اھ (۶۲۳ئ) سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات تک حضرت عمرؓ کے واقعات و حالات - شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی ؒ

 درحقیقت سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجزاء ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو لڑائیاں پیش آئیں غیر قوموں سے جو معاہدات عمل میں آئے وقتاً فوقتاً جو انتظامات جاری کیے گئے اشاعت اسلام کے لیے جو تدبیریں اختیار کی گئیں‘ ان میں سے ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جو حضرت عمر ؓ کی شرکت کے بغیر انجام پایا ہو لیکن مشکل یہ ہے کہ تمام واقعات پوری تفصیل کے ساتھ لکھے جائیں تو کتاب کا یہ حصہ سیرۃ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بدل جاتا ہے کیونکہ حضرت عمرؓ کے یہ کارنامے گو کتنے ہی عظیم الشان ہوں لیکن چونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلہ حالات سے وابستہ ہیں اس لیے جب قلم بند کیے جائیں گے تو تمام واقعات کا عنوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی قرار پائے گا اور حضرت عمرؓ کے کارنامے ضمناً ذکر میں آئیں گے۔ اس یے ہم نے مجبوراًیہ طریقہ اختیار کی اہے کہ یہ  واقعات نہایت اختصار سے لکھے جائیں اور جن واقعات میں حضرت عمرؓ کا خاص تعلق ہے ان کو کسی قدر تفصیل سے لکھا جائے۔ اس صورت میں اگرچہ حضرت عمرؓ کے کارنامے نمایان ہو کرنظر  نہ آئیں گے کیونکہ جب تک واقعہ کی پوری تفصیل نہ دکھائی جائے اس کی اصلی شان قائم نہیں ہوتی۔ تاہم اس کے سوا اور کوئی تدبیر نہ تھی اب ہم نہایت اختصار کے ساتھ ان واقعات کو لکھتے ہیں:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب مدینہ منورہ کو ہجرت کی تو قریش کو خیال ہوا کہ مسلمانوں کاجلد استیصال نہ کر دیا جائے گا تو وہ زیادہ زورپکڑ جائیں گے۔ اس خیال سے انہوںنے مدینہ پر حملے ک تیاریاں شروع کیں۔ تاہم ہجرت کے دوسرے سال تک کوئی قابل ذکر معرکہ نہیں ہوا صرف اس قدر ہوا کہ دو تین دفعہ قریش چھوٹے چھوٹے گروہ کے ساتھ مدینے کی طرف بڑھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر پر کر ان کو روکنے کے لیے تھوڑی تھوڑی فوجیں بھیجیں اور وہ وہیں رک گئے۔

غزوہ بدر ۲ھ

ہنہ ۲ ھ (۶۲۴ئ) مین بدر کا واقعہ پیش آیا جو نہایت مشہور معرکہ ہے۔ اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ ابو سفیان جو قریش کا سردار تھا تجارت کا مال لے کر شام سے واپس آ رہا تھا۔ راہ میں یہ (غلط) خبر سن کر کہ مسلمان اس پر حملہ کرنا چاہتے ہیں قریش کے پاس قاصد بھیجا اور ساتھ ہی تمام مکہ امنڈ آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ خبر سن کر تین سو آدمیوں کے ساتھ مدینے سے روانہ ہوئے۔ عام مورخین کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مدینہ سے نکلنا صرف قافلہ لوٹنے کی غرض سے تھا لیکن یہ امر محض غلط ہے۔ قرآن مجید جس سے زیادہ کوئی قطعی شہادت نہیں ہو سکتی اس میں جہاں اس واقعہ کا ذکر ہے یہ الفاظ ہیں:

کما اخرجک ربک من بیتک بالحق وان فریقا من المومنین لگارھون یجادلونک فی الحق بعد ماتبیین کانما یساقون الی الموت وھم ینظرون واذ یعدکم اللہ احدی الطائفتین انھا لکم و تودون ان غیر ذات الشوکتہ تکون لکم (۸؍ انفال : ۵،۶،۷)

’’جیسا کہ تجھ کو تیرے پروردگار نے تیرے گھر سے (مدینہ) سچائی پر نکالا اور بے شک مسلمانو ں کاایک گروہ ناخوش تھا‘ وہ تجھ سے سچی بات پر جھگڑتے تھ بعد میں اس کے کہ سچی بات ظاہر ہو گئی۔ گویا کہ وہ موت کی طر ف ہانکے جاتے ہیں اوروہ اس کو دیکھ رہے ہیں جب کہاللہ دو گروہوں میں سے ایک کا تم سے وعدہ کرتا تھااور تم چاہتے تھے کہ جس گروہ میں کچھ زورنہیں ہے وہ ہاتھ آئے‘‘۔

ان آیتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ:

(۱)جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے نکلنا چاہا تو مسلمانوں کا ایک گروہ ہچکچاتا تھا اور سمجھتا تھا کہ موت کے منہ میں جانا ہے

(۲)  مدینے سے نکلتے وقت کافروں کے دو گروہ تھے ایک غیر ذات الشوکۃ یعنی ابوسفیان کا کاروان تجارت اور دوسرا قریش مکہ کا گروہ جومکہ سے حملہ کرنے کے لیے سروسامان کے ساتھ نکل چکا تھا۔

اس کے علاوہ ابوسفیان کے قافلے میں کل ۴۰ آدمی تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینے سے تین سو بہادروں کے ساتھ نکلے تھے۔ تی سوآدمی ۴۰ آدمیوں کے مقابلے میں کسی طرح موت کے منہ میں جانا خیال نہیں کر سکتے۔ اس لیے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قافلے کو لوٹنے کے لیے نکلتے تو اللہ تعالیٰ ہرگز قرآن مجید میں نہ فرماتا کہ مسلمان ان کے مقابلے کو موت کے منہ میں جانا سمجھتے تھے۔

بہرحال ۸ رمضان ۲ ھ کو آنحرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۳۱۳ آدمیوں کے ساتھ جن میں سے ۸۳ مہاجرین اور باقی انصار تھے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ قریش کے ساتھ ۹۵۰ کی جمعیت تھی جن میں بڑے بڑے مشہور بہادر شریک تھے۔ مقام بدر میں جو مدینہ منورہ سے قریبا ۶ منزل ہے معرکہ ہوا اور کفار کو شکست فا ش ہوئی۔ مسلمانوں میں سے ۱۴ آدمی شہید ہوئے جن میں ۶ مہاجر اور ۸ انصار تھے قریش کی طرف سے ۷۰ مقتو ل اور ۸۰ گرفتار ہوئے۔ مقتولین میں ابوجہل عتبہ بن ربیعہ شیبہ اوربڑے بڑے رئوسا مکہ تھے اور ان کے قتل ہونے سے قریش کا زور ٹوٹ گیا۔

حضرت عمرؓاگرچہ اس معرکہ میں رائے و تدبیر جانبازی و پامردی کے لحاظ سے ہر موقع پر رسول   اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست و بازو رہے لیکن ان کی شرکت کی مخصوص خصوصیات یہ ہیں:

۱۔  قریش کے تمام قبائل اس معرکے میں آئے لیکن بنو عدی یعنی حضرت عمر ؓ کے قبیلے سے ایک متنفس بھی جنگ میں شریک نہیں ہوا۔ ۱؎ اور یہ امر جہاں تک قیاس کیا جا سکتا ہے کہ صرف حضرت عمرؓ کے رعب و داب کا اثر تھا۔

۲۔  حضرت عمرؓ کے ساتھ ان کے قبیلہ اور حلفاء کے ۱۲ آدمی شریک جنگ تھے جن کے نام یہ ہیں: زید‘ عبداللہ بن سراقہ‘ عمرو بن سراقہ‘ واقد بن عبداللہ خولی بن ابی خولی‘ مالک بن ابی خولی‘ عامر بن ربیعہ‘ عامر بن بکیر‘ عاقل بن بکیر‘ خالد بن بکیر اور ایاس بن بکیر  رضی اللہ عنہم

۳۔  سب سے پہلے جو شخص اس معرکہ میں شہید ہوا وہ مرجع حضرت عمرؓ کا غلام تھا۲؎۔

۴۔  عاصی  بن ہشام بن مغیرہ جو قریش کا ایک معزز سردار اور حضرت عمرؓ کا ماموں تھا حضرت عمرؓ کے ہاتھ سے مارا گیا تھا ۳؎ ۔ یہ با حضرت عمرؓ کی خصوصیات میں شمار کی گئی ہے کہ اسلام کے معالمت میں قرابت اور محبت کا اثر بھی ان پر غالب نہیں آ سکتا تھا۔ چنانچہ یہ واقعہ اس کی پہلی مثل ہے۔ اس معرکے میں مخالف کی فوج میں سے جولوگ زندہ گرفتار ہوئے ان کی تعداد کم و بیش ۷۰ تھی اور ان میں سے اکثر قریش کے بڑے بڑے معزز سردار تھے مثلاً حضرت عباس‘ عقیل (حضرت علیؓ کے بھائی) ابو العاص بن الربیع‘ ولید بن الولید‘ ان سرداروں کا ذلت کے ساتھ گرفتا ر ہوکر آنا ایک عبرت خیز سماں تھا۔ جس نے مسلمانوں کے دل پر بھی اثر کیا۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی زوجہ مبارکہ سودہ کی نظر جب ان پر پڑی تو بے اختیار بول اٹھیں کہ

اعطیتم بایدیکم ہلامتم کراما

تم مطیع ہو کر آئے ہو شریفوں کی طرح لڑ کر مر نہیں گئے۔

قیدیوں کے بارے میں حضرت عمرؓ کی رائے

ا س بنا پر یہ بحث ہوئی کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام صحابہ ؓ سے رائے لی اور لوگوں کی مختلف رائیں دیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ یہ اپنے ہ بھائی بندہیں اس لیے ان سے فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔

۱؎  طبری کبیر میں ہے الم یک بفی من قریش بطن الا نفر منھم ناس الا بنی عدی بن کعب لم یخرج رجل واحد ص ۱۳۰۷

۲؎  ابن ہشام ص ۴۹۰

۳؎  ابن ہشام ص ۵۰۹ و استعیاب

حضرت عمرؓ نے اختلاف کیا اور کہا اسلام کے معاملے میں رشتہ داروں اور قرابت کو دخل نہیںان سب کو قتل کر دینا چاہیے اور س طرح کہ م میں سے ہر شخص اپنے عزیز کو آپ قتل کر دے۔علی ؓ عقیل کی گردن ماریں حمزہؓ عباس کا سر اڑا دیں اور فلاں شخص جو میرا عزیز ہے اس کا کام میں تمام کر دوں۱؎۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شان رحمت کے اقتضاء سے حضرت ابوبکرؓ کی رائے پسند کی اور فدیہ لے کر چھوڑ دیا اس پریہ آیت نازل ہوئی۔

ماکان لنبی ان یکون الہ اسریٰ حتیٰ یشخن فی الارض

(۸؍الانفال:۶۷)

’’کسی پیغمبر کے لیے یہ زیبا نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ خوب خونریزی نہ کرے۔‘‘

بدر کی فتح نے اگرچہ قریش کے زور کو گھٹایا لیکن اس سے اور نئی مشکلات کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ مدینہ منورہ اور اس کے اطراف پر ایک مدت سے یہودیوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لائے تو ملکی انتظامات کے سلسلہ میں سب سے پہلا کام یہ کیا کہ یہودیوں سے معاہدہ کیا کہ مسلمانوں کے خلاف دشمن کو مد د نہ کریں گے اور کوئی دشمن مدینہ پر چڑھ آئے گا تو مسلمانوں کی مدد کریں گے لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدر سے فتح یاب ہو کر آئے تو ان کو ڈر یدا ہو ا کہ مسلمان زورپکڑ کر ان کے برابر کے حریف نہ بن جائیں چنانچہ خود چھیڑ شروع کی اور کہا کہ قریش والے فن حرب سے نا آشنا تھے ہم سے کام پڑتاتو ہم دکھا دیتے ہکہ لڑنا اس کو کہتے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو معاہدہ کیا تھا توڑ ڈالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شوال سنہ ۲ ہجری میں ان پر چڑھائی کی اور بالآخر وہ گرفتار ہو کر مدینہ سے جلا وطن کر دیے گئے۔ اسلام کی تاریخ میں یہودیوں سے لڑائیوں کا جو ایک  متصل سلسلہ نظر آتا ہے اس کی ابتدا اسی سے ہوئی تھی۔

غزوہ سویق

قریش بدر میں شکست کھا کر انتقام کے جوش میں بے تاب تھے۔ ابوسفیان نے عہد کر لیا تھا کہ جب تک بدر کا انتقام نہ لوں گا غسل تک نہ کروں گا۔ چنانچہ ذوالحجہ ۲ ھ میں دو سو شتر سوار و کے ساتھ مدینہ کے قریب پہنچ کر دھوکے سے دومسلمانوں کو پکڑا اوران کو قتل کر دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعاقب کیا لیکن ابوسفیان نکل گیا تھا۔

۱؎  طبری ص ۱۳۵۵

اس قسم کے چھوٹے چھوٹے واقعات اور بھی پیش آتے رہے یہاں تک کہ شوال ۳ ھ (۶۲۵ئ) میں جنگ احدکا مشہور واقع پیش آیا۔

غزوہ احد ۳ھ

اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ عکرمہ بن ابی جہل اور بہت سے سردار قریش نے ابوسفیان سے جا کرکہاکہ اگر تم مصارف کا ذمہ اٹھائو تو اب بھی بدر کاانتقام لیا جا سکتا ہے۔ ابوسفیان نے قبول کیا اور اسی وقت حملہ کی تیاریاں شروع ہو گئیںَ کنانہ ار تہامہ کے تمام قبائل بھی ساتھ ہوگئے۔ ابوسفیان ن سب کا سپہ سالار بڑے سروسامان کے ساتھ مکہ سے نکلا اور ماہ شوال بدھ کے دن مدینہ منورہ کے قریب پہنچ کا قیا م کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رائے تھی کہ مدینہ میں ٹھہر کر قریش کا حملہ روکا جائے لیکن صحابہؓ نے نہ مانا اور آخر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجبور ہوکر جمعہ کے دن مدینہ سے نکلے قریش کی تعداد تین ہزار تھی جس میں دو سو سوار اور سات سو زرہ پوش تھے۔ میمن کے افسر خالد بن ولید اور میسرہ یک عکرمہ بن ابی جہل تھے۔ (اس وقت تک یہ دونوں صاحب اسلام نہیں ہوئے تھے) ادھر کل سات سو آدمی تھے جن میں سو زرہ پوش اور صرف دو سو سوار تھے۔ مدینے سے قریباً تین میل پر احدایک پہاڑ ہے۔ اس کے دامن میں دونوں فوجیں صف آراء ہوئیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ بن جبیرؓ کو 50تیر اندازوں کے ساتھ فوج کے عقب پر معین کیا کہ ادھر سے کفار حملہ نہ کرنے پائیں۔ ۷ شوال ہفتہ کے دن لڑائی شروع ہوئی۔ سب سے پہلے زبیر نے اپین رکاب کی فوج کو لے کر حملہ کیا او رقریش کے میمنہ کو شکست دی پھر عام جنگ شروع ہوئی حضرت حمزہؓ حضرت علیؓ ابودجاہ ؓ دشمن کی فوج میں گھس گئے اور ان کی صفیں الٹ دیں لیکن فتح کے بعد لوگ غیمت پر ٹوٹ پڑے۔ تیر اندازوں نے سمجھا کہ اب معرکہ ہو چکا۔ اس خیال سے وہ بھی لوٹنے میں مصروف ہوئے۔ تیر اندازو ں کا ہٹنا تھا کہ خالد نے دفعتہ عقب سے بڑے زور کا حملہ کیا مسلمان چونکہ ہتھار  ڈال کر غنیمت میں مصروف ہو چکے تھے اس ناگہانی زد کو نہ روک سکے۔ کفار نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پتھروں اور تیروں کی بارش کر دی ۔ یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے۔ پیشانی پر زخم آیا اور رخساروں میں مغفرکی کڑیاں چبھ گئیں۔ اس کے ساتھ آپ ایک گڑھے میں گر پڑے اور لوگوں کی نظروں سے چھپ گئے۔ اسی برہمی میں یہ غل پڑ گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مارے گئے۔ اس خبرنے مسلمانوں کے استقلال کو اورمتزلزل کردیا اور جو جہاں تھا وہیں سراسیمہ ہو کر رہ گیا۔

اس امر میں اختلاف ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اخیر وقت تک کس قدر صحابہ ؓ ثابت قدم رہے۔ صحیح مسلم میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ احد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صرف سات انصار اور دو قریشی یعنی سعد اور طلحہ ؓ رہ گئے تھے۔ نسائی اوربیہقی میں بسند صحیح منقول ہے کہ گیارہ انصار اور طلحہؓ کے سوا اور کوئی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نہ رہا تھا محمد بن سعد نے چودہ آدمیوں کا نا م لیا ہے اسی طرح اور بھی مختلف روایتیں ہیں۔ ۱؎ حافظ ابن الحجر نے فتح الباری میں ان روایتوں میں اس طرح تطبیق کی ہے کہ لوگ جب ادھر ادھر پھیل گئے تو کافروں نے دفعتہ عقب سے حملہ کیا اور مسلمان سراسیمہ ہو کر جو جہا تھا وہیں رہ گیا پھر جس جس کو موقع ملتا گیا وگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچتے گئے۔ تمام روایتوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتاہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی تو کچھ لوگ تو ایسے سراسیمہ ہوئے کہ انہوںنے مدنے سے ادھر دم نہیںلیا مدینہ آ کر دم لیا کچھ لوگ جان پر کھیل کر لڑتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر جینا بیکار ہے۔ بعضوں نے مایوس ہو کر سپر ڈال دی کہ اب لڑنے سے کیا فائدہ ہے۔ حضرت عمر ؓ اس تیسرے گروہ میں تھے علامہ طبری نے بسند متصل جس کے رواۃ بن حمید سلمہ محمد بن اسحاق‘ قاسم بن عبدالرحمن بن رافع ہیں۔ روایت کی ہے کہ اس موقع پر جب انس بن نضرؓ نے حضرت عمر اور طلحہؓ اور چندمہاجرین اورانصا رکو دیکھا تو مایوس ہو گئے تو پوچھا کہ کیا بیٹھے کیا کرتے ہو۔ ان لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو شہادت پائی۔ انسؓ بولے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد زندہ رہ کر کیا کرو گے؟ تم بھی انہی کی طرح لڑ کر مر جائو۔ یہ کہہ کر کفار پر حملہ آور ہوئے اور شہادت پائی۔ ۲؎ ۔ قاضی ابویوسف صاحب نے خود حضرت عمرؓ کی زبانی نقل کیا ہے کہ انس بن نضرؓ میرے پاس سے گزرے اور مجھ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کیا گزی؟ میںنے کہا میرا خیا  ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو ئے۔ انس ؓ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید تو ہوئے اللہ تو زندہ ہے۔ یہ کہہ کر تلوار میان سے کھینچ لی اور اس قدر لڑے کہ شہاد ت حاصل کی۔ ۳؎ ابن ہشام میں ہے کہ انسؓ نے اس واقعہ میں ستر زخم کھائے۔

۱؎  یہ پوری تفصیل فتح الباری مطبوعہ مصر جلد ۷ صفحہ ۲۷۲ میں ہے۔

۲؎  طبری ص ۱۴۰۴

۳؎  کتاب الخراج ص ۲۵

طبری کی روایت میں یہ امر لحاظ کے قابل ہے کہ حضرت عمرؓ کے ساتھیوں میں طلحہؓ کا نام بھی ہے اور یہ مسلم ہے کہ اس معرکہ میں ان سے زیادہ کوئی ثابت قدم نہ رہاتھا۔ بہرحال یہ تمام روایتوں سے ثابت ہے کہ سخت برہمی کی حالت میں بھی حضرت عمرؓ میدان جنگ سے نہیں ٹلے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زندہ ہونا معلوم ہوا تو فوراً خدمت اقدس میں پہنچے۔ طبری اورسیرت بن ہشام میں ہے:

فلما عرف المسلمون رسول اللہ نھضوا بہ ونھض نحو الشعب معہ علی بن ابی طالب و ابوبکر بن ابی فحافہ و عمر بن الخطاب و طلحہ ابن عبید اللہ الزبیر بن العوام والحارب بن صمہ

’’پھرجب مسلمانوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھاتو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے اور آپ لوگوں کو لے کر پہاڑ کے درہ پر چڑھ گئے اس وقت آپ کے ساتھ علیؓ حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ زبیر بن العوام اور ھارث بن ضمتہ ؓ تھے۔

علامہ بلاذری صرف ایک مورخ ہیں جنہوں نے انساب الاشراف میں حضرت عمرؓ کے حال میں یہ لکھا:

وکان ممن انکشف یوم احد فغفرلہ

’’یعنی حضرت عمرؓ ان لوگوں میں تھے جو احد کے دن بھاگ گئے تھے لیکن اللہ نے ان کو معاف کر دیا‘‘۔

علامہ بلاذری نے ایک اور روایت نقل کی ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے جب اپن خلافت کے زمانے میں لوگوں کے روزینے مقرر کیے تو ایک شخص نے روزینے کی نسبت لوگوں نے کہا کہ ان سے زیادہ مستحق آپ کے فرزند عبداللہؓ ہیں حضرت عمرؓ نے فرمایا نہیںکیونکہ اس کا باپ احد کی لڑائی مین ثابت قدم رہا تھا اور عبداللہ کا باپ (یعنی خود حضرت عمرؓ ) نہیں رہا تھا۔

لیکن یہ روایت قطع نظر اس کے کہ درایتہ غلط ہے کیونکہ معرکہ جہاد سے بھاگنا ایک ایسا ننگ تھا جس کوئی کوئی شخص اعلانیہ تسیلم نہیں کر سکتا تھا۔ اصول روایت کے لحاظ سے بھی ہم اس پر اعتبار نہیں کر سکتے۔ علامہ موصوف نے جن رواۃ کی سند سے یہ روایت بیان کی ہے ان میں عباس بن عبداللہ الباکسائے اور غیض بن اسحاق ہیں اور یہ دونوں مجہول الحال ہیں۔ اس کے علاوہ تمام روایتیں اس کے خلاف ہیں۔

اس بحث کے بعد ہم پھر اصل واقعہ کی طرف آتے ہیں۔

خالد ایک دستہ فوج کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت تیس صحابہؓ کے ساتھ پہاڑ پر تشریف رکھتے تھے۔ خالد ؓ کو آتا دیکھ کر فرمایا کہ یا الٰہ یہ لوگ یہاں تک نہ آنے پائیں ۔ حضرت عمرؓ نے چند مہاجرین اور انصار کے ساتھ آگے بڑھ کر حملہ کیا اوران لوگوں کو ہٹا دیا ۱؎۔

ابوسفیان سالار قریش نے درہ کے قریب پہنچ کر پکارا کہ اس گروہ میں محمد ہیں یا نہیں؟

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ کیا کہ کوئی جواب نہ دے۔ ابوسفیان نے پھر حضرت ابوبکر ؓ و عمرؓ کا نام لے کر کہا کہ یہ دونوں اس مجمع میں ہیں یا نہیں؟ اور جب کسی نے کچھ جواب نہ دیاتو بولا کہ ضرور یہ لوگ مارے گئے۔ حضرت عمرؓ سے رہا نہیں گیا پکار کر کہا او اللہ کے دشمن ہم سب زندہ ہیں۔

ابوسفیان نے کہا اع ھبل یعنی ا ے ہبل(ایک بت کانام تھا) بلند ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر سے فرمایا جواب دو(اللہ اعلیٰ واجل) یعنی اللہ تعالیٰ بلند و برتر ہے۔۲؎

حضرت حفصہ ؓ کا عقد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ

اس سال حضرت عمرؓ کویہ شرف حاصل ہوا کہ ان کی صاحبزادی حضرت حفصہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقدمیں آئیں۔ حفصہؓ کا نکاح جاہلیت میں خنیس ب خذافہ ؓ کے ساتھ ہوا تھا خنیسؓ کے انتقال کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے خواہش کی کہ حفصہ ؓ کو اپنے نکاح میں لائیں۔ انہوںنے کچھ جواب نہ دیا پھرحضرت عثمانؓ سے درخواست کی وہ بھی چپ رہے کیونکہ ان دونوں صاحبوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حفصہؓ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں چنانچہ شعبان ۳ھ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حفصہؓ سے نکاح کیا۔

واقعہ بنو نضیر ۴ھ (۶۲۶ئ)

۴ھ(۲۶۲ئ) میں بنو نضیر کا واقعہ پیش آیا ۔ اوپر ہم لکھ آئے ہیں کہ مدینہ منورہ میں یہود کے جو قبائل آبادتھے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ا ن سے صلح کامعاہدہ کر لیا تھا۔ ان میں سے بنو قینقاع نے بدر کے بعد نقض عہد کیا اور اس جرم سے مدینے سے نکال دیے گئے۔ دوسرا قبیلہ بنو نضیر کا تھا ۔ یہ لوگ بھی اسلام کے سخت دشمن تھے۔ ۴ ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک معاملے میں استعانت کے لیے حضرت عمر ؓ اور حضرت ابوبکر ؓ کو ساتھ لے کر ان کے پا س تشریف لے گئے۔ ان لوگوں نے ایک شخص کو جس کانام عمرو بن حجاش تھا آمادہ کیا کہ چھت پر چڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سر پر پتھر کی سل گرا دے۔ وہ چھت پر چڑھ چکا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ہو گئی۔ آپ اٹھ کر چلے گئے اور کہلا بھیجا کہ تم لوگ مدینے سے نکل جائو۔

۱؎  سیرت ابن ہشام ص ۵۷۶ و بطری ص ۱۴۱۱

۲؎  سیرت ابن ہشام ص ۵۸۲ و طبری ص ۱۴۱۷

انہوں نے انکار کیا اور مقابلے کی تیاریاں کیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر قابو پا کر جلاوطن کردیا۔ چنانچہ ان میںسے کچھ شاام کو چلے گئے کچھ خیبر میں جا کر آباد ہوئے اور وہاں حکومت قائم کر لی ۱؎۔

جنگ خندق یا احزاب ۵ ھ (۶۲۷ئ)

خیبر والوں میں سلام بن اببی الحقیق کنانتہ بن لربیع اور حی بن اخطب بڑے بڑے معزز سردار تھے۔ یہ لوگ خیبر میں پہنچ کر مطمئن ہوئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انتقام لینا چاہ۔ مکہ مکرمہ میں جا کر قریش کو ترغیب دی کہ قبائل عرب کا دورہ کیا اور تمام ممالک میں ایک آگ لگا دی۔

چند روز میں دس ہزار آدمی قریش کے علم کے نیچے جمع ہو گئے۔ اور شوال ۵ھ میں ابوسفیان کی سپہ سالاری میں اس سیلاب نے مدینہ  کا رخ کیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے سے باہر نک کر سلع ۲؎ کے آگے ایک خندق تیار کرائی۔ عرب میں خندق کا رواج نہ تھا۔ اس لیے کفار کو اس کی کچھ تدبیر بن نہ آئی۔ مجبوراً محاصرہ کر کے ہر طرف فوجیں پھیلا دیں اور رسد وغیرہ بند کر دی۔ ایک مہینے تک محاصرہ رہا۔ کفار کبھی کبھی خندق میں اتر کر حملہ کرتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس غرض سے خندق کے ادھر کچھ فاصلے پر اکابر صحابہ کو معین کر دیا تھا کہ دشمن ادھر سے نہ آنے پائے ایک حصے پر حضرت عمرؓ متین تھے چنانچہ یہاںان کے نام کی مسجد آج بھی موجودہے۔ ایک دن کافروں نے حملے کا ارادہ کیا تو حضرت عمرؓ وار زبیر ؓ کے ساتھ آگے بڑھ کر روکا اور ان کی جماعت درہم برہم کر دی۔ ۳؎ ایک اور دن کافروں کے مقابلے میں اس قدر ان کو مصروف رہنا پڑا کہ عصر کی نماز قضا ہوتے ہوتے رہ گئی۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیاکہ آج کافروںنے نماز پڑھنے کا موقع نہ دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے بھی اب تک عصرکی نماز نہیںپڑھی۔

اس لڑٓئی میں عمرو بن عبدود عرب کا مشہور بہادر جو پانچ سو سواروں کے برابر سمجھا جاتا تھا حضرت علی ؓ کے ہاتھ سے مارا گیا۔ اس کے مارے جانے کے بعد ادھر تو قریش میں کچھ بدلی پیدا ہوئی ادھر نعیم بن مسعود جو اسلام لا چکے تھے اورکافروں کو ان کے اسلام کی کچھ خبر نہ تھی جوڑ توڑسے قریش اور یہود میں پھوٹ ڈلوا دی۔

۱؎  طبری ص ۱۳۵۲

۲؎  یہ مدینے سے ملا ہوا ایک پہاڑ ہے

۳؎  یہ واقعہ شاہ ولی اللہ صاحب نے ازالتہ الخفاء میں لکھا ہے لیکن میں نے کسی کتاب میں اس کی سند نہیںپائی۔

مختصر یہ کہ کفر کا ابر سیاہ جو مدینہ کے افق پر چھاگیاتھا روز بروز چھٹتا گیا اور چند روز کے بعد مطلع بالکل صاف ہو گیا۔

واقعہ حدیبیہ ۶ ھ (۶۲۸ء )

۶۲۸ء ۶ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کے ساتھ خانہ کعبہ کی زیارت کا قصد کیا اور اس غرض سے کہ قریش کو لڑائی کا شبہ نہ ہو حک دیا کہ کوئی شخص ہتھیار باندھ کر نہ چلے۔ ذوالحلیفہ (مدینہ سے چھ میل پر ایک مقام ہے) پہنچ کر حضرت عمرؓ کو خیال ہواکہ اس طرح چلنا مصلحت نہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آ کر عرض کی اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی رائے کے موافق مدینہ سے ہتھیار منگوا لیے۔ جب مکہ مکرمہ دو منزل رہ گیا تو مکہ سے بشر بن سفیان نے آ کر یہ خبر دی کہ تمام قریش نے عہد کر لیا ہے کہ مسلمانوں کو مکہ میں قدم نہ رکھنے دیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ن چاہا کہ اکبر صحابہؓ میں کسی کو سفارت کے طور پر بھیجیں کہ ہم کو لڑنا مقصود نہیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کو اس خدمت پر مامور کرنا چاہا۔ انہوںنے عرض کی کہ قریش کومجھ سے سخت عداوت ہے اور میرے خاندان میں وہاں کوئی شخص میرا حامی موجود نہیں۔ عثمان ؓ کے عزیز و اقارب ہیں اس لیے ان کو بھیجنا مناسب ہو گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  اس رائے کو پسند فرمایا اور حضرت عثمانؓ کو مکہ بھیجا۔ قریش نے حضرت عثمانؓ کو روک رکھا اور جبکئی د گزر گئے تو یہ مشہور ہو گیا کہ وہ شہید ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر صحابہ ؓ سے جو تعداد میں چودہ سو تھے جہاد پر بیعت  لی اور چونکہ بیعت ایک درخت کے نیچے لی گئی تھی یہ واقعہ بیعت الشجرہ کے نام سے مشہور ہوا قرآن مجید کی اس آیت میں

لقد رضی اللہ عن المومنین اذبیا یعونک تحت الشجرۃ (۴۸؍ سورۃ الفتح ۱۸)

اسی واقع کی طرف اشارہ ہے اور آیت کی مناسبت سے اس کو بیعتہ الرضوان بھی کہتے ہیں۔

حضرت عمرؓ نے بیعت سے پہلے لڑائی کی تیاری شروع کر دی تھی۔ صحیح بخاری(غزوہ حدیبیہ) میں ہے کہ حدیبیہ میں حضرت عمرؓ نے اپنے صاحبزادے عبداللہؓ کو بھیجا کہ فلاں انصاری سے گھوڑا مانگ لائیں عبداللہ بن عمرؓ باہر نکلے تو دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں سے جہاد پر بیعت لے رہے ہیں انہوںنے بھی جا کر بیعت کی۔ حضرت عمرؓ کے پاس واپس آئے تو دیکھا کہ ہو ہتھیار سچ رہے ہیں عبداللہ ؓ نے ان سے بیعت کا واقعہ بیا ن کیا۔ حضرت عمرؓ اسی وقت اٹھے اور جا کر رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔

قریش کو اصرار تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں ہرگز داخل نہیںہو سکتے۔ بڑے ردوبدل کے بعد ان شرائط پر معاہدہ ہوا کہ اس دفعہ مسلمان الٹے واپس جائیں اگلے سال ٓئیں لیکن تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں۔ معاہدہ میں یہ شرط بھی داخل تھی کہ دس برس تک لڑائی موقوف رہے گی اور اس اثناء میں قریش کا کوئی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں چلاجائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو قریش کے پاس واپس بھیج دیں لیکن مسلمانوںمیں سے اگر کوئی شخص قریش کے ہاتھ آ جائے تو ان کو اختیار ہو گا کہ وہ اس کو اپنے پاس روک لیںَ اخیر شرط چونکہ بظاہر کافروں کے حق میں تھی حضرت عمرؓ کونہایت اضطراب ہوا ۔ معاہدہ ابھی لکھا نہیں جا چکا تھا کہ وہ ابوبکر صدیقؓ کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس طرح دب کر کیوں صلح کی جائے؟ انہوںنے سمجھایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ کرتے ہیں اسمیں مصلحت ہو گی لیکن حضرت عمر ؓ کو تسکین نہیں ہوئی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے اور ا س طرح گفتگو کی:

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شک ہوں

حضرت عمر ؓ کیا ہمارے دشمن مشترک نہیں ہیں؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شک ہیں۔

حضرت عمر ؓ پھر ہم مذہب کو کیوں ذلیل کریں؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور اللہ کے حکم کے خلاف نہیں کرتا۔

حضرت عمرؓ کی یہ گفتگو اور خصوصاً انداز گفتگو اگرچہ خلاف ادب تھا۔ چنانچہ بعد میں ان کو سخت ندامت ہوئی اور اس کے کفارہ کے لیے روزے رکھے نمازیں پڑھیں خیرات دی غلام آزاد کیے۱؎  تاہم سوال و جواب کی اصل بنا اس نکتہ پر تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کون سے افعال انسانی حیثیت سے تعلق رکھتے ہیں اور کون سے رسالت کے منصب سے چنانچہ اس کی مفصل بحث کتاب کے دوسرے حصے میں آئے گی۔

غرض معاہدہ صلح لکھا گیا وار اس پر بڑے بڑے اکابر صحابہؓ کے جن میں حضرت عمرؓ بھی داخل تھے دستخط ثبت ہوئے۔ معاہدہ کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے مدینہ منورہ کا قصد کیا ۔ راہ میں سورۃ فتح نازل ہوئی۔ رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر ؓ کو بلا کر فرمایا کہ مجھ پرآج تک ایسی صورت نازل نہیںہوئی۔ جومجھ کو دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔ یہ کہہ کرآپ نے یہ آیتیںپڑھیں:

انا فتحنا ک فتحا مبینا ؎۲ (۴۸ ؍ الفتح : ۱)

۱؎  طبری صفحہ ۱۵۴۶

۲؎  صحیح بخاری واقعہ حدیبیہ

محدثین نے لکھا ہے کہ اس وقت تک مسلمان اور کفار بالکل الگ الگ رہتے تھے ۔ صلح ہوجانے سے آپس میں میل جول ہو ا اور رات دن کے چرچے سے اسلام کے مسائل اور خیالات روز بروز زیادہ پھیلتے گئے۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ دو برس کے اندر اندر جس کثرت سے لوگ اسلام لائے اٹھارہ برس قبل کی وسیع مدت میں نہیںلائے تھے ۱ ؎ ۔ جس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلح کی تھی اور ابتدا میں حضرت عمرؓ کی فہم میںنہ آ سکی وہ یہی مصلحت تھی اور اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے سورہ فتح میں اس صلح کو فتح کے لفظ سے تعبیر کیا ۔

حضرت عمرؓ کا اپنی بیویوں کو طلاق دینا

اس زمانے تک وہ کافرہ عورتوںکا عقد نکاح میں رکھنا جائز تھا لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی:

ولا تمسکو ا بعصم الکوافر (۶۰؍ الممتحنہ: ۱۰)

تو یہ امر ممنوع ہو گیا۔ اس بنا پر حضرت عمر ؓ نے اپنی دونوں بیویوں کو جو کافرہ تھیں طلاق دے دی ۔ ا ن میں سے ایک کا نام قریبہ اور دوسری کا ام کلثوم بنت جرول تھا۔ ان دونوں کے طلاق لینے کے بعد حضرت عمرؓ نے جمیانہؓ سے جو ثابت بن ابی الافلح کی بیٹی تھی نکاح کیا۔ حضرت عمرؓ کے فرزند عاصم ؓ انہی کے بطن سے تھے ۔ ۲؎ اسی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلاطی اور والیان ممالک کے نام دعوت اسلام کے خطوط بھیجے۔

جنگ خیبر ۷ ھ (۶۲۹ء )

۷ھ میں خیبر کا مشہور معرکہ پیش آیا۔ اوپر تم پڑھ آئے ہو کہ قبیلہ بنو نضیر کے یہودی جو مدینہ منورہ سے نکالے گئے تھے خیبر میں جا کر آباد ہوئے۔ اہی میں سے سلام و کنانہ وغیرہ نے سنہ ۵ ھ میں قریش کو جا کر بھڑکایا اور ان کو مدینہ پر چڑھا لائے۔ اس تدبیر میںاگرچہ ان کو ناکامی ہوئی لیکن انتقام کے خیال سے وہ باز نہ آئے اور ا س کی تدبیریں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ سنہ ۶ ھ میں قبیلہ بنی سعد نے ان کی اعانت پر آمادگی ظاہر کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر معلوم ہوئی تو حضرت علیؓ کو بھیجا۔ بنو سعد بھاگ گئے اور پانچ سو اونٹ غنیمت میں ہاتھ آئے ۳؎ پھر قبیلہ غطفان کو آمادہ کیا۔ چنانچہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیبر کی طرف بڑھے تو سب سے پہلے اسی قبیلہ نے سدراہ ہونا چاہا۔ ان حالات کے لحاظ سے ضرور تھا کہ یہودیوں کا زور توڑ دیا جائے ورنہ مسلمان ان کے خطرے سے مطمئن نہیں ہو سکتے تھے۔

غرض ۷ھ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو پید ل اور دو سو سواروں کے ساتھ خیبر کا رخ کیا۔ خیبر میں یہودیوں نے بڑے بڑے مضبوط قلعے بنا لیے تھے۔ مثلاً حصن ناعم ‘ حصن قموص‘ حصن صعب و طیح اور سلالم ۔ یہ سب قلعے جلد جلد فتح ہو گئے لیکن وطیح و سلالم جن پر عرب کا مشہور بہادر مرحب قابض تھا آسانی سے فتح نہیں ہو سکتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکرؓ کو سپہ سالار بنا کر بھیجا لیکن وہ ناکام آئے پھر حضرت عمر ؓ مامور ہوئے وہ برابر دو دن تک جا کر لڑے لیکن دونوں ناکام رہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ کل میں ایسے شخص کو علم دوں گاجو حملہ آور ہو گا۔ اگلے دن تمام اکابر صحابہ ؓ علم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امید میں بڑے سازوسامان کے ساتھ ہتھیار سج سج کر آئے ان میں حضرت عمرؓ بھی تھے او ران کا خو دبیان ہے کہ میں نے کبھی اس موقع کے سوا علم برداری او ر افسری کی آرزو نہیں کی لیکن قضا و قدر نے یہ فخر حضرت علیؓ کے لیے اٹھا رکھا تھا چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کی طرف توجہ نہیں کی اور حضرت علیؓ کو بلا کر علم ان کو عنایت فرمایا مرحت حضرت علیؓ کے ہاتھ سے مارا گیا اور اس کے قتل پر اس معرکہ کا بھی خاتمہ ہو گیا۔

خیبر کی زمین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجاہدوں کو تقسیم کر دی۔ چنانچہ ایک ٹکڑا جس کا نام ثمغ تھا حضرت عمرؓ کے حصے میں آیا۔ حضرت عمرؓ نے اس کو اللہ کی راہ میں وقف کر دیا۔ ؤچنانچہ صحیح مسلم باب الوقف میں یہ قصہ بہ تفصیل مذکورہے اور اسلام کی تاریخ میں یہ پہلا وقف تھا جو عمل میں آیا۔

اسی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو ۳۰ آدمیوں کے ساتھ قبیلہ ہوازن کے مقابلے کو بھیجا ان لوگوں نے حضرت عمرؓ کی آمد کی خبر سنی تو بھاگ نکلے اور کوئی معرکہ پیش نہیں آیا۔

فتح مکہ

۸ ھ (۶۳۰ئ) میں مکہ فتح ہوا۔ اس کی ابتدا یوں ہئی کہ حدیبیہ می جو صلح قرار پائی تھی۔ اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ قبائل عرب میں جو چاہے قریش کا ساتھ دے اور جو چاہے اسلام کے سایہ امن میں آئے۔ چنانچہ قبیلہ خزاعہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور خاندان بنوبکر نے قریش کا ساتھ دیا۔ ان دونوں قبیلوں میں مدت سے ان بن تھی اور بہت سے معرکے ہو چکے تھے ۔ لڑائی کا سلسلہ جاری تھا کہ حدیبیہ کی صلح و قوع میں آئی اور شرائط معاہدہ کی رو سے دونوں قبیلے لڑائی سے دست بردار ہو گئے لیکن چند ہی روز کے بعد بنوبکر نے نقض عہد کیا اور قریش نے ان کی اعانت کی یہاں تک کہ خزاعہ نے حرم میں جا کر پناہ لی۔ تب بھی ان کو پناہ نہ ملی۔ خزاعہ نے جا کررسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغاثہ کیا۔ ابوسفیان ؓ کو یہ خبر معلوم ہوئی تو پیش بندی کے لیے مدینہ منورہ پہنچا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر قریش کی طرف سے تجدید صلح کے لیے درخواست کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا۔ وہ اٹھ کر ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے پاس گیا کہ آپ معاملے کو طے کرا دیجیے۔ حضرت عمرؓ نے اس کو سختی سے جواب دیا کہ وہ بالکل ناامید ہو گیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کی تیاریاں شروع کیں اور رمضان ۸ ھ میں دس ہزار فوج کے ساتھ مدینہ سے نکلے۔ مقام الطھران میں نزول اجلال ہوا تو حضرت عباسؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خچر پر سوار ہوکر مکہ کی طرف چلے۔ ادھر سے ابوسفیان آ رہا تھا۔ حضرت عباس ؓ نے کہا کہ آئو تجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امن دلا دوں ورنہ آج تیری خیر نہیں۔ ابوسفیان نے غنیمت سمجھا اور حضرت عباس ؓ کے ساتھ ہو لیا۔ راہ میں حضرت عمرؓ کا سامنا ہوا۔ ابوسفیان کو ساتھ دیکھ کر حضرت عمرؓ نے خیال کیا کہ حضرت عباسؓ اس کی سفارش کے لیی جا رہے ہیں۔ بڑی تیزی سے بڑھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ مدتوں کے بعد اس دشمن اسلام پر قابو ملا ہے ‘ اجازت دیجیے اس کی گرد ن مار دوںَ حضرت عباسؓ نے کہا کہ عمرؓ ابوسفیان اگر عبدمناف کے خاندان سے نہ ہوتا اور تمہارے قبیلہ کا آدمی ہوتا تو تم اس طرح کی جان کے خواہاں نہ ہوتے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میرا باپ خطاب اسلام لتا تو مجھ کو اتنی خوشی نہ ہوتی جتنی اس وقت ہوئی تھی۔ جب آپ اسلام لائے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عباس ؓ کی سفارش قبول کی اور ابوسفیان کو امن دیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے جاہ و جلال سے مکہ میں داخل ہوئے اوردر کعبہ پر کھڑے ہوکر نہایت فصیح و بلیغ خطبہ دیا جو بعینہ تارٰکوں میں منقول ہے ۔ پھر حضرت عمرؓ کو ساتھ لے کر مقام صفا پر لوگوں سے بیعت لینے کے لیے تشریف فرما ہائے۔ لوگ جو ق در جوق آتے تھے اور بیعت کرتے جاتے تھے۔ حضرت عمرؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب لیکن کسی قدر نیچے بٹھے تھے۔ جب عورتوں کی باری آئی تو چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیگانہ عور ت کے ہاتھ کو مس نہیںکرتے تھے۔ حضرت عمرؓ کو ارشاد فرمایا کہ تم ان سے بیعت لو۔ چنانچہ تمہیں عورتوں نے انہیں کے ہاتھ پر رسول اکرمؓ سے بیعت کی۔

غزوہ حنین

اسی سا ہوازن کی لڑائی پیش آئی جو غزوہ حنین ۱؎ کے نام سے مشہورہے ہوازن عرب کا مشہور اور معزز قبیلہ تھا۔ یہ لوگ ابتدا سے اسلام کی ترقی کی رقابت کونگاہ سے دیکھتے آئے تھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب فتح مکہ کے ارادہ سے مدینہ منورہ سے نکلے تو ان لوگوں کو گمان ہوا کہ ہم پر حملہ کرنا مقصود ہے۔ چنانچہ اسی وقت جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں وارجب یہ معلوم ہواکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ پہنچے تو مکہ پر حملہ کرنے کے لیے بڑے سروسامان سے روانہ ہو کر حنین میں ڈیرے ڈالے۔ ۲؎ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خبر سنی تو بارہ ہزار کی جمعیت کے ساتھ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے۔ ؤحنین میں دونوں فوجیں صف آراء ہو گئیںَ مسلمانوں نے پہیل حملے میں حوازن کو بھگا دیا۔ ۳؎ لیکن جب غنیمت لوٹنے میں مصروف ہوئے تو ہوازن نے حملہ کیا اور اس قدر تیر برسائے کہ مسلمانوں میں ہل چل پڑ گء اور بارہ ہزار آدمیوںمیں سے معدودے چند کے سوا باقی تمام بھاگ نکلے۔ اس معرکہ میں جو صحابہ ؓ ثابت قدم رہے ان کا نام خصوصیت کے ساتھ لیا گیا ہے اوران میں حضرت عمرؓ بھی شامل ہیں۔ چنانچہ علامہ طبری نے صاف تصریح کی ہے محمد بن اسحاق نے جو امام بخاری کے شیوخ حدیث میں داخل ہٰں اور مغازی و سیر کے امام مانے جاتے ہیں کتاب المغازی میں لکھا ہے۔

وباپیغامبر چندتن از مھاجرین و انصار و اہل بیت باز ماندہ بودند مثل ابوبکر و علی و عمر و عباس ؎۴

لڑائی کی صورت بگڑ کر پھر بن گئی اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اور ہوازن کے ۶ ہزار آدمی گرفتار ہوئے۔

۱؎  حنین عرفات کے پیچھے ایک وادی کا نامہے جو مکہ مکرمہ سے نو دس میل ہے۔

۲؎  تاریخ طبری

۳؎  صحیح مسلم غزوہ حنین

۴؎  ابن اسحاق کی اصل کتاب میں نے نہیں دیکھی لیکن اس کا ایک نہایت قدیم ترجمہ زبان فارسی میں میری نظر سے گزرا ہے اور عبارت منقولہ اسی سے ماخوذ ہے۔ یہ ترجمہ ۶۱۲ ہجری میں سعد بن زنگی کے حکم سے کیا گیا تھا اوراس کا ایک نہایت قدیم نسخہ الہ آباد کے کتب خانہ عام میںموجود ہے۔

۹ ھ (۶۳۱ئ) میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ قیصر روم عرب پر حملہ کی تیاریاں کر رہاہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر صحابہؓ کو تیاری کا حکم دیا اور چونکہ یہ نہایت تنگی اور عسرت کا زمانہ تھا۔ اس لیے لوگوں کو زدومال سے اعانت کی ترغیب دلائی۔ چنانچہ اکثر صحابہؓ نے بڑی بڑی رقمیں پیش یں۔ حضرت عمرؓ نے اس موقع پر مال و اسباب میں سے آدھا لا کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ۱؎ غرض اسلحہ اور رسد کا سامان مہیا ہ وگیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ سے روانہ ہوئے لیکن مقام تبوک میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ خبر غلط تھی اس لیے چند روز قیام فرما کر واپس آئے۔

اسی سال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازواج مطہرات سے ناراض ہو کران سے علیحدگی اختیار کی اور چونکہ لوگوں کو آپ کے طرز عمل سے یہ خیال پیدا ہوا تھ اکہ آپ نے تمام ازواج مطہرات کو طلا ق دے دی ہے اس لیے تمام کو نہایت رنج و افسوس تھا۔ تاہم کوئی شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی  خدمت میں کچھ کہنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے حاضر خدمت ہونا چاہا لیکن بار بار اذن مانگنے پر بھی اجازت نہیںملی۔ آخر حضرت عمرؓ نے پکار کر دربان سے کہا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ گمان ہے کہ میں حفصہؓ (حضرت عمرؓ کی بیٹی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ) کی سفارش کے لیے آیا ہوں۔ اللہ کی قسم اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکم دیں تو میں جا کر حفصہ ؓ کی گردن مار دوں۔ ۲؎

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً بلا لیا۔ حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازواج کو طلاق دی؟ آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیںَ حضرت عمر ؓ نے کہا تمام مسلمان مسجد میں سوگوار بیٹھے ہیں آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اجزت دیں تو ان کو یہ مژدہ سنا آئوں۔ اس واقعہ سے حضرت عمرؓ کے تقرب کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ام سلمہؓ نے انہیں واقعات کے  سلسلے میں ایک موقع پر کہا کہ عمرؓ تم ہر چیز میں دخیل ہوگئے یہو یہاں تک کہ اب ازواج کے معاملات میں بھی دخل دینا چاہتے ہو۔

۱۰ھ (۶۳۲ئ) میںتمام اطراف سے نہایت کثرت سے سفارشیں آئیں اور ہزاروں لاکھوں آدی اسلام کے حلقے میں آئے۔ اسی سال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کے لیے مکہ مکرمہ جانے کا قصد کیااور حج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری حج تھا۔

۱۱ ھ (۶۳۳ئ) ماہ صفر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رومیوں کے مقابلے کے لیے اسامہ بن زیدؓ کو مامور کیا اور تمام اکابر صحابہ ؓ کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ جائیں۔ لوگ تیار ہو چکے تھے کہ اخیر صفر می رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہو گئے ور یہ تجویز ملتوی رہ گئی۔

۱؎  ترمذی اور ابودائود میں یہ واقعہ فضائل ابوبکر کے تحت میں منقول ہے لیکن غزوہ کی تعین نہیں ہے۔

۲؎  صحیح مسلم باب الطلاق

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بروایت مشہور ۱۳ دن بیمار رہے۔ بیہقی نے یہ سند صحیح دن کی تعداد بیا ن کی ہے۔ سلیمان تمیمی نے بھی اپنی مغازی میں یہی تعداد لکھی ہے۔ ۱؎ بیماری کی حالت یکساں نہ تھی۔ کبھی بخار کی شدت ہو جاتی او رکبھ اس قدر افاقہ ہو جاتا تھا کہ مسجد میں جا کر نماز ادا فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ عین وفات کے دن نماز فجر کے وقت طبعیت اس قدر بحال تھی کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دروازے تک آئے اور پردہ اٹھا کر لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھا تو نہایت محظوظ ہوئے اور تبسم فرمایا۔

قرطاس کا واقعہ

بیماری کا بڑا مشہور واقعہ قرطاس کا واقعہ ہے۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات سے تین روز پہلے قلم اور دوات طلب کیا اور فرمایا کہ تمہارے لیے  ایسی چیز لکھوں گا کہ تم آئندہ گمراہ نہ ہو گے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کودرد کی شدت ہے اور ہمارے لیے قرآن کافی ہے۔ حاضرین میں سے بعضوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہکی باتیں کر رہے ہیں(نعو ذ باللہ) روایت میں ھجر کا للفظ ہے جس کے معنی ہذیان کے ہیں۔

یہ واقعہ بظاہر تعجب انگیز ہے۔ ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ اس سے زیادہ اور کیا گستاخی اور سرکشی ہوگی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بستر مرگ پر ہیں اور امت کے درد و غم خواری کے لحاظ سے فرماتے ہیں کہ لائو میں ایک ہدایت نامہ لکھ دوں جو تم کو گمراہی سے محفوظ رکھے۔ یہ ظاہر ہے کہ گمراہی سے بچانے کے لیے جو ہدایت ہو گی وہ منصب نبوت کے لحاظ سے ہو گی اوراس لیے اس میں سہو و خطا کا احتمال بھی نہیں ہو سکتا۔ باوجود ا س کے حضرت عمرؓ بے پروائی کا مظاہرہ کرتیہیں اور کہتے ہیں کہ کچھ ضرورت نہیں ہم کو قرآن کافی ہے طرہ یہ ہے کہ بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت عمرؓ ہی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کو ہذیان سے تعبیر کیا ہے۔ نعوذ باللہ۔

یہ اعتراض ایک مدت سے چلا آتا ہے اور مسلمانوں کے دو مختلف گروہ نے اس پر بڑی طبع آزمائیاں کی ہیں لیکن چونکہ اس بحث میں غیر متعلق باتیں چھڑ گئیں اور اصول درایت سے کسی نے کام نہیں لیا اس لیے اصل مسئلہ نامنفضل رہا اور عجیب عجیب بیکار بحثیںپیدا ہو گئیں یہاں تک کہ یہ مسئلہ چھیڑا گیا کہ پیغمبر سے ہذیان ہونا ممکن ہے کیونکہ ہذیان انسان عوارض میں ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عوارض انسانی سے بری نہ تھے۔

۱؎  فتح الباری جلد ۸ ص ۹۸

یہاں دراصل یہ امر قابل غورہے کہ جو واقعہ جس طریقے سے روایتوں میں منقول ہے اس سے کسی امر پر استناد ہو سکتاہے یا نہیں ؟ ا س بحث کے لیے پہلے واقعات ذیل کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔

۱۔  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کم و بیش ۱۳ دن تک بیمار رہے۔

۲۔  کاغذ و قلم طلب کرنے کا واقعہ جمعرات کے دن کا ہے جیساکہ صحیح بخاری میں بتصریح مذکور ہے اور چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو شنبہ کے دن انتقال فرمایا اس لیے اس واقعہ کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چار دن تک بیمار رہے۔

۳۔  اس تمام مدت بیماری میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت اور کوئی واقعہ اختلال حواس کا کسی روایت میں مذکور نہیں ۔

۴۔  اس واقعہ کے وقت کثرت سے صحابہؓ موجود تھے لیکن یہ حدیث باوجود اس کے کہ بہت سے طریقوں سے مروی ہے (چنانچہ صرف صحیح بخاری میںسات طریقوں سے مذکور ہے) دبایں ہمہ بجز عبداللہ بن عباسؓ کے اور کسی صحابی سے اس واقعہ کے متعلق ایک حرف بھی منقول نہیں۔

۵۔  عبداللہ بن عباسؓ کی عمر اس وقت صرف ۱۳۔۱۴ برس کی تھی۔

۶۔  سب سے بڑھ کر یہ کہ جس وقت یہ واقعہ ہے اس موقع پر عبداللہ بن عباسؓ خود موجودنہ تھے۔ اور یہ معلوم نہیں کہ یہ واقعہ انہوںنے کس سے سنا۔ ۱؎

۷۔  تمام روایتوں میں مذکور ہ کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کاغذ قلم مانگا تو لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہکی ہوئی باتیں کررہے ہیںَ ۲؎

۱ ؎  بخاری باب کتابتہ العلم میں جو حدیث مذکورہے اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اس واقعہ میں موجود تھے۔ اس لیے محدثین نے اس پر بحث کی ہے اور بہ دلائل قطعیہ ثابت کیا ہے کہ وہ موجود نہ تھے۔ دیکھو فتح الباری باب الکتابۃ العلم۔

۲؎  علامہ قرطبی نے یہ تاویل پیش کی ہے اور اس پر ان کو نا زہے کہ لوگوں نے یہ لفظ انکار و استعجاب کے طورپر کہاتھا یعنی یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرنی چاہیے۔ اللہ نہ کرے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاقول ہذیان نہیںتو اس پر لحاظ نہ کیا جائے۔ یہ تاویل لگتی ہوئی ہے لیکن بخاری و مسلم کی بعض روایتوں میں ایسے صاف الفاظ موجود ہیں جن میں اس تاویل کا احتمال نہیں مثلا ہجرا ہجرا(دو دفعہ) یا ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یھجر (صحیح مسلم)

اب سب سے پہلے یہ امر لحاظ کے قابل ہے کہ جب اور کوئی واقعہ یا قریبنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختلا ل حواس کا کہیں کسی روایت میں مذکور نہیںتو صرف اس قدر کہنے کہ قلم دوات لائو۔ لوگوںکو ہذیان کا خیال کیونکر پید ا ہوسکتاتھا؟ فرض کر لو کہ ابنیاء سے ہذیان سرزد ہو سکتا ہے لیک اس کے یہ تو معنی نہیں کہ وہ معمولی بات بھی کہیں تو ہذیان سمجھی جائے۔ ایک پیغمبر کا وفات کے قریب یہ کہنا کہ قلم دوات لائو میں ایسی چیز لکھ دوں کہ تم آئندہ گمراہ نہ ہو۔ اس میں ہذیان کی کیا بات ہے ۱؎ یہ روایت اگر خواہ مخواہ صحیح سمجھی جائے تب بھی اس قدر بہرحال تسلیم کرنا ہو گا کہ راوی نے اس روایت میں وہ واقعت چھوڑ دیے ہی جن سے لوگوں کو یہ خیال پیدا ہو ا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوش میںنہیں ہیں اور بے ہوشی کی حالت میں قلم دوات طلب فرما رہے ہیں۔

پس ایسی روایت سے جس میں کہ راوی نے واقعہ کو نہایت خصوصیتیں چھوڑ کر کسی واقعہ پر کیونکر ستدلل ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ جب ان مور کا لحاظ کیا جائے کہ اتنے بڑے عظیم الشان واقعہ میں تمام صحابہ ؓ میں سے صرف حضرت عبداللہ بن عباسؓ اس کے راوی ہیں اوریہ کہ ان کی عمر اس وقت کل ۱۳۔۱۴ برس کی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خود واقعہ کے موجود نہ تھے تو ہر شخص سمجھ سکتاہے کہ ا س روایت کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ کسی کوتاہ نظر پر یہ امر گراں گزرے کہ بخاری اور مسلم کی حدیث پر شبہ کیاجئئے لیکن اس کو سمجھنا چاہیے کہ بخاری اور مسلم کے کسی راوی کی نسبت یہ شبہ کرنا کہ وہ واقعہ کی پوری ہئیت محفوظ نہ رکھ سکا۔ اس سے کہیں زیادہ آسان ہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت ہذیان اور حضرت عمرؓ کی نسبت گستاخی کا الزام لگایا جائے۔

غرض رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس واقعہ کے بعدچار دن تک زندہ رہے اور اس اثناء میں وقتاً فوقتاً بہت سی ہدایتیں ور وصیتیں فرمائیں۔ عین وفات کے دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حالت اس قدر سنبھل گئی تھی کہ لوگوں کو بالکل صحت کا گمان ہو گیا اور حضرت ابوبکرؓ اسی خیال میں اپنے مکان کوجو مدینہ منورہ سے دومیل پر تھا‘ واپس چلے گئے۔ ۲؎ لیکن حضرت عمرؓ وفات کے وقت تک موجود رہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۱۲ ربیع الاول سنہ ۱۱ ہجری دو شنبہ کے دن دوپہر کے وقت حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں انتقال کیا۔ سہ شنبہ کو دوپہر ڈھلنے پر مدفون ہوئے۔ جماعت اسلا م کو آپ کی وفات سے جو صدمہ ہوا اس کا اندازہ کون کر سکتا ہے؟

۱؎  ہمار ے نکتہ سنجوں نے یہ مضمون آفرینی کی ہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے اس لیے آپ کا یہ فرمان اکہ میں لکھ دوں ہذیان کا قرینہ تھا لیکن ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ لکھنے کے معنی لکھوانے کے بھی آتے ہیں اور یہ  مجاز عموماً شائع اور ذائع ہے۔

۲؎  طبری ص ۱۳‘۱۸

عا م روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ اس قدر خور رفت ہوئے کہ مسجد نبوی میں جا کر اعلان یا کہ جو شخص یہ کہے گا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات  پائی تو اس کو قتل کر ڈالوں گا لیکن اور قرائن اس روایت کی تصدیق نہیںکرتے ۔ہمارے نزدیک چونکہ مدینے میںکثرت سے منافقین کا گروہ موجو د تھا جو فتن پردازی کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا منتظر تھا اس لیے حضرت عمرؓ نے مصلحتاً اس خبر کو پھیلنے سے روکا ہو گا۔ اسی واقعہ نے روایتوں کے تغیرات سے مختلف صورت اختیار کر لی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ صحیح بخاری وغیرہ میں اس قسم کی تصریحات موجود ہیں جو ہمارے اس قیاس کے مطابق نہیں ہو سکتیں۔

سقیفہ بنی ساعدہ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت اور حضرت عمرؓ کا   استخلاف

یہ واقعہ بظاہر تعجب سے خالی نہیں کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنقال فرمایا تو فوراً خلافت کی نزاع پیدا ہو گئی اور اس  بات کا بھی انتظار نہ کیا گیا کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیزوتکفین سے فراغت حاصل کر لی جائے۔ کس کے قیاس میں آ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتقال فرمائیں اور جن لوگوں کو ان سے عشق و محبت کا دعویٰ ہو وہ ان کو بے گوروکفن چھوڑ کر چلے جائیں اور اس بندوبست میںمصروف ہوں کہ مسند حکومت اوروں کے قبضے میں نہ آ جائے۔

تعجب پر تعجب ہے کہ یہ فعل ان لوگوں سے (حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ ) سرزد ہوا جو آسمان اسلام کے مہرو ماہ تسلیم کیے جاتے تھے۔ اس فعل کی ناگواری ا سوقت اور زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فطری تعلق تھا حضرت علی ؓ بنی ہاشم اور ان پر فطرتی تعلق پورا اثر ہوا اور اس وجہ سے ان کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درد و غمم اور تجہیز و تکفین سے ان باتوں کی طرف متوجہ ہونے کی فرصت نہ ملی۔

ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ کتب حدیث و سیر سے بظاہر اسی قسم کا خیال پیدا ہوتا ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیںہے۔ یہ سچ ہے کہ حضرت عمرؓ و ابوبکرؓ وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیز و تکفین چھوڑ کر سقیفہ بنی ساعدہ کو چلے گئے تھے۔ یہ بھی سچ ہے کہ انہوںنے سقیفہ میں پہنچ کرخالفت کے بار یں انصار سے معرکہ آرائی کی۔ اور اس طرح ا کوششوں میں مصروف رہے کہ گویا ان پر کوئی حادثہ پیش ہی نہیں آیا تھا۔ یہ بھی سچہے کہ انہوںنے اپنی خلافت کو نہ صرف انصار بلکہ بنو ہاشم اور حضرت علیؓ سے بھی بزور منواناچاہا۔ گو بنو ہاشم نے آسانی سے ان کی خلافت تسلیم نہیں کی لیکن اس بحث میں غور طلب جو باتیں ہیں وہ یہ ہیں:

۱۔ کیا خلافت کا سوال حضرت عمر ؓ وغیرہ نے چھڑاتھا۔

۲۔  کی یہ لوگ اپنی خواہش سے سقیفہ بنی ساعدہ میں گئے تھے۔

۳۔  کیا حضرت علیؓ اور بنوہاشم خلافت کی فکر سے بالکل فارغ تھے۔

۴۔  ایسی حالت میں جو کچھ حضرت عمرؓ وغیرہ نے کیا وہ کرنا چاہیے تھا یا نہیں؟

دو پہلی بحثوں کی نسبت ہم نہایت مستند کتاب مسند ابو یعلی ۱؎ کے عبارت نقل کرتے ہیں جس سے واقعہ کی کیفیت بخوبی سمجھ میں ا ٓ سکتی ہے۔

بینما نحن فی منزل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا رجل ینادی من وراء الجدار ن اخراج الی یا بن الخطاب فقلت الیک عنی فانا عنک مشاغیل یعنی بامر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال لہ قد حدت امر فان الانصار اجتمعوا فی سقیفہ بنی ساعدۃ فدرکوا ان یحدثوا امرا یکون فیہ حرب فقلت لا بی بکر انطلق

’’حضرت عمر کا بیان ہ کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خانہ مبارک میں بیٹھے تھے کہ دفعتہ دیوار کے پیچھ سے ایک آدمی نے آوا ز دی کہ ابن الخطاب! (حضرت عمرؓ) ذرا باہر آئو میں نے کہا چلو ہٹو ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بندوبست میں مشغول ہیںَ اس نے کہاایک حادثہ پش آیا ہے یعنی انصار سقیقہ بنی ساعدہ میں اکٹھے ہوئے ہں اس لیے جلد پہنچ کر ان کی خبر لو۔ ایسا نہ ہو انصر کچھ ایسی بات کر اٹھی جس سے لڑائی چھڑ جائے اس وقت میں نے ابوبکر ؓ سے کہا کہ چلو‘‘۔

اس سے ظاہر ہو گا کہ نہ حضرت عمرؓ وغیرہ نے خالفت کی بحث کو چھیڑا تھا اور نہ وہ خود اپنی خوشی سے سقیفہ بنی سی ساعیدہ کو جانا چاہتے تھے۔

تیسری بحث کی یہ کیفیت ہے کہ س وقت جماعت اسلامی کے تین گروہوں میں تقسیم کی جا سکتی تھی۔ بنو ہاشم جس میں حضرت علیؓ شامل تھے مہاجرین جن کے رئیس و افسر حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ تھے انسار جن کے شیخ القبیلہ عبادہؓ تھے۔ ان تینوں میں سے ایک گروہ بھی خلافت کے خیال سے خالی نہ تھا۔ انصار نے تو علانیہ اپنا ارادہ اظہار کر دیاتھا۔ بنوہاشم کے خیالات ذیل کی روایت سے معلوم ہوں گے۔

۱؎  دیکھو فتح الباری جلد ۷ ص ۲۳

رسول اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے دن حضرت علیؓ اپنے مکان سے باہر نکلے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزاج کیساہے؟ چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حالت بالکل سنبھل گئی تھی۔ حضرت علی ؓ نے کہا اللہ کے فضل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھے ہو گئے۔ حضرت عباسؓ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ اللہ کی قسم تم تین دن کے بعد غلامی کرو گے۔ میں آنھکوں سے دیکھ رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عنقریب اس مرض میں وفات پائیں گے۔ کیونکہ مجھ کو اس کا تجربہ ہے کہ خاندان عبدالمطلب کا چہرہ موت کے قریب کس طرح متغیرہوجاتا ہے آئو چلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھ لیں کہ آ پ کے بعد یہ منصب (خلافت) کس کو حاصل ہو گا۔ اگر ہم اس کے مستحق ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے وصیت فرما دیں گے حضرت علیؓنے کہا میں نہ پوچھوں گا کیونکہ اگر پوچھنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکار کر دیا تو پھر آئندہ کوئی امید نہ رہے گی ۔ ۱؎۔

اس روایت سے حضرت عباسؓ کا خیال تو صاف معلوم ہوتا ہے۔ حضرت علی ؓ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا اس وقت یقین نہ تھا۔ اس لیے نہوں نے کوئی تحریک کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس کے علاوہ ان کواپنے انتخاب کیے جانے پربھروسہ نہ تھا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت فاطمہؓ کے گھر میں ایک مجمع ہوا جس میں تمام بنو ہاشم اور ان کے اتباع شریک تھے۔ اور حضرت علیؓ ان کے پیشرو تھے صحیح بخار ی میں حضرت عمر ؓ کی زبانی روایت ہے۔

کان من خبرنا حین توفی اللہ نبیۃ ان الانصار خالفونا واجتمعوا باسرھم فی سقیفۃ بنی ساعدۃ وخالف عنا علی والزبیر ومن معھما واجتمع المھا جرون الی ابی بکر ؎۲

’’ہماری سرگزشت یہ ہے کہ جب اللہ نے اپنے پیغمبر کو اٹھا لیا تو انصار نے قاطبہ ہماری مخالفت کی اور سقیقہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور علی و زبیرؓ اور ان ے ساتھیوں نے مخالفت کی اور مہاجرین ابوبکرؓ کے پاس جمع ہوئے‘‘۔

۱؎  صحیح بخاری باب مرض البنی مع فتح الباری

۲؎  صحیح بخاری کتاب الحدود باب رجم الحبلی

یہ تقریر حضرت عمر ؓ نے ایک بہت بڑے مجمع عام میں کی تھی جس میں سینکڑوں صحابہ ؓ موجودتھے اس لیے اس بات کا گمان نہیں ہو سکتا کہ انہوںنے کوئی امر خلاف واقع کہا ہو ورنہ لوگ ان کو وہیں ٹوکتے۔ امام مالک ؒ کی روایت میں یہ واقع اور صاف ہو گیا ہے اس کے یہ الفاظ ہیں۔

وان علیا والزبیر ومن کان معھما تخلفوا فی بیت فاطمۃ بنت رسول اللہ؎۱

’’اور علی و زبیر ؓ اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے وہ حضرت فاطمہ زہراؓ کے گھر میں ہم سے الگ ہو کر جمع ہوئے‘‘۔

تاریخ طبری میں ہے:

وتخلف علی والزبیر واخترط الزبیر سیفہ وقال لا اغمدہ حتی بیایع علی؎۲

’’اور حضرت علیؓ و حضرت زبیرؓ نے علیحدگی اختیار کی اور زبیرؓ نے تلوار میان سے کھینچ لی اور کہا کہ جب تک علی ؓ کے ہاتھ پر بیعت نہ کی جائے میں تلوار کو میان میں نہ ڈالوں گا‘‘۔

ان تمام روایتوں سے صاف یہ نتائج نکلتے ہیں کہ:

۱۔  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی خلافت کے باب میں تین گروہ ہو گئے۔ انصار‘ مہاجرین اور بنو ہاشم۔

۲۔  مہاجرین حضرت ابوبکر ؓ اور بنو ہاشم حضرت علیؓ کے ساتھ تھے۔

۳۔  جس طرح حضرت عمرؓ وغیرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر سقیفہ کو چلے گئے تھے ‘ حضرت علیؓ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس چلے آئے تھے اور حضرت فاطمہؓ کے گھر میں بنو ہاشم کامجمع ہوا۔

سقیفہ میں حضرت علیؓ کا نہ جانا‘ اس وجہ سے نہ تھا کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غم والم میں مصروف تھے اور ان کو ایسے پردرد موقع پر خلافت کا خیال نہیں آ سکا تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ سقیفہ میں مہاجرین اور انصار جمع تھے اور ان دونوں گروہ میں سے کوئی حضرت علیؓ کے دعوے کی تائید نہ کر تا کیونکہ مہاجرین حضرت ابوبکرؓ کو پیشوا تسلیم کرتے تھے اور انصار کے رئیس سعد بن عباد ؓ تھے۔

۱؎  فتح الباری : شرح حدیث مذکور

۲؎  تاریخ طبری: ص ۱۸۲۰

اخیر بحث یہ ہے کہ جو کچھ ہواوہ بے جا تھا یا بجا؟ اس کو ہر شخص جوذرا بھی اصول تمدن سے واقفیت ہو بآسانی سمجھ سکتاہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس وقت وفات فرمائی مدینہ منورہ منافقو ں سے بھرا پڑا تھا‘ جو مدت سے اس بات کے منتظر تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ اٹھ جائے تو اسلام کوپامال کردیں۔ اس نازک وقت میں آیا یہ ضروری تھا کہ لوگ جزع و فزع اور گریہ و زاری میںمصروف رہیں یا یہ کہ فوراً خلافت کاانتظام کر لیاجائے اور ایک منظم حالت قائم ہو جائے۔ انصار نے اپنی طرف سے خلافت کی بحث چھیڑ کر حالت کو نازک کر دیا۔ کیونکہ قریش جو انصار کو اس قدر حقیر سمجھتے تھے کہ جگ بدر میں جب انصار ان کے مقابلے کو نکلے تو عتبہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ناجنسوں سے نہیں لڑتے کسی طرح انصار کے آگے سر تسلیم خم نہیں کر سکتے۔ قریش پر کیا موقوف ہے تمام عرب کوانصار کی متابعت سے انکار نہیں ہوتا۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے سقیفہ میں جو خطبہ دیا اس میںصاف اس خیال کو ظاہر کیا اور ان سے کہا:

وان العرب لا تعرف ھذا الامر الا لھذا لحی من قریش

اس کے علاوہ انصار میں خو د دو گروہ تھے۔ اوس اور خزرج اوران میں باہم اتفاق نہ تھا۔ اس حالت میں ضرور تھا کہ انصار کے دعویٰ خلافت کو دبا دیا جائے اور کوئی لائق شخص فوراً منتخب کر دیا جائے۔ مجمع میں جو لوگ موجود تھے‘ ان میں سب سے بااثر اور بزرگ اورمعمر حضرت ابوبکرؓ تھے اور فوراً ان کا انتخاب بھی ہو جاتا لیکن لوگ انصار کی بحث و نزاع میں پھنس گئے تھے۔ اور بحث طول پکڑ کر قریب تھا کہ تلواریں میان سے نکل آئیں۔ حضرت عمرؓ نے یہ رنگ دیکھ کر دفعتہ حضرت ابوبکر ؓ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا کہ سب سے پہلے میں بیعت کرتا ہوں۔ ساتھ ہی حضرت عثمانؓ ابوعبیدہ بن جراح‘ عبدالرحمن بن عوفؓ نے بھی ہاتھ بڑھائے ۱؎ اور پھر عام خلقت ٹوٹ پڑی اس کارروائی سے ایک اٹھتا ہوا طوفان رک گیا اور لوگ مطمئن ہو کر کاروبار میں مشغول ہو گئے۔ صرف بنو ہاشم اپنے ادعا پر رکے رہے اور حضرت فاطمہؓ کے گھر میں وقتاً فوقتاً جمع ہو کر مشورے کرتے رہتے تھے۔ حضر ت عمرؓ نے بزور ان سے بیعت لینا چاہی لیکن بنو ہاشم حضرت علیؓ کے سوا اور کسی کے آگے سر نہیں جھکا سکتے تھے۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور علامہ طبری نے تاریخ کبیر میں روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت فاطمہؓ کے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا کہ یا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی قسم آپ ہم سب کو سب سے زیادہ محبوب ہیں تاہم اگر آپ کے ہاں لوگ اس طرح مجمع کرتے رہے تو میں ان لوگوں کی وجہ سے گھر میں آ گ لگا دوں گا۔ اگرچہ سند کے اعتبار سے اس روایت پر ہم اپنا اعتبار ظاہر نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اس روایت میں رواۃ کے حال ہم کو معلوم نہیں ہو سکا‘ تاہم درایت کے اعتبار سے اس واقعہ سے انکار کی کوئی وجہ نہیں۔ حضرت عمرؓ کی تندی او ر تیز مزاجی سے یہ حرکت کچھ بعید نہیں۔

۱؎  ابن الماوردی نے الاحکام السلطانیہ میں لکھا ہے کہ اول صرف پانچ شخصوں نے بیعت کی تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ اس نازک وقت میں حضرت عمرؓ نے نہایت تیزی اور سرگرمی کے ساتھ جو کارروائیاں کیں ان میں گو بعض بے اعتدالیاں پائی جاتی ہوں لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ انہی بے اعتدالیوں نے اٹھتے ہوئے فتنوں کو دبا دیا۔ بنوہاشم کی سازشیں اگرقائم رہتیں تو اسی وقت جماعت اسلامی کا شیرازہ بکھر جاتا اور وہی خانہ جنگیاں برپا ہوتیں جو آگے چل کر جناب امیر المومنین حضرت علی ؓ اور امیر معاویہؓمیں واقع ہوئیں۔

حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کی مدت سوا دوبرس ہے۔ کیونکہ انہوںنے جمادی الثانی ۱۳ ھ میں انتقال کیا۔ اس عہد میں اگرچہ جس قدر بڑے بڑے کام انجام دیے‘ حضرت عمرؓ ہی کی شرکت سے انجام پائے۔ تاہم ان واقعات کو ہم ’’الفاروق‘‘ میں نہیں لکھ سکتے کیونکہ وہ پھر بھی عہد صدیقی کے واقعات ہیںاور اس شخص کاحصہ ہیں جس کو حضرت ابوبکرؓ کی سوانح عمری لکھنے کا شر ف حاصل ہو۔

حضرت ابوبکرؓ کو اگرچہ مدتوں کے تجربہ سے یقین ہو گیا تھا کہ خلافت کا بارگرا ں حضرت عمرؓ کے سوااور کسی سے نہیں اٹھ سکتا۔ تاہم وفات کے قریب قریب انہوںنے عام رائے کا اندازہ کرنے کے لیے اکابر صحابہؓ سے مشورہ کیا۔ سب سے پہلے عبدالرحمن بن عوفؓ کو بلا کر پوچھا۔ انہوںنے کہا کہ عمرؓ کی قابلیت میںکیا کلام ہے لیکن مزاج میں سختی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا ان کی سختی اس لیے تھی کہ میں نرم تھا۔ جب کام انہی پر آ پڑے گا تو وہ خو د بخود نرم ہوجائیں گے۔ پھر حضرت علی ؓ عثمانؓ کو بلا کر پوچھا۔ انہوںنے کہا کہ میں اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ عمرؓ کا باطن ظاہر سے اچھا ہے اور ہم لوگوں میں ان کا جواب نہیں۔ جب اس بات کے چرچے ہوئے کہ حضرت ابوبکر ؓ حضرت عمرؓ کو خلیفہ کرنا چاہتے ہیں تو بعضوں کو تردد ہوا۔ چنانچہ طلحہؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ آپ کے موجود ہوتے ہوئے عمرؓ کا ہم لوگوں کے ساتھ کیا برتائو تھا؟ اب وہ خود خلیفہ ہوں گے تونہ جانے کیا کریں گے۔ آپ اب اللہ کے ہا ں جاتے ہیں یہ سوچ لیجیے کہ اللہ کو کیا جواب دیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میں اللہ سے کہوں گا کہ میں نے تیرے بندوں پر اس شخص کو مقرر کیا ہے جو تیرے بندوں میںسب سے زیادہ اچھا تھا۔ یہ کہہ کر حضرت عثمانؓکوبلایا اور عہد نامہ خلافت لکھوانا شروع کیا۔ ابتدائی الفاظ لکھوا چکے تھے کہ غش آ گیا۔ حضرت عثمانؓ نے یہ دیکھ کر یہ الفاظ اپنی طرف سے لکھ دیے۔ کہ میں عمرؓ کو خلیفہ مقرر کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد ہوش آیا تو حضرت عثمانؓ سے کہا کہ کیا لکھا مجھ کو سنائو۔ حضرت عثمانؓ نے پڑھا تو بے ساختہ اللہ اکبر پکار اٹھے اور کہا کہ اللہ تم کو جزائے خیر دے۔ عہد نامہ لکھا جا چکا تو حضرت ابوبکرؓ نے اپنے غلام کو دیا کہ جا کر مجمع عام میں سنائے پھر خود بالا خانہ پر جا کر لوگوں سے جو نیچے جمع تھے مخاطب ہو ئے اور کہا کہ میں نے اپنے کسی بھائی بند کو خلیفہ مقرر نہیںکیا بلکہ عمرؓ کو مقرر کیا ۔ تم لوگ اس پر راضی ہو؟ سب نے سمعنا و اطعنا کہا پھر حضرت عمرؓ کو بلا کر نہایت موثر اور مفید نصیحتیں کیں جو حضرت عمرؓ کے لیے عمدہ دستور العمل کی جگہ کام آئیں۔