28 مئ 2024 بی بی سی اردو
’ڈیجیٹل کریٹن فیکٹری‘ فرانسیسی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں تحقیق کے ڈائریکٹر اور فرانسیسی نیورو سائنسدان مائیکل ڈیسمرگٹ کی تازہ ترین کتاب کا عنوان ہے جس میں انھوں نے ٹھوس اعداد و شمار کے ساتھ اس چیز پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح ڈیجیٹل آلات بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی نشوونما کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔
ڈیجیتل جنریشن |
بی بی سی نیوز منڈو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’ہم اپنے بچوں کے ساتھ جو کر رہے ہیں کوئی بھی بہانہ ہمیں اس کا جواز نہیں دیتا، ہم ان کے مستقبل اور نشوونما کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔‘
ثبوت واضح ہیں: کچھ عرصے سے آئی کیو (انٹیلی جنس کوشینٹ) ٹیسٹ اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ نئی نسلیں پچھلی نسلوں کے مقابلے میں کم ذہین ہیں۔
مائیکل ڈیسمرگٹ نے ایک وسیع پیمانے پر کی گئی سائنسی اشاعت کا مجموعہ تیار کیا ہے اور امریکہ میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا جیسے مشہور تحقیقی مراکز میں کام کیا ہے۔
ان کی کتاب فرانس میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گئی ہے۔ ہم آپ کے ساتھ ان کے انٹرویو کے اقتباسات شئیر کر رہے ہیں۔
مائیکل ڈیسمرگٹ نے ٹھوس اعداد و شمار کے ساتھ اس چیز پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح ڈیجیٹل آلات بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی نشوونما کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔
سوال: کیا آج کے نوجوان تاریخ کی پہلی ایسی نسل ہیں جن کا آئی کیو (انٹیلی جنس کوشینٹ) پچھلی نسل کے مقابلے میں کم ہے؟
مائیکل ڈیسمرگٹ جی ہاں۔ آئی کیو کی پیمائش ایک معیاری ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ تاہم یہ ایک ساکن (جو تبدیل نہ ہو سکے) ٹیسٹ نہیں ہے اور اکثر اس کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر میرے والدین نے میرے جیسا ٹیسٹ نہیں دیا لیکن کچھ لوگوں کے ایک گروپ کو ٹیسٹ کے پرانے ورژن سے گزارا جا سکتا ہے۔
اور اس دوران محققین نے دنیا کے بہت سے علاقوں میں مشاہدہ کیا کہ آئی کیو میں نسل در نسل اضافہ ہوا ہے۔ اس رجحان کو بیان کرنے والے امریکی ماہر نفسیات کے نام پر اسے ’فلن ایفیکٹ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن حال ہی میں کئی ممالک میں یہ رجحان بدلنا شروع ہو گیا ہے۔
یہ سچ ہے کہ آئی کیو صحت کی دیکھ بھال کے نظام، سکول کے نظام، غذائیت وغیرہ جیسے عوامل سے شدید متاثر ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم ان ممالک پر غور کریں جہاں سماجی و اقتصادی عوامل دہائیوں سے کافی مستحکم رہے ہیں تو ’فلن اایفیکٹ‘ کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
آئی کیو کم ہونے کا یہ رجحان ہے جن ممالک میں نظر آیا ان میں ناروے ، ڈنمارک ، فن لینڈ ، نیدرلینڈز ، فرانس وغیرہ شامل ہیں۔
سوال: اور آئی کیو میں اس کمی کی وجہ کیا ہے؟
مائیکل ڈیسمرگٹ: بدقسمتی سے تمام وجوہات کا تعین کرنا ابھی ممکن نہیں ہے، مثال کے طور پر آلودگی (خاص طور پر حشرات مارنے والی دواؤں کا اثر) یا سکرینز۔ ہم جو بات یقینی طور پر جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر سکرین ٹائم کے علاوہ دیگر عوامل بھی آئی کیو میں کمی کا سبب بن رہے ہوں، تب بھی ان کے آئی کیو پر سب سے نمایاں اثر سکرین ٹائم کا ہو گا۔
متعدد تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ جب ٹیلی ویژن یا ویڈیو گیم کا استعمال بڑھتا ہے تو آئی کیو اور علمی نشوونما میں کمی واقع ہوتی ہے۔
ہماری ذہانت کی بنیادی متاثر ہوتی ہیں: زبان، توجہ، یادداشت وغیرہ سب متاثر ہوتا ہے اور آخر کار بچوں کی سکولوں کالجوں میں کارکردگی پہلے جیسی نہیں رہتی۔
سوال: اور ڈیجیٹل ڈیوائسز کا استعمال اس کا سبب کیسے بنتا ہے؟
مائیکل ڈیسمرگٹ: وجوہات کی بھی واضح طور پر نشاندہی کی گئی ہے: خاندان کے اندر میل ملاپ اور ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے میں کمی، جو زبان اور جذباتی تربیت کے لیے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ دیگر سرگرمیوں (ہوم ورک، موسیقی، آرٹ، پڑھنے، وغیرہ) کے لیے وقف وقت میں کمی، نیند میں خلل، جس سے توجہ، سیکھنے اور جذبات متاثر ہوتے ہیں۔
دانشورانہ سرگرمیوں کی کم حوصلہ افزائی کرنا جو دماغ کو مکمل پھلنے پھولنے سے روکتی ہے۔ اور ایک حد سے زیادہ بیٹھے رہنے والا طرز زندگی جو جسم کی نشوونما کے علاوہ دماغ کی پختگی کو متاثر کرتا ہے۔
آئی کیو کم ہونے کا یہ رجحان ہے جن ممالک میں نظر آیا ان میں ناروے ، ڈنمارک ، فن لینڈ ، نیدرلینڈز ، فرانس وغیرہ شامل ہیں۔
سوال: سکرینیں اعصابی نظام کو کیا نقصان پہنچاتی ہیں؟
مائیکل ڈیسمرگٹ: دماغ ایک متوازن عضو نہیں ہے۔ اس کی خصوصیات ہمارے تجربات کی بنیاد پر بدلتی رہتی ہیں۔ ہم جس ماحول میں رہتے ہیں، ہمیں جن چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے، یہ سب دماغ کی ساخت اور اس کے کام کرنے کو متاثر کرتے ہیں۔
تفریحی مقاصد کے لیے سکرین کے سامنے گزارے گئے وقت کو دماغ کے زبان اور توجہ سے متعلق حصوں میں تاخیر کی وجہ دیکھا گیا ہے۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ تمام سرگرمیاں دماغ کی موثر طریقے سے نشوونما میں مدد نہیں دیتیں۔
سوال: اس کا کیا مطلب ہے؟
مائیکل ڈیسمرگٹ: سکول، دانشورانہ سرگرمیاں، مطالعہ، موسیقی، آرٹ، کھیلوں سے متعلق سرگرمیاں۔۔۔ سکرین دیکھنے کے مقابلے میں یہ سب دماغ کی ساخت اور نشوونما کے لیے بہت اہم ہیں۔
لیکن دماغ ہمیشہ ایک جیسا کام نہیں کر سکتا، اس کی صلاحتیں وقت کے ساتھ متاثر ہوتی ہیں۔ دماغ کا موازنہ مٹی سے کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے یہ نم اور تراشنے میں آسان ہوتی ہے لیکن وقت کے ساتھ یہ خشک ہوتی جاتی ہے اور اسے کسی چیز میں ڈھالنا یا کوئی شکل دینا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ سکرین کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہمارے بچوں کے دماغ کی نشوونما کو تبدیل کرتے ہیں اور اسے کمزور بناتی ہیں۔
سوال: کیا ہر قسم کی سکرین یکساں طور پر نقصان دہ ہیں؟
مائیکل ڈیسمرگٹ: ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ’ڈیجیٹل انقلاب‘ میں کوئی برائی ہے اور اسے روکنا ضروری ہے۔ میں خود اپنےدن کا زیادہ حصہ ڈیجیٹل ٹولز کے ساتھ گزارتا ہوں۔ اور جب میری بیٹی نے سکول شروع کیا تو میں نے اسے کچھ آفس سافٹ ویئر استعمال کرنے اور انٹرنیٹ پر معلومات تلاش کرنے کا طریقہ سکھانا شروع کیا۔
کیا طالب علموں کو کمپیوٹر کی بنیادی مہارت اور ٹولز سیکھنا چاہییں؟ بالکل سیکھنے چاہییں۔ کیا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اساتذہ کے لیے مددگار ہو سکتی ہے؟ اگر اسے ایک منظم تعلیمی منصوبے کا حصہ بنایا جائے اور اگر کسی خاص سافٹ ویئر کا استعمال مؤثر طریقے سے علم حاصل کرنے کو فروغ دے رہا ہو تو یہ یقیناً مددگار ہو سکتی ہے۔
تاہم ، جب سکرین کسی بچے یا نوعمر کے ہاتھوں میں رکھی جاتی ہے تو سب سے زیادہ پریشان کن تفریحی استعمال تقریباً ہمیشہ غالب رہتا ہے۔ تفریحی حوالوں سے سب سے پہلے ٹیلی ویژن (فلمیں، سیریز، کلپس وغیرہ) آتا ہے، پھر ویڈیو گیمز (زیادہ تر ایکشن اور پرتشدد) اور آخر میں نوجوانوں میں مقبول سوشل میڈیا۔
سوال: بچے اور نوجوان عام طور پر سکرینوں کے سامنے کتنا وقت گزارتے ہیں؟
مائیکل ڈیسمرگٹ: اوسطاً 2 سال کے بچے ایک دن میں تقریبا تین گھنٹے، 8 سال کے بچے تقریباً پانچ گھنٹے اور نوعمر سات گھنٹے سے زیادہ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ 18 سال کی عمر سے پہلے ہی ہمارے بچوں نے سکرینوں کے سامنے سکول کے 30 سال کے برابر وقت گزارا ہوگا یا ایک فل ٹائم کام کرنے والے شخص جتنا 16 سال میں کام کرتا ہے، اتنا وقت گزارا ہو گا۔ یہ پاگل پن اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔
مائیکل ڈیسمرگٹ کہتے ہیں کہ اوسطاً 2 سال کے بچے ایک دن میں تقریبا تین گھنٹے، 8 سال کے بچے تقریباً پانچ گھنٹے اور نوعمر سات گھنٹے سے زیادہ سکرین دیکھتے ہیں
سوال: بچوں کو سکرین کے سامنے کتنا وقت گزارنا چاہیے؟
مائیکل ڈیسمرگٹ: بچوں کو اس بحث میں شامل کرنا اہم ہے۔ انھیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ سکرینیں دماغ کو نقصان پہنچاتی ہیں، نیند کو خراب کرتی ہیں، زبان کی نشوونما میں داخلت کرتی ہیں، تعلیمی کارکردگی کو کمزور کرتی ہیں، توجہ کو متاثر کرتی ہیں اور موٹاپے کا خطرہ بڑھاتی ہیں، وغیرہ۔
کچھ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ بچوں اور نوعمروں کے لیے سکرین کے بارے میں قواعد پر عمل کرنا تب آسان ہوتا ہے جب ان کے ساتھ اس بارے میں کھل کر بات کی جائے۔ وہاں سے، عام خیال آسان ہے: کسی بھی عمر میں کم سے کم سکرین ٹائم بہترین ہے۔
اس عام اصول کے علاوہ بچے کی عمر کے لحاظ سے مخصوص ہدایات فراہم کی جا سکتی ہیں: چھ سال کی عمر سے پہلے مثالی یہ ہے کہ سکرینیں نہ ہوں (جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وقتاً فوقتاً آپ اپنے بچوں کے ساتھ کارٹون نہیں دیکھ سکتے)۔
جتنی جلدی آپ انھیں سکرینوں کے سامنے لاتے ہیں، منفی اثرات اور بعد میں ضرورت سے زیادہ استعمال کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔
چھ سال کی عمر سے اگر سکرین ٹائم کا حساب رکھا جائے اور بچوں کی نیند پر سمجھوتہ نہ کیا جائے اور بچے کو آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹے تک سکرین کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
دیگر متعلقہ قواعد: سکول جانے سے پہلے صبح کوئی سکرین نہیں، رات کو سونے سے پہلے یا جب آپ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو کوئی سکرین نہیں اور سب سے بڑھ کر بیڈروم میں کوئی سکرین نہیں ہونی چاہیے۔
لیکن جب ہم والدین کی حیثیت سے خود ہر وقت سمارٹ فونز یا گیمنگ کنسولز میں جڑے ہوں تو ایسی صورت میں بچوں کو یہ بتانا مشکل ہے کہ سکرین ایک مسئلہ ہے۔
سوال: بہت سے والدین سکرین کے خطرات سے لاعلم کیوں ہیں؟
مائیکل ڈیسمرگٹ: کیونکہ والدین کو دی جانے والی معلومات متعصبانہ ہوتی ہیں۔ مین سٹریم میڈیا بے بنیاد دعوؤں، جھوٹے پروپیگنڈے اور غلط معلومات سے بھرا ہوا ہے۔ میڈیا کے مواد اور سائنسی حقیقت کے درمیان فرق اکثر پریشان کن ہوتا ہے۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ میڈیا بے ایمان ہے: میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ گندم کو بھوسے سے الگ کرنا آسان نہیں ہے، یہاں تک کہ ایماندار اور باشعور صحافیوں کے لیے بھی۔
لیکن یہ حیرت کی بات نہیں ہے. ڈیجیٹل صنعت ہر سال اربوں ڈالر کا منافع پیدا کرتی ہے اور ظاہر ہے بچے اور نوعمر بہت منافع بخش ذرائع ہیں۔ اور اربوں ڈالر مالیت کی کمپنیوں کے لیے چند مطمئن سائنسدانوں کو تشہیری مہمات کے لیے تلاش کرنا آسان ہوتا ہے۔
حال ہی میں ایک ماہر نفسیات (جو ویڈیو گیمز کے ماہر سمجھے جاتے ہیں) نے مختلف ذرائع ابلاغ میں وضاحت کی کہ ان گیمز کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں لہذ انھیں بدنام نہیں کیا جانا چاہیے اور یہ کہ انھیں نہ کھیلنا بچوں کے مستقبل کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سب سے زیادہ پرتشدد گیمز میں تھیراپی ایکشن ہوسکتے ہیں اور کھلاڑیوں کو غصہ ٹھنڈا کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس ’ماہر‘ کا انٹرویو کرنے والے صحافیوں میں سے کسی نے بھی یہ ذکر نہیں کیا کہ وہ ویڈیو گیم ایکسپرٹ اسی انڈسٹری کے لیے کام کرتی ہیں۔ اور یہ میری کتاب میں بیان کردہ بہت سی مثالوں میں سے صرف ایک مثال ہے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے: ماضی میں تمباکو، گلوبل وارمنگ، حشرات کش ادویات، چینی وغیرہ کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے.
لیکن مجھے لگتا ہے کہ امید کی گنجائش موجود ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حقیقت سے انکار کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔
سوال: ایسی تحقیقات موجود ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ویڈیو گیمز بہتر تعلیمی نتائج حاصل کرنے میں مدد کرتی ہیں۔
مائیکل ڈیسمرگٹ: ایمانداری سے کہوں تو یہ مضحکہ خیز ہے۔ یہ خیال پروپیگنڈے کی حقیقی مثال ہے۔ یہ غلط اعداد و شمار کے ساتھ الگ تھلگ تحقیقات پر مبنی ہوتے ہیں جنھیں ثانوی جرائد میں شائع کیا جاتا ہے۔
ایک دلچسپ تجرباتی تحقیق میں سکول میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بچوں کو گیم کنسول دیے گئے تھے۔ چار ماہ کے دوران انھوں نے زیادہ وقت گیمز کھیلنے اور ہوم ورک کرنے میں کم گزارا۔ اس دوران ان کے گریڈ میں تقریباً پانچ فیصد کمی آئی (جو صرف چار مہینوں کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے)۔
ایک اور تحقیق میں بچوں کو الفاظ کی ایک فہرست کو سیکھنا پڑا۔ ایک گھنٹے بعد ان میں سے کچھ کار ریسنگ گیم کھیلنے کے قابل تھے۔ دو گھنٹے بعد وہ سونے چلے گئے۔ اگلی صبح جن بچوں نے گیم نہیں کھیلی تھی انھیں سبق کا تقریباً 80 فیصد حصہ یاد تھا جبکہ باقیوں کو محض 50 فیصد۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ گیمز نیند اور یاداشت میں مداخلت کرتی ہیں۔
سوال: آپ کے خیال میں اس ڈیجیٹل جنریشن کے ارکان بالغ ہونے پر کس طرح ہوں گے؟
مائیکل ڈیسمرگٹ: میں اکثر سنتا ہوں کہ آج کے ڈیجیٹل دور کے انسان مختلف انداز میں سوچتے ہیں۔ خیال یہ ہے کہ اگرچہ ان میں لسانی، توجہ اور علم کی کمی ہے، لیکن وہ ’دیگر چیزوں‘ میں بہت اچھے ہیں۔ دوسری چیزوں سے یہاں کیا مراد ہے، اب یہ ایک مسئلہ ہے۔
متعدد تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ عام خیال کے برعکس یہ نسل کمپیوٹر کے استعمال میں اتنی بھی تیز نہیں ہے۔ یورپی یونین کی ایک رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ بچوں میں ڈیجیٹل صلاحیتوں کی کمی، سکولوں میں تعلیمی ٹیکنالوجی کو اپنانے میں بڑی رکاوٹ ہے۔
دیگر تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ڈیجیٹل جنریشن انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کی وسیع مقدار کو پروسیسنگ اور سمجھنے میں بہت تیز نہیں ہیں۔
تو باقی کیا رہ گیا ہے؟ بس وہ بنیادی ڈیجیٹل ایپس کا استعمال کرنے، آن لائن مصنوعات خریدنے، موسیقی اور فلمیں ڈاؤن لوڈ کرنے میں بہت تیز ہیں۔
میرے لیے یہ بچے ان بچوں سے ملتے جلتے ہیں جن کا ذکر الڈوس ہکسلے نے اپنے مشہور ناول ’بریو نیو ورلڈ‘ میں کیا ہے: احمقانہ تفریح سے پریشان، زبان سے محروم، دنیا پر غور کرنے سے قاصر، لیکن اپنی قسمت سے خوش ہیں۔
سوال: کیا کچھ ممالک سکرین کے استعمال پر قانون سازی شروع کر رہے ہیں؟
مائیکل ڈیسمرگٹ: جی ہاں، خاص طور پر ایشیا میں۔ مثال کے طور پر تائیوان نے سکرین کے حد سے زیادہ استعمال کو بچوں کے ساتھ زیادتی کی ایک شکل قرار دیا ہے اور ایک قانون منظور کیا ہے جس کے تحت 24 ماہ سے کم عمر بچوں کو کسی بھی ڈیجیٹل ایپ دکھانے والے والدین کے لیے بھاری جرمانے عائد کیے گئے ہیں۔
چین میں، حکام نے نابالغوں کے ویڈیو گیمز کے استعمال کو منظم کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں: بچوں اور نوعمروں کو اب رات میں (رات 10 بجے سے صبح 8 بجے کے درمیان) کھیلنے کی اجازت نہیں ہے یا ہفتے کے دوران روزانہ 90 منٹ سے زیادہ (اختتام ہفتہ اور سکول کی تعطیلات پر 180 منٹ) سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے۔
سوال: آپ کے خیال میں بچوں کو سکرین سے محفوظ رکھنے والے قوانین کی موجودگی بہتر ہے؟
مائیکل ڈیسمرگٹ: مجھے پابندیاں پسند نہیں اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی مجھے بتائے کہ میری بیٹی کی پرورش کیسے کی جانی چاہیے۔ تاہم یہ واضح ہو چکا ہے کہ تعلیمی حوالے سے والدین اپنے بچوں کے لیے صرف اسی صورت میں آزادانہ طور پر انتخاب کر سکتے ہیں جب انھیں فراہم کردہ معلومات ایماندار اور تفصیل سے دی جائیں۔
مجھے لگتا ہے کہ سکرین کے استمعال کے اثرات کے متعلق ایک واضح ہدایات والی معلوماتی مہم اچھا آغاز ہو گا۔ چھ سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے کوئی سکرین نہیں اور ایک دن میں 30-60 منٹ سے زیادہ سکرین ٹائم ہیں ہونا چاہیے۔
سوال: اگر یہ ڈیجیٹل انقلاب اسی طرح بغیر قواعد و ضوابط کے جاری رہتا ہے تو ہم کیا توقع کر سکتے ہیں؟
مائیکل ڈیسمرگٹ: سماجی عدم مساوات میں اضافہ اور ’ڈیجیٹل‘ سے محفوظ بچوں اور ہمارے معاشرے کے ترقی پسند بچوں کے درمیان ایک تقسیم، جیسے ہکسلے کی کتاب کے ’الفا‘ تھے، یعنی وہ جو ثقافت اور زبان کے ذریعے دنیا کے بارے میں سوچنے اور غور و فکر کرنے کے تمام ضروری ٹولز پر مہارت پا لیں گے، اور دوسری جانب محدود علمی اور ثقافتی ٹولز سحکھنے والے بچوں کی اکثریت جو دنیا کو سمجھنے اور مہذب شہریوں کے طور پر کام کرنے سے قاصر ہوں۔
الفاز ’حقیقی‘ اساتذہ کے ساتھ مہنگے نجی سکولوں میں جائیں گے۔ گاما محدود انسانی مدد کے ساتھ ورچوئل پبلک سکولوں میں جائیں گے جہاں انھیں (جارج) اورویل کی ’نیو سپیک‘ (1984 میں شائع کردہ) جیسی جعلی زبان سکھائی جائے گی اور وہ درمیانے یا نچلے درجے کے تکنیکی ماہرین جیسی بنیادی مہارتیں سیکھیں گے (معاشی تخمینوں کے مطابق اس قسم کے افراد زیادہ تر نوکریاں کر رہے ہوں گے)۔
یہ ایک اداس دنیا ہو گی جس میں جیسا کہ ماہر سماجیات نیل پوسٹمین نے کہا ہے وہ مرتے دم تک لطف اندوز ہوں گے۔ ایک ایسی دنیا جس میں تفریح تک مسلسل رسائی کے ذریعے، وہ اپنی غلامی سے محبت کرنا سیکھیں گے۔ معذرت میں زیادہ پرامید نہیں ہوں۔
شاید (اور مجھے امید ہے) میں غلط ہوں۔۔۔ لیکن ’ہم اپنے بچوں کے ساتھ جو کر رہے ہیں کوئی بھی بہانہ ہمیں اس کا جواز نہیں دیتا، ہم ان کے مستقبل اور نشوونما کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔‘