قلب کی حضوری

 رب کائنات کی ربوبیت کی لطیف روشنی، جو دل کے نہاں خانوں میں کسی قندیل کی مانند جلتی ہے، اکثر ہماری غفلت کی گرد میں دب جاتی ہے۔ روزمرہ کی دوڑتی بھاگتی زندگی میں، جہاں وقت سانسوں کی لڑی میں یوں الجھ جاتا ہے کہ لمحے بھی گنتی سے نکل جاتے ہیں، ہم اس حسین اور دائمی سچائی کو بھول جاتے ہیں کہ ہمارا ہر لمحہ، ہر جنبش، ہر خیال، کسی ایک ربِ مہربان کی ربوبیت کے سائے میں پروان چڑھ رہا ہے۔

ربِ کائنات… وہی جو خاموش پتوں میں سرگوشی کرتا ہے، جو بارش کے پہلے قطرے کو زمین کی پیاس کا پتہ دیتا ہے، جو پرندے کے دل میں رزق کی راہ رکھتا ہے، جو سورج کو ہر دن نیا حکم دیتا ہے کہ مشرق کی پیشانی چومے۔ اور ہم… اس کے بندے، اس کی صناعی میں گم، مگر اس کے قرب سے غافل!

کیا ہی عجیب بات ہے کہ ہم جس ہوا میں سانس لیتے ہیں، وہ بھی اسی کے حکم سے رواں ہے۔ وہ پتہ جو درخت کی شاخ سے گرتا ہے، اس کی گرنے کی ساعت بھی اسی کے علم میں لکھی ہوئی ہے۔ وہ رب جس نے کائنات کی ہر شے کو ایک نظم، ایک قانون میں باندھ رکھا ہے، کیا وہ ہماری زندگیوں کو بغیر نگہداشت کے چھوڑ سکتا ہے؟

اگر دل کی آنکھ کھلے تو ہر منظر میں رب نظر آتا ہے۔ وقت کے دریچے سے جھانک کر دیکھیں، تو پتہ چلتا ہے کہ ہم ہر لمحہ اس کی ربوبیت میں سانس لے رہے ہیں۔ اس کی حضوری کوئی وقتی واردات نہیں، یہ تو ایک دائمی معیت ہے — کہ وہ ہے، ہم میں، ہمارے ساتھ، ہمارے پیچھے اور آگے۔ ہماری مسکراہٹوں میں، آنسوؤں میں، دعا میں، اور خامشی میں بھی۔

بس یہی یقینِ کامل جب دل میں اترتا ہے تو انسان کا وجود گویا ایک خاموش سجدہ بن جاتا ہے۔ ایک ایسا سجدہ جو دن کی روشنی میں بھی ہوتا ہے، اور رات کی تنہائی میں بھی، جہاں بندہ اپنے رب کی ربوبیت کو ہر شے میں پہچان لیتا ہے — چرند پرند میں، آندھی اور بارش میں، ہنسی اور غم میں… اور اپنے دل کی دھڑکن میں۔