المعہد العلمی للفکر الاسلامی کا بین اقوامی سیمینار (کوالالمپور ،جولائی1984)مسلم نوجوانوں میں ایک نئے فکری دور کی علامت ہے۔معہد کے فکر کا خلاصہ اس کے تعارفی پمفلٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ موجودہ زمانے میں امت مسلمہ کی ناکامی کا سبب خود اس کے اندر ہے، نہ کہ اس کے باہر۔وہ سبب ہے―ضروری بنیاد تیار کیے بغیر عملی اقدامات کرنا۔ معہد کے نزدیک پہلی ضروری چیز وہ ہے جس کو اسلامیۃالمعرفۃ (Islamization of Knowledge) کے لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔کہا گیا ہے کہ امت کے موجودہ بحران کو حل کرنے کے سلسلے میں پہلاقدم یہ ہے کہ علم کو اسلامی بنایا جائے:
The first step toward a genuine solution of present crisis of the Ummah is the Islamization of knowledge.
تقریباً 12 سال پہلے میں نے ایک مقالہ لکھا تھا۔یہ مقالہ عربی زبان میں اگست 1973 میں شائع ہوا۔اس کا عنوان:
لا بُدَّ مِنَ الثَّوْرَةِ الفِكْرِيَّةِ قَبْلَ الثَّوْرَةِ التَّشْرِيعِيَّةِ
اس مقالہ میں تفصیل سے یہ دکھایا گیا تھا کہ سیاسی یا قانونی انقلاب سے پہلے فکری انقلاب ضروری ہے۔امت کے عملی مسائل صرف اس وقت حل ہوں گے جب کہ ہم فکری انقلاب کے ذریعہ اس کے موافق فضا بنا چکے ہوں۔
یہاں میں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ عین وہی بات ہے جو خود قرآن کی رو سے ہمارا اہم ترین اجتماعی فريضہ قرار پاتی ہے۔قرآن میں دو مقام پر (193;8:39:2) یہ حکم دیا گیا ہے ۔ سورہ البقرہ میں یہ الفاظ ہیں: وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ (2:193)۔ اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے۔
جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر کی تشریح سے معلوم ہوتا ہے،اس آیت میں فتنہ سے مراد شرک جارح ہے۔انھوں نے فرمایا کہ اس وقت اسلام تھوڑا تھا۔چنانچہ جب کوئی شخص دین توحید کو اختیار کرتا تو اہل شرک اسے ستاتے ۔کسی کو وہ قتل کر دیتے ،کسی کو زنجیروں میں باندھتے اور کسی کو عذاب دیتے۔یہاں تک کہ اسلام کی کثرت ہو گئی اور یہ صورت حال باقی نہ رہی کہ عقیدہ توحید کی بنا پر کسی کو ستایا جائے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4650)۔