ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کی شخصیت ، افکار اور کتب

ڈاکٹر برہان احمد فاروقی (1906–1995) برصغیر کے ان نابغۂ روزگار مفکرین میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اسلامی فکر، فلسفہ، اور اقبالیات میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ نہ صرف ایک بلند پایہ فلسفی اور ماہر مابعد الطبیعات تھے بلکہ ایک ایسے صاحبِ بصیرت مصلح تھے جنہوں نے مسلمانوں کی فکری اور سیاسی تشکیلِ نو کے لیے اپنے قلم اور تدریس کو وقف کر دیا۔ ان کی شخصیت میں علم، حلم، اور تدبر کا حسین امتزاج تھا، اور ان کا علمی مقام آج بھی اہلِ علم کے لیے چراغِ راہ ہے۔

ولادت اور ابتدائی تعلیم
ڈاکٹر برہان احمد فاروقی 12 نومبر 1906ء کو ہندوستان کے علمی و ثقافتی شہر امروہہ میں پیدا ہوئے، جو علم و ادب کی روایت کا حامل تھا۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے ملتان میں حاصل کی، جو اُس زمانے میں علم و دین کا گہوارہ تھا۔ بعد ازاں، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں داخلہ لیا، جہاں انہوں نے فلسفہ اور مابعد الطبیعات جیسے گہرے علمی موضوعات میں مہارت حاصل کی۔

علی گڑھ، اقبال اور فلسفیانہ تربیت
علی گڑھ یونیورسٹی میں انہیں معروف فلسفی ڈاکٹر سید ظفر الحسن جیسے استادِ گرامی کا قرب نصیب ہوا، جن کی علمی سرپرستی نے فاروقی صاحب کے فکری افق کو وسعت بخشی۔ تاہم، ان کی فکری شخصیت کی اصل تشکیل علامہ محمد اقبال کی صحبت میں ہوئی۔ اقبال کے ساتھ ان کے گہرے تعلقات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقبال ہی کی خواہش پر انہوں نے اپنا پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ حضرت مجدد الف ثانی کے نظریۂ توحید پر لکھا۔ یہ مقالہ بعد ازاں "حضرت مجدد الف ثانی کا نظریۂ توحید" کے عنوان سے 1940ء میں شائع ہوا اور اسلامی فلسفے میں ایک سنگِ میل قرار پایا۔

تدریسی خدمات اور علمی اداروں سے وابستگی
ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کی علمی زندگی تدریس و تحقیق سے عبارت ہے۔ وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ایک طویل مدت تک فلسفے کے استاد رہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے بانی پاکستان محمد علی جناح کی دعوت پر پاکستان ہجرت کی اور یہاں اسلامیہ کالج جالندھر، زمیندار کالج گجرات، ایم اے او کالج لاہور، اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور، اور پنجاب یونیورسٹی جیسے ممتاز اداروں میں تدریسی و فکری خدمات انجام دیں۔ ان کے لیکچرز میں صرف علم ہی نہیں بلکہ بصیرت، اخلاص اور حکمت کا ایسا رنگ ہوتا تھا کہ طلبہ علمی وجد کی کیفیت سے دوچار ہو جاتے۔

شخصیت و شاگرد
برہان احمد فاروقی کی شخصیت متوازن، بامغز اور باوقار تھی۔ ان کی علمی صحبت نے کئی عظیم اذہان کو تراشا، جن میں ممتاز شاعر و دانشور عبدالعزیز خالد، ماہر لسانیات ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی، اور معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جیسے نام شامل ہیں۔ ان کے شاگردوں کے ذریعے ان کی علمی روشنی کئی جہات میں پھیلی اور نسلوں تک منتقل ہوئی۔

تصنیفی خدمات
ڈاکٹر فاروقی کی تصنیفات ان کے علمی افق کی وسعت اور فکری گہرائی کی آئینہ دار ہیں۔ ان کی کتب اسلامی فلسفہ، سیاست، تاریخ، اور اقبالیات جیسے وسیع موضوعات پر محیط ہیں۔ ان کی چند نمایاں کتب درج ذیل ہیں:

حضرت مجدد الف ثانی کا نظریہ توحید – اسلامی مابعد الطبیعات کا شاہکار تجزیہ۔
منہاج القرآن – اسلامی اصولِ تفسیر اور فکری رہنمائی پر مبنی اہم تحریر۔
اسلام اور مسلمانوں کے زندہ مسائل – جدید دور کے تناظر میں مسلم معاشروں کی فکری و عملی تشکیل۔
علامہ اقبال اور مسلمانوں کا سیاسی نصب العین – اقبال کے فکری و سیاسی نظریات کا علمی تجزیہ۔
قرآنی فلسفۂ تاریخ – تاریخ، وحی اور انسانی عمل کے باہمی تعلقات پر ایک گہری بصیرت۔
نظریۂ پاکستان – اسلام کی فکری بنیادوں پر پاکستان کی نظریاتی تشکیل کی توضیح۔
باقیاتِ خواجہ باقی باللہ – سلسلۂ نقشبندیہ کے روحانی اثرات پر تحقیق۔

ان تصنیفات میں اسلامی فکر کی ایسی جامعیت، گہرائی اور جدت نظر آتی ہے جو بہت کم اہلِ قلم کو نصیب ہوتی ہے۔ وہ روایت اور تجدید کے مابین ایک پُل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

فکری امتیاز
ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کی فکر کی اصل روح قرآنی تعبیرِ تاریخ، اسلامی توحید کا ما بعدالطبیعاتی تجزیہ، اور اقبال کے افکار کی فکری تعبیر ہے۔ ان کا موقف تھا کہ اسلامی فکر کو محض ماضی پرستی یا اجتہاد سے انکار پر نہیں چھوڑا جا سکتا، بلکہ عصرِ حاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے "حیاتِ اسلامی کے ابدی اصولوں" کو بروئے کار لایا جانا چاہیے۔

وفات اور علمی ورثہ
ڈاکٹر فاروقی نے 14 جولائی 1995ء کو لاہور میں وفات پائی۔ وہ ایک ایسے عہد کے نمائندہ مفکر تھے جس میں اسلامی دنیا نوآبادیاتی غلامی، فکری انتشار اور شناختی بحران سے نبرد آزما تھی۔ اُن کی تحریروں نے مسلمان نوجوانوں کو فکری جمود سے نکال کر عمل، اجتہاد، اور تجدید کی طرف مائل کیا۔

ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کا نام برصغیر کی علمی تاریخ میں ایک روشن ستارے کی طرح چمکتا ہے۔ وہ محض ایک فلسفی یا استاد نہیں تھے، بلکہ ایک مصلح، ایک مفکر، اور ایک روحانی معمار تھے۔ ان کی فکر آج بھی مسلم معاشروں کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ بن سکتی ہے، بشرطیکہ ہم ان کے پیغام کو صدقِ دل سے سمجھیں اور اپنائیں۔