بی بی سی اردو
امریکہ قرض لینے کی آخری حد پر: سپرپاور کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات سمیت ڈالر کی قیمت غیرمستحکم ہونے کے اندیشوں تک
جمعرات کے روز امریکہ قرض لینے کی اپنی طے شدہ آخری حد تک پہنچ گیا جس کے بعد امریکہ کے محکمہ خزانہ نے ادائیگی کے ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے چند فوری اور خصوصی اقدامات اٹھائے ہیں۔
قرض کی آخری حد کو چھونے کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکومت اب اس وقت تک مزید رقم قرض نہیں لے سکتی جب تک کانگریس قرض حاصل کرنے کی لِمٹ یعنی حد کو بڑھانے پر راضی نہ ہو جائے۔ اس وقت امریکی حکومت کی قرض حاصل کرنے کی حد تقریباً 31.4 کھرب ڈالر ہے۔
سنہ 1960 کے بعد سے سیاست دانوں نے قرض کی حد میں 78 بار اضافہ، توسیع یا نظر ثانی کی ہے۔ اگر صرف پچھلے چھ ماہ کی بات کی جائے تو تین مرتبہ اس حد پر نظر ثانی کی گئی ہے۔
لیکن اس مرتبہ صورتحال تھوڑی مختلف ہے کیونکہ کانگریس میں معاملات گذشتہ دو ہفتوں سے تناؤ کا شکار ہیں یعنی اس وقت سے جب سے ریپبلکنز نے ایوانِ نمائندگان کا کنٹرول حاصل کیا ہے اور وہ مسلسل اخراجات میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایسی صورت یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ اس بار سیاست دان ردِ عمل ظاہر کرنے میں (یعنی قرض حاصل کرنے کی حد میں اضافے کے حوالے سے) سست روی کا مظاہرہ کریں گے، جس کی وجہ سے امریکہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور یہ صورتحال امریکہ کو اپنی تاریخ میں پہلی بار جان بوجھ کر ڈیفالٹ کی جانب لے جا سکتی ہے۔
اب امریکہ کیا کرے گا؟
آئندہ چند ماہ کے لیے ملک کی اکثریتی آبادی کو اس معاشی صورتحال کے کوئی اثرات محسوس نہیں ہوں گے یا ہوں گے بھی انتہائی کم۔
امریکی محکمہ خزانہ قرض لینے کی حد کو تجاوز کرنے سے روکنے کے لیے اقدامات کر کے صورتحال کو سنبھال سکتا ہے۔
ماضی میں اس صورت حال کا تدارک یوں کیا گيا تھا کہ وفاقی ملازمین کے ریٹائرمنٹ اور ہیلتھ بینیفٹ فنڈز میں کی جانے والی سرمایہ کاری کو معطل کر دیا گیا اور پھر صورتحال میں بہتری کے بعد میں ان فنڈز کا دوبارہ اجرا کر دیا گیا۔
19 جنوری کے ایک خط میں وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے کچھ اسی قسم کا اعلان کیا۔ یعنی سول سروس ریٹائرمنٹ اینڈ ڈس ایبلٹی فنڈ کے لیے پانچ جون تک ’قرض جاری کرنے کو معطل‘ کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ پوسٹل سروس ریٹائرڈ ہیلتھ بینیفٹ فنڈ کو بھی معطل کر دیا گیا ہے۔
خط میں مزید کہا گیا کہ ’قانون کے مطابق، قرض کی حد میں اضافہ یا اس کے معطل ہونے کے بعد ان دونوں فنڈز کا دوبارہ اجرا کر دیا جائے گا‘ اور یہ کہ ’ریٹائرڈ اور وفاقی ملازمین ان اقدامات سے متاثر نہیں ہوں گے۔‘
لیکن تاخیر کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے۔
سنہ 2011 میں اس مسئلے پر جو تعطل ہوا تھا اس کی وجہ سے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ’ایس اینڈ پی‘ ملک کی درجہ بندی گھٹانے پر مجبور ہو گئی تھی اور ایسا امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا۔
حکومتی تجزیہ کاروں نے اندازہ لگایا ہے کہ اس سال تاخیر کی وجہ سے امریکی ٹریژری کے لیے قرض لینے کی شرح میں کم از کم 1.3 ارب امریکی ڈالر کا اضافہ ہوا کیونکہ سرمایہ کاروں نے غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے زیادہ شرح سود کا مطالبہ کیا۔
تجزیہ کار پہلے سے ہی یہ توقع کر رہے ہیں کہ رواں سال اس موضوع پر ہونے والی بحث مالیاتی بازاروں میں بے چینی کا سبب بنے گی۔
تو کیا اقتصادی تباہی آئے گی؟
ییلن کا اندازہ ہے کہ خصوصی اقدامات کم از کم جون تک امریکہ کے لیے مہلت حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس وقت تک حکومت اپنے بل ادا نہیں کر سکے گی۔
یہی وہ منظر نامہ ہے جسے بہت سے تجزیہ کار ایک ’حقیقی معاشی تباہی‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اگر اس سے بچنا ہے تو بعض ماہرین کے مطابق حکام کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔
اس کا مطلب سود کی ادائیگی کے طریقے تلاش کرنا ہے۔ اس کے باوجود دیگر ذمہ داریاں باقی رہتی ہیں، جیسے دفاعی سازوسامان کے ٹھیکیداروں کو ادائیگیاں، سوشل سکیورٹی چیکس، جو ملک بھر میں لاکھوں ریٹائر ہونے والوں کو دی جاتی ہیں اور سرکاری ملازمین بشمول فوج کی تنخواہیں وغیرہ۔
یہاں تک کہ موسم کی پیشن گوئی جیسی بنیادی چیزیں بھی اس سے متاثر ہو سکتی ہیں کیونکہ بہت سے لوگ حکومت کی مالی امداد سے چلنے والی نیشنل ویدر سروس کے جمع کردہ ڈیٹا پر انحصار کرتے ہیں۔
ڈیفالٹ ملک کے اعتبار کو برباد کر سکتا ہے، عالمی مالیاتی منڈیوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور وہ اس طرح کہ وہاں امریکی قرضوں کی بہت زیادہ تجارت کی جاتی ہے کیونکہ امریکی بانڈز کی خریداری کو روایتی طور پر کم خطرناک سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے۔
کرنسی کے طور پر ڈالر کمزور ہو جائے گا اور ابتدائی طور پر حکومت کے لیے قرض لینے پر شرح سود بڑھ جائے گی یعنی مہنگے قرضے ملیں گے اور بالآخر اس کا اثر عام لوگوں پر بھی ہو گا کیونکہ اس کے نتیجے میں رہن، کریڈٹ کارڈ کے قرضوں اور دیگر قرضوں کے لیے سود کی شرح زیادہ ہو جائے گی۔
صورت حال کا یہاں تک پہنچنا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا ہے اور اس سے صارفین کے اعتماد اور معیشت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچے گا، جو پہلے سے ہی ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔
ییلن نے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ ’حکومتی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکامی امریکی معیشت، تمام امریکیوں کی روزی روٹی اور عالمی مالیاتی استحکام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی۔‘
یہ ایک بڑا مسئلہ کیوں بن گیا ہے؟
قرض کی حد پہلی بار سنہ 1917 میں متعارف کرائی گئی تھی، جس کا مقصد پہلی جنگ عظیم کے دوران حکومت کو رقم اکٹھا کرنے کے لیے کُشن فراہم کرنا تھا۔
اصولی یا نظریاتی طور پر یہ کانگریس کے لیے اخراجات کو کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ فراہم کرتا ہے۔
لیکن قرض کی زیادہ سے زیادہ حد کے متعلق رسہ کشی وقت کے ساتھ نقصاندہ ہوتی گئی کیونکہ اس کی وجہ سے سیاسی تقسیم اور امریکی قرض (جو ایک دہائی میں تقریباً دوگنا ہو گیا ہے) دونوں میں اضافہ ہوا۔
یہ جزوی طور پر (سنہ 2008 کے) مالیاتی بحران اور (کووڈ) وبائی امراض کے دوران حکومت کی طرف سے کیے گئے نمایاں اخراجات کی وجہ سے ہے، لیکن یہ اس کا نتیجہ بھی ہے کہ ملک سنہ 2001 سے مسلسل بجٹ خسارے میں چل رہا ہے اور یہ اپنی آمدن سے زیادہ خرچ کر رہا ہے۔
اور اب قرض کی حد امریکی سیاست میں مستقل طور پر سیاسی سودے بازی کی چِپ بن گئی ہے۔
اس مسئلے پر سنہ 2011 میں پیدا ہونے والا تنازع اس وقت حل ہوا جب اس وقت کے صدر براک اوباما نے 900 ارب ڈالر سے زیادہ کے اخراجات میں کمی کرنے پر اتفاق کیا، جس کی وجہ سے قرض کی حد میں اتنی ہی رقم کی کمی واقع ہوئی۔
بعض ریپبلکن اس بار پھر اخراجات میں کٹوتیوں پر زور دے رہے ہیں، جسے ڈیموکریٹس نے مسترد کر دیا ہے۔