تحریر : ابوا البشر احمد طیب (مدیر بلاگ)
قدیم عربوں کا نسلی تعلق سامی اقوام سے ہے جو نوح ؑ کے بیٹے سام کی اولاد ہیں ۔ قدر ت نےان کی زبان اور بیان میں بہت وسعت دی تھی ۔
اس لئے ان میں شاعری کی قابلیت سب سے زیادہ تھی ۔ ان کا طبعی ماحول بھی شاعرانہ خیال آفرینی کےلیے موزوں تھا ۔ ان کی زندگیاں نہایت سادہ اور طبعی عادات نہایت پاکیزہ تھیں ۔ خاندانی عصبیت اور جذبۂ آزادی ان کی پہنچان تھی ۔ ان کی طبیعتیں حساس اور پر جوش ہو نے کی وجہ سے بہت جلد بے خود اور مست ہو جا تے ۔ اس لیے قدیم عرب کی شاعری کا بیشتر حصہ برجستہ، آمد اور غنائیت سے پر ہے ۔ چنانچہ ان کی شاعری میں جو و جدانی یا قلبی احساسات کی ترجمانی ملتی ہے دنیا کی کسی دوسری قوم کی شاعری میں نہیں ملتی ۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم عربی شاعری میں وہ اصناف زیادہ مقبول ومشہور ہو ئیں جن میں جذبے کی شدت کا اظہا ر ہے ۔ مثلا نَسِیب ( عشقیہ شاعری ) فخر ومباہات ، مدح ، ہجو اورمرثیہ وغیرہ ۔ قدیم شاعری کےایک انتخاب کا نام ہی " حَمَاسہ " ہے ۔ جس کے معنی جو ش وولولہ بہادری دلیری ہیں ۔ اس لیے دیگر اصناف سخن جیسے رزمیہ شاعری، تمثیل وغیر ہ قدیم عربوں کے اس خاص مزاج سے لگاؤ نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ہا ں نہیں پنپ سکیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ شاعری کے مواد خیالا ت ہیں اور خیالات اپنی غذا محسوسات اور مشاہدات سے لیتے ہیں ۔ ایک قدیم عرب شاعر اپنے ارد گردنیلے آسمان ،جگمگاتے ستارے،وسیع صحراء، چٹیل میدان، بلند پہاڑ ،سبز وادی ، سواری کے تیز رفتار اونٹ اور گھوڑے ، حسن وجمال کے پیکر عورت کے سوا اور کیا دیکھتا تھا ؟ اپنے بزرگوں سے جنگ اور بہادری کے قصے کے علاوہ اور کیا سنتا تھا ؟ چنانچہ عربوں کے قدیم شعراء نے انہیں مشاہدات کو انوکھے انداز سے بیان کیا ، بہادری اور جنگ کے جذبات کا اظہا ر کیا ، عشق ومحبت کی داستانوں کو تشبیب اور تغزل کے نئے نئے اسلوب میں بیان کیا ۔
عربی شاعری کا آغاز کب ہوا؟ اس بارے میں تاریخ خامو ش ہے ۔ البتہ جب سے اس کے کانوں نے عربی شاعری سنی اس وقت وہ اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی۔ اور فنی اعتبار سے پختہ ہو چکی تھی ۔ یہ معلوم روایت دنیائے شاعری کی قدیم ترین روایت ہے ۔ آج کی زندہ زبانون میں اس سے قدیم ترین کو ئی شاعری کی روایت نہیں ملتی ۔ ابو عمر بن العلاء قدیم ماہر لسانیا ت کا خیال ہے کہ عرب کی شاعری کا بہت ہی کم حصہ باقی ہے ۔اس کی وجہ یہ کہ شاعری کا بڑا حصہ شعراء یا راویانِ شعر کے مختلف معرکوں میں مرجا نے سے تلف ہو گیا ۔لیکن جو کچھ باقی ہے وہ اتنی زیادہ ہے کہ ان سب کو یکجا کر نا اور ایک فرد کے لیے ان سب کا مطالعہ کر نا آسا ن نہیں ہے۔ جاہلی شعراء کے کلام کے کئی مجموعہ ہیں ۔ قدیم مجموعات میں " جمہرۃ اشعار العرب " سب سے ضخیم ہے۔ ( جمہرۃ : انسائیکلو پیڈیا )
عربی میں شعر کا لفظ عبرانی زبان کا لفظ " شیر " سے ماخوذ ہے ۔ اس کے معنی راگ اور بھجن کے ہیں ۔ عربی زبان میں آج تک شعر پڑھنے کےلے " اِنشَاد " (گانا) کا لفظ استعمال کیا جا تا ہے۔ عربوں کے نزدیک شعر ایک ایسی چیز ہے جو سینوں میں جوش مارتی ہے اور زبانوں کی راہ سے باہر نکل پڑتی ہے ۔ وہ ہر مسجع نثر کو بھی شعر کہدیا کر تے تھے جس میں وجدانی کیفیت و خیال موجود ہو ۔ اس لے انہو ں نے قرآن مجید کو بھی شعر اور رسول اللہ ﷺ کو شاعر کہد یا تھا ۔
قدیم عربی شاعری کی اصل فصل دیہات اور صحرائی زندگی میں اگتی تھی ۔ اس لے شہری اپنے بچوں کو بادیہ اور صحراء نشینوں کے پاس پرورش کے لے بھیجتے ۔ان کا خیال تھا کہ دیہا تیوں کی زبان خالص ہو تی ہے ۔ اسی صحرائی زندگی میں عربی شعر نے حدی خوانی کی خدمت بھی انجام دی ، اس کے لیے جو صنف استعمال کیا گیا وہ" رجز "کہلاتا ہے۔ ماہرین فن کا خیال ہےکہ رجز کا وزن اونٹ کی چال اور اس کی حرکتوں سے اخذ کیا گیا ہے ۔ اس لے رجز کی تقطیع اور اور اونٹ کے قدموں کے پڑنے میں بہت زیادہ مناسبت ہے ۔ پھر سروں،راگوں کے اختلاف کی وجہ سے متعدد اوزان پیدا ہو ئے ۔ چنانچہ ہر صنف سخن کے لیے الگ الگ وزن وجود میں آیا ۔ فخر ومباہات کے لے الگ ، غزل کے لیے الگ، ہزج (ترنم)کے لے الگ اس طرح کل پندرہ اوزان خلیل بن احمد فراہیدی( بانئ عربی علم العروض) نے مرتب کیا ۔جن کو "بحر" کہا جاتا ہے ۔
قدیم عربی شاعر ی کا رنگ اگرچہ غنائی ہے لیکن کہیں کہیں اس میں فلسفیانہ فکر ونظر بھی ہیں ۔ عربی شاعری میں فکر اور حکمت کا عنصر سب سے پہلے دور جاہلیت کے مشہو ر شاعر زھیر بن ابی سلمی کے ہا ں ملتاہے ۔ اس کے علاوہ لبید اور طرفہ۔ یہ تینوں" سبع معلقات" ( زمانہ جاہلیت کے سات منتخب قصائد کا مجموعہ ) کے شاعر ہیں ۔ لیکن قدرت کا کرشمہ کہ عباسی دور کے آخر زمانے میں ایک ایسا شاعر نمودار ہو تا ہے جس کا نام ابو العلاء معری ہے ۔ جو شاعر ی کو اپنی فکر اور فلسفے کے اظہا ر کےلیے وقف کر دیتا ہے ۔ مشرق ومغرب کے فلاسفہ جن موضوعات پر ازمنۂ قدیم سے سوچ بچار کر تے آئیں ہیں ان کو اپنی شاعر ی کا موضوع بنا تا ہے ۔ اس کا ایک پورا دیوان ہی اس کے افکا ر ونظریات کا مجموعہ ہے ۔جس کا نام " لزومیات " ہے ۔ ایک تازہ نسخہ کے مطابق یہ دیوان تیرہ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ شاید ہی کوئی مذہبی اور فلسفیانہ موضوع ایسا ہو جس پر اس نے اظہا ر خیال نہ کیا ہو ۔
جیسا کہ معلوم ہو ا کہ دورجاہلیت کی شاعر ی کا بیشتر حصہ ضائع ہو چکا ہے پھر بھی جو کچھ ہے وہ شاعرانہ جذبہ اورفنی حسن وجمال سے مالامال ہے اور عربوں کے فطری شدت احساس کی وجہ سے غنائیت سے پر ہے ۔ جب اسلام آیا تو شاعری کا ایک نئے دور کا آغاز ہو تا ہے ۔اس سے ہر شعبۂ حیا ت متاثر ہو تا ہے ۔ شاعری بھی اس سے متاثر ہو تی ہے ۔شعراء کے فکر وفن کا مقصد بدل جا تاہے ۔ اکثر شعراء کے کلام اسلام کی ہمہ گیر تحریک کی نمائندگی کر تے ہیں ۔حضر ت حسن بن ثابت ، کعب بن مالک ، کعب بن زھیر ، عبد اللہ بن رواحہ ، خنساء وغیر ہ اس کی بہترین مثالیں ہیں ۔یہ وہ شعراء ہیں جنہوں نے دورجاہلیت اور اسلام دونوں میں عمدہ شاعری کی ۔ جن کو شعراء "مخضرمین"(دونوں دور کے عمدہ شعراء) بھی کہتے ہیں ۔انہوں نے اسلام سے متاثر ہو کر نہایت پاکیزہ اور بامقصد شاعری کی ۔بعض فن اور موضوعات میں یہ اپنے پیشرو سے زیادہ باکمال تھے ۔بلندخیالات، اعلی معانی اور مطالب کے حامل ان کی شاعر ی ایمانی جو ش وجذبہ کی بھر پور نمائندگی کر تی ہے۔ لیکن عہد اسلام کے ابتدائی دور میں عربی شاعر ی فن اور موضوع کے اعتبار سے اپنے جاہلی طریقہ پر ہی رہی ۔ ایک مدت کے بعد جب قریش اور تمام اہل عرب نے اسلام کے سامنے سر تسلیم خم کردیا تو تمام جاہلانہ انداز شاعری کی زبانیں گونگی ہو گئیں ۔ اور جاہلی شاعری دوبارہ بھا گ کر صحراء میں پناہ گزین ہو گئی ۔ اس لے اس دور میں عربی زبان کے راو ی اور ادیب، شعر اور لغت کے حصول کے لیے صحراء اور دیہاتوں میں چکر لگا تے ہیں ۔ اب شہروں میں ،ایوا نوں میں ،عبادت گاہوں میں شاعر ی کی آواز مدھم ہو گئی البتہ وقتا فوقتاکوئی شاعر نمودار ہو تا تو عام مسلمانوں میں اس کی پذیرائی جاہلی دو ر جیسی نہیں ہو تی۔ دوسری طرف عام مسلمان اورخلفاء ، جہاد ، قرآن وحدیث اور اسلام کی نشر و اشاعت میں مشغول ہو گئے ۔ لیکن واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود شاعری کی تعریف کی ، فرمایا : "بے شک بعض شاعری میں دانشمندی اور حکمت ہو تی ہے " اور بعض شاعروں کو انعام سے بھی نوازا ۔ قرآن کریم نے بھی ان شعراء کی مذمت کی جو خیالی وادیوں میں بھٹکتے پھر تے ہیں ۔ البتہ ایسے شعراء کی تعریف کی جو ایمان کی دولت سے سرفراز اور نیک اعمال سے آراستہ ہیں ۔ (دیکھیئے :سورۂ شعراء)۔
ان بنیادی باتوں کے بعد آئیے ! اب ہم عربی شاعری کے مختلف ادوار کا سرسری جائزہ لیتے ہیں ۔مؤرخین، عربی ادب و شاعری کو پانچ ادوار میں تقسیم کر تے ہیں :
1- زمانۂ جاہلیت : یہ دور پانچویں صدی عیسوی سے شروع ہو تاہے ۔اور 622ء میں آغاز اسلام پر ختم ہو جا تا ہے ۔ تمام نقاد اس بات پر متفق ہیں کہ یہ دور زبان وبیان کے لحاظ سے اپنے عروج کو پہنچ چکاتھا۔آئندہ بھی کئی صدیوں تک وہی معیا ر سب سے بلند رہا جو اِمْرء القیس ، زھیربن ابی سلمی اور نابغہ ذبیانی وغیرہ جاہلی شعراء نے قائم کر دیا تھا ۔سبع معلقات اس دور کی یا د گا ر سات نظمیں ہیں ۔ اس زمانے میں دستور یہ تھا کہ عکاظ کے مقام پر سالانہ میلہ لگتاتھا ۔جس میں شعراء اپنے کلام سناتے اور ایک بزرگ اور نامور شاعر آخر میں اپنا فیصلہ دیتا کہ اس سا ل کی بہترین نظم کو ن سی ہے ۔ایک روایت کے مطابق وہ نظم سونے کے پانی سے لکھی جا تی اور خانۂ کعبہ میں لٹکا دی جا تی۔ اس لیے یہ سات نظمیں ، جو سات مختلف شعراء کی تھیں سبع معلقات ( سبع : سات ، معلقات : لٹکا ئی ہو ئی ۔)کے نام سے مشہو ر ہیں ۔
2- صدر اسلام تا عہد بنی امیہ : یہ اسلام کے آغاز سے شروع ہو کر 132ھ میں عباسی دور حکومت کے قیام پر ختم ہو تا ہے ۔ اگر چہ اس دور میں لوگوں کی توجہ شعر وسخن سے ہٹ کر آیا ت قرآنی کے حسن بیان اور حسن تلاوت کی طرف ہو گئی۔ لیکن خلفاء راشدین کے بعد جب بنو امیہ کی شخصی حکومت قائم ہو ئی تو شاعری کی دوبارہ ریل پیل ہو گئی ۔ شعراء بادیہ سے نکل کر دربار کا رخ کرنے لگے ۔ اس دور کی شاعری اپنے محاورے اور اسلوب بیان میں جاہلی شاعری سے زیا دہ مختلف نہیں تھی ۔اس دور کے تین شعراء: اخطل ، فرزدق اور جریر، یہ تینوں جاہلی دور کے کبار شعراء کے ہم پلّہ تھے ۔ان تینوں نے اپنی پوری زندگی شاعر ی کی نذر کر دی ۔اسی کو زریعہ معاش بنایا ،یہ تینوں خالص عرب تھے ۔ مشہور زمانہ رومانی داستان" لیلی مجنوں "کا ہیرو مجنون بھی اسی دور کا ایک حقیقی شاعر تھا۔
3- دور عباسی : یہ دور عباسیوں کی حکومت کے قیام سے شروع ہو کر 656ھ میں تاتاریوں کے ہا تھوں سقوط بغداد پر ختم ہو تا ہے ۔ اس طویل دور میں عربی شاعری میں بڑی تبدیلی رونماہو ئی ۔اب عربی شاعری خالص عربی مزاج کی نہیں رہی ۔اس پر عجمی اثرات سرایت کر گئی ۔خلفاء اور امراء کی مدح اور ہجو میں نئے نئے مضامین نے جنم لیا ۔اس دور کے نامور شعراء کی فہرست بہت طویل ہے چند کے نام جیسے : بشّار بن برُد ، ابو العتاہیہ ، ابو نواس ، ابو تمام ، بحتری ، متنبی ، اور اس دور کا آخری بڑا شاعر ابو العلا معرّی ہے ۔
4- دور ترکی : سقوط بغداد کے بعد سے شروع ہوکر 1220ھ کی انقلابی تحریک کی ابتداء پر ختم ہو جا تا ہے ۔یہ عربی شاعری کا نسبتاً ایک بنجر دور رہا ۔ یہ غیر عرب ایوبیوں، ممالیک اور عثمانی ترکوں کا دور تھا ۔اس دور میں عربی شاعری امرء اور سلاطین کی قدر دانی سے محروم ہو گئی تھی ۔ کسی نے درست کہا کہ یہ بنجر دور یعنی ترکوں کی غفلت اور ایرانیوں کا تعصب عربی زبان کے راستے میں حائل نہ ہوتے تو آج عربی تمام عالم اسلام اور مسلمانوں کی زبان ہو تی ۔ اس دور کے دو نمایاں نام جیسے : صفی الدین حلیّ 750ھ ، سیدہ عائشہ باعونیہ 922ھ ہیں ۔
5- دور جدید : انیسویں صدی کے آغاز میں محمد علی پاشا کی مصری حکومت سے ابتداء ہو ئی اور اب تک جا ری ہے ۔ اس دور کی شاعری محمود سامی البارودی اور اسماعیل صبری سے شروع ہو کر احمد شوقی اورحافظ ابراہیم سے ہو تا ہو ا محمود درویش اور سمیح القاسم اور نزّار قبانی جیسے فلسطینی شعراءتک جا ملتی ہے ۔جدید رنگ لیے آج بھی کو ئی نہ کوئی شاعر عرب دنیا کے کسی نہ کسی گوشہ سے نمودار ہو تا رہتا ہے ۔یقینا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری ر ہے گا جب تک یہ دنیا اور قرآن مجید باقی ہے ۔
تین بڑے شعراء کا مختصر تعارف اور چند منتخب کلام :
1- امرء القَیس : عربی شعراء کے طبقۂ اولی کا سب سے بڑا شاعر ہے ۔یہ عرب کے معزز خاندا ن کا نجیب الطرفین بچہ تھا۔اس کا باپ بنو اسد کا بادشاہ اور ماں مشہور شاعر مہلہل کی بہن تھی ۔ اس کی زندگی اور شاعر ی بڑی حد تک ایک داستان عیش ونشاط ہے۔ جس کا ہر گوشہ رعنائی خیال، مستئی شوق اور رنگینئ بیان کا ایک مرقع ہے ،اس کا عشق خیالی نہیں بلکہ حقیقی ہے ۔ امرء القیس غیر معمولی شاعرانہ قوت کا حامل تھا اس میں کو ئی اس کا ہمسر نہیں۔ اس نے عربی شاعری کو نئے اسالیب سے آشنا کیا ۔اس لیے تمام نقادوں نے اس کو رئیس الشعرا ء جیسا عظیم لقب سے نوازا ۔ اس کی شاعری کا سب سے عمدہ حصہ وہ قصیدہ ہے جو سبع معلقات میں شامل ہے ۔ جس کی لوگوں میں ضرب المثل کی حیثیت تھی ۔ یہ معلقہ اس نے اپنی کزن عنیزہ کے ساتھ عشق ومحبت کی داستان پر نظم کیا ۔اس قصیدہ کا مطلع یہ ہے :
قِفَا نَبْكِ مِنْ ذِكْرٰى حَبِيْبِ و مَنْزِلِ بِسِقْطِ اللِّوى بَيْنَ الدُّخُوْلِ فَحَوْمِل
اے دوستوں ! ذرا ٹھہر و ، تاکہ ہم دخول و حومل کے پہاڑوں کے درمیان وادی سقط اللوی میں اپنے محبوب اور اس کی یادگاروں پررولیں۔
اسی معلقہ کے کچھ دیگر اشعا ر یہ ہیں :
فَلَوْأن ما أسْعى لِاَدْنٰى مَعِيْشَة كَفَانِيْ ولَمْ أطْلُبْ قَلِيْلٌ مِنَ الْمَالِ
اگر میری جد وجہد کا مقصد کم تر زندگی کا حصول ہو تا تو مجھے مال قلیل ہی کا فی تھا۔اور یہ میرا مقصد ہے ہی نہیں ۔
ولكِنَّمَا أسْعى لِمَجْدٍ مُؤَثِّل وقد يُدْرِكُ المَجْدَ المُؤَثِّل أَمْثَالِيْ
میری زندگی کا اصل مقصدہے دائمی عزت وعظمت حاصل کر نا ۔ اور یہ مقام مجھ جیسے لو گ ہی حاصل کر سکتے ہیں ۔
ومَاالْمَرْأُ مَا دَامَتْ حَشَاشَة نفسه بِمُدْرِك أطْرَاف الخُطُوْب ولَاآلِ
اور یہ حقیقت ہے کہ انسا ن پوری زندگی بھی لگاکر مقصد حیات کے راستے میں حائل مصائب پر قابو نہیں پا سکتا بھلا اس کے لے جو چاہے کر لے ۔
2- زھیر بن ابی سلمی : جاہلی دور کا نہایت خوش اخلاق ، برد بار ، صائب الرائے ، پاکباز ، صلح پسند اور خدا اور روز قیامت پر کامل ایمان رکھنے والا شاعر تھا ۔ اس کے کلام سے اس کا ثبوت ملتا ہے ۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی اس کی شاعری کی تعریف کی ۔ اس کے پورے خانوادہ کو شاعری میں ممتاز مقام حاصل تھا ۔ اس کا باپ اس کی دو بہنیں سلمی اور خنسا ء اور دونوں لڑکے کعب اور بجیر شاعر تھے ۔ اس کا کلام عریاں اور فحش خیالات سے پاک تھا جیسے دیگر عرب جاہلی شعراء کا انداز تھا ۔ اس کو کہاوتیں ، اقوال زریں شاعری میں بیان کرنے میں کامل دسترس حاصل تھی ۔ شاعری میں نہایت ہی غور وفکر ،دماغ سوزی سے کام لیتا تھا ۔ اس کے قصائد " حولیات " کے نام سے مشہور ہیں ۔ کہاجاتا ہے کہ وہ ایک قصیدہ ایک سال میں تیا ر کرتا ۔ پہلے چار مہینے میں اس کو نظم کر تا پھر اگلے چار مہینوں تک اس میں کاٹ چھانٹ کر تا رہتا اور آخری چار مہینے اساتذۂ فن کے سامنے پیش کرنے میں صرف کرتا ۔ اس طرح کامل ایک سال سے قبل عوامی مجلس میں اس کو پیش نہیں کر تا ۔ آئیے! اس کا چند کلام ملاحظہ کریں !
ومَنْ لَايُصَانِعْ فِي أمُوْرٍ كثِيْرَةٍ يُضَرَّسْ بِأَنْيَابِ ويُؤْطَأ بِمَنْسِم
جو انسان بہت سے معاملات میں مفاہمت سے کا م نہیں لیتا وہ طاقت کے پاؤں تلے روند دیا جا تاہے ۔
ومَنْ لَمْ يَذُدْ عَنْ حَوْضِه بِسَلاحِه يُهَدَّم ومَنْ لَايَظْلِم النَّاسَ يُظْلَمْ
جو اپنی جان ،عزت آبرو کی حفاظت ہتھیا ر وں سے نہیں کر تا وہ مسمار کر دیا جاتا ہے ۔ اور جو دوسروں پر ظلم نہیں کر سکتا وہ خود مظلوم بن کر جیتا ہے ۔
ومَنْ يَجْعَلِ المَعْرُوفَ في غَيْرِ أهْلِه يَعُدْ حَمْدُه ذمًّا عَلَيْهِ ويَنْدِمِ
اور جو نا اہلوں کے ساتھ نیکی کر تا ہے تو وہ پلٹ کر اس کے لیے بدی اور شرمندگی کا باعث ہو جا تی ۔
رَأْيْتُ المَنَايا خبْطَ عشْوَاء من تُصِبْ تُمِتْه ومَنْ تُخْطِئ يُعَمّر فَيَهْرَم
میں نے موت کو اندھی اونٹنی کی بے ڈھنگی چال کی طرح پا یا جس پر بھی اس کے پاؤ ں پڑے ہلاک کر ڈالے ۔اور جو کچھ بچ جا ئے وہ بھی بوڑھا ہوکر موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے ۔
ومَهْمَا تَكُنْ عِنْد إِمْرِئ مِنْ خَلِيْقَة وإنْ خَالَها تُخْفِى عَلى النَّاسِ تُعْلَمْ
تم اپنی بری خصلت کو جتنی مرضی لو گوں سے چھپاؤ ایک نہ ایک دن وہ ظاہر ہو کر ہی رہے گی ۔
وكائن تَرَى مِن مُعْجَب لَكَ شَخْصُه زِيَادَتُه أو نَقْصُه في التَّكَلُّمِ
تم جیسے تم د یکھتے ہو کہ بہت سے لو گ جسمانی طورپربہت خوبصورت ہیں مگر انسان کی اصل خوبی اور خامی گفتگو سے ہی ظاہر ہو تی ہے۔
3- ابو طیب احمدمتنبی (303ھ ــــ354ھ ): یہ عباسی دور کا شاعر ہے ۔ یہ درباری اور بہت ہی جاہ طلب شاعر تھا ، اس نے ایک زمانے میں نبوت کا دعوی تک کر دیا تھا ۔ اس لے اس کا نام متنبی (نبوت کا دعوی کرنے والا) پڑگیا ۔ جب جیل میں ڈالا گیا تو نبوت کا سار ا نشہ اتر گیا ۔ اور ہمیشہ کے لےتوبہ کرلی ۔ اس نے اپنی شاعری کا بہترین حصہ شام کی حمدانی حکومت کا سربراہ سیف الدولہ(303ھ - 356 ھ/ 915 - 967 م) کی مدح میں نظم کیا۔ اس کے دور میں حسن بیان اور زور بیان میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔ فی البدیہہ شعر کہتا تھا ۔ اس کی شاعری جوش اور مبالغہ آرائی سے پر ہے ۔
متنبی فلسفیانہ شاعری کر تے ہوئے کہتا ہے :
نَحْنُ بَنُو المَوْتِ فَمَا بَالُنَا نَعَافُ مَالاَ بُدَّ مِنْ شُرْبِه
ہم تو موت کے بیٹے ہیں( جس کو گلے لگائے بغیر کو ئی چارہ نہیں )۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اس چیز سےگریز کر تے ہیں جس کا پینا بے حدضروری ہے ۔
تَبْخُلْ أيْديْنا بِأرْوَاحِنا علَى زمانٍ هُنَّ مِنْ كِسْبِه
ہم زمانے کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر نے سے کیوں بخل سے کا م لیتے ہیں ۔ حالانکہ یہ جانیں خود زمانے کا پید اکر دہ ہے ۔
فَهذه الأرواحُ مِنْ جَوّه وهذه الأجسام مِنْ تُرْبِه
یہ ہماری جانیں تو زمانے کی آب ہو ا سے ہی قائم ہیں ۔ اور یہ ہمارے اجسام تو اسی زمانے کی مٹی سے موجو د ہیں ۔
--------------