یہ سوال ہر باشعور پاکستانی کے ذہن میں گردش کر رہا ہے۔ آئیے، ذرا ان اختلافات کا تجزیہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان کے حل کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
مذہبی اختلافات: اتحاد کی جگہ افتراق
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، لیکن یہاں اسلام کے نام پر ہی سب سے زیادہ فرقہ واریت پھیلائی گئی۔ ایک دوسرے کو کافر کہنے کی روش عام ہو چکی ہے، اور مذہب کی بنیاد پر نفرت کا بیج بویا جا چکا ہے۔ شدت پسندی اور انتہا پسندی نے نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا بلکہ بیرونی دنیا میں بھی پاکستان کے امیج کو متاثر کیا۔
حل کیا ہے؟
- فرقہ وارانہ بیانیے کے بجائے علماء کو مشترکہ نکات پر زور دینا ہوگا۔
- مدارس میں ایسا نصاب متعارف کروایا جائے جو رواداری اور برداشت کو فروغ دے۔
- فرقہ واریت پر مبنی تقاریر اور فتووں پر سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔
سیاسی انتشار: عوامی مسائل پس پشت
پاکستان کی سیاست ہمیشہ اقتدار کی رسہ کشی میں الجھی رہی ہے۔ قومی مفادات کی جگہ ذاتی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ ہو یا میڈیا، ہر جگہ صرف سیاسی تماشے نظر آتے ہیں، عوامی مسائل کہیں پس پردہ چلے جاتے ہیں۔
حل کیا ہے؟
- تمام سیاسی جماعتوں کو ایک قومی چارٹر پر متفق ہونا ہوگا، جس میں تعلیم، صحت، معیشت اور خارجہ پالیسی کو سیاست سے بالاتر رکھا جائے۔
- کرپشن کے خلاف مؤثر اور غیر جانبدارانہ احتسابی نظام متعارف کروایا جائے۔
- میڈیا کو سنسنی خیزی کے بجائے مثبت قومی مباحثے کو فروغ دینا ہوگا۔
صوبائی تعصب: اتحاد کی راہ میں دیوار
پاکستان کے مختلف صوبے اکثر ایک دوسرے کے خلاف شکایات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ چھوٹے صوبے ہمیشہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہیں ان کے حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے، جبکہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا شکوہ ہر جگہ سننے کو ملتا ہے۔
حل کیا ہے؟
- وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے، تاکہ کسی صوبے کو احساسِ محرومی نہ ہو۔
- قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے تمام زبانوں اور ثقافتوں کو یکساں عزت دی جائے۔
- نوجوانوں کو صوبائیت سے بالاتر ہو کر سوچنے کی تربیت دی جائے۔
ہمارے دانشور اور علماء ناکام کیوں؟
پاکستان میں دانشور طبقہ یا تو زبانی مباحثوں میں الجھا ہوا ہے یا پھر عملی اقدامات سے دور ہے۔ ہمارے علماء بھی اتحاد کا درس دینے کے بجائے مسلکی لڑائیوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ حکمرانوں کی مفاد پرستی اور غیر سنجیدگی نے معاملات مزید بگاڑ دیے ہیں۔
آگے بڑھنے کا راستہ
اگر ہم واقعی پاکستان کو متحد دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اب سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
- سیاستدانوں کو ملک کو ذاتی مفادات پر ترجیح دینی ہوگی۔
- علماء کو مسلکی اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے امت کے اتحاد پر توجہ دینی ہوگی۔
- دانشوروں کو محض تجزیے کرنے کے بجائے عملی حل پیش کرنا ہوں گے۔
یاد رکھیے! ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان تبھی ممکن ہے، جب ہم ان اختلافات کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں گے، ورنہ یہ انتشار ہمیں مزید نقصان پہنچاتا رہے گا۔