’اوپن بُک ایگزامینیشن‘: کمرہِ امتحان میں کتابیں کھول کر پرچے حل کرنے کا نظام پاکستان میں قابل عمل ہے؟

روحان احمد
بی بی سی اردو
 ۲۵ فروری ۲۰۲۴

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کمرہِ امتحان میں موجود ہیں اور سوالنامہ آپ کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ اسے دیکھ کر پریشان نہیں ہو رہے کیونکہ آپ کو اجازت ہے کہ آپ اپنی کتابیں کھول کر سوالات کا جواب تلاش کر سکتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ کتابیں کھول کر جواب ڈھونڈنے کو یہاں نقل یا چیٹنگ کا نام بھی نہیں دیا جائے گا اور نہ آپ کو ایسا کرنے پر کوئی سزا دی جائے گی۔

ایسے امتحانات کو ’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کہا جاتا ہے اور اس کے تجربات اس خطے میں انڈیا سمیت کئی ممالک میں کیے جا رہے ہیں۔

’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کا مقصد کیا ہے؟


’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کا مطلب یہ ہے کہ امتحان دیتے وقت طالب علم کتاب یا دیگر مطالعاتی مواد کو دیکھ کر سوالات کے جوابات لکھ سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں ’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ لینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ طالب علموں کی سوچنے، سمجھنے، تجزیہ کرنے اور تنقیدی نگاہ سے پیچیدگیوں کو حل کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے۔

’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ موجودہ نظام تعلیم میں طالب علموں میں رٹّہ لگانے کا رجحان بڑھ رہا ہے جس سے ان کی تعمیری صلاحیتوں پر منفی اثر پڑتا ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی میں 2020 کی گئی ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کے نظام میں امتحان دینے والے طالب علموں پر پڑھائی کا دباؤ کم ہوتا ہے۔

سال 2021 میں اس حوالے سے انڈیا میں بھی ایک تحقیق کی گئی تھی اور محققین کا دعویٰ ہے کہ دہلی یونیورسٹی میں اوپن بُک امتحان میں حصہ لینے والے طالب علموں نے روایتی امتحان دینے والے طالب علموں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھائی تھی۔

اوپن بُک ایگزامینیشن‘ سے طالب علموں پر ذہنی دباؤ کیسے کم ہوگا؟


ماہرین سمجھتے ہیں کہ موجودہ امتحانی نظام بچوں میں مضامین کی سمجھ بیدار کرنے کے بجائے رٹّے کو زیادہ فروغ دیتا ہے۔ ایسے میں ’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ ان کے لیے تناؤ کی کمی کا باعث بن سکتا ہے۔

انڈیا میں ماہرِ تعلیم جگموہن سنگھ راجپوت کہتے ہیں کہ ’موجودہ امتحانی نظام بچوں میں ذہنی تناؤ بڑھا رہا ہے۔ آج جب میں ہر ہفتے کسی نہ کسی بچے کی خودکشی کے بارے میں سُنتا ہوں تو مجھے دُکھ ہوتا ہے۔ اس لیے اوپن بُک امتحانات جتنی جلدی شروع ہوں اُتنا اچھا ہے۔‘

پاکستان میں غیر نصابی اور غیر رسمی تعلیمی سرگرمیوں پر کام کرنے والے مشرف علی فاروقی کہتے ہیں کہ ’میں نے اسی رٹّہ فکیشن والے نظام میں میٹرک کیا تھا لیکن اس وقت امتحانات کے نام پر وہ دوڑ نہیں لگی ہوئی تھی جو ہمیں آج نظر آتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ بچوں کے اندر تنقیدی صلاحیتیں اس وقت تک نہیں آئیں گی جب تک انھیں ان کے پاس موجود معلومات کو پروسیس کرنے کا وقت نہیں ملے گا۔‘

مشرف علی فاروقی کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ کون سا نظامِ تعلیم رائج ہو اس سے فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی سوال یہ ہونا چاہیے کہ کونسے نظام میں بچوں کی ذہنی صلاحیتیں بڑھیں گی۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر امتحانی عمل کو 95 فیصد تک کم کردیا جائے تو ہمیں حیرت انگیز نتائج دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔‘

کیا یہ نظام پاکستان میں قابلِ عمل ہے؟


اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر الہان نیاز کہتے ہیں کہ ’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ پاکستان میں بھی قابلِ عمل ہے اور ہمیں اس کا تجربہ کرنا چاہیے۔

انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’میں اپنی کلاس میں اکثر یہ ایسا کرتا ہوں کہ طالب علموں کو اجازت دے دیتا ہوں کہ وہ اپنی کتابیں یا دیگر مواد ساتھ لے آئیں لیکن پھر ان سے جو سوال پوچھے جاتے ہیں وہ سادہ نہیں ہوتے بلکہ تجزیاتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔‘

’اس کا پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ طالب علم رٹہ لگانے کی روایت سے باہر نکلتے ہیں۔‘

پروفیسر الہان نیاز کے مطابق اگر ’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کا طریقہ کار پاکستان میں اپنایا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ سیکھنے کا عمل بہتر ہوگا اور طالب علموں کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔

پاکستان میں اس نظام کو رائج کرنے میں تاہم کچھ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس میں سب سے بڑی وجہ اچھے استادوں کا نہ ہونا ہے۔

الہان نیاز کہتے ہیں کہ ’اس نظامِ تعلیم کو رائج کرنے سے اساتذہ پر یقینی طور پر اضافی بوجھ پڑے گا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ٹیچرز کو اپنی سبجیکٹ پر اتنی کمانڈ حاصل نہیں ہوتی۔‘

’اگر وہ خود کتاب کا مطالعہ نہیں کریں گے تو اوپن بُک ٹیسٹنگ کے لیے سوالات کیسے بنا پائیں گے؟‘

ان کے مطابق پاکستان کا موجودہ نظام تعلیم اتنا کامیاب نہیں ہے بلکہ یہ دیکھنے میں بھی آیا ہے کہ چھوٹے یا سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچے اپنی کلاس کے حساب سے کارکردگی نہیں دکھا پا رہے ہوتے۔

الہان نیاز نے مزید کہا کہ ’آپ کا موجودہ نظامِ تعلیم ویسے ہی فارغ ہوگیا ہے اور اس نظام میں بچوں کی سوچنے اور سمجھنے صلاحیتیں بھی کم ہو رہی ہیں۔‘

’اس لیے اگر ہم ’اوپن بُک ٹیسٹنگ‘ اگر پورے پاکستان میں نافذ نہیں بھی کر سکتے تو کم سے کم ہمیں اس کا تجربہ پاکستان کے بڑے شہروں میں تو کر کے دیکھنا چاہیے۔‘