فکری انقلاب ۔ مولانا وحید الدین خان

المعہد العلمی للفکر الاسلامی کا بین اقوامی سیمینار (کوالالمپور ،جولائی1984)مسلم نوجوانوں میں ایک نئے فکری دور کی علامت ہے۔معہد کے فکر کا خلاصہ اس کے تعارفی پمفلٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ موجودہ زمانے میں امت مسلمہ کی ناکامی کا سبب خود اس کے اندر ہے، نہ کہ اس کے باہر۔وہ سبب ہے―ضروری بنیاد تیار کیے بغیر عملی اقدامات کرنا۔ معہد کے نزدیک پہلی ضروری چیز وہ ہے جس کو اسلامیۃالمعرفۃ (Islamization of Knowledge) کے لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔کہا گیا ہے کہ امت کے موجودہ بحران کو حل کرنے کے سلسلے میں پہلاقدم یہ ہے کہ علم کو اسلامی بنایا جائے:

The first step toward a genuine solution of present crisis of the Ummah is the Islamization of knowledge.

تقریباً 12 سال پہلے میں نے ایک مقالہ لکھا تھا۔یہ مقالہ عربی زبان میں اگست 1973 میں شائع ہوا۔اس کا عنوان:

لا بُدَّ مِنَ الثَّوْرَةِ الفِكْرِيَّةِ قَبْلَ الثَّوْرَةِ التَّشْرِيعِيَّةِ

اس مقالہ میں تفصیل سے یہ دکھایا گیا تھا کہ سیاسی یا قانونی انقلاب سے پہلے فکری انقلاب ضروری ہے۔امت کے عملی مسائل صرف اس وقت حل ہوں گے جب کہ ہم فکری انقلاب کے ذریعہ اس کے موافق فضا بنا چکے ہوں۔

یہاں میں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ عین وہی بات ہے جو خود قرآن کی رو سے ہمارا اہم ترین اجتماعی فريضہ قرار پاتی ہے۔قرآن میں دو مقام پر (193;8:39:2) یہ حکم دیا گیا ہے ۔ سورہ البقرہ میں یہ الفاظ ہیں: وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ (2:193)۔ اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے۔

جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر کی تشریح سے معلوم ہوتا ہے،اس آیت میں فتنہ سے مراد شرک جارح ہے۔انھوں نے فرمایا کہ اس وقت اسلام تھوڑا تھا۔چنانچہ جب کوئی شخص دین توحید کو اختیار کرتا تو اہل شرک اسے ستاتے ۔کسی کو وہ قتل کر دیتے ،کسی کو زنجیروں میں باندھتے اور کسی کو عذاب دیتے۔یہاں تک کہ اسلام کی کثرت ہو گئی اور یہ صورت حال باقی نہ رہی کہ عقیدہ توحید کی بنا پر کسی کو ستایا جائے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4650)۔

اس سے معلوم ہوا کہ یہاں فتنہ سے وہی چیز مراد ہے جس کو ایذارسانی (persecution) کہا جاتا ہے۔یعنی مختلف عقیدہ رکھنے کی بنا پر کسی کو ستانا۔قدیم زمانہ میں شرک کو غلبہ حاصل تھا۔چنانچہ اہل شرک ہزاروں سال تک یہ کرتے رہے کہ وہ توحید کا عقیدہ رکھنے والوں کو ستاتے: وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ 85:8))۔اور ان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ ایمان لائے اللہ پر جو زبردست ہے، تعریف والا ہے۔

پیغمبر آخر الزماں کا مشن جس کو آپ نے اپنی زندگی میں مکمل فرمایا ، وہ یہ تھا کہ آپ مذہبی جبر کے ماحول کو ختم کر دیں۔وہ شرک کے عمومی غلبہ کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیں۔تا کہ خدا کے بندوں کے لیے توحید کا عقیدہ اختیار کرنے میں جو چیز رکاوٹ بن رہی ہے وہ رکاوٹ باقی نہ رہے۔اسی لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں فرمایا:
وَأَنَا ‌أَحْمَدُ، ‌وَأَنَا ‌الْمَاحِي ‌الَّذِي ‌يَمْحُو ‌اللَّهُ ‌بِيَ ‌الْكُفْرَ (صحیح البخاری حدیث نمبر 4880)۔میں احمد، میں مٹانے والا ہوں، میرے ذریعہ سے اللہ کفر کو مٹائے گا۔

موجودہ زمانہ میں شرک کی جارحانہ حیثیت ختم ہو چکی ہے۔مگر غور کیجئے تو اصل صورت حال دوبارہ ایک نئی شکل میں لوٹ آئی ہے۔آج دوبارہ انسان کے لیے دین توحید اختیار کرنے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہو گئی ہیں۔مگر آج دین سے روکنے والا عنصر اپنا کام فکری طاقت کےز و رپر کر رہا ہے، نہ کہ شمشیری طاقت کے زور پر۔

آج کا فتنہ جدید ملحدانہ افکار کا فتنہ ہے۔جو کام قدیم زمانہ میں شرک کرتا تھا وہ آج ملحدانہ افکار انجام دے رہے ہیں۔آج کی دنیا میں ایسے افکار غالب آگئے ہیں جو خدا کے وجود کو مشتبہ قرار دیتے ہیں۔جو وحی والہام کو فرضی بتاتے ہیں،جو آخرت کو بے بنیاد ثابت کر رہے ہیں۔اس طرح یہ افکار دین توحید کو اختیار کرنے میں مانع بنے ہوئے ہیں۔آج کا فتنہ یہ ہے کہ خود سوچنے کے انداز کو بنیادی طور پر بدل دیا گیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کا انسان یا تو منکربن گیا ہے یا وہ کم از کم متشکک (agnostic)ہے۔

یہ ایک قسم کا فکری حملہ (intellectual invasion) ہے۔ہم کو اس حملہ کا مقابلہ کرنا ہے۔اب ہمیں دوبارہ وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ (8:39)پر عمل کرنا ہے۔یعنی ان سے مقابلہ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔ مگر یہ عمل شمشیر کے ذریعہ نہیں ہو گا،بلکہ افکار کی طاقت کے ذریعہ ہو گا۔ملحدانہ افکار کا جواب ہمیں توحیدی افکار سے دینا ہے۔آج ضرورت ہے کہ اعلیٰ علمی استدلال سے جدید ملحدانہ افکار کو بے بنیاد ثابت کر دیا جائے۔ہماری یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک یہ نظریات اپنا غلبہ کھو نہ دیں اور توحید کا فکر وقت کا غالب فکر نہ بن جائے۔

غلبہ اور مغلوبیت کا یہ واقعہ اوّلاً فکری میدان میں ہو گا۔یہ اسی قسم کا ایک واقعہ ہو گا جیسا کہ ہم موجودہ زمانہ میں مغربی افکار کی مثال میں دیکھ رہے ہیں۔موجودہ زمانہ میں سائنسی علوم نے روایتی علوم پر غلبہ پایا ہے۔شہنشاہی نظریہ کے اوپر جمہوری نظریہ فایق ثابت ہوا ہے۔تخلیقی طرزِ فکر پر ارتقائی طرز فکر کو بالاتری حاصل ہے۔اجتماعی معیشت کے نظریہ کے مقابلہ میں انفرادی معیشت کا نظریہ دفاعی پوزیشن میں چلا گیا ہے۔یہ سب کے سب فکری غلبہ کے واقعات ہیں۔اسی نوعیت کا غلبہ ملحدانہ فکر پر مواحد انہ فکر کے لیے مطلوب ہے۔یہی غلبہ ملت کی اگلی تمام کامیابیوں کی تمہید ہے۔

اس سلسلے میں ایک اور اہم بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔وہ یہ کہ موجودہ زمانے میں ملحدانہ افکار کا غلبہ ان کی کسی جوہری اہمیت کی وجہ سے نہیں ہوا ہے۔یہ تمام تر صرف مغالطہ کے ذریعہ حاصل کیا گیا ہے۔موجودہ زمانے میں جو نئے سائنسی حقائق دریافت ہوئے وہ حقیقتاً قدرت خدا وندی کے بھیدوں کا اظہار تھے۔اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ دین توحید کے حق میں فطرت کے دلائل تھے مگر مسلمان مختلف اسباب سے جدید سائنسی علوم میں پیچھے ہو گئے۔وہ اس قابل نہ ہو سکے کہ ان علوم کو صحیح رخ دے سکیں۔اور ان کو دین کی تائید میں استعمال کریں۔ملحد علماء نے اس خلا سے فائدہ اٹھایا۔انھوں نے جدید معلومات کو غلط تعبیر کے ذریعہ اپنے حق میں استعمال کیا ۔جن واقعات سے دین توحید کا اثبات نکل رہا تھا،ان کو دین الحاد کی دلیل بنا دیا۔

اس کی ایک واضح مثال ارتقاء کا نظریہ ہے،جس نے موجودہ زمانے میں ملحدانہ فکر پیدا کرنے میں سب سے زیادہ اہم رول ادا کیا ہے۔زمینی طبقات کے مطالعہ کے دوران انسان کے علم میں یہ بات آئی کہ قدیم زمانہ کے حیوانات کے ڈھانچے مخصوص کیمیائی عمل کے نتیجہ میں پتھر کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔زمین کی کھدائی سے اس قسم کے بہت سے متحجرنمونے (fossils)جمع کیے گئے ۔ان پر ریڈیو ایکٹیوڈیٹنگ کا طریقہ استعمال کیا گیا تو تقریباً صحت کے ساتھ ان کی تاریخیں معلوم ہو گئیں۔یہ تحقیقات سو سال سے بھی زیادہ لمبے عرصے تک جاری ہیں۔یہاں تک کہ انسان اس پوزیشن میں ہو گیا کہ مختلف انواع حیات کے درمیان تاریخ کے اعتبار سے ترتیب قائم کر سکے۔

اس تاریخی ترتیب سے معلوم ہوا کہ وہ تمام مختلف انواع حیات جو آج زمین پر بظاہر بیک وقت نظر آرہی ہیں وہ سب زمین پر بیک وقت موجود نہیں ہوگئیں،بلکہ زمین پر ان کے ظہور میں ایک تاریخی ترتیب ہے،وہ یہ کہ سادہ انواع حیات سب سے پہلے ظہور میں آئیں۔اس کے بعد بتدریج زیادہ پےچیدہ انواع حیات ظہور میں آتی رہیں۔یہاں تک کہ بالآخر انسان ظاہر ہوگیا۔اس طرح واحد الخلیہ جاندار (single cellular animal) زمین پر وجود میں آئے ۔اور انسان اس حیاتیاتی ترتیب کے سب سے آخر میں ظاہر ہوا۔

نظریہ ارتقاء کی عمارت جن مشاہدات پر قائم کی گئی ہے ۔ان سب سے اہم مشاہدہ یہی ہے۔ نظریہ ارتقاء کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ ترتیب بتاتی ہے کہ زندگی کی مختلف قسمیں ارتقائی عمل کے ذریعہ ظہور میں آئیں،یعنی زندگی کا ہر اگلا فارم اپنے پچھلے فارم سے نکلتا رہا۔یہ ترقی ہر اگلی نسل میں جمع ہوتی رہی یہاں تک کہ اس کے آخری مجموعہ نے وہ اعلیٰ صورت اختیار کر لی جس کو انسان کہا جاتا ہے۔

مگر یہ سرا سر غلط تعبیر کا نتیجہ ہے، نہ کہ کسی حقیقی استدلال کا نتیجہ ۔خالص علمی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو جو بات مشاہدہ میں آئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ زمین پر انواع حیات کی موجودگی میں ایک زمانی ترتیب پائی جاتی ہے، نہ کہ انواع حیات ایک دوسرے کے بطن سے بطریق تناسل پیدا ہوتی چلی گئی ہیں۔

اصل مشاہدہ صرف تخلیق کی زمانی ترتیب کو بتا رہا تھا مگر غلط تعبیر کے ذریعہ اس کو زندگی کے ارتقائی ظہور کے ہم معنی بنا دیا گیا۔ارتقاء کے مشاہدات خالق (Creator) کی تردید نہیں کرتے،جیسا کہ خود چارلس ڈارون نے اپنی کتاب "اصل الانواع" میں تسلیم کیاہے۔بلکہ اگر یہ مشاہدات درست ہوں ،تو وہ خالق کے تخلیقی عمل کی ترتیب کو بتاتے ہیں۔

یہ مختصر جائزہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ موجودہ زمانے میں اسلام کے احیاء کی راہ کا پہلا بنیادی کام اسلام کا فکری غلبہ ہے۔مزید یہ کہ یہ فکری غلبہ بظاہر دشوار ہونے کے باوجود انتہائی آسان ہے۔اسلام کی پچھلی تاریخ میں اس سے ملتی جلتی مثالیں اس کے ثبوت کے لیے کافی ہیں۔

رسول کے زمانے میں عرب کے لوگ اسلام کے نہایت سخت دشمن کے روپ میں ظاہر ہوئے مگر صرف ربع صدی کی دعوتی جدوجہد نے بتایا کہ اس طاقت ور دشمن کے اندر طاقتور مددگار کی شخصیت چھپی ہوئی تھی۔اس طرح ساتویں صدی ہجری میں تارتاری قبائل اسلام کے خلاف نا قابل تسخیر قوت بن کر ابھر ے۔مگر ایک صدی سے بھی کم عرصہ میں معلوم ہوا کہ یہ طاقت ور تلوار صرف اس لیے ظاہر ہوئی تھی کہ بالآخر وہ اسلام کے طاقت ور خادم اور محافظ بن جائے۔

یہی موجودہ زمانہ کے "اسلام دشمن" علوم کا معاملہ ہے۔

ان علوم نے بظاہر آج اسلام کو مغلوب کر رکھا ہے۔لیکن اگر ہم اپنی کوششوں کو صحیح رخ سے جاری کر سکیں تو نصف صدی بھی نہیں گزرے گی کہ یہ سارا علم اسلام قبول کر لے گا،وہ اسلام کے علم کلام کی صورت اختیار کر لے گا اورپھر دنیا دیکھے گی کہ جدید علمی قوت صرف اس لیے ظاہر ہوئی تھی کہ وہ خدا کے دین کی طاقت ور مددگار بن جائے۔

اسلام کے حق میں اس نتیجہ کوحاصل کرنے کی صرف ایک ہی ضروری شرط ہے۔وہ یہ کہ ہم دوسرے میدانوں میں اپنی جو قوت ضائع کر رہے ہیں اس کو سمیٹ کر اسی ایک میدان ،فکری انقلاب لانے کے میدان میں لگا دیں۔جس دن یہ واقعہ ہو گا اسی دن اسلام کی نئی تاریخ بننا شروع ہو جائے گی۔اور یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ صحیح آغاز ہی دراصل صحیح اختتام کا دوسرا نام ہے۔

دورِجدید میں قرآنی دعوت


مسلمانوں کے اوپر اللہ تعالیٰ نے مختلف فریضے عائد کیے ہیں۔اپنے آپ کو خدا کا عبادت گزار بنانے سے لے کر مسلمانوں کی اصلاح تک بہت سی ذمہ داریاں ہیں جن میں مسلمان بندھے ہوئے ہیں۔انھیں میں سے ایک ذمہ داری وہ ہے جس کو اسلامی دعوت یا دعوت الی اللہ کہا جاتا ہے۔اس کا مقصد غیر مسلم اقوام تک خدا کے سچے دین کا پیغام پہنچا نا ہے۔یہ مسلمانوں کی قومی جدوجہد کا عنوان نہیں بلکہ پیغمبر کی وراثت ہے جو ختم نبوّت کے بعد مسلمانوں کے حصہ میں آئی ہے۔

امت مسلمہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں دعوت الی اللہ کے کام سے وابستہ کر دی ہیں،ایک طرف قرآن کے مطابق دعوت الی اللہ میں عصمت من الناس کا راز چھپا ہوا ہے (5:67)۔دوسری طرف یہی وہ کام ہے جس کی ادائیگی کے نتیجے میں اہل ایمان آخرت میں خدا کی گواہی کے بلند مقام پر کھڑے کیے جائیں گے جس کو قرآن میں اصحابِ اعراف (7:46) کہا گیا ہے۔یہ آخرت کا سب سے بڑا اعزاز ہے جو داعیان حق کو دیا جائے گا۔

تاہم دعوت الی اللہ کا کام کوئی سادہ یا آسان کام نہیں۔یہ رسول اور اصحاب رسول کی تاریخ کو ازسر نو دہرانا ہے۔یہ خدا کے بندوں کے سامنے خدا کا نمائندہ بنناہے۔یہ دنیا میں خدا کی حمد اورکبریائی کا نغمہ چھیڑنا ہے۔یہ غیبی حقیقت کو لوگوں کے لیے مشہود حقیقت بنانا ہے،جو کچھ اس سے پہلے پیغمبر انہ سطح پر ہوتا رہا ہے اس کو غیر پیغمبرانہ سطح پر انجام دینا ہے۔ دعوت کی اصل نوعیت آدمی کے سامنے نہ ہو تو وہ دعوت کے نام پر ایک ایسا کام کرے گا جس کا دعوت سے کوئی تعلق نہیں۔

عالمی فضا کی تبدیلی


اس سلسلے میں پہلی بات جس کو جاننا ضروری ہے۔وہ یہ کہ وہ کون سے حالات ہیں جن کے درمیان ہم کو دعوت حق کا کام انجام دینا ہے۔مختصر لفظوں میں اس کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے اسلاف کے لیے دعوت الی اللہ کا مطلب دور شرک کو ختم کرنا تھا۔اب ہمارے لیےدعوت الی اللہ کا مطلب دور الحاد کو ختم کرنا ہے۔ ہمارے اسلاف دور شرک کو ختم کر کے دور توحید لے آئے۔اس کے بعد دنیا میں ایک نئی تاریخ وجود میں آئی۔یہ تاریخ ہزار سال تک کامیابی کے ساتھ چلتی رہی۔یہاں تک کہ سولہویں صدی عیسوی میں مغربی سائنس کا ظہور ہوا۔اس کے بعد دنیا کی ایک نئی تاریخ بننا شروع ہوئی۔بیسویں صدی میں آکر یہ تاریخ اپنے کمال پر پہنچ گئی ہے۔اب دوبارہ یہ حال ہو گیا ہے کہ ظہور اسلام سے پہلے جس طرح فکر و عمل کے تمام شعبوں پر شرک کا غلبہ تھا،اسی طرح اب فکرو عمل کے تمام شعبوں پر الحاد کا غلبہ ہو چکاہے۔حتیٰ کہ آج مذہب بھی علمی طور پر الحاد کا ضمیمہ بن چکا ہے۔اس سے الگ اس کی کوئی مستقل حیثیت نہیں۔

یہاں ایک لطیفہ قابل ذکر ہے موجودہ زمانے میں مذہب کی صورت کو بہت اچھی طرح واضح کرتا ہے۔جرمن مفکر ای،ایف، شوماخر (1911-1977)نے اپنا ایک واقعہ ان الفاظ میں نقل کیا ہے:

On a visit to Leningrad some years ago (August 1968), I consulted a map to find out where I was, but I could not make it out. I could see several enormous churches, yet there was no trace of them on my map. When finally an interpreter came to help me, he said: "we don't show churches on our maps". (E. F. Schumacher, A Guide for the Perplexed, London, 1981, p.9)
اگست 1968ء میں روس کے شہر لینن گراڈگیا۔وہاں ایک دن میں ایک نقشہ دیکھ رہا تھا تا کہ میں جانوں کہ میں کہاں ہوں۔مگر میں اس کو جان نہ سکا ۔میری نظروں کے سامنے کئی بڑے بڑے چرچ تھے۔مگر میرے نقشہ میں ان کا کوئی نشان موجود نہیں تھا۔بالآخر ایک ترجمان نے میری مدد کی۔اس نے کہا" ہم اپنے نقشوں میں چرچ کو نہیں دکھاتے"۔

یہ جزئی واقعہ اس پوری صورت حال کی تصویر ہے جو موجودہ زمانے میں پیش آئی ہے۔ جدید انسان نے خدا کو اپنے علمی اور فکری نقشوں سے نکال دیا ہے۔موجودہ زمانے میں جغرافیہ،تاریخ ،طبیعیات ،نباتات،حیوانات،فلکیات وغیرہ تمام علوم نہایت تفصیل کے ساتھ مرتب کیے گئے ہیں۔مگر ان علوم میں کہیں بھی خدا کا ذکر نہیں۔ایک شخص جس کو نظر حاصل ہو، جب وہ آنکھ اٹھا کر کائنات کو دیکھتا ہے تو ہر طرف اس کو خدا کا نشان نمایاں نظر آتا ہے،مگر مدوّن علوم میں خدا ہر جگہ ایک غیر موجود چیز ہے۔ان علوم کو پڑھنے والا کہیں بھی خدا کا کوئی حوالہ نہیں پاتا۔

ان حالات میں دعوت توحید کا کام گویا خدا کو ازسر نو فکر انسانی کے نقشہ پر لکھنا ہے۔ عالمی سطح پر ایک ایسا فکری انقلاب لانا ہے کہ انسان دوبارہ خدائی اصطلاحوں میں سوچنے کے قابل ہو سکے۔اس کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ توحید اور آخرت کی بات آدمی کی سمجھ میں آئے اور اس کو وہ حقیقت سمجھ کر قبول کر سکے۔ ہمارے اسلاف نے انسانی فکر کی دنیا میں شاکلہٴ شرک کو توڑ کر شاکلہٴ توحید کوقائم کیا تھا۔اب ہم کو دوبارہ شاکلہٴ الحاد کو توڑ کر شاکلہٴ توحید پر انسانی فکر کا نظام قائم کرنا ہے۔ دعوت کے مسئلہ کا اس سے کم تصور دعوت کے مسئلہ کی تصغیر (underestimation) ہے، جس کی کوئی قیمت نہ بندوں کے نزدیک ہے اور نہ خدا کے نزدیک۔

داعی اور مدعو کا تعلق


دوسرا اہم مسئلہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ بحال کرنا ہے۔امت مسلمہ کی حیثیت سے مسلمان خدا کے دین کے داعی ہیں اور بقیہ تمام قومیں ان کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتی ہیں۔مگر موجودہ زمانہ میں مسلمانوں نے سب سے بڑی غلطی یہ کی ہے کہ انھوں نے دوسری قوموں کو اپنا قومی حریف اور مادی رقیب بنا لیا ہے۔ان قوموں سے وہ ساری دنیا میں معاشی اور سیاسی جھگڑے چھیڑے ہوئے ہیں۔ قرآن میں داعی کا کلمہ لَا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً (11:51)بتایا گیا ہے،یعنی میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔ایسی حالت میں حقوق طلبی کے یہ تمام ہنگامے اپنی دعوتی حیثیت کی نفی کے ہم معنی ہیں۔

اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے یہاں ہم کو خدا کے گواہ کا مقام حاصل ہو تو ہم کو یہ قربانی دینی ہوگی کہ دوسری اقوام سے ہمارے دنیوی جھگڑے ،خواہ وہ بظاہر درست کیوں نہ ہوں،ان کو ہم یک طرفہ طور پر ختم کر دیں۔تا کہ ہمارے اور دوسری قوموں کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ قائم ہو،ہمارے اور دوسری قوموں کے درمیان وہ معتدل فضا وجود میں آئے جس میں ان کے سامنے توحید اور آخرت کی دعوت پیش کی جائے اور وہ سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کر سکیں۔

صلح حدیبیہ (6ھ) میں مسلمانوں نے یک طرفہ طور پر مخالفین اسلام کے تمام معاشی اور قومی مطالبات مان لیے تھے۔انھوں نے اپنے حقوق سے دستبرداری پر خود اپنے ہاتھ سے دستخط کر دیے تھے۔مگر جب مسلمان یہ معاہدہ کر کے لوٹے تو خدا کی طرف سے یہ آیت اتری ― اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا(48:1)۔ بیشک ہم نے تم کو کھلی ہوئی فتح دے دی۔

بظاہرشکست کے معاہدے کو خدا نے فتح کا معاہدہ کیوں کہا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس معاہدہ نے مسلمانوں اورغیر مسلموں کے درمیان مقابلے کے میدان کو بدل دیا تھا۔اب اسلام اور غیر اسلام کا مقابلہ ایک ایسے میدان میں منتقل ہو گیا تھا جہاں اسلام واضح طور پر زیادہ بہتر حیثیت (advantageous position) میں تھا۔

غیر مسلموں کی جارحیت کی وجہ سے اس وقت اسلام اور غیر اسلام کا مقابلہ جنگ کے میدان میں ہو رہا تھا۔غیر مسلموں کے پاس ہر قسم کے زیادہ بہتر جنگی وسائل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہجرت کے بعد مسلسل غزوات کے باوجود معاملہ کا فیصلہ نہیں ہو رہا تھا۔ اب حدیبیہ میں غیر مسلموں کے تمام قومی مطالبات مان کر ان سے یہ عہد لے لیا گیا کہ دونوں فریقوں کے درمیان دس سال تک براہ راست یا بالواسطہ کوئی جنگ نہیں ہو گی۔

مسلسل جنگی حالات کی وجہ سے اسلام کا دعوتی کام رکا ہوا تھا۔جنگ بند ہوتے ہی دعوت کا کام پوری قوت کیساتھ ہونے لگا۔جنگی میدان میں اس وقت اسلام کمزور تھا۔مگر جب مقابلہ پر امن تبلیغ کے میدان میں آگیا تو یہاں شرک کے پاس کچھ نہ تھاجس سے وہ توحید کی حقا نیت کا مقابلہ کر سکے۔نتیجہ یہ ہوا کہ عرب کے قبائل اتنی کثرت سے اسلام میں داخل ہوئے کہ کفر کا زور بالکل ٹوٹ گیا اور معاہدہ کے صرف دو سال کے اندر مکہ فتح ہو گیا۔

موجودہ زمانہ میں بھی اسی طرح کے ایک "معاہدہ حدیبیہ" کی ضرورت ہے۔ مسلمان دوسری قوموں سے ہر جگہ مادی لڑائی لڑرہے ہیں۔مسلمان چوں کہ اپنی غفلت کی وجہ سے مادی پہلو سے دوسری قوموں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہو گئے ہیں ،وہ ہر محاذ پر ان سے شکست کھا رہے ہیں۔اب ضرورت ہے کہ یک طرفہ قربانی کے ذریعے ان محاذوں کو بند کر کے میدان مقابلے کو بدل دیا جائے۔ان قوموں کو مادی مقابلے کے میدان سے ہٹا کر فکری مقابلے کے میدان میں لایا جائے۔قدیم زمانے میں میدان مقابلہ کی یہ تبدیلی جنگ کو یک طرفہ طور پر ختم کر کے حاصل کی گئی تھی،آج یہ تبدیلی قومی حقوق کی مہم کو یک طرفہ طور پر ختم کر کے حاصل ہو گی۔

قومی مفادات کی یہ قربانی بلا شبہ ایک نہایت مشکل کام ہے مگر اسی کھونے میں پانے کا سارا راز چھپا ہوا ہے۔ مسلمان جس دن ایسا کریں گے اسی دن فتح اسلام کا آغاز ہو جائے گا۔ کیوں کہ فکری میدان میں کسی اور کے پاس کوئی چیز موجود ہی نہیں ۔مادی مقابلے کے میدان میں مسلمانوں کے پاس "روایتی ہتھیار" ہیں اور دوسری قوموں کے پاس "جدید ہتھیار" ۔جب کہ فکری میدان میں مسلمانوں کے پاس حقیقت ہے اور دوسری قوموں کے پاس تعصب ،اور حقیقت کے مقابلہ میں تعصب دیر تک ٹھہر نہیں سکتا۔

لٹریچر کی تیاری


قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ خدا نے قلم کے ذریعہ انسان کو تعلیم دی : عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (96:4)۔ اس سے اسلامی دعوت کے لیے لٹریچر کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔

مگر اسلامی لٹریچر کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام کے نام پر کچھ کتابیں لکھی جائیں اور ان کو کسی نہ کسی طرح مختلف زبانوں میں چھاپ کر تقسیم کر دیا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ اسلامی لٹریچر کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں ۔یہ بشری سطح پر قرآن کا بدل فراہم کرنا ہے۔

خدا نے اپنا کلام عربی زبان میں اتارا ہے۔مگر اس کی تبلیغ دوسری زبان والوں تک بھی کرنی ہے،اور جیسا کہ قرآن سےثابت ہے،مدعو کو ان کی اپنی زبان میں تبلیغ کرنی ہے(14:4)۔اس لحاظ سے اگر عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (96:4)کو وقتی نہ سمجھا جائے بلکہ اس کو ابدی پس منظر (perspective) میں رکھ کر دیکھا جائے تو یقینی طور پر انسان بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے۔کیوں کہ دوسری زبانوں میں تعلیم بالقلم کا فریضہ انسان ہی کو ادا کرنا ہے۔گویا یہ کہنا صحیح ہو گا کہ خدا عربی زبان میں معلّم بالقلم بنا تھا،اب ہم کو دوسری زبانوں میں معلم بالقلم بننا ہے۔مشہور عرب شاعر لبید نے قرآن کو سن کر شاعری چھوڑ دی ۔کسی نے کہا کہ تم اب شاعر ی کیوں نہیں کرتے۔انھوں نے کہا کہ قرآن کے بعد بھی:أبعد القرآن(الاستيعاب لابن عبد البر، جلد3، صفحہ1337)۔اس کا مطلب یہ ہے كه قرآن نے اپنے زمانہ کے افراد کو ذہنی طور پر مفتوح کر لیا تھا۔اسی طرح آج دوبارہ ایسا اسلامی لٹریچر درکار ہے جو لوگوں کو ذہنی طور پرمفتوح کر لے۔

بظاہریہ بات نا ممکن دکھائی دیتی ہے۔مگر اس نا ممکن کو خود خدا نے ہمارے لیے ممکن بنا دیا ہے۔خدا نے حق کے داعیوں کی مدد کے لیے انسانی تاریخ میں ایک نیا انقلاب برپا کیا۔یہاں میری مراد سائنسی انقلاب سے ہے۔سائنسی انقلاب کے ذریعہ نئے استدلالی امکانات انسان کی دسترس میں آگئے۔حتیٰ کہ بلاتشبیہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج ہمارے لیے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ مخاطب کے سامنے دین کے حق میں وہ اعجازی استدلال پیش کر سکیں جو پہلے صرف خدا کے پیغمبروں کی دسترس میں ہوتے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ کائنات ایک عظیم الشان خدائی معجزہ ہے۔وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اپنے خالق کی ذات و صفات کے حق میں معجزاتی دلیل ہے۔تا ہم قدیم زمانے میں یہ خدائی معجزہ ابھی تک غیر دریافت شدہ حالت میں پڑا ہوا تھا۔اس لیے خدا نے قدیم زمانے میں پیغمبروں کو مخصوص طور پرخارق عادت معجزے دیے۔

مگر پیغمبر اسلام کے مخاطبین کے مسلسل مطالبہ کے باوجود انھیں مذکورہ قسم کا کوئی معجزہ نہیں دکھایا گیا۔بلکہ قرآن میں کائنات کا حوالہ دیا گیا ۔کہا گیا کہ کائنات میں خدا کی آیات موجود ہیں ان کو دیکھو۔وہی تمھارے یقین کے لیے کافی ہیں۔چوں کہ قرآن دور سائنس کے آغاز میں آیا اس لیے قرآن میں کائنات کی نشانیوں کا حوالہ دینا کافی سمجھا گیا۔ابدی پس منظر میں ،قرآن کا مخاطب وہ انسان تھا جو دور سائنس میں جی رہا ہو۔اور دور سائنس کے انسان کو خدا اور اس کی باتوں پر یقین کرنے کے لیے کسی خارق عادت معجزہ کی ضرورت نہیں۔

معجزہ سے کیا مطلوب ہے۔معجزہ سے مطلوب محض کوئی حیران کن کرشمہ دکھانا نہیں بلکہ دعوت حق کومخاطب کے لیے آخری طور پر ثابت شدہ بنانا ہے۔دعوت کی موافقت میں ایسے دلائل جمع کرنا ہے جس کے بعد مخاطب کے لیے انکار کی گنجائش باقی نہ رہے۔قدیم زمانے میں اسی مقصد کے لیے خارق عادت معجزہ دکھایا جاتا تھا۔موجودہ زمانے میں یہی کام رموز فطرت کو منکشف کر کے سائنس نے انجام دے دیا ہے۔واضح ہو کہ قرآن میں پیغمبرانہ معجزوں اور کائناتی نشانیوں کے لیے ایک ہی مشترک لفظ استعمال ہوا ہے اور وہ آیت (نشانی) ہے۔

خدا کے دین کی دعوت ا تمام حجت کی حد تک مطلوب ہے(النساء،4:165)۔اسی اتمام حجت کے لیے قدیم زمانے میں پیغمبروں کے ذریعہ معجزے دکھائے گئے۔اب سوال یہ ہے کہ آج کی قوموں کے لیے بھی یہی مطلوب ہے کہ دین کی دعوت ان کے سامنے اتمام حجت کی حد تک پیش کی جائے۔پھر موجودہ زمانے میں اس کا ذریعہ کیا ہے جب کہ پیغمبروں کی آمد اب ختم ہو چکی ہے۔

جدید سائنسی انقلاب اسی سوال کا جواب ہے۔جدید سائنسی انقلاب کے ذریعہ یہ ممکن ہو گیا ہے کہ دین حق کی تعلیمات کو عین اس معیار پر ثابت کیا جا سکے جو انسان کا اپنا تسلیم شدہ معیار ہے۔اس سلسلے میں پہلی اہم ترین بات وہ ہے جو طریق استدلال (methodology) سے تعلق رکھتی ہے۔جدید سائنس نے مختلف میدانوں میں اپنی تحقیقات کے نتیجے میں اس بات کا قطعی اقرار کیا ہے کہ استنباطی استدلال (inferential argument) اپنی نوعیت کے اعتبار سے اتنا ہی معقول(valid) ہے جتنا کہ براہ راست استدلال ۔یہی قرآن کا طرز استدلال ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں علم انسانی نے قرآن کے طرزِ استدلال کو عین وہی درجہ دے دیا ہے جو علوم دینیہ سے باہر خود انسان کا تسلیم شدہ طرز استدلال ہے۔

جدید سائنس کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ جو چیز پہلے صرف خارجی اطلاع کی حیثیت رکھتی تھی وہ اب خود انسانی دریافت بن چکی ہے۔جدید سائنس نے معلوم کیا ہے کہ انسان اپنی محدودیت (limitations) کی وجہ سے کلی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔اس سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانی رہنمائی کے لیے وحی کی ضرورت ہے۔جدید سائنس نے معلوم کیا ہے کہ کائنات میں تحکمی نظام (arbitrary system) ہے اس سے واضح طور پر خدا کاوجود ثابت ہوتا ہے۔جدید سائنس نےمعلوم کیا ہے کہ موجودہ دنیا کے ساتھ ایک اور غیر مرئی متوازی دنیا موجود ہے جس کا سائنسی نام اینٹی ورلڈ (antiworld) ہے۔اس سے واضح طور پر عالم آخرت کا وجود ثابت ہوتا ہے،وغیرہ۔

اسی طرح مقناطیسی میدان (magnetic field)اور حرکت (motion) کی یکجائی سے بجلی کی روشنی کا پیدا ہونا ویسا ہی ایک حیرت ناک خدائی معجزہ ہے جیسا ہاتھ کو بغل میں رکھ کر نکالنے سے ہاتھ کا غیر معمولی طور پر چمک اٹھنا،بڑے بڑے جہازوں کا اتھاہ سمندروں اور ناقابل عبور فضاؤں میں انسان کو لے کر دوڑنا ویسا ہی دہشت خیز خدائی معجزہ ہے جیسا دریا کا پھٹ کر انسانوں کو پار ہونے کا راستہ دینا۔مادہ سے متحرک مشینوں کا وجود میں آنا ویسا ہی عجیب خدائی معجزہ ہے جیسا کہ لاٹھی کا سانپ بن کر چلنے لگنا۔

واقعہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں پیغمبروں کو جو معجزے دیے گئے وہ سب با عتبار مواد استدلال خدا کی پیدا کی ہوئی کائنات میں وسیع پیمانے پر موجود ہیں۔مگر قدیم زمانے میں چوں کہ وہ انسان کے علم میں نہیں آئے تھے اس لیے خدا نے لوگوں کو خارق عادت معجزے دکھائے۔آج سائنسی تحقیقات نے فطرت کی یہ نشانیاں کھول دی ہیں اس لیے آج کے انسان کے یقین و ایمان کے لیے وہی کافی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ سائنسی انقلاب خدا کے معجزہ کا ظہور ہے۔اس کے ذریعہ خدا کی تمام باتیں اعجازی سطح پر ثابت ہو رہی ہیں۔اگر ان سے گہری واقفیت حاصل کی جائے اور ان کو دعوت حق کی حمایت میں استعمال کیا جائے تو یہ دعوت کے ساتھ معجزہ کو جمع کرنے کے ہم معنی ہو گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر آج ہم حقیقی معنوں میں سائنسی دلائل کے ساتھ دین کی دعوت پیش کر سکیں تو زمین پر دوبارہ یہ واقعہ ظہور میں آئے گا کہ وقت کا "لبید" یہ کہہ دے کہ ― کیاحقیقت کے اس طرح ثابت ہو جانے کے بعد بھی ۔

سائنسی استدلال موجودہ زمانےمیں معجزاتی استدلال کا بدل ہے۔جدید سائنس نے تمام دینی تعلیمات کو علمی طور پر ثابت شدہ یا کم از کم قابل فہم (understandable) بنا دیا ہے۔تاہم اسلام کے داعیوں نے ابھی تک اس کو واقعی معنوں میں استعمال نہیں کیا۔راقم الحروف نے اس موضوع پر دس سالہ مطالعہ کے بعد 1964ء میں ایک کتاب، "مذہب اور جدید چیلنج" لکھی تھی جو عربی زبان میں "الاسلام یتحدی"اور انگریزی زبان میں گاڈ ارائزز (God Arises) کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ تاہم پچھلے 20 سال میں علم کا دریا بہت آگے جا چکا ہے۔چنانچہ اب میں اس موضوع پر، ان شاء اللہ، دوسری جامع کتاب تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔وبید اللہ التوفیق۔

موافق امکانات


دعوت دین کا کام انتہائی مشکل کام ہے۔مگر اللہ نے اپنی خصوصی رحمت سے اس کو ہمارے لیے آسان بنا دیا ہے۔اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسانی تاریخ میں ایسی تبدیلیاں کیں جس نے ہمارے لیے نئے مواقع کھول دیے۔ موجودہ زمانے میں یہ تاریخی عمل اپنی آخری حد تک پہنچ گیا ہے۔حتیٰ کہ اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ جو کام پہلے " خون" کے ذریعے کرنا پڑتا تھا،اس کو اب قلم کی سیاہی کے ذریعے انجام دیا جا سکے۔

اس عمل تیسیر کے تین خاص پہلو ہیں جن کی طرف قرآن میں اشارے کیے گئے ہیں:

1۔قرآن میں اہل ایمان کو یہ دعا تلقین کی گئی : رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا (2:286)۔خدایا،ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے پچھلی امتوں پر ڈالا تھا۔

اگر الفاظ بدل کراس آیت کی تفسیر کی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت توحید کا جو کام پچھلے داعیوں کو پابندی رائے کے ماحول میں کرنا پڑتا تھا،لیکن ہمیں آزادی رائے کے ماحول میں کرنے کا موقع عطا فرما۔پہلے زمانہ میں یہ صورت حال تھی کہ توحید کا اعلان کرنے والے کو پتھر مارے جاتے۔اس کو آگ میں ڈال دیا جاتا ۔اس کے جسم کو آرے سے چیر دیا جاتا ،اس کی وجہ یہ تھی کہ پہلے زمانہ میں حکومت کی بنیاد شرک پر قائم تھی۔پچھلے زمانہ کے بادشاہ مفروضہ دیوتاؤں کے نمائندہ بن کر حکومت کرتے تھے۔اس لیے جب کوئی شخص شرک کو بے بنیاد قرار دیتا تو اس زمانہ کے بادشا ہوں کو محسوس ہوتا کہ وہ نظریاتی بنیاد ختم ہو رہی ہے جس پر انھوں نے اپنی حکومت کو قائم کر رکھا ہے۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جو انقلاب آیا اس نے شرک کی اجتماعی حیثیت کو ختم کر کے اس کو ایک ذاتی عقیدہ بنا دیا۔اب شرک الگ ہو گیا اور سیاسی ادارہ الگ۔اس طرح وہ دور ختم ہو گیا جب کہ شرک لوگوں کے لیے اعلان توحید کی راہ میں رکاوٹ بن سکے۔یہی وہ بات ہے جو قرآن میں ان الفاظ میں آئی ہے― وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ (8:39) ۔ اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے۔

اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ اسلام نے جب توہم پرستی اور شخصی تقدس کا خاتمہ کیا تو نسلی بادشاہت کی بنیادیں بھی ہل گئیں۔چنانچہ انسانی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا جو بالآخر یورپ پہنچ کر جمہوریت (democracy) کی صورت میں مکمل ہوا۔اس کے بعد شخصی حاکمیت کے بجائے عوامی حاکمیت کا اصول دنیا میں رائج ہوا اور آزادی رائے کو ہر آدمی کا مقدس حق تسلیم کر لیا گیا۔اس عالمی فکری انقلاب نے داعیان حق کے لیے یہ عظیم امکان کھول دیا کہ وہ غیر ضروری رکاوٹوں سے بے خوف ہو کر ساری دنیا میں حق کے اعلان کا کام انجام دے سکیں۔

2۔قرآن میں یہ اعلان کیا گیا:سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ (41:53)۔ہم عنقریب آفاق میں اور انفس میں ایسی نشانیاں دکھائیں گے جس سے کھل جائے کہ یہ سراسر حق ہے۔قرآن کی اس آیت میں اس انقلاب کی طرف اشارہ ہے جس کو جدید سائنسی انقلاب کہا جاتا ہے۔

کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کی دلیل ہے۔تمام مخلوقات اپنے خالق کی صفات کا اظہار کر رہی ہیں۔گویا کائنات قرآن کی دلیل ہے۔تاہم یہ دلیل سائنسی انقلاب سے پہلے بڑی حد تک غیر دریافت شدہ حالت میں پڑی ہوئی تھی۔اس دریافت کے لیے ضروری تھا کہ چیزوں کی گہرائی کے ساتھ تحقیق کی جائے۔مگر شرک کا عقیدہ اس تحقیق کی راہ میں حائل تھا۔مشرک انسان کائنات کے مظاہر کو پرستش کی چیز سمجھے ہوئے تھا پھر وہ اس کو تحقیق کی چیز کیسے بناتا۔

توحید کے عمومی انقلاب نے اس رکاوٹ کو ختم کر دیا۔اسلامی انقلاب کے بعد کائنات کے تقدس کا ذہن ختم ہو گیا۔اب کائنات کے مظاہر پر آزادنہ غور و فکر شروع ہو گیا۔یہ کام صدیوں تک عالمی سطح پر جاری رہا۔یہاں تک کہ بالآخر وہ یورپ پہنچا۔یورپ میں اس کو موزوں زمین ملی۔یہاں اس نے تیزی سے ترقی کی۔یہاں وہ عظیم فکری انقلاب ظہور میں آیا جس کو موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کہا جاتا ہے۔

سائنسی تحقیق کے ذریعے کائنات کے جو حقائق معلوم ہوئے ہیں وہ قرآن کی دعوت کو قطعیات کی سطح پر ثابت کر رہے ہیں۔اس کی تفصیل راقم الحروف نے اپنی کتاب ،مذہب اور جدید چیلنج (الاسلام یتحدی) میں کی ہے۔جو لوگ زیادہ تفصیل کے خواہش مند ہوں وہ اس کتاب میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

3۔اس سلسلے میں تیسری چیز وہ ہے جس کی طرف قرآن کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے:عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(17:79)۔قریب ہے کہ اللہ تم کو ایک مقام محمود پر کھڑا کرے۔

محمود کے معنی ہیں "تعریف کیا ہوا"۔تعریف دراصل تسلیم و اعتراف کی آخری صورت ہے،کسی کو ماننے والا جب اس کو ماننے کی آخری حد پر پہنچتا ہے تو وہ اس کی تعریف کرنے لگتا ہے۔اس اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی اسکیم یہ تھی کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیم شدہ نبوت کے مقام پر کھڑا کرے۔پیغمبر اسلام دنیا میں بھی محمود تھے اور آخرت میں بھی محمود ،شفاعت کبریٰ جس کا ذکر حدیث میں ہے وہ آخرت میں آپ کا مقام محمود ہے اور آپ کا تاریخی طور پر مسلم اور معترف ہونا دنیا میں آپ کا مقام محمود۔

خدا کی طرف سے ہر دور میں اور ہر قوم میں پیغمبر آئے ۔یہ سب پیغمبر تھے۔ان سب کا پیغام بھی ا یک تھا ۔مگر مختلف اسباب سے ان پیغمبروں کو تاریخی حیثیت حاصل نہ ہو سکی۔تاریخی ریکارڈ کے مطابق آج کے انسان کے لیے ان پیغمبروں کی حیثیت نزاعی نبوت کی ہے ،نہ کہ مسلمہ نبوت کی۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تاریخی طور پر ایک ثابت شدہ نبوت ہے۔جب کہ دوسرے نبیوں کی نبوت تاریخی طور پر ثابت شدہ نہیں ،اس بنا پر آج یہ ممکن ہو گیا ہے کہ ہم تسلیم شدہ (established) نبوت کی سطح پر دین کی دعوت دے سکیں ۔جب کہ اس سے پہلے ہمیشہ متنازعہ (controversial) نبوت کی سطح پر دین کی دعوت دینی پڑتی تھی۔

ڈاکٹر نشی کانت چٹو پا دھیائے(اسلامی نام محمد عزیز الدین) ہندوستان کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو تھے۔وہ انیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں حیدر آباد میں پیدا ہوئے۔ڈاکٹر چٹو پادھیائے کو حق کی تلاش ہوئی۔اس غرض سے انھوں نے ہندی، انگریزی،جرمن، فرانسیسی وغیرہ زبانیں سیکھیں۔انھوں نے تمام مذاہب کا مطالعہ کیا۔مگر وہ کسی پر مطمئن نہ ہو سکے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے پایا کہ یہ تمام مذاہب تاریخی معیار پر ثابت نہیں ہوتے ۔پھر کس طرح ان کی واقعیت پر یقین کیا جائے اور ان کو مستند سمجھا جائے۔

آخر میں انھوں نے اسلام کا مطالعہ کیا۔وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اسلام کی تعلیمات آج بھی اپنی اصل صورت میں پوری طرح محفوظ ہیں۔اسلام کی شخصیات مکمل طور پر تاریخی شخصیات ہیں نہ کہ دیو مالائی شخصیات۔وہ لکھتے ہیں کہ "میں نے پایا کہ پیغمبر اسلام كى زندگی میں کوئی چیز مبہم اور دھندلی نہیں ۔اور نہ پر اسرار یا دیو مالائی ہے،جیسا کہ مثال کے طور پر،زرتشت اور شری کرشن کے یہاں ،حتٰی کہ بدھا اور مسیح کے یہاں ہے۔دیگر پیغمبروں کے وجود تک کے بارے میں اہل علم نے شبہ کیا ہے۔حتٰی کہ انکار کیا ہے مگر جہاں تک میں جانتا ہوں ،پیغمبر اسلام کے بارے میں کوئی یہ جراٴت نہ کر سکا کہ ان کو توہماتی عقیدہ یا پریوں کی کہانی کہہ سکے"۔

اس کے بعد ڈاکٹر نشی کانت چٹو پادھیائے کہتے ہیں:

Oh, what a relief to find, after all a truly historical Prophet to believe in. (Why have I Accepted Islam, Dr Nishikanta Chattopadhyay)

اُف ،کیسا عجیب تسکیں کا سامان ہے کہ بالآخر آدمی واقعی معنوں میں ایک تاریخی پیغمبر کو پا لے جس پر وہ ایمان لا سکے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن میں مقام محمود (17:79) کہا گیا ہے۔نبوتِ تاریخی ہی کا دوسرا نام نبوتِ محمودی ہے۔پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود پر کھڑاکرنے کا یہ مطلب ہے کہ آپ دوسرے پیغمبروں کی طرح، تاریخی طور پر کوئی نامعلوم شخصیت یا غیر ثابت شدہ شخصیت نہیں ہوں گے،بلکہ آپ تمام انسانوں کے لیے پوری طرح ایک معلوم اور مسلّم شخصیت ہوں گے ۔آپ کی سیرت بھی ایک محفوظ سیرت ہو گی اور آپ کی تعلیم بھی ایک محفوظ تعلیم۔

یہ داعیان اسلام کے لیے موجودہ زمانےمیں بہت بڑا advantage ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت کے میدان میں وہ بلا مقابلہ کامیابی حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔

انسان پیدائشی طور پر اپنی فطرت میں خدا کی طلب لے کر پیدا ہوتا ہے۔چنانچہ اس کو سچائی کی تلاش ہوتی ہے۔وہ انسانی علوم میں اپنی طلب کا جواب دریافت کرنا چاہتا ہے مگر وہ دریافت نہیں کر پاتا ۔پھر وہ مذاہب کا مطالعہ کرتا ہے تو پاتا ہے کہ موجودہ تمام مذاہب تاریخی پہلو سے غیر محفوظ ہیں۔ان کو تاریخی اعتباریت(historical credibility) کا درجہ حاصل نہیں۔یہاں ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ انسان سے کہہ سکیں کہ تم جس چیز کی تلاش میں ہو وہ محفوظ اور مستند حالت میں ہمارے یہاں موجود ہے۔دوسروں کے پاس صرف غیرتاریخی پیغمبر ہیں جن کو وہ دنیا کے سامنے پیش کریں۔مگر اسلام کا پیغمبر مکمل طور پر ایک تاریخی پیغمبر ہے۔تاریخ کے مسلمہ معیار کے مطابق آپ کے بارے میں کسی قسم کا شک کرنے کی گنجائش نہیں۔دوسروں کے پاس متنازعہ نبوت ہے اور اسلام کے پاس مسلمہ نبوت۔

یہ اللہ تعالیٰ کی انتہائی عظیم نعمت ہے۔اس نے ممکن بنا دیا ہے کہ خدا کے دین کی دعوت آج مسلّمہ نبوت کی سطح پر دی جائے ، جب کہ اس سے پہلے وہ صرف متنازعہ نبوت کی سطح پر دی جا سکتی تھی۔

مخالفانہ عمل کو ختم کرنا


موجودہ زمانے میں اسلامی دعوت کا کام دراصل جدید اقوام پر اتمام حجت کے ہم معنی ہے۔یہ ایک عظیم الشان کام ہے۔جس کے لیے عظیم الشان وسائل اور غیر معمولی موافق حالات درکار ہیں۔یہ وسائل اور حالات مسلم ملکوں میں یقینی طور پر مل سکتے ہیں۔مگر وہ اسی وقت مل سکتے ہیں جب کہ مسلم حکومتوں کو اسلامی دعوت کا حریف نہ بنا یا جائے۔

1891ء کا واقعہ ہے کہ جاپان کے شہنشاہ میجی (1912-1868) کا ایک خط ترکی کے سلطان عبد الحمید ثانی (1842-1918)کو ملا۔اس خط میں سلطان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ مسلم مبلغین کو جاپان بھیجے تا کہ وہ وہاں کے لوگوں کو اسلام سے واقف کرائیں۔ سلطان عبد الحمید نے اس اہم کام کے لیے سید جمال الدین افغانی (1838-1997)کا انتخاب کیا اور ان کو ہر طرح کے سرکاری تعاون کو یقین دلایا۔

مگر یہی سید جمال الدین افغانی جن کو سلطان عبد الحمید نے اس قدر احترام اور تعاون کا مستحق سمجھا تھا،بعد کو اسی سلطان نے سیدجمال الدین افغانی کو جیل میں بند کر دیا۔ حتٰی کہ جیل خانے ہی میں ان کا انتقال ہو گیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ سلطان کو معلوم ہوا کہ سید جمال الدین افغانی اس کے خلاف سیاسی سازش میں مشغول ہیں۔جمال الدین افغانی سلطان کو مغربی استعمار کا ایجنٹ سمجھتے تھے اور اس کو تخت سے بے دخل کر دینا چاہتے تھے۔جو شخص جاپان میں اسلام کی تاریخ کا آغاز کرنے والا بن سکتا تھا وہ صرف جیل کے رجسٹر میں اپنے نام کا اضافہ کر کے رہ گیا۔

یہی تمام مسلم حکمرانوں کا حال ہے۔اگر آپ اسلامی دعوت کے کام میں مشغول ہوں تو وہ ہر طرح کا اعلیٰ ترین تعاون آپ کو دیں گے۔لیکن اگر آپ ان کے خلاف سیاسی مہم چلائیں تو وہ آپ کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

بد قسمتی سے موجودہ زمانے میں مسلسل سید جمال الدین افغانی کے اسوہ کو دہرایا جارہا ہے۔مسلمان کہیں ایک عنوان سے اور کہیں دوسرے عنوان سے،اپنے حکمرانوں کے خلاف سیاسی لڑائی میں مشغول ہیں۔حتیٰ کہ آج "اسلامی دعوت"کا لفظ مسلم حکمرانوں کے لیے سیاسی اپوزیشن کے ہم معنی بن کر رہ گیا ہے۔

اس کی وجہ سے نہ صرف یہ نقصان ہوا ہے کہ اسلامی دعوت کی مہم میں مسلم حکومتوں کا بھرپور تعاون حاصل نہیں ہو رہا ہے۔بلکہ اگر کوئی شخص حکومت سے بے نیاز ہو کر ذاتی طور پر اس ذمہ داری کو ادا کرنا چاہے تو حکومت اس کو شبہ کی نظر سے دیکھنے لگتی ہے اور اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتی ہے۔

ضرورت ہے کہ مسلم حکمرانوں سے سیاسی منازعت کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے، خواہ وہ اسلام کے نام پر ہو یا کسی اور نام پر۔تا کہ ہر مسلم ملک میں اسلامی کارکنوں کو ان کی قومی حکومتوں کا تعاون حاصل ہو اور اسلام کے احیاء کا کام بڑے پیمانے پر شروع کیا جاسکے، غیر مسلموں میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے بھی اور خود مسلمانوں کی اپنی تعمیرو اصلاح کے لیے بھی۔

افراد کار کی فراہمی


دعوت اسلامی کی ذمہ داری کو ادا کرنے اور موجودہ مواقع کو استعمال کرنے کے لیے افراد کار کی ضرورت ہے۔قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ مسلمانوں میں سے کچھ منتخب لوگ مخصوص تربیت کے ذریعے اس مقصد کے لیے تیار کیے جائیں۔وہ دین میں تفقہ حاصل کر کے مختلف قوموں میں جائیں اور ان کو توحید کی تعلیم دیں اور آخرت سے آگاہ کریں:فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاىِٕفَةُ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ (9:122)۔آج دنیا میں مسلمانوں کے بے شمار مدرسے اور تعلیم کے ادارے ہیں مگر ساری دنیا میں کوئی ایک مدرسہ بھی خاص اس مقصد کے لیے موجود نہیں جہاں خالص دعوتی ضرورت کے تحت لوگوں کی تعلیم و تربیت کی جائے تا کہ وہ وقت کی ضرورت کے مطابق تیار ہو کر موثر انداز میں لوگوں کے اوپر دعوت الی اللہ اور انذار آخرت کا کام کریں۔ آج کی ناگزیر ضرورت ہے کہ ایسی ایک تعلیم گاہ قائم کی جائے اور اس کو معیار کے مطابق بنانے کے لیے ہر وہ قیمت ادا کی جائے جو موجودہ حالات میں ضروری ہے۔

افراد کار کے سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کو صرف " با علم" نہیں بلکہ "بامقصد" ہونا چاہیے۔مقصد کے بغیر علم صرف معلومات ہے۔مگر علم جب مقصد کے ساتھ ہو تو وہ معرفت بن جاتا ہے۔اگر ایک ایسی تعلیم گاہ قائم ہو جہاں ڈگری یافتہ اساتذہ کے ذریعے لوگوں کو قدیم و جدید علوم پڑھا دیے جائیں تو صرف اس بنا پر وہ مطلوبہ داعی نہیں بن جائیں گے۔ضروری ہے کہ ان کے سینےمیں مقصد کی آگ لگی ہوئی ہو۔کیوں کہ مقصد ہی لوگوں کے اندر وہ اعلیٰ فکر اور اعلیٰ کردار پیدا کرتا ہے جس کے ذریعے وہ دعوت کے میدان میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر سکیں۔

خواہ کوئی دنیوی مقصد ہو یا دینی مقصد،دونوں ہی کے لیے ایسے افراد درکار ہیں جو ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر ہر قسم کی ضروری قربانی دے سکیں۔

ٹائمس (The Times) لندن کا ایک قدیم اخبار ہے۔اس اخبار میں 1900 میں ایک اشتہار چھپا ۔اس اشتہار کے ساتھ نہ عورتوں کی تصویریں تھیں نہ کسی قسم کے بناوٹی تماشے۔اس میں ایک چھوٹے سے چوکھٹے میں حسب ذیل الفاظ درج تھے―ایک جوکھم کے سفر کے لیے آدمی درکار ہیں۔معمولی رقم ،سخت سردی،مکمل تاریکی کے لمبے مہینے،مسلسل خطرہ،محفوظ واپسی مشتبہ۔کامیابی کی صورت میں عزّت اور اعتراف:

Men wanted for Hazardous Journey. Small wages, bitter cold, long months of complete darkness, constant danger safe return doubtful. Honour and recognition in case of success.

Sir Ernest Shackleton, 4 Burlington St.

یہ اشتہار قطب جنوبی کی مہم کے لیے تھا۔اس کے جواب میں اتنی زیادہ درخواستیں آئیں کہ ذمہ داروں کو ان میں سے انتخاب کرنا پڑا۔اسی قسم کے بلند ہمت لوگ تھے جو مغرب میں سائنسی انقلاب لائے اور اہل مغرب کے لیے عالمی قیادت کی راہ ہموار کی۔

مذکورہ بالامثال ایک دنیوی مثال تھی۔یہی معاملہ ان لوگوں کا بھی ہے جنھوں نے اسلام کی تاریخ بنائی۔بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر انصار مدینہ کے نمائندہ افراد سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو اس کی نمایاں مثال پیش کرتی ہے۔یہاں ہم سیرت ابن ہشام کا ایک حصہ نقل کرتے ہیں:
قَالَ كَعْبٌ: ثُمَّ خَرَجْنَا إلَى الْحَجِّ، وَوَاعَدْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِالْعَقَبَةِ مِنْ أَوْسَطِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ. قَالَ: فَلَمَّا فَرَغْنَا مِنْ الْحَجِّ، وَكَانَتْ اللَّيْلَةُ الَّتِي وَاعَدْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَهَا، وَمَعَنَا عَبْدُ الله بن عَمرو بن حرام أبو جابر، سيد من سادتنا، وَشَرِيفٌ مِنْ أَشْرَافِنَا، أَخَذْنَاهُ مَعَنَا وَكُنَّا نَكْتُمُ مَنْ مَعَنَا مِنْ قَوْمِنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ أَمْرَنَا… قَالَ: فَنِمْنَا تَلِكَ اللَّيْلَةَ مَعَ قومِنا فِي رِحَالِنَا، حَتَّى إذَا مَضَى ثُلثُ اللَّيْلِ خَرَجْنَا مِنْ رِحَالِنَا لِمِيعَادِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‌نَتَسَلَّلُ تَسَلُّلَ القَطا مُستَخفين، حَتَّى اجْتَمَعْنَا فِي الشِّعْب عِنْدَ الْعَقَبَةِ، وَنَحْنُ ثَلَاثَةٌ وَسَبْعُونَ رَجُلًا، وَمَعَنَا امْرَأَتَانِ مِنْ نِسَائِنَا(سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ441)۔ یعنی، کعب بن مالک انصاری کہتے ہیں کہ ہم مدینہ سے حج کے لیے روانہ ہوئے، اور (پچھلے سال) ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے تشریق کے درمیانی دن کا وعدہ کیا تھا۔چنانچہ جب ہم حج سے فارغ ہوگئے اور وہ رات آگئی جس میں ہمیں حسبِ وعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنا تھا۔ ہمارے ساتھ ہمارے ایک معزز سردار ابوجابر عبد اللہ بن عمرو بن حرام تھے۔ہم نے ان سے گفتگو کی، وہ ہمارے ساتھی بن گئے۔ چنانچہ ہم نے ان کو اپنے ساتھ لےلیا۔ اس کے علاوہ دوسرے مشرکین کو ہم اپنامنصوبہ نہیں بتاتے تھے۔ رات کے وقت ہم دوسروں کی طرح ان کے ساتھ سو گئے۔ یہاں تک کہ جب رات کا تہائی حصہ گزر گیا تو ہم رسول اللہ کی قرار داد کے مطابق اپنے بستروں سے خاموشی کے ساتھ اٹھے، اورطے شدہ مقام کی طرف اس طرح چلے جیسے چڑیا جھاڑیوں میں آہستہ آہستہ سکڑ کر چلتی ہے۔یہاں تک کہ ہم سب، تهترمرد اور دو عورتیں، عقبہ کی گھاٹی میں اکٹھا ہوگئے۔

اس کے بعدکیا واقعہ پیش آیا، اس کو ابن اسحاق نے آگے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَحَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ: أَنَّ الْقَوْمَ لَمَّا اجْتَمَعُوا لِبَيْعَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ الْعَبَّاسُ بْنُ عُبَادَةَ بْنِ نَضْلَةَ الْأَنْصَارِيُّ، أَخُو بَنِي سَالِمِ بْنِ عَوْفٍ: يَا مَعْشَرَ الْخَزْرَجِ، هَلْ تَدْرُونَ عَلَامَ تُبَايِعُونَ هَذَا الرَّجُلَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: إنَّكُمْ تُبَايِعُونَهُ عَلَى حَرْبِ الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ مِنْ النَّاسِ، فَإِنْ كُنْتُمْ تَرَوْنَ أَنَّكُمْ إذَا نُهِكَتْ أَمْوَالُكُمْ مُصِيبَةً، وَأَشْرَافُكُمْ قَتْلًا أَسْلَمْتُمُوهُ، فَمِنْ الْآنَ، فَهُوَ وَاَللَّهِ إنْ فَعَلْتُمْ خِزْيُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَإِنْ كُنْتُمْ تَرَوْنَ أَنَّكُمْ وَافُونَ لَهُ بِمَا دَعَوْتُمُوهُ إلَيْهِ عَلَى نَهْكَةِ الْأَمْوَالِ، وَقَتْلِ الْأَشْرَافِ، فَخُذُوهُ، فَهُوَ وَاَللَّهِ خَيْرُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَأْخُذُهُ عَلَى مُصِيبَةِ الْأَمْوَالِ، وَقَتْلِ الْأَشْرَافِ، فَمَا لَنَا بِذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إنْ نَحْنُ وَفَّيْنَا بِذَلِكَ؟ قَالَ: الْجَنَّةُ. قَالُوا: اُبْسُطْ يَدَكَ، ‌فَبَسَطَ ‌يَدَهُ فَبَايَعُوهُ(سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ446)۔يعنی، یثرب کے لوگ جب آپ سے بیعت کے لیے جمع ہوئے تو عباس بن عبادہ بن نضلہ انصاری نے کہا:اے گروہ خزرج ! کیا تم جانتے ہو کہ تم کس چیز پر ان کے ہاتھ بیعت کر رہے ہو۔ انہوں نے کہا ہاں۔ عباس بن عبادہ نے کہا، تم سرخ و سفید سے جنگ پر بیعت کر رہے ہو۔ اگر تمہارا یہ خیال ہو کہ جب تمہارا مال ضائع ہو اور تمہارے اشراف قتل کیے جائیں تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان کی قوم کے حوالےکر دو گے تو ابھی ایسا کر لو۔ کیونکہ بعد کو تم نے ایسا کیا تو خد ا کی قسم وہ دنیا وآخرت کی رسوائی ہوگی، او راگر تمہارا یہ خیال ہو کہ تم نے جو کچھ وعدہ کیا ہے اس کو تم پورا کرو گے، خواہ تمہارے مال ضائع ہوں اور تمہارے اشراف قتل کیے جائیں تو ان کو اپنے ساتھ لے جاؤ، کیونکہ خدا کی قسم یہ دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔ان لوگوں نے کہا: مال کے ضائع ہو نے اور اپنےاشراف کے قتل کے (اندیشہ کے باوجود) ہم آپ سے بیعت کررہے ہیں۔اس وقت اہل انصار نے آپ سے سوال کیا کہ اگر ہم آپ سے كيے اپنے وعدہ کو پورا کریں تو ہمارے لیے کیا ہے۔ آپ نے کہا:جنت۔ انھوں نے کہا: اپنا ہاتھ بڑھائیے، پھر ان لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔

اسی قسم کے باشعور اور با ہمت اصحاب تھے جنھوں نے تاریخ میں شرک کے تسلسل کو ختم کیا اور انسانی تاریخ کے رخ کو بدل دیا۔آج دوبارہ تاریخ کو وہی حرکت دینے کی ضرورت ہے جو ہمارے اسلاف نے اپنے زمانے میں دیا تھا۔انھوں نے شرک کے دور کو ختم کر کے توحید کا دور شروع کیا۔اب ہم الحاد کے دور كو ختم کر کے دوبارہ توحید کا دور انسانی تاریخ میں لانا ہے۔یہ ایک بہت اعلیٰ کام ہے۔اور اس کے لیے اعلیٰ افراد انتہائی طور پر ضروری ہیں۔ضرورت ہے کہ ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے جہاں تعلیم و تربیت کے ذریعہ ایسے افراد تیار کیے جائیں۔ڈاکٹر فلپ ہٹی کے الفاظ میں ،آج اسلام کو دوبارہ ایک ہیروؤں کی نرسری (nursery of heroes) درکار ہے۔اس کے بغیر یہ اہم کام انجام نہیں پاسکتا۔ مذکورہ درس گاہ گویا اسی قسم کی ایک نرسری ہو گی جہاں دعوت اسلامی کے ہیرو تیار کیے جائیں۔

دعوتی مرکز کا قیام


اوپر میں نے ڈاکٹر نشی کانت چٹویا دھیا(اسلامی نام محمد عزیز الدین) کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے اپنے 1904ء کے لیکچر میں قدیم حیدر آباد میں کہا تھا:

I feel sure, that if a comprehensive Islamic mission were started in Hyderabad (India) to preach the simple and sublime truths of Islam to the people of Europe. America and Japan, there would be such rapid and enormous accession to its ranks as has not been witnessed again ever since the first centuries of the Hejira, will you, therefore, organise a grand central Islamic Mission here in Hyderabad and open branches in Europe. America and in Japan? (Why have I Accepted Islam, Dr Nishikanta Chattopadhyay)
مجھ کو یقین ہے کہ اگر حیدر آباد میں ایک مکمل اسلامی مشن شروع کیاجائے جس کا مقصد اسلام کی صاف اور سادہ سچائیوں کی تبلیغ ہو اور اس کو یورپ ،امریکہ اور جاپان کے لوگوں تک پہنچایا جائے تو اسلام اتنی تیز اور عظیم سطح سے نفوذ کرے گا جس کی مثال پہلی صدی ہجری کے بعد دوبارہ نہیں دیکھی گئی۔کیا آپ لوگ اسلامی مشن کا ایک عظیم مرکز حیدر آباد (ہندوستان) میں بنائیں گے جس کی شاخیں یورپ امریکہ اور جاپان میں ہوں(واضح ہو کہ حیدر آباد کا لفظ یہاں محض اتفاقی ہے،اس سے مراد کوئی بھی مناسب شہر ہے، نہ کہ صرف حیدر آباد)۔

ایک سعید مسلم روح نے 80 سال پہلے یہ بات کہی تھی۔مگر بد قسمتی سے ابھی تک یہ واقعہ نہ بن سکی۔آج سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ ایک ایسا عظیم دعوتی مرکز قائم کیا جائے جو تمام جدید وسائل سے لیس ہو۔جہاں ہر قسم کے ضروری دعوتی اور تربیتی شعبے قائم ہوں۔اور اسی کے ساتھ وہ ہر قسم کی سیاست اور ہر قسم کے قومی جھگڑوں سے الگ ہو کر کام کرے۔ایک اعلیٰ دعوتی مرکز کے ساتھ اگر یہ چیزیں جمع کر دی جائیں تو یقینی ہے کہ اسلام کی وہ نئی تاریخ دوبارہ بننا شروع ہو جائے گی جس کا ہم مدت سے انتظار کر رہے ہیں مگر وہ ابھی تک ظہور میں نہ آسکی ۔

حرفِ آخر

ابدى صداقت

يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَيَاْبَى اللّٰهُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَهٗ (9:32)

وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں حالاں کہ اللہ اپنی روشنی کو کمال تک پہنچائے بغیر ماننے والا نہیں۔

حضرت موسیٰ 15 ویں صدی قبل مسیح میں مصر میں پیدا ہوئے۔ان کو خدا نے اپنا پیغمبر مقرر کیا۔اس وقت مصر میں ایک مشرک خاندان کی حکومت تھی جو اپنے آپ کو فراعنہ کہتے تھے۔حضرت موسیٰ کا سابقہ اس خاندان کے دو بادشاہوں سے پیش آیا۔ایک وہ جس کو خدا نے بچپن میں آپ کی پرورش کا ذریعہ بنایا۔دوسرا وہ جس سے آپ کا مقابلہ پیش آیا۔

حضرت موسیٰ نے جب فرعون مصر کے سامنے حق کا پیغام پیش کیا تو وہ آپ کا مخالف ہو گیا۔ حضرت موسیٰ نے عصا کے سانپ بن جانے کا معجزہ دکھایا تو اس نے کہا کہ یہ جادو ہے اور ایسا جادو ہم بھی دکھا سکتے ہیں۔فرعون نے حکم دیا کہ اگلے قومی میلہ کے موقع پر مصر کے تمام جادوگروں كو اکٹھا کیا جائے۔وہ اپنے جادو کے کمالات دکھا کر موسیٰ کے معجزے کو باطل ثابت کریں۔چنانچہ مقرر وقت پر ملک کے تمام جادو گر اکٹھا ہو گئے۔حضرت موسیٰ جب میدان میں آئے تو اس وقت انہوں نے ایک تقریر کی۔اس تقریر کا ایک حصّہ یہ تھا:
قَالَ مُوْسٰى مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُ اِنَّ اللّٰهَ سَيُبْطِلُهٗ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِيْنَ وَيُحِقُّ اللّٰهُ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَ (10:81-82)۔موسیٰ نے جادو گروں سے کہا کہ جو کچھ تم لائے ہو وہ جادو ہے۔اللہ اس کو یقیناً باطل کر دے گا۔بیشک اللہ مفسدین کے کام بننے نہیں دیتا۔اور اللہ اپنے کلمات سے حق کو حق ثابت کر دیتا ہے،اگرچہ مجرم لوگوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

حضرت موسیٰ نے اس وقت جو کچھ کہا وہ دراصل پیغمبر کی زبان سے خدا کے ابدی فیصلہ کا اعلان تھا۔موجودہ دنیا میں امتحان کی آزادی ہے۔اس لیے یہاں ہر باطل کو ابھرنے کا موقع مل جاتا ہے۔مگر یہ ابھار ہمیشہ وقتی اور عارضی ہوتا ہے دنیا کا نظام اتنا کامل اور معیاری ہے کہ وہ زیادہ دیر تک باطل کو قبول نہیں کرتا۔وہ ہر خلاف ِحق بات کو ایک عرصہ کے بعد رد کر دیتا ہے۔اور بالآخر جو چیز باقی رہتی ہے وہ وہی ہوتی ہے جو حق ہے۔

خدا کے اس قانون کا ظہور پچھلے زمانے میں بھی ہوا اور موجودہ زمانے میں بھی ہو رہا ہے۔حضرت موسیٰ کے زمانے میں معجزہ کے ذریعہ جادوگروں کے جادو کو باطل ثابت کیا گیا تھا۔پچھلے زمانوں میں یہ واقعہ بار بار ایک یا دوسری شکل میں پیش آتا رہا ہے۔موجودہ زمانے میں خود علم انسانی کے ذریعہ خدا نے اس مقصد کوحاصل کیا ہے۔نزولِ قرآن کے بعد کے دور میں اس سلسلہ میں جو کچھ ہونے والا تھا اس کا ذکر قرآن کی مندرجہ ذیل آیت میں ہے:
سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ اَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ (5341:)۔ہم عنقریب ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور انفس میں بھی،یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ (قرآن) حق ہے۔کیا تمھارے رب کی یہ بات کافی نہیں کہ وہ ہر چیز کا شاہد ہے۔

مفسر ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے:
سَنُظْهِرُ لَهُمْ دَلَالَاتِنَا وَحُجَجَنَا عَلَى كَوْنِ الْقُرْآنِ حقا منزلا من عند اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم بِدَلَائِلَ ‌خَارِجِيَّةٍ (تفسیر ابن کثیر، جلد 7، صفحہ187)۔عنقریب ہم قرآن کے حق اور اللہ کی طرف سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ ہونے کو خارجی دلائل اور براہین کے ذریعہ ان کے لیے ظاہر کر دیں گے۔

قرآن کی مذکورہ آیت کو ابدی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔یہ گویا ایک ایسی ہستی بول رہی ہے جس کے سامنے وقت کے انسان بھی ہیں اور مستقبل میں پیدا ہونے والے انسان بھی ― یہ آیت وقت کے مخاطبین کے ساتھ اگلی نسلوں کو سمیٹتی ہوئی کہہ رہی ہے کہ آج جو بات علم وحی کی بنیاد پر کہی جا رہی ہے، وہ آئندہ خود علمِ انسانی کے زور پر صحیح ثابت ہوگی۔جو چیز آج خبر ہے وہ کل واقعہ بن جائے گی۔

قرآن کی یہ پیشگی خبر بعد کے دور میں نہایت کامل طور پر صحیح ثابت ہوئی ہے۔قدیم زمانے میں جادوگروں نے حق کے مقابلے میں جادو کو کھڑا کیا تو خدا نے اس کو ڈھادیا۔موجودہ زمانے میں علم کے زور پر الحاد و انکار کا دعویٰ کھڑا کیا تو اس کو بھی خدا نے ہباءً منثورا ًبنا دیا۔اسی طرح جس نے بھی کوئی چیز حق کے خلاف کھڑی کی وہ ہمیشہ ڈھا دی گئی۔قدیم زمانے سے لیکر حال کے دور تک کبھی اس میں کوئی فرق نہیں پڑا ۔خدا کا کلام اپنی صداقت کو مسلسل بلا انقطاع باقی رکھے ہوئے ہے۔