پاؤلا روزاس
بی بی سی اردو
تاریخ اشاعت : 10 دسمبر 2022
ٹیکنو کریٹ تحریک کیا تھی ؟ |
باقیوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کی تمام ضروریات، چاہے صحت، تربیت، رہائش یا خوراک ہو سب کا خیال رکھا جائے گا۔
پیسے کا وجود ویسے بھی نہیں ہو گا۔ اس کی جگہ توانائی کے سرٹیفکیٹ کے نظام لے لیں گے۔ چیزوں کو پیدا کرنے کے لیے استعمال ہونے والی توانائی کے مطابق لاگت اور معاوضہ لیا جائے گا۔
اس کے بدلے میں، جمہوریت کے سیاسی نظام جس میں شہری اپنے نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں، اسے ختم کرنا پڑے گا۔ کوئی سیاستدان یا تاجر نہیں ہو گا بلکہ تمام فیصلے انجینیئرز اور سائنسدان کریں گے۔
ٹیکناٹو‘میں خوش آمدید، جس خیالی دنیا کا خواب امریکہ میں شدید کساد بازاری کے دوران خام خیالی میں مبتلا چند افراد کے ایک گروہ نے دیکھا تھا اور جس کی گونج آج بھی امریکہ کی سلیکون ویلی جیسی جگہوں پر سنائی دیتی ہے۔
یقیناً ٹیکناٹو کی خیالی دنیا کبھی وجود میں نہیں آئی لیکن ٹیکنو کریٹ تحریک، یعنی سائنسدانوں اور دانشوروں کا وہ گروپ جس نے 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں اس ’بے مثال دنیا‘ کا خواب سجایا تھا، کے ارکان کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہو گئی تھی اور انھوں نے اپنی تحریک میں ایسے سوالات اٹھائے جو آج بھی متعلقہ ہیں۔
شاید یہ بات آپ کو سنی ہوئی محسوس ہو لیکن ٹیکنو کریٹس کے خیال میں جدت اور تکنیکی ترقی نے نئے مواقع پیدا کر دیے تھے لیکن اس ترقی اور جدت نے بڑے پیمانے پر بے روزگاری، ماحولیاتی انحطاط، زیادہ آبادی اور عدم مساوات جیسے نئے سماجی مسائل بھی پیدا کیے تھے۔
اس تحریک کے بانی، کرشماتی اور پراسرار شخصیت کے مالک ہاورڈ سکاٹ کے مطابق اس نئی دنیا کو صنعتی انقلاب سے پہلے کے طریقوں کے ساتھ چلانا ایک غلطی تھی۔
ان کے خیال میں جمہوریت نے بہت سے نااہل افراد کو اقتدار تک پہنچا دیا، جنھوں نے غلط فیصلے کیے جو سماجی بربادی کا باعث بنے ہیں۔
ان کا خیال تھا کہ اس کا حل سائنس میں ہے۔ اس نئی تکنیکی دنیا کا انتظام انجینیئرز اور ماہرین نے کرنا تھا، جو روزمرہ کے مسائل پر سائنسی اصولوں کا سختی سے اطلاق کریں گے۔
اس تحریک کے ارکان سرمئی لباس میں ملبوس ہوتے تھے، انھوں نے اپنی کاروں کو بھی اسی رنگ میں پینٹ کیا تھا اور کچھ نے خود کو ایک نمبر کی شناخت جیسا کہ 1x1809x56 بھی دی تھی۔
وہ ایک دوسرے کو فوجی سیلوٹ کرتے تھے۔ اس تحریک کے مداحوں میں سائنس فکشن مصنف ایچ جی ویلز بھی تھے۔
اس تحریک کی ایک باقاعدہ علامت بھی تھی جسے ’موناد‘ کہا جاتا تھا۔ ین اور یانگ کی طرح کا ایک سرخ اور سفید رنگ کا دائرہ، جو پیداوار اور کھپت کے درمیان توازن کی نمائندگی کرتا تھا۔
اس کا اثر امریکی سرحدوں سے آگے کینیڈا تک پھیل گیا، جہاں جوشوا ہالڈرمین نامی ایک چیروپریکٹر (ایسا شخص جو یقین رکھتا ہے کہ بہت سی بیماریاں عصبی بہاؤ میں مداخلت کی وجہ سے ہوتی ہیں) نے 1936 سے 1941 تک اس تحریک کی قیادت کی۔
اگرچہ وہ مایوس ہو کر بالآخر جنوبی افریقہ چلے گئے تھے مگر ان کا پوتا جو 1971 میں پیدا ہوا تھا آج مریخ پر ایک ٹیکنو کریسی بنانے کا خواب دیکھتا ہے۔
انھوں نے اپنے ایک بچے کا نام ’X Æ A-12‘ رکھا ہے۔ یہ امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ٹیسلا، خلائی کمپنی اسپیس ایکس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک ہیں۔
اس تحریک کے آغاز کا سیاق و سباق
ٹیکنوکریٹک تحریک کی سوچ کو سمجھنے کے لیے پہلے اس تاریخی سیاق و سباق کو سمجھنا چاہیے جس میں اس کا وجود ہوا، جو پوری دنیا میں بنیاد پرست تحریکوں کے لیے ایک حقیقی افزائش گاہ ہے۔
پہلی عالمی جنگ نے معیشت کے ایک وسیع دور کو جنم دیا، جس کا اختتام ایک نقصان اور اچانک گھاٹے کے ساتھ ہوا جسے ’1929 کا کریش‘ کہا جاتا ہے۔ جب دنیا بھر کی مالیاتی منڈیاں گر گئیں، آدھی دنیا کی معیشتیں ڈوب گئیں اور لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے تھے۔
بین الاقوامی ٹیکنو کریسی کے ماہر اور جرمنی کی ٹیکنیکل یونیورسٹی آف ڈرمسٹادٹ کے پروفیسر جینز سٹیفیک بی بی سی منڈو کو بتاتے ہیں کہ ’ایک عام احساس تھا کہ لبرل سرمایہ داری نظام کا خاتمہ ہو گیا ہے اور اب یہ کام نہیں کرے گا۔‘
ان برسوں میں یورپ میں کمیونزم اور فسطائیت نے زور پکڑا اور یہ نظریات امریکہ میں بھی ظاہر ہونے لگے تھے جہاں ان مروجہ تصورات کے لیے ہر طرح کی متبادل تحریکیں وجود میں آئیں جو بحران کا باعث بنی تھیں۔
’انٹرنیشنل آرگنائزیشن ایز ٹیکنوکریٹک یوٹوپیا‘ کے مصنف سٹیفیک کہتے ہیں کہ ٹیکنو کریٹک تحریک کی طرف سے ردعمل بہت جرات مندانہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ٹیکنو کریسی سرمایہ داری اور سیاست پر قابو پا سکتی ہے، اسے ختم کر سکتی ہے۔‘
اور اگرچہ مارکسزم کے نظریے میں اس کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں، سماجی اور معاشی مساوات پر یقین کی وجہ سے، یا مطلق العنانیت، جمہوریت کو ختم کرنے کی خواہش کی وجہ سے، اس تحریک نے خود کو اس وقت کے تمام ’نظریات‘ کے خلاف قرار دیا۔ نہ کمیونزم، نہ سوشلزم، نہ فاشزم، نہ نازیزم، نہ لبرل ازم، نہ قدامت پرستی اور نہ ہی یقیناً سرمایہ داری نظام کے نظریے کے خلاف قراد دیا تھا۔
درحقیقت تحریک کے ارکان کو کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے سے منع کیا گیا تھا۔ ٹیکنو کریسی تحریک کے رہنما، ہاورڈ سکاٹ نے کہا تھا ’سائنس کی حکومت ہو گی۔‘
ہاورڈ سکاٹ
ہاورڈ سکاٹ نے 1919 میں نیو یارک میں سائنسدانوں اور انجینیئرز کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر ’ٹیکنیکل اتحاد‘ کی بنیاد رکھی تھی، جو صرف چند سال تک چلا لیکن جس میں بعد میں ٹیکنوکریٹک موومنٹ کے نام سے جانے جانے والی تحریک کی بنیادیں رکھی جانے لگیں۔
یہ نظریات 1933 میں ٹیکنوکریسی انکارپوریشن میں بدل گئے، جیسا کہ اس تحریک کو تب سے جانا جاتا ہے، جو شمالی امریکہ میں معاشرے، سیاست اور معیشت کی بنیاد پرست اصلاحات کو فروغ دینے کے لیے ایک تعلیمی اور تحقیقی تنظیم کے طور پر قائم کی گئی تھی۔
سکاٹ تحریک کے آغاز سے لے کر 1970 میں اپنی موت تک اس کے رہنما تھے۔
خود سیکھے ہوئے انجینیئر، اگرچہ بعد میں کچھ لوگوں نے اس کی تربیت پر سوال اٹھائے تھے لیکن وہ ایک خاص مقناطیسی کشش والے شخص تھے۔
وہ 1.95 میٹر سے زیادہ دراز قد اور بھاری آواز والے شخص تھے۔
چارمی گلکریس، ’ٹیکنو کریسی انکارپوریشن‘ کے موجودہ سی ای او نے انکشاف کیا کہ ’وہ ان لوگوں کو جو دانشور نہیں تھے اور انتہائی بدتمیزی کرتے تھے، حقیر سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مرد عورتوں سے بہتر ہیں، چلو، یہ ان کے زمانے کی پیداوار ہے۔‘
جو لوگ انھیں جانتے تھے وہ انھیں قائل کرنے والے، ذہین اور تشہیر کی نگاہ رکھنے والے کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
دنیا کو اپنی تحریک کی طاقت دکھانے کے لیے، سکاٹ نے اس بات کی وکالت کی جسے وہ ’ٹوکن‘ کہتے تھے۔ یعنی ان کی تحریک کے بڑے بڑے اجتماعات میں سینکڑوں اراکین شامل ہوتے تھے تاکہ اپنی قوت کو ظاہر کیا جا سکے۔
شاید ان میں سے سب سے زیادہ بدنام نام نہاد ’ آپریشن کولمبیا‘ تھا، جس میں 1947 میں سینکڑوں سرمئی گاڑیوں نے امریکہ کے مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ لاس اینجلس سے وینکوور، کینیڈا تک کا سفر کیا تھا۔
ٹیکنوکریٹک موومنٹ نے کیا تجویز کیا؟
اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے، سکاٹ نے ’قیمتوں کے نظام‘ سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تجویز پیش کی جسے ٹیکنوکریٹس بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کا جوہر قرار دیتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ صنعتی انقلاب تک معاشی نظام ’قلت‘پر مبنی تھا۔ چیزوں کو بنانے اور تیار کرنے میں بہت زیادہ محنت درکار تھی، اور ان کے لیے وسائل کبھی بھی کافی نہیں تھے۔
تاہم، اس کے بعد سے، ٹیکنالوجی نے دنیا میں کثرت اور بہتات کی ایک نئی دنیا تخلیق کی تھی۔ اس دنیا میں مشینیں وہ سب کچھ زیادہ سستے میں بنا سکتی تھیں جو ہر ایک کے لیے ضروری تھا۔
اس کے باوجود، چونکہ معیشت ابھی بھی قیمتوں کے نظام پر مبنی تھی، اس لیے اسے منافع کے لیے قائم کیا گیا تھا، استعمال کے لیے نہیں۔ اس سے بچنے کے لیے، ٹیکنو کریٹک موومنٹ پیسے کو ختم کرنا چاہتی تھی، جو ان کا دعویٰ تھا کہ ’لالچ، جرم اور مصائب کی اصل جڑ ہے۔‘
اس کے بدلے میں ’انرجی سرٹیفکیٹ‘ جاری کیے جائیں گے۔ جن کی لاگت چیزوں کو پیدا کرنے کے لیے درکار توانائی کے مطابق ہو گی نہ کم نہ زیادہ۔
ٹیکنوکریٹ تحریک کے ارکان نے دلیل دی تھی کہ اگر آپ سب کو ایک جیسے انرجی سرٹیفکیٹ دیتے ہیں اور ان کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں، تو پیسہ جمع کرنے کی خواہش ختم ہو جائے گی اور اس کے ساتھ جرم کا بھی خاتمہ ہو گا۔
یہ تحریک کمیونزم، جیسی لگتی ہے؟ ٹیکنو کریسی میں اس قسم کے سیاسی فلسفوں کی بہت کم جھلک نظر آتی ہے۔
اس تحریک نے سماجی طبقات اور تمام ’غیر ضروری‘ پیشوں جنھوں نے برسوں سے انسان کا استحصال کیا، کو ختم کرنے کی وکالت کی۔
ہاورڈ سکاٹ نے خود جوش میں اعتراف کیا تھا کہ ’جہاں تک ٹیکنو کریسی کے نظریات کا تعلق ہے، ہم اس حد تک بائیں طرف ہیں کہ ہم کمیونزم کو بورژوا بنا دیتے ہیں۔‘
کینیڈا کی صحافی ایرا بیسن نے سی بی سی ریڈیو کے لیے تیار کردہ کی ایک دستاویزی فلم میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ ٹیکنو کریسی میں دراصل وہ چاہتے تھے کہ ٹیکنالوجی لوگوں کے لیے کام کرے، بجائے اس کے کہ ہم ٹیکنالوجی کے لیے کام کریں۔ ہمیں جینا سیکھنا تھا روزی کمانا نہیں سیکھنا تھا۔‘
ٹیکناٹو تحریک کے ذریعہ وضع کردہ حکومت کی شکل میں کہا گیا تھا کہ خدمات کا انتظام ماہرین کے ذریعہ کیا جائے گا، جو بدلے میں اپنے ڈائریکٹرز کا انتخاب کریں گے۔ یہ ایک کابینہ تشکیل دیں گے جو ایک براعظمی صدر کا انتخاب کرے گی۔
’نارتھ امریکن ٹیکنیٹ‘ جس پر انھوں نے اپنے نظریات کی بنیاد رکھی تھی وہ وسطی امریکہ سے الاسکا تک پھیلے ہوئے تھے۔
جینز سٹیفیک کہتے ہیں کہ ’تحریک کے خیالات اس مفروضے پر مبنی تھے کہ یہ لوگ خیر خواہ ہوں گے اور ان کے کوئی ذاتی عزائم یا مفادات نہیں ہوں گے کیونکہ ان مفادات اور عزائم کے ساتھ شروعات کرنا ایک مشکل کام ہے۔‘تحریک کا زوال
دنیا کا یہ ڈسٹوپیئن اور مطلق العنان خیال 1930 کی دہائی میں اپنے عروج پر پہنچا۔ 1940 کی دہائی میں جب صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کی جانب سے شروع کی گئی ’نئی ڈیل‘ پالیسی کے ثمرات سامنے آنے لگے اور دوبارہ ملازمتیں پیدا ہونا شروع ہوئیں تو ٹیکنوکریٹک تحریک کا ستارہ ڈگمگانے لگا۔
معیشت میں بھی بہتری ہوئی اور دوبارہ مالیاتی منڈیوں میں پیسے کی ریل پیل ہوئی۔ اب بہت کم لوگ ٹیکنوکریٹ تحریک کا خواب دیکھنے والوں کے ساتھ شامل تھے۔
لیکن، تمام تر مشکلات کے باوجود ’ٹیکنوکریسی انکارپوریشن‘ اب بھی موجود ہے، اگرچہ آج اس تحریک کے ماننے والے بہت ہی کم ہیں جو کبھی پانچ لاکھ سے زیادہ ہوا کرتے تھے۔
’ٹیکناٹو‘ کا خیال ختم ہو چکا ہے لیکن اس کی ویب سائٹ پر آپ اب بھی پڑھ سکتے ہیں کہ ’ہمارے پاس ایک منصوبہ ہے، اور یہ قابل عمل ہے۔‘
سنہ 2015 میں، انھوں نے موجودہ قیمتوں کے نظام سے پائیدار توانائی پر مبنی معیشت کی طرف جانے کے لیے ’ٹرانزیشن پلان‘ تیار کرنے کے لیے تین انٹرنز کی خدمات حاصل کیں۔
ان کی نمائشوں میں، تینوں انمٹرنز نے سرمئی پولو شرٹس پہنی تھیں جن پر ’موناد‘ لوگو تھا۔
اپنے کمپیوٹر کیمرہ کے ذریعے، چارمی گلکریس نے بی بی سی منڈو کو ٹینیسی کے دیہی علاقے جیکسن شہر میں ایسوسی ایشن کے ہیڈ کوارٹر میں فائلوں کے بکسوں کا ڈھیر دکھایا۔
آج ان کا بنیادی کام اس بہت بڑے آرکائیو کو ڈیجیٹلائز کرنا ہے جو اس تحریک نے دہائیوں کے دوران تیار کیا تھا۔
گلکریس بتاتے ہیں، کہ ’یہاں لاکھوں دستاویزات، تصاویر اور اصل آئیڈیاز کے منصوبے ہیں، یہ جاننا بہت دلچسپ ہے کہ وہ انھوں نے ان تصورات کے حل کیسے نکالے تھے۔‘
اس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے مطابق’ کچھ عرصہ پہلے تک وہ وقتاً فوقتاً اپنے اراکین کو ایک نیوز لیٹر بھیجتے رہے ہیں، جو اب صرف امریکہ اور کینیڈا تک محدود نہیں رہے بلکہ روس، برازیل، وینزویلا یا یوکرین میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ٹیکنوکریٹ تحریک یہ بتانے سے گریز کرتی ہے کہ اس کے کتنے شراکت دار ہیں یا وہ کون ہیں لیکن جیسا کہ گلکریس خود تسلیم کرتی ہیں کہ ’ ان میں بہت زیادہ ارکان نہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ان میں انجینیئرز اور سائنسی جھکاؤ رکھنے والے لوگ بھی ہیں، لیکن ’ہمارے پاس کچھ کریک پاٹس بھی ہیں، ایسے لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ٹیکنو کریسی کو سڑکوں پر آنا ہوگا اور ایک ایسا نظام مسلط کرنے کے لیے ہتھیاروں سے لڑنا ہوگا جو ایک بہتر دنیا بناتا ہے۔ بہرحال، وہ آہ بھرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں کرتے، کیونکہ ہم غیر سیاسی لوگ ہیں۔‘
اس تحریک کی کیا باقیات ہیں؟
چارمی گلکریس کے خیال میں ہم پہلے سے کسی نہ کسی انداز میں ٹیکناٹو کی طرح رہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ تحریک کے بانی نے بہت سے ایسی چیزوں جن کی 1930 کی دہائی میں پیشگوئی کی تھی، وہ سچ ثابت ہوئی ہیں۔
’مثال کے طور پر ایمیزون جیسی کمپنیوں کو دیکھیں، جن کے پاس سنٹرلائزڈ آرڈرنگ سسٹم ہے، جو یہ جانتا ہے کہ آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے اور کب آپ کو اس کی ضرورت ہے۔ جب چیزیں خریدی جاتی ہیں تو زیادہ ہوتی ہیں، اور جب مانگ کم ہوتی ہے تو یہ کم ہو جاتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان سے منافع کمایا جاتا ہے اور سب میں تقسیم کرنے کے بجائے صرف ایک یا دو لوگوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔‘
جیسا کہ 1930 کی دہائی میں، نئی ٹیکنالوجیز نے اس کام کی جگہ لے لی ہے جو پہلے لوگ کرتے تھے۔ کنسلٹنسی ’آکسفورڈ اکنامکس‘ کے مطابق، اب اور 2030 کے درمیان ، مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں میں روبوٹس 20 ملین ملازمتوں کی جگہ لے لیں گے۔
الگورتھم دنیا کے بارے میں ہمارے وژن کو تشکیل دیتے ہیں اور انجینئرز زندگی کے تمام مسائل اور حالات کے لیے تکنیکی حل تلاش کرتے ہیں جیسا کہ بات چیت کرنے، فریج کو بھرنے سے لے کر پارٹنر کی تلاش تک۔
اس کینیڈین ٹیکنوکریٹک لیڈر کے پوتے ایلون مسک کا خیال ہے کہ ’مستقبل میں جسمانی کام ایک آپشن ہو گا۔‘ جس کی وجہ سے عالمی بنیادی آمدنی ضروری ہو گی۔
دیگر سلیکون ویلی ٹائیکونز جیسے اینڈریو یانگ، نے بھی اسی طرح کی تجاویز کا خاکہ پیش کیا ہے۔
ٹیکنو کریٹک موومنٹ نے ایسے سوالات اٹھائے جو آج بھی درست ہیں جیسا کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ملازمت کے نقصانات سے کیسے نمٹا جائے؟ وسائل کا استحصال کیے بغیر ان کا استعمال کیسے کیا جائے؟ عدم مساوات کو کیسے ختم کیا جائے؟