نوام چومسکی سے ایک مکالمہ

(نوٹ : یہ مکالمہ نوام چومسکی کی شخصیت، ان کے افکار، خدمات اور عالمی مسائل کے حوالے سے ان کے نقطہ نظر پر تفصیل سے روشنی ڈالتا ہے، اور ان کے علم و فہم کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔نوام چومسکی ایک عالمی شہرت یافتہ لسانی ماہر، فلسفی اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ انہیں جدید لسانیات کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے، خاص طور پر ان کے نظریہ گرامر نے زبان کی تفہیم میں انقلاب برپا کیا۔ چومسکی نے عالمی سیاست، معاشی نابرابری اور میڈیا کے کردار پر گہری تنقید کی، اور اپنی تحریروں میں طاقتور ریاستوں کی پالیسیوں کا شدید مقابلہ کیا۔ ان کی کتابیں جیسے "Manufacturing Consent" نے میڈیا اور معاشرتی ڈھانچوں پر ان کے تنقیدی نظریات کو عالمی سطح پر مقبول کیا۔)

میزبان:

"خواتین و حضرات، آج کے اس مکالمے میں ہم ایک ایسی شخصیت پر بات کریں گے جنہوں نے لسانیات، سیاست اور سماجی تنقید کے میدان میں ایک نیا انقلاب برپا کیا۔ وہ شخص ہے، نوام چومسکی۔ نوام چومسکی نہ صرف جدید لسانیات کے بانی ہیں بلکہ ان کا شمار عالمی سطح پر ایک ممتاز سیاسی دانشور کے طور پر بھی کیا جاتا ہے۔ آج ہم ان کی زندگی، شخصیت، افکار، خدمات اور نظریات پر تفصیل سے بات کریں گے۔"

میزبان:
"نوام چومسکی، آپ کی زندگی کا آغاز 7 دسمبر 1928 کو امریکہ کے شہر فلاڈلفیا میں ہوا۔ آپ ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم لسانیات اور فلسفہ میں ہوئی، اور آپ نے ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ آپ کا علم و فہم نہ صرف لسانیات بلکہ سیاست، سماجی تنقید، اور عالمی مسائل پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔ سب سے پہلے، ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ آپ کی شخصیت پر آپ کے ابتدائی سالوں کا کیا اثر تھا؟"

نوام چومسکی:
"میرے ابتدائی سالوں میں میری والدہ اور والد کی تعلیم اور علم کا اثر بہت زیادہ تھا۔ میرے والد خود بھی ایک لسانی ماہر تھے اور میری والدہ ایک تعلیمی شخصیت تھیں۔ میرے خاندان نے ہمیشہ سوچنے، سوال کرنے، اور تنقید کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ میری زندگی کی ابتدائی سالوں میں ہی میں نے یہ سیکھا کہ علم صرف کتابوں تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ ہمیں اپنے گرد و نواح کے معاشرتی مسائل اور سیاسی تنقیدوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔"

میزبان:
"چومسکی صاحب، آپ نے لسانیات کے میدان میں ایک نئی راہ متعارف کروائی۔ آپ نے 'پرانٹیکٹیکل لسانیات' اور 'معیاری لسانیات' پر کام کیا اور 'نظریہ گرامر' پیش کیا۔ آپ کے اس کام نے لسانیات کے شعبے میں انقلاب برپا کیا۔ آپ کے اس نظریے کو لے کر آپ کی اہم تصانیف کیا ہیں؟"

نوام چومسکی:
"میرا بنیادی کام لسانیات میں تھا اور میں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انسانی ذہن میں زبان سیکھنے کی ایک فطری صلاحیت موجود ہے۔ میں نے 'نظریہ گرامر' پیش کیا، جس میں میں نے اس بات کو واضح کیا کہ زبان کو سیکھنے کی بنیاد ایک داخلی ساخت ہوتی ہے، نہ کہ صرف معاشرتی یا ثقافتی اثرات۔ میرے اہم کام میں "Syntactic Structures" اور "Aspects of the Theory of Syntax" شامل ہیں۔ ان کتابوں میں میں نے زبان کی ساخت اور اصولوں کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔"

میزبان:
"آپ نے لسانیات میں تو بڑی تبدیلیاں کیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کی سیاسی اور سماجی تنقید بھی بہت مشہور ہے۔ آپ نے ہمیشہ طاقتور ریاستوں اور ان کی پالیسیوں پر سوالات اٹھائے ہیں۔ خاص طور پر امریکہ کی خارجہ پالیسی، میڈیا کے کردار، اور معاشی نابرابری پر آپ کی تنقید بہت اہمیت رکھتی ہے۔ آپ کے مطابق میڈیا اور طاقت کے تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟"

نوام چومسکی:
"میری رائے میں، میڈیا ایک طاقتور ادارہ ہے جو عوام کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ میڈیا کی غالب اکثریت بڑی کارپوریشنز اور حکومتوں کے مفادات کے تابع ہے۔ اس کی وجہ سے عوام تک صرف وہ معلومات پہنچتی ہیں جو طاقتور طبقات کے مفاد میں ہوں۔ میں نے اپنی کتاب "Manufacturing Consent" میں اس بات کو واضح کیا کہ کس طرح میڈیا لوگوں کے خیالات اور احساسات کو تشکیل دیتا ہے تاکہ وہ طاقتور طبقات کے مفادات کو تحفظ دے سکیں۔"

میزبان:
"آپ کی کتاب "Manufacturing Consent" نے عالمی سطح پر شہرت حاصل کی۔ اس میں آپ نے میڈیا کی اس طاقت کو بے نقاب کیا ہے جو اسے عوامی رائے کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ لیکن آپ کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک متبادل نظریہ بھی پیش کرنا چاہیے۔ آپ اس متبادل نظریہ کو کس طرح دیکھتے ہیں؟"

نوام چومسکی:
"میرا خیال ہے کہ ایک آزاد اور حقیقت پسند میڈیا کی ضرورت ہے جو عوام کو حقائق پر مبنی معلومات فراہم کرے، نہ کہ کسی بھی خاص طاقتور گروہ کے مفادات کی خدمت کرے۔ اس کے لیے ہمیں انفرادیت کی اہمیت اور آزادی کو اہمیت دینی ہوگی۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ دنیا میں موجود سماجی، اقتصادی اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے ہمیں ایک نیا معاشرتی نظام تشکیل دینا ہوگا، جس میں برابری، انصاف اور آزادانہ سوچ کی اہمیت ہو۔"

میزبان:
"چومسکی صاحب، آپ نے عالمی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ آپ کی رائے میں موجودہ عالمی مسائل جیسے فلسطین، یوکرین اور دیگر سیاسی تنازعات کے حل کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟"

نوام چومسکی:
"میرے خیال میں فلسطین میں اس تنازعے کا حل تب ممکن ہے جب عالمی طاقتیں اس بات کو تسلیم کریں کہ فلسطینیوں کو اپنے حقوق ملنے چاہییں۔ اسرائیلی ریاست کے قبضے کے خاتمے اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت ہے۔ یوکرین میں، میں سمجھتا ہوں کہ مغربی طاقتوں کو روس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا اور اس جنگ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دنیا میں جہاں بھی تنازعات ہیں، ان کا حل طاقت کے ذریعے نہیں، بلکہ بات چیت اور انصاف کے اصولوں کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔"

میزبان:
"آپ کے نظریات میں آپ نے ہمیشہ انسانیت کی ترقی اور عالمی امن کی بات کی ہے۔ آپ کے نزدیک مستقبل کا انسان کس طرح کی دنیا میں رہنا چاہیے؟"

نوام چومسکی:
"مستقبل کا انسان ایک ایسی دنیا میں رہنا چاہے گا جہاں علم، برابری، اور آزادی کی اہمیت ہو۔ ایک ایسی دنیا جہاں وسائل کا غیر منصفانہ تقسیم نہ ہو، جہاں ہر فرد کو اپنے حقوق حاصل ہوں اور جہاں عالمی سطح پر امن قائم ہو۔ ہمیں اپنی تعلیمات اور افکار کے ذریعے انسانیت کے لیے ایک بہتر اور انصاف پسند دنیا تخلیق کرنی ہوگی۔"

میزبان:
"نوام چومسکی صاحب، آپ کی علمی اور سیاسی خدمات نے عالمی سطح پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہمارے ساتھ اپنی زندگی، نظریات اور خدمات پر روشنی ڈالی۔"