شام میں اسد خاندان کے 50 سالہ دور کا ’ایک ہفتے میں‘ خاتمہ

بی بی سی اردو 

ایک ہفتہ قبل تک شام کے حکمران بشار الاسد کا تختہ اُلٹنا ناقابل تصور تھا۔ اس وقت باغیوں نے شمال مغربی شام میں ادلب کے گڑھ سے اپنی جارحانہ مہم شروع کی تھی۔

یہ شام کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی موت کے بعد 2000 میں اقتدار میں آئے تھے۔ ان کے والد نے 29 تک ملک پر حکمرانی کی تھی اور اپنے بیٹے کی طرح ملک پر آہنی کنٹرول رکھتے تھے۔

بشار الاسد کو وراثت میں ہی ایک ایسا ملک ملا جہاں حکومت کا کنٹرول سخت رہتا تھا اور ایسا سیاسی نظام تھا جس کے بارے میں ناقدین مخالفین کو دبانے کا الزام لگاتے تھے۔ کسی قسم کی اپوزیشن کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔

پہلے یہ امید تھی کہ چیزیں مختلف ہوں گی، سب کام شفافیت سے ہوں گے اور ظلم کم ہوگا۔ مگر یہ توقعات دیر تک قائم نہ رہ سکیں۔اسد کو ہمیشہ ایک ایسے آدمی کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے اپنی حکومت کے خلاف 2011 میں پُرامن مظاہرین پر تشدد کر کے انھیں منتشر کیا۔ اس صورتحال نے خانہ جنگی کو جنم دیا جس میں پانچ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے اور 60 لاکھ بے گھر۔روس اور ایران کی مدد سے اسد باغیوں کو کچل کر اپنے دور اقتدار کو وسعت دینے میں کامیاب رہے۔ روس نے اپنی فضائی طاقت استعمال کی جبکہ ایران نے شام میں اپنے فوجی معاون بھیجے۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ نے شام میں تربیت یافتہ جنگجو تعینات کیے۔

مگر اس بار یہ سب نہیں ہو سکا۔ شام کے اتحادی اپنے خود کے امور میں مصروف تھے اور انھوں نے شام کو تنہا چھوڑ دیا۔ ان کی مدد کے بغیر شامی دستے باغیوں کو روکنے میں ناکام رہے۔ بعض مقامات پر دستوں نے باغیوں کو روکنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ان باغیوں کی قیادت سخت گیر اسلامی گروہ ہیئت التحریر الشام نے کی ہے۔پہلے باغیوں نے حلب پر قبضہ کیا جو ملک کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ انھیں بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر حما اور کچھ دن بعد حمص جیسے اہم شہر بھی باغیوں کے ہاتھوں میں چلے گئے۔

دمشق تنہا رہ گیا تھا۔ یہ صرف کچھ گھنٹوں کی بات تھی۔ یوں باغی دارالحکومت میں داخل ہوئے جو اسد کی طاقت کا گڑھ تھا۔

’مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بدل سکتا ہے‘بلاشبہ یہ اسد خاندان کے 50 سالہ دور کا خاتمہ ہے۔ اس تبدیلی خطے میں طاقت کے توازن کو بدل دے گی۔

خطے میں ایران کے اثر و رسوخ کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ اسد کی قیادت میں شام ایرانیوں اور حزب اللہ کے بیچ رابطوں کا حصہ تھا۔ حزب اللہ کو ہتھیار اور گولہ بارود کی ترسیل میں اس کا اہم کردار تھا۔

ایک سال سے اسرائیل کے خلاف جنگ میں حزب اللہ بھی کمزور ہوئی ہے اور اس کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے۔

یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو بارہا فضائی کارروائیوں میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان تمام گروہوں کے علاوہ عراق میں ملیشیا اور غزہ میں حماس، ان سب کی مدد سے خطے میں ایران کا 'مزاحمت کا محود' تشکیل پاتا تھا۔ مگر اب اس نیٹ ورک کو سنگین نقصان پہنچا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے اس نئی صورتحال کا خیر مقدم کیا جائے گا کیونکہ یہ ایران کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتا ہے۔

کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ترکی کی مرضی کے بغیر یہ سب ممکن نہیں تھا۔ ترکی شام میں باغیوں کی حمایت کرتا ہے مگر اس نے ہیئت التحریر الشام کی پشت پناہی کے الزام کی تردید کی ہے۔

کچھ دیر تک صدر طیب اردوغان اسد پر زور دے رہے تھے کہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا سفارتی حل تلاش کیا جائے تاکہ شامی پناہ گزین واپس لوٹ سکیں۔ ترکی میں ان کی تعداد تین لاکھ تک ہے جو مقامی سطح پر ایک حساس مسئلہ بن چکا ہے۔

مگر اسد نے اس سے انکار کیا۔

کئی لوگ اسد کی بے دخلی پر خوش ہیں۔ لیکن آگے کیا ہوگا؟ ہیئت التحریر الشام کی جڑیں القاعدہ سے ملتی ہیں اور اس کا ایک پُرتشدد ماضی ہے۔

کئی برسوں کے دوران اس گروہ نے خود کو شام کی ایک قومی قوت کے طور پر ظاہر کیا ہے۔ ان کے حالہ پیغامات میں سفارتی اور مفاہمتی سوچ جھلکتی ہے۔

مگر اس کے باوجود کئی لوگ پوری طرح مطمئن نہیں۔ انھیں تشویش ہے کہ حکومت گِرانے کے بعد وہ آگے کیا کریں گے؟

ان ڈرامائی تبدیلیوں سے شام میں طاقت کا خلا پیدا ہوسکتا ہے۔ نتیجتاً مزید افراتفری اور تشدد کا خدشہ ہے۔

شام میں باغی فورسز ملک کے دارالحکومت دمشق میں داخل ہو گئی ہیں اور یہ اطلاعات بھی ہیں صدر بشارالاسد طیارے میں سوار ہو کر کسی اور ملک منتقل ہو چکے ہیں۔ باغی فورسز نے دمشق پر قبضے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک تاریک دور کا خاتمہ ہوا اور یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے۔

باغیوں کے دارالحکومت میں داخل ہونے پر بشارالاسد کی افواج نے یا تو اپنی پوسٹیں چھوڑ دیں یا پھر وہ ان باغیوں کے ساتھ ہی مل گئیں۔

ٹی وی پر کیے جانے والے ایک اعلان میں گروپ نے کہا کہ ’بشار الاسد کا تختہ الٹ دیا گیا ہے اور شہر کو آزاد کرا لیا گیا ہے۔‘ اس گروپ نے کہا ہے کہ ’تمام شامیوں اور تمام مکاتب فکر کا آزاد اور خودمختار شام زندہ باد۔‘

اب سے کچھ دیر قبل باغی گروہ ہیئت تحریر الشام کے رہنما ابو محمد الجولانی کا کہنا ہے کہ اقتدار کی باضابطہ منتقلی تک عوامی ادارے وزیرِ اعظم محمد الجلالی کے ماتحت کام کرتے رہیں گے۔باغیوں کی جانب سے صدر بشارالاسد کی شام سے فرار ہونے کے دعوے کے بعد وزیرِ اعظم محمد الجلالی نے اعلان کیا ہے کہ عوام جس کو بھی چنیں گے وہ اس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔

شام کے دو سینیئر فوجی حکام نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ صدر بشار الاسد طیارے میں سوار ہو کر دمشق سے نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گئے ہیں۔

ابو محمد الجولانی کی قیادت میں نومبر کے آخر میں حلب پر اچانک قبضے کے ساتھ شروع ہونی والی کارروائیوں کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے دو ہفتوں سے بھی کم عرصے میں حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے۔دمشق شہر پر تازہ حملے ہیئت تحریر الشام کی قیادت میں ہوئے ہیں۔ اس سے قبل یہ گروپ ملک کے دوسرے بڑے شہر حلب اور تیسرے بڑے شہر حمص کے اکثریتی علاقے پر بھی قبضہ کر چکا ہے۔

سنہ 2016 میں صدر بشارالاسد کی افواج نے حلب سے باغیوں کو علاقہ بدر کر دیا تھا اور اس کے بعد سے یہاں پر کوئی بڑا حملہ نہیں ہوا تھا۔

سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کےمطابق گذشتہ ہفتے شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک 111 عام شہریوں سمیت 820 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

باغی کمانڈر حسن عبدالغنی کا کہنا ہے کہ شام کی بدنامِ زمانہ صیدنایا جیل سے تقریباً ساڑھے تین ہزار قیدیوں کو رہا کروایا جا چکا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق باغیوں کی کارروائی کے نتیجے میں اب تک کم از کم تین لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔

یاد رہے سنہ 2011 میں اس ملک میں جمہوریت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں کے بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔اس وقت صدر بشارالاسد کے مخالفین بشمول جہادی گروہ نے اس خانہ جنگی کا فائدہ اُٹھایا تھا اور ملک کے بڑے حصوں پر قبضہ کر لیا تھا۔

تاہم بعد میں شامی حکومت نے روس، ایران اور دیگر اتحادیوں کی مدد سے تقریباً تمام علاقوں کا کنٹرول واپس لے لیا تھا۔

صرف ادلب وہ واحد علاقہ تھا جس کا کنٹرول ہیئت تحریر الشام کے پاس تھا۔ اس صوبے میں کچھ علاقوں میں ترکی کے حمایت یافتہ جنگجو بھی موجود ہیں۔دمشق پر حملہ کرنے والے باغی کون ہیں؟
دمشق پر تازہ حملے کرنے والے گروپ ہیئت تحریر الشام کا شامی تنازع میں ایک عرصے سے کردار رہا ہے۔ اقوام متحدہ، امریکہ، ترکی اور دیگر کئی ممالک نے ایچ ٹی ایس کو دہشتگرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔

ہیئت تحریر الشام کا وجود سنہ 2011 میں جبهة النصرہ کے نام سے سامنے آیا تھا، جو کہ القاعدہ سے منسلک ایک گروہ تھا۔

نام نہاد دولت اسلامیہ کے سابق سربراہ ابو بکر البغدادی کا بھی اس گروہ کو بنانے میں کردار تھا۔

اس گروہ کو شام میں صدر بشارالاسد کا سب سے خطرناک ترین مخالف سمجھا جاتا تھا۔

سنہ 2016 میں جبهة النصرہ کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے القاعدہ سے قطع تعلق کر لیا اور اس تنظیم کو تحلیل کرکے دیگر گروہوں سے اتحاد کر کے ہیئت تحریر الشام کی بنیاد رکھ دی۔

القاعدہ سے تعلق توڑنے کے بعد ہیئت تحریر الشام کا مقصد دنیا میں خلافت قائم کرنا نہیں بلکہ شام میں بنیاد پرست مذہبی حکومت قائم کرنا ہے۔’ایران کو دھچکا‘
گذشتہ چار برسوں میں ایسا لگ رہا تھا جیسے شام میں جنگ اب ختم ہو گئی ہے اور صدر بشار الاسد کی حکومت ملک کے بڑے حصوں پر کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

بشار الاسد کی اس فتح کے پیچھے روسی فضائیہ اور اہم اتحادی ایران کی عسکری قوت کا بھی ہاتھ تھا۔

دوسری جانب ایران یہ ماننے کو تیار نہیں کہ حلب کا کنٹرول شامی حکومت کے ہاتھ سے چلا گیا ہے۔

ایرانی نیوز ایجنسی اِرنا کے مطابق لبنان میں ایرانی سفیر مجتبیٰ امانی کا کہنا ہے کہ حلب پر ’دہشتگردوں کے قبضے‘ کی غلط افواہیں ’سائبر آرمی‘ کی جانب سے پھیلائی جا رہی ہیں۔

مجتبیٰ امانی کا کہنا تھا کہ ’اب شامی حکومت مضبوط ہے اور روسی حکومت بھی شام کا دفاع کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ مزاحمتی محاذ اور ایران شامی حکومت اور اس کے عوام کی حمایت جاری رکھیں گے۔‘لیکن دوسری جانب عرب میڈیا حلب میں باغی جنگجوؤں کی پیش قدمی کو ’ایران کے لیے ایک دھچکا‘ قرار دے رہا ہے۔

ممتاز سعودی لکھاری مشاری التھیدی نے عرب اخبار الشرق الاوسط کو بتایا کہ شام میں باغیوں کی پیش قدمی روس اور شامی حکومت کے ساتھ ساتھ ایران کے لیے بھی ایک ’دھچکا‘ ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ حلب اور دیگر علاقوں میں جاری تازہ لڑائیاں شام میں ایران اور دیگر غیرملکی طاقتوں کی مداخلت کا نتیجہ ہیں۔

ایک اور عرب اخبار العرب نے شام کے حوالے سے ایک مضمون کی سرخی کچھ اس انداز میں دی: ’پانچ برسوں کے امن کے بعد حلب بشار الاسد کے لیے ایک پیچیدہ امتحان ثابت ہوگا۔‘ 

ابو محمد الجولانی کون ہیں؟

ابو محمد الجولانی 
بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق ابوجولانی کا اصل نام، ان کی تاریخ اور جائے پیدائش، شہریت کے بارے میں مختلف معلومات موجود ہیں جس کی وجہ سے ان کی پراسرار شخصیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق ابوجولانی 1975 اور 1979 کے درمیان پیدا ہوئے جبکہ انٹرپول کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش 1975 ہے۔

امریکی ٹی وی نیٹ ورک پی بی ایس کو دیے جانے والے ایک انٹرویو کے مطابق ان کا اصلی نام احمد حسین ہے اور ان کو ابوجولانی گولان کی پہاڑیوں کی وجہ سے کہا جاتا ہے جہاں سے ان کے خاندان کا تاریخی تعلق ہے۔

اسی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ 1982 میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے والد پیٹرولیئم انجینیئر کے طور پر کام کرتے تھے۔ 1989 میں ان کے اہلخانہ شام واپس لوٹے اور اس کے بعد ان کی پرورش دمشق کے قریب ہوئی۔

چند خبروں کے مطابق انھوں نے دمشق میں طب کی تعلیم حاصل کی لیکن تیسرے سال کے دوران عراق میں القاعدہ میں اس وقت شمولیت اختیار کر لی جب امریکہ نے 2003 میں حملہ کیا۔کہا جاتا ہے کہ وہ جلد ہی عراق میں القاعدہ کے سرگرم رہنما ابو مصعب الزرقاوی کے قریبی ساتھی بن گئے لیکن 2006 میں الزرقاوی کی ہلاکت کے بعد لبنان منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے جند الشام نامی لبنانی عسکری گروہ کو تربیت فراہم کی۔

اس کے بعد ان کی عراق واپسی کی اطلاعات موجود ہیں جہاں امریکی فوج نے انھیں گرفتار کیا اور کچھ عرصہ تک قید میں رہنے کے بعد جب 2008 میں ان کو رہائی ملی تو وہ نام نہاد دولت اسلامیہ میں شامل ہو گئے۔

کہا جاتا ہے کہ انھیں امریکی کیمپ بکا نامی قید خانے میں رکھا گیا تھا جہاں ان کے نظریات پختہ ہوئے اور مستقبل میں بننے والی نام نہاد دولت اسلامیہ کے رہنماوں سے تعلقات بھی استوار ہوئے۔

چند رپورٹس کے مطابق الجولانی اگست 2011 میں شام واپس لوٹے اور انھوں نے القاعدہ کی ایک شاخ کھولی جس کا مقصد صدر بشار الاسد کے خلاف جنگ تھا۔ تاہم ایک لبنانی اخبار نے دعوی کیا ہے کہ الجولانی حقیقت میں عراقی شہری ہیں اور ان کے نام کی وجہ فلوجہ کا وہ علاقہ ہے جسے الجولان کہتے ہیں اور ان کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔

جبھہ النصرہ نامی اس شدت پسند گروہ کی قیادت سنبھالنے کے بعد اطلاعات کے مطابق الجولانی کی ذاتی معلومات کو اتنا خفیہ رکھا گیا کہ گروہ کے اکثر اراکین تک اپنے سربراہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔القاعدہ سے علیحدگی
2011 میں شام میں بغاوت خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئی تو الجولانی ابوبکر البغدادی کی جانب سے خصوصی مشن پر شام پہنچے تاکہ دولت اسلامیہ کی ایک مقامی شاخ کی بنیاد رکھ سکیں۔ 2012 میں ’جبھہ النصرہ‘ کا آغاز ہوا اور یہ دولت اسلامیہ کی عراقی شاخ بن گئی۔

تاہم 2013 میں جب ابوبکر البغدادی نے باقاعدہ طور پر جبھہ النصرہ اور دولت اسلامیہ کے انضمام کا اعلان کیا تو الجولانی نے اسے رد کرتے ہوئے الاقاعدہ کے سربراہ ایمن الزواہری کی حمایت کا اعلان کر دیا۔

یہ وہ وقت تھا کہ جب جبھہ النصرہ عسکری اعتبار سے طاقتور ہوتی جا رہی تھی۔ جولائی 2016 میں الجولانی نے اعلان کیا کہ ان کے گروہ کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں رہا اور اسے اب جبھہ فتح الشام کے نام سے پکارا جائے۔

2017 میں اس گروہ کو ’ہیئت تحریر الشام‘ کے نام سے ایک اتحاد کی شکل دی گئی جس میں دیگر تنظیمیں بھی شامل تھیں اور اس کے سربراہ الجولانی تھے۔

اس تنظیم نے مقامی سطح کے مسائل کو ترجیح دی اور 2021 میں الجولانی نے امریکی ادارے پی بی ایس کو انٹرویو میں کہا کہ انھوں نے القاعدہ کے عالمی جہاد کے نظریے کو ترک کر دیا ہے اور اب ان کا مقصد شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ اور ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا ہے۔

اس انٹرویو میں الجولانی نے کہا کہ ’جب ہم القاعدہ میں تھے، تب بھی یورپی یا امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کے خلاف تھے۔ ہم نے ایسا کبھی نہیں کیا۔‘ انھوں نے کہا کہ ہیئت تحریر الشام کو دہشت گرد گروہ کا درجہ دینا ’غیر منصفانہ‘ اور ’سیاسی‘ فیصلہ تھا۔حلب
الجولانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیتے ہیں۔ پہلے ان کے نظریات القاعدہ سے قریب تھے لیکن بعد میں انھوں نے مقامی ایجنڈا کو اپنا لیا۔

ان کی قیادت میں ہیئت تحریر الشام نے حلب صوبے میں اسلامی نظام نافذ کیا، عدالتیں بنائیں اور پولیس فورس تک قائم کی۔ حلب میں ان کا کافی اثرورسوخ ہے جو شام میں اپوزیشن کا مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہ علاقہ اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ یہ ترکی کی سرحد سے ملتا ہے۔

اس دوران الجولانی نے عسکری کارروائیوں کے ساتھ ساتھ مقامی انتظامیہ چلانے اور سفارت کاری میں مہارت بھی دکھائی اور شام کے تنازع میں ایک اہم کردار بن کر ابھرے۔

وہ علاقے جو ان کے گروہ کے زیر انتظام ہیں، وہاں ایک ایسی حکومت موجود ہے جو معیشت، صحت، تعلیم اور سکیورٹی تک کا انتظام کرتی ہے۔ الجولانی نے یہ کہا ہے کہ ان علاقوں میں ’اسلامی حکومت ہے لیکن دولت اسلامیہ کے نظریات کے تحت نہیں۔‘

تاہم خبروں اور تجزیہ کاروں کے مطابق ان کے گروہ نے اپنے مخالفین کے خلاف سخت رویہ اپنایا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ ان کے گروہ نے قیدیوں پر تشدد کیا ہے۔

الجولانی ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو دعوت دیتے رہے ہیں کہ وہ ان کے زیر انتظام علاقے میں موجود جیلوں کا دورہ کریں اور وہاں پر حالات کا جائزہ لیں۔

واضح رہے کہ امریکی حکومت بھی الجولانی کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتی ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے معلومات فراہم کرنے پر 10 ملین ڈالر کی انعامی رقم رکھی گئی ہے۔