کتاب " الفارق " کا دیباچہ - شمس العلما علامہ شبلی نعمانی ؒ

’’الفاروق‘ ‘ جس کا غلغلہ وجود میں آنے سے پہلے تما م ہندوستان میں بلند ہو چکا ہے۔ اول اول اس کا نام زبانوں پر اس تقریب سے آیا ہے کہ المامون طبع اول کے دیباچہ میں ضمناً اس کا ذکر آگیا تھا۔ اس کے بعد اگرچہ مصنف کی طرف سے بالکل سکوت اختیار کرگیا‘ تاہم نام میں کچھ ایسی دلچسپی تھی کہ خود بخود پھیلتا گیا‘ یہاں تک کہ اس کے ابتدائی اجزاء بھی تیار نہیں ہوئے تھے کہ تمام ملک میں اس سرے سے ا س سرے تک الفاروق کابچہ بچہ کی زبان پر تھا۔

ادھر کچھ ایسے اسباب پیش آئے کہ الفاروق کا سلسلہ رک گیا اوراس کی بجائے دوسرے کام چھڑ گئے۔ چنانچہ ا س اثنا میں متعدد تصنیفیں مصنف کے قلم سے نکلیں اور شائع ہوئیں لیکن جونگاہیں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے کوکبہ جلال کا انتظا ر کر رہی تھیں ان کو کسی دوسرے جلوہ سے سیری نہیں ہو سکتی تھی۔ سوئے اتفاق یہ کہ مجھ کو الفاروق کی طرف سے بے دلی کے بعض ایسے اسباب پیدا ہوگئے تھے کہ میں نے اس تصنیف سے گویا ہاتھ اٹھا لیا تھا لیکن ملک کی طرف سے تقاضے کی صدائیں رہ رہ کر اس قدر بلند ہوتی تھیں کہ میں مجبوراً قلم ہاتھ میں رکھ رکھ کر اٹھا لیتا تھا ‘ بالآخر ۱۸ اگشت ۱۸۹۴ء کو میں نے ایک قطعی فیصلہ کر لیا اور مستقل اور مسلسل طریقے پر اس کام کو شروع کیا۔ ملازمت کے فرائض اور اتفاقی موانع وقتاً فوقتاً اب بھی سد راہ ہوتے رہے‘ یہاں تک کہ متعدد دفعہ کئی کئی مہینے کاناغہ پیش آگیا‘ لیکن چونکہ کام کا یہ سلسلہ مطلقاً بند نہیں ہوا اس لیے کچھ نہ کچھ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ آج پورے چار برس کے بعد یہ منزل طے ہوئی اور قلم کے مسافر نے کچھ دنوں کے لیے آرام لیا۔

شکر کہ جمازہ بمنزل رسید

زورق اندیشہ بساحل رسید

یہ کتاب دو حصو ں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں تمہید کے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ولادت سے وفات تک کے واقعات اور فتوحات ملکی کے حالات ہیں۔ دوسرے حصے میں ان کے ملکی و مذہبی انتظامات اور علمی کمالات اور ذاتی اخلاق اور عادات کی تفصیل ہے اور یہی دوسرا حصہ مصنف کی سعی و محنت کا ’’تماشا گاہ ‘‘ ہے۔

اس کتاب کی صحت طبع میں اگرچہ کچھ کم کوشش نہیں کی گئی۔ کاپیاں میں نے خود دیکھیں اور بنائیں لیکن متواتر تجربوں کے بعد مجھ کو اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ میں اس وادی کا مرد میدان نہیں کاپیوں کے دیکھنے میں ہمیشہ میری نگاہ سے غلطیاں رہ جاتی ہیں اورمیں اس کی کوئی تدبیر نہیں کر سکتا‘ لیکن اگر صاحب مطبع اجازت دیں تو اس قدر کہنے کی جرات کر سکتا ہوں کہ اس جرم کا میں تنہا مجرم نہیں بلکہ کچھ اور لوگ بھی شریک ہیں۔بہرحال کتاب کے آخر میں ایک غلط نامہ لگا دیا گیا ہے جو کفارہ جرم کاکام دے سکتا ہے۔

اس کتاب میں بعض الفاظ کے املا کا طریقہ نیا نظر آئے گا مثلاً اضافت کی حالت میں ’’مکہ‘‘ ارو ’’مدینہ‘‘ کے بجائے ’’مکے‘‘ اور ’’مدینے‘‘ اور جمع کی حالت میں ’’موقع ‘‘ اور ’’مجمع‘‘ کی بجائے ’’موقعے ‘‘ اور’’مجمعے‘‘ لیکن یہ میرا طریق املا نہیں ہے بلکہ کاپی نویس کا ہے اور وہ اس کے برخلاف عمل کرنے پر کسی طرح راضی نہ ہوئے۔

یہ بھی واضح رہے کہ یہ کتاب سلسلہ آصفیہ کی فہرست میں داخل ہے لیکن پہلے سلسلہ آصفیہ کی ماہیت اور حقیقت سمجھ لینی چاہیے۔

ہمارے معزز اور محترم دوست شمس العلماء مولانا سید علی بلگرامی بجمبع القابہ کو تمام ہندوستان جانتا ہے ۔ وہ جس طرح بہت بڑے مصنف بہت بڑے مترجم بہت بڑے زبان دان ہیں‘ اسی طرح بہت بڑے علم دوست اور اشاعت علم و فنون کے بہت بڑے مربی اور سرپرست ہیں۔

اس دوسرے وصف نے ان کواس بات پر آمادہ کر لیا کہ انہوںنے جناب نواب محمد فضل الدین خانہ سکندر جنگ اقبال الدولۃ اقتدار الملک سر وقار الامراء بہادر کے سی آئی ای مدار المہام دولت آصفیہ خلد ہا اللہ تعالیٰ کی خدمت میں یہ درخواست کی کہ حضور پر نور ستم دوران‘ افلاطون زمان‘ فلک بارگاہ سپہ سالار‘ مظفر الملک فتح جنگ ہز ہائنس نواب میر محبوب علی خان بہادر نظام الملک آصف جاہ سلطان دکن خلد اللہ ملکہ کے سایہ عاطفت میں علمی تراجم و تصنیفات کا ایک مستقل سلسلہ قائم کیا جائے گا جو سلسلہ آصفیہ کے لقب سے ملقب ہو اور وابستگان دولت آصفیہ کی جو تصنیفات خلعت قبول پائیں وہ اس سلسلے میں داخل کی جا ئیں۔

جناب نواب صاحب ممدوح کو علوم و فنون کی ترویج و اشاعت کی طرف ابتدا سے جو التفات و توجہ رہی ہے اور جس کی بہت سی محسوس یادگاریں اس وقت موجود ہیں‘ اس کے لحاظ سے جناب ممدوح نے اس درخواست کو نہایت خوشی سے منظور کیا۔ چنانچہ کئی برس سے یہ مبارک سلسلہ قائم ہے اور ہمارے شمس العلماء کی کتاب ’’تمدن عرب‘‘ جس کی شہرت عالم گیر ہو چکی ہے اسی سلسلے کا ایک بیش بہا گوہر ہے۔

خاکسار کو سنہ ۱۸۹۶ء میں جناب ممدوح کی پیش گاہ سے عطیہ ماہوار کی جو سند عطا ہوئی ‘ اس میں یہ بھی درج تھا کہ خاکسار کی تمام آئندہ تصنیفات اس سلسلے میں داخل کی جائیں۔ اسی بنا پر یہ ناچیز تصنیف بھی اس مبارک سلسلے میں داخل ہے۔

جلد اول کے آخر میں اسلامی دنیا کا ایک نقشہ شامل ہے‘ جس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے لے کر بنو امیہ کے زمانے تک ہر وہد کی فتوحات کا خاص خاص رنگ دیا گیا ہے۔ جس کے دیکھنے سے بیک نظرمعلوم ہوتاہے کہ ہر خلیفہ کے وقت میں دنیا کا کس قدر حصہ اسلام کے حلقہ میں شامل ہوگیا۔ یہ نقشہ اصل میں جرمن کے چند لائق پروفیسروں نے تیار کیا تھا لیکن چونکہ وہ ہماری کتاب کے بیانات سے پورا پورا مطابق نہیں ہوتا تھا‘ اس لیے ہم نے اصل کتاب کے حاشیہ میں موقع بموقع ان اختلافات کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔

شبلی نعمانی

مقام اعظم گڑھ

دسمبر ۱۸۹۸ء