(نوٹ : یہ مکالمہ علامہ اقبال ؒ کی شخصیت، افکار، شاعری، اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے۔)
میزبان: خوش آمدید، محترم قاریین ! آج ہمارے ساتھ ایک ایسی عظیم شخصیت موجود ہیں جنہوں نے نہ صرف شاعری کے ذریعے امت مسلمہ کو جگانے کا کام کیا، بلکہ ان کے افکار نے برصغیر کی تاریخ کو نئی سمت دی۔ ہمارے آج کے مہمان ہیں: شاعر مشرق، مفکر اسلام، فلسفی، اور مصور پاکستان، علامہ اقبال ؒ ! ان کا گرمجوشی سے استقبال کرتے ہیں۔
میزبان: علامہ صاحب، سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ کی شاعری اور فکر کا بنیادی محور کیا ہے؟ آپ کے نزدیک شاعری کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟
علامہ اقبال: شاعری میرے نزدیک صرف الفاظ کا کھیل نہیں ہے۔ شاعری کا مقصد انسان کو جگانا، اس کے اندر کے جذبے کو بیدار کرنا، اور اسے اپنی حقیقی منزل کی طرف راغب کرنا ہے۔ میری شاعری کا بنیادی محور "خودی" ہے، یعنی انسان کا اپنے اندر کی طاقت کو پہچاننا۔ میں نے کہا ہے:
"خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے۔"
میرا مقصد یہ تھا کہ مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو پہچانیں اور اپنے اندر کے جوہر کو اجاگر کریں۔
میزبان: بہت خوب! آپ کی شاعری میں "خودی" کا تصور بار بار آیا ہے۔ کیا آپ اسے مزید واضح کر سکتے ہیں؟
علامہ اقبال: بالکل۔ "خودی" دراصل انسان کی اپنی ذات کی پہچان ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو انسان کو اس کے مقصدِ حیات سے روشناس کراتی ہے۔ میں نے دیکھا کہ مسلمان اپنی خودی کو بھول چکے ہیں، وہ دوسروں کے محتاج ہو گئے ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ وہ اپنے اندر کی طاقت کو پہچانیں اور اپنی منزل کی طرف بڑھیں۔ "خودی" کا مطلب یہ نہیں کہ انسان خود غرض بن جائے، بلکہ یہ کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچانے اور انہیں بروئے کار لائے۔
میزبان: آپ کی شاعری میں اسلام کا تصور بھی بہت واضح ہے۔ آپ نے اسلام کو کیسے دیکھا، اور آپ کے نزدیک اسلام کی حقیقی روح کیا ہے؟
علامہ اقبال: اسلام میرے نزدیک صرف ایک مذہب نہیں، بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ اسلام انسان کو آزادی، مساوات، اور عدل کا درس دیتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ مسلمان اسلام کی حقیقی روح کو بھول چکے ہیں، وہ صرف رسوم و رواج تک محدود ہو گئے ہیں۔ میں نے اپنی شاعری کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ اسلام ایک متحرک اور فعال مذہب ہے، جو انسان کو عمل کی ترغیب دیتا ہے۔ میں نے کہا ہے:
"یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن۔"
میرا مقصد یہ تھا کہ مسلمان قرآن کی تعلیمات کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں۔
میزبان: آپ نے فلسفے پر بھی بہت کام کیا ہے۔ آپ کے فلسفے کا بنیادی نکتہ کیا ہے، اور آپ نے مغربی فلسفے کو کیسے دیکھا؟
علامہ اقبال: میں نے فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا، خاص طور پر مغربی فلسفے کا۔ میرے نزدیک مغربی فلسفہ مادیت پرستی کا شکار ہے، جبکہ اسلام روحانیت اور مادیت کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔ میں نے اپنی کتاب "The Reconstruction of Religious Thought in Islam" میں یہ بات واضح کی ہے کہ اسلام ایک متوازن نظامِ فکر پیش کرتا ہے، جو انسان کی مادی اور روحانی دونوں ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ میرے فلسفے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ انسان کو اپنی ذات کی پہچان ہونی چاہیے اور وہ اپنے خالق کے ساتھ ایک مضبوط تعلق قائم کرے۔
میزبان: آپ نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا تصور پیش کیا۔ کیا آپ کو لگتا تھا کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے؟
علامہ اقبال: میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ برصغیر کے مسلمان ایک الگ قوم ہیں، جن کی اپنی تہذیب، ثقافت، اور مذہبی شناخت ہے۔ میں نے 1930 کے خطبہ الہ آباد میں یہ بات واضح کی کہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن ضروری ہے، جہاں وہ اپنے دین اور تہذیب کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ میں نے دیکھا تھا کہ اگر مسلمان اکثریتی برادری کے ساتھ رہے، تو ان کی شناخت خطرے میں پڑ جائے گی۔ میرا یہ خواب قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر رہنماؤں کی کوششوں سے شرمندہ تعبیر ہوا، اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔
میزبان: آپ کی شاعری میں نوجوانوں کے لیے خاص پیغامات ہیں۔ آپ نوجوان نسل کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
علامہ اقبال: نوجوانوں کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں اور انہیں بروئے کار لائیں۔ میں نے کہا ہے:
"ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔"
نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ خواب دیکھیں، اور ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے محنت کریں۔ انہیں اپنی خودی کو پہچاننا چاہیے اور اپنے مقصدِ حیات کو سمجھنا چاہیے۔
میزبان: علامہ صاحب، آپ کی زندگی کا ایک اور اہم پہلو آپ کا تعلیمی سفر ہے۔ آپ نے کیمبرج اور میونخ جیسے اداروں میں تعلیم حاصل کی۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ مغربی تعلیم نے آپ کے افکار پر کوئی اثر ڈالا؟
علامہ اقبال: مغربی تعلیم نے میرے افکار کو وسعت ضرور دی، لیکن میں نے ہمیشہ اپنی اسلامی شناخت کو برقرار رکھا۔ میں نے مغربی فلسفے اور سائنس کا گہرا مطالعہ کیا، لیکن میں نے اسے اسلام کے تناظر میں دیکھا۔ میرے نزدیک علم کا مقصد صرف معلومات جمع کرنا نہیں، بلکہ اسے انسانیت کی بہتری کے لیے استعمال کرنا ہے۔ میں نے مغربی تعلیم سے بہت کچھ سیکھا، لیکن میں نے ہمیشہ اپنی جڑوں کو مضبوط رکھا۔
میزبان: آپ کی شاعری میں عورت کا کردار بھی نمایاں ہے۔ آپ کے نزدیک عورت کی کیا اہمیت ہے؟
علامہ اقبال: عورت معاشرے کی بنیاد ہے۔ میں نے اپنی شاعری میں عورت کو عزت اور احترام کا مقام دیا ہے۔ عورت نہ صرف گھر کی رونق ہے، بلکہ وہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ میں نے کہا ہے:
"وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں۔"
میرے نزدیک عورت کو معاشرے میں وہ مقام ملنا چاہیے جو اسلام نے اسے دیا ہے۔
میزبان: علامہ صاحب، آپ کی زندگی کا ایک اور اہم پہلو آپ کا سیاسی کردار ہے۔ آپ نے مسلم لیگ کے ساتھ مل کر کام کیا۔ کیا آپ کو لگتا تھا کہ پاکستان کا قیام ممکن ہو سکتا ہے؟
علامہ اقبال: میں نے ہمیشہ یہ یقین رکھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن ضروری ہے۔ میں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ مل کر کام کیا، اور میں نے دیکھا کہ وہ ایک عظیم رہنما ہیں جن کے پاس مسلمانوں کے لیے ایک واضح ویژن ہے۔ میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ اگر مسلمان متحد ہو جائیں، تو وہ اپنے خواب کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔ پاکستان کا قیام میرے خواب کی تعبیر تھی۔
میزبان: علامہ صاحب، آپ کی زندگی اور افکار نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ آپ کے نزدیک آپ کی سب سے بڑی کامیابی کیا ہے؟
علامہ اقبال: میری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ میں نے مسلمانوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کی۔ میں نے انہیں یہ باور کرایا کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ میری شاعری اور افکار نے نوجوانوں کو جگایا، اور انہیں اپنی منزل کی طرف بڑھنے کی ترغیب دی۔ اگر میں نے کسی کے دل میں امید کی چنگاری روشن کی، تو میں سمجھوں گا کہ میری زندگی کا مقصد پورا ہو گیا۔
میزبان: بہت شکریہ، علامہ صاحب! آپ کے افکار اور شاعری نے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ امید ہے کہ ہمارے قاریین بھی اس مکالمے سے مستفید ہوں گے۔ شکریہ!
(علامہ سے مکالمہ اختتام ہوتا ہے۔)