کاغذی کرنسی پہلے تو حکومت کے پاس موجود سونے چاندی کی مالیت کے برابر مقدار میں چھاپی جاتی تھی لیکن 1971 میں بریٹن ووڈ معاہدہ ٹوٹنے کے بعد ایسی کوئی روک ٹوک باقی نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرنسی کنٹرول کرنے والے ادارے اور حکومتیں اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کرنسی چھاپنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کرنسی زیادہ چھاپی جائے تو افراط زر کی وجہ سے اس کی قدر لامحالہ کم ہو جاتی ہے ( یعنی اس کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے) اس طرح لوگوں کا اور باقی دنیا کا اعتبار اس کرنسی پر کم ہونے لگتا ہے۔ جو کرنسی چھاپنے والے ادارے یا حکومت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ لوگ اب دوسری کرنسی کی طرف رجوع کرنے لگتے ہیں۔ اس لیے حکومتیں ایک حد سے زیادہ کرنسی نہیں چھاپ پاتیں۔ اس کی مثال سونے کا انڈا دینے والی مرغی کی طرح ہے جسے ذبح نہ کرنا ہی سود مند رہتا ہے۔ لیکن تھوڑی تھوڑی مقدار میں بھی مسلسل کاغذی کرنسی چھپتے رہنے سے اس کرنسی کی قوت خرید کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کے بر عکس دھاتی کرنسی کی قدر وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اپنے رکن ممالک کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی کرنسی کو سونے سے منسلک نہ کریں۔ اگر کوئی کرنسی سونے سے منسلک ہو گی تو آئی-ایم-ایف کے لیے اس کی شرح تبادلہ اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔
افراط زرپچھلی دہائی میں زمبابوے کی حکومت نے اپنی بقا کے لیے بے تحاشہ کاغذی کرنسی چھاپ کر اپنی آمدنی میں اضافہ کیا۔ اس کے نتیجہ میں 2008 میں زمبابوے کے 1200 ارب ڈالر صرف ایک برطانوی پاونڈ کے برابر رہ گئے۔ اس قدر افراط زر کی وجہ سے زمبابوے میں شرح سود %800 تک جا پہنچی تھی۔ کاغذی نوٹوں کی بے تحاشہ چھپائی کے نتیجے میں زمبابوے کی اسٹاک مارکیٹ تیزی سے اوپر جانے لگی۔ آئے دن اسٹاک کی قیمت ڈبل ہو جاتی تھی۔ لیکن فروری 2018 میں وینیزویلا کی کرنسی عوام نے ردّی کی طرح سڑک پر پھینکنا شروع کر دی۔ نومبر 2016ء میں ایک امریکی ڈالر 1500 وینیزویلا کے بولیور کے برابر تھا۔ صرف دیڑھ سال بعد 8 جون 2018ء کو ایک امریکی ڈالر کی قیمت 23 لاکھ بولیور کے برابر پہنچ چکی تھی یعنی ڈالر اس عرصہ میں 1533 گنا مہنگا ہو گیا تھا۔
کاغذی کرنسی کا کمال یہ ہے کہ کسی کو اپنی بڑھتی ہوئی غربت کا احساس نہیں ہوتا۔ اگر کسی مزدور کی تنخواہ پانچ فیصد کم کر دی جائے تو اسے شدید اعتراض ہوتا ہے۔ لیکن جب افراط زر کی وجہ سے اس کی تنخواہ کی قوت خرید دس فیصد کم ہو جاتی ہے تو وہ اتنا اعتراض نہیں کرتا۔ جتنے سالوں میں کسی کی تنخواہ دوگنی ہوتی ہے اتنی ہی مدت میں سونے کی قیمت ( اور مہنگائی ) تین گنی ہو چکی ہوتی ہے۔
پچھلے 255 سالوں میں قیمتیں دوگنی ہونے میں ابتدائی 185 سال لگے حالانکہ اس عرصے میں دنیا کو دو جنگ عظیم بھی جھیلنا پڑیں۔ لیکن بریٹن ووڈز کے معاہدے کے بعد کے 70 سالوں میں قیمتیں 50 گنا بڑھ گئیں۔
1930 تک سونے کی قیمت تقریباً 20 ڈالر فی اونس تھی۔ یہ قیمت پچھلے دیڑھ سو سال سے برقرار تھی۔ اتنے لمبے عرصہ تک قیمت مستقل رہنے کی وجہ یہی تھی کہ ڈالر کاغذی نہیں بلکہ دھاتی تھا۔ برطانیہ میں عام استعمال کی اشیاء کی قیمت ستروھیں صدی سے 1914 تک مستحکم تھی۔ قیمتوں کا بڑھنا کاغذی کرنسی کا لازمی جُز ہے۔ 1717 سے 1945 تک یعنی سوا دو سو سال تک برطانیہ میں سونے کی سرکاری قیمت 4.25 پاونڈ فی اونس تھی۔ بریٹن ووڈ کے معاہدے کے بعد برطانیہ میں سونے کی سرکاری قیمت ختم کر دی گئی۔ 1927 میں ایک برطانوی پونڈ کی قیمت ساڑھے تیرہ ہندوستانی روپے تھی۔ 1925 میں ہندوستان میں سونے کی قیمت لگ بھگ 26 روپیہ فی تولہ تھی۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل یہ 30 روپیہ فی تولہ تھی۔ اس وقت ایک عام فوجی سپاہی کی تنخواہ 60 روپے ہوا کرتی تھی۔ علا الدین خلجی کے دور حکومت (1296–1316 عیسوی) میں ہر چیز کی قیمت پر انتہائی سختی سے کنٹرول رکھا جاتا تھا۔ اس زمانے میں ایک عام فوجی سپاہی کی تنخواہ لگ بھگ 20 تنکا ماہانہ ہوا کرتی تھی جبکہ ایک تنکے میں 10 من چاول بکتا تھا۔ اس وقت کا ایک تنکہ بعد کے شیر شاہ سوری (دورِ حکومت 1540ء سے 1545ء تک) کے ایک روپیہ کے بالکل برابر تھا۔
1871 میں چاول دیڑھ روپے من تھا جو 1893 میں دو روپے من ہو چکا تھا۔ 1947 میں پاکستان میں ایک امریکی ڈالر لگ بھگ تین روپے کا تھا جبکہ سونا 80 روپے تولہ تھا۔ 1965 میں سونے کی قیمت 127 روپیہ فی تولہ تھی۔
مختلف کرنسی کے سالانہ افراط زر
سونا ایک غیر علانیہ بین الا اقوامی زرِ کثیف (ہارڈ کرنسی) ہے۔ اس کی قیمت کے بڑھنے سے کسی ملک کی کاغذی کرنسی میں ہونے والے افراط زر (مہنگائی) کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ جنوری 2021ء تک پچھلے 20 سالوں میں امریکی ڈالر میں سونے کی قیمت میں ہونے والا اضافہ لگ بھگ 6 گنا ہے جبکہ اسی عرصہ میں چاندی کی قیمت میں ہونے والا اضافہ لگ بھگ 4.7 گنا ہے۔
اگر کرنسی دھاتی ہو اور سکّے اپنی مالیت خود رکھتے ہوں تو افراط زر ناممکن ہو جاتا ہے۔ دھاتی کرنسی میں افراط زر صرف اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب اس دھات کی اتنی بڑی کان دریافت ہو جائے کہ دنیا بھر کی ضرورت سے زیادہ ہو کیونکہ دھاتی کرنسی عالمی قبولیت رکھتی ہے۔ اس کے برعکس کاغذی کرنسی چھاپ کے حکومتیں اپنی آمدنی تو بڑھا لیتی ہیں لیکن اپنے عوام کو غریب بنا دیتی ہیں۔ اس طرح وہ اپنے عوام سے خفیہ طور پر انفلیشن ٹیکس وصول کرتی ہیں۔ 1945–46 میں ہنگری میں اتنی زیادہ کاغذی کرنسی چھاپی گئی کہ ہر چیز کی قیمت اربوں کھربوں پینگو تک جا پہنچی۔ حکومت نے ایسے کرنسی نوٹ جاری کیے جن پر مالیت نہیں لکھی ہوتی تھی اور روزانہ صبح ریڈیو پر اعلان ہوتا تھا کہ آج اس کی مالیت کیا ہو گی۔ 18 اگست 1946 کو پرانی کرنسی پینگو کی جگہ نئی کرنسی فورنٹ جاری کی گئی۔ ایک فورنٹ 400٫000٫000٫000٫000٫000٫000٫000٫000٫000 پینگو کے برابر تھا (یعنی 400 ارب ارب ارب پینگو کے برابر)۔
1919ء میں ایک امریکی ڈالر 9 جرمن مارک کے برابر تھا۔ 28 جون 1919ء کو معاہدۂ ورسائے (Treaty of Versailles) طے پایا۔ صرف چار سال بعد نومبر 1923 میں ایک ڈالر 4200 ارب کاغذی مارک کے برابر ہو چکا تھا۔ ایک ڈبل روٹی کی قیمت 400 ارب مارک ہو چکی تھی۔ لیکن یہ زوال صرف کاغذی مارک پر آیا تھا۔ سونے کے مارک کے سکّے کی قوت خرید میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ 15 نومبر 1923 کو جرمنی میں نئی کرنسی رینٹن مارک جاری کی گئی۔ ایک نیا مارک پرانے 1000 ارب مارک کے برابر قرار دیا گیا۔ پرانا مارک پیپیر مارک کہلاتا تھا۔
اسی طرح ترکی میں نوٹوں پر سے صفر کم کرنے کے لیے یکم جنوری 2005 کو نیا ٹرکش لیرا جاری کیا گیا۔ ایک نیا ٹرکش لیرا 1٫000٫000 پرانے ٹرکش لیرا کے برابر مقرر کیا گیا۔ 10 اگست 2018ء کو ٹرکش لیرا کی قیمت صرف ایک دن میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں 20 فیصد گر گئی۔
سونے چاندی کی قیمت کا اتار چڑھاو
منڈی کی دوسری ساری چیزوں کی طرح سونے چاندی کی قیمت بھی طلب و رسد کے قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔ جب بھی بینکوں اور بچت اسکیموں کی شرح سود میں کمی آتی ہے تو سونے کی قیمت بڑھنے لگتی ہے کیونکہ اگر خاطر خواہ منافع کی امید نہ رہے تو لوگ افراط زر کے نقصان سے بچنے کے لیے اپنی جمع پونجی سونے کی شکل میں رکھنا پسند کرتے ہیں جسے صدیوں سے "محفوظ جنت" تصوّر کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر بہت سارے لوگ اپنی کاغذی کرنسی کے بدلے سونا لے لیں گے تو کاغذی کرنسی کی وقعت میں کمی آجائے گی اور سونے کی قیمت چڑھ جائے گی اس لیے بڑے بڑے مرکزی بینک سونے چاندی کی قیمت گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
1970 میں چاندی کی قیمت 1.63 ڈالر اور سونے کی قیمت 35 ڈالر فی اونس تھی۔ جنوری 1980 میں چاندی کی قیمت بڑھ کر لگ بھگ 50 ڈالر فی اونس ہو گئی تھی اور کاغذی کرنسی پر لوگوں کا اعتماد ڈگمگانے والا تھا۔ سونے کی قیمت بھی صرف دیڑھ مہینے میں دگنی ہو کر 850 ڈالر فی اونس تک پہنچ گئی تھی۔ کاغذی کرنسی کا مستقبل بچانے کے لیے فیڈرل ریزرو نے کساد بازاری کے باوجود شرح سود بڑھا کر 20 فیصد کر دی (جو کبھی تاریخ میں نہیں رہی) اور نیویارک مرکنٹائل ایکسچینج سے نئے قاعدے قانون نافذ کروائے۔ اس کے نتیجے میں چاندی کے بڑے تاجر (Hunt Brothers) دیوالیہ ہو گئے لیکن دو مہینوں میں چاندی کی قیمتیں 80 فیصد تک گر گئیں۔ اس کے بعد دوبارہ کسی ایسے گولڈ رن سے بچنے کے لیے عالمی سطح پر سونے کی لیزنگ شروع کی گئی تاکہ سونے کی قیمتیں کنٹرول کی جا سکیں[ ۔ 1990 کی دہائی میں سونے کی قیمتیں گرنے کی وجہ یہی سونے کی لیزنگ تھی۔ اس کی وجہ سے سونا برآمد کرنے والے ممالک (جنوبی افریقا، چین اور روس) بڑے خسارے میں رہے۔ اپریل 2013 سے سونے کی قیمت اچانک گرنے کی وجہ کومیکس میں کاغذی سونے کے کنٹریکٹ (Gold Future) کی بڑے پیمانے پر فروخت تھی جو امریکا کی جے پی مورگن سیکوریٹیز اور HSBC سیکوریٹیز نے بیچے تھے اسی طرح 28 نومبر 2014 کو نیویارک کومیکس میں 50 ٹن کاغذی سونے کے کنٹریکٹ یک لخت بیچ کر قیمت گرائی گئی تھی۔[226]خیال رہے کہ سونے کی لیزنگ کا عمل انتہائی خفیہ طریقے سے انجام پاتا ہے۔
ڈچ سینٹرل بینک 1993ء سے سونا بیچ رہا تھا اور اس نے 1100 ٹن سونا بیچا۔ 1997ء میں جب سونے کی قیمتیں بہت گری ہوئی تھیں سوئیزرلینڈ نے اپنے 2600 ٹن سونے میں سے 1400 ٹن سونا بیچنے کا ارادہ ظاہر کیا جسے 2004 تک مکمل کر لیا۔ اس سے سونے کی قیمت گر کر 309 ڈالر فی اونس رہ گئی۔ اسی دوران میں برطانیہ نے اعلان کیا کہ وہ 415 ٹن سونا 1999–2000 کے دوران میں بیچے گا۔ اسی عرصے میں آئی ایم ایف نے بھی 435 ٹن سونا بیچا۔ اس طرح اگست 1999ء میں سونے کی قیمت مزید گر کر $251.70 تک آ گئی جو پچھلے 22 سالوں کی کم ترین قیمت تھی۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بینکاروں نے افریقہ میں سونے کی کانیں کوڑیوں کے داموں خرید لیں۔ شبہ کیا جاتا ہے کہ مرکزی بینکوں کی طرف سے بیچا جانے والا بیشتر سونا مرکزی بینک کے ہی مالکان نجی حیثیت سے خرید لیتے ہیں۔ لندن بُلین مارکیٹ کچھ اس طرح کام کرتی ہے کہ عام طور پر خریدار کی شناخت ممکن نہیں ہوتی۔ مغرب کے بڑے سینٹرل بینک جب بھی سونا خریدتے ہیں تو نہایت خاموشی سے خریدتے ہیں۔ لیکن جب سونا بیچتے ہیں تو سال بھر پہلے سے زور و شور سے اس کا چرچا شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے اصل فروخت سے پہلے ہی سونے کی قیمت گر جاتی ہے۔ اور اُن کے سونا بیچنے کا ہدف بھی یہی ہوتا ہے کہ قیمت گرائی جا سکے۔
"several central bankers have admitted, a rising Gold price reflects an increasing lack of confidence in the (paper currency) system and specifically in the dollar."
سن 2012 تک پچھلے پونے تین سالوں میں سنٹرل بینکوں نے 1100 ٹن سونا خریدا جبکہ اس سے پہلے کے تین سالوں میں انہوں نے 1143 ٹن سونا بیچا تھا۔ روس اور چین کئی سالوں سے سونا جمع کر رہے ہیں۔ 1911 میں میکسیکو نے 100 ٹن سونا خریدا۔ 2012 تک چین کے عوام نے پچھلے پانچ سالوں میں 4800 ٹن سونا سکوں اور بسکٹ (پانسا) کی شکل میں خریدا۔ 2013 میں چین نے 2200 ٹن سونا خریدا۔ چین اب دنیا میں سب سے زیادہ سونا کانوں سے نکالتا ہے مگر ایک تولہ بھی بیچنے کو تیار نہیں۔ 2018ء میں انڈیا نے 40 ٹن سے زیادہ سونا خریدا۔ سونے کی اس طرح خریداری مغربی ممالک کے لیے ایک بڑا درد سر بن گئی ہے کیونکہ یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ کاغذی کرنسی پر اعتبار نہ کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ مشرقی ممالک کا کاغذی کرنسی پر اعتبار تھا جس نے انیسویں اور بیسویں صدی میں مغربی ممالک کو فوجی و تجارتی برتری اور خوشحالی عطا کی تھی۔ ماضی کے نظام اس لیے کام کرتے رہے کہ لوگوں کو قانون پر اعتبار تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ لیکن اب یہ مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے کہ طاقتور لوگوں کی بدعنوانیوں کو نظر انداز کیا جائے۔
کاغذی کرنسی پہلے تو حکومت کے پاس موجود سونے چاندی کی مالیت کے برابر مقدار میں چھاپی جاتی تھی لیکن 1971 میں بریٹن ووڈ معاہدہ ٹوٹنے کے بعد ایسی کوئی روک ٹوک باقی نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرنسی کنٹرول کرنے والے ادارے اور حکومتیں اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کرنسی چھاپنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کرنسی زیادہ چھاپی جائے تو افراط زر کی وجہ سے اس کی قدر لامحالہ کم ہو جاتی ہے ( یعنی اس کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے) اس طرح لوگوں کا اور باقی دنیا کا اعتبار اس کرنسی پر کم ہونے لگتا ہے۔ جو کرنسی چھاپنے والے ادارے یا حکومت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ لوگ اب دوسری کرنسی کی طرف رجوع کرنے لگتے ہیں۔ اس لیے حکومتیں ایک حد سے زیادہ کرنسی نہیں چھاپ پاتیں۔ اس کی مثال سونے کا انڈا دینے والی مرغی کی طرح ہے جسے ذبح نہ کرنا ہی سود مند رہتا ہے۔ لیکن تھوڑی تھوڑی مقدار میں بھی مسلسل کاغذی کرنسی چھپتے رہنے سے اس کرنسی کی قوت خرید کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کے بر عکس دھاتی کرنسی کی قدر وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اپنے رکن ممالک کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی کرنسی کو سونے سے منسلک نہ کریں۔ اگر کوئی کرنسی سونے سے منسلک ہو گی تو آئی-ایم-ایف کے لیے اس کی شرح تبادلہ اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔
"ڈالر کی کل مقدار کا نصف سے زیادہ متحدہ امریکا سے باہر کے ممالک میں ہے۔ جب ہم ڈالر چھاپتے ہیں تو ہم دوسرے ممالک کی قوت خرید چُرا لیتے ہیں جو متحدہ امریکا کو منتقل ہو جاتی ہے۔ ہمیں یہ حق حاصل ہے اور ہم نے اسے بیجا استعمال کیا ہے۔"
افراط زر دن دھاڑے ڈکیتی ہے۔ یہ سوشل پالیسی نہیں ہے۔
Inflation is not a social policy. It is daylight robbery.
مختلف کرنسی کے سالانہ افراط زر
سونا ایک غیر علانیہ بین الا اقوامی زرِ کثیف (ہارڈ کرنسی) ہے۔ اس کی قیمت کے بڑھنے سے کسی ملک کی کاغذی کرنسی میں ہونے والے افراط زر (مہنگائی) کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ جنوری 2021ء تک پچھلے 20 سالوں میں امریکی ڈالر میں سونے کی قیمت میں ہونے والا اضافہ لگ بھگ 6 گنا ہے جبکہ اسی عرصہ میں چاندی کی قیمت میں ہونے والا اضافہ لگ بھگ 4.7 گنا ہے۔9 جولائی 2020ء تک سونے کی قیمت میں ہونے والا سالانہ فیصد اضافہ مختلف کرنسی میں مندرجہ ذیل ہے۔اگر پہلی جنوری 2001 سے پہلی جنوری 2014 تک کی سونے کی قیمتوں کا جائیزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے پچھلے تیرہ سالوں میں پاکستانی کرنسی کی قیمت میں ساڑھے سات گنا اور ہندوستانی کرنسی کی قیمت میں پانچ گنا کمی آئی ہے جبکہ اسی دوران میں ایران میں مہنگائی لگ بھگ 60 گنا بڑھ چکی ہے۔
تاریخ کے بد ترین افراط زر
اگر کرنسی دھاتی ہو اور سکّے اپنی مالیت خود رکھتے ہوں تو افراط زر ناممکن ہو جاتا ہے۔ دھاتی کرنسی میں افراط زر صرف اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب اس دھات کی اتنی بڑی کان دریافت ہو جائے کہ دنیا بھر کی ضرورت سے زیادہ ہو کیونکہ دھاتی کرنسی عالمی قبولیت رکھتی ہے۔ اس کے برعکس کاغذی کرنسی چھاپ کے حکومتیں اپنی آمدنی تو بڑھا لیتی ہیں لیکن اپنے عوام کو غریب بنا دیتی ہیں۔ اس طرح وہ اپنے عوام سے خفیہ طور پر انفلیشن ٹیکس وصول کرتی ہیں۔ 1945–46 میں ہنگری میں اتنی زیادہ کاغذی کرنسی چھاپی گئی کہ ہر چیز کی قیمت اربوں کھربوں پینگو تک جا پہنچی۔ حکومت نے ایسے کرنسی نوٹ جاری کیے جن پر مالیت نہیں لکھی ہوتی تھی اور روزانہ صبح ریڈیو پر اعلان ہوتا تھا کہ آج اس کی مالیت کیا ہو گی۔ 18 اگست 1946 کو پرانی کرنسی پینگو کی جگہ نئی کرنسی فورنٹ جاری کی گئی۔ ایک فورنٹ 400٫000٫000٫000٫000٫000٫000٫000٫000٫000 پینگو کے برابر تھا (یعنی 400 ارب ارب ارب پینگو کے برابر)۔
جرمنی میں ایک سونے کے مارک کے سکّے کی قیمت (کاغذی مارک میں)
1919ء میں ایک امریکی ڈالر 9 جرمن مارک کے برابر تھا۔ 28 جون 1919ء کو معاہدۂ ورسائے (Treaty of Versailles) طے پایا۔ صرف چار سال بعد نومبر 1923 میں ایک ڈالر 4200 ارب کاغذی مارک کے برابر ہو چکا تھا[130]۔ ایک ڈبل روٹی کی قیمت 400 ارب مارک ہو چکی تھی۔ لیکن یہ زوال صرف کاغذی مارک پر آیا تھا۔ سونے کے مارک کے سکّے کی قوت خرید میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ 15 نومبر 1923 کو جرمنی میں نئی کرنسی رینٹن مارک جاری کی گئی۔ ایک نیا مارک پرانے 1000 ارب مارک کے برابر قرار دیا گیا۔ پرانا مارک پیپیر مارک کہلاتا تھا۔
جرمنی اکتوبر 1923۔ ایک میلین مارک کے نوٹ جس کی سادہ پشت کو ردّی کاغذ کی طرح لکھنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
1990ء میں USSR میں انفلیشن اور پھر ہائپرانفلیشن آیا جس کے بعد اگست 1991ء میں سویت اتحاد توڑنا پڑا۔
اسی طرح ترکی میں نوٹوں پر سے صفر کم کرنے کے لیے یکم جنوری 2005 کو نیا ٹرکش لیرا جاری کیا گیا۔ ایک نیا ٹرکش لیرا 1٫000٫000 پرانے ٹرکش لیرا کے برابر مقرر کیا گیا۔ 10 اگست 2018ء کو ٹرکش لیرا کی قیمت صرف ایک دن میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں 20 فیصد گر گئی۔منڈی کی دوسری ساری چیزوں کی طرح سونے چاندی کی قیمت بھی طلب و رسد کے قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔ جب بھی بینکوں اور بچت اسکیموں کی شرح سود میں کمی آتی ہے تو سونے کی قیمت بڑھنے لگتی ہے کیونکہ اگر خاطر خواہ منافع کی امید نہ رہے تو لوگ افراط زر کے نقصان سے بچنے کے لیے اپنی جمع پونجی سونے کی شکل میں رکھنا پسند کرتے ہیں جسے صدیوں سے "محفوظ جنت" تصوّر کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر بہت سارے لوگ اپنی کاغذی کرنسی کے بدلے سونا لے لیں گے تو کاغذی کرنسی کی وقعت میں کمی آجائے گی اور سونے کی قیمت چڑھ جائے گی۔ اس لیے بڑے بڑے مرکزی بینک سونے چاندی کی قیمت گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
انڈریو میگاری نامی ایک سونے کے تاجر نے 29 مارچ 2010 کو ریڈیو پر ایک انٹرویو دیا جو اپریل 2010 کو نشر ہوا۔ اس میں اس نے انکشاف کیا کہ فیڈرل ریزرو کی ہدایت پر کس طرح جے پی مارگن چیز اور ایچ ایس بی چیز سونے کی قیمتیں گرانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سے پہلے 3 فروری 2010 کو انڈریو میگاری نے کموڈٹی فیوچر ایکسچینج کمیشن کو بتا دیا تھا کہ چاندی کی قیمت کس طرح تبدیل کی جائے گی اور دو دن بعد بالکل ویسا ہی ہوا۔ جس دن یہ معلوم ہوا کہ یہ راز انڈریو میگاری نے فاش کیے ہیں اس کے دوسرے دن یعنی 26 مارچ 2010 کو ایک تیز رفتار گاڑی نے انڈریو میگاری اور اس کی بیوی کو ٹکر ماری اور فرار ہو گئی۔ لندن کی پولیس ہیلی کاپٹر سے پیچھا کر کے اس ڈرائیور کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئی مگر بعد میں اس کا نام ظاہر کیے بغیر اسے برائے نام سزا دیکر چھوڑ دیا گیا۔ انڈریو میگاری کا خیال ہے کہ یہ اسے قتل کرنے کی ناکام کوشش تھی۔
1970 میں چاندی کی قیمت 1.63 ڈالر اور سونے کی قیمت 35 ڈالر فی اونس تھی۔ جنوری 1980 میں چاندی کی قیمت بڑھ کر لگ بھگ 50 ڈالر فی اونس ہو گئی تھی اور کاغذی کرنسی پر لوگوں کا اعتماد ڈگمگانے والا تھا۔ سونے کی قیمت بھی صرف دیڑھ مہینے میں دگنی ہو کر 850 ڈالر فی اونس تک پہنچ گئی تھی۔ کاغذی کرنسی کا مستقبل بچانے کے لیے فیڈرل ریزرو نے کساد بازاری کے باوجود شرح سود بڑھا کر 20 فیصد کر دی (جو کبھی تاریخ میں نہیں رہی) اور نیویارک مرکنٹائل ایکسچینج سے نئے قاعدے قانون نافذ کروائے۔ اس کے نتیجے میں چاندی کے بڑے تاجر (Hunt Brothers) دیوالیہ ہو گئے لیکن دو مہینوں میں چاندی کی قیمتیں 80 فیصد تک گر گئیں۔ اس کے بعد دوبارہ کسی ایسے گولڈ رن سے بچنے کے لیے عالمی سطح پر سونے کی لیزنگ شروع کی گئی تاکہ سونے کی قیمتیں کنٹرول کی جا سکیں۔ 1990 کی دہائی میں سونے کی قیمتیں گرنے کی وجہ یہی سونے کی لیزنگ تھی۔ اس کی وجہ سے سونا برآمد کرنے والے ممالک (جنوبی افریقا، چین اور روس) بڑے خسارے میں رہے۔ اپریل 2013 سے سونے کی قیمت اچانک گرنے کی وجہ کومیکس میں کاغذی سونے کے کنٹریکٹ (Gold Future) کی بڑے پیمانے پر فروخت تھی جو امریکا کی جے پی مورگن سیکوریٹیز اور HSBC سیکوریٹیز نے بیچے تھے۔ اسی طرح 28 نومبر 2014 کو نیویارک کومیکس میں 50 ٹن کاغذی سونے کے کنٹریکٹ یک لخت بیچ کر قیمت گرائی گئی تھی۔ خیال رہے کہ سونے کی لیزنگ کا عمل انتہائی خفیہ طریقے سے انجام پاتا ہے۔
امریکی فیڈرل ریزرو کے بارہویں اور مشہور چیر مین مسٹر ووکر (Mr. Volcker) نے ایک دفعہ کہا تھا کہ "سونا میرا دشمن ہے اور میں ہمیشہ نظر رکھتا ہوں کہ میرا دشمن کیا کر رہا ہے"۔ مسٹر ووکر 1979 سے 1987 تک فیڈرل ریزرو کا چیرمین رہا تھا اور 1980 میں سونے کی بے قابو ہوتی ہوئی قیمتوں کو لگام دینے میں اس کا بڑا ہاتھ تھا۔ 1971 میں جب وہ ٹریژری کا انڈر سیکریٹری تھا اس وقت اُس نے بریٹن ووڈز کا معاہدہ توڑنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا اور اسے اس پر فخر تھا۔
ڈچ سینٹرل بینک 1993ء سے سونا بیچ رہا تھا اور اس نے 1100 ٹن سونا بیچا۔ 1997ء میں جب سونے کی قیمتیں بہت گری ہوئی تھیں سوئیزرلینڈ نے اپنے 2600 ٹن سونے میں سے 1400 ٹن سونا بیچنے کا ارادہ ظاہر کیا جسے 2004 تک مکمل کر لیا۔ اس سے سونے کی قیمت گر کر 309 ڈالر فی اونس رہ گئی۔ اسی دوران میں برطانیہ نے اعلان کیا کہ وہ 415 ٹن سونا 1999–2000 کے دوران میں بیچے گا۔ اسی عرصے میں آئی ایم ایف نے بھی 435 ٹن سونا بیچا۔ اس طرح اگست 1999ء میں سونے کی قیمت مزید گر کر $251.70 تک آ گئی جو پچھلے 22 سالوں کی کم ترین قیمت تھی۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بینکاروں نے افریقہ میں سونے کی کانیں کوڑیوں کے داموں خرید لیں۔ شبہ کیا جاتا ہے کہ مرکزی بینکوں کی طرف سے بیچا جانے والا بیشتر سونا مرکزی بینک کے ہی مالکان نجی حیثیت سے خرید لیتے ہیں۔ لندن بُلین مارکیٹ کچھ اس طرح کام کرتی ہے کہ عام طور پر خریدار کی شناخت ممکن نہیں ہوتی۔ مغرب کے بڑے سینٹرل بینک جب بھی سونا خریدتے ہیں تو نہایت خاموشی سے خریدتے ہیں۔ لیکن جب سونا بیچتے ہیں تو سال بھر پہلے سے زور و شور سے اس کا چرچا شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے اصل فروخت سے پہلے ہی سونے کی قیمت گر جاتی ہے۔ اور اُن کے سونا بیچنے کا ہدف بھی یہی ہوتا ہے کہ قیمت گرائی جا سکے۔سن 2012 تک پچھلے پونے تین سالوں میں سنٹرل بینکوں نے 1100 ٹن سونا خریدا جبکہ اس سے پہلے کے تین سالوں میں انہوں نے 1143 ٹن سونا بیچا تھا۔ روس اور چین کئی سالوں سے سونا جمع کر رہے ہیں۔ 1911 میں میکسیکو نے 100 ٹن سونا خریدا۔ 2012 تک چین کے عوام نے پچھلے پانچ سالوں میں 4800 ٹن سونا سکوں اور بسکٹ (پانسا) کی شکل میں خریدا۔ 2013 میں چین نے 2200 ٹن سونا خریدا۔ چین اب دنیا میں سب سے زیادہ سونا کانوں سے نکالتا ہے مگر ایک تولہ بھی بیچنے کو تیار نہیں۔ 2018ء میں انڈیا نے 40 ٹن سے زیادہ سونا خریدا۔[ سونے کی اس طرح خریداری مغربی ممالک کے لیے ایک بڑا درد سر بن گئی ہے کیونکہ یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ کاغذی کرنسی پر اعتبار نہ کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ مشرقی ممالک کا کاغذی کرنسی پر اعتبار تھا جس نے انیسویں اور بیسویں صدی میں مغربی ممالک کو فوجی و تجارتی برتری اور خوشحالی عطا کی تھی۔ ماضی کے نظام اس لیے کام کرتے رہے کہ لوگوں کو قانون پر اعتبار تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ لیکن اب یہ مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے کہ طاقتور لوگوں کی بدعنوانیوں کو نظر انداز کیا جائے۔
Historically, the system works because people have confidence in the rules and believe they are treated the same as anybody else. But it’s getting harder and harder to ignore the stories of powerful people cheating the system for their own gain.
"دھوکا بازی پر مبنی فی ایٹ کرنسی کے نظام کو سلامت رکھنے کے لیے سونے کی قیمت گرانا انتہائی ضروری ہے"
Please keep in mind that the control of the gold price by the deep state financial elite is not some parlor game that they play for their enjoyment; it is an absolutely critical requirement in keeping the fraudulent fiat currency counterfeiting scheme from collapsing.
سونے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو گرانے کے لیے دنیا بھر کے سینٹرل بینکوں کا باہمی تعاون ستمبر 2011ء میں کامیاب ہوا جب سوئیزرلینڈ کے سینٹرل بینک نے فرانک کو یورو سے منسلک کیا۔
In fact, all the major central banks have been working in concert since the day they broke the gold bull market back in September 2011, when the Swiss National Bank pegged the Franc to the euro which began the era of coordinated central bank policy
سونے کی قیمت گرانے میں بڑے بینکوں کے کردار کو کئی دہائیوں سے conspiracy theory کہہ کر مسترد کر دیا جاتا تھا۔ لیکن الزام ثابت ہو جانے کے بعد 23 ستمبر 2020ء میں امریکی عدالت میں جے پی مورگن نے جرم تسلیم کر لیا اور عدالت نے ایک ارب ڈالر جرمانہ کیا۔ڈوئیچے بینک پچھلے دس سالوں میں مختلف ممالک میں 20 ارب ڈالر جرمانہ ادا کر چکا ہے۔[