیر چارہ نہیں، اس لیے کہ وہاں ایک گروہ کے ہاتھ میں حکومت کا عملی اقتدار ہوتا ہے اور دوسرا گروہ اس اقتدار کو مٹانے میں ایک شدید انقلابی حرکت کے بغیر مشکل سے کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی قابل لحاظ رہے کہ انقلاب کے رہنماؤں پر جب عملاً انتظام سلطنت کی ذمہ داری آن پڑتی ہے تو زمانے کے تجربات بہت جلدی ان کی عقل درست کر دیتے ہیں اور انھیں مجبوراً افراط کی روش چھوڑ کر اعتدال کی طرف مائل ہونا پڑتا ہے، لیکن ہمیں یہ فراموش نہ کرنا چاہیے کہ ہم اس وقت غلامی کی حالت میں ہیں‘ اور ہمارے حالات آزاد ممالک سے بالکل مختلف ہیں۔ یہاں اول تو کسی انقلابی حرکت کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ کسی ایسی شدید اور طاقت وَر مزاحمت کا خوف نہیں ہے جس کے مقابلے میں ایک معتدل اصلاحی تحریک کامیاب نہ ہوسکتی ہو۔ دوسرے اگر کوئی انقلابی حرکت جاری ہو اور وہ کامیاب ہو جائے تو مدت ہائے دراز تک اس کے اعتدال پر آنے کی امید نہیں کی جاسکتی کیونکہ انقلاب کے علم برداروں پر سرے سے کسی ذمہ داری کا بوجھ ہی نہ ہوگا جو ان کی افراط پسندی کو اعتدال کی طرف مائل کرسکتا ہو۔لہٰذا یہاں کسی انقلابی حرکت بلکہ صحیح الفاظ میں بہت سی انقلابی حرکات کے دیر تک جاری رہنے کا نتیجہ بجز اس کے اور کچھ نہ ہوگا کہ مسلم سوسائٹی جن بنیادوں پر قائم ہے وہ سب کی سب متزلزل ہو جائیں گی اور ان کی جگہ کوئی ایسی مستحکم بنیاد قائم نہ ہوسکے گی جس پر از سر نو ایک نظام اجتماعی تعمیر کیا جاسکے۔ پھر غور کرنا چاہیے کہ جو قوم پہلے ہی غلامی اور کمزوری کی حالت میں ہے اس کے نظام اجتماعی کو اگر اس طرح منہدم کرکے پارہ پارہ کر دیا گیا تو وہ اخلاقی انحطاط کے کن گھڑوں میں جاگرے گی۔

یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات ہم قدامت پسندوں سے زیادہ انقلاب پسندوں کا سختی کے ساتھ مقابلہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، ورنہ جہاں تک بگڑے ہوئے حالات کا تعلق ہے‘ ان کو بدلنے کی ضرورت میں ہم بھی ان سے متفق ہیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ جو جمود اسلام میں پیدا کر دیا گیا ہے اس کو حرکت سے بدل دیا جائے، لیکن ہمارے نزدیک اس حرکت کے پیدا کرنے کی یہ کوئی صحیح تدبیر نہیں ہے کہ اسلامی شعار کو چھوڑ کر فرنگیت اختیار کی جائے‘ نہ اس کی یہ تدبیر ہے کہ علم و تحقیق اور غور و فکر کے بغیر مذہب کی قطع و برید شروع کر دی جائے‘ نہ اس کی یہ تدبیر ہے کہ گزشتہ زمانے کے مجتہدین نے اپنی محنتوں اور کاوشوں سے جو عمارتیں قائم کی تھیں ان کو خواہ مخواہ ڈھا دیا جائے‘ نہ اس کی یہ تدبیر ہے کہ حدیث کے سارے ذخیرے کو آگ میں جھونک دیا جائے‘ نہ اس کی یہ تدبیر ہے کہ کلام الٰہی میں انسان اپنی عقل سے ترمیم و تنسیخ کریں۔ یہ سب تدبیریں تو اصلاح کی نہیں بلکہ پہلے سے بھی زیادہ سخت فساد برپا کرنے کی تدبیریں ہیں۔ صحیح علاج بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ جس ترتیب کو الٹ دیا گیا ہے اسے پھر سے سیدھا کر دیا جائے۔ قرآن کو وہی پیشوائی کا مقام دیجیے جو دراصل اس کا مقام تھا۔ حدیث کو وہی مرتبہ دیجیے جو عہد رسالت میں خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحابؓ و اہل بیت آپؐ کے اقوال و اعمال کو دیتے تھے۔ فقہا‘ متکلمین‘ مفسرین اور محدثین کے کارناموں کو وہی مرتبہ دیجیے جو اُن بزرگوں نے خود دیا تھا۔ ان سے فائدہ اٹھائیے۔ جن چیزوں کے بدلنے کی ضرورت نہیں انھیں بدستور رہنے دیجیے‘ مگر کبھی یہ نہ سمجھیے کہ جو کچھ وہ لکھ گئے ہیں وہ اٹل قانون ہے‘ یا ان کی کتابوں نے ہم کو قرآن مجید میں غور و فکر اور احادیث نبوی کی تحقیق سے بے نیاز کر دیا ہے یا ان کے بعد کتاب و سنت سے براہ راست اکتسابِ علم کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔

یہ ترتیب اگر پھر سے قائم ہو جائے تو اسلام کی رکی ہوئی گاڑی پھر حرکت کرنے لگے گی کیونکہ جمود کی اصلی وجہ تو یہی ہے کہ انجن ریل سے کاٹ کر پیچھے کھڑا کر دیا گیا ہے‘ ڈرائیور کو بھی انجن سے الگ کرکے کہیں پیچھے کے ڈبوں میں بٹھا دیا گیا ہے اور سب سے آگے کے ڈبے پر بھروسہ کر لیا گیا ہے کہ وہ خود بھی چلے گا اور ساری ریل کو بھی چلائے گا، مگر اس کام میں غصے اور جوش کی ضرورت نہیں۔ غصہ تو وہاں ہو جہاں عمدًا کوئی ظلم کیا گیا ہو‘ اور یہاں جو کچھ بھی ہوا ہے عمدًا نہیں ہوا ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ علما نے کہیں کوئی کانفرنس کرکے طے کیا تھا کہ ہم اسلام پر جمود طاری کریں گے اور اس کی بڑھتی ہوئی گاڑی کو روکیں گے۔ یہ تو محض نتیجہ ہے اس انحطاط کا جو چھٹی ساتویں صدی سے مسلمان قوموں کی سیاسی‘ فوجی‘ معاشی‘ اور تمدنی قوتوں کے ساتھ ان کی علمی‘ عقلی‘ اور فکری قوتوں میں مسلسل رونما ہو رہا ہے۔ اس انحطاط نے جس طرح مسلمانوں کی روحِ جہاد کو پژمردہ کیا ہے اسی طرح ان کی روح اجتہاد کو بھی افسردہ کر دیا ہے۔ جس طرح زندگی کے جملے مسائل کے متعلق مسلمانوں کے نظریے بدلے، اسی طرح امور دینی و علمی کے متعلق بھی ان کے نظریے بدل گئے اور رفتہ رفتہ غیر محسوس طور پر ان کی تمام ذہنی قوتوں پر مردنی چھاتی چلی گئی۔ اس کا الزام نہ علما کو دیا جاسکتا ہے نہ ان کے متبعین کو۔ اگر آپ چاہیں تو فطرت پر اس کا الزام رکھ دیجیے، مگر نہ الزام رکھنے سے کچھ حاصل ہوسکتا ہے اور نہ غضب اور اس کے تخریبی جوش سے۔ اصلاح کی صحیح صورت بس یہی ہے کہ ٹھنڈے دل سے خرابیوں کے اسباب اور ان کے حدود کو تلاش کیجیے اور حکمت کے ساتھ ان کو خوبیوں سے بدل دیجیے۔

(ترجمان القرآن، ربیع الاول ۱۳۵۳ھ جولائی ۱۹۳۴ء)