حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ : ایران پر عام لشکر کشی - علامہ شبلی نعمانی ؒ

 ایران پر عام لشکر کشی 21 ہجری (642ء)

اس وقت تک حضرت عمرؓ نے ایران کی عام تسخیر کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ اب تک جو لڑائیاں ہوئیں وہ صرف اپنے ملک کی حفاظت کے لئے تھیں۔ عراق، البتہ ممالک محروسہ میں شامل کر لیا گیا تھا لیکن وہ در حقیقت عرب کا ایک حصہ تھا کیونکہ اسلام سے پہلے اس کے ہر حصہ میں عرب آباد تھے۔ عراق سے آگے بڑھ کر جو لڑائیاں ہوئیں وہ عراق کے سلسلہ میں خود بخود پیدا ہوتی گئیں۔ حضرت عمرؓ خود فرمایا کرتے تھے کہ ’’ کاش ہمارے اور فارس کے بیچ میں آگ کا پہاڑ ہوتا کہ نہ وہ ہم پر حملہ کر سکتے، نہ ہم ان پر چڑھ سکتے۔‘‘

لیکن ایرانیوں کو کسی طرح چین نہ آتا تھا۔ وہ ہمیشہ نئی فوجیں تیار کر کے مقابلے پر آتے تھے اور جو ممالک مسلمانوں کے قبضے میں آ چکے تھے، وہاں غدر کروا دیا کرتے تھے۔ نہاوند کے معرکے سے حضرت عمرؓ کو اس پر خیال ہوا او راکابر صحابہ ؓ کو بلا کر پوچھا کہ ’’ ممالک مفتوحہ میں بار بار بغاوت کیوں ہو جاتی ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا جب تک یزد گرد ایران کی حدود سے نکل نہ جائے یہ فتنہ فرو نہیں ہو سکتا کیونکہ جب تک ایرانیوں کا یہ خیال رہے گا کہ تخت کیان کا وارث موجود ہے، اس وقت تک ان کی امیدیں منقطع نہیں ہو سکتیں۔

اس بناء پر حضرت عمرؓ نے عام لشکر کشی کا ارادہ کیا۔ اپنے ہاتھ سے متعدد علم تیار کئے اور جدا جدا ممالک کے نام سے نامزد کر کے مشہور افسروں کے پاس بھیجے۔ چنانچہ خراسان کا علم اصف بن قیس کو سابور وارد شیر کا مجاشع بن مسعود کو اصطخر کا عثمان بن العاص الثقفی کو فسا کا ساریہ بن رہم الکنانی کو کرمان کا سہیل بن عدی کو، سیستان کا عاصم بن عمر کو، مکران کا حکم بن عمیر التغلبی کو آذربائیجان کا عتبہ کو عنایت کیا۔ 21ھ میں یہ افسر اپنے اپنے متعینہ ممالک کی طرف روانہ ہوئے۔ چنانچہ ہم ان کو الگ الگ ترتیب کے ساتھ لکھتے ہیں۔

فتوحات کے سلسلے میں سب سے پہلے اصفہان کا نمبر ہے۔ 21ھ میں عبداللہ بن عبداللہ نے اس صوبہ پر چڑھائی کی۔ یہاں کے رئیس نے جن کا نام استدار تھا، اصفہان کے نواحی میں بڑی جمعیت فراہم کی تھی، جس کے ہر اول پر شہر براز جادو یہ ایک پرانا تجربہ کار افسر تھا۔ دونوں فوجیں مقابل ہوئیں تو جادویہ نے میدان میں آ کر پکارا کہ جس کا دعویٰ ہو تنہا میرے مقابلے کو آئے۔ عبداللہ خود مقابلے کو نکلے۔ جادویہ مارا گیا اور ساتھ ہی لڑائی کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ استدار نے معمولی شرائط پر صلح کر لی۔ عبداللہ نے آگے بڑھ کر جے یعنی خاص اصفہان کا محاصرہ کیا۔ فاذو سفان یہاں کے رئیس نے پیغام بھیجا کہ دوسروں کی جانیں کیوں ضائع ہوں، ہم تم لڑ کر خود فیصلہ کر لیں۔ دونوں حریف میدان میں آئے۔ فاذوسفان نے تلوار کا وار کیا، عبداللہ نے اس پامردی سے اس کے حملہ کا مقابلہ کیا کہ فاذ و سفان کے منہ سے بے اختیار آفریں نکلی اور کہا کہ میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا اورشہر اس شرط پر حوالہ کرتا ہوں کہ باشندوں میں سے جو چاہے جزیہ دے کر شہر میں رہے اور جو چاہے نکل جائے۔ عبداللہ نے یہ شرط منظور کی اور معاہدہ صلح لکھ دیا۔

اسی اثناء میں خبر لگی کہ ہمدان میں غدر ہو گیا۔ حضرت عمرؓ نے نعیم بن مقرن کو ادھر روانہ کیا۔ انہوں نے بارہ ہزار کی جمعیت سے ہمدان پہنچ کر محاصرہ کے سامان کئے لیکن جب محاصرہ میں دیر لگی تو اضلاع میں ہر طرف فوجیں پھیلا دیں۔ یہاں تک کہ ہمدان چھوڑ کر باقی تمام مقامات فتح ہو گئے۔ یہ حالت دیکھ کر محصوروں نے بھی ہمت ہار دی اور صلح کر لی۔ ہمدان فتح ہو گیا لیکن ویلم نے رے و آذربائیجان وغیرہ سے نامہ و پیام کر کے ایک بڑی فوج فراہم کی۔ ایک طرف سے فرخان کا باپ زینبدی جورے کا رئیس تھا، انبوہ کثیر لے کر آیا۔ دوسری طرف آذربائیجان سے اسفند یار رستم کا بھائی پہنچا۔ وادی رود میں یہ فوجیں جمع ہوئیں اور اس زور کارن پڑا کہ لوگوں کو نہاوند کا معرکہ یاد آ گیا۔ آخر ویلم نے شکست کھائی، عروہ جو واقعہ جسر میں حضرت عمر ؓ کے پاس شکست کی خبر لے گئے تھے، اس فتح کا پیام لے کر گئے کہ اس دن کی تلافی ہو جائے۔ حضرت عمرؓ ویلم کی تیاریاں سن کر نہایت تردد میں تھے اور امداد کا سامان کر رہے تھے کہ دفعتہ عروہ پہنچے۔ حضرت عمرؓ کو خیال ہوا کہ شگون اچھا نہیں۔ بے ساختہ زبان سے انا للہ نکلا۔ عروہ نے کہا آپ گھبرائیں نہیں اللہ نے مسلمانوں کو فتح دی۔

حضرت عمرؓ نے نعیم کو نامہ لکھا کہ ہمدان پر کسی کو اپنا قائم مقام کر کے رے کو روانہ ہوں۔ رے کا حاکم اس وقت سیاؤش تھا جو بہرام چوبیں کا پوتا تھا۔ اس نے دنیاوند طبرستان قوس جرجان کے رئیسوں سے مدد طلب کی اور ہر جگہ سے امدادی فوجیں آئیں لیکن زینبدی جس کو سیاؤش سے کچھ ملال تھا۔ نعیم بن مقرن سے آ ملا۔ اس کی سازش سے شہر پر حملہ ہوا اور حملہ کے ساتھ دفعتہ شہر فتح ہو گیا۔ نعیم ن زینبدی کو رے کی ریاست دی اور پرانے شہر کو برباد کر کے حکم دیا کہ نئے سرے سے آباد کیا جائے۔ حضرت عمرؓ کے حکم کے مطابق نعیم نے خود رے میں قیام کیا اور اپنے بھائی سوید کو قومس پر بھیجا جو بغیر کسی جنگ کے فتح ہو گیا۔ اس فتح کے ساتھ عراق عجم پر پورا پورا قبضہ ہو گیا۔

آذربائیجان1؎ 22ھ (643ئ)

جیسا کہ ہم پہلے لکھ آئے ہیں حضرت عمرؓ نے آذربائیجان کا علم عتبہ (بن فرقد) اور بکیر کو بھیجا تھا اور ان کے بڑھنے کی سمتیں بھی متعین کر دی تھیں۔ بکیر جب میدان میں پہنچے تو اسفند یار کا سامنا ہوا۔ اسفند یار نے شکست کھائی اور زندہ گرفتار ہو گیا۔ دوسری طرف اسفند یار کا بھائی بہرام، عتبہ کا سد راہ ہوا لیکن وہ بھی شکست کھا کر بھاگ گیا۔ اسفند یار نے بھائی کی شکست کی خبر سنی تو بکیر سے کہا کہ اب لڑائی کی آگ بجھ گئی اور میں جزیہ پر تم سے صلح کر لیتا ہوں۔ چونکہ آذربائیجان انہی دونوں بھائیوں کے قبضے میں تھا، عتبہ نے اسفند یار کو اس شرط پر رہا کر دیا کہ وہ آذربائیجان کا رئیس رہ کر جزیہ ادا کرتا رہے۔ مورخ بلاذری کابیان ہے کہ آذربائیجان کا علم حذیفہ بن یمان ؓ کو ملا تھا۔ وہ نہاوند سے چل کر اردبیل پہنچے جو آذربائیجان کا پایہ تخت تھا۔ یہاں کے رئیس نے ماجروان ، میمند، سراۃ، سبز، میانج وغیرہ سے ایک انبوہ کثیر جمع کر کے مقابلہ کیا اور شکست کھائی پھر آٹھ لاکھ سالانہ پر صلح ہو گئی۔ حذیفہ نے اس کے بعد موقان و جیلانی پر حملہ کیا اور فتح کے پھریرے اڑائے۔

1؎ نقشہ دیکھنے سے آذربائیجان کا پتہ اس طرح لگے گا کہ شہر تبریز کو اس کا صدر مقام سمجھنا چاہیے (سابق میں شہر مراغہ دار الصدر تھا) بروعد اور اردبیل اسی صوبہ میں آباد ہیں۔ آذربائیجان کی وجہ تسمیہ میں دو روائتیں ہیں۔ ایک یہ کہ موبد آذر آباد نے ایک آتش کدو بنایا تھا جس کا نام آذر آبادگان تھا۔د وسری روایت یہ ہے کہ لغت پہلوی میں آذر کے منی آتش کے ہیں اور بایگان کے معنی ہیں محافظ یعنی نگاہ دارندہ آتش چونکہ اس صوبہ میں آتش کدوں کی کثرت تھی، اسی وجہ سے یہی نام ہو گیا جس کو عربوں نے اپنی زبان میں آذربائیجان کر لیا۔

اسی اثناء میں دربار خلافت سے حذیفہ ؓ کو معزولی کا فرمان پہنچا اور عتبہ بن فقدان ان کی جگہ پر مقرر ہو گئے۔ عتبہ کے پہنچتے پہنچتے آذربائیجان کے تماما طراف میں بغاوت پھیل چکی تھی۔ چنانچہ عتبہ نے دوبارہ ان مقامات کو فتح کیا۔

طبرستان1؎22ھ (643ئ)

ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ نعیم نے جب رے فتح کر لیا تو ان کے بھائی سوید، قومس پر بڑھے اور یہ وسیع صوبہ بغیر جنگ و جدل کے قبضہ میں آ گیا۔ یہاں سے جرجان جو طبرستان کا مشہور ضلع ہے نہایت قریب ہے۔ سوید نے وہاں کے رئیس روزبان سے نامہ و پیام کیا۔ اس نے جزیہ پر صلح اور معاہدہ صلح میں بتصریح لکھ دیا گیا کہ مسلمان جرجان اور دہستان وغیرہ کے امن کے ذمہ دار ہیں اور ملک والوں میں جو لوگ بیرونی حملوں کے روکنے میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے وہ جزیہ سے بری ہیں۔ جرجان کی خبر سن کر طبرستان کے رئیس نے بھی جو سپہدار کہلاتا تھا، اس شرط پر صلح کر لی کہ پانچ لاکھ درہم سالانہ دیا کرے گا اور مسلمانوں کو ان پر یا ان کو مسلمانوں پر کچھ حق نہ ہو گا۔

آرمینیہ2؎

بکیر جو آذربائیجان کی مہم پر مامور تھے، آذربائیجان فتح کر کے باب کے متصل پہنچ گئے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ایک نئی فوج تیار کر کے ان کی مدد کو بھیجی۔ باب کا رئیس جس کا نام شہر براز تھا مجوسی تھا، سلطنت ایران کا ماتحت تھا۔ مسلمانوں کی آمد سن کر خود حاضر ہوا اور کہا کہ مجھ کو آرمینیہ کے کمینوں سے کچھ ہمدردی نہیں ہے۔ میں ایران کی نسل سے ہوں اور جب خود ایران فتح ہو چکا تو میں بھی تمہارا مطیع ہوں۔ لیکن میری درخواست ہے کہ مجھ سے جزیہ نہ لیا جائے بلکہ جب ضرورت پیش آئے تو فوجی امداد لی جائے۔ چونکہ جزیہ درحقیقت صرف محافظت کا معاوضہ ہے۔ اس لئے یہ شرط منظور کر لی گئی۔

1؎ نقشہ میں صوبہ طبرستان فتوحات عثمانی میں ملے گا۔ اس لئے کہ خلافت فاروقی میں جزیہ لے کر چھوڑ دیا گیا۔ اس کی حدود اربعہ یہ ہیں۔ مشرقی میں خراسان و جرجان مغرب میں آذربائیجان اور جنوب میں بلادخیل بسطام اور استر آباد اس کے مشہور شہر ہیں۔

2؎ صوبہ آرمییہ کو بلاد ارمن بھی کہتے ہیں۔ جو ایشیائے کوچک کا ایک حصہ ہے۔ شمال بحر اسود، جنوب میں کوہی صحرائی ہضہ دور تک چلا گیا ہے۔ مشرق میں گرجستھان اور مغرب میں بلاد روم واقع ہیں۔ چونکہ یہ صوبہ خلافت عثمانی میں کامل فتح ہوا تھا، اس لئے نقشہ میں فاروقی رنگ سے جدا ہے۔

اس سے فارغ ہو کر فوجیں آگے بڑھیں۔ عبدالرحمن بن ربیعہ، بلنجر کی طرف جو مملکت خرز کا پائے تخت تھا روانہ ہوئے۔ شہر براز ساتھ تھا، اس نے تعجب سے کہا کہ کیا ارادہ ہے؟ ہم لوگ اپنے عہد میں اسی کو غنیمت سمجھتے تھے کہ وہ لوگ ہم پر چڑھ کر نہ آئیں۔ عبدالرحمن نے کہا لیکن میں جب تک اس کے جگر میں گھس جاؤں باز نہیں آ سکتا۔ چنانچہ بیضافتح کیا تھا کہ خلافت فاروقی کا زمانہ تمام ہو گیا۔ ادھر بکیر نے قان کو جہاں سے ایران کی سرحد شروع ہوتی ہے فتح کر کے اسلام کی سلطنت میں ملا لیا ۔ حبیب بن مسلمہ اور حذیفہ نے نفلیس اور جبال اللان کا رخ کیا لیکن قبل اس کے کہ وہاں اسلام کا پھریرا اڑتا، حضرت عمرؓ کی خلافت کا زمانہ ختم ہو چکا۔ چنانچہ یہ ناتمام مہمات حضرت عثمانؓ کے عہد میں انجام کو پہنچیں۔

فارس1؎ 23ھ (644ئ)

فارس پر اگرچہ اول اول سنہ 17ھ میں حملہ ہوا لیکن چونکہ حضرت عمرؓ کی اجازت سے نہ تھا اور نہ اس کو چنداں کامیابی ہوئی۔ ہم نے اس زمانے کے واقعات کے ساتھ اس کو لکھنا مناسب نہ سمجھا۔ عراق اور اہواز جو عرب کے ہمسایہ تھے فتح ہو چکے تو حضرت عمرؓ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے اور فارس کے بیچ میں آتشیں پہاڑ حائل ہوتا تو اچھا تھا لیکن فارس سے ایک اتفاقی طور پر جنگ چھڑ گئی۔ علامہ ابن الحضر می سنہ 17ھ میں بحرین کے عامل مقرر ہوئے۔ وہ بڑی ہمت اور حوصلہ کے آدمی تھے اور چونکہ سعد بن ابی وقاصؓ سے بعض اسباب کی وجہ سے رقابت تھی۔ ہر میدان میں ان سے بڑھ کر قدم مارنا چاہتے تھے۔ سعدؓ نے جب قادسیہ کی لڑائی جیتی تو علامہ ابن الحضر می کو سخت رشک ہوا۔ یہاں تک کہ دربار خلافت سے اجازت تک نہ لی اور فوجیں تیار کر کے دریا کی راہ فارس پر چڑھائی کر دی۔ خلید بن منذر سر لشکر تھے اور جارود بن ا لمعلی اور سوار بن ہمام کے ماتحت الگ الگ فوجیں تھیں۔ اصطخر پہنچ کر جہاز نے لنگر کیا اور فوجیں کنارے پر اتریں۔ یہاں کا حاکم ایک ہیر بد تھا۔ وہ ایک انبوہ کثیر لے کر پہنچا اور دریا اتر کر اس پار صفیں قائم کیں، کہ مسلمان جہاز تک پہنچنے نہ پائیں۔ اگرچہ مسلمانوں کی جمعیت نہایت کم تھی اور جہاز بھی گویا دشمن کے قبضہ میں آ گئے تھے لیکن سپہ سالار فوج کی ثابت قدمی میں فرق نہ آیا۔ بڑے جوش کے ساتھ مقابلہ کرنے کو بڑھے اور فوج کو للکارا کہ ’’ مسلمانو! بے دل نہ ہونا۔ دشمن نے ہمارے جہازوں کو چھیننا چاہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے چاہا تو جہاز کے ساتھ دشمن کا ملک بھی ہمارا ہے۔‘‘

1؎ حال کے جغرافیہ میں عراق کی حدود گھٹا کر فارس کی حدود بڑھا دی گئی ہیں مگر ہم نے جس وقت کا نقشہ دیا ہے اس وقت فارس کے حدد یہ تھے۔ شمال میں اصفہان، جنوب میں بحر فارس، مشرقی میں کرمان اور مغرب میں عراق عرب۔ اس کا سب سے بڑا اور مشہور شہر شیراز ہے۔

خلید اور جارود بڑی جانبازی سے رجز پڑھ پڑھ کر لڑے اور ہزاروں کو تہہ تیغ کیا۔ خلید کا رجز یہ تھا:

یا آل عبد القیس للنزاع

قد حفل الامداد بالجراع

وکلھم فی سنن المصاع

بحسن ضرب القوم بالقطاع

غرض سخت معرکہ ہوا۔ اگرچہ فتح مسلمانوں کو نصیب ہوئی لیکن فوج کا بڑا حصہ برباد ہو گیا، آگے نہ کچھ بڑھ سکے۔ پیچھے ہٹنا چاہا مگر غنیم نے جہاز غرق کر دئیے تھے مجبور ہو کر خشکی کی راہ بصرہ کا رخ کیا۔ بدقسمتی سے ادھر بھی راہیں بند تھیں۔ ایرانیوں نے پہلے سے ہر طرف ناکے روک رکھے تھے اور جابجا فوجیں متعین کر دی تھیں۔

حضرت عمرؓ کو فارس کے حملہ کا حال معلوم ہوا تو نہایت برہم ہوئے۔ علاء کو نہایت تہدید کا نامہ لکھا، ساتھ ہی عتبہ بن غزوان کو لکھا کہ مسلمانوں کے بچانے کے لئے فوراً لشکر تیار ہو اور فارس پر جائے۔ چنانچہ بارہ ہزار فوج جس کے سپہ سالار ابوسبرہ تھے، تیار ہو کر فارس پر بڑھی اور مسلمان جہاں رکے پڑے تھے، وہاں پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ ادھر مجوسیوں نے ہر طرف نقیب دوڑا دئیے تھے اور ایک انبوہ کثیر جس کا سر لشکر شہرک تھا، اکٹھا کر لیا تھا۔ دونوں حریف دل توڑ کر لڑے۔ بالآخر ابو بہرۃ نے فتح حاصل کی لیکن چونکہ آگے بڑھنے کاحکم نہ تھا بصرہ واپس چلے آئے۔ واقعہ نہاوند کے بعد جب حضرت عمرؓ نے ہر طرف فوجیں روانہ کیں تو فارس پر بھی چڑھائی کی اور جدا جدا فوجیں متعین کیں۔ پارسیوں نے ’’ توج‘‘ کو صدر مقام قرار دے کر یہاں بڑا سامان کیا تھا لیکن جب اسلامی فوجیں مختلف مقامات میں پھیل گئیں تو ان کو بھی منتشر ہونا پڑا اور یہ ان کی شکست کا دیباچہ تھا۔ چنانچہ سابورا، ارد شیر، توج، اصطخر سب باری باری فتح ہو گئے لیکن حضرت عمرؓ کی اخیر خلافت یعنی 23ھ میں جب عثمان بن ابی العاصؓ بحرین کے عامل مقرر ہوئے تو شہرک نے جو فارس کا مر زبان تھا بغاوت کی اور تمام مفتوحہ مقامات ہاتھ سے نکل گئے۔ عثمانؓ نے اپنے بھائی کو ایک جمعیت کثیر کے ساتھ اس مہم پر مامور کیا۔ حکم جزیرہ ابر کاواں فتح کر کے توج پر بڑھے اور اس کو فتح کر کے وہیں چھاؤنی ڈال دی۔ مسجدیں تعمیر کیں اور عرب کے بہت سے قبائل آباد کئے۔ یہاں سے کبھی کبھی اٹھ کر سرحدی شہروں پر حملہ کرتے اور پھر واپس آ جاتے۔ اس طرح ارد شیر، سابور، اصطخر، ارجان کے بہت سے حصہ دبا لئے۔ شہرک یہ دیکھ کر نہایت طیش میں آیا اور ایک فوج عظیم جمع کر کے توج پر بڑھا۔ رامشر پہنچا تھا کہ ادھر سے حکم خود آگے بڑھ کر مقابل ہوئے۔ شہرک نے نہایت ترتیب سے صف آرائی کی ایک دستہ سب سے پیچھے رکھا کہ کوئی سپاہی پیچھے پاؤں ہٹائے تو وہیں قتل کر دیا جائے۔ غرض جنگ شروع ہوئی اور دیر تک معرکہ رہا۔ پارسیوں کو شکست ہوئی اور شہرک جان سے مارا گیا۔ اس کے بعد عثمانؓ نے ہر طرف فوجیں بھیج دیں۔ اس معرکہ سے تمام فارس میں دھاک بیٹھ گئی۔ عثمانؓ نے جس طرف رخ کیا، ملک کے ملک فتح ہوتے چلے گئے۔ چنانچہ گازرون، نوبند جان، ارجان، شیراز، سابور، جو فارس کے صدر مقامات ہیں، خود عثمان ؓ کے ہاتھ سے فتح ہوئے۔ فسا، داار الجبر وغیرہ پر فوجیں گئیں اور کامیاب آئیں۔

کرمان1؎23ھ (644ئ)

کرمان کی فتح پر سہیل بن عدی مامور ہوئے تھے۔ چنانچہ سنہ 23ھ میں ایک فوج لے کر جس کا ہر اول بشیر بن عمر العجلی کی افسری میں تھا۔ کرمان پر حملہ آور ہوئے۔ یہاں کے مر زبان نے قفس وغیرہ سے مدد طلب کر کے مقابلہ کیا لیکن وہ خود میدان جنگ میں بشیر کے ہاتھ سے مارا گیا۔ چونکہ آگے کچھ روک ٹوک نہ تھی، جیرفت اور سیر جاں تک فوجیں بڑھتی چلی گئیں اور بے شمار اونٹ اور بکریاں غنیمت میں ہاتھ آئیں۔ جیرفت کرمان کا تجارت گاہ اور سر جان کرمان کا سب سے بڑا شہر تھا۔

سیستان2؎ 23ھ (644ئ)

یہ ملک عاصم بن عمر کے ہاتھ سے فتح ہوا ہے۔ باشندے سرحد پر برائے نام لڑ کر بھاگ نکلے۔ عاصم برابر بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ زرنج کا جو سیستان کا دوسرا نام ہے، محاصرہ کیا۔ محصوروں نے چند روز کے بعد اس شرط پر صلح کی درخواست کی کہ ان کی تمام ارضی حمیٰ سمجھی جائے۔ مسلمانوں نے یہ شرط منظور کر لی اور اس طرح وفا کی کہ جب مزروعات کی طرف نکلتے تھے تو جلدی سے گزر جاتے تھے کہ زراعت چھو تک نہ جائے۔ اس ملک کے قبضے میں آنے سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سندھ سے لے کر نہر بلغ تک جس قدر ممالک تھے، ان کی فتح کی کلید ہاتھ میں آ گئی۔ چنانچہ وقتاً فوقتاً ان ملکوں پر حملے ہوتے رہتے تھے۔

1؎ اس کا قدیم نام کرمانیہ ہے، حدود اربعہ یہ ہیں۔ شمال میں کوہستان، جنوب میں بحر عمان، مشرق میں سیستان اور مغرب میں فارس ہے۔ زمانہ سابق میں اس کا دار الصدر کو اشیر (بردسیر) تھا جس کی جگہ اب حیرفت آباد ہے۔

2؎ سیستان کو عرب سجستان کہتے ہیں، حدود اربعہ یہ ہیں۔ شمال میں ہرات، جنوب میں مکران، مشرق میں سندھ اور مغرب میں کوہستان ہے۔ مشہور شہر زرنج ہے، جہاں میوہ افراط سے پیدا ہوتا ہے۔ رقبہ 25000میل مربع ہے۔

مکران1؎ 23ھ (644ئ)

مکران پر حکم بن عمرو التغلبی مامور ہوئے تھے۔ چنانچہ سنہ 23ھ میں روانہ ہو کر نہر مکران کے اس طرف فوجیں اتاریں۔ مکران کا بادشاہ جس کا نام راسل تھا، خود پار اتر کر آیا اور صف آرائی کی۔ ایک بڑی جنگ کے بعد راسل نے شکست کھائی اور مکران پر قبضہ ہو گیا۔ حکم نے فتح نامہ کے ساتھ چند ہاتھی بھی لوٹ میں آئے تھے دربار خلافت میں بھیجے۔ صحار عبدی جو فتح نامہ لے کر گئے تھے، حضرت عمرؓ نے ان سے مکران کا حال پوچھا۔ انہوں نے کہا

ارض سھلھا جبل وماء ہا وشل و ثمرھا وقل و عدوھا باطل و خیر ھا قلیل و شرھا طویل ولکاثیر بھا قلیل

حضرت عمرؓ نے فرمایا واقعات کے بیان میں قافیہ بندی کا کیا کام ہے۔ انہوں نے کہا ’’ میں واقعی حالات بیان کرتا ہوں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے لکھ بھیجا کہ ’’ فوجیں جہاں تک پہنچ چکی ہیں رک جائیں۔‘‘ چنانچہ فتوحات فاروقی کی اخیر حد یہی مکران ہے لیکن یہ طبری کا بیان ہے مورخ بلاذری کی روایت ہے کہ ریبل کے نشیبی حصہ اور تھانہ تک فوجیں آئیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو حضرت عمرؓ کے عہد میں اسلام کا قدم سندھ ہند میں بھی آ چکا تھا۔

خراسان2؎ کی فتح اور یزد گرد کی ہزیمت23ھ (644ئ)

اوپر ہم لکھ آئے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے جن جن افسروں کو ملک گیری کے علم بھیجے تھے، ان میں احف بن قیس بھی تھے اور ان کو خراسان کا علم عنایت ہوا تھا۔ احف نے 22ھ میں خراسان کا رخ کیا۔ طبین ہو کر ہرات پہنچے اور اس کو فتح کر کے مرد شاہجان پر بڑھے۔ یزد گرد شہنشاہ فارس یہیں مقیم تھا۔ ان کی آمد سن کر وہ مردود چلا گیا اور خاقان چین اور دیگر سلاطین کو استمداد کے نامے لکھے۔ احف نے مرو شاہجان پر حارثہ بن النعمان باہلی کو چھوڑا اور خود مرور ود کی طرف بڑھے۔ یزد گرد یہاں سے بھی بھاگا اور سیدھا بلخ پہنچا۔ اس اثناء میں کوفہ سے امدادی فوجیں آ گئیں جس کے میمنہ و میسرہ وغیرہ کے افسر علقمہ بن النصری، وبعی بن عامر المیمی، عبداللہ بن ابی عقیل التقفی، ابن غزال الہمدانی تھے۔

1؎ آج کل مکران کا نصف حصہ بلوچستان کہلاتا ہے۔ اگرچہ مورخ بلاذری فتوحات فاروقی کی حد سندھ کے شہر دیبل تک لکھتا ہے مگر طبری نے مکران ہی کو اخیر حد قرار دیا ہے۔ اس لئے ہم نے بھی فتوحات فارقی کی ہیں تک حد قرار دی ہیں۔

2؎ علامہ بلاذری کے نزدیک تمام مادراء النہر فرغانہ خوارزم، طخارستان اور سیستان رقبہ خراسان میں داخل تھا مگر اصل یہ ہے کہ اس کے حدود ہر زمانے میں مختلف رہے ہیں۔ اس کے مشہور شیر نیشاپور، مرد، ہرات، بلخ، طوس فسا اور ابی درد وغیرہ تھے، جن میں سے پچھلے دواب بالکل ویران ہیں۔

احف نے تازہ دم فوج لے کر بلخ پر حملہ کیا۔ یزد گرد نے شکست کھائی اور دریا اتر کر خاقان کی حکومت میں چلا گیا۔ احف نے میدان خالی پا کر ہر طرف فوجیں بھیج دیں اور نیشاپور سے طخارستان تک فتح کر لیا۔ مرور ود کو تخت گاہ قرار دے کر مقام کیا اور حضرت عمرؓ کو نامہ لکھا کہ خراستان اسلام کے قبضہ میں آ گیا۔ حضرت عمرؓ فتوحات کی وسعت کو چنداں پسند نہیں کرتے تھے، خط پڑھ کر فرمایا کہ ہمارے اور خراسان کے بیچ میں آگ کا دریا حائل ہوتا تو خوب ہوتا۔ احف کے مردانہ حوصولوں کی اگرچہ بڑی تعریف کی اور فرمایا کہ احف شرقیوں کا سرتاج ہے۔ تاہم جواب میں جو نامہ لکھا، اس میں لکھا کہ جہاں تک پہنچ چکے ہو وہاں سے آگے نہ بڑھنا۔ ادھر یزد گرد، خاقان کے پاس گیا تو اس نے بڑی عزت و توقیر کی اور ایک فوج کثیر ہمراہ لے کر یزد گرد کے ساتھ ساتھ خراسان کو روانہ ہوا۔ احف چوبیس ہزار فوج کے ساتھ بلخ میں مقیم تھے۔ خاقان کی آمد سن کر مرورود پہنچا۔ یزد گرد خاقان سے الگ ہو کر مرد شاہجہاں کی طرف بڑھا۔ احف نے کھلے میدان میں مقابلہ کرنا مناسب نہ سمجھا۔ نہر اتر کر ایک میدان میں جس کی پشت پر پہاڑ تھا، صف آرائی کی۔ دونوں فوجیں مدت تک آمنے سامنے صفیں جمائے پڑی رہیں۔ عجمی صبح اور شام ساز و سامان سے آراستہ ہو کر میدان جنگ میں جاتے تھے اور چونکہ ادھر سے کچھ جواب نہیں دیا جاتا تھا، بغیر لڑے بھڑے واپس آ جاتے تھے۔ ترکوں کا عام دستور ہے کہ پہلے تین بہادر میدان جنگ میں باری باری طبل و دمامہ کے ساتھ جاتے ہیں، پھر سارا لشکر جنبش میں آتا ہے۔ ایک دن احف خود میدان جنگ میں گئے۔ا دھر سے معمول کے موافق ایک ترک طبل و علم کے ساتھ نکلا۔ احف نے حملہ کیا اور دیر تک رد و بدل رہی۔ آخر احف نے ایک برچھی ماری ۔ ترک زمین پر گر کر مر گیا۔ احف نے جوش میں آ کر کہا۔

ان علی کل ربی حقا

ان یخضب الصعدۃ او یندقا

قاعدے کے موافق دو اور بہادر ترکی میدان میں آئے اور احف کے ہاتھ سے مارے گئے۔ خاقان جب خود میدان میں آیا تو اپنے بہادروں کی لاشیں میدان میں پڑی دیکھیں۔ چونکہ شگون برا تھا، نہایت پیچ و تاب کھایا اور فوج سے کہا کہ ہم بے فائدہ پرایا جھگڑا کیوں مول لیں۔ چنانچہ اسی وقت کوچ کا حکم دے دیا۔

یزد گرد مرو شاہجہاں کا محاصرہ کئے پڑا تھا کہ یہ خبر پہنچی۔ فتح سے نا امید ہو کر خزانہ اور جواہر خانہ ساتھ لیا اور ترکستان کا قصد کیا۔ درباریوں نے یہ دیکھ کر کہ ملک کی دولت ہاتھ سے نکلی جاتی ہے، وکا اور جب اس نے نہ مانا تو بر سر مقابلہ آ کر تمام مال و اسباب ایک ایک کر کے چھین لیا۔ یزد گرد بے سرو سامان خاقان کے پاس پہنچا اور حضرت عمرؓ کی اخیر خلافت تک فرغانہ میں جو خاقان کا دار السلطنت تھا مقیم رہا۔ احف نے حضرت عمرؓ کو فتح کا نامہ لکھا۔ قاصد مدینہ پہنچا تو حضرت عمرؓ نے تمام آدمیوں جمع کر کے مژدہ فتح سنایا اور پر اثر تقریر کی۔ آخر میں فریا کہ آج مجوسیوں کی سلطنت برباد ہو گئی اور اب وہ اسلام کو کسی طرح ضرر نہیں پہنچا سکتے لیکن اگر تم بھی راست کرداری پر ثابت قدم نہ رہے تو اللہ تعالیٰ تم سے بھی حکومت چھین کر دوسروں کے ہاتھ میں دے دے گا۔