ایک قابل غور بات،‘‘ ایک واضح اعتراف، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

ایک قابل غور بات
یہ بات قابل غور ہے کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہمارے مشتملات شعور یا ہمارے نصب العین (خواہ مارکسی انہیں اقتصادی حالات کی پیداوار یا اقتصادی ضروریات کی کاذب اور بگڑی ہوئی شکلیں ہی کیوں نہ سمجھیں) ہمیشہ حسن، نیکی اور صداقت کے اوصاف کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے کہ وہ ہر حالت میں ان ہی صفات سے حصہ لیتے ہیں اور جوں جوں اپنے آپ کے متعلق ہمارا علم ترقی کرتا جا رہا ہے وہ ان صفات سے اور قریب ہوتے جا رہے ہیں اگر ہم اقتصادی ناہمواریوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر بھی ہم انصاف، انسداد ظلم، مساوات، اخوت، آزادی، جمہوریت ایسے تصورات کا نام لیتے ہیں جو حسن نیکی اور صداقت اور خدا کی دوسری صفات سے ماخوذ ہیں اور حسن کی تمنا خدا کی آرزو کا ایک عنصر ہے۔ ان اوصاف کی تمنا ہمارے تمام انقلابات کا مشترک پس منظر ہوتی ہے۔ خواہ یہ انقلابات اقتصادی ہوں یا اخلاقی یا مذہبی یا علمی یا سیاسی کیا یہ حقیقت اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتی کہ حسن، نیکی اور صداقت کی آرزو انسان کے شعور کی ایک مستقل خاصیت ہے جس کی تشفی کے لئے ہم وقتاً فوقتاً اپنے اقتصادی، اخلاقی، علمی اور سیاسی حالات کو بدلنے کے لئے جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔
مشتملات شعور میں کارل مارکس نے عقل اور استدلال کو بھی شمار کیا ہے چونکہ عقل بھی اقتصادی حالات کا نتیجہ ہے وہ صداقت کی جستجو کرنے کے لئے آزاد نہیں اور لہٰذا صداقت کو دریافت نہیں کر سکتی۔ یہ نقطہ نظر سراسر غیر عقلی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آدمی یہ سمجھے کہ وہ گرد و پیش کے اقتصادی حالات سے آزاد ہو کر عقلی استدلال کر رہا ہے تو یہ سمجھ لیجئے کہ وہ ایک وہم میں مبتلا ہے لیکن اگر صداقت دریافت نہیں کی جا سکتی تو مارکس کے پیرو اپنے فلسفہ کو ایک صداقت کے طور پر کیوں پیش کرتے ہیں۔
مارکس اور اینجلز نے اپنے فلسفہ کی بنیاد عقلی استدلال پر رکھی ہے اور وہ عقلی استدلال ہی سے دوسروں کو قائل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے اگر انسان کی عقل بھی وہ راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہے جو مروجہ اقتصادی حالات مقرر کریں تو پھر اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہو سکتی اور نہ وہ اس قابل ہی ہو سکتی ہے کہ صداقت کی طرف راہنمائی کرے۔ اگر اشتراکیت کا فلسفہ بھی اقتصادی ضروریات کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے تو پھر نہ وہ عقل پر مبنی ہو سکتا ہے اور نہ درست۔
ایک نا قابل انکار حقیقت
فلسفہ خودی کا یہ اہم تصور کہ نصب العین (جو ایک فلسفیانہ نظریہ حیات کی صورت اختیار کرتا ہے) اقتصادی حالات کو پیدا کرتا ہے اور خود اقتصادی حالات سے پیدا نہیں ہوتا۔ ایک ایسی زور دار اور نا قابل انکار حقیقت ہے کہ مارکس کے اس زمانہ کے شاگرد یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ان کے لئے نا ممکن ہے کہ وہ اس سے پیچھا چھڑا سکیں۔ اگرچہ وہ مجبور ہیں کہ وہ مارکس کے اس متضاد عقیدہ پر بھی ایمان رکھیں کہ نصب العین اقتصادی حالات سے پیدا ہوتا ہے اور اقتصادی حالات کو پیدا نہیں کرتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ بعض وقت متضاد باتیں کہنے لگ جاتے ہیں۔ مارکس صاف طور پر کہتا ہے کہ ’’ انسانی افراد اپنی بار آور قوتوں کی ترقی کے کسی خاص مرحلہ سے متعین ہوتے ہیں اور بار آور تعلقات کے ظہور میں ان کی مرضیوں کو دخل نہیں ہوتا۔‘‘ لیکن اصل بات یہ ہے کہ انسان کی مرضی سب کچھ ہے۔ وہی بار آور قوتوں کو پیدا کرتی ہے اور وہی بار آور تعلقات کو معرض وجود میں لاتی ہے۔ یا اگر بار آور قوتیں انسان کی مرضی کے بغیر خود بخود پیدا ہو رہی ہوں تو انسان کی مرضی ہی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ان قوتوں کو ترقی دی جائے یا نہ دی جائے ان کو قائم رکھا جائے یا فنا کیا جائے یا کس حد تک قائم رکھا جائے اور کس حد تک فنا کیا جائے۔ لہٰذا انسان ایک بے جان چیز کی طرح بار آور قوتوں کا کھلونا نہیں کہ وہ جس طرح سے چاہیں اس کے ساتھ کھیلیں۔ انسان زندہ آرزوؤں کا ایک طوفان ہے اور وہ اپنے گرد و پیش کی دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق بدلنے کی تمنا اور قوت رکھتا ہے۔ وہ بار آور قوتوں سے معین نہیں ہوتا بلکہ خود ان کو معین کرتا ہے اور انسان کی مرضی اس کی وہی آرزوئے حسن ہے جو کسی نصب العین کی محبت کی صورت اختیار کرتی ہے اور خدا کی محبت سے پوری طرح مطمئن ہوتی ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مارکس کے دور حاضر کے شاگردوں نے اپنے استاد کے اس بنیادی مفروضہ کو حقائق کے مطابق نہ پا کر اسے بدلنے کی کوشش کی ہے اور اس بات کو نہیں سوچا کہ ایسا کرنے سے اس کے فلسفہ کی ساری عمارت ہی زمین بوس ہو جائے گی۔ روس میں شائع ہونے والی ’’ مارکسی فلسفہ کی درسی کتاب‘‘ کو اشتراکی فلسفہ کے کئی نامور ماہرین نے مل کر مرتب کیا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے مارکس کے اس مفروضہ کو بدل کر اس طرح سے لکھا ہے:
’’ انسانی افراد معاشرتی تعمیر اور اقتصادی ترقی کے کسی مرحلہ سے معین نہیں ہوتے بلکہ متاثر ہوتے ہیں۔‘‘
پھر نصب العین اور اقتصادی حالات کے باہمی تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’ لیکن ایک روسی جانتا ہے کہ انسان کا نصب العین (یا نظریہ) اہمیت رکھتا ہے۔ وہ استحصال اور طفیلیت کے پیچھے ایک مثبت قوت کے طور پر موجود ہوتا ہے اور اگر آپ اپنی سیاسی اور صنعتی تدبیروں کے ساتھ سرمایہ دارانہ فلسفہ کی تردید اور ایک متبادل فلسفہ کی تبلیغ نہ کریں تو آپ معاشرہ کی بیماری کو دور نہیں کر سکتے۔ روسی جس فلسفہ کی تردید کرتے ہیں۔ اس کے مغالطوں کو جانتے ہیں اور ان کے پاس ایک اپنا فلسفہ ہے جو ان کو ہر چیز کے دیکھنے کے لئے روشنی بخشتا ہے۔‘‘
’’ اس بات سے ان لوگوں کو تعجب ہو گاجنہوں نے ہمیشہ یہ سمجھا ہے کہ اشتراکی فلسفہ کا پہلا اصول یہ ہے کہ نظریات اقتصادی حالات سے پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن اگرچہ کوئی نظریہ محض خیال کی پرواز سے اور معاشرہ کی ضروریات سے الگ وجود میں نہیں آتا۔ تاہم جب کوئی نظریہ ایک دفعہ جنم لے لے تو پھر وہ ایک مستقل قوت کی صورت اختیار کر لیتا ہے اگر اس پر یقین کیا جائے تو جس اقتصادی نظام کی یہ پیداوار ہوتا ہے اسے ہمیشہ قائم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اور اگر اسے باطل ثابت کر دیا جائے تو اس نظام کی ایک بنیاد گر جاتی ہے۔ اس لئے ایک روسی چیسٹرٹن سے اتفاق رکھتا ہے کہ انسان کی جو چیز عملی اہمیت رکھتی ہے وہ کائنات کے متعلق اس کا نظریہ ہے۔‘‘
’’ ہم سمجھتے ہیں کہ ہوٹل کی ایک مالکہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ مسافر پوچھے کہ اس کی آمدنی کیا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ضرور یہ ہے کہ وہ دریافت کرے کہ اس کا نظریہ کائنات کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک سپہ سالار کے لئے جو دشمن سے جنگ کر رہا ہو یہ دریافت کرنا ضروری ہے کہ دشمن کی فوجوں کی تعداد کیا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ بات ہے کہ وہ دریافت کرے کہ دشمن کا فلسفہ کیا ہے۔‘‘ (چیسٹرٹن)
’’ تاریخ عالم میں کوئی بڑی تحریک ایسی وجود میں نہیں آئی جو ایک فلسفیانہ تحریک نہ تھی۔ بڑے بڑے نظریات کے ابھرنے کا زمانہ بڑے بڑے نتائج کے رونما ہونے کا زمانہ تھا۔‘‘
’’ درحقیقت یہ قطعاً نا ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے ذہن کو فلسفہ سے بالکل آزاد رکھے۔ وہ شخص جو کہتا ہے کہ وہ فلسفی نہیں ایک گھٹیا فلسفی ہے۔‘‘
ایک واضح اعتراف
اس تحریر میں ذیل کے روشن حقائق کو تسلیم کیا گیا ہے۔
1۔یہ قطعاً نا ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے ذہن کو فلسفہ سے بالکل آزاد رکھے۔ گویا کسی نہ کسی نظریہ یا نصب العین کو ماننا ہر انسان کی فطرت کا تقاضا ہے۔
2 ۔انسان کا نظریہ استحصال کے پیچھے ایک مثبت قوت کی طرح کام کرتا ہے جب تک ایک نظریہ کو باطل ثابت کر کے اس کی جگہ دوسرے نظریہ کی تبلیغ نہ کی جائے معاشرہ کی بیماری دور نہیں ہو سکتی۔
3۔انسان کی زندگی میں جو چیز عملی اہمیت رکھتی ہے وہ اس کا نظریہ ہے۔
4۔بڑے بڑے نظریات بڑے بڑے واقعات کا سبب ہوتے ہیں ان کا نتیجہ نہیں ہوتے۔
اس سے زیادہ واضح الفاظ میں اس حقیقت کا اعتراف اور کیا ہو گا کہ نصب العین یا نظریہ ہی اقتصادی حالات کو پیدا کرتا اور قائم رکھتا ہے۔ ایسے زور دار الفاظ میں نظریات کو اقتصادی حالات پیدا کرنے والی اور قائم رکھنے والی ایک قوت تسلیم کرنے کے بعد ’’ درسی کتاب‘‘ کے مصنفین کا یہ کہنا کہ کوئی نظریہ محض خیال کی پرواز سے اور معاشرہ کی ضروریات سے الگ وجود میں نہیں آتا۔ اس حقیقت کے خلاف جس کا اعتراف کیا گیا ہے۔ کوئی بات ثابت نہیں کرتا۔ کون کہتا ہے کہ ایک نیا نظریہ محض پرواز خیال کا نتیجہ ہوتا ہے اور معاشرہ کے اقتصادی حالات سے بے تعلق ہوتا ہے؟ اقتصادی حالات اور نظریہ کا فطری اور صحیح تعلق (جسے مارکسی نہیں سمجھتے نا سمجھنا چاہتے ہیں) یہ ہے کہ ہر نظریہ ایسے اقتصادی اور اخلاقی حالات پیدا کرتا ہے جو اس کے مطابق ہوتے ہیں۔ اگر نظریہ حسن، نیکی اور صداقت کے اوصاف سے مکمل طور پر بہرہ ور نہ ہو اور ناقص ہو تو یہ حالات بھی ناقص ہوتے ہیں اور ان کا نقص نظریہ کے نقص کی نشاندہی کرتا ہے اور ہمیں نظریہ کو تبدیل کرنے کے لئے اکساتا ہے۔ یہ حقیقت کہ ہم حالات کو بدلنے کے لئے پہلے نظریہ کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ثابت کرتی ہے کہ حالات کو پیدا کرنے والی اور قائم رکھنے والی قوت نظریہ ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف خودی کی فطرت راہنمائی پیدا کرتی ہے۔ نہ ہر نظریہ کا ابطال ممکن ہے اور نہ ہر نظریہ کا اثبات، عقل اور علم کے مسلمہ معیاروں کے مطابق صرف صحیح نظریہ کا اثبات اور صرف غلط نظریہ کی تردید ممکن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ کی بیماریاں صرف ایک ایسے نظریہ کو اختیار کرنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ جو علمی اور عقلی معیاروں کے مطابق درست نہ ہو اور صرف ایک ایسے نظریہ کو اختیار کرنے سے دور ہو سکتی ہیں جو عقلی اور علمی معیاروں کے مطابق درست ہو۔ کائنات اور انسان کے حقائق پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ علمی اور عقلی بنیادوں کے مطابق مارکسی فلسفہ غلط ہے اور فلسفہ خودی صحیح ہے اور فلسفہ خودی کی کامیاب تردید ممکن نہیں۔ اس صورت میں مارکسیوں کے اپنے فیصلہ کے مطابق یہی وہ فلسفہ ہے جو معاشرہ کی تمام بیماریوں کا علاج کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔

مارکس کے اس عقیدہ نے کہ اقتصادی حالات نظریہ سے پیدا نہیں ہوتے بلکہ نظریہ کو پیدا کرتے ہیں اسے اس بے بنیاد خطرناک اور مہلک تصور کو اپنانے پر مجبور کیا ہے کہ حقیقت کائنات مادہ ہے شعور نہیں اور اس سے مزید خرابی یہ پیدا ہوئی ہے کہ اس کا نظریہ تاریخ از سر تاپا غلط ہو کر رہ گیا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جب لوگوں نے اعتراضات شروع کئے کہ اقتصادی محرک انسان کے سارے اعمال کی تشریح نہیں کر سکتا تو مارکس کے رفیق اینجلز نے کہا کہ ہم کب کہتے ہیں کہ اقتصادی محرک انسان کے سارے اعمال کی تشریح کر سکتا ہے۔ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑا محرک ہے اور اسے نظر انداز کیا گیا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر اینجلز کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ تاریخ کے عمل میں دوسرے محرکات کا حصہ کیا ہے، لیکن یہ بتانا نا ممکن تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ جب عمل تاریخ کا محرک ایک نہ ہو تو تاریخ کا کوئی فلسفہ ممکن ہی نہیں۔ یہ عذر دراصل اس بات کا اعتراف ہے کہ مارکسیوں کا کوئی فلسفہ تاریخ سرے سے موجود نہیں۔