بسم اللہ الرحمن الرحیم
حصہ اول
ای ہمہ در پردہ نہاں راز تو بی خبر انجام ز آغاز تو
الحمد اللہ رب العالمین والصلا ۃ علی رسولہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین
تمہید: تاریخ کا عنصر
تمدن کے زمانے میں جو علو م و فنون پیدا ہوجاتے ہیں ان میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جن کا ہیولیٰ پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ تمدن کے زمانے میں وہ ایک موزوں قالب اختیار کر لیتاہے اور پھر ایک خاص نام یا لقب سے مشہور ہو جاتا ہے۔ مثلاً استدلال اور اثبات مدعا کے طریقے ہمیشہ سے موجود تھے اور عام و خاص سب ان سے کام لیتے تھے لیکن جب ارسطو نے ان جزئیات کو ایک خاص وضع سے ترتیب دیا تو اس کا نام منطق ہو گیا اور وہ ایک مستقل فن بن گیا۔ تاریخ و تذکرہ بھی اسی قس کا فن ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں انسانوں کا کوئی گروہ موجود تھا تاریخ و تذکرے بھی ساتھ ساتھ تھے کیونکہ فخر و ترجیح کے موقعو ں پر لوگ اپنے اسلاف کے کارنامے خواہ مخواہ بیان کرتے تھے۔ تفریح اورگریم صحبت کے لیے مجالس میں پچھلی لڑائیوں کا ذکر ضرور کیا جاتا تھا ۔ باپ دادا کی تقید کے لیے پرانی عادات و رسوم کی یادگاریں خواہ مخواہ قائم رکھی جاتی تھیں اوریہی چیز تاریخ و تذکرہ کا سرمائع ہیں۔ اس بنا پر عرب عجم ‘ ترک‘ تاتار‘ ہندی‘ افغانی‘ مصری اور یونانی غرض دنیا کی تمام قومیں فن تاریخ کی قابلیت میں ہمسری کا یکساں دعویٰ کر سکتی ہیں۔
عرب کی خصوصیت
لیکن اس عموم میں عرب کو ایک خصوصیت خاص حاصل تھی۔ عرب میں بعض خاص خاص باتیں ایسی پائی جاتی تھیں جن کو تاریخٰ سلسلے سے تعلق تھا۔ جو اور قوموں میں نہیں پائی جاتی تھیں ۔ مثلاً انساب کا چرچا جس کی کیفیت یہ تھی کہ بچہ بچہ اپنے آبائو اجداد کے ام اور ان کے رشتے ناطے دس د س بارہ بارہ پشتوں تک محفوظ رکھتا تھا۔ یہاں تک کہ انسانوں سے گزر کر گھوڑوں اور اونٹوں کے نسب نامے محفوظ رکھے جاتے تھے یا ایام العرب جس کی بدولت عکاظ کے سالانہ میلے میں قومی کارناموں کی روایتیں سلسلہ بسلسلہ ہزاروں لاکھو ں آدمیوں تک پہنچ جاتی تھیں یا شاعری جس کا یہ حال تھا کہ اونٹ چرانے والے بدو جن کو لکھنے پڑھنے سے کوئی سروارک نہ تھا اپنی زبا ن آوری کے سامنے تمام عالم کو ہیچ سمجھتے تھے۔ اور حقیقت جس سادگی اور اصلیت کے ساتھ وہ واقعات اور جذبات کی تصویر کھینچ سکتے تھے دنیا میں کسی قوم کو یہ بات کبھی نصیب نہیں ہوئی۔
عرب میں تاریخ کی ابتدا
اس بنا پر عرب میں جب تمدن کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے تاریخی تصنیفات وجود میں آئیں۔ اسلام سے بہت پہلے پادشاہان حیرہ نے تاریخی واقعات قلمبند کررائے اور وہ مدت تک محفوظ رہے۔ چنانچہ ابن ہشام نے کتاب التیجان میںتصرح کی ہے کہ میں نے ان تالیفات سے فائدہ اٹھایا۔ اسلام کے عہد میں زبانی روایتوں کا ذخیرہ ابتدا ہی میں پیدا ہو گیا تھا لیکن چونکہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ عموماً ایک مدت کے بعد قائم ہوا۔ اس لیے کوئی خاص کتاب ا س فن میں نہیںلکھی گئی لیکن جب تالیفات کا سلسلہ شروع ہوا تو سب سے پہلی کتاب جو لکھی گئی تاریخ کے فن میں تھی۔
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ المتوفی ۶۰ھ کے زمانے میں عبید بن شربہ ایک شخص تھا جس نے جاہلیت کا زمانہ دیکھا تھا اور اس کو عرب و عجم کے اکثر معرکے یاد تھے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کا صنعاء سے بلایا اور کاتب اور محرر متعین کیے کہ جو کچھ وہ بیان کرتا جائے قلم بند کرتے جائیں۔ علامہ ابن الندیم نے کتاب الفہرست میںاس کی متعدد تالیفات کا ذکر کیا ہے‘ جن میں سے ایک کتاب کا نام کتاب الملوک و اخبار المضامین لکھا ہے ۔غالباً یہ وہی کتاب ہے جس کا مسودہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حکم سے تیار ہوا تھا۔ عبید بن شربہ کے بعد عوانتہ بن الحکم المتوفی ۱۴۷ھ کا نام ذکر کر کے قابل ہے جو اخبار واناب کا بڑا ماہر تھا۔ اس نے عام تاریخ کے علاوہ خاص بنو امیہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حالات میں ایک کتاب لکھی ۔ سنہ ۱۱۷ہجری میں ہشام بن عبدالملک کے حک سے عجم کی نہایت مفصل تاریخ کا ترجمہ پہلو سے عربی میں کیا گیا اور یہ پہلی کتاب تھی جو غیر زبان سے عربی میںترجمہ کی گئی۔
سیرۃ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے پہلی تصنیف
۱۴۳ھ میں جب تفسیر حدیث اور فقہ وغیرہ کی تدوین شروع ہوئی تو اور علوم کے ساتھ تاریخ و رجال میں بھی مستقل کتابیں لکھی گئیں۔ چنانچہ محمد بن اسحاق المتوفی ۱۵۱ھ نے منصور عباسی کے لیے خاص سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک کتاب لکھی جو آج بھی موجود ہے۔ ہمارے مورخین کا دعویٰ ہیکہ فن تاریخ کی یہ پہلی کتاب ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ اس سے پہلے موسیٰ بن المتوفی ۱۴۱ھ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مغازی قلم بند کیے تھے۔ موسیٰ نہایت ثقہ اور محتاط شخص تھے اورصحابہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ پایا تھا۔ اس لیے ان کی یہ کتاب محدثین کے دائرے میںبھی عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔
اس کے بعد فن تاریخ نے نہایت ترقی کی اور بڑے بڑ ے نامور مورخ پیدا کیے۔ ج میں ابو مخنف کلبی‘ و اقدی زیادہ مشہور ہیں۔ ان لوگوں نے نہایت عمدہ اور جدید عنوانوں پر کتابیں لکھیں ۔ مثلا ً کلبی نے افواج اسلام ‘ قریش کے پیشے‘ قبائل عرب کے مناظرات ‘ جاہیت اور اسلام کے احکام کا توارد۔ ان مضامین پر مستقل رسالے لکھے۔
رفتہ رفتہ اس سلسلے کو نہایت وسعت ہوئی یہاں تک کہ چوتھی صدی تک ایک دفتربے پایاں تیار ہو گیا اور بڑی خوبی کی بات یہ تھی کہ ہر صاحب قلم کا موضوع اور عنوان جدید تھا۔
قدیم مورخین
اس دور میں بے شمار مورخ گزرے۔ ان میں جن لوگوں نے التخصیص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہ کے حالات میں کتابیں لکھیں۔ ان کی مختصر سی فہرست یہ ہے۔
نام مصنف تصنیف کیفیت
1- نجیح مدنی غزوات نبویؐ
2- نصر بن مزاحم کوفی کتاب الجمل حضرت علی رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہ کی لڑائی کا حال
3- سیف بن عمر الاسدی کتاب الفتوح الکبیر نہایت مشہور مورخ ہے
4- معمر بن راشد کوفی کتاب المغازی امام بخاری کے استاد الستاذ تھے
5- عبداللہ بن سعد زہری المتوف ۳۸۰ھ فتوحات خالد بن ولید
6- ابوالبختری وہب بن وہب ۲۰۰ھ میں انتقال کیا۔ کتاب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و کتاب فضائل الانصار
7- ابو الحسن علی بن محمد بن عبداللہ المدائنی المتوفی ۳۲۴ھ اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفا ء کے حالات میں کثرت سے کتابیں لکھیں اورنئے نئے عنوان اختیار کیے۔
8- احمد بن حارث خزاز کتاب المغازی ‘ اسماء الخلفاء کتابہم مدائنی کا شاگرد تھا۔
9- عبدالرحمن بن عبدہ مناقب قریش نہایت ثقہ اور معتمد مورخ تھا
10- عمر بن شبہ المتوفی ۲۶۲ھ کتاب امراء الکوفہ و کتاب امراء البصرۃ مشہور مورخ تھا۔
قدما کی جو تصنیفات آج موجود ہیں
اگرچہ یہ تصنیفات آج ناپید ہیں لیکن اورکتابیں جو اسی زمانے میں لکھی گئیں یا اس کے بعد قریب تر زمانے میں لکھی گئیں ان میں ان تصنیفات کا بہت کچھ سرمایہ موجود ہے۔ چنانچہ ہم ان کے نام ان کے مصنفین کے نام کے عنوان سے لکھتے ہیں۔
1- عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ المتولد ۲۱۳ھ المتوفی ۲۷۶ھ یہ نہایت نامور مورخ اور مستند مصنف ہے۔ محدثین بھی اس کے اعتماد اور اعتبر کے قائل ہیں۔ تاریخ میں اس کی مشہور کتاب ’’معارف‘‘ ہے جو مصر وغیرہ میں چھپ کر شائع ہو چکی ہے۔ یہ کتاب اگرچہ نہایت مختصر ہے لیکن اس میں ایسی مفید معلومات ہیں جو بڑی بڑی کتابوں میں نہیں ملتیں۔
2- احمد بن دائو د ابو حنیفہ دنیوری المتوفی سنہ ۲۸۱ھ یہ بھی مشہور مصنف ہے۔ تاریخ میں اس کی کتاب کا نام الاخبار الطوال ہے۔ اس میں خلیفہ معتصم باللہ تک کے حالات ہیں۔ خلفاء راشدین کی فتوحات میں سے عجم کی فتح کو تفصیل سے لکھا ہے یہ کتاب یورپ میں بمقام لیدن ۱۸۸۸ہجری میں چھپی ہے۔
3- محمد بن سعد کاتب الواقدی المتوفی ۲۳۰ھ نہایت ثقہ اورمعتمد مورخ ہے۔ اگرچہ اس کا استاد واقدی ضعیف الراویۃ ہے لیکن خود اس کے ثقہ ہونے میں کسی کو کلام نہیں۔ اس نے ایک کتاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ و تابعین و تبع تابعین کے حالات میں نہایت بسط و تفصیل سے دس بارہ جلدوں میں لکھی ہے اور تمام واقعات کو محدثانہ طور پر بسند صحیح لکھا ہے۔ یہ کتاب طبقات بن سعد کے نا م سے مشہور ہے۔ میں نے اس کا قلمی نسخہ دیکھا ہے۔ اب جرمن میں بڑے اہتمام سے چھپ رہی ہے۔
4- احمد بن ابی یعقوب بن واضح کاتب عباسی۔ یہ تیسری صدی کا مورخ ہے مجھ کو اس کے حالات رجال کی کتابوں میں نہیں ملے۔ لیکن اس کی کتاب خود شہادت دیتی ہے کہ وہ بڑے پایہ کا مصنف تھا۔ چونکہ اس کو دولت عباسیہ کے دربار سے تعلق تھا اس لیے تاریخ کا اچھا سرمایہ بہم نہ پہنچا سکا اس کی کتاب جو تاریخ یعقوبی کے نام سے مشہور ہے یورپ میں بمقام لیدن ۱۸۸۳ء میں چھاپی گئی ہے۔
5- احمد بن یحییٰ البلاذری المتوفی ۲۷۹ھ ابن سعد کا شاگرد اور المتوکل باللہ عباسی کا درباری تھا۔ اس کی وسعت نظر اور صحت روایت محدثین کے گروہ میں بھی مسلم ہے۔ تاریخ و رجال میں اس کی دو کتابیں مشہور ہیں فتوح البلدان انساب الاشراف۔ پہلی کتاب کا یہ طرز ہے کہ بلاد اسلامیہ میں سے ہر ہر صوبہ یا ضلع کے نام سے الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں اوران کے متعلق ابتدائے فتح سے اپنے عہد کت کے حالات لکھے ہیں۔ دوسری کتاب تذکرے کے طورپر ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حالات بھی ہیں۔ فتوح البلدان یورپ میں نہایت اہتمام کے ساتھ چھپی ہے اور الانساب لاشراف کا قلمی نسخہ‘ قسطنطیہ میں میری نظر سے گزرا ہے۔
6- ابوجعفر محمد بن جریر الطبری المتوفی ۳۱۰ھ یہ حدیث و فقہ کے امام مانے جاتے ہیںَ چنانچہ آئمہ اربعہ کے ساتھ لوگوں نے ان کو مجتہدین کے زمرہ میں شمار کیا ہے ۔ تاریخ میںانہوںنے ایک نہایت مفصل اور بسیط کتاب لکھی جو ۱۳ضخیم جلدوںمیں ہے اور یورپ میںبمقام لیڈن نہایت صحت اور اہتمام کے ساتھ چھپی ہے۔
7- ابو الحسن علی بن حسین مسعودی المتوفی ۳۸۶ھ فن تاریخ کاامام ہے۔ اسلام میں آج تک اس کے برابر کوئی وسیع النظر مورخ پیدا نہیں ہوا۔ وہ دنیا کی قوموں کی تواریخ کا بھی بہت بڑا ماہر تھا۔ اس کی تمام تاریخی کتابیں ملتیں تو کسی اور تصنیف کی کچھ حاجت نہ ہوتی لیکن افسوس ہے کہ قوم کی بد مذاقی سے اس کی اکثر تصنیفات ناپید ہو گئیں ۔ یورپ نے بڑی تلاش سے دو کتابیں مہیا کیں۔ ایک مروج الذہب اور دوسری کتاب الاشراف والتنبیہ مروج الذہب مصر میں چھپ گئی ہے۔
مورخین کا دور
یہ تصنیفات جس زمانے کی ہیں وہ قدماء کا دور کہلاتاہے۔ پانچویں صدی کے آغاز سے متاخرین کا دور شروع ہوتا ہے۔ جو فن تاریخ کے تنزل کا پہلا قدم ہے۔ متاخرین میں اگرچہ بے شمار مورخ گزرے جن میں سے ابن الاثیر سیمعانی ذہبی ابو الفدا ‘ نویری‘ سیوطی وغیرہ نے نہایت شہرت حاصل کی لیکن افسو س ہے کہ ان لوگوں نے تاریخ کے ساتھ من حیث الفن کوئی احسان نہیں کیا۔
قدما کی خصوصیتیں
قدماء کی جو خصوصیات تھیں کھودیں اور خود کوئی نئی بات پیدا نہیں کی‘ مثلاً قدماء کی ای یہ خصوصیت تھی کہ ہر تصنیف نئی معلومات پر مشتمل ہوتی تھی۔ متاخرین نے یہ طرز اختیار کیا کہ کوئی قدیم تصنیف سامنے رکھ ی اوربغیر اس میں کچھ اضافہ کر سکیں تغیر اوراختصار کے ساتھ اس کا قابل بدل دیا۔ تاریخ ابن الاثیر کو علامہ ابن خلکان نے من خیار التواریخ کہا ہے اور درحقیقت اس کی قبولیت عام نے قدیم تصنیفیں ناپید کر دیں لیکن جہاںتک زمانے کا اشتراک ہے ایک بات بھی اس میں طبری سے زائد نہیںمل سکتی۔ اسی طرح ابن الاثیر کے بعد جو لوگ پیدا ہوئے انہوں نے اپنی تصنیف کا مدار صرف ابن الاثیر پر رکھا وھلم جرا
اس سے بڑ ھ کر یہ کہ متاخرین نے قدماء کی کتابوں کا جو اختصار کیا اس طرح کیا کہ جہاں جو بات چھوڑ دی وہی اس تمام واقعہ کی روح تھی۔ چنانچہ ہماری کتاب کے دوسرے حصے میںاس کی بہت سی مثالیںآئیں گی۔
قدماء میں ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ تمام واقعات کو حدیث کی طرح بسند متصل نقل کرتے تھے۔ متاخرین نے یہ التزام بالکل چھوڑ دیا۔ ایک اورخصوصیت قدماء میں یہ تھی کہ وہ گرچہ کسی عہد کی معاشرت و تمدن پر جدا عنوان نہیں قائم کرتے تھے لیکن ضمناً ان جزئیات کو لکھ جاتے تھے جن سے تمدن و معاشرت کا کچھ کچھ پتا چلتا تھا۔ متاخرین نے یہ خصوصیت بھی قائم نہ رکھی۔
لیکن اس عام نکتہ چینی میں ابن خلدون کا نام شامل نہیں ہے ۔ اس نے فلسفہ تاریخ کا فن ایجاد کیا اور اس پر نہ صرف متاخرین بلکہ مسلمانوں کی کل قوم ناز کر سکتی ہے۔ اسی طرح اس کا شاگرد علامہ مقریزی بھی نکتہ چینی کی بجائے مدح و ستائش کا مستحق ہے۔
بہرحال الفاروق کی تالیف کے لیے جو سرمایہ کام آ سکتا تھا۔ وہ یہی قدما کی تصنیفات تھیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخ و تذکرہ کے فن نے آج جو ترقی کی ہے اس کے لحاظ سے یہ بے بہا خزانے بھی چنداں کارآمدنہیں۔ اس اجمال کی تفصیل سمجھنے کے لیے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ فن تاریخ کی ماہیت اور حقیقت کیا ہے۔
تاریخ کی تعریف
تاریخ کی تعریف ایک بڑے مصنف نے یہ کی ہے کہ فطرت کے واقعات نے انسان کے حالات میں جو تغیرات پیدا کیے ہیں اور انسان نے عالم فطرت پر جو اثر ڈالا ہے ان دونوں کے مجموعہ کا نام تاریخ ہے۔ ایک اور حکیم نے یہ تعریف کی ہے ’’ان واقعات اور حالات کا پتالگانا جن سے یہ دریافت ہو کہ موجودہ زمانہ گزشتہ زمانے سے کیونکر بطور نتیجہ کے پیدا ہو گیا ہے۔ ‘‘ یعنی چونکہ یہ مسلم ہے کہ آج دنیا میں جو تمدن معاشرت خیالات مذاہب موجود ہیں سب گزشتہ واقعات کے نتائج ہیں جو خواہ مخواہ ان سے پیدا ہونے چاہیے تھے۔ اس لیے ان گزشتہ واقعات کا پتا لگانا اور ان کو اس طرح ترتیب دینا جس سے ظاہر ہو کہ موجودہ واقعہ گزشتہ واقعات سے کیونکر پیدا ہو ا اسی کا نام تاریخ ہے۔
تاریخ کے لیے کیا کیا چیزیں لازم ہیں؟
ان تعریفات کی بنا پر تاریخ کے لیے د و باتیں لازمی ہیں۔ ایک یہ کہ جس عہد کا حال لکھا جائے اس زمانے کے ہر قسم کے واقعات قلم بند کیے جائیں۔ یعنی تمدن معاشرت‘ اخلاق ‘ عادات‘ مذہب ہر چیز کے متعلق معلومات کا سرمایہ مہیا کیا جئے۔ دوسرے یہ کہ تمام واقعات میں سبب اور مسبب کا سلسلہ تلاش کیا جائے۔
قدیم تاریخوں کے نقص اور اس کے اسباب
قدیم تاریخوں میں یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں۔ رعایات کے اخلاق و عادات اورتمدن ومعاشرت کا تو سرے سے ذکر ہی نہیں آتا۔ فرمانروائے وقت کے حالات ہوتے ہی لیکن اس میں بھی فتوحات اور خانہ جنگیوں کے سوا ور کچھ نہیں ہوتا۔ یہ نقص اسلامی تاریخوں تک محدود نہیں بلکہ کل ایشیائی تاریخوں کا یہی انداز تھا اور ایسا ہونا مقتضائے انصاف تھا۔ ایشای میںہمیشہ شخصی سلطنتوں کا رواج رہا ہے اور فرمانروائے وقت کی عظمت و اقدار کے آگے تمام چیزیں ہیچ ہوتی تھیں۔ ا س کا لازمی اثر تھا کہ تاریخ کے صفحوں میں شاہی عظمت و جلال ک سوا اور کسی چیز کا ذکر نہ آئے اور چونکہ اس زمانے میں قانون اور قاعدہ جو کچھ تھا بادشاہ کی زبان تھی۔ اس لیے سلطنت کے اصول اور آئین کا بیان کرنا بھی گویا بے فائدہ تھا۔
واقعات میں سلسلہ اسباب پر توجہ نہ کرنے کا بڑ ا سبب ی ہوا کہ فن تاریخ ہمیشہ کے ان لوگوں کے ہاتھ میں رہا جو فلسفہ اورعقلیات سے آشنا نہ تھے۔ اس لیے فلسفہ تاریخی کے اصول و نتائج پر ان کی نظر نہیں پڑ سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث و سیر میں روایت کا پلہ ہمیشہ درایت پر بھاری رہا۔ بلکہ انصاف یہ ہے کہ درایت سے جس قدر کام لیاگیا ہے نہ لیے جانے کے برابر تھا۔ اخیر اخیر میںابن خلدون نے فلسفہ تاریخ کی بنیاد ڈالی اور اس کے اصول و آئین منضبط کیے۔ لیکن اس کو س قدر فرصت نہ ملی کہ اپنی تاریخ میں ان اصولوں سے کام لے سکتا۔ اس کے بعد مسلمانوں میں علمی تنزلی کا ایسا سلسلہ قائم رہا کہ کسی نے پھر اس طرح خیال بھی نہ کیا۔
ایک بڑا سبب جس کی وجہ سے تاریخ کا فن نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ تمام قوموں میں نا تمامی رہا یہ ہے کہ تاریخ میں جو واقعات مذکور ہوتے ہیں۔ ان کو مختلف فنون سے رابطہ ہوتاہے مثلاًلڑائی کے واقعات فن حرب سے انتظامی امور قانون سے اخلاقی تذکرے علم الاخلاق سے تعلق رکھتے ہیں۔ مورخ اگر ان تما م علوم کا ماہر ہو تو واقعات کو علمی حیثیت سے دیکھ سکتا ہے ورنہ اس کی نظر اسی قسم کی سرسری اور سطحی ہو گی جیسی کہ ایک اعامی کی ہو سکتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ گر کسی عمدہ عممارت پر ایک ایسے واقعہ نگار انشاء پرداز کا گزر ہو جو انجینئری کے فن سے ناواقف ہے تو گووہ اس عمارت کا بیا ن ایسے دل کش پیرائے میں کر دے گا جس سے عمارت کی رفعت اور وسعت اور ظاہری حسن و خوبی کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جائے لیکن اگر اس کے بیان میں خاص انجینئری کے علمی اصول اور اس کی باریکیاں ڈھونڈی جائیں تو نہ مل سکیں گی۔ یہی سبب ہے کہ تاریخوں میں حالات جنگ کے ہزاروں صفحے پڑ ھ کر بھی فن جنگ کے اصول پر کوئی معتدبہ اطلاع حاصل نہیں ہوتی۔
انتظامی امور کے ذکر میں قانونی حیثیت کا اسی وجہ سے پتہ نہیں لگتا کہ مورخین خود قانون دان نہ تھے۔ اگر خوش قسمتی سے تاریخ کا فن ان لوگوں کے ہاتھ میں رہا ہوتا جو تاریخ کے ساتھ فن جنگ اصول قانون‘ اصول سیاست ‘ علم الاخلاق سے بھی آشنا ہوتے تو آج یہ فن کہاں سے کہاں تک پہنچا ہوتا۔
یہ بحث تو اس لحاظ سے تھی کہ قدیم تاریخوں میں تمام ضروری واقعات مذکور نہیںہوتے اورجس قدر ہوتے ہیں ان میں اسباب و علل کا سلسلہ نہیںملتا لیکن ان کے علاوہ ایک اور ضروری بحث ہے وہ یہ ہے کہ جو واقعات مذکور ہیں خود ان کی صحت پر کہاں تک اعتبار ہو سکتا ہے؟
واقعات کی صحت کا معیار
واقعات جانچنے کے صرف دو طریقے ہیں روایت اور درایت
۱۔ روایت سے یہ مراد ہے کہ جو واقعہ بیان کیاجائے اس شخص کے ذریعے بیان کیا جائے جو خود اس واقعہ میں موجود تھا اور اس سے لے کر اخیر راوی تک روایت کا سلسلہ متصل بیان کیا جائے۔ اس کے ساتھ تمام راویوں کی نسبت تحقیق کی جائے کہ وہ صحیح الروایۃ اور ضابط تھے یا نہیں۔
۲۔ درایت سے مراد یہ ہے کہ اصول عقلی سے واقعہ کی تنقید کی جائے۔
روایت
اس امر پر مسلمان بے شبہ فخر کر ستے ہیں کہ روایت کے فن کے ساتھ انہوںنے جس قدر اعتنا کیا کسی قوم نے نہیں کیا تھا۔ انہوںنے ہر قسم کی روایتوں میںمسلسل سند کی جستجو کی اور راویوں کے حالات اس تفحص اور تلاش سے بہم پہنچائے کہ اس کوایک مستقل فن بنا دیا جو فن رجال کے نام سے مشہور ہے ۔ یہ توجہ اور اہتما م اگرچہ اصل میں احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے شروع ہوا تھا۔ لیکن فن تاریخ بھی اس فیض سے محروم نہ رہا۔ طبری‘ فتوح البلدان‘ طبقات ابن سعد وغیرہ میں تمام واقعات بسند متصل مذکور ہیںَ یورپ نے فن تاریخ کو آج کمال کے درجے پر پہنچا دیا ہے لیکن اس خاص امر میں وہ مسلمان مورخوں سے بہت پیچھے ہیں۔ ان کو واقعہ نگار کے ثقہ اور غیر ثقہ ہونے کی کچھ پرواہ نہیںہوتی یہاں تک کہ وہ جرح و تعدیل کے نام سے بھی آشنا نہیں۔
درایت
درایت کے اصول بھی اگرچہ موجود تھے۔ چنانچہ ابن حزم ابن القیم خطابی ابن عبدالبر نے متعدد روایتوں کی تنقید میں ان اصولوںسے کام لیا ہے لیک انصاف یہ ہے کہ اس فن کو جس قدر ترق ہونی چاہیے تھی نہیں ہوئی اورتاریخ میں تو اس سے بالکل کام نہیںلیا گیا۔ البتہ علامہ ابن خلدون نے جو آٹھویں صدی ہجری میں گزرا ہے جب فلسہ تاریخ کی بنیاد ڈالی تو درایت کے اصول نہایت نکتہ سنجی اور باریک بینی کے ساتھ مرتب کیے۔ چنانچہ اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتاہے۔
ان الاخبار اذا اعتمد فیھا علی مجرد النقل ولم تحکم اصول العادۃ و قواعد السیاسۃ و طبیعۃ العمران والاحوال فی الاجتماع الانسانی ولا قیس الغائب منھا بالشاھد والاحاضر بالذاھب فربما لم یومن فیھا من العثور
’’خبروں میںاگر صرف روایت پر اعتبار کر لیا جائے اور عادت کے اصول اور سیاست کے قواعد اور انسانی سوسائٹی کے اقتضاء کا لحاظ اچھی طرح نہ کیا جائے اور غائب کو حاضر پر اور حال کو گزشتہ پر نہ قیاس کیا جائے تو اکثر لغزش ہو گی۔
علامہ موصوف نے تصریح کی ہے کہ واقعہ کی تحقیق کے لیے پہلے راویوں کی جرح و تعدیل سے بحث نہیںکرنی چاہیے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ واقعہ فی نفسہ ممکن بھی ہے یا نہیں کیونکہ اگر واقعہ کاہونا ممکن ہی نہیں تو راوی کا عادل ہونا بیکارہے۔ علامہ موصوف نے بھی ظاہر کر دیا ہے کہ ان موقعوں میں امکان سے اممکان عقلی مراد نہیں بلکہ اصول عادت اور قواعد تمدن کی رو سے ممکن ہونا مراد ہے۔
اب ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ جو نقص قدیم تاریخوں کے متعلق بیا کیے گئے ہیں ان کی آج کہاں تک تلافی کی جا سکتی ہے یعنی ہم اپنی کتاب (الفاروق) میں کس حد تک اس کمی کو پورا کر سکتے ہیں۔
اگرچہ یہ امر بالکل صحیح ہے کہ جو کتابیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حالات میں مستقل حیثیت سے لکھی گئیں ہیں ان میں ہر قسم کے ضروری واقعات نہیں ملتے لیکن اور قسم کی تصنیفوں سے ایک حد تک ا س کی تلافی ہو سکتی ہے۔ مثلاً الاحکام السلطانیہ لا بن الوردی و مقدمہ ابن خلدون و کتاب الخراج سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے طریق حکومت و آئین انتظام کے متعلق بہت سی باتیں معلوم ہو سکتی ہیں۔ اخبار القضا ۃ لمحمد بن خلف الوکیع سے خاص صیغہ قضا کے متعلق ان کا طریق عمل معلوم ہوتاہے۔ کتاب الاوائل لا بی ہلال العسکری و محاسن الوسائل الی اخبار الاوائل میں ان کی اولیات کی تفصیل ہے۔
عقد الفرید و کتاب البیان و التبیین للجاحظ
میں ان کے خطبے منقول ہیں۔ کتاب العمدۃ لا بن رثیق القیر وانی سے ان کا شاعرانہ مذاق معلوم ہوتاہے۔ میدانی نے کتاب الامثال میں ان کے حکیمانہ مقولے نقل کیے ہیں۔ ابن جوزی نے سیرۃ العمرین میں ان کے اخلاق اورعادات کو تفصیل سے لکھا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے ازلۃ الخفاء میںان کے فقہ اور اجتہاد پر اس مجتحدانہ طریقے سے بحث کی ہے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں۔۱؎
یہ تمام تصنیفات میرے پیش نظر ہیں اور میں نے ان سے فائدہ اٹھایا ہے ریاض النضرۃ للمحب الطبری میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حالات تفصیل سے ملتے ہیں اور شاہ ولی اللہ صاحب ؒ نے اسی کتاب کو اپنا ماخذ قرار دیا ہے لیکن اس میں نہایت کثرت سے موضوع اور ضعیف روایتیں مذکور ہیں۔ اس لیے میں نے دانستہ اس سے احتراز کیا ہے۔
۱؎ ان تصنیفات میں سے کتاب الاوائل اور تاب العمدۃ کا قلمی نسخہ میرے کتب خانہ میں موجود ہے۔ سیرۃ العمرین اخبار القضاۃ اور محاسن الوسائل کے نسخے قسطنطنیہ کے کتب خاہ میں موجود ہیں۔ اور میں نے ان سے ضروری عبارتیں نقل کر لی تھیںباقی کتابیں چھپ گئی ہیں اور میرے پاس موجود ہیں۔
واقعات کی تحقیق و تنقید کے لیے درایت کے اصول سے بہت بڑی مدد مل سکتی ہے۔ درایت کا فن اب ایک مستقل فن بن گیا ہے او ر ا س کے اصول و اقاعدے نہایت خوبی سے منضبط ہو گئے ہیں۔ ان میں جو اصول ہمارے کام آ سکتے ہیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ واقعہ مذکورہ اصول عادت کی روسے ممکن ہے یا نہیں؟
۲۔ اس زماے مٰں لوگوں کا میلان عام واقعہ کے مخالف تھا یا موافق؟
۳۔ واقعہ اگر کسی حد تک غیرمعمولی ہے تو اسی نسبت سے ثبوت کی شہادت زیادہ قوی ہے یانہیں؟
۴۔ اس امر کی تفتیش کہ راوی جس چیز کو واقعہ طاہر کرتا ہے‘ اس میں اس کے قیاس اور رائے ک کس قدر حصہ شامل ہے؟
۵۔ راوی نے واقعہ کو جس صورت میں ظاہر کیا ہے وہ واقعہ کی پوری تصویر ہے یا نہیں اس امر کا احتمال ہے کہ راوی اسکے ہر پہلو پر نظر نہیں ڈال سکا اور واقعہ کی تمام خصوصیتیں نظرمیںنہ آ سکیں۔
۶۔ اس بات کا اندازہ کہ زمانہ کے امتداد اور مختلف راویوں کے طریقہ اد انے روایت میں کیا کیا اور کس کس قسم کے تغیرات پید ا کر دیے ہیں۔
اصول درایت سے جن امور کا پتا لگ سکتا ہے؟
ان اصولوں کی صحت سے کوئی شخص انکار نہیںکر سکتا۔ اوران کے ذریعے سے بہت سے مخفی راز معلوم ہو سکتے ہیں۔ مثلا ٓاج جس قدر تاریخیں متد اول ہیں ان میں غیر قوموں کی نسبت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نہایت سخت احکام منقول ہیں لیکن جب اسب ات کا لحاظ کیاجائے کہ یہ اس زمانے کی تصنیفیں ہیں جب اسلامی گروہ میں تعصب کا مذاق پیدا ہو گیا تھا اور اسی کے ساتھ قدیم زمانے کی تصنیفات پ رنظر ڈالی جائے جن میں اس قسم کے واقعات بالکل نہیں یا بہت کم ہیںل تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر تعصب برتا گیا ہے اسی قدر روایتیں خود بخود تعصب کے سانچے میں ڈھلتی گئی ہیں۔
تمام تاریخوں میں مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا کہ عیسائی کسی وقت اور کبھی ناقوس نہ بجانے پائیں لیکن قدیم کتابوں (کتاب الخراج‘ تاریخ طبری وغیرہ) میں یہ روایت اس قید کے ساتھ منقول ہے کہ جس وقت مسلمان نماز پڑھتے ہوں ا س وقت عیسائی ناقوس نہ بجائیں۔ ابن الاثیر وغیرہ نے لکھا ے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا کہ قبیلہ تغلب کے عیسائی اپنے بچوں کو اصطباغ نہ دینے پائیں لیکن یہی روایت تاریخ طبری میں ان الفاظ کے ساتھ مذکورہے کہ جو لوگ اسلام قبو ل کر چکے ہوں ان کے بچوں کو زبردستی اصطباغ نہ دیا جائے۔
یا مثلاً بہت سی تاریخوں میں یہ تصریح ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تحقیر و تذلیل کے لیے عیسائیوں کو ایک خاص لباس پہننے پر مجبور کیا تھا۔ لیک زیادہ تدقیق سے معلو م ہوتاہے کہ واقعہ صرف اس قدر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عیسائیوں کو ایک خاص لباس اختیار کرنے کی ہدایت کی تھی۔ تحقیر کا خیال راوی کا قیاس ہے۔ چنانچہ اس کی مفصبل بحث آگے آئے گی۔
یا مثلاً وہ روایتیں جو تاریخی ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ ان میں یہ خصوصیت صاف محسوس ہوتی ہے کہ جس قدر ان میں تنقید ہوتی گئی ہے اسی قدر مشتبہ اورمشکوک باتیں کم ہوتی گئی ہیں فدک قرطاس سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعات ابن عساکر ابن سعد‘ بیہقی‘ مسلم‘ بخاری سب نے نقل کیے ہیں لیکن جس قدر ان بزرگوں کے اصول اور شدت احتیاط میں فرق مراتب ہے اسی نسبت سے روایتوں میں مشتبہ اور نزاع انگیز الفاظ کم ہوتے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ خود مسلم و بخاری میں فرق مراتب کا یہ اثر موجود ہے۔ چنانچہ اس کا بیان ایک مناسب موقع پر تفصیل سے آئے گا۔
انہی اصول عقلی کی بناپر مختلف قسم کے واقعات میں صحت و اعتبار کے مدارج بھی مختلف قائم ہوں گے۔ مثلاًیہ مسلم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے واقعات سو برس کے بعد تحریر می آئے۔ اس بنا پر یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ معرکوں اور لڑائیوں کی نہایت جزئی تفصیلات مثلاً صف آرائی کی کیفیت ‘ فریقین کے سوال و جواب ایک ایک بہادر کی معرکہ آرائی پہلوانوں کے دائوپیچ۔ اس قسم کی جزئیات کی تفصیل کا رتبہ یقین تک نہیںپہنچ سکتا۔ لیکن انتظامی امور اور قواعد حکومت چونکہ مدت تک محسوس صورت میں موجود رہے ہیں ۔ اس یے ان کی نسبت جو واقعات منقول ہیں وہ بے شبہ یقین کے لائق ہیں۔ اکبر نے ہندوستان میں جو آئین اور قاعدے جاری کیے ایک ایک بچہ ان سے واقف ہے۔ اورانکی نسبت کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ جس کی یہ وجہ نہیں کہ حدیث کی طرح اس کے لیے قطعی روایتیں موجود ہیںبلکہ اس لیے کہ وہ انتظامات مدت تک قائم رہے اوراکبر کے نام سے ان کو شہرت تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حکومت آمیز منقولے جو منقول ہیں ان کی نسبت یہ قیاس کرنا چاہیے کہ جو فقرے زیادہ پر اثر اور فصیح و بلیغ ہیں وہ ضرور صحیح ہیں کیونکہ ایک فصیح و بلیغ مقرر کے وہ فقرے ضرور محفوظ رہ جات ہیں اور ان کا مدت تک چرچار ہتا ہے جن میں کوئی خاص ندرت اور اثر ہوتا ہے۔ اسی طرح خطبوں کے وہ جملے ضرور قابل اعتماد ہیں جن میں احکام شرعیہ کا بیان ہے کیونکہ اس قسم کی باتوں کو لوگ فقہ کی حیثیت سے محفوظ رکھتے ہیں۔
جو واقعات اس زمانے کے مذاق سے چنداں قابل ذکر نہ تھے اور باوجود اس کے ان کا ذکرآ جاتا ہے ان کی نسبت سمجھنا چاہیے کہ اصل واقعہ اس سے زیادہ ہو گا۔ مثلاً ہمارے مورخین رزم و بزم کی معرکہ آرائیوں اور رنگینیوں کے مقابلے میں انتظامی امور کے بیان کرنے کے بالکل عادی نہیں۔ بایں ہمہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حا ل میں عدالت پولیس بندوبست مردم شماری‘ وغیرہ کا ضمناً جو ذکر آ جاتاہے اس کی نسبت یہ خیال کرنا چاہیے کہ جس قدرقلم بند ہوا ا س سے بہت زیادہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زہد و تقشف ‘ سخت مزاجی او ر سخت گیری کی نسبت سینکڑوں روایتیں مذکور ہیں اور بے شبہ صحابہ رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ اوصاف ان میں زیادہ تھے لیکن اس کے متعلق تمام روایتوں کو صحیح نہیںخیال کرنا چاہیے جو حلیۃ الاولیاء ابن عساکر‘ کنزل العمال‘ ریاض النضر وغیرہ میںمذکور ہیں بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ چونکہ اس قسم کی روایتیں عموماً گرمی محفل کا سبب ہوتی تھیں اور عوام ان کو نہایت ذوق سے سنتے تھے۔ اس لیے ان میں خود بخود مبالغہ کا رنگ آتا گیا ہے۔ اس کی تصدیق اس سے ہوتی ہے کہ جو کتابیں زیادہ مستند اورمعتبر ہیں ان میں یہ روایتیں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ اسی یلے میں نے اس قسم کی جو روایتیں اپنی کتاب میںنقل کی ہیں ان میں بڑی احتیاط کی ہے اور ریاض النضر ۃ و ابن عساکر حلیتہ الاولیا ء وغیرہ کی روایتوں کو بالکل نظر انداز کیا ہے۔
تاریخ کا طرز تحریر
اخیر میں طرز تحریر کے متعلق کچھ لکھنا بھی ضرور ہے۔ آج کل کی اعلیٰ درجے کی تاریخیں جنہوںنے قبول عام حاصل کیا ہے فلسفہ اور انشاء پردازی سے مرکب ہیں اور اس طرز سے بڑھ کر کوئی اور طرز مقبول عام نہیںہو سکتا۔
تاریخ اور انشاء پردازی کا فرق
لیکن درحقیقت تاریخ اور انشاء پردازی کی حدیں بالکل جدا جدا ہیں۔ ان دونوں میں جو فرق ہے وہ نقشہ اور تصویر کے فرق سے مشابہ ہے۔ نقشہ کھینچنے والے کا یہ کام ہے کہ کسی حصہ زمین کا نقشہ کھینچے تو نہایت دیدہ ریزی کے ساتھاس کی ہئیت ‘ شکل سمت ‘ جہت‘ اطراف‘ اضلاع ایک ایک چیز کا احاطہ کرے۔ بخلاف اس کے مصور صرف ان خصوصیتوں کو لے گا یا ان کو زیادہ نمایاں صورت میں دکھلائے گا جن میںکوئی خاص اعجوبگی ہے اور جن سے انسان کی قوت منفعلہ پر اثر پڑتا ہے ۔ مثلاً رستم و سہراب کی داستان کو ایک مورخ لکھے گا تو سادہ طور پر واقعہ کے تمام جزئیات بیان کر دے گا لیکن ایک انشاء پرداز ان جزئیات کو اس طرح ادا کرے گا کہ سہراب کی مظلومی و بے کسی اور رستم کی ندامت و حسرت کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جائے اور واقعہ کے دیگر جزئیات باوجود سامنے ہونے کے نظر نہ آئیں۔
مورخ کا اصلی فرض یہ ہے کہ وہ سادہ واقعہ نگاری کی حد تجاوز نہ کرنے پائے۔ یورپ میں آج کل جو بڑا مورخ گزرا ہے اور جو طرز حال کا موجد ہے‘ رینگی ہے۔ اس کی تعریف ایک پروفیسر نے ان الفاظ میں کی ہے۔ اس نے تاریخ میں شاعری سے کام نہیںلیا‘ وہ نہ ملک کا ہمدرد بنا نہ مذہب اور قوم کا طرف دار ہوا۔ کسی واقعہ کے بیان کرنے میں مطلق پتہ نہیں لگتا کہ وہ کن باتوں سے خوش ہوتا اور اس کا ذاتی اعتقاد کیا ہے۔
یہ امر بھی جتاد دینا ضروری ہے کہ اگرچہ میں نے واقعات میں اسباب و علل کے سلسلے کرنے کوشش کی ہے لیکن اس باب میں یورپ کی بے اعتدالی سے احتراز کیا ہے۔ اسباب و علل کے سلسلے پیدا کرنے کے لیے اکثرجگہ قیاس سے کام لینا پڑتاہے۔ اس لیے مورخ کو اجتہاد اور قیاس سے چارہ نہیں لیکن یہ اس کا لازمی فرض ہے کہ وہ قیاس اور اجتہاد کو واقعہ میں اس قدر مخلوط نہ کردے کہ کوئی شخص دونوں کو الگ کرنا چاہے تو نہ کر سکے۔
اہل یورپ کا عام طرز یہ ہے کہ وہ واقعہ کو اپنے اجتہاد کے موافق کرنے کے لیے ایسی ترتیب اور انداز سے لکھتے ہیں کہ واقعہ بالکل ان کے اجتہاد کے قالب میں ڈھل جاتاہے اور کوئی شخص قیاس اور اجتہاد کو واقعہ سے الگ نہیں کر سکتا۔
اس کتاب کی ترتیب اور اصول تحریر کے متعلق چند امور لحاظ رکھنے کے قابل ہیں ۔
٭ بعض واقعات مختلف حیثیتیں رکھتے ہیںاور مختلف عنوانوں کے تحت آ سکتے ہیں۔ اس لیے اس قسم کے واقعات کتاب میں مکرر آ گئے ہیں اور ایسا ہونا ضرور تھا لیکن یہ التزام رکھا گیا ہے کہ جس خاص عنوان کے نیچے وہ واقعہ لکھا گیا ہے‘ وہاں ان عنوان کی حیثیت زیادہ تر دکھلائی گئی ہے۔
٭ کتابوں کا حوالہ زیادہ تر انہیں واقعات میں دیا گیا ہے کہ جو کسی حیثیت سے قابل تحقیق تھے اور کوئی خصوصیت خاص رکھتے تھے۔
٭ جو کتابیں روایت کی حیثیت سے کم رتبہ ہیں مثلاً ازالتہ الخفاء اور ریاض النضرۃ وغیرہ ان کاجہاں حوالہ دیا ہے اس بنا پر دیا ہے کہ خاص اس روایت کی تصدیق اورمعتبرکتابوں سے کر لی گئی تھی۔ غرض کئی برس کی سعی و محنت اور تلاش و تحقیق کا جو نتیجہ ہے وہ قوم کے سامنے ہے۔
من کہ یک چند زدم مہر خموشی برلب
کس چہ داند کہ دریں پردہ چہ سودا کردم
پیکرے تازہ کہ خواہم بہ عزیزان بنمود
لختے از ذوق خودش نیز تماشا کردم
محفل از بادہ دو شینہ نیا سودہ ہنوز
بادہ تندتر از دوش بہ مینا کردم
باز خواہم کہ دمم درتن اندیشہ رواں
من کہ در یوزۂ فیض از دم عیسیٰ کردم
ہم نشین نکتہ حکمت ز شریعت می جست
لختے از نسخہ روح القدس املا کردم
شاہد راز کہ کس پردہ زرویش نگرفت
گرہ از بند قبائش بہ فسوں وا کردم
بسکہ ہر بار گہر پاش گزشتم زین راہ
دشت معنی ہمہ پر لولوے لالہ کردم
٭٭٭
حواشی :
۱؎ موسیٰ بن عقبہ کے لیے تہذیب التہذیب اور مقدمہ فتح الباری شرح صحیح بخاری دیکھو۔