جدید ایران کا سیاسی نظام

ایران کا سیاسی نظام کسی کے لیے پیچیدہ ہے تو کسی کے لیے غیر معمولی۔ اس میں جدید دینی طرز حکومت کو جمہوریت کے ساتھ ایک منفرد انداز میں ملایا گیا ہے۔ایران میں صدر اور پارلیمان کو تو لوگ ہی منتخب کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ غیر منتخب شدہ اداروں کا ایک نیٹ ورک قائم ہے جس کی سربراہی رہبر اعلیٰ کرتے ہیں۔


سپریم لیڈر (رہبر اعلیٰ)

ایران کے سیاسی نظام میں سب سے طاقتور عہدہ رہبر اعلیٰ یا سپریم لیڈر کا ہے اور اس عہدے پر آج تک صرف دو لوگ ہی آ سکے ہیں۔ پہلی بار یہ عہدہ سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد آیت اللہ روح اللہ خمینی کو ملا تھا اور ان کے بعد اس پر موجودہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای آئے تھے۔

ایرانی حکمران رضا شاہ پہلوی کی حکومت گِرانے کے بعد خمینی ؒنے اس عہدے کو ایرانی سیاسی ڈھانچے میں سب سے اہم منصب بنایا تھا۔ سپریم لیڈر ایرانی دفاعی فورسز کا کمانڈر اِن چیف بھی ہوتے ہیں اور ملک میں سکیورٹی کے معاملات پر نگرانی رکھتے ہیں۔ وہ عدلیہ کے سربراہ، اثر و رسوخ رکھنے والی نگہبان شوریٰ کے نصف ممبران، نماز جمعہ کے امام اور سرکاری ٹی وی و ریڈیو نیٹ ورکس کے سربراہان کو تعینات کرتے ہیں۔ اس رہبر اعلیٰ کے کنٹرول میں ایسے اربوں ڈالرز کے خیراتی ادارے بھی ہوتے ہیں جو ایرانی معیشت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ سنہ 1989 میں خمینی کی موت کے بعد علی خامنہ ای سپریم لیڈر بنے تھے۔ گذشتہ عرصے میں انھوں نے اپنی پوزیشن اور طاقت کو مستحکم کیا ہے اور حکمرانی کے اس نظام کو درپیش چیلنچز کو دبا کر رکھا ہے۔

صدر

ایران میں ایک صدر کو چار سال کی مدت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے، اور کوئی بھی شخص مسلسل ادوار کے بعد تیسری بار صدر نہیں بن سکتا۔ آئین میں اس عہدے کو ملک میں دوسرا سب سے بڑا عہدہ قرار دیا گیا ہے۔ ایرانی صدر ایگزیکٹیو (امور کی انجام دہی کے ذمہ داران) کا سربراہ ہوتا ہے۔ صدر کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں آئین کی عملداری یقینی بنائی جائے۔ مقامی پالیسی اور خارجی اُمور پر صدر کا اثر و رسوخ ہوتا ہے لیکن تمام ریاستی معاملات پر سپریم لیڈر کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ تمام صدارتی امیدواروں کو نگہبان شوریٰ سے منظوری درکار ہوتی ہے۔ یہ عالم دین اور قانونی ماہرین پر مبنی ایک ادارہ ہے جس میں 12 ممبران ہوتے ہیں۔ سنہ 2021 میں ہونے والے ایرانی صدارتی انتخاب کے لیے 590 افراد نے امیدوار بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا مگر صرف سات افراد کے کاغذات نامزدگی کو منظور کیا گیا۔ خواتین کو صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں ملی۔

پارلیمان

ایرانی پارلیمان یا مجلس میں 290 اراکین ہوتے ہیں۔ ان ممبران کو عام انتخابات کے ذریعے ہر چار سال بعد منتخب کیا جاتا ہے۔ پارلیمان نئے قوانین متعارف کروا سکتی ہے، سالانہ بجٹ کو مسترد کر سکتی ہے اور حکومتی وزرا یا صدر کو طلب کرنے کے علاوہ اس کے مواخذے کا حق رکھتی ہے۔ تاہم پارلیمان سے منظور شدہ تمام قوانین کو نگہبان شوریٰ سے حتمی منظوری حاصل کرنا ہوتی ہے۔ سنہ 2020 کے پارلیمانی انتخابات میں سخت گیر رہنماؤں نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ ان سے قبل نگہبان شوریٰ نے سات ہزار سے زیادہ ممکنہ امیدواروں کو نااہل قرار دیا تھا جن میں بعض رہنما اعتدال اور اصلاح پسند بھی تھے۔

نگہبان شوری

ایران میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والا ادارہ نگہبان شوریٰ (گارڈئین کونسل) ہے۔ اس کے پاس پارلیمان سے منظور شدہ قوانین کو مسترد کرنے کا حق ہے۔ یہ پارلیمان، صدارت اور مجلس خبرگان رہبری کے انتخابات کے لیے لوگوں کو امیدوار بننے سے روک سکتی ہے۔ اس میں سپریم لیڈر کے تعینات کردہ چھ عالم دین جبکہ عدلیہ کی جانب سے نامزد اور پارلیمان کی جانب سے منظور کردہ چھ قاضی ہوتے ہیں۔ ممبران کو مرحلہ وار چھ سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے اور ہر تین سال بعد آدھے ممبران تبدیل کیے جاتے ہیں۔

مجلس خبرگان رہبری

اس مجلس میں 88 عالم دین ہوتے ہیں اور یہ رہبر اعلیٰ کو تعینات کرنے یا اس کی کارکردگی کی نگرانی کا ذمہ دار ادارہ ہے۔ اگر یہ مجلس محسوس کرے کہ سپریم لیڈر اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے قاصر ہیں تو اس کے پاس انھیں ہٹانے کا بھی حق ہے۔ اگرچہ ایسا کبھی دیکھا نہیں گیا کہ اس مجلس نے سپریم لیڈر کے فیصلوں کو چیلنج کیا ہو تاہم یہ مجلس اس لیے اہم ہے کیونکہ موجودہ 82 سالہ سپریم لیڈر علی خامنہ ای کی صحت کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ اگر سپریم لیڈر کی وفات ہوتی ہے یا وہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل نہیں رہتے تو ان کے جانشین کے انتخاب کے لیے یہ مجلس ایک خفیہ رائے شماری کرے گی اور سادہ اکثریت کی بنا پر نئے رہبر اعلیٰ کا فیصلہ کرے گی۔ مجلس کے اراکین کے براہ راست انتخابات ہر آٹھ سال بعد ہوتے ہیں۔ آخری بار یہ انتخابات 2016 میں ہوئے جس میں اعتدال اور اصلاح پسند رہنماؤں نے قریب 60 فیصد سیٹیں جیتیں۔ گذشتہ مجلس میں ان کی تعداد 25 فیصد سے کم تھی۔ اس کے موجودہ سربراہ آیت اللہ احمد جنتی ہیں جو شوریٰ نگہبان کے بھی سربراہ ہیں۔

مجمع تشخیص مصلحت نظام

یہ کونسل سپریم لیڈر کی مشاورت کرتی ہے۔ اور پارلیمان اور شوریٰ نگہبان کے درمیان قانون سازی میں اختلاف کی صورت میں قانونی حل تلاش کرتی ہے۔سپریم لیڈر اس کے 45 اراکین کو تعینات کرتے ہیں۔ یہ تمام افراد معروف مذہبی، سماجی اور سیاسی رہنما ہیں۔ ان کے موجودہ سربراہ آیت اللہ صادق آملی لاریجانی ہیں جو عدلیہ کے سابق سربراہ ہیں اور انھیں سخت گیر رہنما قرار دیا جاتا ہے۔

عدلیہ کے سربراہ

ایران کے چیف جسٹس کو سپریم لیڈر تعینات کرتے ہیں اور وہ انھیں کو جوابدہ ہیں۔ ان کی ذمہ داری اپنی عدالتوں اور ججوں کے ذریعے ملک میں اسلامی و قانونی قوانین کا نفاذ ہے۔ سکیورٹی اور انٹیلیجنس سروسز کے ساتھ مل کر عدلیہ اختلاف کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن اکثر یہ الزام لگاتے ہیں کہ مختلف لوگوں کو قومی سلامتی سے متعلق غیر منصفانہ مقدمات کا سامنا رہتا ہے اور ان مقدمات کی سماعت یہی ججز کرتے ہیں۔

الیکٹوریٹ

ایران کی آٹھ کروڑ 30 لاکھ کی آبادی میں قریب پانچ کروڑ 80 لاکھ لوگوں کی عمر 18 سال سے زیادہ ہے اور وہ ووٹنگ میں حصہ لینے کا حق رکھتے ہیں۔

الیکٹوریٹ کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مبنی ہے کیونکہ ملک میں قریب نصف آبادی 30 سال سے کم عمر افراد کی ہے۔ سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران میں 2020 کے پارلیمانی انتخابات کے علاوہ تمام الیکشنز میں ووٹر ٹرن آؤٹ مسلسل 50 فیصد سے زیادہ رہا ہے۔ سنہ 2020 میں اس کی وجہ لوگوں کی مذہبی رہنماؤں کی اسٹیبلشمنٹ پر بڑھتا عدم اعتماد اور معیشت کے حالات کو سمجھا جاتا ہے۔

مسلح افواج

ایران کی مسلح افواج میں سپاه پاسداران انقلاب اسلامی اور عام فوج شامل ہیں۔ پاسداران انقلاب کو اسلامی نظام کے تحفظ اور فوج میں جوابی توازن برقرار رکھنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ یہ ایران میں معاشی و سیاسی اثر و رسوخ رکھتا ہے اور اس کے سپریم لیڈر سے قریبی تعلقات ہوتے ہیں۔ پاسداران انقلاب کی اپنی بری، فضائی اور بحری افواج ہیں اور یہ ایران کے سٹریٹیجک ہتھیاروں کی نگرانی کرتے ہیں۔فوج کے سینیئر کمانڈرز کو سپریم لیڈر تعینات کرتے ہیں جو اس کے کمانڈر اِن چیف بھی ہیں۔ یہ کمانڈر صرف انھیں جوابدہ ہیں۔

کابینہ

کابینہ کے ممبران یا وزرا کی کونسل کو صدر چنتے ہیں۔ انھیں پارلیمان کی منظوری حاصل کرنا ہوتی ہے اور پارلیمان وزرا کے خلاف مواخدہ بھی منظور کر سکتا ہے۔کابینہ کی سربراہی صدر یا کابینہ کے امور کے ذمہ دار نائب صدر کرتے ہیں۔