سائنسدانوں نے وہ گھڑی آگے کر دی ہے جس کا کام دنیا کے خاتمے کا وقت بتانا ہے۔

بی بی سی اردو :  ۲۷ جنوری ۲۰۲۳ء 

اس گھڑی کے منتظم ادارے ’بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس‘ کے مطابق یہ گھڑی دن کے اختتام کے 90 سیکنڈ قریب کر دی گئی ہے۔

یہ گھڑی سنہ 1947 میں شروع کی گئی تھی اور اس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ہماری دنیا انسانوں کے اقدامات کی وجہ سے خاتمے کے کس قدر قریب پہنچ چکی ہے۔

اسے ایٹمی جنگوں کے خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع کیا گیا تھا۔

جب سائنسدان حالیہ کچھ مہینوں میں انسانیت کو لاحق خطرات کا جائزہ لیتے ہیں تو اس گھڑی کو آگے یا پیچھے کر دیا جاتا ہے۔

فی الوقت یہ نصف شب سے صرف 90 سیکنڈ دور ہے جبکہ نصف شب کا مطلب انسانیت کی اپنے ہی ہاتھوں تباہی ہے۔

گھڑی کو آگے یا پیچھے کرنے کا فیصلہ بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس کا بورڈ کرتا ہے جس میں 13 نوبیل انعام یافتہ شخصیات شامل ہیں۔

فی الحال اس گھڑی کو آگے کرنے کا فیصلہ فروری 2022 سے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ ہے۔

بورڈ نے کہا کہ روس، یوکرین تنازعے نے اقوام کے درمیان تعلقات کے متعلق گہرے سوالات کو جنم دیا ہے جبکہ اس کی وجہ سے بین الاقوامی رویوں میں تنزلی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ ’روس کی جانب سے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی ڈھکی چھپی دھمکیاں دنیا کے لیے یہ نشاندہی ہیں کہ یہ تنازع حادثاتی طور پر، بالا ارادہ یا پھر غلط حساب کتاب کی وجہ سے بھی بڑھ سکتا ہے اور یہ ایک بہت خوفناک خطرہ ہے۔‘

دیگر خطرات میں موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی خطرے اور تباہ کن ٹیکنالوجیز شامل ہیں۔

سائنسدانوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’جنگ کے خطرات صرف ایٹمی جنگ کے خطرے میں اضافے تک محدود نہیں بلکہ ان سے موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی عالمی کوششوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔‘

وہ ممالک جو ماضی میں روسی تیل اور گیس پر منحصر تھے وہ اب دوسرے سپلائرز کی جانب راغب ہو رہے ہیں جو ماحول دوست ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی۔

اور جبکہ دنیا کووڈ 19 کی عالمی وبا کے اثرات سے اب بھی گزر رہی ہے تو بورڈ کا کہنا ہے کہ عالمی رہنماؤں کو حیاتیاتی خطرات کی نشاندہی کرنی ہو گی اور ان سے نمٹنا ہو گا، پھر چاہے وہ قدرتی طور پر پیدا ہوں، حادثاتی طور پر، یا دانستہ طور پر پیدا کیے جائیں۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ عالمی وبا اب وہ خطرہ نہیں جو صدی میں ایک مرتبہ سامنے آئے۔

واضح رہے کہ سنہ 2020 میں گھڑی کی سوئیوں کو نصف شب سے 100 سیکنڈ قریب کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سنہ 2021 اور 2022 میں یہ سوئیاں اپنی جگہ پر ہی رہی تھیں۔

یہ گھڑی نصف شب سے سب سے زیادہ دور صرف ایک مرتبہ رہی ہے جب سرد جنگ کے اختتام پر اسے نصف شب سے 17 منٹ پیچھے دھکیل دیا گیا تھا۔

کیا بنی نوع انسان کے لیے یہ آخری صدی ہے؟

بی بی سی اردو ۲۸ اپریل ۲۰۱۹َء

کیا انسانوں کا وہی حشر ہونے والا ہے جو ڈائنوسارز کا ہوا تھا؟

انسانی نسل کو فی الحال ماحولیاتی تبدیلی، ایٹمی جنگ، وبائی امراض یا پھر زمین کے ساتھ شہابی پتھروں کے ٹکرانے جیسے خطرات لاحق ہیں۔

ریڈیو براڈكاسٹر اور فلسفی ڈیوڈ ایڈمنڈس نے ان امور کے ماہرین سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا رواں صدی کے آخر تک کرۂ ارض سے انسان کا وجود مٹ تو نہیں جائے گا؟

سب سے بڑا خطرہ کیا ہے؟

آکسفورڈ کے فیوچر آف ہيومنٹیز انسٹی ٹیوٹ کے محقق اینڈرس سینڈبرگ کا کہنا ہے کہ 'بنی نوع انسان کے سامنے معدوم ہونے کا ایسا خطرہ ہے جو پوری کہانی ہی ختم کر دے گا۔'

20 ویں صدی تک ہمارا یہ خیال تھا کہ ہم بہت ہی محفوظ جگہ آباد ہیں لیکن اب صورت حال بالکل بدل چکی ہے۔

انسانیت کے ختم ہونے کا خطرہ تشویشناک حد تک بڑھ گيا ہے۔ اس کی چند مثالیں ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں۔

شہابیوں سے ٹکرانے کا خطرہ

سنہ 1980 کی دہائی تک ہمارا یہ خیال نہیں تھا کہ آسمان سے برسنے والے شہابیے سے زمین پر کوئی بڑی تباہی آئے گی لیکن رواں دہائی میں سائنسدان باپ بیٹے لوئی اور والٹر ایواریز نے ایک تصور پیش کیا کہ شہابیوں کی وجہ سے زمین سے ڈائنوسار ختم ہو گئے۔

میکسیکو کی خلیج کے یوکٹان میں ایک بڑے گڑھے کی دریافت کے بعد سائنسدانوں کے ایک بین الاقوامی پینل نے حال ہی میں اس خیال کی حمایت کی ہے۔

بہر حال شہابیوں کے ٹکرانے کا امکان ابھی نہیں ہے لیکن ہم خود ہی مختلف اقسام کے خطرات پیدا کر رہے ہیں۔

آبادی میں اضافہ، وسائل کا خاتمہ اور موسمیاتی تبدیلی

موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے ہم بہت حد تک آشنا ہیں لیکن لندن یونیورسٹی کی ریسرچر کیرن کلہیمین آبادی میں اضافے پر تحقیق کر رہی ہیں۔

کم ہوتے قدرتی وسائل کی خبروں کے ساتھ اس کا ذکر ہم اس لیے نہیں کرتے کیونکہ ہم اس بارے میں سوچنا نہیں چاہتے۔

کیرن کے مطابق جن چیزوں سے انسانی آبادی اجتماعی قبر میں دفن ہو سکتی ہے ان میں موسمیاتی تبدیلی اور آبادی میں اضافہ کا مشترکہ مسئلہ بھی شامل ہے۔

ان کے مطابق آبادی میں اضافے کا آب و ہوا کی تبدیلی پر خاض اثر ہے کیونکہ وسائل ختم ہو رہے ہیں اور ان کا استحصال بڑھ رہا ہے اور یہ آب و ہوا کی تبدیلی کو مزید خوفناک صورت فراہم کرتا ہے۔

ان کا خیال ہے کہ اگر آبادی میں اضافہ رک بھی جائے اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلی کو روکنا ناممکنات میں شامل ہے۔

حیاتیاتی تنوع کی تباہی

کچھ محققین کا کہنا ہے کہ اس صدی کے وسط تک کاروباری ماہی گیری کی صنعت کے لیے سمندر میں وافر مچھلیاں نہیں ہوں گی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ دکانوں میں خریدنے کے لیے کوئی مچھلی، چپس یا فش کری نہیں ہو گی۔

کیڑے مکوڑے بھی تیزی سے ناپید ہو رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی چڑیوں کی کئی اقسام بھی ختم ہو رہی ہیں کیونکہ ان کی خوارک وہ کیڑے مکوڑے ہیں جو اب نہیں رہے۔

کرین کا کہنا ہے کہ ہم حیاتیاتی تنوع کے ختم ہونے کے نتائج سے لاعلم ہیں لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے خاتمے سے ہماری زندگیوں پر برے اثرات مرتب ہونے والے ہیں۔

وبا

کیمبرج کے سینٹر فار ایگزسٹنشیئل رسک سے منسلک للتھا سندرم حیاتیاتی خطرات کا مطالعہ کر رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ سنہ 1918 میں ہسپانوی بخار کی وبا کے دوران ایک اندازے کے مطابق تقریباً آدھی آبادی اس کی زد میں آ گئی تھی اور اس سے پانچ سے دس کروڑ افراد کی موت ہوئی تھی۔

وبائی امراض اس وقت پھیلتے ہیں جب بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوتی ہے۔ اس وقت بھی لوگوں کو جنگوں سے واپس بھیجا جا رہا تھا اور وہ ڈربے نما کمروں میں رہ رہے تھے۔

اگرچہ ہم ویکسین تیار کرنے میں زیادہ مہارت حاصل کر چکے ہیں لیکن عالمی سطح پر وبا کے خطرات ہیں۔

ہسپانوی فلو کے دوران لوگ ٹرینوں اور کشتیوں سے سفر کرتے لیکن فضائی سفر کے اس دور میں وبا کے تیزی سے پھیلنے کا خدشہ ہے۔

سرپھروں سے خطرہ

انسانوں کی پیدا کردہ زیادہ تر تباہی کے پس پشت کوئی مقصد کارفرما نہیں ہوتے لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں تباہ کن حملوں کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر سنتھیٹک بیالوجی کے استعمال سے لیب میں مہلک وائرس بنانا۔

فیوچر آف لائف انسٹی ٹیوٹ میں محقق فل ٹوریس کے مطابق اگر کوئی تباہی لانے والا بٹن ایجاد کر لیا جائے تو اس بٹن کو دبا کر تباہی مچانے والے لوگوں کی کمی نہیں۔

یہ بٹن دبانے والے سخت گیر مذہبی ہوسکتے ہیں جنھیں اس بات پر یقین ہو کہ انھیں خدا کی طرف سے دنیا کو تباہ کرنے کا حکم موصول ہوا ہے تاکہ اسے بچایا جا سکے۔ جیسا کہ جاپان میں ہوا تھا۔

فل کے مطابق ایسے لوگوں سے بھی خطرہ ہے جو انسانوں کی تباہی کی اپنی ہی توجیح رکھتے ہوئے عوامی مقامات پر اندھا دھند گولی باری کرتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہو سکتے ہیں جو عوامی یا نجی سطح پر سب کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن ان کی تعداد کیا ہو گی؟ ایک تخمینہ کے مطابق، دنیا میں نفسیاتی امراض کے شکار افراد کی تعداد تین کروڑ ہو سکتی ہے اور ان میں سے کوئی بھی خطرہ بن سکتا ہے۔

ایٹمی جنگ

ایٹمی جنگ ہمیں مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتی ہے لیکن اس کے دور رس اثرات سے ہم ختم ہو سکتے ہیں۔

گلوبل کیٹاسٹروفک رسک انسٹی ٹیوٹ کے سیتھ بام کے خیال سے ایٹمی دھماکے کے نتیجے میں غبار فضا میں بہت اونچائی تک جا سکتا ہے۔ یہ غبار کئی دہائیوں تک وہاں رہ سکتا ہیں اور سورج کی روشنی کو روک سکتا ہے۔

ایٹمی جنگ کے نتیجے میں بہت بڑے پیمانے پر تباہی کا ہونا، معاشی رکاوٹیں اور آخر میں عالمی ماحولیات پر برے اثرات مرتب ہونا ہیں۔

مصنوعی انٹیلیجنس

مصنوعی خطرات بہت اقسام کے ہو سکتے ہیں۔ کمپیوٹر کے حساب کتاب میں کسی حادثے کے نتیجے میں گڑبڑ پیدا ہونے سے پوری دنیا کی سٹاک مارکیٹ ختم ہو سکتی ہے اور معیشت تباہ ہو سکتی ہے۔

لیکن ماہرین ایک چیز کے متعلق بہت فکر مند ہیں وہ 'ڈیپ فیک ویڈیو' ہے جس میں کسی مشہور شخص کی فوٹیج کے ساتھ اس طرح چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے کہ وہ چھیڑ چھاڑ کرنے والے کی خواہش کے مطابق ایسا کچھ کرتا یا کہتا نظر آئے جیسا وہ چاہتا ہے۔

مشتبہ ایجنٹ اس کے ذریعے دو ممالک میں جنگ کروا سکتے ہیں جو ایٹمی جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔

یہ تکنیک پہلے سے ہی موجود ہے اوراب اصل اور جعلی کے درمیان کا فرق مٹتا جا رہا ہے۔

یہ خطرات کیسے کم ہو سکتے ہیں؟

ایسے میں ہماری تہذیب و تمدن کو کس قدر سنگین صورت حال کا سامنا ہے؟ اس کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ کس خطرے کے بارے میں بات کی جا رہی ہے۔

خیال رہے کہ مستقبل پتھر پر لکھی ہوئی کوئي عبارت نہیں ہے۔ بہت سی چیزیں ہیں جو ہم کر سکتے ہیں اور اب وقت عملی اقدام کا ہے۔

لیکن کیرن کا خیال ہے کہ آبادی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

وہ کہتی ہیں 'خاندان کے سائز سے منسلک سماجی اطوار کو بدلنے کی ضرورت ہے اور اس رویے کو چھوڑنا ضروری ہے کہ ہم جتنے بچے چاہیں پیدا کریں اور جو چاہیں کھائيں۔ اس طرح ہم عالمی تباہی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

احتیاطی تدابیر کے اقدامات کے معاملے میں انسانوں کا ریکارڈ بہت خراب رہا ہے اور ہمارے ادارے مستقبل کی نسل کے حق میں بہت زیادہ فکر مند نظر نہیں آتے۔

لیکن کیرن کا کہنا ہے کہ 21 ویں صدی بنی نوع انسان کی بقا کے لیے آخری ثابت نہ ہو اس کے لیے ہمیں ان خطرات کو زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔