کیا دنیا میں واقعی آٹھ ارب افراد موجود ہیں؟

اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق دنیا کی موجودہ آبادی 8.2 ارب ہے جو چند برسوں میں 10.8 ارب تک پہنچ جائے گی۔

11 جولائی کو شائع ہونے والی ’ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس‘ نامی اس رپورٹ کے مطابق ’دنیا میں لوگوں کی کل تعداد 2080 کی دہائی میں اپنے عروج پر ہو گی اور اس کے بعد آہستہ آہستہ کم ہونے لگے گی۔‘

رپورٹ میں مزید پیشگوئی کی گئی ہے کہ حالیہ برسوں میں پیدا ہونے والے لوگ اوسطاً 73.3 سال تک زندہ رہیں گے۔

واضح رہے کہ یہ عمر سنہ 1995 میں پیدا ہونے والوں کی عمر کے مقابلے میں 8.4 سال زیادہ ہے۔

اقوام متحدہ تقریباً نصف صدی سے اپنے ارکان ممالک میں ہونے والی مردم شماری، ان ملکوں میں شرح پیدائش اور اموات اور دیگر ڈیموگرافِک سروے کو جمع کر کے عالمی آبادی کا تخمینہ لگاتا ہے لیکن کیا ہم ان اعدادوشمار پر یقین کر سکتے ہیں؟

دنیا کی کل آبادی کا پتا لگانا آسان نہیں‘

ماہر آبادیات (ڈیموگرافر) جیکب بژاک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دنیا میں لوگوں کی کل تعداد کا پتا لگانا آسان نہیں اور اس میں کمی بیشی کی گنجائش بھی موجود ہے۔‘

برطانیہ کی یونیورسٹی آف ساؤتھ ہیمپٹن کے پروفیسر بژاک نے بتایا کہ دنیا کی کل آبادی کے بارے میں آپ یقینی طور پر ایک ہی بات کر سکتے ہیں اور وہ یہ کہ اس میں شک کی کافی گنجائش ہے۔

واشنگٹن میں ’پاپولیشن ریفرنس بیورو‘ نامی تحقیقی تنظیم سے منسلک ماہر ڈاکٹر ٹوشیکو کنیڈا نے زور دیا کہ ہمارے پاس دنیا کی کل آبادی کے بارے میں جاننے کے لیے ’جادو کا کوئی چراغ موجود نہیں۔‘

تاہم اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ صرف اندازوں کی مدد سے ہی دنیا کی آبادی کا پتا لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر کنیڈا نے بتاہا کہ ’یہ بہت پیچیدہ کام ہے۔ ہمیں اپنے تجربے، علم اور اپنے پاس موجود ہر چھوٹی سے چھوٹی معلومات کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے۔‘

اس کے علاوہ مسلسل ان تخمینوں کو اپ ڈیٹ بھی کیا جاتا ہے۔ جیسے ایک دہائی پہلے اقوام متحدہ نے جو پیشگوئی کی تھی، اس کے برعکس اس نے اب کہا ہے کہ سنہ 2100 تک دنیا کی آبادی چھ فیصد کم ہو گی۔

تاہم ان تبدیلیوں کے باوجود آبادی سے متعلق اعدادوشمار حکومت اور پالیسی بنانے والوں کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ وہ ان اعداد و شمار کے مطابق مستقبل کے لیے فیصلہ سازی کرتے ہیں۔

اس پس منظر میں اقوام متحدہ کے تارہ ترین اعداد و شمار ہمیں کیا بتاتے ہیں؟

مزید تین دہائیوں تک آبادی میں اضافہ ہو گا‘

سنہ 2024 کے ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس کے مطابق دنیا میں ہر چار افراد میں سے ایک شخص ایسے ملک میں رہتا ہے جس کی آبادی پہلے سے ہی اپنے عروج پر ہے۔

تاہم 126 ممالک اور علاقوں میں مزید تین دہائیوں کے لیے آبادی میں اضافہ دیکھنے میں آئے گا اور ان میں دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ممالک شامل ہیں جیسے انڈیا، انڈونیشیا، نائجیریا، پاکستان اور امریکہ۔

اس رپورٹ میں ایک اور قابلِ ذکر بات سامنے آئی ہے کہ دنیا میں عمر کا دورانیہ پھر سے بڑھ رہا ہے جبکہ یہ شرح کورونا کی وبا کے دوران تھوڑی کم ہوئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق ’موت کی شرح میں مزید کمی کے نتیجے میں سال 2054 میں عالمی سطح پر لوگوں کی عمر اوسطاً 77.4 سال ہونے کا امکان ہے۔‘

امیگریشن کی وجہ سے آبادی میں اضافہ

دنیا کے مختلف حصوں میں آبادی میں اضافہ بہت مختلف نظر آتا ہے۔ اگلے 30 سال میں انگولا، سینٹرل افریقی ریپبلک، کانگو، نائجر اور صومالیہ جیسے ممالک میں پیدائش کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔

پیشگوئی ہے کہ ان ممالک کی آبادی دگنی ہو جائے گی۔

پروفیسر بژاک نے بتایا کہ ’لوگوں میں نقل مکانی کا رجحان بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں آبادی دوبارہ سے تقسیم ہو رہی ہے لیکن زیدہ تر ممالک ترک وطن لوگوں کو گنتی میں شامل نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو دہائی میں صرف ایک مرتبہ جب وہ مردم شماری کرتے ہیں۔ اس میں بھی وہ باریکی میں نہیں جاتے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’کچھ ممالک ہیں جو آبادی کے لیے مخصوص رجسٹرز استعمال کرتے ہیں لیکن ایسے بہت کم ممالک ہیں، ان میں سے زیادہ تر ممالک ترقی یافتہ ہیں جسیے یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ۔‘

پروفیسر بژاک نے مزید وضاحت کی کہ کچھ ممالک متبادل طریقوں سے یہ اعداد و شمار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’اس کی ایک مثال موبائل فونز میں مقام پتا لگانے والی ٹیکنالوجی ہے تاہم اس طریقہ کار کو ابھی مزید بہتر ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس کی مدد سے حاصل کیے اعداد و شمار کو صحیح طریقے سے سمجھ سکیں۔‘

ڈاکٹر کنیڈا نے بتایا کہ نقل مکانی کے عمل کو جانچنا اچھا عمل ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ شرح پیدائش سے زیادہ تیزی سے بدل سکتا ہے۔

’میں یہ کبھی نہیں سوچ سکتا کہ کسی ملک کی شرح پیدائش صفر ہو سکتی ہے تاہم وہ ممالک جہاں کم سے کم شرح پیدائش ہو، وہاں بھی آبادی اتنی تیزی سے نہیں بدلتی تاہم جنگ یا قدرتی آفات کی وجہ سے ہونے والی نقل مکانی کے بعد آبادی راتوں رات بدل سکتی ہے۔‘

اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن کی کلیئر مینوزی کہتی ہیں کہ دنیا میں لوگوں کی تعداد پتا لگانے کے لیے بین الاقوامی نقل مکانی پر انحصار کرنا اتنا بھی صحیح نہیں۔

انھوں نے کہا کہ اکیلے نقل مکانی ’دنیا کی آبادی میں زیادتی یا کمی کا باعث نہیں ہوتی اور اسے اس پرانے مسئلے کا حل نہیں سمجھنا چاہیے۔ اصل میں مسئلہ ڈیموگرافِک تبدیلی کا ہے۔‘

مردم شماری کیوں اہمیت رکھتی ہے؟

مردم شماری کے ذریعے آبادی کا پتا لگانے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ تاریخ 4000 قبل مسیح میں شروع ہوئی جب میسوپوٹیمیا (جو تقریباً موجودہ عراق ہے) میں بابلی سلطنت نے پہلی مردم شماری کی۔

اس وقت سے اب تک مردم شماری کی ٹیکنالوجی میں کافی تبدیلیاں آ چکی ہیں لیکن یہ کام ابھی بھی اتنا آسان نہیں۔

ڈاکٹر کنیڈا کہتے ہیں کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک سمیت تمام ممالک کو ’چیلنجز کا سامنا ہے جیسے لوگوں کا حکومت پر بڑھتا ہوا عدم اعتماد اور پرائیوسی سے متعلق خدشات۔‘

’اعداد و شمار جمع کرنے پر خرچ ہونے والے ہر ڈالر پر 32 ڈالر کا فائدہ‘

ڈاکٹر کنیڈا نے کہا کہ اعدادوشمار جمع کرنے والی تنظیموں کے بجٹ میں کٹوتیوں کے بعد مسئلہ اور سنگین ہو گیا ہے کیونکہ آبادی کے اعداد و شمار جمع کرنا ایک پیچیدہ کام ہے اور اس میں بہت خرچہ آتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ مسئلہ ہے جبکہ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں یہ مزید بڑا چیلنج ہے تاہم اقوام متحدہ کے مطابق ’ڈیٹا کے اس نظام کو بہتر کرنے میں جو ایک ڈالر خرچ ہوتا ہے اس کے نتیجے میں 32 ڈالر معاشی فوائد کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔‘

اقوام متحدہ تجویز کرتا ہے کہ دنیا کے سب سے کمزور طبقے کے اعداد و شمار جمع کرنے کو ترجیح دینی چاہیے۔ 
ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس کی یہ تازہ ترین رپورٹ اقوام متحدہ کے آبادی سے متعلق 28ویں ایڈیشن کا حصہ ہے۔ اس میں سنہ 1950 سے لے کر سنہ 2023 کے دوران مختلف ممالک کی تقریباً 1700 مردم شماریوں کے اعدادوشمار شامل ہیں۔


یونیورسٹی آف واشنگٹن کے ’انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میٹرکس اور ایویلوئیشن‘ (آئی ایچ ایم ای) اور آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کی ’آئی آئی اے ایس اے وٹگنسٹائین‘ نامی تنظیموں نے عالمی آبادی کے اس تخمینے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔