عالم اسلام کا سیاسی نظام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عالم اسلام کا سیاسی نظام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

محمد مرسی : مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدر کی زندگی پر ایک نظر


بی بی سی اردو | 18 جون 2019

محمد مرسی جمہوری طور پر منتخب ہونے والے مصر کے پہلے صدر تھے لیکن صرف ایک ہی برس کے بعد تین جولائی سنہ 2013 کو فوج نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

فوج کے اس اقدم سے پہلے محمد مرسی کی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو چکے تھے تاہم انھوں نے فوج کے اس الٹی میٹم کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ سنہ 2011 میں حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد ملک میں پیدا ہونے والے سب سے بڑے سیاسی بحران کو جلد از جلد حل کیا جائے۔

تختہ الٹ دیے جانے کے بعد چار ماہ تک محمد مرسی کو نامعلوم مقامات پر قید رکھا گیا اور پھر ستمبر سنہ 2013 میں حکومت نے اعلان کیا کہ اب ان پر باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے گا۔

حکومت کا الزام تھا کہ محمد مرسی نے اپنے حامیوں کو صحافی اور حزب مخالف کے دو رہنماؤں کو قتل کرنے پر اکسایا اور کئی دیگر افراد کو غیر قانونی طور پر قید کیا اور ان پر تشدد کروایا تھا۔حکومت نے یہ الزامات صدارتی محل کے باہر ہونے والے ان ہنگاموں کی بنیاد پر عائد کیے تھے جن میں اخوان المسلمین کے کارکنوں اور حزب مخالف کے مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا تھا۔

محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے 14 دیگر سرکردہ رہنماؤں پر قائم کیے جانے والے ان مقدامات کی سماعت نومبر سنہ 2013 میں شروع ہوئی۔

مقدمے کی پہلی سماعت پر کٹہرے میں کھڑے محمد مرسی نے نہ صرف چیخ چیخ کر کہا تھا کہ انھیں ’فوجی بغاوت‘ کا شکار کیا گیا ہے بلکہ انھوں نے اس عدالت کو ماننے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا ’ملک کے آئین کے مطابق میں جمہوریہ کا صدر ہوں اور مجھے زبردستی قید کیا گیا ہے۔‘

لیکن اپریل سنہ 2015 میں محمد مرسی اور ان کے دیگر ساتھیوں کو 20، 20 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ اگرچہ انھیں اپنے کارکنوں کو قتل پر اکسانے کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا تاہم انھیں مظاہرین کو حراست میں لینے اور ان پر تشدد کرنے کے جرائم کا مرتکب پایا گیا۔

اسلامی احیاء کا مسئلہ ۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر | ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، اگست ۲۰۲۴ | مذاکرہ: اسلامی احیاء کا مسئلہ


یہ سوال کہ عصر ِحاضر میں ایک جانب مسلم اکثریتی ملکوں میں اور دوسری طرف مسلم اقلیتی ممالک میں، اسلامی احیاء کے لیے کیا فکری اور عملی اقدامات کیے جانے چاہییں؟ایک بڑا وسیع موضوع ہے جس کے دوحصے ہیں :


الف: اسلامی احیاء کے لیے مسلم اکثریتی ملکوں میں ممکنہ فکری اور عملی اقدامات۔
ب: مسلم اقلیتی ممالک میں اسلامی احیاء کے لیے ممکنہ فکری اور عملی اقدامات۔

مسلم اقلیتی ممالک میں احیائے اسلام:  سوال کے دوسرے حصے کا جواب ان دانش وروں سے حاصل کرنا چاہیے، جو ایسے مغربی ممالک میں مقیم ہیں جہاں مسلمان محض ایک اقلیت ہیں۔وہاں کے مسائل و امکانات کا جائزہ وہی بہتر طور پر لے کر تجاویز پیش کرسکتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک میں رہنے والے ’سسٹم‘ کے قیدی ہیں۔یہ قیدی اپنی سلاخیں توڑ کر فرار تو ہوسکتا ہے،مگر پورے نظام کی قلب ماہیت نہیںکرسکتا۔

مغربی ممالک میں رہنے والی مسلم اقلیت اپنی کیمونٹی کی حدتک توہاتھ پاؤں مارسکتی ہے، اُس سے آگے وہ کچھ نہیں کرسکتی۔ یعنی ان ممالک کے قوانین کے آگے وہ بے دست و پا ہے بلکہ اپنی اولاد تک کے بارے میں فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے، ایسے میں اسلامی احیاء کی بات تو بہت دُور کی کوڑی ہے۔ اگر وہاں کوئی مسلمان بڑے سیاسی یا انتظامی عہدے پر پہنچ جائے تب بھی وہ کچھ نہیں کرسکتا کیو نکہ وہ سسٹم کے آگے بے بس ہے۔ ان کے آقا ان سے زیادہ بیدار مغز اور ہوشیار ہیں۔ مغرب میں کتنے ہی مسلمان ہیں جو بہت کام کررہے ہیں، لیکن کسی ایسی ’تبدیلی‘ کہ جس کے ڈانڈے ’مسلم احیاء‘ سے ملتے ہوں، وہ اُس کے نہ محرک ہیں اور نہ بن سکتے ہیں۔ ان کے آگے سب سے بڑی رکاوٹ وہ نظام (System) ہے، جو نہ صرف یہ کہ سوچ سمجھ کر بنا یا گیا ہے بلکہ سامراجی مفاداتی سوچ اس کی نگرانی اور رکھوالی بھی کرتی ہے۔

مسلم اکثریتی ممالک میں احیائے اسلام: اب آجائیے مسلم اکثریتی ممالک کی طرف ،یہ بھی ایک بڑا وسیع موضوع ہے۔ یہ ایک دوملکوں کی بات نہیں تقریباً ستّر مسلم ممالک کی بات ہے۔ ان کے سیاسی نظام ،تمدنی معاملات اور معیشت میں اتنا فرق ہے کہ ان سب کے لیے ایک ہی فارمولا طے نہیں کیا جاسکتا۔ جن مسلم ممالک میں بادشاہت ہے(مثلاً اردن، سعودی عرب وغیرہ) وہاں بھی ایک نوع کی غلامی ہے اور ؎

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

جن مسلم ممالک میں ’تھیوکریسی‘ ہے، مثال ایران، تو وہ بھی غلامی ہی کی ایک قسم ہے۔ جو معاشرے جمہوری روایات کے حامل ہیں، وہ ’عالمی غلامی‘ کے اسیر ہیں۔جن کے لیے ’اسلام‘سب سے بڑا خطرہ ہے اور عوامی ووٹ سے آئی ہوئی منتخب جمہوری حکومتوں کو بھی وہ چٹکی میں اڑا کررکھ دیتے ہیں، جس کی مثالیں مصر میں محمد مرسی کی حکومت کا تختہ اُلٹنا اور غزہ میں حماس کی حکومت کا خاتمہ کرنا ہے۔ایسی مثالوں کی کمی نہیں۔ گویاایک بات طے ہوئی کہ مسلم اقلیتی معاشرے ہوں یا مسلم اکثریتی ممالک، بنیادی مسئلہ’غلامی‘ ہے۔ کہیں مقامی سیاسی نظام کی جکڑبندی ہے، کہیں مذہبی طبقے کی گرفت ہے اورکہیں عالمی سامراجی نظام کی۔

آزادی ایک ایسی بنیاد ہے، جس پر قوموں کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ یہ بنیاد جتنی مستحکم ہوگی ،اتنی ہی مضبو ط اور عظیم عمارت تعمیر ہوگی ۔آزاد قوموں میں ہی مذہب کا پیغام پھیلتا ہے (جیسے جزیرہ نمائے عرب میں پھیلا تھا) ،نظریات وافکار کو فروغ حاصل ہوتا ہے، تہذیب وتمدن اور ادب وثقافت پروان چڑھتے ہیں۔ بصیرت ،صرف آزاد لوگوں کا حصہ ہے،صرف آزاد قومیں ہی بصیرت کا دعویٰ کرسکتی ہیں۔ گویا احیاء کے لیے پہلا قدم، طوقِ غلامی سے آزادی ہے۔

طالبان کا تین سالہ دور اور اقوام متحدہ کی رپورٹ ۔ ڈاکٹر محمد اقبال خلیل | اگست ۲۰۲۴ | اخبار اُمت


جب ۱۵؍ اگست ۲۰۲۱ء کو تحریکِ طالبان افغانستان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کا انتظام سنبھالا تو یہ ایک محیرالعقول واقعہ تھا۔ اس سے پہلے کم و بیش پورے افغانستان پر ان کا قبضہ ہوچکا تھا ۔تمام بڑے شہر ،ایئرپورٹوں اور اہم عسکری تنصیبات پر وہ ’امارت اسلامی‘ کے جھنڈے گاڑ چکے تھے۔ نیٹو افواج اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ افغانستان سے رخصت ہوچکی تھیں۔ ساڑھے تین لاکھ افغانوں پر مشتمل فوج، جس کو امریکا نے اربوں ڈالر خرچ کر کے تیار اور بہترین اسلحے سے لیس کیا تھا، طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔امریکی کٹھ پتلی صدر اشرف غنی سمیت اُن کی پوری کابینہ ملک سے فرار ہو گئی اور بغیر جنگ لڑے طالبان کابل میں داخل ہو گئے۔ گذشتہ تین سال میں ایک طویل عرصے کےبعد افغانستان میں امن و امان بحال رہا۔ ’داعش‘ تنظیم نے متعدد مقامات پر کئی خودکش حملے کیے، جس سے سیکڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔ لیکن اب وہ سلسلہ بھی تھم چکا ہے۔ داعش کی بیش تر قیادت ملک سے باہر نکل گئی ہے اور دیگر ممالک میں سرگرمِ عمل ہے ۔

ترقیاتی اُمور:


گذشتہ تین برسوں میں امارت اسلامی کے نمایاں ترقیاتی اُمور یہ ہیں:

۱-ملک میں مکمل امن و امان کی بحالی، جنگ کا خاتمہ، عوام کا تحفظ ،شاہراؤں کی حفاظت۔

۲- حکومتی رٹ کا قیام، کابل کی مرکزی حکومت کا پورے افغانستان پر مکمل کنٹرول ہے۔ ملک کے ۳۴ صوبوں اور ۴۰۰ اضلاع میں ایک ہی حکومت ہے۔ تمام صوبوں کے والی، اور بڑے چھوٹے اضلاع کے حکام اس کے سامنے جواب دہ ہیں، اور اس کا حکم پورے ملک میں نافذ ہوتا ہے۔

۳- قانون کی بالادستی اور لاقانو نیت کے خاتمے کے بعد پورے ملک میں شرعی قوانین نافذ ہیں۔ عدالتیں قائم ہیں اور وہ روزمرہ کے مسائل اور تنازعات کا بروقت فیصلہ کرتی ہیں۔ عالمی ادارے نے کابل کو اس خطے کا سب سے محفوظ شہر قرار دیا ہے جہاں جرائم کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

۴- بدعنوانی اورکرپشن کا ہر سطح پر سد باب کردیا گیا ہے۔ رشوت ستانی ،بھتہ خوری، کمیشن وغیرہ جیسے مسائل جو گذشتہ حکومتوں میں عام تھے، ناپید ہیں۔ تمام حکومتی محصولات کی وصولی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ بجلی کے بل اور دیگر خدمات پر ادائیگی پوری طرح لی جاتی ہے، جس سے حکومت کو مستحکم بنانے میں بہت مدد ملی ہے ۔

۵- ملک میں اقتصادی ترقی، تجارت کے فروغ اور معاشی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر جاری ہیں۔ افغان کرنسی کو عالمی بینک نےاس خطے کی مضبوط ترین کرنسی قرار دیا ہے۔ افغان تاجر بغیر کسی روک ٹوک کے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر آزادانہ طور پر کاروبار کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی کمپنیاں اور کاروباری افراد بھی افغانستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

۶- ملک میں بلاامتیاز یکساں طور پر ترقیاتی کام زور و شور سے جاری ہیں ۔ پہلے سال چھوٹے پیمانے پر کاموں کا آغاز ہوا،لیکن اب پورے ملک میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ شاہراؤں کی تعمیر ہو رہی ہے، ڈیم بن رہے ہیں اور سالانگ ٹنل کی تعمیرِ نو ہو چکی ہے۔ ۲۸۰کلومیٹر طویل قوش ٹپہ نہر بن رہی ہے، جو کہ شمالی صوبوں کی لاکھوں ایکڑ زمین کو سیراب کرے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام ترقیاتی کام خود انحصاری کی بنا پر کیے جا رہے ہیں۔ کوئی غیر ملکی قرضہ نہیں لیا گیا۔ بیرونی ممالک مثلاً چین اگر کسی منصوبے میں شریک ہے، تو وہ امداد کے طور پر کام کر رہا ہے۔

۷- مرکزی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے ملک کی ترقی اور معاشی کنٹرول میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، خاص طور پر قیمتوں کے کنٹرول اور درآمدات و برآمدات پر نظر رکھتے ہیں اور جو اقدام ضروری ہے وہ کرتے ہیں۔ غیر ملکی کرنسی کی آمد اور خروج پر بھی دسترس ہے ۔ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود ملک میں بینکاری کا نظام جاری ہے اور سودی نظام کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔

نوبل انعام یافتہ محمد یونس بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ مقرر



بنگلہ دیش میں نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو مُلک کا عبوری سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ 84 سالہ محمد یونس کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر کے طور پر تقرری ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ایک روز قبل حسینہ واجد کئی ہفتوں سے جاری بدامنی کے بعد ملک چھوڑ کر روانہ ہو گئی تھیں۔

اگرچہ پروفیسر یونس کو مائیکرو لونز کے استعمال پر سراہا جاتا رہا ہے، لیکن حسینہ واجد نے انھیں عوام دشمن قرار دیا اور حال ہی میں ایک مقامی عدالت نے انھیں سیاسی محرکات پر مبنی کیس میں قید کی سزا سنائی۔

احیائے اسلام کی تحریکیں عہد بعہد ۔ جاوید احمد غامدی



 ٹائم اور موضوعات کی فہرست

0:03 | خارجی تحریک
51:56 | شیعہ تحریک
2:04:07 | تصوف کی تحریک
2:58:19 | تحریک خلافت
3:34:02 | جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کی تحریک
4:13:02 | امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال
5:44:12 | المورد کا تعارف اور موجودہ صورت حال
7:01:08 | خلافت یا جمہوریت
7:27:37 | ہماری دینی ذمہ داریاں
8:36:26 | سوال و جواب


بنگلہ دیش میں کرفیو: فوج بلانے کے انتہائی اقدام کی ضرورت کیوں پڑی؟

اکبر حسین
,بی بی سی بنگلہ | 21 جولائی 2024

بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکمران سیاسی جماعت کے کارکنوں کے درمیان ہونے والی جھڑپیں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔

یہ بنگلہ دیش کی تاریخ کے بدترین مظاہرے ہیں جن میں اتنے کم عرصے میں ایک سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس ملک میں سیاسی حالات پر قابو پانے کے لیے کرفیو لگانا یا پرتشدد مظاہرے کوئی نئی بات نہیں۔ جب جب تشدد بڑے پیمانے پر پھیلتا ہے تب تب حکومت کرفیو کو آخری حربہ تصور کرتی آئی ہے۔

ملک میں آخری کرفیو 2007 میں نگراں حکومت کے دورِ میں لگایا گیا تھا اور اس وقت بھی وہ بھی طلبہ کے احتجاج پر قابو پانے کے لیے تھا۔

ملک بھر میں جاری حالیہ مظاہرے مزید شدت اختیار کر گئے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔

مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پہلے دن صرف پولیس کو تعینات کیا گیا تھا لیکن ایک موقع پر بارڈر گارڈ فورس بی جی بی کو بھی ان کی مدد کے لیے بلایا گیا۔ اس کے باوجود حالات قابو میں نہیں آ سکے اور اب کرفیو لگا کر فوج کو تعینات کر دیا گیا ہے۔

حکمران جماعت عوامی لیگ کے جنرل سکریٹری عبیدالقادر کے مطابق ’یہ یقینی طور پر کرفیو ہے جس میں قواعد پر عمل کیا جائے گا اور ضرورت پڑنے پر دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔‘

ڈھاکہ میں 14 جماعتوں کے اجلاس کے بعد کرفیو نافذ کرنے اور فوج کی تعیناتی کے فیصلے کے بارے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’مختلف مقامات پر حملے کئے گئے ہیں اور اہم ریاستی ڈھانچوں کو تباہ کر دیا گیا۔‘

متعدد محاذ اور حکمت عملی کا فہم

ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی | ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن | جولائی 2024 

 ’’سرمئی علاقے (Grey Area) میں آپ کا استقبال ہے!‘‘ جب میں اپنے طلبہ کو سیاسی اخلاقیات یا بین الاقوامی تعلقات کی اخلاقیات کا مضمون پڑھانا شروع کرتا ہوں، تو انھیں اس جملے سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ جب طلبہ پوچھتے ہیں: ’’سرمئی علاقہ کون سا ہے؟‘‘ تو جواب دیتا ہوں کہ ’’سیاسی عمل کا علاقہ عام طور سے سرمئی علاقہ ہوا کرتا ہے‘‘۔ 

ذہن میں اٹھنے والے ’مجرد مثالی خیالات‘ کو ٹھوس سیاسی عمل نہیں کہتے ہیں۔ سیاسی عمل تو ’خیال‘ کو ’یقینی‘ بنانے کا وہ فن ہے، جس میں ’مشترک علاقے‘ (Common Areas) وجود میں لائے جاتے ہیں اور زمان و مکان کی مساواتوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ سیاسی عمل مشترک علاقوں کے ذریعے ہی نتیجہ خیز ہوسکتا ہے، خواہ یہ اندرون میں ایک ملک کے شہریوں کے ساتھ ہو یا بیرون ملک، دوسرے ملکوں اور اداروں کے ساتھ ہو۔ بہت سے مواقع پر مشترک علاقوں کی تشکیل کے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ناپسندیدہ چیزوں سے آنکھیں بند کرلی جائیں،ایک مخالف کے ساتھ مل کر دوسرے مخالف کے خلاف گٹھ جوڑ بنایا جائے اور کسی دشمن کے خلاف کسی دوسرے دشمن سے مدد لی جائے۔

’مشترک سیاسی میدانوں‘ کی تشکیل ایک دین، ایک مسلک یا ایک متفق علیہ نظریے کی حدوں تک محصور نہیں رہتی ہے، کیوں کہ اس پر حکمرانی ’معتبر مصالح مرسلہ‘ کے اسلامی قانون کی ہوتی ہے۔ یہ قانون شرطوں سے بوجھل نہیں ہوتا ہے، اس میں صرف اخلاق و مصالح کے ضوابط کی پابندی ضروری ہوتی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میدان میں ہمارے لیے رہنما سیاسی اصول مقرر کیے ہیں۔ آپؐ نے قریش کے مشرکین کے ظلم و استبداد سے بچنے کے لیے ایمان نہ لانے والے قریش مکہ ہی سے اپنے چچا ابوطالب کے مقام و منصب میں پناہ لی۔ اپنے ساتھیوں کو حبشہ کے عیسائی بادشاہ کے پاس بھیجا تاکہ مکہ کے کافروں کے مظالم سے نجات پانے کے لیے وہ اس کے یہاں پناہ گزین ہوجائیں۔ عبداللہ بن اریقط کو اپنے سفر ہجرت میں گائیڈ کے طور پر ساتھ لیا، ’’اس وقت وہ اپنی قوم کے مذہب کے مطابق مشرک تھے‘‘۔ (صحیح بخاری)

’عظیم تعمیرنو منصوبہ‘ اور مستقبل کی دُنیا

حسان احمد | ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن | جولائی 2024

 گذشتہ صدی کے آخر میں ’نئے عالمی نظام‘ [New World Order]، ’تہذیبوں کے تصادم‘ [Clash of Civilization] اور اختتام تاریخ [End of History] کی بحثوں کا شور برپا تھا۔ لیکن گذشتہ کچھ عرصے میں مغرب میں ’عظیم تعمیرِنو‘ [The Great Reset] کی بحث نہ صرف پوری قوت سے جاری ہے بلکہ دنیا کے طاقت ور افراد کھل کر اس کے حق میں یا مخالفت میں اپنی اپنی رائے کا اظہار بھی کررہے ہیں بلکہ اپنی دولت اور اثرورسوخ کے بل بوتے پر اپنے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں بھی لگے ہیں۔

دنیا کے مال دار ترین امریکی سیٹھ ایلون مسک نے گذشتہ دنوں اپنی ایکس پوسٹ میں کہا :

The True battle is Extinctionists who want a holocaust for all of Humanity. Vs Expansionists who want to reach the stars and Understand the Universe.

اصل لڑائی دو قوتوں کے درمیان ہے: ’معدومیت پسند‘ ،کہ جو پوری انسانیت کے لیے ہولوکاسٹ چاہتے ہیں، اور’ توسیع پسند‘، کہ جو ستاروں تک پہنچنا اور کائنات کو سمجھنا چاہتے ہیں۔

یہ ذومعنی ’ٹویٹ‘ یا ’پوسٹ‘ گذشتہ کئی عشروں سے جاری 'تہذیبی تصادم کے تناظر میں نظر آئے گی، لیکن ایلون مسک نے اگلے ٹویٹ میں اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا:

Now Imagine if the Extinctionist philosophy is programmed into Al- No need to imagine - this is already the case with Gemini and ChatGPT.

اب ذرا تصور کریں کہ اگر ’معدومیت پسندوں‘ کے فلسفے کو ’مصنوعی ذہانت‘ [کے پروگرام] میں شامل کردیا جائے۔ [بلکہ] تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ کام جیمینی [گوگل کا ’اے آئی‘ پروگرام ] اور چیٹ جی پی ٹی [Chat GPT] پہلے ہی کررہے ہیں۔

ایلون مسک نے یہ پوسٹ ایک خبر کے جواب میں کی ہے، جس کے مطابق ایک مشہور انگریزی فلم [Planet of The Apes] کے اداکاروں نے ایک انٹرویو میں کہا: ’’یوں تو وہ فلم میں انسانوں کو بندروں سے بچاتے نظر آتے ہیں، لیکن حقیقی زندگی میں وہ بندروں کے ساتھ شامل ہونا پسند کریں گے، تاکہ بندروں کے ساتھ مل کر انسانوں کا خاتمہ کرسکیں کیونکہ انسانوں نے دنیا کو برباد کردیا ہے۔ بظاہر تو یہ پوری گفتگو ہی بے معنی اور بےتکی لگتی ہے۔ لیکن صورتِ حال اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ ایلون مسک نے ہنسی مذاق کے ماحول میں ہونے والی اس گفتگو کے پیچھے اُس اصل سوچ پر تنقید کی ہے، جو زمین کے بچائو کے لیے انسانوں کے خاتمے کی حامی ہے۔

افغان پولیس افسر اور طالبان کمانڈر کی دشمنی دوستی میں کیسے بدلی ؟

یماں بریز
طالبان کمانڈر بریگیڈؑ یئرحضرت محمود  اور
سابق افغان پولیس آفیسر ناصر خان سلیمان زئی
بی بی سی  افغانستان
10 جولائی 2024

’ہم اب بھائیوں کی طرح ہیں‘: افغان پولیس افسر اور طالبان کمانڈر کی دشمنی دوستی میں کیسے بدلی

20 سال تک یہ دونوں ایک دوسرے کے حریف تھے، ہر وقت مسلح اور قتل کرنے کو تیار۔

لیکن اب 50 سالہ طالبان کمانڈر حضرت محمد محمود اور ناصر خان سلیمان زئی، جو افغان پولیس میں اعلی عہدے پر فائز ہوا کرتے تھے، کابل کی پولیس اکیڈمی میں اکھٹے کام کرتے ہیں۔

چمکتے دمکتے یونیفارم میں ملبوس بریگیڈیئر محمود نے اپنے ساتھی کے ہمراہ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اب ہم بھائیوں کی طرح ہیں۔‘

یہ دو ایسے افراد کے درمیان حیران کن حد تک قربت کا تعلق بن چکا ہے جو کبھی ایک دوسرے کے دشمن ہوا کرتے تھے۔افغانستان میں دو دہائیوں کی خون ریزی کے بعد وہ ایک ہی یونیفارم پہنتے ہیں، ایک دفتر میں بیٹھتے ہیں، پولیس کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہیں اور روزانہ چائے کے وقفے میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر خوش گوار لمحات کا لطف اٹھاتے ہیں۔

سید روح الله موسوی خمینی

سید روح‌ اللہ موسوی خمینی (1902-1989ء)، امام خمینی کے نام سے مشہور، شیعہ مرجع تقلید اور ایران کے اسلامی انقلاب کے رہبر اور بانی ہیں۔ آپ نے سنہ 1962ء سے ایران میں پہلوی نظام بادشاہت کے خلاف علی الاعلان جدوجہد شروع کی۔ حکومت وقت نے دو مرتبہ آپ کو گرفتار کیا۔ دوسری مرتبہ آپ کو پہلے ترکی اور پھر عراق جلاوطن کردیا۔ حوزہ علمیہ نجف میں 13 سال تک انقلابی افراد کی قیادت کی اور ساتھ ہی دینی علوم کی تدریس اور تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایران میں حکومت کے خلاف عوامی تحریکوں میں تیزی آنے کے بعد یکم فروری سنہ 1979ء کو آپ ایران واپس آئے۔ 11 فروری سنہ 1979ء کو اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اپنی عمر کے آخری لمحات تک اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر اور قائد رہے۔
سید روح اللہ موسوی خمینی ؒ

ولایت مطلقہ فقیہ آپ کا سب سے اہم سیاسی نظریہ ہے جو تشیع کے اعتقادات پر مبنی ہے۔ آپ نے ایران کی اسلامی حکومت اور اس کے آئین کو اسی نظریے کے مطابق تشکیل دینے کی کوشش کی۔ امام خمینی کی نظر میں اسلامی حکومت کے قیام کا فلسفہ ہی فقہ اور شریعت کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ فقہ کے بارے میں اسی نظریے کی بنا پر آپ فقہ کے روایتی ڈھانچے کو محفوظ رکھتے ہوئے اس میں جدت پسندی کے قائل تھے۔ اجتہاد میں زمان و مکان کی تاثیر کا نظریہ اور بعض دیگر مؤثر فتوے اسی نقطہ نظر کا نتیجہ ہیں۔

دنیا کے تمام مسلمان خاص طور پر شیعہ آپ کے ساتھ والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ آپ کے جنازے کی تشییع میں تقریباً ایک کروڑ افراد نے شرکت کی جو اب تک پوری دنیا میں تشییع جنازہ کا سب سے بڑا اجتماع شمار کیا جاتا ہے۔ ہر سال آپ کے مرقد پر برسی منائی جاتی ہے جس میں سیاسی اور مذہبی شخصیات شرکت کرتی ہیں۔

آپ حوزہ علمیہ کے رائج علوم یعنی فقہ اور اصول کے علاوہ اسلامی فلسفہ اور عرفان نظری میں بھی صاحب نظر اور صاحب تالیف تھے۔ اسی طرح آپ کا شمار علمائے اخلاق میں بھی ہوتا تھا اور حوزہ علمیہ قم میں تدریس کے دوران آپ مدرسہ فیضیہ میں درس اخلاق بھی دیا کرتے تھے۔ آپ نہایت سادہ زیست اور زاہدانہ طریقت کے مالک تھے۔

جدید ایران کا سیاسی نظام

ایران کا سیاسی نظام کسی کے لیے پیچیدہ ہے تو کسی کے لیے غیر معمولی۔ اس میں جدید دینی طرز حکومت کو جمہوریت کے ساتھ ایک منفرد انداز میں ملایا گیا ہے۔ایران میں صدر اور پارلیمان کو تو لوگ ہی منتخب کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ غیر منتخب شدہ اداروں کا ایک نیٹ ورک قائم ہے جس کی سربراہی رہبر اعلیٰ کرتے ہیں۔


سپریم لیڈر (رہبر اعلیٰ)

ایران کے سیاسی نظام میں سب سے طاقتور عہدہ رہبر اعلیٰ یا سپریم لیڈر کا ہے اور اس عہدے پر آج تک صرف دو لوگ ہی آ سکے ہیں۔ پہلی بار یہ عہدہ سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد آیت اللہ روح اللہ خمینی کو ملا تھا اور ان کے بعد اس پر موجودہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای آئے تھے۔

ایرانی حکمران رضا شاہ پہلوی کی حکومت گِرانے کے بعد خمینی ؒنے اس عہدے کو ایرانی سیاسی ڈھانچے میں سب سے اہم منصب بنایا تھا۔ سپریم لیڈر ایرانی دفاعی فورسز کا کمانڈر اِن چیف بھی ہوتے ہیں اور ملک میں سکیورٹی کے معاملات پر نگرانی رکھتے ہیں۔ وہ عدلیہ کے سربراہ، اثر و رسوخ رکھنے والی نگہبان شوریٰ کے نصف ممبران، نماز جمعہ کے امام اور سرکاری ٹی وی و ریڈیو نیٹ ورکس کے سربراہان کو تعینات کرتے ہیں۔ اس رہبر اعلیٰ کے کنٹرول میں ایسے اربوں ڈالرز کے خیراتی ادارے بھی ہوتے ہیں جو ایرانی معیشت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ سنہ 1989 میں خمینی کی موت کے بعد علی خامنہ ای سپریم لیڈر بنے تھے۔ گذشتہ عرصے میں انھوں نے اپنی پوزیشن اور طاقت کو مستحکم کیا ہے اور حکمرانی کے اس نظام کو درپیش چیلنچز کو دبا کر رکھا ہے۔

صدر

ایران میں ایک صدر کو چار سال کی مدت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے، اور کوئی بھی شخص مسلسل ادوار کے بعد تیسری بار صدر نہیں بن سکتا۔ آئین میں اس عہدے کو ملک میں دوسرا سب سے بڑا عہدہ قرار دیا گیا ہے۔ ایرانی صدر ایگزیکٹیو (امور کی انجام دہی کے ذمہ داران) کا سربراہ ہوتا ہے۔ صدر کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں آئین کی عملداری یقینی بنائی جائے۔ مقامی پالیسی اور خارجی اُمور پر صدر کا اثر و رسوخ ہوتا ہے لیکن تمام ریاستی معاملات پر سپریم لیڈر کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ تمام صدارتی امیدواروں کو نگہبان شوریٰ سے منظوری درکار ہوتی ہے۔ یہ عالم دین اور قانونی ماہرین پر مبنی ایک ادارہ ہے جس میں 12 ممبران ہوتے ہیں۔ سنہ 2021 میں ہونے والے ایرانی صدارتی انتخاب کے لیے 590 افراد نے امیدوار بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا مگر صرف سات افراد کے کاغذات نامزدگی کو منظور کیا گیا۔ خواتین کو صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں ملی۔

شیعہ مراجع کی تاریخ، مذہبی حیثیت اور سیاسی اثرورسوخ

علی عثمان قاسمی اور سیمون وولف گانگ فوکث
محقق و مورخ
5 جون 2020 بی بی سی اردو 

آیت اللہ خمینی کے بعد جہاں ایران میں آیت اللہ خامنہ ای مقبول مرجع ہیں وہیں عراق کے آیت اللہ سیستانی کو ملک اور ملک سے باہر شیعوں میں مقبول مرجع تسلیم کیا جاتا ہے

لاہور کے اُردو بازار میں یوں تو بیشتر دوکانیں مدارس اہل سُنت کی کُتب نصاب، تفاسیر، قرآن اور شروحِ حدیث کی خرید و فروخت کا مرکز ہیں مگر چند ایک دکانیں ایسی بھی ہیں جہاں شیعہ فقہ، تاریخ اور تفسیر و حدیث سے متعلق کتب بھی دستیاب ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر وہ اُردو تراجم ہیں جو 1980 کی دہائی کے بعد پاکستان میں قائم ہونے والے شیعہ مدارس اور تحقیقاتی مراکز سے منسلک علما نے کیے ہیں۔ ان علما کی غالب اکثریت ایرانی شہر قُم سے فارغ التحصیل ہے۔

اگر آپ شیعہ کُتب کے تاجر سے توضیح المسائل، جو روزمرّہ کے معاملات، کاروبار، نجاست و پاکیزگی کے مسائل کے حوالے سے فقہی آرا کا مجموعہ کہلاتی ہے، طلب کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ دکاندار آپ سے دو سوالات پوچھے: آپ کِس کی تقلید میں ہیں۔ یعنی فقہی معاملات میں کِس مجتہد کے پیروکار ہیں۔

کتابی تعریف کے مطابق ہر اثناعشری شیعہ کا کِسی زندہ مجتہد کی تقلید کرنا واجب ہے۔ (اگرچہ کچھ ترامیم اور اضافے کے ساتھ اُس مجتہد کی تقلید بھی جاری رکھی جا سکتی ہے جو وفات پا چکا ہو)۔

اگر آپ کِسی کے مقلد ہیں جیسے کہ آیت اللہ سیستانی تو دکان دار آپ کو ان کی توضیح المسائل ہاتھ میں تھما دے گا اور اگر آپ کِسی کی تقلید میں نہیں تو دکان دار اگلا سوال پوچھے گا کہ آیا آپ کو کِسی کٹر مجتہد کی فقہی آرا درکار ہیں یا معتدل کی! اگر جواب کٹر مجتہد ہے تو پھر آپ کو ایران کے آیت اللہ خمینی یا آیت اللہ خامنہ ای کی توضیح المسائل دی جائے گی۔