الطاف حسن قریشی
ہم سب ، تاریخ اشاعت : 23 دسمبر 2022ء
موتمر عالم اسلامی کی ابتدا 1926 ء میں اس طرح ہوئی کہ مکہ مکرمہ کے فرمانروا شاہ عبدالعزیز، جنہوں نے آگے چل کر 1931 ء میں مملکت سعودی عرب کی بنیاد رکھی، انہوں نے 1926 ء میں مسلمانوں کو درپیش مسائل پر غور و خوض کے لیے مکہ مکرمہ میں پورے عالم اسلام سے دو درجن کے لگ بھگ مسلم اکابرین کو دعوت دی۔
ہندوستان سے علی برادران، سید سلیمان ندوی اور مفتی کفایت اللہ شامل ہوئے۔ فلسطین سے مفتی اعظم سید امین الحسینی شریک ہوئے۔ ترکی سے بھی اہم شخصیتوں نے حصہ لیا۔ یہ عالی شان اجلاس مسائل کی نشان دہی اور ان کا حل تلاش کرنے کے بعد ختم ہو گیا۔ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ پانچ سال گزرے، تو مفتی اعظم فلسطین نے بیت المقدس کے مقام پر 1931 ء میں مسلم اکابرین کو مدعو کیا اور موتمر عالم اسلامی کی باقاعدہ تنظیم قائم کی، مگر اس نے کوئی قابل ذکر کام سرانجام نہیں دیا۔
قیام پاکستان کے بعد 1949 ء میں وزیراعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خاں کی سرپرستی اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی میزبانی میں اس تنظیم کا تیسرا اجلاس کراچی میں ہوا۔ اس وقت سید ابوالاعلیٰ مودودی جیل میں تھے۔ مولانا ظفر احمد انصاری اور جماعت اسلامی کے کارکنوں نے اس اہم اجلاس کی کامیابی کے لیے دن رات کام کیا۔ اس تنظیم میں آگے چل کر چودھری نذیر احمد خاں بہت فعال کردار ادا کرتے رہے اور انھوں نے مسلمانوں کی دولت مشترکہ قائم کرنے کا تصور پیش کیا۔ اسی طرح موتمر عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل انعام اللہ اتحاد عالم اسلامی کے لیے ملک ملک جاتے اور تنظیمی قوت میں اضافہ کرتے رہے۔ ان کے انتقال کے بعد یہ عالمگیر تنظیم پس منظر میں چلی گئی ہے۔
چار پانچ عشروں سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی جو اسلامی لٹریچر تخلیق کر رہے تھے اور قرآن حکیم کی جو رواں دواں اور پرتاثیر ترجمانی کر رہے تھے، ان سے اسلامی ملکوں کے تعلیم یافتہ نوجوان غیرمعمولی طور پر متاثر ہوئے۔ وہ فکری رہنمائی کے لیے پاکستان کی طرف دیکھنے لگے تھے۔ سیاسی اتار چڑھاؤ کے باوجود پاکستان اور مسلم ملکوں کے مابین اعتماد کے رشتے قائم ہوتے گئے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مولانا کو پاکستان کی طرح تمام اسلامی ملک بے حد عزیز تھے اور وہ ان کی خیرخواہی میں آواز اٹھاتے اور مخلصانہ مشورے دیتے رہتے تھے۔
ترک فوج نے منتخب وزیراعظم میندریس کے خلاف بغاوت کر کے انہیں سولی پر چڑھا دیا، تو مولانا نے اس ظلم کے خلاف پوری قوت سے آواز اٹھائی۔ اسی طرح شہنشاہ ایران نے امام خمینی کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا، تو اس جابرانہ اقدام پر 1963 ء کے ’ترجمان القرآن‘ میں سخت گرفت کی جس پر ایوب خاں کی آمرانہ حکومت نے ماہنامے کی اشاعت پر پابندی لگا دی۔ مولانا بادشاہتوں کے بارے میں بھی پوری جرات کے ساتھ اسلامی نقطۂ نظر بیان کرتے اور انہیں اسلامی اور جمہوری اقدار اپنانے کی تلقین کرتے رہے۔ ان کی تحریروں میں خلوص اور خیرخواہی کا جذبہ غالب تھا۔
کڑی تنقید کے باوجود عرب حکمرانوں میں مولانا مودودی کی عظمت اور علمی فضیلت کا گہرا احساس پیدا ہو گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب سعودی فرمانروا شاہ ابن سعود کے ذہن میں اتحاد عالم اسلامی کے لیے ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا خیال آیا، تو اس نے اس کا خاکہ تیار کرنے کے لیے اہل علم اور اہل تحقیق کو مدعو کیا۔ تاسیسی ارکان میں محمد بن ابراہیم، عبدالعزیز بن باز اور محمد علی الحرکان (سعودی عرب) ، وزیراعظم احمد وبیلو (نائیجیریا) ، ابراہیم ایناس (سینی گال) ، سید ابوالاعلیٰ مودودی (پاکستان) ، سید ابوالحسن علی ندوی (بھارت) ، سید امین الحسینی اور ڈاکٹر سعید رمضان (فلسطین) ، حسنین محمد (مصر) ، عبدالرحمٰن اریانی (یمن) ، محمد مکی کنانی (شام) ، محمد بشیر ابراہیمی (الجزائر) ، محمد صادق مجددی (افغانستان) ، علال فاسی (مراکش) ، محمد فال (موریطانیہ) ، ابراہیم سفاف (سنگاپور) ، محمد محمود الصواف (عراق) ، احمد الوٹو (فلپائن) ، محمد حنیفہ (سری لنکا) عبداللہ قلقیلی اور کامل الشریف (اردن) ، احمد بشیر طیب (سوڈان) ، ڈاکٹر صالح اوزجان (ترکی) ، صالح شان شواؤ (چین) اور بشیر سعدی (لبنان) شامل تھے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی ایک مفصل نقشہ تیار کر کے افتتاحی اجلاس میں شریک ہوئے جس میں ان کا منصوبہ زیرغور آیا اور اس کے بیشتر نکات پر اتفاق رائے پیدا ہوا اور یوں ’رابطہ عالم اسلامی‘ وجود میں آئی۔ اس تنظیم نے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیے۔ پاکستان اور ملائیشیا میں اسلامی یونیورسٹیاں قائم کیں اور امریکہ کے شہر شکاگو میں ’ایسٹ اینڈ ویسٹ‘ کے نام سے ایک عظیم الشان علمی اور تحقیقی ادارہ قائم کیا۔ آج اس یونیورسٹی سے ہزاروں طلبہ اسلامی علوم حاصل کر رہے ہیں۔ ’رابطہ عالم اسلامی‘ کے پلیٹ فارم پر مولانا مودودی نے بڑی صراحت کے ساتھ 1965 ء میں کشمیر کا مسئلہ پیش کیا اور بھارت کے خونخوار چہرے سے پردہ ہٹایا۔
1969 ء میں اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کے ایک حصے کو نقصان پہنچایا، تو پوری اسلامی دنیا سراپا احتجاج بن گئی۔ اس نازک مرحلے میں شاہ مراکش نے مسلم سربراہ کانفرنس کا اہتمام کیا۔ اس وقت جنرل آغا یحییٰ خاں پاکستان کے سربراہ تھے۔ ان کے علاوہ پاکستان سے اس کانفرنس میں شرکت کے لیے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی مدعو کیے گئے، کیونکہ وہ اسلامی تحریکوں کے نہایت ممتاز رہنما اور اسلام کے بلند پایہ مفکر تھے۔ شاہ مراکش نے اس کانفرنس میں بھارت کو بھی اس بنیاد پر مدعو کر لیا تھا کہ وہاں کروڑوں مسلمان آباد ہیں۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی اور میجر جنرل غلام عمر کے مشورے پر جنرل آغا یحییٰ نے یہ موقف اختیار کیا کہ بھارت ایک غیر مسلم ریاست ہے، اس لیے اسے مسلم سربراہ کانفرنس میں مدعو نہیں کیا جا سکتا۔ بات آگے بڑھی، تو انہوں نے کانفرنس سے بائیکاٹ کی دھمکی دے دی۔ اس پر مراکش کی حکومت نے اعلان کیا کہ سربراہ کانفرنس کے لیے بھارت کا دعوت نامہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔ دوسری مسلم سربراہ کانفرنس 1974 ء میں شاہ فیصل کے تعاون سے لاہور میں منعقد ہوئی۔ اس میں بھی سید ابوالاعلیٰ مودودی مدعو کیے گئے۔ وہ شرکت کے لیے آئے اور سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کہ انہیں بتایا گیا کہ اس کانفرنس میں بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا جائے گا۔ وہ الٹے پاؤں لوٹ گئے کیونکہ ان کی قومی اور اسلامی حمیت کو اس کانفرنس میں شرکت گوارا نہیں تھی۔