قرآن کا تصور ِقومی زبان (تحقیقی مقالہ ) محمداسلام نشتر

Abstract:

The Quran is the last message of Allah to mankind. Its glorious language is eloquent Arabic fully guaranteed through Divine knowledge (Louh-e-Mahfooz). Quranic Arabic played the pivotal role to become the language of Arab Nation exemplary. The Quran drew enlightened and moderated concepts, standards and parameters for a national language first time to humankind. This research paper deals with those Quranic linguistic dimensions, parameters and basic ideas through which any national language of the world can acquire and adopt principles and guidelines. At the end all conceptual aspects has been studied with reference of our National Language, Urdu, as a case study.

ابتدائیہ

قرآن حکیم خالق کائنات ۱ﷲ رب العزت کی آخری الہامی کتاب ہے جو عربی زبان میں محمدﷺعربی پر نازل ہوئی۔ بادی النظر میں اس کا کوئی مخصوص موضوع نہیں مگر عمیق نظری میں اس کا موضوع انسان ہے۔ گویا ا س میں کائنات کے ہر موضوع پر انتہائی اختصار مگر کامل جامعیت سے نہایت سادہ ترین الفاظ، اصطلاحات اور مثالوں سے کی گئی رہنمائی پورے اصول و ضوابط کے ساتھ مل جاتی ہے۔ اسی لیے انسان پندرہ صدیاں بعد آج بھی آیات قرآنی کی اپنے زمانے کے مطابق تفسیر کررہا ہے۔ صدیوں کی تحقیق بتاتی ہے کہ بات انسان اور اُس کی زبان کے موضوع پر ہو اور نطقِ انسانی کلام اﷲ کے بوسے نہ لے، یہ ناممکن ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خالق کائنات نے قرآن میں انسان کی ہدایت کے لیے اس کی اپنی زبان کا انتخاب کیا اور اس کے لیے پورے نظام فطرت کو لیس و آراستہ کردیا ۔ فرد سے قوم اور قوم سے عربی و عجمی اقوام و ملل کی زبانوں کو اﷲ کی نشانیاں قرار دیا۔ زبان کو ایسا تحفظ دیا کہ قرآن لوح محفوظ پر رقم کردیااور اس کی حفاظت کا ذمہ خود لے لیا۔ اس ذات باری نے قرآن کی مختصر اور طویل، ہر دو، آیات میں ان حقیقتوں کو بیان فرمادیا تاکہ انسان سمجھ لے اور اﷲ کے رازوں کو تلاش کرکے پالے۔ بِلاشبہ ایسا صرف اور صرف اسی زبان میں ہوسکتا تھا جو انسان کے اپنے معاشرے میں روزمرہ مشترکہ طور پر بولی جاتی ہے۔ اگرچہ ابتداً تو ایسا ماں بولی یعنی مادری زبان میں ہوسکتاہے مگر وقت کے ساتھ انسانی زندگی کے وسیع ہوتے لسانی دائروں کے تقاضے قومی زبان ہی پورے کرسکتی ہے۔ اسی لیے ہر نبی کو اس کی قوم کی ہی زبان میں بھیجنے کا قرآنی اصول انسان کے سامنے رکھ دیا گیا تاکہ کسی بھی مرحلے پر وہ مشکلات کا شکار نہ ہو۔ یہ سب کچھ عملاً وقوع پذیر ہونے کے لیے فطرت نے کون کون سے اسباب پیدا کیے اور انسان کی کیا ذمہ داریاں مقرر کی گئیں؟

اس موضوع پر قرآن کی رہنمائی سے پہلے نہایت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قوم، زبان، قومی زبان اور زبان عامہ پر کچھ بات کرلی جائے تاکہ ہم مطلوبہ موضوع پر تفصیلات حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں۔ اس کے اگلے مرحلے کے طور پر ہم قرآن سے استنباط کرکے قرآنی عربی کے بحیثیت قومی زبان کے موضوع کو آگے بڑھائیں گے جس میں اس کے مختلف پہلوؤں پر بات کی جائے گی۔ اس میں قرآن کے تقابل لسان کے اصول پر بالواسطہ بات ہوگی۔ مباحث میں بعض آیات مبارکہ ایک سے زیادہ مقامات پر مکرر زیربحث آئی ہیں۔ ایسا زیربحث موضوعات کی ضرورت اور تقاضوں کے مطابق کیاگیا ہے۔

قرآنی آیات کی تلاش کے لیے محمد فواد عبدالباقی کی تالیف ''المعجم الفہرس لالفاظ القرآن الکریم''سے استفادہ کیا گیا ہے۔قرآنی آیات کے اردو تراجم کے لیے زبان و بیان میں سلاست و صحت کے باعث ترجمہ کنزالایمان از: مولانااحمدرضاخان پر زیادہ تر انحصار کیا گیا ہے۔ متن کے اندر بعض آیات کے اردو تراجم کے لیے اردو دائرۂ معارف اسلامیہ، دانشگاہ پنجاب، لاہور کی جلد۱۶/۱ سے بھی استفادہ کیاگیا ہے۔

مباحث

قوم ، زبان ، قومی زبان اور زبان عامہ

دنیا کے کسی ایک خطے یا علاقے میں آباد لوگ جو مشترکہ سیاسی اداروں کی بدولت متحد ہوں؛ ایسے لوگوں کا گروہ جو ایک جیسی یا ملتی جلتی زبان بولتے ہوں یا جن کی نسل عموماً ایک ہی ہو ۱؎، قوم کہلاتا ہے۔ تاریخ انسانی کا یہ مسلمہ امر ہے کہ زبان انسان کی ایک ایسی ناگزیر ضرورت ہے جس کے بغیر زندگی حیوانات جیسی ہوجائے۔ اسی لیے انسان حیوان ناطق کہلاتا ہے۔ ماہرین جینیات کی تازہ ترین تحقیقات کے مطابق زبان دانی کی تشکیل کی ذمہ دار ایف او ایکس پی ۲ (FOXP2)نامی جین انسان کے ہر خلیے میںپائی جاتی ہے جو ابتدائی الفاظ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔۲؎

قوم اجتماعی طور پر جس زبان میں سوچتی ہے، اسی میں وہ اپنا مافی الضمیر بہترین انداز میں بیان کرسکتی ہے۔ یہی زبان افراد قوم کے اندر ایک روحانی اور اجتماعی احساس کا جذبہ پیدا کرسکتی ہے۔ زبان کے الفاظ اور جملے خوشی، سکون اور بے قراری کی حالت میں اِن کے دلوں کی عکاسی کرتے ہیں۔۳؎

ریاست قوم کے بطن سے رونما ہوتی ہے اور قوم کا تصور افرادِ قوم کے آزادانہ اجتماعی شعور سے اپنی قوت اخذکرتا ہے۔۴؎ قوم کی تشکیل ، نشوونما اور قومی شعور کے مرحلہ وار ادراک کے ساتھ ساتھ قوموں کی زبانیں بھی بتدریج نشوونما پاتیں اور ارتقاء کے عمل سے گزرتی ہیں۔ قوم اپنے اجتماعی شعور کی تعمیر؛ استحکام اور یکجہتی کے لیے اپنی مقامی زبانوں اور بولیوں میں سے علمی طور پر زیادہ ترقی یافتہ؛ مقبول اور /یامشترکہ زبان کو منتخب کرکے قومی ضروریات پورا کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ یہ زبان اُن کی قومی زبان اور زبان عامہ یعنی لینگوافرانکا کا کردار ادا کرتی ہے کیوں کہ قومی زبان کسی قومیت میں بدلنے کے عمل میں ایک قوم ساز معاون کے طور پر سامنے آچکی ہوتی ہے۔ چنانچہ اس زبان کا قوم کے ساتھ آئینی تعلق بن چکا ہوتا ہے۔

قومی زبان کے ساتھ قوم کی مجموعی ترقی کے کئی مقاصد وابستہ ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا مقصدتو قوم کی لسانی شناخت اور علمی و ادبی ترقی کا ہے۔ اسی سے وابستہ دوسرا مقصد قوم کی تہذیبی و تمدنی ترقی ہے۔ اس مقام پر نہایت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم ملک کی زبان عامہ (لینگوافرانکا) کی بھی تعریفات پر ایک نظر ڈال لیں تاکہ نہ صرف زیرجائزہ موضوع بلکہ آج کے دور میں بھی کسی بھی ملک کی قومی زبان پر کُھل کر بات کی جاسکے۔

آن لائن دی فری ڈکشنری پر امریکن ہیری ٹیج ڈکشنری کے حوالے سے لینگوافرانکا کے لیے یہ الفاظ درج ہیں: ''ایک ایسی زبان جو مختلف مقامی زبانیں بولنے والوں کے درمیان مشترکہ زبان کے طور پر اختیار کرلی گئی ہو۔''۵؎ وکی پیڈیا کے مطابق زبان عامہ نہایت منظم انداز سے استعمال ہونے والی ایک ایسی زبان ہوتی ہے جو بالخصوص مختلف النوع مادری زبانیں بولنے والوں کے مابین رابطے، مواصلت، ابلاغ اور تبادلہ خیال کو ممکن بناتی ہے جبکہ محوِگفتگو دونوں افراد کی مادری زبانوں سے یہ مختلف تیسری زبان ہوتی ہے۔''۶؎ یہ اکثروبیشتر قومی ہی ہوتی ہے لیکن بعض اوقات اس کے مختلف ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ ایسا عموماً بین الاقوامی زبان کے کردار میں ہوتا ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عربی بھی کبھی زبان عامہ (لینگوافرانکا) تھی یا رہی ہے کیوں کہ قرآن کی سورۃ الروم میں آسمانوں اور زمین کی پیدائش ، زبانوں اور رنگتوں کی بوقلمونی کو اﷲ کی نشانیاں قرار دیا گیا ہے۔

قدیم عرب معاشرہ اور عربی کا بحیثیت قومی زبان ارتقاء

اس سے پہلے کہ ہم قرآن حکیم کی زبان سے متعلق موضوعاتی تجزیہ کی طرف بڑھیں، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے ۲۳ سالہ دور میں عرب کی مجموعی کیفیت پر سرسری سی ایک نظر ڈال لیں۔ اس سے ہمیں اندازہ کرنے میں آسانی ہوجائے گی کہ قرآن جزیرہ نمائے عرب کے کن سیاسی، اقتصادی، مذہبی، لسانی اور ثقافتی حالات میں نازل ہوا اور اس کے ان پر کیا لسانی اثرات مرتب ہوئے۔

جزیرہ نمائے عرب براعظم ایشیا کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں شام اور عراق واقع ہے جبکہ جنوبی سرحد بحرہند سے ملتی ہے۔ اس میں سلسلہ کوہ سرات شام کی سرحد سے جاملتا ہے۔ اس وجہ سے جزیرہ نمائے عرب مغربی اور مشرقی دو حصوں میں منقسم ہوجاتا ہے۔ مغربی حصہ سرات کے دامن سے بحراحمر کے ساحل تک 'غور' یعنی نشیبی کہلاتا ہے۔ مشرقی حصہ اُبھرا ہوا ہے جس کی سرحدیں عراق سے جاملتی ہیں۔ اونچی زمین ہونے کی وجہ سے اسے 'نجد' کہا جاتا ہے۔ ان دونوں کے بیچوں بیچ کا خطہ 'حجاز' یعنی 'حدفاصل' کہلاتا ہے۔ حجاز کے دا ہنی جانب 'یمن' واقع ہے۔ حجاز جغرافیائی طور پر خاصا گرم خطہ ہے۔ حجاز کے شہروں میں مکہ اور مدینہ سب سے زیادہ مشہور ہیں جبکہ طائف یہاں کا سرسبز وشاداب علاقہ ہے۔ جزیرہ نمائے عرب کے بیچ کا حصہ صحرا ہے جو شام کی طرف 'بادیۃ الشام' اور عراق کی جانب 'بادیۃ العراق' جبکہ عراق کے شمال کا صحرائی علاقہ 'بادیۃ الجزیرہ' کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

جزیرہ نمائے عرب میں مختلف موسم اور آب و ہوا پائی جاتی ہے۔ اس طرح یہاں کے لوگوں کا طرز زندگی بھی مختلف ہے۔ یہاں صدیوں پہلے بھی قبائلی نظام رائج تھا۔ ہر قبیلہ کا ایک سردار یا شیخ ہوتا تھا۔عرب قبائل ہمیشہ ایک دوسرے سے جنگ و جدل میں مصروف رہتے۔ دوسرے معاشرتی تقاضوں کے ساتھ ہر قبیلے کاایک یا ایک سے زیادہ شاعرہوتے تھے۔ یہ قبیلے کی تعریف میں قصائد کہتے اور اپنے کلام کے ذریعے قبیلے کے تفاخر، بہادری، مہمان نوازی، سخاوت اور کارناموں کے واقعات نظم کرکے دوسرے قبائل پر فضیلت اور برتری ثابت کرتے۔ اس قسم کی شاعری کا ذکر جاہلی شاعری میں بہت ملتا ہے۔

اس سب کے باوجود حالات کے تقاضوں اور ضروریات کے تحت عربوں نے دوسری اقوام سے اپنا رشتہ جوڑا۔ ان تعلقات اور میل جول سے عربی زبان و ادب کو بہت فائدہ ہوا۔ نئے نئے الفاظ ، نئی ترکیبیں اور نئے نئے اسالیبِ بیان وجود میں آئے جنھوں نے عربی ادب کو مالامال ، وسیع اور پُرمغز کردیا۔ ۷؎

چھٹی صدی عیسوی میں یمن کے دوسرے ملکو ں کے تاجروں سے روابط ذرا کم ہوگئے تو حجاز کے عرب اور خاص طور پر اہل قریش نے ان کی جگہ لے لی۔ قریشِ مکہ متمدن، مہذب اور شہری لوگ تھے۔ تجارت کے علاوہ کعبہ کی تولیت بھی ان کے ذمے تھی۔۸؎ قریش قافلوں کی صورت میں سال میں دو مرتبہ، سردی اور گرمی میں، بالترتیب یمن اور شام تجارتی سفر پر جاتے۔ اس کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔بعدازاں یہ سلسلہ سندھ کے راستے پورے ہندوستان، حیرہ اور غسان تک بھی پھیل گیا۔ اس طرح ان میں وسعت فکرونظر اور وسیع القلبی پیدا ہوئی۔اس سے ایک طرف تو قریش خوشحال ہوگئے اور دوسری طرف عربی زبان کو مالامال ہونے کا موقع ملا۔ دراصل ان ملکوں کے لوگوں سے لین دین کرنے میں ان کی زبان کے بہت سے غیرعربی الفاظ کاروباری ضرورتوں اور میل ملاپ کے نتیجے میں غیرشعوری طور پر عربوں کی زبان پر چڑھتے چلے گئے کیوں کہ یہ وہاں کی قدرتی پیداواریں یا مصنوعات ہوتی تھیں اور ان چیزوں اور افراد و مقامات کے نام دوسری زبانوں کے ہوتے تھے جنھیں بولنا لازمی ہوجاتا تھا۔ مثال کے طور پر حیرہ کی ریاست کے باعث ایرانی تہذیب و تمدن اور فارسی کے الفاظ و محاورات عربی میں داخل ہوئے جبکہ غسان کی ریاست عربوں اور رومیوں کے مابین تجارتی اور لسانی روابط قائم کرنے کی وجہ بنی۔ ۹؎ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فارسی، رومی، مصری اور حبشی زبانوں کے الفاظ ان کی اپنی زبان یعنی عربی میں داخل ہوگئے۔ ان عربوں نے ان الفاظ کو اپنی زبان کے قواعد و ضوابط کے مطابق ڈھال کر اپنی زبان کا حصہ بنالیا۔

عربوں کا اجتماعی نظام ِمعاشرت صرف قبائل تک محدود تھا۔ زبان، سیاست اور معاشی اعتبار سے بظاہر ان میں کوئی یگانگت نہ تھی۔ البتہ خلقت، ذہنیت اور ادب کے لحاظ سے ان میں ایک گونہ اشتراک ضرور پایا جاتا تھا۔ ان کی زبان نے، جو درحقیقت ان کی اجتماعی زندگی کی ترجمان ہے، روحانی، مادی، فکری و خیالی، اجتماعی اور انفرادی، الغرض ہر چیز کے اظہار معانی کے لیے اپنے ہاں کوئی نہ کوئی لفظ ضرور وضع کررکھا تھا۔۱۰؎

یہ بات اب مسلمہ ہے کہ عربی زبان کی گوناگوں خصوصیات کے باعث ہی اسے 'ام السنہ' قرار دیا جاتا ہے۔ انہی خصوصیات کی بنا پر اﷲ نے اپنے آخری نبیﷺ پر اتارے جانے والے اپنے آخری کلام ''قرآن حکیم'' کے لیے اسی زبان کا انتخاب فرمایا۔ اہل عرب کی پوری فصاحت و بلاغت ، عرب کے مختلف قبائل کے مختلف عربی لہجوں اور الفاظ کے افتراق و تنوع کے باوجود قرآن ایسی جامع، معیاری، سہل، رواں، عام فہم عربی زبان میں اتاراگیا جس کے مثل قرآنی دعوی ٰ کے مطابق دس سورتیں تو کیاایک سورت حتیٰ کہ ایک آیت تک بھی آج تک کوئی نہیں بناسکا۔ کفار نے شک کیا کہ کوئی فرد قرآن بنا کے دیتا ہے مگر عرب اپنی پوری صلاحیتوں کے باوجود ایسا ثابت نہ کرسکے۔ اس کا تذکرہ بھی قرآن میں موجود ہے۔

یہ کہنا تو مشکل ہے کہ عربی اپنی اصل شکل میں کس طرح وجود میں آئی مگر اسلام کے آنے کے بعد قرآن کے متن اور احادیث رسولﷺ سے اسے لازوال عروج ضرور حاصل ہوا۔ یمن، شام اور شامی حجاز میں دریافت شدہ کتبوں اور نقوش کو ماہرین آثارقدیمہ نے درج ذیل تین گروہوں میں تقسیم کیا ہے۔

(۱)جنوبی عربی لہجہ : یمن کے علاقہ قتبان، معین اور سبا پر مشتمل

(۲)شمالی عربی لہجہ : حجاز کے شمال میں ثمود کے علاقے پر مشتمل

(۳)  آرامی نبطی لہجہ : آرامی علاقے پر مشتمل ۔ ۱۱؎

علمائے لغت نے عربی زبان کو قبائل کے ان مختلف لہجوں میں اختلاف کی وجہ سے درجہ بندی میں مذکورہ بالا اول اور دوم کو اہمیت دی ہے۔ ۲؎۱ ان سب کے بولنے اور لکھنے میں بڑا اختلاف تھا مگر بعدازاں حالات کے تقاضوں سے لہجوں کا اختلاف مٹ سا گیا اور سب کے میل جول اور خاص طور پر دینی تقاضوںکے تحت ایک صاف ستھری اور شیریں زبان نکل آئی۔ ۱۳؎ جب ان کا تعلق دوسروں سے ہوا تو ان کی زبان میں بھی ان قبیلوں کے الفاظ آنے شروع ہوئے۔ یوں زبان میں تبدیلی آئی اور قرآن کی معیاری عربی کا تصور ذہنوں میں پختہ ہوا۔ عرب اسی زبان کے طفیل جنگ و جدل سے ہٹ کر سوچنے لگے اور محبت کے زمزمے بہنے لگے۔ عرب چند برسوں میں ترقی کی راہ پر چل نکلا جس میں ہجرت مدینہ کا کردار نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے۔ ایک ہی معانی کے لیے مختلف قبائل میں مختلف الفاظ اور تعبیریں سامنے آئیں اور مترادفات کی کثرت ہوئی۔ اب اختلاف بھی باعث خیر ٹھہرا اور لسانی پیش رفت تیزتر ہوتی چلی گئی۔ ۱۴؎

علامہ جلال الدین سیوطی اپنی تصنیف ''الاتقان'' میں علامہ ابوبکر واسطی کی کتاب ''الارشاد فی القرأت العشر'' کے حوالے سے کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں چالیس عرب قبائل کی مقامی زبانوں کے لغات ہیں۔ ان قبائل میں کنانہ؛ ہذیل؛ حمیر؛ جرہم؛ قیس عیلان؛ ازدشنوہ ؛خثعم؛ غسان؛ بنوحنیفہ؛ لخم؛ بنوسعد؛کندہ اور بنوطے وغیرہ شامل ہیں۔۱۵ ؎

قدیم عرب معاشرہ اور عربی کے بحیثیت قومی زبان ارتقاء پر بات کی جائے تو ہمیں قرآن مجید کے سلسلے میں مسئلہ ''سبعۃ احرف'' کی طرف توجہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے کہ قرآن مجید سات حروف، پر اتارا گیا ہے، تمہارے نزدیک جو طریقہ آسان ہو، اس کے مطابق تلاوت کرو۔ مختلف حضرات نے اس کی مختلف تعبیرات کی ہیں۔ ان میں ایک یہ ہے کہ نزول قرآن کے دور میں عرب میں سات قبیلے فصاحت و بلاغت میں ممتاز تھے۔ (۱) قریش (۲) بنوسعد (۳) بنوھذَّیل (۴) بنوربیعہ (۵) بنوہوازن (۶) بنوازد اور (۷) بنوتمیم۔ ان میں کہیں ادائی الفاظ اور محاورات وغیرہ کے استعمال میں فرق تھا لیکن اس سے معانی متاثر نہیں ہوتے تھے۔ آنحضرت ﷺ کا مقصدیہ ہے کہ تلاوت قرآن مجید میں ان قبائل کے لب و لہجہ اور انداز قرأت کو مستند سمجھا جائے۔ ۱۶؎

مختصر یہ کہ اسلام کی آمد کے ساتھ ہی قرآن کے قریشی لہجہ میں نزول کے باعث دیگر تمام عربی لہجے پس منظر میں چلے گئے۔ قریشی لہجہ کی فوقیت کے اسباب و علل کا نائجیریا کے ڈاکٹر محمد عبدالسلام شرف الدین نے اپنے مضمون ''مقدمہ تاج العروس'' مطبوعہ ۱۹۷۶ئ، اللسان العربی، الرباط، مراکش کی جلد سوم ۱۷ ؎ میں تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ قریش کی زبان کو فوقیت دلانے میں جہاںآمدِ اسلام اور قرآن کے نزول کا دخل ہے، وہاں میلوں اور بازاروں؛ مجالس ادب اور چوپالیں؛ قریش کی حیثیت اور سرداری کا اثر اور سب سے بڑھ کر مکہ کی مرکزیت جیسے بنیادی عوامل نہایت اہم قرار دیے جاسکتے ہیں۔ مقامی میلوں کے باوجود ملک کا سالانہ مجمع صرف مکہ ہی کی سرزمین میں اکٹھا ہوتا تھا۔ ملک کے ہر گوشے سے لوگ یہاں یک جا ہوتے تھے۔ عکاظ کا میلہ عرب کی اکادمی تھی۔ سیدسلیمان ندوی کے بقول: ''اس بنا پر شہر مکہ کی زبان ایک ایسی زبان ہوگی جو عرب کی تمام زبانوں کا خلاصہ اور عطر ہوگی۔ شعرائے عرب اس موقع پر اپنی شاعری کے لیے ایسی زبان اختیار کرتے ہوں گے جو عرب کی عام اور مشترک زبان ہوگی اور وہ تقریباً مکہ ہی کی زبان ہوسکتی ہے۔ تمام عرب کو مخاطب کرنے کے لیے وحی الہٰی کو اسی قسم کی زبان درکار تھی۔''۱۸؎

بعدازاں یہی شعوردوسری قوموں نے عربی سے مستعار لیا جس سے قوموں نے ترقی کی منازل طے کرنے کا گُرسیکھا۔ اس شعور کے طفیل ان کی اپنی زبانوں کو کوئی گزند نہ پہنچا بلکہ وہ توانا ہوئیں۔ قرآن میں غیرعربی الفاظ کے استعمال نے تو سورۃ الروم کی آیت ۲۲ میں ''زبانوں اور رنگتوں کے اختلاف میں جاننے والوں کے لیے نشانیاں ہیں'' کا اصول بیان کرکے ازلی و ابدی حقیقت واضح کردی۔ اسلام سے قبل ہی جنگ و جدل کے عادی عرب ان مختلف متفرق بولیوں اور لہجوں کو سُن کر ان میں غور اور اپنی زبان سے مقابلہ کیا کرتے تھے۔ اس سے ان میں الفاظ کے پرکھنے کا اچھا خاصا ملکہ پیدا ہوگیا۔ ۱۹؎ اس سے الفاظ اور لہجوں کی خامیوں سے پاک و صاف اور حددرجہ دلنشین اور شیریں زبان وجود میں آئی۔ عرب کے اس لسانی ماحول میں قرآن کا نزول تیار زمین میں بیج کے مانند ثابت ہوا۔ یہ مشترکہ عربی یعنی قومی زبان اس قدر مقبول عام ہوئی کہ آنے والی چند دہائیوں میں ہی بین الاقوامی زبان بن کر افریقہ ، ایشیا اور یورپ تک جا پہنچی کہ آج ساڑھے چودہ سو سال بعد بھی دنیا کے جس خطے میں چلے جائیں، عربی کے اثرات اور الفاظ و محاورات کسی نہ کسی صورت میں مل جاتے ہیں۔

قرآن حکیم کی سورۃ الشورٰی کی آیت ۷ حضورﷺ کو عربی زبان اور مکہ والوں ہی نہیں دیگر علاقوں اور خطوں والوں کو بھی پیغام حق پہنچانے کا ذمہ عطا فرماتی ہے۔ اس آیت میں بھی عربی زبان کو مرکزی زبان کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے: ''اور یونہی ہم نے تمہاری طرف عربی قرآن وحی بھیجا کہ تم ڈراؤ سب شہروں کی اصل مکہ والوں کو اور جتنے اس کے اردگرد ہیں۔۔۔ '' تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر میں درج ہے کہ جس طرح اے نبیﷺ !تم سے پہلے انبیاء پر وحی الہٰی آتی رہی تم پر بھی قرآن وحی کے ذریعے نازل کیا گیا ہے۔ یہ عربی زبان میں بہت واضح بالکل کھلا ہوا اور سلجھے ہوئے بیان والا ہے تاکہ تو شہر مکہ کے رہنے والوں کو خدائی احکام اور خدا کے عذابوں سے آگاہ کردے نیز تمام اطراف عالم کے آس پاس مراد مشرق و مغرب کی ہر سمت پر۔ مکہ شریف کو اُم القرٰی اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ تمام شہروں سے افضل و بہتر ہے۔ ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عدی بن حمرأ زہری فرماتے ہیں کہ میں نے خود رسول اﷲﷺکی زبان مبارک سے سُنا کہ اے مکہ !قسم ہے اﷲ کی تو خدا کی ساری زمین سے خدا کے نزدیک زیادہ محبوب اور زیادہ افضل ہے۔۲۰؎

نزول قرآن کے ۲۳ سالہ دور نے عرب کے اندر پائے جانے والے علاقائی لہجوں اور بولیوں کو باہم شیروشکر اور انھیں بیرونی زبان سے آمیز کرکے معیاری زبان بنادیا۔سچی بات تو یہ کہ عربی کو 'قومی زبان' کا درجہ دلانے میں قرآن کے متن ہی کااعجاز ہے۔ اگر کہا جائے کہ عربوں کی اپنی اپنی علاقائی زبانوں،بولیوں اور لہجوں کے ہوتے ہوئے مشترکہ زبان؛ قومی زبان اور زبان عامہ کا شعور قرآن کا ہی عطاکردہ ہے تو غلط نہ ہوگا۔

قرآن حکیم اورعربی زبان

قرآن حکیم عربی زبان میں نازل ہوا۔ اس کا اظہار سورۃ الخل ؛ سورۃ الشعرائ؛ سورۃ یوسف؛ سورۃ الرعد؛ سورۃ طہٰ ٰ ؛ سورۃ الزمر؛ سورۃ فصلت؛ سورۃ الشورٰی ؛ سورۃ الزخرف اور سورۃ الاحقاف کی آیات مبارکہ میں نہایت بلیغ انداز میں ملتا ہے۔ اگرچہ صاحب قرآن حضرت محمدﷺ عربی تھے اور پہلے مخاطب بھی اہل عرب تھے، اس لیے اس کا عربی زبان میں ہونا منطقی اور فطری تھا۔ چونکہ یہ ہدایت کا پیغام تھالہٰذا اولین مخاطبین کو سمجھانے کے لیے اس کا ان ہی کی زبان میں ہونا لازمی تھا۔ اگر اہل عرب میں کسی اور زبان میں ہدایت کا پیغام بھیج دیا جاتا تو ان کابراہ راست ناقابل تردید اعتراض ہوتا کہ وہ اسے کیسے سمجھ سکتے ہیں کیوں کہ یہ ان کی فطری زبان میں نہیں ہے۔ اس اصول کو سورۃ ابراہیم کی آیت ۴ میں نہایت واضح یہ اصول فطرت : ''اور ہم نے ہر رسول اس کی قوم ہی کی زبان میںبھیجا کہ وہ انھیںصاف بتائے''طے کردیا گیا۔ اس کے بعد سورۃ الخل کی آیت ۱۰۳ میں ''بے شک ہم جانتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں یہ کوئی آدمی سکھاتا ہے جس کی طرف ڈھالتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ روشن عربی۔ '' تفاسیر میں اس آیت کا پس منظر نبی کریم ﷺپر کافروں کا وہ بہتان ہے کہ اسے یہ قرآن ایک انسان سکھاتا ہے۔

قرآن حکیم کی سورۃ فصلت کی آیت ۴۴ میں عربی اور عجمی کے مسئلے کو ایک بار پھر واضح کیا گیا ہے۔ قرآن میں ہے: ''اور اگر ہم اسے عجمی زبان کا قرآن کرتے تو ضرور کہتے کہ اس کی آیتیں کیوں نہ کھولی گئیں۔ کیا کتاب عجمی اور نبی عربی۔ تم فرماؤ وہ ایمان والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے اور جو ایمان نہیں لائے ان کے کانوں میں ٹینٹ ہے اور وہ ان پر اندھا پن ہے۔ گویا وہ دور جگہ سے پکارے جاتے ہیں۔'' تفسیر ابن کثیر میں درج ہے کہ اگر قرآن کسی عجمی زبان میں اُترتا تو بہانہ کرتے کہ ہم تو اسے صاف صاف سمجھ نہیں سکتے۔ مخاطب جب عربی کے ہیں تو اُن پر جو کتاب اُتری وہ غیرعربی زبان میں کیوں اُتررہی ہے ؟اگر کچھ عربی میں ہوتی اور کچھ دوسری زبان میں تو بھی اُن کا یہی اعتراض ہوتا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ ۲۱؎

قرآن حکیم کی سورۃ الزخرف کی آیت ۳ میں حکم خداوندی ہے: ''ہم نے اسے عربی قرآن اتارا کہ تم سمجھو۔'' اس مقام پر تو رب کائنات نے اس واضح کتاب کی قسم کھاکر یہ منتخب الفاظ قرآن کا حصہ بنادیے۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ قرآن کی قسم کھائی جو واضح ہے جس کے معانی روشن ہیں، جس کے الفاظ نورانی ہیں، جو سب سے زیادہ فصیح و بلیغ عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ یہ اس لیے کہ لوگ سوچیں سمجھیں۔ ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل فرمایا ہے۔ ۲۲؎

اسی اصول کی مزید توضیح ہمیں سورۃ مریم کی آیت ۹۸ میں یوں ملتی ہے: ''یہ قرآن تمہاری زبان میں یونہی آسان فرمایا۔ '' اسی طرح سورۃ الدخان کی آیت ۵۸ ''اور ہم نے اس قرآن کو تمہاری زبان میں آسان کیا کہ وہ سمجھیں'' کے الفاظ سے بات کو مزید واضح کردیا۔ اسی بات کو سورۃ یوسف کی آیت ۲ میں ''اور ہم نے اسے عربی قرآن اتارا کہ تم سمجھو'' کہہ کر قومی زبان میں بات بآسانی سمجھ لینے کو فطری اصول قرار دیا۔

قرآن حکیم کے عربوں کو اپنی زبان میں نازل ہونے کا یہ فائدہ ہوا کہ منشائے ربانی کے مطابق یہ عربوںکی سمجھ میں آسانی سے آگیا۔ یوں وہ عجمیوں کو بتانے اور سمجھانے کے قابل ہوگئے۔ اگر اُن کی سمجھ میں خود نہ آتا تو وہ غیرعرب اقوام کو کیسے سمجھا پاتے۔ یوں خدا کا یہ آخری پیغام دنیا میں نہ پھیل سکتامگر یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن صرف عربی میں ہی کیوں نازل ہوا۔ اﷲ چاہتاتو وہ اس کے متن ہر زبان میں نازل کرنے کی قدرت رکھتا تھا۔ بلاشبہ مگر اس طرح اتحاد انسانیت ناممکن ہوجاتا اور ہر قوم اپنی زبان کی بڑائی پر فخر کرتے ہوئے دوسروں سے جنگ و جدل پر آمادہ رہتی جو انسانیت کے لیے ہلاکت خیز ہوتا۔ یہی نہیں بلکہ سورۃ الرعد کی آیت ۳۷ میں تو قرآن کو عربی فیصلہ قرار دے دیا گیا ہے۔

انسانی عقل کامعیار اور زبان

قرآن حکیم میں جابجا زبان کو انسانی عقل کے معیارات میں سے ایک کے طور پر بھی متعارف کرایا گیا۔ قرآن کی سورۃ البلد کی آیت ۸ کے تسلسل میں آیت ۹ میں بالخصوص زبان کاتذکرہ کرکے ذات باری نے اپنی نعمتوں کا احساس دلانے کے لیے ان الفاظ کا انتخاب کیا ہے: ''کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہ بنائیں (۸) اور زبان اور دو ہونٹ (۹)۔'' گویا عضو 'زبان' جو الفاظ ادا کرے گی، ان پر دوسروں کے دماغ سوچیں گے اور اُن کا ردعمل اسی زبان یا دیگر زبانوں میں ہوگا۔ عضو 'زبان' کا ذکر سورۃ الخل؛ سورۃ النور ؛ سورۃ الممتحنۃ؛ سورۃ النسآء وغیرہ میں کئی مقامات پر آیا ہے۔

ظاہر ہے عقل کا براہ راست تعلق دماغ سے ہے اور دماغ کے مختلف حصے ہوتے ہیں جن میں زبان دانی کے معاملات طے پاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کنپٹی سے متصل حصے پر سماعتی مرکز مزید چھوٹے حصوں میں بٹا ہوتا ہے جو آواز کے مختلف طول موجوں کے لیے مخصوص ہے۔ دماغ کے بائیں نصف کُرے میں صوتیہ (Phonemes) نامی ایک چھوٹا اعصابی نظام ہوتا ہے جو صوتیہ اور گفتار کی بنیاد ہوتا ہے۔ ۲۳؎ فرانسیسی سرجن پال بروکا نے ۱۸۶۱ء میںواضح گفتگو میں مصروف ہونے والے دماغ کے حصے کو دریافت کیا۔ ۱۸۷۴ء میں جرمن ماہر اعصابیات کارل ورنک نے بائیںنصف کرے کا وہ مقام دریافت کیا جس کا تعلق بولی جانے والی یا تحریری زبان سمجھنے سے ہوتا ہے۔ اِن کا نام بالترتیب ''بروکا رقبہ'' اور ''ورنک رقبہ'' ہے۔۲۴؎ حیاکاوا اپنی کتاب ''لینگو یج اِن ایکشن'' میں لکھتے ہیں: ''زبان (بصورت الفاظ) کسی کے خیالات کو وجود بخشنے میں مدد دیتی اور انھیں چاہنے والوں تک پہنچاتی ہے۔ زبان ایک طبقے کو اپنی فکر یک جا کرنے کے قابل بناتی ہے۔'' ۲۵؎ حیاکاوا اپنی کتاب میں ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ''زبان بلاشبہ سوچنے میں ایک بڑا سہارا ہوتی ہے۔ یہ سوچ اور فکر پر عمل درآمد کے لیے مواد (لفظوں) کو جمع کرنے میں مدد دیتی اور یادداشت میں سہولت دلاتی ہے۔ زبانی حقائق اور اصولوں کو یاد کرنا بالخصوص آسان ہوتا ہے۔ عمدہ طرزبیان کے جملے سیکھنا اور یاد کرنا آسان ہوتا ہے۔'' ۲۶؎

قرآن حکیم کی سورۃ فصلت کی آیت ۳ میں ''عربی قرآن عقل والوں کے لیے'' کے ارشاد ربانی کے بعد اسی سورۃ کی آیت ۴۴ میں بھی فرمایاگیا''۔۔۔ اور وہ جو ایمان نہیں لاتے اُن کے کانوں میں ٹینٹ ہے اور وہ ان پر اندھا پن ہے۔۔۔۔'' اسی طرح سورۃ الدخان کی آیت ۵۸کے ''کہ وہ سمجھیں'' جیسے الفاظ عقل انسانی اور زبان کی اہمیت کی طرف واضح اشارہ کررہے ہیں۔ سورۃ یوسف کی آیت ۲ اور سورۃ الزحرف کی آیت ۳، ہر دو جگہ ''اور ہم نے اسے عربی قرآن اتارا کہ تم سمجھو'' کے رب العزت کے منتخب ترین الفاظ میں بات کی گئی ہے۔' سیرت نبوی ﷺپر ایک محققانہ نظر' میں تعقل کے زیرعنوان بحث کرتے ہوئے خلیفہ محمد سعید سورۃ یوسف اور سورۃ الزخرف کا ترجمہ یوں کرتے ہیں: ''ہم نے اُتارا عربی زبان میں قرآن تاکہ تم عاقل (اولوالباب) ہوجاؤ''۔۲۷؎

گویا زبان عقل اور شعور کے فروغ کا مؤثر ذریعہ ہوتی ہے۔ یہ وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ زبان سے یہاں کسی خطے یا علاقے کی زبان عامہ مراد ہے۔ قرآن میں عربی کی مثال دی گئی ہے کہ وہ اس دور بھی مختلف خطوں کے انفرادی لہجوں اور لغات کے باوجود اہل عرب میں مشترک تھی۔ مستزاد یہ کہ قرآن کی عربی تو عربی ہونے کے باوجود اپنے منفرد معیار، فصاحت، لغات اور لب و لہجہ کی بنیاد پر ان سب میں مشترک اور ممتاز قرار پائی۔ اسی لیے تو اہل عرب عربی دان ہونے کے باوجود حیران ہوتے تھے کہ یہ زبان ہے تو عربی مگر ہماری روزمرہ عربی سے کہیں بلند معیار کی ہے، جو ان کے لیے نئی محسوس ہوتی تھی۔ لفظ 'محمد' کو ہی لے لیجیے۔ یہ خالص عربی ہونے کے باوجود عربوں میں عام نہیں تھا۔ چنانچہ وہ تسلیم کرتے تھے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے۔ اس کی نہایت عمدہ مثال عتبہ بن ربیعہ کی ملتی ہے۔ مسند عبد بن حمید میں حضرت جابر بن عبداﷲؓ سے منقول ہے کہ ایک دفعہ اہل قریش نے جمع ہوکر آپس میں مشاورت کرکے عتبہ بن ربیعہ، کہ جادو، کہانت اور شاعری میں سب سے زیادہ ہے، کو بالاتفاق آنحضرت ﷺکے پاس بھیجا ۔ وہ تیار ہوکر حضورﷺکے پاس آیا اور حضورﷺکے باپ اور دادا کی بابت سوالات پوچھے۔ آپ ﷺخاموش رہے۔ وہ کہنے لگا اگر تو اپنے باپ داد۱ؤں کو اچھا سمجھتا ہے تو وہ انہی بتوں کو پوجتے تھے۔ اگر تُو اپنے تئیں ان سے بہتر سمجھتا ہے تو کلام کر ہم بھی تیری بات سنیں۔ اس نے اور بھی بہت سی باتیں کیں۔ یہ سب کچھ کہہ کر ذرا سانس لیاتو حضور ﷺنے فرمایا ،بس کہہ چکے۔ اُس نے کہا ،ہاں۔ آپ ﷺنے فرمایا ۔ اب میری سنو ! چنانچہ آپ ﷺنے بسم اﷲ پڑھ کر سورۃ فصلت کی تلاوت شروع کی اور قریباً ڈیڑھ رکوع تک پڑھا۔ اتنا سُن کر عتبہ بول اُٹھا۔۔۔ بس کیجیے بس کیجیے، تیرے پاس اس کے سوا کچھ نہیں؟ حضورﷺنے فرمایا، نہیں۔ اب عتبہ بن ربیعہ یہاں سے اُٹھ کر قریش کے مجمع کے پاس پہنچا اور اُن کے پوچھنے پر کہنے لگا۔ بخدا میں تو ایک حرف بھی اس کا نہیں سمجھ سکا۔ انھوں نے کہا تجھے خدا کی مار، ایک شخص عربی زبان ، جو تیری اپنی زبان ہے، میںتجھ سے کلام کررہا ہے اور تو کہتا ہے کہ میں سمجھا ہی نہیں۔ بغوی ؒ کی روایت میں ہے کہ عتبہ نے آپ ﷺکے منہ مبارک پر ہاتھ رکھ دیا اور آپ ﷺکو قسمیں دینے لگا اور رشتے داری یاد دلانے لگا۔ اسی واقعہ کو سیرۃ ابن اسحاق میں ذرا مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔۲۸؎

انسانی عقل اور زبان کے موضوع کو قرآن کی ہی تعلیمات کی روشنی میں ایک اور پہلو سے بھی دیکھا جانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ جیساکہ قرآن کی سورۃ ص کی آیت ۲۹ ''یہ ایک کتاب ہے کہ ہم نے تمہاری طرف اتاری برکت والی تاکہ اس کی آیتوں کو سوچیں اور عقل مند نصیحت مانیں'' میں سمجھنے ، سوچنے والے اور نصیحت ماننے والوں کو عقل مند قرار دیا گیا ہے۔ بلاشبہ کلام اﷲ کی یہ زبان ہمیں نبی پاک ﷺنے سکھائی جن کے بارے میں قرآن کی سورۃ النجم کی آیت ۳تا۵ میں یوں واضح کیا گیا: ''اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے۔ وہ تو نہیں مگر وحی جو انھیںکی جاتی ہے۔ انھیں سکھایا سخت قوتوں والے طاقت ور نے۔ ''

دنیا میں ہر زبان دو طریقوں سے بیان کی جاتی ہے۔ اول : نثر اور دوم : نظم۔ نثر ادیب لکھتے ہیں جبکہ شاعری شاعر کرتے ہیں۔ قرآن کی سورۃ الحاقۃ کی آیت ۴۰ اور ۴۱ میں واضح طور پر اعلان کیا گیا: ''بے شک یہ قرآن ایک کرم والے رسول سے باتیں ہیں ۔ اور وہ کسی شاعر کی بات نہیں ۔'' گویا اپنے پورے حسن بیان کے ساتھ قرآن کریم نثر کا کلام ہے اور رب العزت نے شاعری میں اسے نازل کرنا پسند نہیں فرمایا۔ یوں زبان کا بیان نثر میں ہی مسلمہ ہوگا۔

اِن ارشادات ربانی کی روشنی میں ہم عربی زبان کے حوالے سے عقل انسانی کے معیار کے لیے قومی زبان کی اہمیت بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔

قرآنی عربی اور تصور قومی زبان

عرب اپنی زبان کی فصاحت و بلاغت اور لُغت مندی کے باعث ہی غیرعربوں کو عجمی یعنی گونگے ہونے کا طعنہ دیتے تھے۔ ان کا یہ تفاخر بڑی حد تک صحیح بھی تھا کیوں کہ زبان دانی میں کوئی قوم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ عربی زبان کی جامعیت آج کے دور میں بھی مسلّم ہے۔ کون نہیں جانتا کہ عربی دنیا کی قدیم ترین سامی، آریائی اور حامی، زبانوں میں سے سامی کی قدیم ترین شاخ ہے۔ عربی ادب کی تاریخ کے مؤلف محمد کاظم کے مطابق ۶۱۰ء میں ظہوراسلام سے پہلے یہ جزیرہ نمائے عرب میں نہ صرف موجود تھی بلکہ اپنے ارتقاء اور کمال کی ساری منزلیں طے کرچکی تھی۔ اس زبان میں شاعری اور خطابت کے جو نمونے اسلام کے پہلے زمانے میں ملتے ہیں، وہ آج بھی فن کا بُہت اعلیٰ معیار پیش کرتے ہیں۔ ۲۹؎

عربی زبان دو طرح کی ہے: ایک فصیح عربی جسے فصحیٰ کہتے ہیں، جو قرآن کریم کی زبان ہے، جو لکھنے پڑھنے کی زبان ہے۔ آج یہی عربی دنیا کے پچیس ممالک کی سرکاری زبان ہے اور اپنے قواعد اور ذخیرۂ الفاظ کے اعتبار سے ایک ہی ہے۔ دوسری عامی عربی، جسے ہر ملک میں مقامی لوگ بولتے ہیں۔ اسے علاقائی زبان بھی کہتے ہیں اور یہ علاقائی زبانیں ایک دوسرے سے بُہت مختلف واقع ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ایک عرب ملک کے باشندے دوسرے عرب ملک کی یہ مقامی بولی آسانی سے نہیں سمجھ سکتے۔ جب عربی ادب کی تاریخ کی بات کی جاتی ہے تو اس سے لازماً فصیح عربی مراد ہوتی ہے۔ ۳۰؎

اسلام کا سب سے گہرا اور ہمہ گیر اثر عربوں پر قرآن کی وجہ سے ہوا جو ایک طرف تو ایمانیات، اخلاقی اور معاشرتی زندگی میں انقلاب لایا تو دوسری طرف عربی زبان و ادب میں ایسا اعلیٰ نمونہ پیش کیا جس کے سامنے وہ مبہوت اور حیرت زدہ رہ گئے۔ عربوں کو اپنی زبان دانی اور اپنی شاعری پر ناز تھا۔ قرآن نے ان کے سامنے ایک ایسی چیز لاکے رکھ دی جس کے متعلق وہ کوئی فیصلہ نہ کرپائے کہ یہ شاعری ہے یا نثر؛ کسی کا ہن یا جادوگر کا مسجع کلام ہے یا اعلیٰ خطابت کا نمونہ۔ وہ اِن میں سے کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ تھا۔ قرآن نے اپنے بیان سے عربی زبان میں بالکل نئے الفاظ اور اصطلاحات رائج کیں اور پہلے سے موجود الفاظ کو نئے معانی اور مفاہیم عطا کیے۔ ۳۱؎ اس امر پر اہل علم و دانش کا اتفاق ہے کہ قرآن آنحضرت ﷺکو عطا کیا گیا ایک ایسا معجزہ ہے جس کے علمی و ادبی دعووں کا جواب صدیوں بعد آج تک کوئی نہیں دے سکا۔ ۳۲؎

کسی زبان کی اہمیت و مقبولیت کی کسوٹی اس کے وسیع تر علمی دامن، گہرائی و گیرائی، اس کے نحوی قاعدوں اور گرامر کے اصولوں کا استحکام ، شیرینیٔ الفاظ، دلکش پیرایۂ اظہار، طریق تلفظ اور مؤثر صوتی اثرات، اس کے سیکھنے سکھانے کے طریقوں کے آسان، سہل اور سادہ اصولوں جیسے عوامل ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے عربی کا مطالعہ ہمیں انگشت بدنداں کردیتا ہے۔ انہی خوبیوں نے عربی کو قلیل ترین عرصے میں بین البراعظمی سطح پر ایک کثیرالاستعمال زبان بنادیا۔ جدید عربی زبان کے صرفی اور نحوی قاعدوں کی بنیاد قرآن و حدیث کے لسانی شواہد پر ہے۔ عربی کے نظام اعراب نے اسے دنیا کی ممتازترین زبان بنادیا ہے۔ عربی کی نزاکتِ بیان کا اندازہ اس اسلوب سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں دن کے ہر گھنٹہ اور پہر کے الگ مخصوص نام ہیں؛ چاندنی رات کے ہر مرحلے کا ایک مخصوص نام ہے؛ بالوں، آنکھوں اور اُن کے امراض کے اور اونٹ اور گھوڑے کے ذرا ذرا فرق کے ساتھ الگ الگ نام اور تلوار کے اس کی صفات کے اعتبار سے الگ الگ نام ہیں ۔ ۳۳؎

عربی زبان کا دامن مترادفات کے معاملہ میں بڑا وسیع ہے۔ چنانچہ علمأ لغت صرف سال کے ۲۴ نام اور روشنی کے لیے ۲۱؛ تاریکی کے لیے ۵۲؛ کنویں کے لیے ۸۸؛ پانی کے لیے ۱۷۰؛ شیر کے لیے ۳۵۰ اور اونٹنی کے لیے ۲۵۵ نام بتاتے ہیں۔ اسی طرح درازیٔ قد کے لیے ۹۱؛ پستہ قدی کے لیے ۱۲۰ الفاظ آئے ہیں۔ علماء لغت نے انسانی حُلیہ اور اوصاف میں بخل ، سخاوت، شرافت اور رزالت وغیرہ کے لیے بھی مختلف الفاظ لکھے ہیں۔ ۳۴؎

قرآن کریم کی سورۃ رعد کی آیت ۳۷ کی تفسیر میں تفسیر ابن کثیر اردو میں لکھا ہے کہ جس طرح ہم نے تم سے پہلے نبی بھیجے، ان پر اپنی کتابیں نازل فرمائیں، اسی طرح یہ قرآن ، جو محکم اور مضبوط ہے، عربی زبان میں جو تیری اور تیری قوم کی زبان ہے، اس قرآن کو ہم نے تجھ پر نازل فرمایا۔ ۳۵؎

سورۃ ابراہیم کی آیت ۴ میں نہایت واضح اور واشگاف الفاظ میں ارشاد ربانی ہے: ''اور ہم نے ہر رسول اس کی قوم کی ہی زبان میں بھیجا کہ وہ انھیں صاف بتائے۔ پھر اﷲ گمراہ کرتا ہے جسے چاہے اور وہ راہ دکھاتا ہے جسے چاہے اور وہی عزت حکمت والا ہے۔ '' اس کی تفسیر میں مفسرین نے جو اظہار کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر قومی زبان کی اہمیت کے بارے میں قرآن میں مختلف حوالوں سے مزید بات نہ بھی کی جاتی تو یہی ایک آیت کافی تھی۔ اس آیت کی تفسیر میں تفسیر ابن کثیر اردو بیان کرتی ہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کی غایت درجہ کی مہربانی ہے کہ ہر نبی کو اس کی قوم کی زبان میں ہی بھیجا تاکہ سمجھنے سمجھانے کی آسانی رہے۔ اسی مؤقف کی تائید تفسیر ضیاء القرآن میں بھی ملتی ہے۔ ۱؎ اسی مؤقف کی تائید تفسیر ضیاء القرآن میں بھی ملتی ہے۔۳۶؎ مسند کے حوالے سے تفسیر ابن کثیر اردو میں درج ہے کہ رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں ہر نبی ہر رسول کو اﷲ تعالیٰ نے اس کی اُمت کی زبان میں بھیجا ہے حق ان پر کھل تو جاتا ہی ہے۔ پھر ہدایت ضلالت خدا کی طرف سے ہے۔ اس کے چاہنے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ چونکہ ہر نبی صرف اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا ہے اس لیے اسے اس قو م کی زبان میں ہی کتاب اﷲ ملتی تھی اور اس کی اپنی زبان بھی وہی ہوتی تھی۔ نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو جو پانچ خصوصیات بارگاہ خداوندی سے عطا ہوئیں، ان میں ایک نبوت عامہ تھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی صرف اپنی قوم ہی کی طرف آتا تھا اور میں تمام عام لوگوں کی طرف رسول بنایا گیا ہوں۔ قرآن یہی کہتا ہے کہ اے نبی اعلان کردو کہ میں تم سب کی جانب اﷲ کا رسول ہوں۔۷ ۳؎ اس اعلان نبوی سے یہ نکتہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہر نبی اپنی قوم کی طرف قومی زبان میں ہی پیغام خداوندی لے کر آیا تو آپ ﷺصرف عربی میں کیوں آخری پیغام لائے۔ اس کے لیے کسی اور زبان کا انتخاب کیوں نہ کیا گیا جو صرف ہر خطے، علاقے اور زمانے کے لیے قابل فہم ہوتی۔ اس استفسار کا جواب یہ ہے کہ چونکہ حضرت محمد ﷺعرب میں مبعوث ہوئے اور پہلے مخاطب عرب ہی تھے اور عربی زبان ہی ان کی قومی زبان تھی لہٰذا یہی مناسب ترین تھی۔ دوسرے یہ کہ عربی مسلمہ طور پر اُم السنہ ہے اور روایات کے مطابق روز حساب تمام انسانوں کی زبان یہی عربی ہوگی۔ یوں آخری نبی کی زبان کا عربی ہونا ہی ازبس ضروری تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ فرمان خداوندی اور فرمان نبوی،ہردو، اپنے مقاصد و مطالب میں بظاہر یک سو ہیں۔ اسی آیت کے اگلے حصے پر نظر دوڑائی جائے تو وعید سنائی گئی ہے کہ جو اس کے برعکس یقین رکھے گا تو گمراہی اس کا مقدر ہوگی۔

قرآن حکیم میں قرآن کی عربی کو 'روشن عربی' کی اصطلاح سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔ گویا مقامی عربی کچھ الگ چیز تھی لیکن معیاری اور قومی زبان کو 'روشن عربی' قرار دے کر ممتاز کردیا گیا۔سید سلیمان ندوی اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں:''مبین سے یہاں مراد اس کے لغوی معنی نہیں بلکہ یہ لفظ بطور علم کے ہے۔ ظہور اسلام کے وقت بھی عربی زبان مختلف بولیوں اور لہجوں میں منقسم تھی۔ ان میں جو فصیح ترین اور شیریں زبان تھی، اس کا نام لسان عربی ''مبین'' تھا''۳۸؎ اس سلسلے میں قرآن حکیم کی سورۃ الخل کی آیت ۱۰۳اور سورۃ الشعراء کی آیت ۱۹۵ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ جیساکہ پہلے بھی ذکر ہوا جزیرہ نمائے عرب میں عربی کے مختلف لہجے موجود تھے مگر قرآن کی عربی نے ان سب کے معیار کو اس قدر بلند کردیا کہ وہ اُم السنہ کے درجے پر فائز ہوگئی۔ اب وہ سب کے مابین مشترکہ زبان قرار پائی اور مختلف لہجے موجود ہونے کے باوجود لسانی دوریاں ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئیں۔محدث حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہے اور اس کو صحیح کہا ہے اور بیہقی نے شعب الایمان میں بیان کیاہے کہ حضرت بریدہؓ سے مروی ہے کہ لسان عربی مبین سے مراد لسان جرہم ہے۔ جر ہم قریش کے ننہالی مورث اول کا نام تھا۔ یوں اس سے زبان کا ایک قومی معیار مقرر کرنے کا اصول بھی طے پاگیا۔

قرآن حکیم کی سورۃ الاحقاف کی آیت ۱۲ میں ''اور اس سے پہلے موسٰی کی کتاب پیشوا اور رحمت تھی اور یہ کتاب ہے سچا کرنے والی عربی زبان میں تاکہ ستمگاروں کو ڈرائے اور نیکو کاروں کو بشارت ہو'' جیسے الفاظ کے ساتھ عربی زبان کو قوم کے لیے سچا کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کرتے ہوئے سچائی کی ترغیب دیتا ہے۔ اسی طرح سورۃ البقرہ کی آیت ۲۳ میں ارشاد ربانی ہے: ''اگر تمہیں اس کتاب کی سچائی میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو اس طرح کی ایک سورۃ بنالاؤ۔اﷲکے سوا جن کو تم نے اپنا حمایتی سمجھ رکھا ہے، ان سب کو بھی اپنی مدد کے لیے بلالو۔''

قرآن عربی میں نازل ہوا جو اس وقت عرب قوم کی بالاتفاق مشترکہ زبان بنی۔ اس عربی کا اپنا اسلوب بھی اہل عرب کے فصحاء و بلغاء کے سامنے آیا اوران میں پہلی بار قومی زبان کے معیار کا احساس پیدا ہوا۔ اس معیار کو تائید خداوندی حاصل تھی۔ عام طور پر بھی یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہر علم اور ہر موضوع اظہارخیال کے لیے ایک خاص زبان رکھتا ہے اور ایک خاص اسلوبِ بیان اور نہج کلام کا حامل ہوتا ہے۔ قرآن مجید کا بھی اپنا ایک انداز کلام ہے جو سب سے جداگانہ نوعیت کا ہے۔۳۹؎

یہی وہ اوصاف ہیں جنھیں کسی زبان کے قومی زبان ہونے کے تصور میں بنیادی قرار دیا جاسکتا ہے۔بلاشبہ ان سے دنیا کی دیگر قومیں لسانی استفادہ کرسکتی ہیں۔

قرآن مجید میں تحفظ قومی زبان کا اصول

قرآن مجید جس محفوظ صورت اور ترتیب میں اتنی صدیوں کے بعد ہمارے ہاتھوں میں آیا ہے، وہ بالکل وہی ہے جو اﷲ تعالیٰ نے جبریل ؑ امین کی وساطت سے رسول ؐ اﷲ پر نازل کیا۔ اس کے کلمات و حروف میں بھی کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں ہوا۔ دراصل اس کا ذمہ ذات باری تعالیٰ نے خود لے رکھا ہے۔ چنانچہ قرآن کی سورۃ لقیامۃ کی آیت ۱۷ میں ہی حکم ربانی ہے: ''بلاشبہ اس کا جمع کرنا اور پڑھنا ہمارے ہی ذمے ہے۔'' اسی سورۃ کی آیت ۱۸میں ارشاد ربانی ہے:''تو جب ہم پڑھ چکیں، اس وقت اس پڑھے ہوئے کی اتباع کرو۔'' اس کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی کریم ﷺ وحی کو بااطمینان سنتے اور جب وحی ختم ہوجاتی تو پڑھتے تھے۔ گویا یہ طریقہ رب العزت کا تعلیم کردہ ہے۔ اس کے تحفظ کا ایک طریقہ قرآن کی سورۃ العنکبوت کی آیت ۴۹ میں یوں درج ہے کہ یہ روشن اور واضح آیات کا مجموعہ ہے جو اصحاب علم کے سینوں میں محفوظ ہے۔ اسی طرح سورۃ الطور کی آیت ۲ تا ۳ میں ''یہ کتاب کشادہ اوراق میں لکھی ہوئی ہے'' کے منتخب شدہ الفاظ آتے ہیں۔ سورۃ الواقعہ کی آیت ۷۷ تا ۷۹ میں ارشاد ربانی ہے: ''یہ بڑی عزت والا قرآن مجید ہے ۔کتاب محفوظ میں لکھا ہوا ۔ اس کو صرف پاکباز لوگ ہی چھوتے ہیں '' اسی طرح سورۃ عبس کی آیت ۱۱ تا ۱۶ میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے: ''دیکھو یہ قرآن نصیحت ہے جو کوئی چاہے اس کو پڑھے ، قابل عزت و تکریم اوراق میں لکھا ہے، جو بلند مقام پر رکھے ہوئے ہیں اور پاک ہیں، نہایت نیک اور مکرم ہاتھوں سے لکھا ہوا۔'' یہی نہیں بلکہ سورۃ البروج کی آیت ۲۱اور ۲۲ کا ترجمہ ہے: ''یہ قرآن مجید بلند شان والا ہے۔ لوح محفوظ میں لکھا ہوا۔''۴۰؎

اِن آیات بیّنات کی روشنی میں قرآنی عربی کو بحیثیت قومی زبان تحفظ ضمانتِ خداوندی سے حاصل ہوگیا۔ اس کا نفاذ اور فروغ انہی آیات کی روشنی میں ہوا اور آج بھی ہورہا ہے۔ دوسری طرف قرآن کی سورۃ الروم کی آیت ۲۲ میں رنگتوں اور زبانوں کو اﷲ کی نشانیاں بھی قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح سورۃ ابراہیم کی آیت ۴ میں قوم کی ہی زبان کو ہدایت کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے۔ گویا دنیا کے تمام خطوں اور ممالک کی قومی زبانوں کا بنیادی حق تسلیم کرتے ہوئے ان کا تحفظ ان ملکوں کے باشندوں کے ذمے قرار پایا۔ ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جغرافیائی طور پرقرآنی عربی ملت اسلامیہ کی مشترکہ زبان تو ہوسکتی ہے مگر مقامی طور پر کسی بھی ملک کی قومی زبان اسی اصول کی رو سے اپنی نیابت کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ یہ عین اسلام ہے اور اس میں کوئی دوئی نہیں ہے۔ اسلام نے ایک ایسا مرکزی اور جامع اصول دے دیا جس میں دنیا بھر کی دیگر قومی زبانوں کے تحفظ کی ضمانت بھی فراہم کردی گئی ہے۔

قومی زبان کے تحفظ کے مزید طریقے بھی قرآن نے تعلیم کیے ہیں جو اپنی اپنی جگہ نہایت اہم ہیں۔ کاتبوں نے رسم الخط ، قاریوں نے طرز ادا سے، حفاظ نے اس کے الفاظ و عبارت کی وہ حفاظت کی کہ نزول کے وقت سے آج تک متن میں کوئی تبدیلی ممکن نہ ہوسکی۔ کسی نے قرآن کے رکوع گنے؛ کسی نے آیتیں شمار کیں؛ کسی نے حروف کی تعداد بتلائی، حتیٰ کہ بعض نے ایک ایک اعراب اور ایک ایک نقطے کو شمار کرڈالا۔ ۴۱؎

بلاشبہ قرآن کلام الہٰی ہے۔ یہ رب تعالیٰ کی پیاری اور پسندیدہ زبان بھی ہے اور کوئی زبان اس کے برابر نہیں ہوسکتی۔ بہرکیف اس سے فیض رسانی اور نتائج کے استنباط کی راہیں تلاش کرنا بھی ہماری ذمہ داری ٹھہرائی گئی ہے۔ مختصر یہ کہ قرآن نے ہمیں قومی زبان کے تحفظ کا رہنما اصول دے دیا اور رب تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ اپنے پاس رکھ کر اس کی اہمیت ابد تک اجاگر کردی۔

قرآنی عربی بحیثیت قومی زبان اور رسم الخط

رسم الخط وہ علم ہے جس کے ذریعے کسی زبان کے حروف ہجا کو لکھنے کاطریقہ اور اس کی کیفیت معلوم کی جاتی ہے۔ بیشتر علماء کے مطابق قرآن کا رسم الخط توفیقی یعنی من جانب اﷲ ہے اور یہ کہ قرآن مجید کی کتابت کا سلسلہ آغاز وحی ہی سے شروع ہوگیا تھا۔ عہد رسالت میں کاتبین وحی صحابہ ؓ موجود تھے جو قرآن کے نزول کے وقت ہی اسی رسم الخط میں آیات لکھ لیتے تھے اور رسول کریم ﷺان کی تصدیق فرماتے تھے۔ حضورﷺ کی زندگی میں اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔ بعدازاں خلفائے راشدینؓ نے بھی اسی کی پیروی کی اور صحابہــؓ میں سے کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ یہ رسم الخط عثمانی کہلایا جس پر اجماع امت ہوگیا۔ پھر معاملہ تابعین اور تبع تابعین تک پہنچا اور ان میں سے بھی کسی نے مخالفت نہیں کی۔ لہٰذا اس رسم الخط سے انحراف ممکن نہیں ۔۴۲؎ یہ رسم الخط عصر نبوت ﷺاور عہدصحابہؓ ہی میں ایک متعین رسم الخط کے طور پر رواج پاگیا۔ قرآن کی کتابت بھی اسی میں ہوتی تھی۔ معاہدے، وثیقے اور آپس کے معاملات بھی اسی میں ضبط تحریر میں لائے جاتے تھے۔ عام خط کتابت اور مختلف ممالک کے حکمرانوں اور بادشاہوں سے بھی مکاتبت اسی میں کی جاتی تھی۔ اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جب رسول اﷲﷺنے مختلف ملکوں اور علاقوں کے بادشاہوں کو دعوت اسلام دی اور ان کو تبلیغی خطوط لکھے تو اسی رسم الخط میں لکھے۔ گویا عرب و عجم کے لوگ اس خط سے اس لیے آشنا تھے کہ یہ ان کی ہی مملکت کی سرکاری زبان اور اس کا رسم الخط تھا۔ بعدازاں عربی رسم الخط میں ارتقاء تو عمل میں آتا رہا مگر قرآن کا رسم الخط بدستور وہی رہا جو عہدرسالت ﷺاور دورصحابہؓ میں تھا۔ ایسا اس لیے ممکن ہوا کہ قرآن مجید ادنیٰ سی ادنیٰ صورت میں بھی اندیشۂ تحریف سے محفوظ رہے۔ اس کے الفاظ ، ہجے، نقطے، شوشے اور رسم الخط وہی رہیں جو زمانۂ رسالت ﷺمیں تھے۔۴۳؎

اس ساری تمہید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ہر قومی زبان کا ایک متعینہ رسم الخط ہوتا ہے جو ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے اور قومیں اسے بدلا نہیں کرتیں کیوں کہ اس سے قوم کے وجود کی نفی ہوتی ہے۔ اسلام میں عملاً رسم الخط کے تحفظ کی بھرپور کوشش ملتی ہے۔رسم الخط بدلنے کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قوم از خود اپنے ماضی اور حال کے علمی و ادبی سرمائے اور من حیث القوم تشخص سے یکسر دست کش ہوجائے ۔ ۴۴؎ اس کے ذیلی خط اور اسلوب تو کئی ہوسکتے ہیں، جو اسی کو نکھار بخشنے کے لیے ہوتے ہیں۔یوں قرآنی عربی رسم الخط کو عربی کا معیاری رسم الخط قرار دیا جائے گا کیوں کہ اسے سندرسالت ﷺکا اعزاز حاصل ہے۔ کرۂ ارض کے مختلف خطوں ، ممالک اور اقوام میں فروغ اسلام کے ساتھ ان کی لسانی مشکلات، اغلاط اور تحریفات کے خدشے کے پیش نظر نقطوں اور اعراب جیسے ارتقائی عمل انجام پائے۔ بہرحال ان سے اصل متن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

رسم الخط کے ذریعے قرآنی عربی کے تحفظ کا خاص اہتمام پایا جاتا ہے۔ اس میں الصلوٰۃ ؛ الربوٰ اور الزکوٰۃ جیسے الفاظ کی املأ کو مخصوص کردیا گیا ہے حالانکہ انھیں بالترتیب الصلاۃ؛ الّربا اور الزکاۃ لکھا جاسکتا ہے۔ چونکہ قرآن میںایسے ہی آیا ہے لہٰذا اس کی پابندی اور ابتاع لازمی ہے۔ ۴۵؎

اس کی ایک نہایت خوب صورت مثال سورۃ الاعراف کی آیت ۶۹ میں لفظ ''بصطتہ'' کی ہے۔ قرآن میں اس لفظ کی املأ حرف ''ص'' سے آئی ہے حالانکہ عربی زبان میں 'ص' ''بصطتہ'' کا کوئی مادہ ہی موجود نہیں ہے۔ گویا عربی میں یہ لفظ 'س' سے لکھا جاتا ہے۔ قرآن میں حکم الہٰی سے اس کے خاص ہجے پڑھائے اور بتائے گئے ہیں۔ اس اصول کو قرآنی لسانیات میں ''توقیفیہ'' کہتے ہیں اور شرع میں اس کا مطلب 'اﷲ کی ٹھہرائی ہوئی 'ہے۔ ۴۶؎ قرآن میں اس طرح کی کئی املائی مثالیں اور بھی ملتی ہیں۔ چند ایک مثالیں درج ذیل ہیں جہاں لفظ کے پڑھنے میں ہدایت کی نشاندہی کی گئی ملتی ہے اور تلفظ کی پابندی لازمی ہے۔

نمبرشمار سورۃ آیت قرآنی لفظ املأ ہدایت

۱ الطور ۳۷ المصیطرون ص 'س' سے پڑھنے کی ہدایت

۲ الغاشیۃ ۲۲ بمصیطر ص 'س' سے پڑھنے کی ہدایت

۳ البقرۃ ۲۴۵ یبصط ص 'س' سے پڑھنے کی ہدایت

۴ الاحقاف ۳۳ یحیِ الموتیٰ یِ 'یَ' سے پڑھنے کی ہدایت

۵ القیمٰۃ ـ۴۰ یحیِ یِ 'یَ' سے پڑھنے کی ہدایت

قومی زبان میں ارفع خیالات کا وصف اور قرآنی عربی

کسی بھی قومی زبان کے اعلیٰ معیارات اور اقدار میں جہاں دیگر اوصاف پائے جاتے ہیں،وہاں اعلیٰ و ارفع خیالات اور نئے افکار کی فراوانی بھی ایک وصف مانا گیا ہے۔ اس لحاظ سے قرآنی عربی کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں عربی زبان و ادب پر قرآن حکیم کے ان گنت اثرات نظر آتے ہیں۔ اسلام سے پہلے زندگی کا تصور محدود تھا مگر اس کے طفیل ارفع خیالات اور افکار میں انقلاب آگیا۔ قرآن مجید کے زیراثر علم و فن کے نئے زاویے رونما ہوئے۔ شعروادب اور زبان میں قرآن مجید نے حُریتِ فکر، وسعت نظر، پاکیزگیٔ خیال اور بلندیٔ معانی کے اوصاف پیدا کیے۔ قرآن مجید نے قبل ازیں عربی ادب میں لفظی حسن و شوکت اور سفلی جذبات کے بجائے لفظی و معنوی حسن کے ساتھ جذبات عالیہ کی ترجمانی کے آداب سکھائے۔ یہ قرآن مجید کی تعلیم کا ہی فیضان ہے کہ آج عربی زبان دنیا کے تمام علوم و افکار سے معمور ہے کیوں کہ اس کا محور قرآن مجید ہے۔۴۷؎

یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ عربی زبان آنے والے ہر دور کے لیے جدید ترین ثابت ہونے کے قابل ہوگئی، ورنہ اب تک یہ دنیا کی ہزارہا دیگر زبانوں کی طرح قصۂ پارینہ بن چکی ہوتی۔ قرآن نے عربی زبان کو جو حوالے اور پہلو بخشے، اُن میں الفاظ و معنی کی امکانی وسعتیں؛ حقائق پسندی؛ نفع بخشی؛ افادی ہمہ گیری؛ انصاف پسندی؛ خدمت انسانیت؛ تائید حق و صداقت ؛ نفاست پسندی، عفت و حیا اور خدا پرستی وغیرہ شامل ہیں۔۴۸؎ قرآن نے سورۃ الرحمن میں'علمہُّ البیان' کہہ کر زبان و ادب کے سیل رواں کا رُخ موڑ دیا۔ قرآن کے اِن متعین کردہ معیارات کو نہ صرف عربی بلکہ دنیا کی دوسری زبانوں نے بھی اپنایا۔

قرآن نے لسانیاتی طور پر عربی زبان میں حسین الفاظ ؛ خوبیٔ تراکیب؛ نزاکتِ اسلوب؛ قوت گویائی؛ زور بیان؛ کثرت مضامین ومطالب جیسی صفات پیدا کیں۔ عربی زبان میں اسلام کے طفیل اصطلاحات کا لامحدود ذخیرہ شامل ہوا جس نے صدیوں تک دنیا کی رہبری کی اور یہ علمی خدمت اب بھی جاری ہے۔یہی نہیں بلکہ دنیا کی دوسری زبانوں نے اصطلاحات کے سلسلے میں قرآنی عربی سے بھرپور استفادہ کیا۔ قرآن مجید نے عربی نثر اور نظم دونوں پر اپنے جو اثرات مرتب کیے، اُن میں طرزنثرنگاری کی پُرکیف سادگی شامل ہے۔۴۹؎ اسلام نے علوم و فنون ؛ تحقیق و تدقیق اور اہل علم و دانش کے علمی مزاج پر وہ اثرات مرتب کیے کہ عرب کے صحرانشین ہر شعبہ زندگی میں دنیا کے امام ٹھہرے۔

علوم اللسان کے ضمن میں قرآن پر نقطے اور اعراب لگانے کا کارنامہ اسلام کے دنیا میں تیزرفتار فروغ کے باعث انجام پایا۔ حضرت علیؓ کے ایمأ پر نحو کے قواعد ابوالاسود الدولی نے مرتب کیے تاکہ عربی زبان کا تحفظ ممکن ہوسکے۔ قرآن کے اعراب و معانی پر سب سے پہلے ابوعبیدہ معمر بن المثنی نے کتاب لکھی۔ قومی زبان میں ارفع خیالات کے اوصاف اور قرآنی عربی کے سلسلے میں امثال القرآن ؛ آیات اور متشابہات، حروف القرآن؛ مقطوع و موصول قرآن؛ سجود القرآن؛ضمائرالقرآن؛ مفردات القرآن؛ تجوید؛ غریب القرآن جیسے محض چند ایک موضوعات کو مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتاہے۔

قومی زبان آسان ہوتی ہے

قرآنی آیات کے مطالعے سے زبان کا یہ اصول بھی سامنے آتا ہے کہ اصطلاحات اور تکنیکی الفاظ کو چھوڑکر قومی زبان بالعموم سادہ، عام فہم اور ہر ایک کے سمجھنے کے لیے آسان ہوتی ہے۔ قرآن حکیم میں اس کا تذکرہ کئی آیات میں ملتا ہے۔ سورۃ مریم کی آیت ۹۷ میں ''یہ قرآن تمہاری زبان میں یونہی آسان فرمایا کہ تم اس سے ڈروالوں کو خوشخبری دو اور جھگڑالو لوگوں کو اس سے ڈر سناؤ۔ ''اس آیت کی تفسیر میں تفسیر ابن کثیر میں درج ہے کہ ہم نے اس قرآن کو اے نبی تیری زبان یعنی عربی میں بالکل آسان کرکے نازل فرمایا ہے جو فصاحت و بلاغت والی بہترین زبان ہے تاکہ تو انھیں، جو خدا کا خوف رکھتے ہیںاور دلوں میں ایمان اور ظاہر میں نیک اعمال رکھتے ہیں، خدائی بشارتیں سنادے اور جو حق سے ہٹے ہوئے ہیںاور جھگڑالو ہیں، انھیں خدائی پکڑ سے متنبہ کردے۔۵۰؎ حق بات کو نبیﷺ کی زبان میں بتانے کے ساتھ اسے نہ ماننے والوں کو وعید بھی سنادی گئی ہے۔ گویا نبیﷺ کی زبان پر اعتبار نہ کرنے والے جھگڑالو لوگ ہوتے ہیں۔

اسی موضوع کو سورۃ الدخان کی آیت ۵۸ میں ''اور ہم نے اس قرآن کو تمہاری زبان میں آسان کیا کہ وہ سمجھیں'' کے الفاظ کے ساتھ قومی زبان کے آسان اور عام فہم ہونے کے اصول کو دہرایا گیا ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ ہم نے اپنے نازل کردہ اس قرآن کریم کو بہت سہل، بالکل آسان، صاف ظاہر، بہت واضح، مدلل اور روشن کرکے تجھ پر تیری زبان میں نازل فرمایا ہے جو بہت فصیح و بلیغ، بڑی شیریں اور پختہ ہے تاکہ لوگ بآسانی سمجھ لیں اور بخوشی عمل کریں۔۵۱؎

قرآن کے فضائل میں سے ایک مسلمہ فضیلت یہی ہے کہ یہ اپنے معانی و مطالب میں نہایت آسان ہے اور الفاظ و انداز میںبھی آسان ہے۔ اس زبان کی خوبی ہے کہ یہ یاد کرنے اور سمجھنے میں بھی آسان ہے۔ سورۃ القمر کی آیات ۱۷؛ ۲۲؛ ۳۲ اور ۴۰ میں باربار واضح طور پر کہا گیا ہے: ''ہم نے قرآن کو یاد کرنے کے لیے آسان کردیا ہے۔ تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے۔''۵۲؎ غور کیجیے آٹھ دس سال کا بچہ جسے اپنی مادری زبان میںچھوٹا سا رسالہ یاد کرانا دشوار ہے، وہ ایک غیرمادری زبان کی ضخیم کتاب، جو مشکلات سے پُر ہے ،کس طرح رواں دواں سنا دیتا ہے۔۵۳؎ قرآن کریم اس خصوصیت میں منفرد ہے کہ اس کی تکرار و اعادے سے اکتاہٹ اور بیزاری کا احساس پیدا نہیں ہوتا۔۵۴؎ حقیقت یہ ہے کہ قرآن عزیز کے نظم و تالیف کا مکمل شعور عربوں کے بھی بس کی بات نہیں تھی اور نہ کبھی کسی کے بس میں ہوسکے گا۔

حکم ربانی کے مطابق قرآن کے آسان ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی قرأت کو عجمی اور غیرعرب لوگوں کے لیے حدیث نبوی ﷺمیں جنت کے ساتوں دروازے کھلنے کی مثال سے بیان فرمایا گیا ہے۔ حدیث کے مطابق قرآن مجید کی سبعۃ احرف کے تحت تلاوت و قرأت کرنے کا مقصد زیادہ سے زیادہ آسانی پیدا کرنا ہے۔ گویا اسلام میں زبان کے حصول کو آسان اور سہل بنانے کی ترغیب موجود ہے۔ سورۃ العنکبوت کی آیت ۴۹ میںارشاد ربانی ہے: ''یہ قرآن مجید روشن و واضح آیات کا مجموعہ ہے۔'' اسی طرح قرآن کی سورۃ الفرقان کی آیت ۳۲ میں ''اس طرح (آہستہ آہستہ) اس لیے اتارا کہ ہم اس سے آپ ﷺکے دل کو مضبوط کردیں اور اسی لیے ہم اس کو ٹھہرٹھہر کر پڑھتے ہیں'' کے الفاظ سے قرآن حکیم کی ترتیل یعنی تھوڑا تھوڑا کرکے اتارنے کا بھی یہی مطلب مفسرین نے بتایا ہے۔ قرآن حکیم کی سورۃ الانشراح کی پہلی آیت ''کیا ہم نے آپ ﷺ کا سینہ نہیں کھول دیا'' میں جہاں آنحضرت ﷺکی سیرت، پاکیزگی، کشادہ دلی اور اعلیٰ اخلاق کی رفعت و عظمت کا ذکر ہے وہاں آپؐ کی مؤثر لسانی قدرت اظہار کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔ احادیث میں ملتا ہے کہ آپ ﷺاپنی گفتگو میں نہایت تحمل سے واضح ادائیگی الفاظ کے ساتھ بات مکمل فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺکو زبان پر پوری قدرت حاصل تھی۔

سورۃ البقرۃ آیت ۸۳ میں ''اور لوگوں سے اچھی بات کہو'' ؛ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۵۳ میں ''اے نبی ﷺمیرے بندوں سے کہہ دیجیے کہ جو بات کہو بہترین بات کہو'' اور سورۃ الخل کی آیت ۱۲۵ میں'' آپ ﷺ اپنے پروردگار کی طرف لوگوں کو بلائیے حکمت سے اور اچھی نصیحت سے اور مخالفوں سے بحث کیجیے تو وہ احسن طریقے سے'' جیسی قرآن حکیم کی آیات بیّنات مناسب ترین اور منتخب ترین الفاظ کو زبان کے پورے رکھ رکھاؤ اور وضع داری کے ساتھ استعمال کرنے کی تعلیم فرمارہی ہیں۔ کیا یہ آیات قرآنی عربی بالفاظ دیگر عربوں کی قومی زبان کے لسانی، علمی، اخلاقی معیارات مقرر نہیں کررہی ہیں۔ یقینا کررہی ہیں ، جن سے دنیا کی جُملہ قومی زبانیں خاطرخواہ سبق حاصل کرسکتی ہیں۔ آج کسی زبان کو معیاری تسلیم کیا جاتا ہے تو اس میں بنیادیہی معیارات قرار پاتے ہیں۔

قومی زبان اور فصاحت و بلاغت

قومی زبان کی ایک بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ عام فہم اور سادہ ہو جسے عام آدمی بھی بخوبی سمجھ سکے۔ دوسری طرف اس سادگی کے ساتھ ساتھ فصاحت و بلاغت بھی قومی زبان کے اعلیٰ اوصاف میں سے ہے۔ قرآن مجید اِن دونوں کے مابین امتزاج کے نقطۂ عروج کی حسین ترین مثال ہے۔ قرآن کے فصیح اور خالص عربی زبان میں ہونے کے بارے تاریخی شواہد کی روشنی میں کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی۔ فصاحت و بلاغت عرب معاشرے کا قدیم لسانی مزاج تھا۔ نزول قرآن کے وقت عربوں کو اپنی زبان پر بڑا فخر تھا اور وہ فصاحت و بلاغت کی ایسی معراج پر پہنچے ہوئے تھے کہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ اہل عرب غیرعربوں کو عجمی یعنی گونگے کہتے تھے۔ اﷲ کی طرف سے رسول اﷲ پر جب قرآن نازل ہونے لگا تو اس کے سامنے ان کی فصاحت و بلاغت ماند پڑگئی۔ چنانچہ قرآن کے اندازبیان، طرزاستدلال اور حسن زبان سے متاثر ہوکر لوگوں نے اسلام قبول کرنا شرع کردیا۔۵۵؎ فصحائے عرب دنگ رہ گئے۔ جاحظ اور تمام اشاعرہ قرآن مجید کو فصاحت و بلاغت کی حیثیت سے معجزہ قرار دیتے ہیں۔۵۶؎ کسی بھی دوسرے کلام کی نسبت قرآن واحد کتاب ہے جس کے اعادہ و تکرار سے نئی فرحت و مسرت حاصل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ قرآن کا صوتی حظ ہے۔۵۷؎

زبان میں فصاحت و بلاغت کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ اس کی مثالیں بھی خود قرآن مجید میں موجود ہیں۔ حضرت موسٰی ؑجیسے برگزیدہ پیغمبر نے رب العزت کے حضور زبان میں اپنے لیے فصاحت و بلاغت کی دعا کی اور ایسے فرد کی مدد چاہی جس کی زبان زیادہ صاف ہو۔ سورۃ القصص کی آیت ۲۴ میں حضرت موسیٰ ؑ کی یہ دعا مذکور ہے: ''اور میرا بھائی ہارون اس کی زبان مجھ سے زیادہ صاف تو اسے مدد کے لیے رسول بناکہ میری تصدیق کرے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے۔'' سورۃ طہٰ ٰ آیت ۲۷ میں حضرت موسیٰ ؑ کی دعا کے یہ الفاظ درج ہیں: ''اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔'' سورۃ الشعراء کی آیت ۱۳ میں ''اور میرا سینہ تنگی کرتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی تو توُ ہارون کو بھی رسول کر'' کے الفاظ زبان کی فصاحت و بلاغت کی اہمیت کا احساس دلا رہے ہیں۔ سورۃ طہٰ ٰ میں حضرت موسیٰ ؑ کا اشارہ بچپن سے زبان میں پڑ جانے والی لکنت کی طرف ہے مگر دراصل یہ اشارہ فصاحت و بلاغت کی طرف ہی ہے تاکہ فرعون کے سامنے پیغام مناسب ترین اور منتخب الفاظ میں دیا جائے۔ اس میں زبان کا معیار ، سادگی، سلاست اور فصاحت و بلاغت بھی موجود ہو۔ حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑ نے جو دعا کی، وہ قبول ہوئی کہ لوگ آپ ؑ کی بات سمجھ لیا کریں۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ زبان کی بابت دعا کی کہ اتنی صاف ہوجائے کہ لوگ بات سمجھ لیں۔ دعا کی کہ ہارون کو بھی نبی بنادیا جائے۔ وہ بھی پوری ہوئی۔۵۸؎ سورۃ یوسف کی پہلی ہی آیت میں بھی آیا ہے: '' یہ واضح طور پر بیان کرنے والی کتاب کی آیات ہیں۔ ہم نے یقینا اسے فصیح اور واضح قرآن بناکر نازل کیا ہے۔'' سورۃ الزمر کی آیت ۲۸ میں ''عربی زبان کا قرآن جس میں اصلاً کجی نہیں کہ کہیں وہ ڈریں'' کے الفاظ کے ساتھ قرآن کی فصاحت و بلاغت کی ایک بار پھر سچی گواہی دی گئی۔ تفسیر ابن کثیر میں بھی درج ہے کہ یہ قرآن فصیح عربی زبان میں ہے جس میں کوئی کجی اور کمی نہیں۔ واضح دلیلیں اور روشن حجتیں ہیں۔۵۹؎ سورۃ الدخان کی آیت ۳ میں بھی قرآن کی فصاحت و بلاغت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ سورۃ الاحقاف کی آیت ۷ میں بھی قرآن کی فصاحت کا ہی موضوع بیان کیا گیا ہے۔

منہاج البلغاء کے حوالے سے علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب الاتقان میں لکھا ہے : ''قرآن مجید کا اعجاز یہ ہے کہ اس میں فصاحت و بلاغت اس کے ہر موقع اور ہر محل پر یکساں طور پر اس طرح پائی جاتی ہے کہ اس میں کہیں انقطاع نہیں۔۶۰؎

قرآنی عربی میں حروف مقطعات کا سلسلہ فصاحت و بلاغت کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن کی ۲۹ سورتوں کے شروع میں حروفِ مقطعات کا سلسلہ ایک جدت کی حیثیت رکھتا تھا بلکہ آج تک بھی انسانی تحریر میں ایسی کسی کوشش کا نام و نشان نہیں ملتا۔ انھیں قرآن میں مخففات کہہ سکتے ہیں جن کا مفہوم صرف اﷲ اور اس کا رسول ﷺ ہی جانتے ہیں کیوں کہ یہ کلام ربانی ہے۔

سورۃ الشعراء کی آیت ۱۹۵ ''روشن عربی زبان میں '' کی تفسیر میں تفسیر ابن کثیر میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ ایک مرتبہ حضورﷺ نے صحابہ ؓ کے سامنے نہایت فصاحت سے ''اَبر'' کے اوصاف بیان کیے جسے سُن کر صحابہؓ پکار اُٹھے کہ یا رسول اﷲﷺ ! آپ تو کمال درجہ کی فصیح و بلیغ زبان بولتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا، بھلامیری زبان ایسی پاکیزہ کیوں نہ ہوگی، قرآن بھی تو میری زبان میں اُترا ہے۔۶۱؎ آخر ایسا کیوں نہ ہوتا کہ رسول ﷺاﷲ کا ایک اسم صفاتی ''فصیح'' بھی ہے۔ کتب سیرت میں حضوراکرمﷺ کا فرمان ''میں عرب میں فصیح ترین ہوں جبکہ میں قریش سے ہوں اور بنی سعد بن بکر میں نشوونما ہوئی ہے۔'' ۶۲؎ بھی ملتا ہے جو موضوع کی اہمیت کو بخو بی اجاگر کررہا ہے۔

مختصر یہ کہ اگر فصاحت و بلاغت کسی قومی زبان کا حسن اور طرۂ امتیاز ہوا کرتی ہے تو یہی خوبی لسانی ارتقاء میں اس کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ عربی جیسی قومی زبان میں فصاحت و بلاغت کا وصف دنیا کی زبانوں میں آج بھی سوا ہے جس میں ایک ہی چیز کی مختلف قسموں اور صورتوںتک کے الگ الگ نام موجود ہیں۔

قومی زبان جامع الکلام ہوتی ہے

کسی بھی قومی زبان کی ایک خوبی اس کا جامع الکلام ہونا ہے کیوں کہ یہ کسی ملک و قوم کے مختلف خطوں ، علاقوں، پیشوں، معاشرتی طبقات اور معاشی درجات میں روزمرہ بولے، پڑھے اور لکھے جانے والے ذخیرۂ الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہے۔ قرآن کا موضوع بھی انسان اور انسانیات ہے جس کا تعلق انہی مختلف انسانی گروہوں، طبقات اور درجات سے ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن اپنے موضوعات میں لفظ لفظ وسعت کا تقاضا اسی لیے کرتا ہے۔ دوسری طرف یہ اعجازِ قرآن ہے کہ وہ ایک ایک لفظ اور ایک ایک آیت میں سمندر کو کوزے میں بند کرتا چلا جاتا ہے۔ عربوں کو یہی حیرت ہوتی تھی اور وہ کہنے پر مجبور ہوجاتے تھے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہوسکتا۔ قرآن کی عربی خالص نثر ہے مگر مترتب اور نظم نما خوب صورت نثر جیسے ٹھیک ٹھیک نگینے جڑے ہوئے ہوں۔

قرآن کی جامعیت ہے کہ اس کی آیات اور الفاظ کے نئے سے نئے معانی ہر دور میں انسان کے سامنے آتے رہے ہیں۔ اردو دائرۂ معارف اسلامیہ میں قرآنی آیات سے استنباط کے بعد ۳۲ اسماء القرآن درج کیے گئے ہیں جو قرآن کے صفاتی نام ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ تعداد پچاس ہے۔ بعض دیگر کے نزدیک یہ تعداد اسماء الحسنیٰ اورا سماء الرسول ﷺکی طرح ننانوے بتائی جاتی ہے۔ حدیث میں بھی قرآن کے چند صفاتی ناموں کا ذکر آتا ہے۔ ۶۳؎ یہ سب باتیں قرآن کی جامعیت پر دلالت کرتی ہیں۔ قرآن کے صفاتی ناموں میں ''العربی'' کے علاوہ الحکیم؛ المبین؛ البیان؛ الھدیٰ ؛ البینۃ ؛ الذکر ؛ کلام اﷲ ؛ المفصل؛ ذکریٰ تو لسانیاتِ قرآن کے حوالے سے بالخصوص توجہ طلب ہیں اور عربی کے ایک جامع زبان ہونا بھی ثابت کرتے ہیں۔ اس سے ماہرین لسانیات اشتقاقات کے ذریعے نئی سے نئی اصطلاحات وضع کرکے جدید تر علوم و فنون کو فروغ دے سکتے ہیں۔

تفسیر ابن کثیر میں حضور ﷺکا فرمان درج ہے کہ لوگو!میں جامع کلمات دیا گیا ہوں اور کلمات کے خاتم دیا گیا ہوں اور پھر میرے بُہت ہی اختصار کیا گیا ہے۔ میں دین خدا کی باتیں بہت سفید چمکیلی لایا ہوں''۶۴؎

قرآن کے جامع اور مفصل ہونے کے حوالے سے سورۃ الانعام کی آیت ۱۱۴ میں : ''۔۔۔۔ اور وہی ہے جس نے تمہاری طرف مفصل کتاب اتاری'' کے الفاظ ملتے ہیں۔ اسی طرف سورۃ الاعراف کی آیت ۵۲ میں بھی اسی جامعیت کا ذکر ان الفاظ میں ملتا ہے: ''اور بے شک ہم ان کے پاس ایک کتاب لائے جسے ہم نے ایک بڑے علم سے مفصل کیا ہدایت و رحمت ایمان والوں کے لیے''۔ سورۃ ھود کی پہلی ہی آیت میں بھی'' یہ کتاب ہے جس کی آیتیں حکمت بھری ہیں پھر تفصیل کی گئی حکمت والے خبردار کی طرف سے'' کے الفاظ کے ساتھ اسی موضوع کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ یہی نہیں اس موضوع کو سورۃ یوسف کی آیت ۱۱۱ میں اِن الفاظ میں ''۔۔۔۔ اور ہر چیز کا مفصل بیان اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت'' بیان کیا گیا ہے۔ اسی سلسلے میں سورۃ الخل کی آیت ۸۹ میں ''۔۔۔۔ اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے اور ہدایت اور رحمت اور بشارت مسلمانوں کو'' جیسے الفاظ میں قرآن کے جامع الکلام اور مفصل ہونے کی بشارت دی گئی ہے۔

قرآن حکیم کی یہ واضح آیات قومی زبان کے مفصل اور جامع الکلام ہونے کی خصوصیت سامنے لاتی ہیں جو قرآنی عربی میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔ دنیا کی دیگر قومی زبانیں اس سے رہنمائی پاسکتی ہیں۔

زبانوں کے اخذ وماخوذ کا قرآنی اصول

قرآن اﷲ کا آخری اور آفاقی پیغام ہے جو کُرہ ارض کے ہر خطے کے لوگوں، اقوام اور طبقات کے لیے قیامت تک قانون نافذہ ہے۔ قرآن میں شعوب و قبائل اور زبانوں اور رنگ و نسل کو تفاخر اور نفاق نہیں بلکہ رونق بزمِ ہستی اور ان کی الگ الگ پہچان بتایا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں عربی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کسی بھی قومی زبان کے دوسری زبانوں کے ساتھ وسیع تعلقات کا اصول سمجھا دیا گیا ہے۔ رب کائنات سورۃ الروم کی آیت ۲۲ میں فرماتا ہے: ''اور اس کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں جاننے والوں کے لیے۔'' اس آیت کریمہ کی تفسیر میں تفسیر ابن کثیر میں اﷲ تعالیٰ کی دیگر نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ خودتمہاری زبانوں میں رنگتوں میں اختلاف رکھنا بھی شامل ہے۔ عرب کی زبان، تاتاریوں کی اور کُردوں کی ، فرنگیوں کی اور تکروردیوں کی، بربرکی اور حبشیوں کی، ہندیوں کی اور ایرانیوں کی ، صقالیہ کی اور ارمینوں کی، جزریوں کی اور خدا جانے کتنی زبانیں زمین پر بنوآدم میں بولی جاتی ہیں۔ انسانی زبانوں کے اختلاف کے ساتھ ہی ان کی رنگتوں کا اختلاف بھی شانِ خدا کا مظہر ہے۔ خیال تو فرمائیے کہ لاکھوں آدمی جمع ہوجائیں، ایک کنبے قبیلے کے، ایک ملک ایک زبان کے ہوں لیکن ناممکن ہے کہ ہر ایک میں کوئی نہ کوئی اختلاف نہ ہو۔ یقینا سننے سمجھنے والوں کے لیے یہ چیزیں نشان قدرت ہیں۔۶۵؎ تفسیر ضیاء القرآن میں اس آیت کی تفسیر میں درج ہے: ''ایک آدم کی اولاد اور اتنی کثیر زبانیں اور اتنے رنگ، پھر ہر زبان اپنی جگہ گنج علم و دانش اور مخزن علم و فن، ہر رنگ پُرکشش اور دل موہ لینے والا۔ اہل علم ان اُمور میں غور کریں۔''۶۶؎ اسلام قبل ازیں الہامی مذاہب کی طرح محض ایک خطے کے لیے مختص نہیں تھا بلکہ اس نے بہت جلد جغرافیائی حدود کی پابندیاں ختم کرکے عالمی سطح پر آنا تھا۔ پھر بین الاقوامی سطح پر مختلف خطوں کے مسلمانوں سے اورمسلمانوں کے غیر مسلموں سے روابط قائم ہونا تھے۔ یہ عمل ابتدائی دہائیوں میں ہی تیزی سے شروع ہوگیا۔ ایسے منظرنامہ میں انسانی رابطے کا باعث زبان ہی بن سکتی تھی۔ اس کے لیے قرآن کی عربی نے مضبوط بنیاد فراہم کی۔ دنیا کی زندہ زبانوں کے اوصاف میں دوسری زبانوں سے اخذو ماخوذ کا عمل بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن نے انسانی فطرت کے اس وصف کو اپنے تصورِ قومی زبان کے فلسفے میں بخوبی اجاگرکیاہے۔ قرآن حکیم کے بارے میں خود قرآن کا یہ دعوٰی برحق ہے کہ وہ نہایت روشن اور فصیح عربی میں ہے مگر شارحین قرآن حکیم کے مطابق روشن عربی کا مطلب نہایت رواں اور واضح عربی ہے۔

اسلامی انسائیکلوپیڈیا کی جلد ۲۶ میںہے کہ قرآن میں بہت سے غیرعربی الفاظ بھی آئے ہیں ۶۷؎ امام قرطبی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: ''چاروں اَئمہ میں اتفاق ہے کہ غیرعربی الفاظ اور قرآن میں آئے ناموں میں کوئی فرق نہیں ہے جیسے نوح،لوط، عمران اور جبرئیل۔'' اس کے برعکس الطبری اور الباقلانی جیسے علماء انھیں عربی الفاظ ہی ماننے کے قائل ہیں کیوں کہ یہ عربی گرامر کی پابندی کرتے ہیں۔۶۸؎

قرآن میں عبرانی، ہندوستانی، فارسی، ایتھوپیائی، بربر، رومی، قبطی، یونانی اور شامی زبانوں کے غیرملکی الفاظ ملتے ہیں۔ مفسر قرآن ابن عباس ایسے الفاظ اور معانی کی اصل جاننے کے لیے بڑی جستجو کیا کرتے تھے۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب ''الاتقان'' میں اس موضوع پر ایک خصوصی باب شامل کیا ہے اور بتایا ہے کہ قرآن میں ۲۷۵ غیرعربی الفاظ آئے ہیں جن کا تعلق کسی طور عربی سے نہیں ہے۔ المتوکلی نے بھی قرآن میں مذکور غیرعربی الفاظ پر سیرحاصل بحث کی ہے۔ اسی طرح کا ایک اور مطالعہ شیخ ابراہیم البیاری نے اپنی کتاب ''تاریخ القرآن'' میں کیا ہے جو ۱۹۸۱ء میں قاہرہ سے شائع ہوئی۔۶۹؎

قرآن حکیم میں آنے والے غیرعربی الفاظ میں سے چند ایک الفاظ کی نشان دہی ذیل میں کی جاتی ہے۔

(۱)طَفِقَا (کچھ کرنے میں مصروف) الاعراف : ۲۲ رومی

(۲) الطور (طُور؛ روئید گی والا پہاڑ) البقرۃ :۶۳ سریانی

(۳) الرقیم (جنگل کا کنارہ ) الکہف :۹ رومی

(۴) طہٰ ٰ طہٰ ٰ :۱ عبرانی

(۵)السجل (کتاب) الانبیآء :۱۰۴ فارسی

(۶) استبرق (قنادیز) الدخان : ۵۳ فارسی

(۷)سندس (کریب) الدخان :۵۳ سندھی

(۸)سریا (نہر) مریم :۲۴ یونانی

(۹)مشکوٰۃ (طاق) النور :۳۵ ایتھوپیائی

(۱۰)جہنم (جہنم) الانفال :۳۶ عبرانی

(۱۱)الزکٰوۃ (زکوٰۃ) البقرۃ (وغیرھم) عبرانی

(۱۲)سجیل (پتھریلاگارا) ھود،الفیل (وغیرہم) فارسی

(۱۳)الدری (روشن سیارہ) الانبیآء :۱۰۹ ایتھوپیائی

(۱۴)کفلین (دوپرت) الحدید :۲۸ ایتھوپیائی

(۱۵)قسورۃ (شیر) المدثر :۵۱ ایتھوپیائی

(۱۶)الملۃ الاخرۃ (سب سے پچھلے دین) ص ٓ :۷ قبطی

(۱۷)وراھم (ان کے پیچھے) الکہف :۷۹ قبطی

(۱۸)انجیل متعدد بار یونانی

(۱۹)تابوت (صندوق) طہٰ ٰ :۳۹ قبطی

(۲۰)سرادقھا (خیمہ) الکہف :۲۹ فارسی

(۲۱)سورۃ (سورۃ) البقرۃ :۲۳(وغیرھم) سریانی

(۲۲)الفردوس (باغ) الکہف :۱۰۷ فارسی

(۲۳)ماعون (برتن) الماعون (نام سورۃ) عبرانی

اس کے علاوہ درج ذیل الفاظ بھی غیرعربی قرار دیے گئے ہیں۔

(۲۴)قسطاس (ترازو) بنی اسرائٓیل:۳۵ یونانی

(۲۵)غساقا (جلتا پیپ) النباء :۲۵ ترکی

(۲۶)طوبیٰ (ایک جنت کا نام) الرعد :۲۹ ایتھوپیائی

قرآن حکیم میں سے مذکورہ بالا محض چند ایک مثالوں کے علاوہ بیشتر انبیاء و رسل کے غیرعربی ناموں جیسے غیرعربی الفاظ کا استعمال اس قرآنی اصول کو ثابت کرتا ہے کہ کوئی بھی زبان تبھی زندہ، توانا اورترقی یافتہ بن سکتی ہے جب اس میں وقت کے ساتھ دوسری زبانوں کے الفاظ ہم مزاج بناکر شامل کیے جاتے رہیں۔ اس سے جغرافیائی طور پر دور دراز واقع لوگ اور اقوام قریب آئیں گی بلکہ ان میں محبت و مؤدت بھی بڑھے گی۔ اس طرح زبانوں کی ترقی کا دو طرفہ عمل تیز تر ہوگا جو بالآخر انسانیت کی بھلائی کا باعث ہوگا۔یہی وہ راہ ہے جس کے لیے قرآن نے زبانوں کے اختلاف کو اﷲ کی نشانیوں میں سے قرار دیا گیا ہے۔ بہرحال قرآن نے غیرعربی الفاظ کو نہایت خوب صورتی کے ساتھ عربی زبان کے مزاج میں ڈھالنے کا اصول اپناکر غیرزبان کے الفاظ کے انجذاب کی راہ کھول دی۔ آج عربی یا قرآن کے ماہرین بخوبی جانتے ہیں کہ قرآن میں خالق کائنات نے کس خوبی کے ساتھ غیرعربی الفاظ کو تائید خداوندی عطا کرتے ہوئے عربی کا جزولاینفک بنادیا کہ وہ الفاظ عربی کے نگینے محسوس ہوتے ہیں اور ان میں کوئی اجنبیت نہیں رہ گئی۔ اس سے کوئی سی بھی دو زبانوں کے مشترکہ ماخذ کے امکان کا اصول بھی ثابت ہوتا ہے۔۷۰؎ آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی ترقی یافتہ ترین زبانوں نے اسی قرآنی اصول کو اپناکر اپنے آپ کو عالمی اور بین الاقوامی زبانیں بنالیا۔ وہ زبانیں جنھوں نے اس پر عمل نہیں کیا، آج لسانی مشکلات کا شکار ہیں۔

قرآن اور اس کے انداز بیان کا زبان و لغت پر یہ خاص اثر ہوا کہ اس نے نہ صرف عربی زبان کو سامی زبانوں کی طرح مٹنے سے بچالیا بلکہ اس کے مختلف لہجوں اور بولیوں کو آمیزکرکے ایک ایسی خوب صورت میٹھی، دلنشین، مؤثر اور جامع زبان کو وجود بخشا جو سب عربوں کی متحدہ، متفقہ قومی زبان بن گئی۔ بعدازاں اس کا دامن اس قدر وسیع ہوا کہ علم و فن کے لیے بیکراں ہو گئی۔ اس کی کسوٹی قرآن ہی بنا ۔ قرآن کا یہ امتیاز ابھی تک باقی ہے اور جب تک عربی زبان زندہ ہے اور روئے زمین پر ایک مسلمان بھی باقی ہے، ہمیشہ رہے گا۔۷۱؎

قرآن کے غیرعربی الفاظ پر عرب مفسرین کے ہاں جو بحث موجود ہے،اس کاایک اور پہلو قابل توجہ ہے۔ عبدالرحمن بن ابی بکر علامہ جلال الدین سیوطی۷۲؎ جیسے مفسرین کے نزدیک قرآن میں نازل ہونے والے غیرعربی الفاظ اس وقت تک کی عربی میں رچ بس چکے تھے اور عربی انھیں اپناچکی تھی۔ غیرعربی الفاظ کی عرب آمد زیادہ تر اُن تجارتی قافلوں کے طفیل تھی جو بیرون عرب تجارت کا سامان لے جاکر اور پھر وہاں سے اُن ممالک کے پیداواری اور مصنوعاتی مال لے کر آتے تھے۔ قرآن نے ان الفاظ کو عربی کے لیے باقاعدہ سند خداوندی عطا کردی۔ اس سے نہ صرف عربوں بلکہ عربی زبان کی ترقی کے دروازے ہمیشہ کے لیے کُھل گئے۔

قرآنی عربی میں قومی سے بین الاقوامی اور عالمی زبان بننے کی فطری صلاحیت

کسی بھی بین الاقوامی زبان بننے والی قومی زبان کی کچھ خصوصیات ہوا کرتی ہیں جنھیں وہ پورا کرتی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اس کے اثرات ملکی سرحدوں سے باہر دیگر ممالک کی زبانوں پر ہوں۔ ان میںعلوم و فنون کے فروغ کا رجحان، ایجادات و اختراعات کا مزاج، بین الاقوامی تعلقات ، تجارت اور اندرونی صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ زبان کے ردوقبول کے مزاج جیسے اثرات واوصاف شامل ہیں۔

قرآن عربی میں نازل ہوا۔ قرآن کے اولین مخاطب اور سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے بھی عرب تھے۔ اسلام کے قلیل عرصے میں بین البراعظمی فروغ نے نہ صرف دوسری تہذیبوں پر اثرات ڈالے بلکہ اُن کو لسانی طور پر متاثر کیا۔ دراصل اسلام جہاں جہاں گیا قرآن بھی ان کے ساتھ پہنچا اور قرآن نے اپنی زبان کی سیادت تسلیم کرائی۔ قرآن مجید کی خاطر نومسلم اقوام نے عربی زبان( عربوں کی قومی زبان) کو اپنایا اور اسے مادری زبان کی سی حیثیت دی۔۷۳؎ آج ہم جانتے ہیںکہ عربی اقوام متحدہ کی ایک مسلمہ بین الاقوامی زبان ہے۔دراصل قرآن نے عربی کو وہ بین الاقوامی معیار عطاکردیا کہ آج وہ دنیا کے ہر براعظم میں کسی نہ کسی صورت میں پائی جاتی ہے اور عربی الفاظ دنیا بھر کی زبانوں میں اپنا اثرونفوذ رکھتے ہیں۔ اسے مذہبی تقدس کے باعث دوسری فاتح زبانوں سے کہیں زیادہ اثرورسوخ حاصل ہے۔

اہل عرب نے آمد اسلام کے بعد ماقبل تہذیبوں کی عظیم کتابوں کے تراجم کاکام شروع کرکے اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھ دی۔عرب کے باہر دوسرے ممالک میں فروغ اسلام کے لیے ترجمہ کی ضرورت پڑی۔ بعض روایات کے مطابق حضرت سلمان فارسیؓ نے حضور اکرم ﷺکی اجازت سے اپنے ہم وطن نومسلموں کے لیے سورۃ الفاتحہ کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ بنواُمیہ کے دورخلافت کے اواخر میں قرآن مجید کے بربر زبان میں ترجمے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ماہرین لسانیات و قرآن کی تحقیق کے مطابق قرآن پاک میں ۲۷۵ غیرعربی الفاظ کا نزول عربی زبان کے نہ صرف قومی مزاج بلکہ بین الاقوامی زبان کے طور پر ارتقاء کی طرف سفر کا آغاز قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسلام سے ماقبل اورما بعدخانہ کعبہ کی بین الاقوامی حیثیت ہمیشہ مسلّم رہی ہے۔ گویا عازمین حج وغیرہ نہ صرف اﷲ کے گھر کی زیارت کو آتے تھے بلکہ چاردانگ عالم سے آئے ہوئے مسلم باہمی گفتگو سے الفاظ و معنی کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ یوں زبانوں اور پھر عربی کا بالخصوص فروغ عمل میں آتا تھا۔ یہاں مال تجارت کی خریدوفروخت ہر ملک کی زبان کے عربی سے میل ملاپ کا سبب بھی بنتی رہی۔ اس میں بھی فن ترجمہ نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ قرآن کے دنیا بھر کی زبانوں میں اعلیٰ سے اعلیٰ تراجم اس کی لسانی بین الاقوامیت کا ہی اظہار ہیں۔ یہ سلسلہ اب تیز تر ہے۔

ترجمہ نے تہذیبوں کے ارتقاء اور عروج و زوال میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ ہر قوم کی ترقی کی بنیاد رہا ہے۔ اس کے باوجود ترجمہ اصل کی جگہ نہیں لے سکتا، چہ جائے کہ وہ کلام اﷲ کا ترجمہ ہو۔ قرآن کی بات تو ہے ہی تخصیص کے ساتھ کہ قرآناً عربیاً کا خود عربی زبان میں بھی ترجمہ سند نہیں ہوسکتا۔ گویا ترجمے میں حددرجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔۷۴؎

وکی پیڈیا میں آن لائن عربی کی بین الاقوامی زبان کی حیثیت سے متعلق جو رائے ظاہر کی گئی ہے، وہ نہایت قابل توجہ ہے۔ اس میں لکھا ہے: ''عربی ساتویں صدی عیسوی میں چاردانگ عالم پر اسلامی سلطنت کے پیش نظر زبان عامہ یعنی لینگوافرانکا بن کر اُبھری۔ عربی جزیرہ نمائے عرب کے باشندوں کی ملکی زبان ہے لیکن اسلام کے چین، ہندوستان، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ ، شمالی افریقہ اور جنوبی یورپ میں پھیلنے کے باعث عربی کا استعمال بین الاقوامی سطح پر ہونے لگا۔ تین براعظموں پر محیط وسیع و عریض اسلامی سلطنت کے لیے ایک مشترکہ زبان کی اشد ضرورت تھی جو عربی نے سات صدیوں تک زبان عامہ یعنی لینگوافرانکا بن کر نہایت خوش اسلوبی سے پوری کی۔ اس عہد میں کسی بھی دوسری زبان کی نسبت عربی میں علمی و ادبی کتابیں نہایت زیادہ تعداد میں  شائع ہوتی تھیں۔۷۵؎ گویا عربی عالمی زبان کی حیثیت سے دنیا پرچھائی رہی۔ اگرچہ آج مختلف اللسانی ملکوں اور خطوں کے مابین مشترکہ زبان کو لینگوافرانکاکہتے ہیں مگر ابتداً فرانسیسی، یونانی، عربی اور ہسپانوی یعنی اسپینی زبانوں کے مجموعے کو لینگوافرانکا کہا جاتا تھا جو دراصل ان خطوں کے مابین رابطے کی بڑی زبان تھی۔ اِن میں اب صرف عربی اپنے اثر ورسوخ میں دوسری زبانوں سے کہیں زیادہ ہے۔۷۶؎

آج اکیسویں صدی عیسوی میں پندرہ صدیاں قبل جزیرہ نمائے عرب میں قومی زبان کے طور پر رائج ہونے والی قرآنی عربی کا فروغ دنیا بھر میں عام ہے۔ اس وقت دنیا کے ۲۵ ممالک کی قومی؛ سرکاری اور مذہبی زبان عربی ہے۔ ان میں ۱۲ ایشیائی ممالک کے علاوہ ۱۲ افریقی ممالک شامل ہیں۔ اگرچہ مجموعی طور پر عربی افریقی ممالک کی مادری زبان نہیں لیکن اسی عربی زبان کے طفیل ہی وہ بھی عرب ممالک کہلاتے ہیں اور آج عربی افریقہ کی سب سے بڑی زبان ہے۔ ان میں سے ہر ملک کے اندر عربی اور دیگر مقامی و علاقائی زبانیں، بولیاں اور لہجے بھی ساتھ ساتھ رائج ہیں مگر یہ زبانیں کبھی قومی زبان کے مقابل نہیں آئیں۔ ان سب میں معیاری عربی قرآنی عربی ہی قرار پاتی ہے اور جو بین الاقوامیت قرآنی عربی کو حاصل ہے، وہ دنیا کی کسی اور ترقی یافتہ ترین زبان کوبھی نصیب نہیں ہے۔ مذکورہ عرب ممالک کے نام درج ذیل ہیں۔ ۷۷؎

ایشیائی ممالک

(۱) سعودی عرب

(۲)بحرین

(۳)اُردن

(۴)کویت

(۵)لبنان

(۶)اومان

(۷)قطر

(۸)شام

(۹)متحدہ عرب امارات

(۱۰)یمن

(۱۱)عراق

(۱۲)فلسطین

افریقی ممالک

(۱۳) مصر

(۱۴)الجزائر

(۱۵)لیبیا

(۱۶)چاڈ

(۱۷)نمراکش

(۱۸)سوڈان

(۱۹)تیونس

(۲۰)موریطانیہ

(۲۱)کومورو

(۲۲) جبوتی

(۲۳)صومالیہ

(۲۴)اریٹیریا

(۲۵)مغربی صحارا

  ان ممالک میں اسرائیل کی سرکاری زبان کو مشترکہ طور پر عربی اور عبرانی ہونے کے باوجود شامل نہیں کیا گیا، حالانکہ اسرائیل نے عربی کے ساتھ عبرانی کو حیات نو دے کر رائج کیا ہے۔ دنیا میں زبان شماری کے مختلف پیمانے اور طریقے رائج ہیں اور اپنے مقصد کے قریب طریقے کو ہی استعمال کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ عربی اقوام متحدہ کی چھ سرکاری زبانوں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ افریقی اتحاد تنظیم؛ اسلامی اُمہ کانفرنس؛ عرب لیگ ؛ موتمر عالم اسلامی جیسی متعدد عالمی اور بین الاقوامی تنظیموں کی سرکاری زبانوں میں عربی کو اہم مقام حاصل ہے۔ ۷۸؎دنیا بھر کے چھوٹے بڑے ممالک کے الیکٹرانک ذرائع ابلاغ عربی پروگراموں کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتے۔ اخبارات کی صورت حال بھی یہی ہے۔ عربی کو کمپیوٹر انٹرنیٹ پر اسی طرح فروغ حاصل ہوا ہے جس قدر کسی بھی دوسری ترقی یافتہ ترین زبان کو ہے۔ دنیا بھر کی جامعات میں عربی تعلیم و تدریس از بس ضروری ہوتی ہے۔ ان سب میں اصل معیار قرآنی عربی کو ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں ہر کوئی کسی نہ کسی حد تک عربی سے واقف ہے اور دن کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا کہ جب عربی کا استعمال نہ کیا جاتا ہو۔ غیرمسلم اس کے علاوہ ہیں۔

ان تمام تفاصیل کا مقصد یہ ہے کہ جزیرہ نمائے عرب کی قرار پانے والی قومی زبان یعنی قرآنی عربی میں اس قدر لسانی صلاحیت شروع سے ہی موجود تھی کہ وہ دنیا بھر کی زبانوں کے مقابلے میں کسی طور پیچھے نہ رہے بلکہ ام السنہ ہونے کے ناتے ان کی رہبری کرے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عربی کا دنیا کی عظیم ترین زبانوں میں شمار ہوتاہے ۔

یہاں تک ہم نے ذکر کیا کہ قرآنی عربی میں قومی سے بین الاقوامی زبان بننے کی پوری صلاحیت روزاول سے ہی موجود رہی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں اس میں قرآن ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے۔ قرآن کی آیات کا مطالعہ کیا جائے تو ہم بآسانی اس میں عالمی زبان بننے کی علامات بھی دیکھ سکتے ہیں۔ سورۃ الحج کی آیت ۷۰ میں ہے : ''بے شک یہ سب ایک کتاب میں ہے۔۔۔'' ؛ سورۃ فاطر کی آیت ۱۱ میں ''۔۔۔ یہ سب ایک کتاب میں ہے''؛ سورۃ القمر کی آیت ۵۲ اور ۵۳ میں''اور انھوں نے جو کچھ کیا سب کتابوں میں ہے۔اور ہر چھوٹی بڑی چیز لکھی ہوئی ہے'' ؛سورۃ الحدید کی آیت ۲۲ میں: ''نہیں پہنچتی کوئی مصیبت زمین میں اور نہ تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں ہے'' اور سورۃ الرعد کی آیت ۳۹ میں ''اﷲ جو چاہے مٹاتا اور ثابت کرتا ہے اور اصل لکھا ہوا اسی کے پاس ہے'' جیسے منتخب ترین الفاظ میں قرآنی عربی باالفاظ دیگر مذکورہ قومی زبان کی وسعت کا اندازہ بتایا جارہا ہے جو دنیا کی کسی اور زبان کو حاصل نہیں۔ گویا اس کے موضوعات، ذخیرۂ الفاظ ، اصطلاحات، محاورات و روزمرہ لامحدود تعداد و مقدار میں قرار پاتا ہے جس کی صلاحیت دنیا کی کسی دوسری زبان کے پاس نہیں۔ اگر ایسا ہے تو عالمی زبان بننے کی سب سے زیادہ حق دار تو یہی قومی زبان یعنی قرآنی عربی ہے۔ اس کے باوجود دوسرے خطوں کی اپنی قومی زبانیں ہیں اور انھیں اس کا حق بھی قرآن نے دے دیا کہ رنگتوں اور زبانوں کے اختلاف میں نشانیاں ہیں۔ گویا ان کا حق برقرار رکھا گیا۔

اردو، ایک غیرعربی قومی زبان بطور مثال

اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں اس وقت کم وبیش سات ہزار زبانیں پائی جاتی ہیں۔ اِن میں سے سینکڑوں زبانیں کسی نہ کسی ملک میں قومی زبان کے طور پر آئینی فرائض بجالارہی ہیں۔ ہم نے اس مقالے میں عربی اور وہ بھی 'قرآنی عربی' کے جزیرۂ نمائے عرب میں مقامی عربی لہجوں کی موجودگی میں بطور عربوں کی قومی زبان کردار ادا کرنے کا جائزہ لیا ہے۔ یہی عربی بعدازاں اپنے فطری اوصاف کی بنیاد پر بہت جلد بین الاقوامی زبان بھی بن گئی ۔عربی آج پندرہ صدیاں بعد دنیا کی کسی بھی بڑی سے بڑی زبان سے بڑھ کر دنیا کے پچیس ممالک کی آئینی قومی زبان ہے۔ اس کے باوجود جو شرف و قبولیت قرآنی عربی کو حاصل ہے، وہ کسی اور عربی کو بھی نہیں۔ اس کے لسانی اثرات دنیا کے ہر اس ملک میں موجود ہیں جہاں ایک بھی مسلمان موجود ہے۔

قرآنی اصولوں کی روشنی میں قومی زبان کے لسانی تجزئیے کے لیے ہمیں ضرورت ہے کہ دنیا کی کسی ایک زبان کا مطالعہ بطور قومی زبان کیا جائے۔ اس کے لیے دنیا کی ایک اور بڑی زبان 'اردو' کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اس کی جملہ وجوہ میں پہلی اور سب سے بڑی یہ ہے کہ عرب غیرعربوں کو عجمی کہتے ہیں۔اردو کا خمیر عربی سے اٹھا ہے۔ اردو کی تخلیق و تشکیل میں عربی کا بلاواسطہ اور بالواسطہ، ہر دو طرح، حصہ رہا ہے۔ بلاواسطہ کیچ مکران اور دیبل کے راستے عربوں کی ہندوستان سے تجارت اور پھر محمدبن قاسم کے حملے کے بعد آمد اسلام جبکہ وسطی ایشیا اور ایران کے راستے فارسی کے اثرات سے اردو کا بالواسطہ متاثر ہونا۔اردو من حیث التخلیق اسلامی زبان ہے کیوں کہ عربی اور فارسی تو اسلام سے پہلے بھی موجود تھیں مگر اردو نے برصغیر پاک و ہند میں اسلام کے طفیل عربی سے جنم لیا اور فارسی کی گود میں پرورش پائی ہے۔ اس لحاظ سے اردو دنیا کی واحد غیرعرب زبان ہے جو اگر عربی نہیں تو عجمی بھی نہیںہے۔ گویا اہل اردو عربوں کے دعوٰی کے مطابق عجمی یعنی گونگے نہیں ہیں۔ اردو ہمارا رابطہ براہ راست اسلام یعنی قرآنی عربی سے جوڑ دیتی ہے۔

دوسرے، یہ کہ اردو دنیا بھر کے واحد ملک پاکستان، کی فطری اور آئینی قومی زبان ہے جو پاکستان کے قیام سے قبل ہی برصغیر پاک و ہند کی زبان عامہ یعنی لینگوافرانکا کے مقام پر فائز ہوچکی تھی۔ یہ بعدازاں تحریک پاکستان میں اپنے عربی فارسی رسم الخط کی وجہ سے 'دوقومی نظریہ' کی اہم بنیاد بنی اور برصغیرکے مسلمانوں کی لسانی شناخت ثابت ہوئی۔

تیسرے ،اردو پاکستانی قوم کی بلاشرکت غیرے قومی زبان کے درجے پر فائزہے جو ملک کے طول و عرض میں رابطے کا بڑا ذریعہ ہے۔ پاکستان کی تمام علاقائی زبانیں اور بولیاں اردو کی حلیف اور معاون زبانیں ہیں اور یہ اُن کی حلیف اور معاون زبان ہے۔ اِن کے مابین محبت و مؤدت کا فطری رشتہ پایا جاتا ہے۔خوش قسمتی سے تمام پاکستانی زبانوں کا رسم الخط بھی عربی فارسی ہے جو انھیں یک جان دو قالب بناتا ہے۔

کسی غیرعربی زبان کے مطالعے کے لیے اردو کا انتخاب درج بالا وجود کی بنا پر کیا گیا ہے۔ ہم اس میں دیکھیں گے کہ اردو نے قومی زبان بننے کے لیے قرآن میں دیے گئے تصور قومی زبان کی روشنی میں نکس قدر ارتقائی سفر طے کیا ہے اور وہ کن خطوط پر آگے بڑھی ہے۔

جیساکہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔ اردو کو اپنی تشکیل سے ہی یہ سہولت حاصل رہی ہے کہ اس کی بنیاد عربی اور فارسی بنی۔ اردو کے اندر قرآنی عربی کے الفاظ کو ہی فوقیت حاصل ہے۔ اردو کے ذخیرۂ الفاظ میں وافر حصہ عربی الفاظ کا ہی ہے۔ قرآن کا مطالعہ کرنے والا ہر باشعور شخص تلاوت یاقرأت قرآن کے دوران ذرا سی توجہ سے ہی عربی سے اردو میں آمدہ اور مشتق الفاظ کو بآسانی تلاش کرسکتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اردو کا کوئی جملہ بھی عربی کے ذخیرۂ الفاظ کے بغیرنامکمل ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ فارسی بھی اردو کی بڑی بنیادوں میںسے ہے۔ اس کے باوجود فارسی کابظاہر نظر آنے والا کوئی جُملہ خود بھی کسی نہ کسی طور پر عربی ذخیرۂ الفاظ سے لازماً مملو ہوگا۔

اردو برصغیر پاک و ہند میں پیدا ہوئی اور انیسویں صدی عیسوی تک یہاں کی زبان عامہ یعنی لینگوافرانکا بن چکی تھی۔ اسی لیے ۱۸۳۲ء میں انگریزوں نے اسے فارسی کی جگہ سرکاری زبان قرار دیا۔اس کے فروغ اور روزمرہ زندگی میں تیز رفتار نفوذ سے اردو مخالف طبقات جہاں حیران رہ گئے، وہاں پریشان بھی ہوئے۔ اس کے باوجود اردو اپنے لیے راستہ بناتی چلی گئی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ برصغیر کی اس لسانی صورت حال میںدوسری تمام زبانوں میں سے اردو اپنی کن خصوصیات کی بنیاد پر یہاں کی زبان عامہ بننے میں کامیاب ہوئی۔ اگر جائزہ لیا جائے تو درج ذیل اُمور کا کردار نمایاں نظرآتا ہے۔

۱۔ اردو کی بنیادوں میں قرآنی عربی کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ ذخیرہ ٔ الفاظ سے لے کر روزمرہ، محاورہ، قواعد یعنی گرامر کے معتد بہ اصول و ضوابط تک عربی الاصل ہیں۔ اگر قرآن نے عربی کو حسین الفاظ ، خوبیٔ تراکیب؛ نزاکت اسلوب، قوت گویائی؛ زور بیان؛ کثرت مضامین و مطالب جیسی خوبیاں ودیعت فرمائی ہیں تو اردو نے بھی انہی اوصاف سے بکثرت حصہ پایا ہے۔ اردو اصطلاحات کا دامن بھی عربی الاصل الفاظ سے ماخوذ و مشتق ہے۔ماہرین لسانیات نے ''قرآن اور اردو'' کے زیرعنوان باقاعدہ مفصل مضامین اور مقالات لکھے ہیں۔۷۹؎

۲۔ اردو اس خطے کے طول و عرض میں دو صدیاں قبل سے ہی عام بول چال کی زبان کا درجہ پاچکی ہے اور کسی ایک مخصوص طبقۂ فکر یا علاقے کی مادری زبان نہیں بلکہ عربی کی طرح اپنے زیراثر تمام علاقوں کی اپنی اپنی مادری زبانوں کے ساتھ ساتھ ہر شعبۂ زندگی کے لوگوں کی زبان عامہ یعنی لینگوافرانکا کا درجہ رکھتی ہے۔ اب تو نہ صرف پورے برصغیر بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں بھی اردو کے مختلف لہجے وجود میں آچکے ہیں۔

۳۔ برصغیر پاک و ہند میں آل انڈیا ہندومہاسبھا کے صدر مسٹر ساور کرجیسے ہندو رہنما کے ''آج ہندوستان کو وحدانی اور یک رنگ قوم نہیں سمجھا جاسکتا بلکہ اس کے برخلاف اس میں دو بڑی بڑی قومیں ہندو اور مسلمان ہیں۔''۸۰؎ جیسے الفاظ اور قائداعظم محمد علی جناح کے استدلال کی روشنی میں ۱۹۴۷ء میں برصغیر تقسیم ہوا اور پاکستان کی قومی و سرکاری زبان اردو قرار پائی۔ البتہ بھارت کے نام سے معرض وجود میں آنے والے ملک میں اردو اب بھی بکثرت بولی جانے والی بڑی زبان ہے۔ گویا اردو کو قوم کی جدید ترین تعریفات کی روشنی میں اپنا مقام ملا اور وہی رائج ہے۔اردو گزشتہ نصف صدی میں ہر موڑ پر اپنے فروغ اور ترقی کا ثبوت پیش کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ کمپیوٹر کے موجودہ دور میں بھی یہ کامران ہے۔

۴۔ عربی زبان کے مثل اردو نے اپنے ماحول میں اسی برصغیر میں جنم لیا اور یہاں کی زبان عامہ بنی۔ اردو کی خوش قسمتی کہ اس کے مؤلد کے کئی ایک نظریات ماہرین لسانیات نے پیش کیے اور برصغیر کے کئی علاقے اور خطے اس حق کے دعوٰی دار ہیں۔ اردو کو کسی بھی ایک مخصوص علاقے کی زبان حتمی طور پر نہیں کہا جاتا مگر ہر علاقہ اپنی الگ مادری زبان رکھنے کے باوجود اسے اپنے ہاں پیدا ہونے والی قرار دیتا ہے اور اس سے دل و جان سے محبت کرتا ہے۔ اردو کے ہر علاقے کے اپنے اپنے لہجوں کے درست ہونے کا دعوٰی دراصل اردو سے محبت کا ہی دعوٰی ہے۔ پاکستان کے اندر ہر صوبے اور ہر صوبے کے ہر علاقے کی اردو کا لہجہ اور لفظوں کا استعمال اپنا اپنا ہوتا ہے۔ اسی طرح برصغیر کے ہر خطے کی اردو کے الگ مزاج کی تصدیق ہر کوئی بآسانی کرسکتا ہے۔ اب تو بیرون ملک غیر ملکی اپنے اپنے لہجے میں اردو بولتے ہیں۔ اس کے باوجود سب کی اردو کو اردو ہی کہا جاتا ہے۔ عربی کی طرح جیسے بعض افریقی ممالک عربی زبان اپنا کر عرب ملکوں میں اب شامل ہوچکے ہیں۔ گویا عربی کی طرح اردو نے بھی ہمیشہ ہر علاقائی زبان سے محبت کا رویہ اپنایا ہے۔اس کے بالعکس علاقائی زبانوں کا بھی یہی حسن سلوک اردو سے روا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ برصغیر کی زبانوں کا بالعموم اور پاکستانی زبانوں کا بالخصوص رسم الخط اور ذخیرۂ الفاظ عربی الاصل ہونا ہے۔ اس میں فارسی کا اضافہ مستزادہے۔ مزید زبانوں کے ذخیرۂ الفاظ کی اردو میں شمولیت اسے ایک بین الاقوامی زبان کی راہ پر گامزن تسلیم کرتی ہے۔ اردو میں بھی انجذاب کا بھرپور عمل عربی کے نقش قدم پر ہی ہے۔

۵۔ عربی زبان کے لسانی اوصاف کی طرح ہی اردو زبان بھی اپنے منفرد لسانی اوصاف رکھتی ہے۔ دونوں میں اسلام کاخمیر رچا بسا ہے اور دونوں کے بولنے والوں کی ایمانیات ، اخلاقی اور معاشرتی زندگی پر قرآنی عربی کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔ اگرچہ قرآنی عربی کی حفاظت کا ذمہ ذات باری تعالیٰ نے خود لیاہے مگر اردو میں بھی انہی الفاظ کا بکثرت استعمال اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے والوں کے دل میں اسی لسانی تحفظ کا ایک اطمینان ضرور دلادیتا ہے۔ اردو بولنے والوں کو اپنی اس بالواسطہ نسبت پر ناز ہے۔ اس بالواسطہ نسبت سے ہی اردو عالم اسلام کے مختلف ممالک کے مابین روابط ، نرم گوشہ اور تعلقات قائم رکھنے میں زیادہ سہولت فراہم کرسکتی ہے۔

۶۔ عربی کے حروف تہجی ۲۸ ہیں۔ اردو نے اِن اٹھائیس حروف کو من و عن اپناکر تین حرف خالص ہندی، ایک خالص فارسی اور تین حرف ہندی فارسی ۸۱؎ سے لے کر بہت سی مقامی آوازوں کو پورا کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی۔ اردو نے بعض عربی حروف تہجی کو اپنے منفرد اسلوب میں استعمال کرکے اپنی بے مثال شناخت قائم کی۔ مثال کے طور پر اردو نے ہمزہ 'ئ' کو اپناکر اسے بطور حرف استعمال کیا۔ اسی طرح عربی اور فارسی کی 'ھ' اور 'ے' کے استعمال میں بھی اپنی الگ راہ نکالی۔ اردو نے 'ھ' کو استعمال کرکے محض 'ہ' کی آواز لینے کے بجائے پندرہ مرکب حروف تہجی بنالیے۔۸۲؎ اردو عربی کے 'آ' کو بھی بھرپور انداز سے کام لانے میں کامیاب رہی۔ یہ صرف اور صرف عربی کا ہی فیضان ہے۔ ایسی ہی کچھ صورت اردو میں تنوین کی ہے۔ عربی کی تینوں میں سے صرف ایک تنوین (زبروالی) اردو نے اختیار کی ہے۔ البتہ الف بالا، الف زیریں، ساکن واؤ پر ہمزہ اور تائے مدورہ جیسی علامات کو جوں کا توں اختیار کرلیا کیوں کہ ان کے بغیر عربی الاصل الفاظ کی صورت مسخ ہونے کا اندیشہ تھا جو ہرگز قبول نہ ہوتا۔ عربی ادب سے اردو ادب کی تقلید اور پھر اصنافِ ادب کے تجربات و تتبع کی مثالیں ہر دو کی تاریخ کا روشن باب ہیں۔

ایک ماہر لسانیات کی حیثیت سے آپ سوچ سکتے ہیں کہ دائیں طرف سے لکھے جانے والے عربی حروف سے وجود پانے والی کسی اور زبان کا رسم الخط منطقی طور پر کیا ہونا چاہیے؟ سیدھا سا جواب ہے کہ اسے دائیں طرف سے ہی لکھا جانا چاہیے۔ سو اردو نے فطرت کے مطابق وہی کیا کیوں کہ بقول محمد حسن عسکری ''اسلام نے قطبی تعین اختیار کیا، دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر فوقیت دی۔ طواف کعبہ میں حرکت کی سمت دائیں سے بائیں کو مقرر کی اور رسم الخط بھی وہ لیا جو دائیں سے بائیں کو چلتا ہے کیوں کہ یہ سب چیزیں اصل الاصول سے قربت پر دلالت کرتی ہیں''۸۳؎ غرض رسم الخط اصل الاصول، مخلوقات اور انسان کے باہمی رشتے کا پورا نقشہ آنکھوںکے سامنے لے آتا ہے۔

۷۔ اردو کی عربی سے قرابت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اردو نے الفاظ کے تلفظ کے اشتباہ کی صورت میں ہمیشہ عربی املاء کو فوقیت دی ہے۔ اس سے اردو میں بھی قرآنی املاء کے خداوندی حکم کی زیادہ سے زیادہ تعمیل ممکن ہوسکی ہے۔ سہل اردو کے مؤید ہمارے دوست نما دور کی کوڑی لاتے ہوئے 'ہم صوتی' حروف کو کم کرکے ایک کردینے کی لازمی سفارش اردو کے لیے کرتے ہیں۔ اس تجویز کے پس پردہ دراصل اردو کے ت اور ط ؛ ث ، س اور ص؛ ذ، ز؛ ض اور ظ جیسے چار گروہوںکے نو 'ہم صوت' حروف ہجامیں سے ایک ایک کو اختیار کرکے اردو کو آسان بنانے اور تحریک اصلاح زبان کے بہانے اردو کی خوب صورت اور مضبوط ترین لسانی عمارت کو منہدم کرنے کا منصوبہ کارفرما ہے۔ان کی اس جدوجہدکے باوجود اردو نے اپنے ان تمام عربی الاصل حروف تہجی کو ہمیشہ برقرار رکھا۔ اس سے جہاں بالواسطہ اردو میں بھی قرآنی عربی کے تحفظ خداوندی کا احساس اجاگر اور برقرار رہا، وہاں عربی الاصل الفاظ کے معانی کا اردو میں بھی استحکام رہا۔قرآنی عربی کے اتباع میں ایسا نہ کیا جاتا تو اب تک ہمارے ہاں عربی رہتی نہ اردو۔ چنانچہ قرآن کی تفہیم تو درکنار قرأت بھی ممکن نہ رہتی۔ یوں اردو کے قرآنی حروف تہجی میں لکھنے پر بضد برصغیر کے مسلمانوں کو اس کے تحفظ کی ذمہ داری سونپنے اور اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دینے والوں کو یقینا اپنے خوابوں کی تعبیر مل جاتی۔

۸۔ برصغیر پاک و ہند کی لسانی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ اردو زبان و ادب میں آج تک وہی ادیب اور شاعر قومی و بین الاقوامی شہرت پاسکا ہے جس نے اپنے اسلوب میں عربی اور فارسی کو آمیز کرکے لکھا۔ اقبال اور غالب اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ اِن کے بعد کے نامورین پر بھی یہی اصول کارفرما نظر آتا ہے۔ ادبی پہلو کے علاوہ اردو زبان و اصطلاحات میں عربی الفاظ کے استعمال کے متعلق سابق صدر، آل انڈیا کانگریس مولانا ابوالکلام آزاد ۵۔ اکتوبر ۱۹۱۳ء کے اپنے اخبار 'الہلال' میں یوں رقم طراز ہیں: ''لوگ معترض ہیں کہ مصطلحات اردو کے لیے عربی کی مراعات استحقاق پر میں کیوں زور دے رہاہوں۔ یہ کیوں ضروری قرار دیا جاتا ہے کہ حتٰی الامکان عربی کے ہی الفاظ اردو کی ادبیات علمیہ میں استعمال کیے جائیں لیکن شاید یہ نکتہ ان کی نگاہوں سے مخفی ہے کہ صرف عربی ہی نہیں بلکہ ہر علمی زبان اپنی ماتحت زبانوں کے لیے ایسے ہی حقوق کامطالبہ رکھتی ہے۔ اصطلاحات حدیثہ جانے دیجیے، مسلمان آج تمام اطراف عالم میں پھیلے ہیں، ان کی زبان ہر جگہ ایک نہیں ہے لیکن مصطلحاتِ دینیہ اور علمیہ اب تک ایک ہیں اور ایسا ہی ہونا بھی چاہیے۔ پھر کوئی سبب نہیں کہ تیرہ سو برس کا استحقاق آئندہ کے لیے اس سے سلب کرلیا جائے۔ عربی اُم لغت اِسلامیہ ہے، زندہ ہے اور اپنے بچوں کی پرورش کے لیے کافی اسباب و سامان اپنے پاس رکھتی ہے۔ ''۸۴؎ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآنی عربی اردو میں تازہ خون کی طرح رواں دواں ہے۔

۹۔ قرآن حکیم نے عربی زبان میں حریت فکر، وسعت نظر، پاکیزگیٔ خیال اور معنوی گہرائی کے اوصاف پیدا کیے۔ اردو کی بنیاد تو عربی اور عربی سے متاثر فارسی' ہر دو' پر استوار ہوئی، جو دراصل قرآنی عربی ہی تھی۔ چنانچہ یہ کیسے ممکن تھا کہ یہ اوصاف اردو حاصل نہ کرپاتی۔ یہ اوصاف اردو نثر اور نظم دونوں میں بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اردو بھی قرآنی عربی کی پیروی میں جامع الکلام ہونے کے وصف سے مالامال ہے۔

۱۰۔ قرآن فصاحت و بلاغت اور دقت معانی کے باوجود اپنے آسان ہونے کا دعوٰی کرتا ہے۔ گویا قرآن کی عربی سلیس، سادہ اور دلنشین اسلوب لیے ہوئے ہے،جسے حفظ کرلینا تک نہایت آسان ہے۔ اس کے نقش قدم پر اردو میں بھی خدادادسلاست اور روانی پائی جاتی ہے۔ اس کا اعتراف غیرملکی اردو سیکھنے والے طالب علموں نے اکثروبیشتر کیاہے کہ اردو کا سیکھنا دنیا کی دوسری بڑی بڑی زبانوں کی نسبت نہایت آسان ہے۔

۱۱۔ عربی کے اثرات صرف اردو تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ بالواسطہ اور بلاواسطہ اس خطے میں موجود ہماری علاقائی زبانوں پر بھی گہرے نظر آتے ہیں۔ اس پر اردو سمیت یہاں کی تمام زبانیں فخر کرتی ہیں کہ ان کا تعلق محمدﷺ عربی کی پیاری زبان سے ہے۔ اس طرح اردو اور دیگر تمام پاکستانی زبانیں فطری طور پرباہم حلیف زبانیں ہیں۔ مثال کے طور پر بلوچی کے بارے میںپروفیسر طاہرمحمدخان اپنے مقالے ''اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں کا ربط '' میں یوں رقم طراز ہیں: ''بلوچی کو خط نستعلیق میں لکھا جاتا ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ قرآن، عربی اور اسلام ہے''۸۵؎ پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر سندھی کے بارے میںلکھتے ہیں:'' مسلمانوں نے سندھ فتح کیا تو سندھ کی اس وقت کی زبان کو سندھی اپ بھرنش یا قدیم سندھی بولی کہہ سکتے ہیں۔ یہ آریائی بولی تھی۔ مسلمانوں کی زبان عربی تھی۔ مقامی باشندے اسلام بھی قبول کررہے تھے، عربی الفاظ سندھی بولی میں شامل کرنا شروع کیے۔ عربی اسماء کابڑا ذخیرۂ الفاظ سندھی میں منتقل ہوگیا۔ رفتہ رفتہ عربی بولنے والے مسلمانوں نے بھی یہی زبان اختیار کرلی۔ انھوں نے اسے عربی رسم الخط عطا کیا۔'' ۸۶؎ پشتو کے حوالے سے پروفیسر حنیف خلیل، امتیازعلی عرشی کا یہ اقتباس دیتے ہیں: ''اردو زبان کی پیدائش کا سب سے بڑا سبب ہندوستان میں افغانیوں کی آمد تھی اور اس نئی زبان میں عام طور پر بولے جانے والے عربی، فارسی، ترکی اور مغلی الفاظ کا بڑا حصہ بھی افغانیوں ہی کی زبان کی وساطت سے داخل ہوا۔''۸۷؎ پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر کا پنجابی کے حوالے سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو: ''فتح سندھ کے ۰ــ۳۰ سال بعد مسلمانوں نے پنجاب کو غزنی سلطنت میں شامل کیا۔ اس مرتبہ وہ فارسی، ترکی اور پشتو بولتے ہوئے پنجاب میں آئے۔ تینوں زبانوں میں عربی سرمایۂ الفاظ آچکا تھا۔ چنانچہ اِن زبانوں کی معرفت عربی کے الفاظ پنجاب میں شامل ہوئے۔ اسے بھی سندھی کی طرح عربی رسم الخط میں لکھا جانے لگا۔ ۸۸؎ یہی کیفیت پاکستان کی دیگر زبانوں کی ہے۔ ڈاکٹر میمن عبدالمجید سندھی نے اپنی تصنیف ''لسانیات پاکستان'' میں سینکڑوں ایسے عربی الفاظ کی ایک طویل فہرست شامل کی ہے جو اردو، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، براہوئی اور پنجابی میں بیک وقت مستعمل ہیں۔

ہرچند کہ دیگر پاکستانی زبانیں بھی اپنے ہاں وسیع علمی ذخائر کی حامل ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کی جغرافیائی محدودیت ان کی راہ میں حائل ہے مگر وہ آج بھی اردو کے ساتھ مل کر پہلے سے کہیں زیادہ بڑی ایک لسانی قوت ضرور بنالیتی ہیں۔ یوں اِن سب زبانوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ لارڈمیکالے نے تو ۱۸۳۵ء میں اپنی رپورٹ میںقرار دیا تھا کہ برصغیر پاک و ہند میں ایسا انگریزی نظام تعلیم رائج کیا جائے جس کی پروردہ نسل رنگ میں تو ہندوستانی ہو مگر سوچ میں وہ انگریز ہو۔ لارڈ میکالے کو کیا معلوم تھا کہ منشائے ربانی کے تحت اسلام کے آفاقی پیغام کے لیے بر صغیر پاک و ہند میں یہ کام قرآنی عربی بالخصوص اردو کے ذریعے کئی صدیاں قبل ہی انجام دے چکی ہے۔

۱۲۔ قرآن حکیم اپنے روشن عربی میں ہونے کے باوجود مجموعی طور پر اپنے اندر ۲۷۵ غیرعربی الفاظ کو نگینوں کی طرح سموئے ہوئے ہے۔ اِن میں عبرانی، سندھی، فارسی، ایتھوپیائی، بربر، رومی، قبطی، یونانی اور شامی وغیرہ زبانوں کے الفاظ شامل ہیں۔ گویا زبان میں اخذوماخوذ کا اصول عین فطرت ہے۔ قرآن مجید کے اتباع میں ہی دیکھا جائے تو اردو میں بھی دیگر زبانوں کے الفاظ وقت کے ساتھ شامل ہوئے اورتیزی سے ہورہے ہیں۔ بلاشبہ زندہ زبانوں کا یہ ایک بڑا وصف ہوتا ہے۔ اردو کی بنیادوں میں عربی اور فارسی موجود ہے۔ وقت کے ساتھ اردو میں ترکی، برطانوی انگریزی، امریکی انگریزی، سنسکرت، پرتگالی وغیرہ تک کی کئی زبانوں کے الفاظ شامل ہوتے چلے گئے جبکہ مقامی زبانوں کے الفاظ اس کے علاوہ ہیں جو اس کا عظیم سرمایہ ہیں۔ ان میں لب و لہجہ' ذخیرۂ الفاظ،تذکیروتانیث اور قواعد کی رنگارنگی کے باوجود ان سب پر اردو زبان ہی کا اطلاق ہوتا ہے جو سب کی سمجھ میں آجاتی ہے۔ لسان مبین کی طرح یہ ہماری مشترکہ اردو ہے اور ملک کے طول و عرض میں سکہ رائج اللسان ہے۔جدید ذرائع ابلاغ و مواصلات کے ذریعے دنیا کی بہت سی زبانوں کے الفاظ بھی سننے کو مل رہے ہیں اور اکادکا الفاظ ان کے بھی شامل ہونا شروع ہوگئے ہیں، جیسے جاپانی زبان کے سونامی، اکی بانا؛ فیوجی، بونسائی، یاماہا، سوزوکی وغیرہ۔ اس لسانی تعاون پر خطے کی زبانوں کے مابین ایک تفاخر اور مؤدت موجود ہے۔مستزاد یہ کہ قرآن میں جن غیرعربی زبانوں کے الفاظ موجود ہیں، وہ اردو میں بھی ازخود شامل سمجھے جانے چاہئیں۔

۱۳۔ قرآنی عربی کے طفیل عربی آج بین الاقوامی زبان بن چکی ہے تو انہی اوصاف کے باعث اردو میں بھی دنیا کی بڑی زبانوں میں شامل ہونے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔ آج اردو کے بولنے اور سمجھنے والے دنیا کے مختلف براعظموں میں کسی نہ کسی صورت اور تعداد میں موجود ہیں۔ آج کی گلوبل ولیج دنیا میں اس عمل میں یک گونہ تیزی آچکی ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس کے بین الاقوامی فروغ کی ذمہ داری کس طرح اور کس حد تک پوری کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ فرض ہمیں ایسے دور میں ادا کرنا ہے، جب اقوام عالم اپنی اپنی قومی زبانوں کے فروغ میں ایک دوسری سے بڑھ کردامے، درمے، قدمے اور سخنے گامزن ہیں۔

نتائج

۱۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل کو ہر ایک کی قوم کی ہی زبان میں بھیج کر ہمیشہ کے لیے طے کر دیا کہ بنی آدم کے لیے علم و معلومات کی تقسیم و ترسیل کے ذریعے ہدایت صرف قوم کی ہی زبان میں دینا عین فطرت ہے اور اس میں کوئی کجی نہیں۔

۲۔ قرآن نے کسی ملک و قوم کے باشندوں کے مابین نسلی فرق کے باعث مختلف رنگتوں اور دور و نزدیک کے جغرافیائی اختلاف سے ان کی الگ الگ زبانوں کو اﷲ تعالیٰ کی نشانیاں قرار دے کر ہر قسم کے لسانی تعصبات کا خاتمہ کرکے ان کے لسانی اتحاد اور قومی استحکام کو ہمیشہ کے لیے یقینی بنادیا ہے۔

۳۔ قرآن میں اﷲ تعالیٰ نے چالیس عرب قبائل کی مقامی زبانوں کے الفاظ کو شرف انتخاب بخشتے ہوئے طے کردیا کہ قوم کی زبان خطے کی نمائندہ علاقائی زبانوں کا حسین لسانی امتراج لیے دراصل ایک مرکب زبان ہوتی ہے جو رفتہ رفتہ قومی زبان کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔ قرآن میں قرآنی عربی کو ''روشن عربی'' یعنی فصیح عربی کی اصطلاح کے ذریعے کسی بھی علاقائی عربی یعنی ''عامی عربی'' سے ممتاز کردیا گیا ۔ اس فصیح عربی کو قرآن نے ''عربی مبین'' کے نام سے پکاراہے۔

۴۔ اﷲ تعالیٰ نے عربی کے ہم مزاج دوسری اقوام کے متعدد و غیرعربی الفاظ کو قرآن میں بیان کرکے بین الاقوامی زبانوں کے مابین اخذ و استفادہ اور انھیں ہم مزاج بناکر اپنی قومی زبان کا حصہ بنالینے کا دائمی اصول بتادیا جو دراصل ہر زمانے کے لیے علم کی تخلیق و تقسیم اور زبانوں کے وسیع تر فروغ اور ترقی کا باعث ہے۔ زمانے میں یہی زبانوں کے ارتقاء کا بہترین اصول قرار پایا ہے۔

۵۔ رسول ا ﷲکی تصدیق کے بعد قرآن کی وحی کے الفاظ کا طے شدہ رسم الخط میں لکھا جانا کسی بھی دوسری قومی زبان کے لیے اس کے اپنے رسم الخط کے تحفظ کا واضح اصول طے کرتا ہے جو کہ فی الحقیقت دنیا میں کسی بھی قوم کی بنیادی اقدار اور لسانی شناخت کا ضامن ہوتا ہے۔

۶۔ قرآن نے عربی زبان میں مثبت سوچ، ارفع خیالات، حریت فکر، وسعت نظر اور معنوی گہرائی جیسی صفات پیدا کرکے دراصل دنیا کی کسی بھی قومی زبان کے لیے اعلیٰ معیار اور اقدار طے کردیں۔

۷۔ قرآن مجید کی زبان کا سلیس، عام فہم، سہل اور رواں ہونے کے ساتھ فصاحت و بلاغت اور جامع الکلام میں بے مثل ہونا، کسی بھی قومی زبان کے لسانی معیارات کے لیے لاثانی مثال ہے۔

حوالہ جات

۱؎ قومی انگریزی اردو لغت؛ مدیر: ڈاکٹر جمیل جالبی؛ اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان ؛ ۱۹۹۲ئ؛ ص: ۱۲۹۶۔

2. Article "The Language Fossils Burried in Every cell of our Body"; by: Carl Zimmer;

Monthly 'Scientific American' Oct. 2011.

۳؎ پمفلٹ ''پاکستان میں عربی زبان کی اہمیت''؛ از: عابدبن بشیر؛ کراچی، جمعیۃ نشراللغۃ العربیۃ؛ ۲۰۰۴ئ؛ ص:۲

۴؎ قومیت کی تشکیل اور اردو زبان؛ از: جیلانی کامران؛ اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان؛ ۱۹۹۲ئ؛ ص:۱۵

5. The American Heritage Dictionary; Houghton Mifflin Company; 4th. ed; 2000

6. en. wikipedia. org

۷؎ تاریخ عربی ادب؛ از : ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی؛ لاہور، پرنٹ لائن پبلشرز؛ ۱۹۹۹ئ؛ ص : ۴۶

۸؎ تاریخ عربی ادب ؛ از : ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی؛ لاہور، پرنٹ لائن پبلشرز؛ ۱۹۹۹ئ؛ ص : ۵۴

۹؎ تاریخ عربی ادب ؛ از : ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی؛ لاہور، پرنٹ لائن پبلشرز؛ ۱۹۹۹ئ؛ ص : ۴۸،۴۹

۱۰؎ تاریخ عربی ادب ؛ از : ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی؛ لاہور، پرنٹ لائن پبلشرز؛ ۱۹۹۹ئ؛ ص : ۵۸

۱۱؎ تاریخ عربی ادب؛ از ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی: لاہور، پرنٹ لائن پبلشرز؛ ۱۹۹۹؛ ص : ۶۴

۱۲؎ تاریخ عربی ادب؛ از ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی: لاہور، پرنٹ لائن پبلشرز؛ ۱۹۹۹؛ ص : ۶۵

۱۳؎ تاریخ عربی ادب؛ از ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی: لاہور، پرنٹ لائن پبلشرز؛ ۱۹۹۹؛ ص : ۶۴

۱۴؎ تاریخ عربی ادب؛ از ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی: لاہور، پرنٹ لائن پبلشرز؛ ۱۹۹۹؛ ص : ۶۴

۱۵؎ سرورکونین کی فصاحت؛ از: حضرت شمس بریلوی؛ کراچی، مدینہ پبلشنگ کمپنی؛ ۱۹۸۸ء ؛ ص:۷۴تا۸۶

۱۶؎ ''قرآن'' مشمولہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ ؛ از : محمداسحاق بھٹی [و ادارہ] ؛ جلد: ۱۶/۱؛ لاہور، دانشگاہ پنجاب؛ ۱۹۷۸ئ؛ص:۳۳۲

۱۷؎ تاریخ عربی ادب؛ از : ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی؛ لاہور، پرنٹ لائن پبلشرز؛ ۱۹۹۹ئ؛ ص: ۶۷

۱۸؎ تاریخ ارض القرآن کامل؛ از: مولانا سیدسلیمان ندوی؛ کراچی، دارالاشاعت؛ ۱۹۷۵ئ؛ ص: ۳۵۸

۱۹؎ تاریخ عربی ادب؛ از : ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی؛ لاہور، پرنٹ لائن پبلشرز؛ ۱۹۹۹ئ؛ ص: ۷۱

۲۰؎ تفسیرابن کثیر اردو؛ از: علامہ ابن کثیر؛ مترجم : ندارد؛ جلد : ۵(سورۃ الشور ٰی)؛ کراچی، نورمحمد کارخانہ تجارت کتب ؛سن : ندارد؛ ص: ۶

۲۱؎ تفسیرابن کثیر اردو؛ از: علامہ ابن کثیر؛ مترجم : ندارد؛ جلد : ۴ (سورۃ فصلت)؛ کراچی، نورمحمد کارخانہ تجارت کتب ؛سن : ندارد؛ ص: ۷۶

۲۲؎ تفسیرابن کثیر اردو؛ از: علامہ ابن کثیر؛مترجم : ندارد؛ جلد : ۵(سورۃالزخرف)؛ کراچی، نورمحمد کارخانہ تجارت کتب ؛سن : ندارد؛ ص: ۲۶

۲۳؎ مضمو ن'' انسانی دماغ اور اجنبی زبان'' ؛ماہنامہ اخباراردو،اسلام آباد؛ از : محمد اسلام نشتر؛ دسمبر ۱۹۹۶؛ ص : ۱

۲۴؎ مضمون ''مادری زبان اور دماغ'' ''یونیسکو پیامی'' ؛ از: ہوورڈبریبائن؛ کراچی، ہمدرد فاؤنڈیشن؛ مئی ۱۹۸۲ئ؛ ص:۱۰

۲۵؎ مضمو ن'' انسانی دماغ اور اجنبی زبان'' ؛ماہنامہ اخباراردو، اسلام آباد؛ از : محمد اسلام نشتر؛ دسمبر ۱۹۹۶؛ ص : ۱

۲۶؎ مضمون ''انسانی دماغ اور اجنبی زبان'' ماہنامہ اخبار اردو اسلام آباد؛ از: محمداسلام نشتر؛ دسمبر ۱۹۹۶ئ؛ ص: ۲

۲۷؎ سیرت نبویؐ پر ایک محققانہ نظر (دستورحیات)؛ جلداول ؛ از : خلیفہ محمدسعید؛ آلومہارشریف (سیالکوٹ)، دارالتصنیف و النشرجامع

صدیقیہ ؛ س : ندارد؛ ص:۱۵۱

۲۸؎ تفسیر ابن کثیر؛ از : علامہ ابن کثیر ؛ مترجم : ندارد؛جلد : ۴ (سورۃ فصلت)؛ کراچی ، نورمحمد کارخانہ تجارت کتب ؛ سن : ندارد؛ ص : ۵۸

۲۹؎ عربی ادب کی تاریخ ؛ از : محمد کاظم ؛ لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز؛ ۲۰۰۴ئ؛ ص : ۱۵

۳۰؎ عربی ادب کی تاریخ ؛ از : محمد کاظم ؛ لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز؛ ۲۰۰۴ئ؛ ص : ۱۶

۳۱؎ عربی ادب کی تاریخ ؛ از : محمد کاظم ؛ لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز؛ ۲۰۰۴ئ؛ ص : ۸۹

۳۲؎ عربی ادب کی تاریخ؛ از: محمدکاظم؛ لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز؛ ۲۰۰۴ئ؛ ص: ۸۹

۳۳؎ تاریخ عربی ادب؛ از: ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی؛ لاہور، پرنٹ لائن پبلشرز؛ ۱۹۹۹ئ؛ ص: ۷۴

۳۴؎ تاریخ عربی ادب؛ از: ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی؛ لاہور، پرنٹ لائن پبلشرز؛ ۱۹۹۹ئ؛ ص: ۷۵

۳۵؎ تفسیر ابن کثیر اردو ؛ از : علامہ ابن کثیر؛ مترجم: ندارد؛ جلد ۳ (سورۃ رعد) ؛ کراچی ، نورمحمد کارخانہ تجارت کتب ؛ سن ندارد؛ ص : ۵۰

۳۶؎ ضیاء القرآن ؛ از: پیرمحمدکرم شاہ؛ جلد: ۲ (سورۃ ابراہیم)؛ لاہور، ضیاء القرآن پبلی کیشنز؛ ۱۹۹۵ء ص: ۵۰۴

۳۷؎ تفسیر ابن کثیر اردو ؛ از : علامہ ابن کثیر؛ مترجم: ندارد؛ جلد ۳ (سورۃ رعد) ؛ کراچی ، نورمحمد کارخانہ تجارت کتب ؛ سن ندارد؛ ص : ۵۵

۳۸؎ تاریخ ارض القرآن کامل؛ از: مولانا سیدسلیمان ندوی؛ کراچی، دارالاشاعت؛ ۱۹۷۵؛ ص: ۳۵۶

۳۹؎ قرآن مجید مشمولہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ؛ جلد : ۱۶/۱ ؛از: محمداسحاق بھٹی [و ادارہ] ؛ لاہور ، دانشگاہ پنجاب ، ۱۹۷۸ء ؛ ص: ۳۱۹

۴۰؎ ''قرآن'' مشمولہ اردو دائرۂ معارف اسلامیہ ؛ جلد ۱۶/۱؛ از محمداسحاق بھٹی: [ و ادارہ] ؛ لاہور، دانشگاہ پنجاب؛ ۱۹۷۸ئ؛ ص : ۳۳۴

۴۱؎ 'قرآن'' مشمولہ اردو دائرۂ معارف اسلامیہ ؛ جلد ۱۶/۱؛ از : غلام احمد حریری [و ادارہ ]؛ لاہور، دانشگاہ پنجاب؛ : ۱۹۷۸ئ؛ ص:۴۷۵

۴۲؎ ''قرآن'' مشمولہ اردودائرۂ معارف اسلامیہ؛ جلد : ۱۶/۱، ؛ از غلام احمد حریری [و ادارہ ] ؛ لاہور، دانشگاہ پنجاب؛ ۱۹۷۸؛ ص: ۵۳۸

۴۳؎ 'قرآن'' مشمولہ اردو دائرۂ معارف اسلامیہ ؛ جلد ۱۶/۱؛ از : محمد اسحاق بھٹی[ و ادارہ] ؛ لاہور، دانشگاہ پنجاب؛ ۱۹۷۸ئ؛ ص:۳۴۷۔۳۴۸

۴۴؎ قومی زبان : عالمی جائزہ مشمولہ قومی زندگی میں قومی زبان کا مقام'' (حدیث دیگراں)؛ از: محمداسلام نشتر؛اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان؛۲۰۰۵ئ؛ ص:۲۰۵

۴۵؎ ''قرآن ''مشمولہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ؛ جلد۱۶/؛ از: محمداسحاق بھٹی [و ادارہ]؛ لاہور، دانشگاہ پنجاب؛ ۱۹۷۸ئ؛ ص : ۳۴۹

۴۶؎ پمفلٹ ''محمدمصطفیٰ کا ابدی معجزہ'' ؛ از :رشیدخلیفہ؛ مترجم: شاہ محی الحق فاروقی؛ کراچی، ریڈرزکلب؛ ۱۹۷۹ئ؛ ص: ۱۹

۴۷؎ ''قرآن'' مشمولہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ؛ جلد: ۱۶/۱؛ از : محمداسحاق بھٹی[و ادارہ]؛لاہور، دانشگاہ پنجاب؛ ۱۹۷۸ئ؛ ص: ۵۵۸

۴۸؎ ''قرآن'' مشمولہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ؛ جلد: ۱۶/۱؛ از : غلام احمد حریری؛[و ادارہ]؛؛ لاہور، دانشگاہ پنجاب؛ ۱۹۷۸ئ؛ ص: ۵۵۹

۴۹؎ ''قرآن'' مشمولہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ؛ طبع اول؛ از : غلام احمد حریری؛[و ادارہ]؛؛ لاہور، دانشگاہ پنجاب؛ ۱۹۷۸ئ؛ ص: ۵۵۸

۵۰؎ تفسیر ابن کثیر اردو ؛ از: علامہ ابن کثیر؛ مترجم : ندارد؛ جلد:۳ (سورہ مریم)؛ کراچی، نورمحمدکارخانہ تجارت کتب؛ سن : ندارد؛ ص : ۵۴

۵۱؎ تفسیر ابن کثیر اردو ؛از: علامہ ابن کثیر؛ مترجم : ندارد؛جلد: ۵(سورۃ الدخان) ؛ کراچی، نورمحمدکارخانہ تجارت کتب؛ سن : ندارد؛ ص : ۵۹

۵۲؎ ''قرآن'' مشمولہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ؛ جلد: ۱۶/۱؛ از : غلام احمد حریری؛ لاہور، دانشگاہ پنجاب؛ ۱۹۷۸ئ؛ ص: ۵۴۰

۵۳؎ ''قرآن'' مشمولہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ؛ جلد: ۱۶/۱؛ از : غلام احمد حریری؛ لاہور، دانشگاہ پنجاب؛ ۱۹۷۸ئ؛ ص : ۴۷۵

۵۴؎ ایضاً ؛ ''قرآن'' مشمولہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ؛ جلد: ۱۶/۱؛ از : غلام احمد حریری؛ لاہور، دانشگاہ پنجاب؛ ۱۹۷۸ئ؛ ص : ۴۷۶

۵۵؎ ''قرآن'' مشمولہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ؛ جلد؛ ۱۶/۱؛ از : محمداسحاق بھٹی[و ادارہ]؛لاہور، دانشگاہ پنجاب؛ ۱۹۷۸ئ؛ ص: ۴۴۸

۵۶؎ ''قرآن'' مشمولہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ؛ جلد: ۱۶/۱؛ از : غلام احمد حریری[و ادارہ]؛ لاہور، دانشگاہ پنجاب؛ ۱۹۷۸ئ؛ ص: ۴۷۲

۵۷؎ ''قرآن'' مشمولہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ؛ جلد: ۱۶/۱؛ از : غلام احمد حریری[و ادارہ]؛ لاہور، دانشگاہ پنجاب؛ ۱۹۷۸ئ؛ ص: ۴۷۵

۵۸؎ تفسیر ابن کثیر اردو ؛ از : علامہ ابن کثیر؛ مترجم : ندارد؛ جلد: ۵(سورۃ طہٰ ٰ)؛ کراچی، نورمحمدکارخانہ تجارت کتب؛ سن : ندارد؛ ص : ۶۲

۵۹؎ تفسیر ابن کثیر اردو ؛ از : علامہ ابن کثیر؛ مترجم :ندارد؛جلد:۴(سورۃ الزمر)؛کراچی، نورمحمدکارخانہ تجارت کتب؛ سن : ندارد؛ ص : ۸۶

۶۰؎ ''قرآن'' مشمولہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ؛ جلد: ۱۶/۱؛ از : غلام احمد حریری[و ادارہ]؛ لاہور، دانشگاہ پنجاب؛ ۱۹۷۸ئ؛ ص: ۴۷۱

۶۱؎ تفسیر ابن کثیر اردو ؛ از : علامہ ابن کثیر؛مترجم ندارد؛ جلد: ۴(سورۃ الشعرائ)؛ کراچی، نورمحمدکارخانہ تجارت کتب؛ سن : ندارد؛ ص : ۴۹

۶۲؎ سرورکونین ﷺکی فصاحت؛ از: حضرت شمس بریلوی؛ کراچی، مدینہ پبلشنگ کمپنی، ۱۹۸۸ئ؛ ص: ۲۷۷

۶۳؎ ''قرآن'' مشمولہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ؛ جلد ۱۶/۱؛ از : محمداسحاق بھٹی[و ادارہ]؛ لاہور، دانشگاہ پنجاب؛ ۱۹۷۸ئ؛ ص: ۳۲۰۔۳۲۱

۶۴؎ تفسیر ابن کثیر اردو ؛ از : علامہ ابن کثیر؛ مترجم ندارد؛جلد: ۲(سورۃ یوسف)؛کراچی، نورمحمدکارخانہ تجارت کتب؛ سن : ندارد؛ ص : ۴۱

۶۵؎ تفسیر ابن کثیر اردو ؛ از : علامہ ابن کثیر؛ مترجم : ندارد؛جلد: اول (سورۃآل عمران)؛کراچی، نورمحمدکارخانہ تجارت کتب؛ سن : ندارد؛ ص : ۲۵۔۲۶

۶۶؎ ضیاء القرآن؛ از: پیرمحمدکرم شاہ؛ جلد سوم (سورۃ الروم)؛ لاہور، ضیاء القرآن پبلی کیشنز؛ ۱۹۸۰ئ؛ ص : ۵۶۹

67. The Islamic Encyclopedia;Kate, Gudrum,Danis Martringe; John Nawas and Everett Rowson; Vol: 26;Ed: 3rd; Leiden, E.J.Brill; 2007;pages: 8222, 8223

68. www.islamicboard.com/quran/19063-non-arabic-words-qur.html.

69. www.fatherzakaria.net/books/qaf/pdf/46-episode/pdf

70 www.islamicboard.com/quran/19063-non-arabic-words-qur.html.

۷۱؎ تاریخ عربی ادب؛ از : ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی؛ لاہور، پرنٹ لائن پبلشرز؛ ۱۹۹۹ئ؛ ص: ۳۸۳

۷۲ ؎ الاتقان فی علوم القرآن، (جلددوم)؛ از: جلال الدین سیوطی؛ القاہرۃ ، الہیۃ المصریۃ العامۃالکتاب؛ ۱۹۷۴ئ؛ ص: ۱۲۵ مابعد

۷۳؎ ''قرآن'' مشمولہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ؛ جلد ۱۶/۱؛ از : عبدالقیوم؛ لاہور، دانشگاہ پنجاب؛ ۱۹۷۸ئ؛ ص: ۶۱۲

۷۴؎ ''قرآن'' مشمولہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ؛ جلد ۱۶/۱؛ از : غلام احمدحریری[و ادارہ]؛ لاہور، دانشگاہ پنجاب؛ ۱۹۷۸ئ؛ ص:۵۴۳

75. www.en-wikipedia.org.

76. www.the free dictionary.com.

۷۷؎ ''قومی زندگی میں قومی زبان کا مقام( حدیث دیگراں)''؛ از محمداسلام نشتر؛ اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان؛۲۰۰۵ء ؛ ص ۱۹۴۔۱۹۵؛اور

پمفلٹ '' پاکستان میں عربی زبان کی اہمیت'' از: عابدبن بشیر؛ کراچی، جمعیۃ اللغۃ العربیہ؛ ۲۰۰۴ئ؛ ص:۵ :

۷۸؎ پمفلٹ ''پاکستان میں عربی زبان کی اہمیت''؛ از : عابد بن بشیر؛ کراچی، جمعیۃ نشراللغۃ العربیۃ ؛ ۲۰۰۴ء ؛ ص: ۶

۷۹؎ مضمون ''قرآن اور اردو''؛ ماہنامہ اخبار اردو، اسلام آباد؛ از: اظہرحسن صدیقی؛ مارچ ۲۰۰۲ئ؛ ص: ۳

۸۰؎ ہندوستان میں نیشنلزم کی کشمکش؛ از: ایم آرٹی (خواجہ محمد شریف طوسی)؛ مترجم : خواجہ غلام کبریا، راجہ ف۔ م۔ماجد؛ لاہور، فیروزسنز؛ ۱۹۹۳؛ ص:۵۹

۸۱؎ ''اردو ہندی رسم الخط'' از: محمدالیاس برنی، مشمولہ ''اردو زبان اوراردو رسم الخط''؛ مرتبہ: پروفیسر فتح محمد ملک؛ اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان، ۲۰۰۸ئ:ص: ۲۶۰

۸۲؎ معیاری اردو قاعدہ؛ از: ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹرنجیبہ عارف اور محمد اسلام نشتر؛ اسلام آباد؛ مقتدرہ قومی زبان؛۲۰۱۰ئ؛ ص:۲۹

۸۳؎ ''بارے آموں کا کچھ بیاں ہوجائے''؛از: محمدحسن عسکری؛ مشمولہ اردو زبان اور اردو رسم الخط؛ مرتب: پروفیسر فتح محمد ملک؛ اسلام آباد، مقتدرہ قومی

زبان؛ ۲۰۰۸ئ؛ ص: ۲۴۸

۸۴؎ اردو زبان اور رسم الخط کا مسئلہ؛ از: غلام احمدپرویز؛ مشمولہ کتاب ''اردو زبان اور اردو رسم الخط''؛ مرتبہ :پروفیسر فتح محمد ملک؛ اسلام آباد، مقتدرہ قومی

زبان؛ ۲۰۰۸ئ؛ ص: ۱۷۴۔۱۷۵

۸۵؎ مقالہ ''اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں کا ربط''از: ڈاکٹر طاہر محمد خان؛ مشمولہ ''پاکستانی زبانوں کا ربط باہم'' ؛ مرتبہ : پروفیسرفتح محمد ملک: اسلام آباد، مقتدرہ

قومی زبان؛ ۲۰۱۰ئ؛ ص: ۵۹

۸۶؎ مقالہ ''اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں کا ربط باہم:از: ڈاکٹر ایوب صابر؛ مشمولہ ''پاکستانی زبانوں کا ربط باہم'' ؛ مرتبہ : پروفیسرفتح محمد ملک؛اسلام آباد،

مقتدرہ قومی زبان؛ ۲۰۱۰ئ؛ ص: ۵۰۔۵۱

۸۷؎ مقالہ ''اردو اور پشتو کا ربط باہم: از : حنیف خلیل؛مشمولہ ''پاکستانی زبانوں کا ربط باہم'' ؛ مرتبہ: پروفیسرفتح محمد ملک؛ اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان؛

۲۰۱۰ئ؛ ص: ۹۲

۸۸؎ مقالہ ''اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں کا ربط باہم؛از: ڈاکٹر طاہرمحمدخان؛ مشمولہ ''پاکستانی زبانوں کا ربط باہم'' ؛ مرتبہ : پروفیسرفتح محمد ملک؛ اسلام آباد،

مقتدرہ قومی زبان؛ ۲۰۱۰ئ؛ ص: ۵۹

۸۹؎ لسانیات پاکستان؛ از: ڈاکٹر میمن عبدالمجید سندھی؛ اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان؛ ۱۹۹۲ئ؛ ص: ۸۱تا۸۴