حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ : نام و نسب ‘ سن رشد و تربیت - شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی ؒ

 سلسلہ نسب یہ ہے عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن ریاح بن عبداللہ بن قروط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مالک۔

اہل عرب عموماً عدنان یا قحطان کی اولاد ہیں۔ عدنان کا سلسلہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ عدنان کے نیچے گیارہوں پشت میں فہر بن مالک بڑے صاحب اقتدار تھے۔ انہی کی اولاد ہے جو قریش کے لقب سے مشہور ہے۔ قریش کی نسل میں دس شخصوں نے اپنے زور لیاقت سے بڑ ا امتیاز حاصل کیا اور ان کے انتساب سے دس جدا نا مور قبیلے ب گئے یعنی ہاشم‘ امیہ‘ نوفل‘ عبدالدار‘ اسد‘ تیم‘ مخزوم‘ عدی ‘ جمح اور سمح۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد سے ہیں۔ عدی کے دوسرے بھائی حضرت مرۃ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد سے ہیں۔ اس لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آٹھویں پشت میں جا کر مل جاتا ہے ۔ قریش چونکہ خانہ کعبہ کے مجاور بھی تھے۔ اس لیے دنیوی جاہ و جلال کے ساتھ مذہبی عظمت کا چتر بھ ان پر سایہ افگن تھا۔ تعلقات کی وسعت اور کام کے پھیلائو سے ان لوگوں کے کاروبار مختلف صیغے پیدا ہو گئے تھے اور ہر صیغے کا اہتمام جد جدا تھا۔ مثلاً خانہ کعبہ کی گرانی‘ حجاج کی خبر گیری‘ سفارت شیوخ قبائل کا انتخاب‘ فصل مقدمات‘ مجلس شوریٰ وغیرہ وغیرہ۔ عدی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جد اعلیٰ تھے ان صیغوں میں سفارت کے صیغے کے افسر تھے یعنی قریش کو کسی قبیلے کے ساتھ کوئی ملکی معاملہ پیش آتا تو یہ سفیر بن کر جایا کرتے تھے  ۔ ۱؎ اس کے ساتھ منافرہ کے معرکوں میں بھ ثالث یہی ہوا کرتے تھے۔ عرب میں دستور تھا کہ برابر کے دو رئیوسوں می سے کسی ایک کو افضلیت کا دعویٰ ہوتا تو ایک لائق اورپایہ شناس شخص ثالث مقرر کیا جاتا۔ اور دونوں اس کے سامنے اپنی اپنی ترجیح کے دلائل بیان کرتے۔ کبھی کبھی ان جھگڑوں کو اس قدر طول ہوتا کہ مہینوں معرکے قائم رہتے۔ جو لوگ ان معرکوں میں حکم مقرر کیے جاتے ان میں معاملہ فہمی کے علاوہ فصاحت و بلاغت اور زور تقریر کا بھی جوہر درکار ہوتا تھا۔ یہ دونوں منصب عدی کے خاندان  میں نسلاً بعدنسل چلے آتے تھے۔ 

۱؎  یہ تما م تفصیل’’عقد الفرید‘‘ باب فضائل العرب میں ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جد امجد

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دادا فضیل بن عبدالعزیٰ نے اپنے اسلاف کی طرح ان خدمتوں کا نہایت ہی قابلیت سے انجام دیا اور اس وجہ سے بڑے بڑے عالی مرتبہ لوگوں کے مقدمات ان کے پاس فیصلہ کرنے کے لیے آتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجد عبدالمطلب اور حرب بن امیہ میں جب ریاست کے دعویٰ پر نزاع ہوئی تو دونوں نے نفیل ہی کو حکم مانا۔ نفیل نے عبدالمطلب کے حق میں فیصلہ دیا اور اس وقت حرب کی طرف مخاطب ہو کر یہ جملے کہے۔

اتنافر رجلا ھو اطول منک قامۃ و اوسم و سامۃ واعظم منک ہامۃ و اکثر منک والدا و اجزال منک مفدا و انی ا قول ہذا و انک لبعید الغضب رفیع الصوت فی العرب جلد المریرۃ لجبل لعشیرۃ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے برادر عم زاد

نفیل کے دو بیٹے تھے عمرو خطاب عمرو معمولی لیاقت کے آدمی تھے لیک ان کے بیٹے زید جو نفیل کے پوتے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے نہایت اعلیٰ درجہ کے شخص تھے وہ ا ن ممتاز بزرگوں میں تھے جنہوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے اپنے اجتہاد سے بت پرستی کو ترک کردیا تھا اور موحد بن گئے تھے ان میں زیاد کے سوا باقیوں کے نام یہ ہیں۔ قس ب ساعدہ ورقہ بن نوفل۔

زید بت پرستی اور رسوم جاہلیت کو اعلانیہ برا کہتے تھے اور لوگوں کو دین ابراہیمی کی ترغیب دلاتے تھے اس پر تمام لوگ ان کے دشمن ہوگئے تھے۔ جن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے والد خطاب سب سے زیادہ سرگرم تھے خطاب نے اس قدر ان کو تنگ کیا کہ وہ آخر مجبور ہو کر مکہ مکرمہ سے نکل گئے اور حراء میں جا رہے۔ تاہم کبھی کبھی چھپ کر کعبہ کی زیارت کو آتے ۔ زید کے اشعار آج بھی موجود ہیں جن سے ان کے اجتہاد اور روشن ضمیری کا انداز ہو سکتا ہے۔ دو شعر یہ ہیں: ۱؎

ار با واحدا ام الف رب

ادین اذا تقسمت الامور

ترکت اللات والعزیٰ جمیعا

کذالک یفعل الرجل البصیر

۱؎  زید کا مفصل حال اسد الغابہ کتاب الاوائل اور المعارف لا بن قتیبہ میں ملے گا۔

’’ایک اللہ کو مانوں یا ہزاروں کو جب کہ امور تقسیم ہو گئے۔ میں نے لات و عزیٰ (بتوں کے نام تھے) سب کو خیر باد کہا ار سمجھ دار آدمی ایسا ہی کرتاہے‘‘۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے والد خطاب

خطاب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے والد قریش کے ممتاز آدمیوں میں سے تھے ۱؎۔ قبیلہ عدی اور بنو عبد الشمس میں مدت سے عداوت چلی آتی تھی۔ اور چونکہ عبدالشمس کا خاندان بڑا تھا اس لیے غلبہ انہیں کو رہتا تھا عدی کے تمام خاندان نے جس میں خطاب بھی شامل تھے مجبور ہوکر بنو سہم کے دامن میں پناہ لی۔ اس پر بھی مخالفوں نے بڑے زور کی دھمکی دی تو خطاب نے یہ اشعار کہے:

ابو عدنی ابو عمرو ودونی

رجال لا ینھنھا الوعید

رجال من بنی سھم بن عمرو

الی ابیاتھم یاوی الطرید

کل آٹھ شعر ہیں اور علامہ ازرقی نے تاریخ مکہ میں ان کو بمتامہا نقل کیا ہے۔ عدی کا تمام خاندان مکہ مکرمہ میں مقام صفا میں سکونت رکھتا تھا۔ لیکن جب انہوں نے بنو سہم سے تعلق پیدا کیا تو مکانات بھی انہین کے ہاتھ میں بیچ ڈالے لیکن خطاب کے متعد د مکانات صفا میں باقی رہے جن میں سے ایک مکان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو وراثت میں پہنچا تھا۔ یہ مکان صفا و مروۃ کے بیچ میں تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں اس کو ڈھا کر حاجیوں کے اترنے کے لیے میدان بنا دیا لیکن اس کے متعلق بعض دکانیں مدت تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان کے قبضے میں رہیں ۲؎۔

خطاب نے متعدد شادیاں کیں اونچے اونچے گھرانوں میں کیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ماں ج کا نام خنتمتہ تھا ہشام بن المغیرہ کی بیٹی تھیں۔ مغیرہ اس رتبے کے آدمی تھے کہ جب قریش کسی قبیلے سے لڑنے کے لیے جاتے تو فوج کا اہتمام انہی کے ذمے ہوتا تھا۔ اسی مناسبت سے ان کو صاحب الاعنہ کا لقب حاصل تھا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ انہی کے پوتے تھے۔ مغیرہ ک بیٹے ہشام بھی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نانا تھے ایک ممتاز آدمی تھے۔

۱؎  کتاب المعارف لا بن قتیبیہ۔

۲؎  تاریخ مکہ للا زرقی ذکر رباع بنی عدی بن کعب

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ولادت

حضرت عمر رضی اللہ عنہ مشہور روایت کے مطابق ہجرت نبوی سے ۴۰ برس قبل پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت اور بچپن کے حالات بالکل نامعلوم ہیں۔ حافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی زبانی ایک روایت نقل کی ہے کہ میں چند احباب کے ساتھ ایک جلسے میں بیٹھا ہوا تھا کہ دفعتہ  ایک غل اٹھا دریافت سے معلوم ہوا کہ خطاب کے گھر بیٹا پیدا ہوا ہے۔ اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پیدا ہونے پر غیر معمولی خوشی کی گئی تھی۔ ان کے سن رشد کے حالات بھی کم معلوم ہیں اور کیونکر معلوم ہوتے اس وقت کس کو خیال تھا کہ یہ نوجوان آگے چل کر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہونے والا ہے۔ تاہم نہایت تفحص اور تلاش سے کچھ کچھ حالات بہم پہنچے جس کا یہاں نقل ہونا موزوں نہ ہو گا۔

سن رشد

سن رشد کو پہنچ کرخطاب ان کے باپ نے ا کو جو خدمت سپردکی وہ اونٹوںکا چرانا تھا۔ یہ شغل اگرچہ عرب میں معیوب نہیں سمجھا جاتا تھابلکہ قومی شعار تھا لیکن خطاب بہت بے رحمی کے ساتھ ان کے ساتھ سلوک کرتے تھے۔ تمام تمام دن اونٹ چرانے کا کام لیتے ارو جب کبھی تھک کر وہ دم لینا چاہتے تو سزا دیتے جس میدان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ مصیبت انگیز خدمت انجام دینی پڑتی تھی اس کا نام ضبنان تھا جومکہ مکرمہ سے قریب قدیر س ۱۰میل کے فاصلے پر ہے۔ خلافت کے زمانے میں ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا تو ان کا نہایت عبرت ہوئی۔ آبدیدہ ہو کر فرمایا اللہ اکبر ایک وہ زمانہ تھا کہ میں یہاں نمدے کا کرتہ پہنے ہوئے اونٹ چرایا کرتا تھا اور تھک کر بیٹھ جاتا تو باپ کے ہاتھ سے مار کھاتا آج یہ دن ہے کہ اللہ کے سوا میرے اوپر اور کوئی حاکم نہیں ہے ۱؎۔

شباب کا آغاز ہو ا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ شریفانہ شغلوں  میں مشغول ہوئے جو شرفائے عرب میں عموماً معمول تھے۔ عرب میں اس وقت جن چزوں کی تعلیم دی جاتی تھی اور جو لازمہ شرافت خیال کی جاتی تھیں نسب دانی سپہ گری‘ پہلوانی‘ اور مقرری تھی نسب دانی کا فن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان میں موروثی چلا آتا تھا۔ جاحظ نے کتاب البیان و التبیین میں بتصریح لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اوران کے باپ اور دادا نفیل تینوں بہت بڑے نساب تھے ۲؎ ۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان میں جیسا کہ ہم نے ابھی لکھ آئے ہیں کہ فارت اور فیصلہ منافرۃ یہ دونوں منصب موروثی چلے آتے تھے ور ان کو انجام دینے کے لیے انساب کا جاننا سب سے مقدم امر تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انساب کا فن اپنے باپ سے سیکھا ۔ جاحظ نے تصریح کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب انساب کے متعلق کچھ بیان کرتے تو ہمیشہ اپنے باپ خطاب کا حوالہ دیتے تھے۔

۱؎  طبقات ابن سعد

۲؎؎   طبقات ابن سعد (مطبوعہ مصر) صفحہ ۱۱۷‘۱۲۲

پہلوانی اور کشتی کے فن میں بھی کمال حاصل کیا‘ یہاں تک کہ عکاظ کے دنگل میں معرکے کی کشتیاں لڑتے تھے۔ عکاظ جبل عرفات کے پاسایک مقام تھا جہاں ہر سال کے سال اس غرض سے میلہ لگتا تھا کہ عرب کے تمام اہل فن جمع ہو کراپنے کمالات کے جوہر دکھاتے تھے۔ اس لیے صرف وہی لوگ یہاںپیش ہو سکتے تھے جو کسی فن میں کمال رکھتے تھے۔ نابغہ ذیبانی حسان بن ثابت‘ قس بن ساعدۃ ‘ خنساء جن کو شاعری اور ملکہ تقریر  میں تمام عرب مانتا تھا اسی تعلیم گاہ سے تعلیم یافتہ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نسبت علامہ بلازری نے کتاب الاشراف میں بسند یہ روایت نقل کی ہے کہ عکااظ کے دنگل میں کشتی لڑا کرتے تھے۔ اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ا س فن پر پورا کمال حاصل تھا۔

شہسواری کی نسبتت ان کا کمال عموماً مسلم ہے۔ چنانچہ جاحظ نے لکھا ہے کہ وہ گھوڑے پر اچھل کر سوار ہوتے تھے اوراس طرح جم کر بیٹھتے تھے کہ جلد بدن ہو جاتے تھے۔

قوت تقریر کی نسبت اگرچہ کوئی مصرع شہادت موجود نہیں لیکن یہ امر تمام مورخین نے بااتفاق لکھا ہے کہ اسلام لانے سے پہلے قریش نے ان کو سفارت کامنصب دے دیا تھا اور یہ منصب صرف اس شخص کو مل سکتا تھا جو قوت تقریر اور معاملہ فہمی میںکمال رکھتا تھا۔

ا س کتاب کے دوسرے حصے میں ہم نے اس واقعہ کو تفصیل سے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شاعری کا نہایت عمدہ مذاق رکھتے تھے اور تمام مشہور شعراء کے چیدہ چیدہ اشعار ان کو یاد تھے۔ اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ یہ مذاق انہوںنے جاہلیت ہ میں عکاظ کی تعلیم گاہ سے حاصل کیا ہو گا۔ کیونکہ اسلام لانے کے بعد وہ مذہبی اشغال میں ایسے محو ہو گئے تھے کہ اس قسم کے چرچے بھی چنداں پسند نہیںکرتے تھے۔

اسی زمانے میں انہوں نے لکھناپڑھنا بھی سیکھ لیا تھا او ر یہ وہ خصوصیت تھی جو اس زمانے میں بہت کم لوگوں کو حاصل تھی۔ علامہ بلاذری نے بہ سند لکھا ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معبوث ہوئے تو قریش کے تما م قبیلے میں ۱۷ آدمی تھے جو لکھنا جانتے تھے ان میں سے ایک حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب تھے ۱؎۔

ان فنون سے فارغ ہو کر وہ فکرمعاش میں مصروف ہوئے۔ عرب میں معاش کا ذریعہ زیادہ تر تجارت تھا۔ اس لیے انہوںنے بھی یہی شغل اختیار کیا اوریہی شغل ان کی بہت بڑی ترقیوںکا سبب ہوا۔ وہ تجارت کی غرض سے دور دور ملکوں میں جاتے تھے او ر بڑے بڑے لوگوں سے ملتے تھے۔ خودداری بلند حوصلگی ‘ تجربہ کاری‘ معاملہ دانی‘ یہ تمام اوصاف‘ جو ان میں اسلام لانے سے قبل پیدا ہو گئے تھے سب انہی سفروں کی بدولت تھے ۔

۱؎  فتوح البلدان للبلاذری ص ۴۷۱

ان سفروں کے حالات اگرچہ نہایت دلچسپ اور نتیجہ خیز ہوں گے لیکن افسوس ہے کہ کسی مورخ نے ان پر توجہ نہیں کی علامہ مسعودی نے اپنی مشہور کتاب مروج الذہب میں صرف اس قدر لکھا ہے کہ:

ولعمر بن الخطاب اخبار کثیرہ فی اسفارہ فی الجاہلیۃ الی الشام والعراق مع کثیر من ملوک العرب و العجم وقد اتینا علی مبسوطھا فی کتابنا اخبار الزمان وکتاب الاوسط

’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جاہلیت کے زمانے میں عراق اور شام کے جو سفر کیے اور ان سفروںمیںجس طرح وہ عرب و عجم کے بادشاہوں سے ملے اس کے متعلق بہت سے واقعات ہیں جن کو میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب اخبار الزمان اور کتاب ا لاوسط میں لکھا ہے۔

علامہ موصوف نے جن کتابوں کا حوالہ دیا ہے اگرچہ وہ فن تاریخ کی جان ہیں لیکن قوم کی بدمذاقی سے مدت ہوئی کہ ناپیدہو چکیںمیں نے صرف اس غرض سے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ان حالات کا پتہ لگ  سکے قسطنطنیہ کے تمام کتب خانے چھان مارے لیکن کچھ کامیابی نہ ہوئی۔

محدث ابن عساکر نے تاری دمشق میں جس کی بعض جلدیں میری نگاہ سے گزری ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سفر کے بعض واقعات لکھے ہیں لیکن ان میں کوئی دلچسپی نہیں۔

مختصر یہ کہ عکاظ کے معرکوں اورتجارت کے تجربوں نے ان کو تمام عرب میںروشناس کردیا اور لوگوں پر ان کی قابلیت کے جو ہر روز بروز کھلتے گئے۔ یہاں تک کہ قریش نے ا ن کو سفارت کے منصب پر مامور کر دیا۔ قبائل میں جب کوئی پر خطر معاملہ پیش آتا تو انہی کو سفیر بناکر بھیجتے۔