آپ ﷺ کی خلوت نشینی اور پہلی وحی:

آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امانت ودیانت، آپ کا تقوی واخلاص، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حسن خلق پہلے سے قوم میں مسلم تھا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک جب چالیس کے قریب پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت زیادہ خلوت پسند ہوگئی اور شہر مکہ سے متصل ایک پہاڑی حرا نامی کے غار میں آپ اکثر جا کرمعتکف رہنے لگے۔ صحیحین کی روایت ہے کہ آپ نے ایک ماہ یعنی پورے ماہ رمضان اس میں قیام فرمایا۔ 

ابن اسحٰق نے سیرت میں اور زرقانی نے شرح مواہب میں فرمایا کہ اس سے زیادہ مدت کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے اور یہ عبادت جو آپ غار حراء میں نزول وحی سے پہلے کرتے تھے اس وقت نماز وغیرہ کی تعلیم تو ہوئی نہ تھی، 

بعض حضرات نے فرمایا کہ نوح اور ابراہیم اور عیسیٰ علیہم السلام کی شرائع کے مطابق عبادت کرتے تھے مگر نہ کسی روایت سے اس کا ثبوت ہے اور نہ آپ کے امی ہونے کی وجہ سے یہ احتمال صحیح ہے بلکہ ظاہر یہ ہے کہ اس وقت آپ کی عبادت محض مخلوق سے انقطاع اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ خاص اور تفکر کی تھی ، ایک دن رات کو ۔

محدثین نے آغاز وحی کا قصہ اپنی اپنی سندوں کے ساتھ امام زہری سے، اور انہوں نے حضرت عروہ بن زبیر سے اور انہوں نے اپنی خالہ حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کی ابتدا سچے (اور بعض روایات میں ہے اچھے) خوابوں کی شکل میں ہوئی۔ 


آپ جو خواب بھی دیکھتے وہ ایسا ہوتا کہ جیسے آپ دن کی روشنی میں دیکھ رہے ہیں۔ پھر آپ تنہائی پسند ہوگئے اور کئی کئی شب و روز غار حرا میں رہ کر عبادت کرنے لگے ۔ (حضرت عائشہ (رض) نے تَحَنُّث کا لفظ استعمال کیا ہے جس کی تشریح امام زہری نے تعبُّد سے کی ہے۔ یہ کسی طرح کی عبادت تھی جو آپ کرتے تھے، کیونکہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو عبادت کا طریقہ نہیں بتایا گیا تھا) آپ کھانے پینے کا سامان گھر سے لے جا کر وہاں چند روز گزارتے، پھر حضرت خدیجہ (رض) کے پاس واپس آتے اور وہ مزید چند روز کے لیے سامان آپ کے لیے مہیا کر دیتی تھیں۔ 

ایک روز جبکہ آپ غار حرا میں تھے، یکایک آپ پر وحی نازل ہوئی اور فرشتے نے آکر آپ سے کہا "پڑھو" اس کے بعد حضرت عائشہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول نقل کرتی ہیں کہ میں نے کہا "میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں"۔ اس پر فرشتے نے مجھے پکڑ کر بھینچا یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دینے گی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو۔ میں نے کہا "میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں"۔ اس نے دوبارہ مجھے بھینچا اور میری قوت برداشت جواب دینے لگی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو۔ میں نے پھر کہا "میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں"۔ اس نے تیسری مرتبہ مجھے بھینچا یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا اقرا باسم ربک الذی خلق (پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا) یہاں تک کہ مالم یعلم (جسے وہ نہ جانتا تھا) تک پہنچ گیا۔

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کانپتے لرزتے ہوئے وہاں سے پلٹے اور حضرت خدیجہ کے پاس پہنچ کر کہا "مجھے اڑھاؤ، مجھے اڑھاؤ" چنانچہ آپ کو اڑھا دیا گیا۔ جب آپ پر سے خوف زدگی کی کیفیت دور ہوگئی تو آپ نے فرمایا "اے خدیجہ، یہ مجھے کیا ہوگیا ہے"۔

 پھر سارا قصہ آپ نے ان کو سنایا اور کہا "مجھے اپنی جان کا ڈر ہے" انہوں نے کہا "ہر گز نہیں، آپ خوش ہوجائیے۔ خدا کی قسم، آپ کو خدا کبھی رسوا نہ کرے گا۔ آپ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں (ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ امانتیں ادا کرتے ہیں)، بےسہارا لوگوں کا بار برداشت کرتے ہیں، نادار لوگوں کو کما کر دیتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور نیک کاموں میں مدد کرتے ہیں" 

پھر وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساتھ لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں جو ان کے چچا زاد بھائی تھے، زمانۂ جاہلیت میں عیسائی ہوگئے تھے، عربی اور عبرانی میں انجیل لکھتے تھے، بہت بوڑھے اور نابینا ہوگئے تھے۔ حضرت خدیجہ نے ان سے کہا بھائی جان، ذرا اپنے بھتیجے کا قصہ سنیے۔ ورقہ نے حضور سے کہا بھتیجے تم کو کیا نظر آیا ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ دیکھا تھا وہ بیان کیا۔ ورقہ نے کہا "یہ وہی ناموس (وحی لانے والا فرشتہ ہے) جو موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کیا تھا۔ کاش میں آپ کے زمانۂ نبوت میں قوی جوان ہوتا۔ کاش میں اس وقت زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکالے گی۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا "کیا لوگ مجھے نکال دیں گے؟" ورقہ نے کہا "ہاں، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص وہ چیز لے کر آیا ہو جو آپ لائے ہیں اور اس سے دشمنی نہ کی گئی ہو۔ اگر میں نے آپ کا وہ زمانہ پایا تو میں آپ کی پرزور مدد کروں گا" مگر زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ ورقہ کا انتقال ہوگیا۔

 یہ قصہ خود اپنے منہ سے بول رہا ہے کہ فرشتے کی آمد سے ایک لمحہ پہلے تک بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات سے خالی الذہن تھے کہ آپ نبی بنائے جانے والے ہیں۔ اس چیز کا طالب یا متوقع ہونا تو درکنار، آپ کے وہم و گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ ایسا کوئی معاملہ آپ کے ساتھ پیش آئے گا۔ وحی کا نزول اور فرشتے کا اس طرح سامنے آنا آپ کے لیے اچانک ایک حادثہ تھا جس کا تاثر آپ کے اوپر وہی ہوا جو ایک بےخبر انسان پر اتنے بڑے ایک حادثہ کے پیش آنے سے فطری طور پر ہوسکتا ہے۔

 یہی وجہ ہے کہ جب آپ اسلام کی دعوت لے کر اٹھے تو مکہ کے لوگوں نے آپ پر ہر طرح کے اعتراضات کیے، مگر ان میں کوئی یہ کہنے والا نہ تھا کہ ہم کو تو پہلے ہی یہ خطرہ تھا کہ آپ کوئی دعویٰ کرنے والے ہیں کیونکہ آپ ایک مدت سے نبی بننے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اس قصے سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ نبوت سے پہلے آپ کی زندگی کیسی پاکیزہ تھی اور آپ کا کردار کتنا بلند تھا۔ حضرت خدیجہ (رض) کوئی کم سن خاتون نہ تھیں بلکہ اس واقعہ کے وقت ان کی عمر 55 سال تھی اور پندرہ سال سے وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریک زندگی تھیں۔ بیوی سے شوہر کی کوئی کمزوری چھپی نہیں رہ سکتی۔ انہوں نے اس طویل ازدواجی زندگی میں آپ کو اتنا عالی مرتبہ انسان پایا تھا کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو غار حراء میں پیش آنے والا واقعہ سنایا تو بلا تامل انہوں نے یہ تسلیم کرلیا کہ فی الواقع اللہ کا فرشتہ ہی آپ کے پاس وحی لے کر آیا ہے۔ 

اسی طرح ورقہ بن نوفل بھی مکہ کے ایک بوڑھے باشندے تھے، بچپن سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی دیکھتے چلے آ رہے تھے۔ اور پندرہ سال کی قریبی رشتہ داری کی بنا پر تو وہ آپ کے حالات سے اور بھی زیادہ گہری واقفیت رکھتے تھے۔ انہوں نے بھی جب یہ واقعہ سنا تو اسے کوئی وسوسہ نہیں سمجھا بلکہ سنتے ہی کہہ دیا کہ یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک بھی آپ اتنے بلند پایہ انسان تھے کہ آپ کا نبوت کے منصب پر سرفراز ہونا کوئی قابل تعجب امر نہ تھا۔


اس واقعہ میں فرشتے نے جب حضور سے کہا کہ پڑھو، تو حضور نے جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے نے وحی کے یہ الفاظ لکھی ہوئی صورت میں آپ کے سامنے پیش کیے تھے اور انہیں پڑھنے کے لیے کہا تھا۔ کیونکہ اگر فرشتے کی بات کا مطلب یہ ہوتا کہ جس طرح میں بولتا جاؤں آپ اسی طرح پڑھتے جائیں، تو حضور کو یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حوالہ جات : 


(سورہ علق : تفہیم القرآن : مولانا سید ابوالاعلی مودودی )


(سورہ علق : تفسیر ماجدی : مولانا عبد الماجد دریا بادی )


(تفسیر معارف القرآن : مولانا متفی شفیعؒ )





--------------------
یہ بھی پڑھیں !

عید میلاد النبی، ایک غلطی کی نشاندہی۔۔۔۔۔!!


سیرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ

غزوہ ٔ احزاب (جنگ خندق)

تعلیماتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نفسیاتی پہلو ـ شفاقت علی شیخ

معراج النبی ﷺ کے بارے میں نظریات ۔ مفتی منیب الرحمن

سیرت کے مصادر و مآخذ

سید ابوالاعلٰی مودودی ؒ کا ایک نادر خطاب (مکہ مکرمہ میں حج کے دوران)

میں اور میرے رسولﷺ

اسلام کے بین الاقوامی سفیر ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ - ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حقوقِ انسانی: سیرتِ نبویؐ کی روشنی میں ۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

منشورانسانیت : نبی اکرم ﷺکا خطبۂ حجۃ الوداع ، مولانا زاہد الراشدی

مولانا مودودی کا تصور حدیث و سنت

توہین رسالت کا مسئلہ

توہین رسالت کی سزا

صحابہ کرام کی ہجرت حبشہ کا واقعہ

روضۂ نبویؐ پرسید ابوالاعلی مودودی ؒ 

بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندویؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے بدھ مت کے اثرات اور تغیرات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے ایران کے سیاسی اور معاشرتی حالات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے یہویوں اور عیسائیوں کی باہم منافرت - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندویؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے رومی سلطنت کے سیاسی اور معاشرتی حالات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے ہندوستان کے حالات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ ("")

دین مسیحیت چھٹی صدی عیسوی میں - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ  (1) 

قرآن اور حدیث کا باہمی تعلق اور تدوین حدیث -  مولانا سید سلیمان ندویؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے دنیا کے مذھبی اور سیاسی حالات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

عہد رسالت میں مثالی اسلامی معاشرے کی تشکیل

رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں - ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی 

محمد عربی کی نبوت - جاوید احمد غامدی 

اور آپ ﷺ ہنس پڑے !! (قسط دوم )