نوام چومسکی کا نظریہ گرامر (یا نظریہ لسانیات) جدید لسانیات میں ایک انقلاب کا باعث بن چکا ہے۔ اس نے زبان کی فطری نوعیت کو سمجھنے کی نئی راہیں ہموار کیں اور لسانیات کے مطالعے کو صرف سماجی اور ثقافتی اثرات تک محدود کرنے کی بجائے، زبان کے اندر موجود داخلی، قدرتی ساخت کی طرف بھی توجہ مرکوز کی۔ ان کا یہ نظریہ زبان کو انسانی دماغ کی ایک فطری صلاحیت کے طور پر دیکھتا ہے اور اس میں مختلف اہم اجزاء شامل ہیں:
1. فطری لسانی صلاحیت (Innateness Hypothesis)
چومسکی کے مطابق، انسانوں میں زبان سیکھنے کی ایک فطری صلاحیت موجود ہے، جو جینیاتی طور پر وراثت میں ملتی ہے۔ ان کے اس نظریے کو "فطری لسانی صلاحیت" (Innateness Hypothesis) کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کے دماغ میں زبان سیکھنے کے لیے ایک "پری پروگرامڈ" نظام موجود ہے، اور یہ نظام کسی بھی زبان کو سیکھنے کے عمل کو ممکن بناتا ہے۔ اس طرح انسانوں میں زبان سیکھنے کی یہ صلاحیت حیاتیاتی طور پر موجود ہوتی ہے، اور یہ کوئی سیکھا ہوا عمل نہیں ہوتا۔
2. نظریہ گرامر (Universal Grammar)
چومسکی نے "نظریہ گرامر" (Universal Grammar) کا تصور پیش کیا، جس کے مطابق تمام انسانوں میں زبان کی ایک بنیادی ساخت یا اصول موجود ہوتی ہے جو تمام زبانوں میں مشترک ہے۔ اس کے مطابق، دنیا کی تمام زبانیں ایک ہی بنیادی گرامر کے اصولوں پر مبنی ہوتی ہیں، اور مختلف زبانوں کے درمیان فرق ان اصولوں کی سطح پر مختلف ہوتا ہے۔ چومسکی نے اس نظریے کو اس بات کے طور پر پیش کیا کہ تمام زبانوں میں موجود گرامری ڈھانچہ انسان کے دماغ میں "پری پروگرامڈ" ہوتا ہے۔
3. پرانٹیکٹیکل لسانیات (Transformational-Generative Grammar)
چومسکی کا پرانٹیکٹیکل لسانیات (Transformational-Generative Grammar) ماڈل زبان کے ساختی تجزیے کے لیے ایک بنیادی نظریہ ہے۔ اس ماڈل کے مطابق، زبان کے جملے کی تفصیل اور تشکیل کے مختلف اصول ہوتے ہیں جنہیں "پرانٹیکٹیکل قواعد" (transformational rules) اور "جینیریٹو قواعد" (generative rules) کہا جاتا ہے۔
- جینیریٹو قواعد زبان کے جملے کے بنیادی ڈھانچے یا اصولوں کی وضاحت کرتے ہیں۔
- پرانٹیکٹیکل قواعد جملے میں تبدیل ہونے یا اس کی شکل میں تبدیلی لانے کے عمل کو بیان کرتے ہیں۔
اس ماڈل میں چومسکی نے یہ بتایا کہ ہر جملہ ایک "چینل" کی طرح ہوتا ہے جس میں بنیادی یا ابتدائی ڈھانچہ (یا "دھانچہ") اور اس کے مختلف تغیرات شامل ہوتے ہیں۔
4. ذہنی لسانیات (Mentalism)
چومسکی کے مطابق، زبان دماغ کے اندر موجود ذہنی نظام کا ایک حصہ ہے۔ اس کے مطابق، زبان سیکھنے اور استعمال کرنے کا عمل دماغ کے اندرونی تصورات اور ساختوں پر مبنی ہوتا ہے، نہ کہ بیرونی سماجی یا ثقافتی عوامل پر۔ یہ ذہنی لسانیات (mentalism) کا تصور ہے، جس کے تحت چومسکی نے زبان کو ایک ذہنی نظام کے طور پر دیکھا، جو دماغ کی فطری صلاحیتوں کا مظہر ہے۔
5. نظریہ فنکشنل لسانیات (Functional Linguistics)
اگرچہ چومسکی کا لسانیاتی نظریہ زیادہ تر "ساختی" (structural) تھا، تاہم انہوں نے زبان کے "فنکشن" یعنی اس کے عملی استعمال اور اس کے معاشرتی اور ثقافتی کردار پر بھی بحث کی۔ ان کا کہنا تھا کہ زبان کا کام صرف فکریاتی یا منطقی اصولوں تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ یہ معاشرتی، ثقافتی اور نفسیاتی سطحوں پر بھی کام آتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق، زبان کی ترقی اور اس کا استعمال ان عوامل کے تابع ہوتا ہے جو فرد کی اجتماعی زندگی اور اس کے تنقلی مقاصد سے جڑے ہوتے ہیں۔
6. زبان سیکھنے کے مراحل (Stages of Language Acquisition)
چومسکی نے زبان سیکھنے کے عمل کے مختلف مراحل کی وضاحت کی، اور کہا کہ بچے اپنی مادری زبان کو فطری طور پر سیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق، بچے نہ صرف زبان کے الفاظ اور جملے یاد کرتے ہیں، بلکہ وہ زبان کے بنیادی اصولوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے مطابق، بچے زبان کے مختلف قواعد اور اصولوں کو سیکھنے کے لئے مخصوص دماغی اسٹرکچرز کا استعمال کرتے ہیں۔
7. چومسکی کی تنقید برائے سلوک پسندی (Critique of Behaviorism)
چومسکی نے زبان سیکھنے کے بارے میں سلوک پسندی (Behaviorism) کے نظریے کو تنقید کا نشانہ بنایا، جو اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ زبان سیکھنے کا عمل صرف مشق اور ماحولیاتی اثرات کی وجہ سے ہوتا ہے۔ چومسکی نے کہا کہ یہ نظریہ ناکافی ہے کیونکہ یہ اس بات کو نظر انداز کرتا ہے کہ انسان کے ذہن میں زبان سیکھنے کی ایک فطری صلاحیت موجود ہے، جو کسی خارجی اثرات سے بالاتر ہے۔ انہوں نے "سلوک پسندی" کے خلاف اپنی مشہور "اسکول آف سائنس" (The Behaviorist Revolution) کے ساتھ سخت تنقید کی۔
چومسکی کا نظریہ گرامر لسانیات میں ایک سنگ میل ثابت ہوا اور اس نے زبان سیکھنے، انسانی دماغ، اور دنیا کی زبانوں کی ساخت کے بارے میں ہمارے تصورات کو یکسر بدل دیا۔ ان کا تصور "نظریہ گرامر" زبان کے اصولوں کو عالمی سطح پر یکساں سمجھتا ہے اور اس نے لسانیاتی تحقیق کو ایک نیا رخ دیا، جس میں دماغی عمل اور فطری صلاحیتوں کو اہمیت دی گئی۔ اس کے علاوہ، چومسکی نے سماجی اور سیاسی میدان میں بھی اہم اثرات مرتب کیے ہیں، اور ان کی نظریات نے عالمی سطح پر زبان، سیاست اور ثقافت کے بارے میں ایک نیا فکری نقطہ نظر پیش کیا۔