حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا قبول اسلام اور ہجرت - علامہ شبلی نعمانی ؒ

 قبول اسلام 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ستائیسواں سال تھا کہ عرب میں آفتاب رسالت طلوع ہوایعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معبوث ہوئے اور اسلام کی صدا بلند ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گھرانے میں زید کی وجہ سے توحید کی آواز بالکل نامانوس نہیں رہی تھی۔ چنانچہ سب سے پہلے زید کے بیٹے سعید رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔ سعید کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن فاطمہ سے ہوا تھا۔ اس تعلق سے فاطمہ بھی مسلمان ہو گئیں۔ اسی خاندان میں ایک اور معزز شخص نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسلام قبول کر لیاتھا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابھی تک اسلام سے بالکل بیگانہ تھے۔ ان کے کانوں میں جب یہ صداپہنچی تو سخت برہم ہوئے۔ یہاں تک کہ قبیلے میں جو لوگ اسلام لا چکے تھے ان کے دشمن بن گئے۔ لبینہ ان ے خاندان میںایک کنیز تھی جس نے اسلام قبول کر لیا تھا اس کو بے تحاشا مارتے اور مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے کہ ذرا دم لے لوں پھر مارو ں گا۔ لبینہ کے سوا اور جس جس پر قابو چلتا تھا زدوکوب سے دریغ نہیںکرتے تھے لیکن اسلام کا نشہ ایسا تھا کہ جس کو چڑھ جاتاتھا اترتا نہ تھا ان تمام سختیوں پر ایک شخص کو بھی وہ اسلام سے بددل نہ کر سکے ۔ آخر مجبور ہوکر فیصلہ کر لیا کہ (نعوذ باللہ) خود بانی اسلام کا قصہ پاک کر دیں۔ تلوارکمر سے لگا کر سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلے ۔ کارکنان قضانے کہا:

آمد آں یارے کہ مامے خواستیم

راہ میں اتفاقاً نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ مل گئے۔ ان کے تیور دیکھ کر پوچھا خیر ہے؟ بولے کہ ’’محمد کا فیصلہ کرنے جا رہا ہوں‘‘۔ انہوںنے کہا پہلے اپنے گھر کی خبر لو خود تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام لا چکے ہیَ فوراً پلٹے اور بہن کے ہاں پہنچے۔ وہ قرآن پڑھ رہی تھیں ان کی آہٹ پا کر چپ ہو گئیں اور قرآن کے اجزا چھپا لیے لیکن آواز ان کے کانوں میں پڑ چکی تھی۔ بہن سے پوچھا کہ یہ کیا آواز تھی؟َ بہن نے کہا کچھ نہیں بولے کہ نہیںمیں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرتد ہو گئے ہو۔ یہ کہہ کر ہنوئی سے دست و گریبان ہو گئے۔ اورجب ان کی بہن بچانے کو آئیں تو ان کی بھی خبر لی۔ یہاں تک کہ ان کا بدن لہولہان ہو گیا۔ اسی حالت میں ان کی زبان سے نکلا کہ عمر! جو بن آئے کرو لیکن اسلام اب ان کے دل سے نہیں نکل سکتا۔ ان الفاظ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل پر ایک خاص اثر کیا۔ بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا۔ ان کے بدن سے خون جاری تھیا۔ یہ دریکھ کر اور بھی رقت ہوئی۔ فرمایا کہ تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھ کو بھی سنائو۔ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے قرآ کے اجزاء لا کر سامنے رکھ دیے۔ اٹھا کر دیکاھ تو یہ سورۃ تھی۔

سبح للہ ما فی السموت والارض وھو العزیز الحکیم

ایک ایک لفظ پر ان کا دل مرعوب ہو تا جاتا تھا یہاں تک کہ جب اس آیت پر پہنچے :

آمنو باللہ ورسولہ

تو بے اختیار پکار اٹھے کہ

اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد رسول اللہ

یہ وہ زمانہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکان میں جو کوہ صفا کی تلی میں واقع تھا پناہ گزین تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آستانہ مباک پر پہنچ کر دستک دی۔ چونکہ شمشیر بکف تھے اور اس واقعہ کی کسی کو اطلاع نہ تھی اس لیے صحابہ رضی اللہ عنہ کو ترددہوا لیکن حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آنے دو مخلصانہ آیا ہے تو بہتر ورنہ تلوار سے اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اندر قدم رکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا کہ کیوں عمر کس ارادے سے آیا ہے ؟ نبوت کی پررعب آوا ز نے ان کو کپکپا دیا خضوع کے ساتھ عرض کی کہ ایمان لانے کے لیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے بے ساختہ اللہ اکبر پکارا اٹھے اور ساتھ ہی تمام صحابہ رضی  اللہ عنہ نے مل کر اس زور سے اللہ اکبر کانعرہ مارا کہ مکہ کی تمام پہاڑیاںگونج اٹھیں۔ ۱؎

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے سے اسلام کی تاریخ میں نیا دو ر پیدا ہوا۔ اس وقت تک اگرچہ ۵۰‘۴۰ آدمی اسلام لا چکے تھے عرب کے مشہور بہادر حضرت حمزہ رضی اللہ عن سید الشہدا نے بھی اسلا م قبول کر لیا تھا۔ تاہم مسلمان اپنے فرائض مذہبی اعلانیہ ادا نہیں کر سکتے تھے۔ اور کعبہ میں نماز پڑھنا توبالکل ناممکن تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے ساتھ دفعتہ یہ حالت بدل گئی۔ انہوںنے علانیہ اپنا اسلام ظاہر کر دیا۔ کافروں نے اول اول ان پر بڑی شدت کی لیکن وہ برابر ثابت قدمی کرتے رہے۔ یہاںتک کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ کعبہ میں جا کر نماز ادا کی۔ ابن ہشام نے اس واقعہ کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زبانی ان الفاظ میں روایت کا۔ ہے:

فلما اسلم عمر قاتل قریشا حتیٰ صلی عند الکعبہ وصلینا معہ

’’جب عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو قریش سے لڑے یہاں تک کہ کعبہ میں نماز پڑھی اوران کے ساتھ ہم لوگوں نے بھی پڑھی‘‘۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام کا واقعہ سنہ نبوی کے چھٹے سال پیش آیا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہجرت

اہل قریش ایک مدت تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعوائے نبوت کو بے پروائی کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ لیکن اسلا م کو جس قدر شیوع ہوتا جاتا تھا ان کی بے پروائی‘ غصہ اور ناراضی سے بدلتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ جب ای جماعت کثیر کے حلقے مین آگئی تو قریش نے زور اور قوت کے ساتھ اسلام کو مٹادینا چاہا۔ حضرت ابو طالب کی زندگی تک تو علانیہ کچھ نہ کر سکے لیکن ان کے انتقال کے بعد کفار ہر طرف سے اٹھ کھڑے ہوئے اور جس کو جس مسلمان پر قابو ملا اس طرح ستانا شروع کیا کہ اگر اسلام کے جوش اور وارفتگی کا اثر نہ ہوتاتو ایک شخص بھی اسلام پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا تھا۔ یہ حالت پانچ چھ برس تک رہی اوریہ زمانہ ا س سختی سے گزرا کہ اس کی تفصیل ایک نہایت درد انگیز داستان ہے ۔

۱؎  انساب الاشراف بلاذری و طبقات ابن سعد و اسد الغابہ و ابن عساکر و کامل بن الاثیر

اسی اثنا میں مدینہ منورہ کے ایک معزز گروہ نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ جن لوگوں کو کفار کے ستم سے نجات نہیںمل سکتی وہ مدینہ ہجرت کرجائیں۔ سب سے پہلے ابو سلمہ عبداللہ بن اشہل رضی اللہ عنہ‘ پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ‘ اورعمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی۔ ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیس آدمیوں کے ساتھ مدینے کا رخ کیا ۔ صحیح بخاری میں ۲۰ کا عدد مذکور ہے۔ لیکن ناموں کی تفصیل نہیں۔ ابن ہشام نے بعضوں کے نام لکھے ہیں اور وہ یہ ہیں:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ جن لوگوں نے ہجرت کی

زید بن خطا ب ؓ ، سعید بن زید بن خطابؓ، خنیس بن حدافہ سہمیؓ ، عمرو بن سراقہ ؓ، عبداللہ بن سراقہ ؓ، واقد بن عبداللہ تمیمی ؓ ، خولیٰ بن ابی خولیٰ ؓ، مالک بن ابی خولہؓ ، ایاس بن بکیر ؓ، عاقل بن بکیر ؓ، عامر بن بکیرؓ، خالد بن بکیرؓ، ان میں سے زید ؓ حضرت عمرؓ کے بھائی سعید ؓ بھتیجے خنیس ؓ داماد اور باقی دوست احباب تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قیام گاہ

مدینہ منورہ کی وسعت چونکہ کم تھی۔ مہاجرین زیادہ تر قباء (جو مدینہ سے تین میل ہے) قیام کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی یہیں رفاعہؓ بن عبدالمنذر کے مکان پرٹھہرے۔ قباکو عوالی بھی کہتے ہیں چنانچہ صحیح مسلم میں ان کی فرودگاہ کا نام عوالی ہی لکھا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد اکثر صحابہ ؓ نے ہجرت کی یہاں تک کہ ۱۳ نبوی میں خود جناب رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ چھوڑا اور آفتاب رسالت مدینہ کے افق پر طلوع ہوا۔

مہاجرین اورانصار میں اخوت

مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین کے رہنے سہنے کاانتظام کیا۔ انصار و بلا کر ان مین اورمہاجرن میںبرادر ی قائم کی جس کا یہ اثر ہوا کہ جو مہاجر جس انصاری کا بھائی بن جاتا تھا‘ انصاری کو اپنی جائیداد مال اسباب نقدی اور تمام چیزوں میں سے آدھا آدھا بانٹ دیتا تھا۔ اس طرح تمام مہاجرین اور نصار بھائی بھائی بن گئے۔ اس رشتہ کے قائم کرنے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طرفین کے رتبہ اور حیثیت کا فرق مراتب ملحوظ رکھتے تھے یعنی جو مہاجر جس درجے کا ہوتا تھا اسی رتبے کے انصاری کو اس کا بھائی بناتے تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلامی بھائی

چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جس کا بھائی قرار دیا گیا ان کا نام عتبان بن مالک تھا جو قبیلہ بنی سالم کے سردار تھے ۱؎۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لانے پر صحابہؓ ن قباء میں ہی قیام رکھا۔ حضرت عمر ؓ بھی یہی مقیم رہے لیکن ی معمول کر لیا کہ ایک دن ناغہ دے کر بالالتزام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاتے اور دن بھر خدمت اقدس میں حاضر رہتے۔ ناغہ کے دن یہ بندوبست کیا جاتا کہ ان کے برادر اسلامی عتبان بن مالک ؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور جو کچھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنتے حضرت عمر ؓ سے جا کرروایت کرتے ۔ چنانچہ بخاری ؒ نے متعدد ابواب مثلا باب العلم‘ باب النکاح وغیرہ میں ضمناً اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔

مدینہ میں پہنچ کر اس بات کا وقت آیا کہ اسلام کے فرائض و ارکان محدود اور معین کیے جائیں کیونکہ مکہ مکرمہ  می جان کی حفاظت ہی سب سے بڑا فرض تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اب تک روزہ زکوۃ نماز جمعہ نماز عید صدقہ فطر کوئی چیز وجود میں نہیںآئی تھی۔ نمازوں میں بھی یہ اختصار تھا کہ مغرب کے سوا باقی نماوں میں صرف دو رکعتیں تھیں۔یہاں تک کہ نماز کے اعلان کا طریقہ بھی معین نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا انتظام کرنا چاہا یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں نماز کے اعلان کے لیے بوق اور ناقوس کا رواج تھا۔ اس لیے صحابہؓ نے یہی رائے دی۔ ابن ہشام نے روایت کی کہ یہ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجویز تھی۔ بہرحال یہ مسئلہ زیر بحث تھا اور کوئی رائے قرار نہیں پائی تھی کہ حضرت عمر ؓ آ نکلے اور انہوںنے کہا کہ ایک آدمی کو علان کرنے کے لیے کیوں نہ مقرر کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی وقت حضرت بلال ؓ کو اذان کا حکم دیا ۲؎۔

اذان کا طریقہ حضرت عمرؓ کی رائے کے موافق قائم ہوا

یہ بات لحاظ کے قابل ہے کہ اذان نماز کا دیباچہ اور اسلام ا ایک بڑا شعار ہے حضرت عمرؓ کے یے اس سے زیادہ کیا فخر کی بات ہو سکتی ہے کہ یہ شعار اعظم انہی کی رائے کے موافق قائم ہوا۔

۱؎  دیکھو سیرۃ ابن ہشام۔ حافظ ا بن حجر نے مقدمہ فتح الباری (صفحہ ۳۲۱) میں عتبان کی بجائے اوس بن خول کا نام لکھا ہے اور اسی کی تصحیح کی ہے ۔ لیکن تعجب ہے کہ خود علامہ موصوف نے اصٓابہ میں ابن سعد کے حوالہ سے عتبان ہی کا نام لکھا ہے اور اوس ابن خولی کاجہاں حال لکھا ہے حضرت عمر ؓ کی اخوت کا ذکر نہیں کیا۔

۲؎  صحیح بخاری کتاب الاذان۔