گیلرمو ڈی اولمو
بی بی سی ورلڈ نیوز
یہ 1944 کے موسم گرما کی بات ہے جب نصف دہائی سے جاری دوسری عالمی جنگ کے شعلے کچھ بجھتے دکھائی دے رہے تھے اور ایڈولف ہٹلر اور اُن کے اتحادیوں کی شکست واضح ہونا شروع ہو گئی تھی۔
بریٹن ووڈس کانفرنس میں شامل مندوبین |
ایسے میں امریکہ کی ریاست نیو ہیمپشائر کے علاقے بریٹن ووڈس میں 44 ممالک کے مندوبین نے ایک ایسے اجلاس میں شرکت کی جو 22 روز تک جاری رہا۔ اُن کا مقصد: پانچ سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے خاتمے کے بعد نئی عالمی معیشت کی بنیاد طے کرنا تھا۔
یہ کانفرنس تاریخ میں ’بریٹن ووڈس کانفرنس‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
جہاں اس کانفرنس کے دوران بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یا آئی ایم ایف) کی تشکیل اور ورلڈ بینک کے خدوخال پر اتفاق ہوا، وہیں اِن ملاقاتوں میں پیش کیے گئے سب سے انقلابی خیالات میں سے ایک کو مسترد کر دیا گیا: یعنی بینکور۔
بینکور کا تصور دنیا کے تمام ممالک کے لیے ایک مشترکہ کرنسی کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
تاہم بینکور کے وجود میں آنے سے قبل ہی اس کی موت نے دنیا میں امریکی ڈالر کی بالادستی کو یقینی بنا دیا۔
اور یہ کہانی بینکور کی ہے، اُس عالمی کرنسی کی جو کبھی وجود میں نہیں آ سکی۔
بینکور کے خالق جان مینارڈ کینز کون تھے؟
معروف برطانوی ماہر اقتصادیات جان مینارڈ کینز ’بریٹن ووڈس کانفرنس‘ میں اپنے ملک کے مذاکراتی وفد کی قیادت کر رہے تھے۔ ’دی بینکور‘ نامی عالمی کرنسی کا آئیڈیا اُن ہی کا تھا۔
جان مینارڈ کینز عالمی معیشت کے ماہر مانے جاتے تھے۔ معاشی عدم توازن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سنہ 1929 کی کساد بازاری اور دو عالمی جنگوں پر ان کی تحقیق کو عالمی پذیرائی حاصل ہوئی تھی اور دنیا بھر میں انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
جیمز بوٹن سینٹر برائے انوویشن ان انٹرنیشنل گورننس (سی آئی جی آئی) کینیڈا نامی ادارے سے منسلک ہیں۔ ان کے مطابق ’جان مینارڈ کینز اُن عوامل کا خاتمہ چاہتے تھے جو ان کی رائے میں دو عالمی جنگوں اور 20 ویں صدی کے پہلے نصف کے زبردست معاشی مسائل بشمول ملکوں کے درمیان تجارتی عدم توازن، تجارتی اور کرنسی کی جنگوں کا باعث بنے تھے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کانفرنس میں شرکت کرنے والے تمام افراد کا تعلق ایک ایسی نسل سے تھا جو ہمیشہ جنگ یا ڈپریشن میں رہتی آئی تھی، اس لیے ان کا مقصد ان برائیوں کا خاتمہ تھا جنھوں نے گذشتہ چالیس سالوں میں دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔‘
کینز یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ ہٹلر اور نازیوں کے برسر اقتدار آنے کے پیچھے اصل وجہ پہلی عالمی عظیم کے بعد جرمنی پر عائد کی جانے والی پابندیوں اور اس کے نتیجے میں جرمن عوام کو پیش آنے والی مشکلات تھیں۔
ہٹلر اور نازی پارٹی نے اس بے چینی کا بھرپور فائدہ اٹھایا تھا۔ اس کے بعد ہٹلر نے اپنے اتحادی اور اٹلی کے فاشسٹ رہنما بینیٹو مسولینی کے ساتھ مل کر یورپ میں جارحانہ فوجی توسیع پسندی پر مبنی کارروائیوں کا آغاز کیا۔
وہ یہ بھی جانتے تھے کہ عالمی تجارت میں عدم توازن، تجارتی جنگوں، محصولات اور کرنسیوں کی مسابقتی قدر میں کمی نے عالمی معیشت اور حکومتوں اور لوگوں کے درمیان اعتماد کو نقصان پہنچایا ہے۔
بوٹن کہتے ہیں کہ ’اُن [کینز] کا پختہ یقین تھا کہ دنیا میں امن کو برقرار رکھنے کا بہترین طریقہ مضبوط معیشتوں کا قیام ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرتی ہوں۔‘
لیکن اُن کی اس خواہش کا مقابلہ جنگ کے شعلوں میں گِھری ایک ایسی دنیا سے تھا جس میں اعتماد کا فقدان تھا۔
آج کی دنیا کے برعکس اُس زمانے میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے تسلیم شدہ عالمی تنظیموں کی غیر موجودگی اور جنگ کے نتیجے میں مختلف بلاکس میں بٹی ہوئی دنیا میں کرنسیوں کا تبادلہ تقریباً ناممکن تھا۔
سنہ 2024 میں تو پاکستانی روپے کو یورو، پاؤنڈ سٹرلنگ یا کسی اور قابل اعتماد کرنسی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، لیکن 1944 میں ایسا ممکن نہیں تھا۔
کینز ایک ایسی دنیا دیکھنا چاہتے تھے جہاں تمام قومیں ترقی اور تجارت کر سکیں۔ اور اس کے لیے سب سے ضروری چیز تھی تمام ملکوں کے لیے قابل قبول اور با آسانی ایکسینج ہونے والی کرنسی۔
اس کے لیے انھوں نے بینکور کا تصور پیش کیا، ایک ایسی کرنسی جو تمام ممالک کے لیے مشترک ہو اور جسے ہر کوئی استعمال کر سکتا ہو۔
بینکور کام کیسے کرتا؟
کسی بھی دوسری کرنسی کی طرح، بینکور کو چلانے اور ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک تنظیم کی ضرورت ہوتی اور اس کے لیے کینز نے انٹرنیشنل کلیئرنگ یونین (یو آئی سی) کے قیام کی تجویز دی۔ ان کے پیش کردہ خیال کے مطابق، یو آئی سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں تمام ممالک کے نمائندے شامل ہوتے اور اس کو ایک عالمی بینک کی مدد حاصل ہوتی۔
بینکور کو اس عالمی نظام میں شامل ممالک کے درمیان تبادلے کے لیے استعمال کیا جاتا اور اس کی قدر کو ان ممالک کے مرکزی بینکوں کے پاس موجود کرنسیوں کے مجموعے سے طے کیا جاتا۔
ہر ملک کو عالمی تجارت میں اس کی شرکت کے تناسب سے بینکور سے سالانہ کوٹہ ملتا اور اگر کسی ملک کی ادائیگیوں میں عدم توازن ہوتا، تو اسے بیلنس کرنے کے لیے بینکور مہیا کیے جاتے اور اگر کسی اور نے سرپلس جمع کیا ہوتا تو ان کے کوٹے سے بینکور کاٹ دیے جاتے۔
کینز کے خیال میں یہ صورتحال ممالک کو اشیا اور خدمات میں اپنی تجارت میں توازن پیدا کرنے کی ترغیب دیتی جس سے تجارتی جنگوں کا خاتمہ ممکن تھا۔ انھیں تجارتی جنگوں نے 1930 کی دہائی میں بین الاقوامی تجارت میں رکاوٹ ڈالی تھی۔
کینز ایسا کر کے بڑے ممالک کو اپنے تجارتی توازن میں ضرورت سے زیادہ سرپلس جمع کرنے سے روکنا چاہتے تھے۔ خسارے اور قرضوں کے جال میں پھنسے ممالک جو معاشی بدحالی کا شکار تھے، ان کی مدد کے لیے کینز نے آئی ایم ایف اور بینکور کا تصور پیش کیا۔
یہ ایک انقلابی تجویز تھی جس کے ذریعے امیر اور غریب ممالک کے درمیان فرق کو کم کرنے اور سب کے لیے خوشحالی کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن اس تجویز کے خالق کو اپنی نئی کرنسی کو درپیش مشکلات کا ادراک تھا۔
کینز کا کہنا تھا کہ ان کی تجویز پیچیدہ ضرور ہے مگر اس کو عملی جامہ پہنانا ناممکن نہیں ہے لیکن اس کے لیے بین الاقوامی تعاون اور اعتماد کی ضرورت ہو گی۔
آئی ایم ایف اور بین الاقوامی بینک برائے تعمیر نو اور ترقی جسے بعد میں ورلڈ بینک میں ضم کر دیا گیا، یہ سب برطانوی ماہر معاشیات کے جانب سے پیش کیے گئے بریٹن ووڈس سسٹم کا حصہ ہیں۔
لیکن کانفرنس میں موجود ایک بہت طاقتور ملک کی مخالفت کے باعث بینکور کبھی حقیقت نہ بن سکا۔ وہ ملک تھا امریکہ۔
امریکہ نے بینکور کی مخالفت کیوں کی؟
دوسری عالمی عظیم کے دوران برطانیہ کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا اور اس کے بعد عالمی تجارت کی قیادت برطانیہ کے ہاتھ سے نکل کر تیزی سے امریکہ کے پاس جا رہی تھی۔
ایسے میں کینز نے اپنی تجاویز کے ذریعے برطانوی مفادات کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔
کتاب ’دی بیٹل آف بریٹن ووڈس‘ کے مصنف بین سٹیل کے خیال میں اگر برطانیہ کے پاس اپنی سابقہ سلطنت سے آزادی حاصل کرنے والے ممالک کو سامان فروخت کرنے کا کوئی اور طریقہ ہوتا تو کینز کبھی بھی بینکور کی تجویز نہ دیتے۔ مگر اس وقت بینکور کی تجویز ناقابلِ عمل تھی کیونکہ تب تک ڈالر بین الاقوامی کرنسی کا حوالہ بن چکا تھا۔
بریٹن ووڈ کانفرنس سے دو سال قبل سے امریکہ اور برطانیہ کے درمیان نئے مجوزہ عالمی معاشی نظام کے لیے بات چیت جاری تھی۔
اس دوران کینز نے امریکی محکمہ خزانہ کے اہلکار ہیری ڈیکسٹر وائٹ سے ملاقات کی تھی۔
صحافی ٹونی باربر کے مطابق کینز اور وائٹ بالکل متضاد شخصیتوں کے مالک تھے۔
ایک طرف کینز تھے جن کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا جنھوں نے کیمبرج سے تعلیم حاصل کی اور انھیں برطانوی ولی عہد کی طرف سے ’بیرن‘ کے لقب سے نوازا گیا تھا۔ دوسری جانب وائٹ تھے جو میساچوسٹس میں لیتھوانیا سے آئے یہودی تارکین وطن کے خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا لوہے کا کاروبار تھا۔ اپنے والدین کی جلد موت کی وجہ سے انھیں خاندانی کاروبار میں حصہ ڈالنے کے لیے کئی بار اپنی یونیورسٹی کی پڑھائی روکنی پڑی تھی۔
وہ لمبے عرصے تک ایک غیر معروف سرکاری ملازم کے طور پر کام کرتے رہے جب تک کہ وہ ٹریژری سیکریٹری ہنری مورگینتھاؤ کے اہم مشیر نہیں بن گئے جنھوں نے انھیں بریٹن ووڈس میں امریکی وفد کی قیادت کے لیے منتخب کیا۔
وائٹ اور کینز کے درمیان کشیدگی سامنے آنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔
ابتدائی ملاقاتوں کے بعد کینز کا وائٹ کے بارے کہنا تھا کہ ’انھیں مہذب طریقے سے بات کرنے کے اصولوں کے بارے میں ذرا بھی اندازہ نہیں ہے‘ اور انھوں نے وائٹ کے پہلے مسودے کو ’ایک پاگل کا کام‘ کہا تھا۔
سٹیل کے مطابق جب بھی وائٹ کو کینز سے ملاقات کرنی پڑتی تو اپنے ساتھیوں کے سامنے ذلیل ہونے کے خوف سے بیمار ہونے کا بہانہ کرتے۔
سٹیل کہتے ہیں کہ تمام تر اختلافات کے باوجود، وہ دونوں ایک دوسرے کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔وائٹ بھی ایک مستحکم اور مشترکہ اقتصادی فریم ورک قائم کر کے بین الاقوامی تجارت اور عالمی ترقی کو فروغ دینا چاہتے تھے۔
ان کی جانب سے بینکور کی مخالفت کی وجہ امریکہ کے حالات اور مفادات تھے جو کہ برطانیہ سے یکسر مختلف تھے۔
بوٹن کہتے ہیں کہ ’برطانیہ ایک زوال پذیر طاقت تھی۔ دو عالمی جنگوں نے اسے برباد کر دیا تھا جبکہ امریکہ کے عروج کا آغاز تھا۔‘
19 ویں اور 20 ویں صدی کے آغاز میں برطانیہ نے اپنی وسیع سلطنت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بنا پر اپنی کرنسی کی بالادستی قائم کی تھی۔ اس زمانے میں بین الاقوامی تبادلے کے لیے سب سے زیادہ پاؤنڈ استعمال ہوتا تھا۔
لیکن یہ ایک ایسی دنیا تھی جہاں کسی بھی کرنسی کی قدر کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ اسے جاری کرنے والا ملک اس کے بدلے سونا دے سکتا ہے کہ نہیں۔
دو عالمی جنگوں اور بدلتے بین الاقوامی حالات کے نتیجے میں برطانیہ کے سونے کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے تھے۔
دوسری جانب امریکہ کے ساتھ اس کے بالکل برعکس ہو رہا تھا۔ سٹیل بتاتے ہیں کہ ’1944 تک امریکہ نے دنیا کا 60 فیصد سونا جمع کر لیا تھا اور ڈالر ہی دنیا بھر میں قابل اعتماد کرنسی تھی، جس کی وجہ سے یہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کرنسی بن گئی تھی۔‘
اگر کینز کی ایک متبادل عالمی کرنسی بنانے کی تجویز مان لی جاتی تو اس سے برطانیہ کو بین الاقوامی مالیاتی نظام کا کم از کم کچھ کنٹرول برقرار رکھنے کا موقع مل جاتا جو بصورت دیگر مکمل طور پر امریکہ کے ہاتھ میں جاتا دکھائی دے رہا تھا۔
کینز کی معاشی مسائل اور قرضوں تلے دبے ممالک کو قرضوں کو کم کرنے میں مدد کرنے کے کی تجویز واشنگٹن ترجیحات میں شامل نہیں تھی کیونکہ اس وقت امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ قرض دینے والا ملک تھا۔
بالآخر برطانیہ نے ہار مان لی کیونکہ جنگ کے بعد اپنی معیشت کی تعمیر نو کے لیے انھیں امداد کی ضرورت تھی جو صرف امریکہ فراہم کر سکتا تھا۔
بریٹن ووڈس میں برطانوی نمائندوں میں سے ایک نے برملا اپنی شکست کا خلاصہ کرتے ہوئے کیا ’ہمیں پیسوں کی ضرورت تھی۔‘
اور یوں بینکور کی تجویز ہمیشہ کے لیے تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہو گئی اور اس کے بعد سے عالمی معیشت پر ڈالر کا راج ہے۔