أبو إسحاق الحوینی: ایک عظیم محدث اور عالمِ دین

پیدائش اور ابتدائی زندگی

حجازی محمد یوسف شریف، جو اپنی کنیت "ابو اسحاق الحوینی" کے نام سے مشہور ہوئے، 10 جون 1956ء کو مصر کے صوبہ کفر الشیخ کے شہر الریاض کے گاؤں "حوین" میں پیدا ہوئے۔ وہ پانچ بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ ان کا تعلق ایک متوسط دیہاتی خاندان سے تھا جو زراعت سے وابستہ تھا۔

ابو اسحاق حوینی : ایک عظیم محدث اور عالم دین

ان کے والد گاؤں کے معزز افراد میں شمار ہوتے تھے، اور انہوں نے اپنے بیٹے کا نام "حجازی" رکھا، جو حج کے مبارک موسم کی نسبت سے تھا۔ ان کی والدہ بھی علم کے میدان میں ان کے لیے ایک مضبوط سہارا تھیں۔

ابتدائی طور پر، انہوں نے اپنی کنیت "ابو الفضل" رکھی کیونکہ انہیں مشہور محدث حافظ ابن حجر عسقلانی سے محبت تھی، بعد ازاں انہوں نے اپنی کنیت تبدیل کرکے "ابو اسحاق" رکھ لی۔ اس کی ایک وجہ امام شاطبی سے ان کی عقیدت تھی، جبکہ ایک اور روایت کے مطابق، انہوں نے یہ کنیت مشہور صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے متاثر ہو کر اختیار کی۔

تعلیم اور علمی سفر

انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے قریبی اسکول "الوزاریہ" میں حاصل کی، جبکہ ثانوی تعلیم کفر الشیخ کے "الشهيد عبد المنعم رياض" اسکول میں مکمل کی، جہاں وہ سائنسی مضامین میں دلچسپی رکھتے تھے۔ بعد ازاں، انہوں نے قاہرہ کی جامعہ عین شمس کے کلیۃ الألسن (لسانیات) میں داخلہ لیا اور ہسپانوی زبان میں امتیازی نمبروں سے گریجویشن کیا۔

اپنی اعلیٰ کارکردگی کے باعث انہیں ایک تعلیمی وفد کے ساتھ اسپین بھیجا گیا، لیکن وہاں زیادہ دیر نہ رہ سکے اور جلد ہی مصر واپس آکر علومِ شرعیہ کے حصول میں لگ گئے۔

علومِ شرعیہ کی طرف میلان

تعلیمی سفر کے دوران، وہ رفتہ رفتہ دینی علوم کی طرف مائل ہوئے۔ انہوں نے قاہرہ میں معروف عالم دین اور خطیب شیخ عبد الحمید کشک کی تقاریر سننی شروع کیں، جو ان کی دینی بیداری کا پہلا سبب بنی۔

ایک روز، انہوں نے ایک کتاب دیکھی جس کا نام "صفة صلاة النبي ﷺ من التكبير إلى التسليم كأنك تراها" (نبی ﷺ کی نماز کی صفت) تھا، جسے مشہور محدث شیخ ناصر الدین البانی نے تحریر کیا تھا۔ یہ کتاب ان کی زندگی میں ایک بڑا موڑ ثابت ہوئی، کیونکہ اس نے انہیں یہ باور کرایا کہ بہت سی معروف دینی روایات اور اعمال سنتِ صحیحہ کے مطابق نہیں ہیں۔

یہی چیز ان کی تحقیق کی جستجو کو مزید بڑھا گئی۔ انہوں نے محدثین کی کتب کا مطالعہ شروع کیا اور جلد ہی وہ مشہور محدثین کے علوم میں مہارت حاصل کرنے لگے۔

شیوخ اور اساتذہ

انہوں نے علم حدیث اور دیگر اسلامی علوم کے حصول کے لیے کئی معروف علماء سے اکتسابِ علم کیا، جن میں شامل ہیں:

  • شیخ ناصر الدین البانی (اردن میں ان سے حدیث کے علوم سیکھے اور ان کے خصوصی شاگردوں میں شمار ہوئے)

  • شیخ عبد العزیز بن باز (سعودیہ میں ان سے عقیدہ و فقہ کی تعلیم حاصل کی)

  • شیخ محمد بن صالح العثیمین

  • شیخ محمد نجيب المطيعي (اصول فقہ کے استاد)

  • شیخ عبد الحميد كشك (خطابت اور دعوت کے فنون سیکھے)

  • شیخ عبد الله بن جبرين (جنہوں نے انہیں "محدث مصر" کا لقب دیا)

فکری و علمی رجحان

شیخ الحوینی کا تعلق "سلفی علمی مکتبِ فکر" سے تھا، جو حدیث، تفسیر، اور فقہ کے علمی مطالعے کو زیادہ اہمیت دیتا ہے اور عملی سیاست سے دور رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ "سلفی جہادی" اور "سلفی سیاسی" رجحانات سے مختلف نقطہ نظر رکھتے تھے۔

محدث بننے کا سفر

شیخ الحوینی کا حدیث کی جانب رجحان ایک دلچسپ واقعے سے جڑا ہے۔ جامعہ میں داخلے کے بعد انہوں نے علم حدیث کی بنیادی کتابیں پڑھنی شروع کیں، جن میں امام شوکانی کی "الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة" بھی شامل تھی۔ یہ جان کر وہ حیران رہ گئے کہ کئی مشہور احادیث ضعیف یا موضوع ہیں۔

انہوں نے ایک مرتبہ شیخ عبد الحمید کشک سے ایک کمزور حدیث کے بارے میں بات کی، تو شیخ نے کہا:
"ابن القیم نے غلطی کی ہے، پہلے علم حاصل کرو، پھر بات کرو!"
یہ سن کر وہ دل گرفتہ ہوئے، لیکن اسی لمحے انہوں نے طے کر لیا کہ علم حدیث کو مکمل طور پر سیکھیں گے۔

اسی جستجو میں، وہ شیخ محمد ناصر الدین البانی کی کتاب "سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة" تک پہنچے، اور انہوں نے دو سال صرف اس کتاب کے مطالعے میں گزارے۔ اس عرصے میں، انہوں نے حدیث کے اصولوں کو سیکھا اور اس میدان میں مہارت حاصل کی، یہاں تک کہ وہ عالمِ اسلام کے ممتاز محدثین میں شمار ہونے لگے۔

تصانیف

شیخ ابو اسحاق الحوینی نے کئی اہم علمی کتابیں تصنیف کیں، جن میں شامل ہیں:

  1. تنبيه الهاجد إلى ما وقع من النظر في كتب الأماجد

  2. غوث المكدود بتخريج منتقى ابن الجارود

  3. النافلة في الأحاديث الضعيفة والباطلة

  4. كشف المخبوء بثبوت حديث التسمية عند الوضوء

  5. صحيح القصص النبوي

  6. بذل الإحسان بتقريب سنن النسائي أبي عبد الرحمن

  7. إقامة الدلائل على عموم المسائل (مجموعة فتاوى)

  8. الفتاوى الحديثية (إسعاف اللبيث بفتاوى الحديث)

  9. تخريج تفسير ابن كثير

  10. الثمر الداني في الذب عن الألباني

  11. مسيس الحاجة إلى تخريج سنن ابن ماجة

  12. الأربعون في ردع المجرم عن سب المسلم، للحافظ ابن حجر

  13. كتاب في الأحاديث الضعيفة والموضوعة

وفات

شیخ ابو اسحاق الحوینی ایک طویل بیماری کے بعد 17 مارچ 2025ء کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 68 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔

وہ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں قطر میں مقیم تھے، جہاں انہیں شدید علالت کے سبب اسپتال داخل کرایا گیا تھا۔ ان کے بیٹے، ہیثم الحوینی نے ان کی وفات کی تصدیق کی اور بتایا کہ انہوں نے اپنی تدفین اپنے قریبی ساتھی شیخ شکری عبد اللہ کے پہلو میں کرنے کی وصیت کی تھی۔


ماخذ:  یہ ۱۹ مارچ ۲۰۲۵ کو الجزیرہ  کے ویپ سائٹ میں عربی میں شائع ہوا اس کی اہمیت کے پیش نظر اب اردو ترجمہ کے ساتھ شائع  کیا گیا ۔