خودی اور کرداریت (Behaciourisim)، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور کرداریت (Behaciourisim)
یہاں تک تو بعض ایسے مغربی حکماء کا ذکر تھا جنہوں نے حسی صداقت کا مفروضہ صرف اس خیال کی حد تک اپنایا تھا کہ چونکہ خدا ایک غیر حسی تصور ہے اسے علم کے دائرہ میں نہیں آنا چاہئے لیکن وہ کسی نہ کسی رنگ میں انسانی شعور کے قائل تھے۔ تاہم جوں جوں وقت گذرتا تھا مغرب کا علم جیسا کہ توقع کی جا سکتی تھی۔ اس مفروضہ کی دلدل میں اور غرق ہوتا گیا یہاں تک کہ مغرب کی علمی دنیا میں بعض ایسے نام نہاد حکماء بھی پیدا ہوئے جنہوں نے یہ آواز بلند کی کہ انسانی شعور یا ذہن بھی ایک غیر حسی تصور ہے۔ آج تک کس نے انسانی شعور کا مشاہدہ براہ راست اپنے حواس سے نیں کیا۔ لہٰذا وہ بھی یا تو موجود ہی نہیں یا موجود ہے تو حواس کی دسترس سے باہر ہونے کی وجہ سے معدوم کے حکم میں ہے۔ ان حکماء میں سے ایک حکیم نفسیات جان براڈس واٹس (John Breadus Watson) ہے جس نے نفسیات کرداریت کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کی ایک کتاب بعنوان ’’ کرداریت ‘‘ (Behaciourism)1914ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں وہ یہ بتاتے ہوئے کہ کرداریت کے نقطہ نظر سے نفسیات کا علم کیا ہے۔ لکھتا ہے:
’’ درون بینی اس کے طریق تحقیق کا کوئی ضروری عنصر نہیں۔۔۔۔ اور نہ ہی اس کے نتائج کی علمی قدر و قیمت کا دار و مدار کسی ایسی تشریح پر ہے جو شعور کی وساطت سے کی گئی ہو۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وقت آ گیا ہے جب نفسیات کے علم کو شعور کا ہر ذکر یا حوالہ مسترد کر دینا چاہئے جب اس کو اس بات کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ یہ خیال کر کے اپنے آپ کو مزید دھوکا دیتا رہے کہ وہ ذہنی حالتوں کو اپنے مشاہدات کا موضوع بنا رہا ہے۔۔۔۔۔ بالکل ممکن ہے کہ ہم ایک علم نفسیات کی تدوین کریں اور اس میں شعور، ذہنی حالتیں، خیال، ارادہ، تصور ایسی اطلاعات کبھی استعمال نہ کریں۔۔۔۔ اسے ہم ’’ تحریک ‘‘ اور’’ جواب‘‘ کی اصطلاحات میں اور تشکیل عادت یا الحاق عادت کی اصطلاحات کو کام میں لا کر انجام دے سکتے ہیں۔‘‘
کرداریت کا موضوع حیوانات کے وہ افعال ہیں جو معروضی طور پر مشاہدہ میں آ سکتے ہیں۔ حیوان (یا انسان) کا تصور اس طرح کیا جاتا ہے کہ بعض واقعات کے بالمقابل جو بیرونی ماحول کے تغیرات اور اندرونی حیاتیاتی اعمال وظائف سے صورت پذیر ہوتے ہیں اور جن کے لئے مجموعی طور پر ’’ تحریک‘‘ (Stimulus) کی اصطلاح برتی جاتی ہے۔ ایک رد عمل کرتا ہے جسے ’’جواب ‘‘ (Response) کا نام دیا جاتا ہے۔ نفسیات کا پہلا تصور یہ تھا کہ شعور، قلبی واردات اور ذہنی حالتوں کی سائنس ہے اور اگرچہ اس سے بدنی حرکات کے مطالعہ کو الگ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ تاہم ان حرکات سے ماہر نفسیات کی دلچسپی کا دار و مدار زیادہ تر اس بات پر تھا کہ ذہنی کیفیات کے ساتھ ان کے تعلقات کیا ہیں۔ نفسیات کا مخصوص طریق تحقیق درون بینی (Introspection) ہوا کرتا تھا واٹن کا بی ہیوہیئرزم چونکہ شعور کو نظر انداز کرتا ہے لہٰذا درون بینی کو خیر باد کہتا ہے اور ادراک، جذبہ، احساس، توجہ، مقصد اور مدعا ایسے ذہنیاتی تصورات کو رد کرتا ہے اور فقط جاندار کی بیرونی مرئی حرکات کے مشاہدات کو قابل قبول سمجھتا ہے۔
واٹسن کی اس کتاب کو پچاس سال سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے۔ اس اثناء میں واٹسن کے پیش کئے ہوئے نظریہ کرداریت میں مختلف حکمائے نفسیات نے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق کئی تبدیلیاں اور درستیاں کی ہیں۔ یہاں تک کہ اب یہ کہنا صحیح ہے کہ موجودہ نظریہ کرداریت کسی خاص مکتب فکر کسی خاص نظریاتی موقف یا حکمائے نفسیات کے کسی خاص گروہ کی نشاندہی نہیں کرتا بلکہ نفسیات کے متعلق ایک عام نقطہ نظر کا نام ہے جسے اکثر حکمائے نفسیات نے قبول کر لیا ہے اور یہ تمام حکماء کسی نہ کسی رنگ میں واٹسن کے مرہون منت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کرداریت کی اکثر اقسام میں واٹسن کی اصل کرداریت کے یہ دو عقائد مشترک ہیں۔ ایک تو یہ کہ انسانی نفسیات کو سمجھنے کے لئے شعور کو نظر انداز کر دینا چاہئے اور دوسرا جو اس کا لازمی نتیجہ ہے یہ کہ درون بینی سے اجتناب کرنا چاہئے اور ان عقائد کی عام قبولیت کا باعث یہی حقیقت ہے کہ مغرب کے حکماء خدا اور شعور ایسی ناقابل انکار صداقتوں کو غیر حسی تصورات سمجھ کر علمی تصورات کے طور پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔
ایک غلط خیال
لیکن یہ واٹسن اور اس کے ہم خیال علمائے نفسیات کی سادگی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ شعور یا درون بینی سے نجات پا سکتے ہیں۔ اپنے شعور کے احساس سے ہی وہ اپنے آپ کو زندہ سمجھتے ہیں اور شعور خودی کا دوسرا نام ہے جس طرح چمک سونے کی خاصیت ہے درون بینی خودی کی خاصیت ہے جو اس سے الگ نہیں ہو سکتی۔ خودی ہر وقت اپنے آپ پر نگاہ رکھتی ہے اور اسے خودی (Self- Consciousness) بھی اس لئے کہا جاتا ہے۔ خودی جو کچھ کرتی ہے خواہ وہ حسن کی جستجو ہو یا نیکی کی یا نفسیات کے علم کی یا کسی اور علم کی وہ اپنے لئے کرتی ہے اور وہ اپنے آپ پر نگاہ نہ رکھے تو اپنے لئے کچھ نہیں کر سکتی۔ نہ وہ جان سکتی ہے کہ وہ کیا چاہتی ہے اور نہ یہ کہ اب تک اس نے کیا حاصل کیا ہے اور کیا حاصل کرنا باقی رہتا ہے۔ غرض جب تک کوئی انسان زندہ ہے اور اپنے کسی عمل سے زندہ ہونے کا ثبوت دے رہا ہے وہ اپنے شعور کے احساس سے اور درون بینی سے الگ نہیں ہو سکتا۔
از کہ بگریزیم از خود ایں محال
از کہ روتابیم از خود ایں خیال
درون بینی کے بغیر واٹسن اپنی زندگی میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ’’ میں ہوں‘‘ چہ جائیکہ کہ وہ یہ کہ سکتا کہ میں موجودہ نفسیات سے مطمئن نہیں ہوں اور نفسیات کا ایک نیا تصور پیش کر رہا ہوں اور اس طریق تحقیق کو صحیح سمجھتا ہوں اور اس کو غلط۔ اس بات پر یقین رکھتا ہوں اور اس بات پر یقین نہیں رکھتا۔ درون بینی کے بغیر اس کو کس نے بتایا تھا کہ وہ ہے۔ کس نے بتایا تھا کہ وہ موجودہ نفسیات سے مطمئن نہیں اور وہ نفسیات کا ایک نیا تصور پیش کر رہا ہے کس نے بتایا تھا کہ وہ اس طریق تحقیق کو صحیح سمجھتا ہے اور اس کو غلط فلاں بات پر یقین رکھتا ہے اور فلاں پر یقین نہیں رکھتا۔ اس کا یہ مشورہ کہ حکمائے نفسیات کو انسان کی نفسیات کا علم اس کی حرکات کے معروضی مشاہدہ اور مطالعہ سے انسان کی نفسیات کے علم کی جستجو کرنے والا اس نتیجہ پر پہنچتا ہے اور اس کا اعلان کرتا ہے کہ اس نے کوئی علم حاصل کر لیا ہے یا کوئی حقیقت دریافت کر لی ہے۔ دوسرے لفظوں میں جونہی کہ وہ کسی چیز کو علم یا حقیقت کا نام دیتا ہے وہ اپنے ایک اندرونی فیصلہ کا اعلان کرتا ہے جس کی خبر اسے درون بینی کے ذریعہ سے ملتی ہے اور پھر انسانی نفسیات کے حقائق کا علم اسے جن معروضی تجربات اور خارجی مشاہدات کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے وہ بھی اس کی اور اس کے معمول کی درون بینی کے بغیر انجام نہیں پا سکتے۔ جب اس کا معمول کہتا ہے ’’ میں سرخ رنگ دیکھ رہا ہوں‘‘ تو وہ درون بینی سے کام لے رہا ہوتا ہے کیونکہ سرخ رنگ دیکھنے کا احساس ایک اندرونی کیفیت یا ذہنی حالت ہے اور عامل اگرچہ اس کو ایک رپورٹ سمجھ کر اپنے بیرونی معروضی مشاہدہ کے طور پر درج کرتا ہے۔ لیکن یہ رپورٹ بے معنی نہیں ہوتی بلکہ اس کو یہ علم بہم پہنچاتی ہے کہ اس کے معمول نے سرخ رنگ دیکھا ہے اور یہ علم عامل کا بھی ایک ذاتی اندرونی تجربہ ہوتا ہے جو درون بینی کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ درون بینی خارجی دنیا کا علم حاصل کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہمارے پاس موجود ہے اگر ہم اسے ترک کر دیں تو پھر ہم معروضی مشاہدہ اور مطالعہ سے بھی کوئی علم حاصل نہیں کر سکتے۔ اوپر میں نے واٹسن کی کتاب سے جو عبارت درج کی ہے اس کے ہر فقرہ سے واٹسن کے کسی علم یا یقین یا اندرونی تاثر کا اظہار ہوتا ہے اور یہ علم یا یقین یا تاثر ایک ذہنی حالت ہے جسے درون بینی کے بغیر نہ وہ جان سکتا تھا نہ بیان کر سکتا تھا گویا واٹسن درون بینی کے بل بوتے پر ہی یہ دعوت دے رہا ہے کہ درون بینی کو ترک کر دیا جائے۔ یا للعجب!
قول اور فعل کا تضاد

واٹسن علمائے نفسیات کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ مقصد اور مدعا اور مقصد کے لئے کوشش کرنا ایسے تصورات سے قطع نظر کریں کیونکہ ان تصورات کی بنیاد یہ نظریہ ہے کہ انسان کی حرکات شعور سے پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن خود ایک لمحہ کے لئے ان سے قطع نظر نہیں کر سکتا مثلاً اس کا مقصد یہ ہے کہ انسانی کردار کی ایسی تشریح کرے جس میں مقصد کا کوئی ذکر نہ ہو۔ اس کا مدعا یہ ہے کہ انسانی کردار کو اس طرح سے سمجھا جائے کہ اس میں مدعا طلبی کی طرف کوئی اشارہ نہ ہو۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ انسانی کردار کو اس طرح سے پیش کرے کہ اس میں کوشش کا کوئی مقام نہ ہو۔ اگر انسان کی حرکات شعور سے پیدا نہیں ہوتیں تو اس کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ اگر کوئی شخص غصہ میں آ کر کسی دوسرے شخص کو مارے اور ضرب شدید پہنچائے تو وہ کسی سزا کا حق دار نہیں۔ اسے جج کو کہنا چاہئے کہ قصور مرا نہیں بلکہ میرے بازو کے پٹھوں کا میرے اعصاب کا میری غداد کا یا میری قدرتی بے ساختہ حرکات (Reflexes) کا یا میری عادات کا ہے جن پر میرے شعور کو تصرف نہیں اور جج کو چاہئے کہ اسے درست سمجھے اور بری کر دے۔ لیکن دنیا بھر میں فوجداری قانون کی بنیاد ہی نیت جرم پر رکھی گئی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ نوع انسانی کا فیصلہ یہ ہے کہ انسان کی تمام حرکات کا منبع اس کا شعور ہے۔ اگر مقصد انسان کی حرکات کا سبب نہیں تو پھر ہم اس بیہودہ نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انسان کے بڑے بڑے کارنامے (اہرام مصر اور دیوار چین اور عظیم الشان سیاسی، تعلیمی، قانونی، مالی، صنعتی، تجارتی، اطلاعاتی اور فوجی نظامات۔ فوجی قائدین کی شاندار فتوحات، سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ایجادات اور تعمیرات اور آخر کار چاند کی سطح پر انسان کا پہنچنا اور چلنا پھرنا) جو آج تاریخ کے اوراق کی زینت ہیں وہ سب انسان کی بے اختیار اور بے مقصد حرکات پر مشتمل تھے جن کے لئے وہ کسی اعتراف یا ستائش کا حق دار نہیں۔